Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    فلم کے لیے گلوکار محمد رفیع کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاتا تھا کہ وہ فلم اپنے گانوں کی وجہ سے ضرور ہِٹ ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ محمد رفیع کو میوزک ڈائریکٹر کی جانب سے شدید اعتراض یا ڈانٹ نہیں سننا پڑی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا عروج بھی دیکھا اور پسِ پردہ گائیکی ان کے لیے چیلنج بھی ثابت ہوئی۔ مگر جب محمد رفیع کا انتقال ہوا تو وہ اپنے کیریئر کی بلندیوں پر تھے۔

    بطور پس پردہ گلوکار شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے محمد رفیع اپنے احباب میں ایک پُرسکون اور شائستہ انداز کے مالک اور منکسر مزاج مشہور تھے۔ موسیقار امر ہلدی پور سجاتا دیو کی کتاب میں درج یہ واقعہ اس کی ایک جھلک دکھایا ہے:‌ ’1967-68 میں سی رام چندر رفیع صاحب کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ کر رہے تھے۔ لیکن رفیع جی بار بار غلطیاں کر رہے تھے۔ ریکارڈنگ کئی بار کرنی پڑی۔ سی رام چندر ناراض ہو گئے اور بولے ’کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے میوزک اسکول لیا ہے؟ وہ گانا یاد کر لو جو میں نے تمہیں دیا ہے۔‘

    وہ کہتے ہیں ’رفیع جی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہ: ’معذرت، یہ گانا میرے ذہن میں نہیں بیٹھ رہا، میں ابھی کرتا ہوں‘ انھوں نے اس وقت تک گایا جب تک کہ میوزک ڈائریکٹر مطمئن نہ ہو گئے۔ بعد میں وہ تمام فنکاروں کے پاس گئے اور معافی مانگی۔ اس عاجزی کی وجہ سے وہ سب کے پسندیدہ تھے۔‘

    دوسری طرف نرم گفتار اور منسکر مزاج محمد رفیع بھی برہم یا ناراض ہوجاتے تھے لیکن بہت کم اور بہت مختلف انداز میں وہ اس کا اظہار کرتے تھے۔ سینیئر موسیقار اومی نے اپنی کتاب ‘محمد رفیع – اے گولڈن وائس’ میں لکھا ہے: ’ایک بار رفیع مجھ سے ناراض ہو گئے جو کہ بہت کم ہوتا تھا۔ 1973 میں فلم ’دھرم‘ کی قوالی ’راز کی بات کہہ دوں سے۔۔۔‘ کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔ میں دوبارہ ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔ رفیع صاحب قدرے غصے میں آگئے اور بولے کیا کہہ رہے ہو۔ رفیع صاحب سے ایسی بات سننا غیر معمولی تھا۔ میں نے بھی تھوڑا سختی سے کہا پیک اپ۔ رفیع صاحب بنا کوئی بات کہے چلے گئے۔‘

    ’اگلی صبح چھ بجے گھر کی گھنٹی بجی۔۔ رفیع صاحب سامنے تھے، انھوں نے پنجابی میں کہا ’کیا میں نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ چلو کل والی قوالی سنتے ہیں۔‘

    ’میں امریکہ سے اسپیکر لایا تھا انھی پر سنتے ہیں‘ انھیں سننے کے بعد رفیع جی نے شائستگی سے پوچھا کہ کیا دوبارہ ریکارڈ کرنا ہے؟

    ’میں نے انھیں گلے لگایا اور کہا خان اپنے اسپیکر لے جاؤ (میں انھیں خان کہتا تھا)۔ پھر کہا یہ اسپیکر آپ کے لیے ہیں۔ رفیع جی کی فیس تین ہزار روپے تھی اور اسپیکر کی قیمت بیس ہزار روپے تھی۔ ایسے تھے رفیع صاحب‘۔

    گلوکار محمد رفیع کو ہم سے بچھڑے ہوئے مدتیں گزر گئی ہیں، لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سنے جاتے ہیں اور ہر مرتبہ ایک لطف اور سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نام برصغیر پاک و ہند میں فلمی موسیقی کے اُفق پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وہ 31 جولائی 1980ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت کو سرحد کی لکیر اور دوسری پابندیاں کبھی نہ روک پائیں۔ وہ ہر دو ملک کے عوام میں یکساں مقبول ہوئے اور انڈسٹری میں کوئی آج تک ان کی جگہ نہیں لے سکا۔ محمد رفیع کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ سامع مسحور ہو جاتا۔ انھوں نے شوخ و چنچل، درد بھرے، رومانوی، اور کلاسیکی موسیقی کے ساتھ مغربی طرز کے گیت بھی بڑی مہارت کے ساتھ گائے۔ رفیع کے چند مقبول ترین گیتوں میں ’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘، ’’آ جا آ جا میں ہوں پیار تیرا‘‘ اور کئی سدا بہار گیت آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے، چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو، میں پیتا نہیں ہوں، آجا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں شامل ہیں۔

    اپنے زمانہ کے اس عظیم اور مقبول ترین گلوکار نے 24 دسمبر 1924ء کو بھارتی پنجاب کی ریاست کوٹلہ سلطان سنگھ میں آنکھ کھولی۔ 1935-36ء میں ان کے والد لاہور منتقل ہوگئے اور بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کی۔ والد گانے بجانے کے خلاف تھے مگر رفیع کو سر اور آواز اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ والد کی غیر موجودگی میں گنگناتے اور چھپ کر گاتے۔ محمد رفیع کی عمر ابھی 13 سال تھی جب ایک کنسرٹ میں پہلی بار گیت گانے کا موقع مل گیا۔ سب نے ان کی بڑی تعریف کی۔ مگر قسمت کی دیوی 1941ء میں محمد رفیع پر مہربان ہوئی۔ انھوں نے مشہور موسیقار شیام سندر کی موسیقی میں فلم ’’گل بلوچ‘‘ کا گیت ’’سوہنیے نی ہیریے نی‘‘ گایا اور پھر ہندوستان کے موسیقار اعظم کہلانے والے نوشاد نے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت گانے کی دعوت دی۔ اس فلم کے لیے رفیع کی آواز میں ’’میرے سپنوں کی رانی‘‘ اور ’’روہی روہی‘‘ جیسے گیت ریکارڈ کیے گئے۔ اب ان کا پس پردہ گائیکی کا سفر آگے‌ بڑھا اور اگلے سال ہدایت کار محبوب کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ اور ’’جگنو‘‘ کے گیت ریکارڈ کروائے۔ اس میں انھوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ دوگانا گایا۔ ان میں ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ اس دور کا سپر ہٹ گیت تھا۔

    رفیع کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جو راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرنے میں کام یاب رہے۔ رفیع نے فلم کی دنیا کے ممتاز موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    محمد رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ، نیشنل ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ ان گلوکاروں میں سے تھے جن کی آواز پر اپنے دور کے ہر بڑے ہیرو اور سپر ہٹ فلمی جوڑیوں نے پرفارم کیا۔ فلمی دنیا کے ریکارڈ کے مطابق ان کے گیتوں کی تعداد 28 ہزار کے قریب ہے جن میں ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے گیت بھی شامل ہیں۔

  • میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    کتنے ہی ادیب اور شاعر جو دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے نام بھی لوگوں کے حافظے سے محو ہوگئے۔ ان کی تصنیف کردہ درجنوں کتابیں موجود تو ہیں، لیکن کسی لائبریری کے ایک کونے میں پڑی ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم ان لوگوں کے نام اور کام سے واقف نہیں جنھوں نے کبھی ہمارے بچپن اور نوجوانی میں ہمیں معیاری اور مفید سرگرمیوں میں مشغول رکھا اور ان کی تحریریں ہماری راہ نمائی اور تربیت کرتی رہیں۔

    آج میرزا ادیب کی برسی ہے۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں جو نسل بچّوں کے رسائل باقاعدگی سے پڑھتی تھی، اس کے حافظے میں میرزا ادیب کا نام ضرور محفوظ ہوگا اور اس نام سے کئی یادیں جڑی ہوں گی۔ میرزا ادیب نے بچّوں کے لیے ہی ادب تخلیق نہیں کیا بلکہ ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری، تراجم کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین، سوانح اور سفر نامے بھی لکھے۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں شاعری بھی کی لیکن ان کی وجہِ شہرت نثری ادب ہی ہے۔

    کہتے ہیں کہ بڑا اور کام یاب آدمی صرف بڑے گھر اور کسی اونچے خاندان میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذہانت، لیاقت، محنت اور لگن اسے بڑا اور اپنے شعبے میں کام یاب بناتی ہے۔ میرزا ادیب نے بھی کسی بڑے گھر میں‌ آنکھ نہیں‌ کھولی تھی، بلکہ ان کا بچپن مشکلات اور مصائب جھیلتے ہوئے گزار۔ انھوں نے کئی محرومیاں دیکھیں، مگر اپنی محنت، لگن اور تعلیم کو سہارا بنا کر ایک کام یاب زندگی گزاری اور ملک بھر میں عزت و شہرت پائی۔

    31 جولائی 1999ء کو میرزا ادیب لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید نے اپنی کتاب یادوں کے گلاب میں اپنی ایک شرارت کا تذکرہ کرتے ہوئے میرزا ادیب کو سادہ اور معصوم انسان، اور شریف النفس آدمی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

    مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

    ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“ میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

    آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

    اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“

    میرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا۔ وہ 4 اپریل 1914 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے گریجویشن کیا، ادبی سفر کی ابتدا شاعری سے کی مگر جلد ہی نثر کی طرف مائل ہو گئے۔ ان کے بچپن اور حالاتِ زیست کے بارے میں انہی کی زبانی جانیے: ’’دلاور علی تو میرا وہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھا اور ظاہر ہے کہ والدین ہی نام رکھا کرتے ہیں۔ میرزا ادیب میرا ادبی نام ہے۔ جو میں نے اس وقت اختیار کیا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس طرح تریسٹھ برس سے میں میرزا ادیب ہی ہوں۔‘‘

    وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ ان کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے اور میرزا ادیب بتاتے ہیں کہ ایک بڑے صندوق میں ان کی کتابیں محفوظ تھیں۔ دادا کے بعد ان کے والد جو خیّاط تھے، کسی طرح‌ اس ورثہ کے اہل نہیں‌ تھے، بلکہ وہ ایک خاموش طبع، کچھ اکھڑ اور تند خُو انسان تھے اور میرزا ادیب کا بچپن بھی ان کی ڈانٹ اور مار پیٹ سہتے ہوئے گزر گیا۔ انھیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی خواہش تھی نہ فکر۔ البتہ والدہ کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں دو بھائی کچھ تعلیم پاسکے جب کہ ان کی بہنوں نے کبھی کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا۔ میرزا ادیب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’میں مغل خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، دادا جان کے ’قلمی نسخے‘ میں لکھا تھا کہ ان کا خاندان افغانستان سے لاہور آیا تھا۔ میرے دادا اپنے زمانے کے عالم فاضل شخص تھے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔‘‘

    ’’مٹی کا دیا‘‘ میرزا ادیب کی یادوں پر مشتمل کتاب ہے جس میں وہ اپنی محرومیوں کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’تایا جی اور ابا جی کو اپنے مغل ہونے پر فخر تھا۔ یہ فخر ایک ایسا اثاثہ بن گیا تھا جسے وہ محرومیوں کے لق و دق صحرا میں بھی اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔‘‘

    ’’یہ تھی میری نسل جو آگے قدم نہیں اٹھا سکی تھی۔ یہ نسل ایک جگہ رُک گئی تھی جیسے ایک غار میں اُتر گئی ہو اور باہر نکلنے کا راستہ نہ جانتی ہو۔ یہ نسل میری نسل تھی، جو صرف جینا جانتی تھی اور یہ صرف اس وجہ سے کہ جینے پر مجبور تھی۔ میں اس جمود زدہ نسل کا ایک فرد تھا جس کی پیدائش محض ایک عام واقعہ تھی۔‘‘ میرزا ادیب کا یہ احساسِ محرومی تمام عمر ان کے ساتھ رہا اور ان کی تحریروں میں بھی اس کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔

    میرزا ادیب بچپن ہی میں شاعری کرنے لگے تھے اور اس کے ساتھ ان میں مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اسکول میں چند اساتذہ ان پر مہربان رہے اور ان کی توجہ اور شفقت نے میرزا ادیب کو کتابوں کے قریب کر دیا۔ وہ ادبی جرائد خرید کر پڑھنے لگے اور اسی مطالعے نے انھیں کہانیاں‌ لکھنے پر آمادہ کیا۔ ان کی ایک نظم کسی ہفت روزہ کی زینت بھی بن گئی اور یوں وہ اپنے ساتھیوں اور اساتذہ میں شاعر مشہور ہوگئے۔ میرزا ادیب نے علّامہ اقبال کا کلام بھی خوب پڑھا تھا اور اسی کے زیرِ اثر وہ اسلامی موضوعات پر نظمیں اور مسلمانوں کی حالتِ زار پر شاعری کرنے لگے تھے جس کا شہرہ ہوا تو ایک استاد نے ان کی ملاقات اختر شیرانی جیسے بڑے اور مشہور شاعر سے کروا دی۔ بعد میں وہ کالج میں‌ پہنچے اور ادبی تنظیموں سے وابستگی کے ساتھ بڑے لوگوں سے تعلقات استوار ہوتے چلے گئے جنھوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور یوں میرزا ادیب نے قلم ہی کو اپنی روزی روٹی کا وسیلہ بنائے رکھا۔ انھیں کسی طرح ادبِ لطیف میں مدیر کی حیثیت سے نوکری مل گئی تھی اور بعد میں وہ متعدد ادبی رسائل کے مدیر رہے یا ان کی تدوین اور آزادانہ تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ یہ وہ کام تھے جن سے میرزا ادیب کو معاشی آسودگی اور ایک بہتر زندگی نصیب نہ ہوسکی، لیکن یہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔

    میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط کو بہت شہرت ملی جب کہ صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، متاعِ دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض میرزا ادیب کی وہ تصانیف ہیں‌ جو اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کی خودنوشت سوانح بھی بہت مقبول ہے۔ میرزا ادیب نے بچّوں‌ کے لیے کئی کہانیاں لکھیں اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے اور یہ کہانیاں مختلف رسائل اور روزناموں میں شایع ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1981 میں میرزا ادیب کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ رائٹرز گلڈ اور گریجویٹ فلم ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • سندور تو اُجڑ گیا پھر نام کیوں رکھا؟ جیا بچن مودی سرکار پر شدید برہم

    سندور تو اُجڑ گیا پھر نام کیوں رکھا؟ جیا بچن مودی سرکار پر شدید برہم

    ممبئی (31 جولائی 2025): سماج وادی پارٹی کی رکن پارلیمنٹ اور ماضی کی نامور اداکارہ جیا بچن نے بزدلانہ آپریشن کا نام ’سندور‘ رکھنے پر مودی سرکاری کو کھڑی کھڑی سنا دی۔

    انڈین میڈیا کے مطابق جیا بچن نے راجیہ سبھا میں پہلگام واقعے پر بحث کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے آپریشن کا نام سندور رکھنے پر سوال اٹھایا۔

    حکومتی ارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے جیا بچن نے کہا کہ میں آپ کو مبارکباد دوں گی کہ آپ نے بڑے مصنفین (رائٹرز) کو رکھا ہے، سوال ہے کہ آپ نے آپریشن کا نام ’سندور‘ کیوں رکھا جبکہ حقیقت میں کئی خواتین کے سندور اجڑ گئے؟

    انہوں نے کہا کہ آپ نے ان لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے جو آپ پر بھروسہ کرتے ہیں، وہ خاندان آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے، آپ میں ان خاندانوں سے معافی مانگنے کی اہلیت نہیں ہے۔

    رکن سماج وادی پارٹی نے مزید کہا کہ اقتدار میں عاجزی بہت ضروری ہے، بم اور ہتھیار اس کا متبادل نہیں ہیں، وزیر دفاع نے کہا کہ ہم خود انحصار ہیں ہم یہ اور وہ تیار کر رہے ہیں، کیا فائدہ جب آپ پہلگام میں 26 لوگوں کو نہیں بچا سکے؟ بموں اور ہتھیاروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا صرف انسانیت کی ضرورت ہے۔

    جب جیا بچن کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان نے شور شرابا کیا اور اظہار خیال کے دوران خلل ڈالنے کی کوشش کی تو انہوں نے سخت ردعمل دیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ یا تو آپ بولیں یا میں بولوں گی، جب آپ بات کرتے ہیں تو میں مداخلت نہیں کرتی، جب کوئی خاتون بولتی ہیں تو میں کبھی نہیں روکتی، براہ کرم اپنا منہ بند رکھیں۔

  • اعجاز اسلم نے ’کشکول‘ کی یادیں شیئر کردیں

    اعجاز اسلم نے ’کشکول‘ کی یادیں شیئر کردیں

    شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار اعجاز اسلم نے ماضی کے مقبول ڈرامہ سیریل ’کشکول‘ سے یادیں شیئر کردیں۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکار اعجاز اسلم نے ’کشکول‘ کی چند تصاویر کا کولاج شیئر کیا جس میں وہ کاسٹ کے ساتھ موجود ہیں۔

    انہوں نے تصاویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’اپنے پہلے ڈرامہ سیریل ’کشکول‘ سے کچھ یادیں شیئر کررہا ہوں، کیسا دور ہے، کیا آغاز ہے، میں نے ’روشو‘ کا کردار ادا کیا جو اپنے آپ میں مشہور ہوگیا۔

    اعجاز اسلم نے کہا کہ ’کشکول سوشل میڈیا یا یوٹیوب کے بغیر ایک زبردست ہٹ بن گیا، جب اسٹارڈم خالصتاً کارکردگی، کہانی اور سامعین کے ساتھ تعلق پر بنایا گیا تھا۔

    اداکار نے لکھا کہ سیٹ پر قدم رکھنے سے پہلے ہم نے بے شمار مشقیں کیں، جو آجکل نایاب ہے۔

    شوبز انڈسٹری اب مکمل طور پر بدل گئی ہے، لیکن زندہ رہنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے آپ کو اس کے ساتھ بڑھنا ہوگا پھر بھی شکر گزار ہوں کہ یہ سب کہاں سے شروع ہوا۔

  • علیزے شاہ نے منسا ملک کو ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا

    علیزے شاہ نے منسا ملک کو ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ علیزے شاہ نے مومنہ المقصود المعروف منسا ملک کو ایک ارب روپے ہرجانے کا نوٹس بھجوا دیا۔

    اداکارہ علیزے شاہ نے لیگل نوٹس میں کہا ہے کہ منسا ملک نے توہین آمیز رویہ اختیار کیا، منسا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہتک آمیز الفاظ استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔

    لیگل نوٹس کے مطابق علیزے شاہ کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی گئی جو کہ ان کے وقار اور عزت پر حملہ ہے۔

    لیگل نوٹس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ منسا ملک ایک ہفتے کے اندر علیزہ شاہ سے اعلانیہ معافی مانگیں اور سوشل میڈیا پر ان کے خلاف پھیلایا گیا مواد فوری ہٹا دیں۔

    قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ کے خلاف ایف آئی اے سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔

    لیگل نوٹس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ مومنہ مقصود نے علیزے شاہ کے خلاف ہتک آمیز توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔

    لیگل نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اداکارہ مومنہ مقصود نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر علیزے شاہ کے خلاف ہتک آمیز الفاظ کے استعمال کا اعتراف بھی کیا ہے۔

    قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ منسا ملک نے جعلی ویڈیوز کے ذریعے علیزے شاہ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔

    علیزے اور منسا میں جھگڑا کیا ہے؟

    ماضی میں علیزے شاہ اور منسا ملک کے درمیان ڈرامہ سیٹ پر جھگڑا ہوا تھا جس میں مبینہ طور پر منسا نے علیزہ کو دھکا دیا اور تھپڑ مارا تھا۔

    جس کا جواب علیزے شاہ نے اپنی چپل منسا ملک کی طرف پھینک کر دیا تھا تاہم چپل منسا کو لگی نہیں تھی۔

    اس واقعے کو حال ہی میں طول اس وقت ملا جب علیزے شاہ نے دعویٰ کیا کہ انھیں انجان نمبرز سے جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔

    علیزے شاہ نے کہا کہ ایسا منسا ملک کرا رہی ہیں کیوں کہ وہ مجھے قتل کی دھمکی دے چکی ہیں۔

  • شوہر سے نہیں بن رہی تو زبردستی وقت نہ گزاریں، نازلی نصر

    شوہر سے نہیں بن رہی تو زبردستی وقت نہ گزاریں، نازلی نصر

    پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سینئر اداکارہ نازلی نصر کا کہنا ہے کہ شوہر سے نہیں بن رہی تو زبردستی وقت نہ گزاریں آگے بڑھیں۔

    پی ٹی وی کے دور میں ڈرامہ سیریل ’دھواں‘ سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی اداکارہ نازلی نصر نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے پروگرام میں شرکت کی جہاں میزبان نے پوچھا کہ زندگی میں کوئی ایسا لمحہ جہاں آپ کو لگا میں ہمت ہار دوں گی؟

    جواب میں اداکارہ نے کہا کہ شادی ہوئی تو شوبز چھوڑا، میری شادی نہیں چل پائی اور میں نے 16 سال گزار دیے، شادی کے چند ماہ بعد ہی سوچ رہی تھی کہ اب اس رشتے کا کیا ہوگا جسے گزرتے ہوئے 16 سال بیت گئے، میں سوچتی تھی کہ اس سے کیسے باہر نکلوں۔

    نازلی نصر نے کہا کہ میں آج کل کی بچیوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ جو میں اپنی بچی کو بھی کہتی ہوں کہ اگر آپ کی شوہر سے نہیں بن رہی ہو تو زبردستی اپنا وقت نہ گزاریں، آپ کی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔

    اداکارہ نے کہا کہ آج بھی میری تصویر آجائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اچھا پہلے تو یہ اس کی بیوی تھی اب اس سے شادی ہوگئی ہے، میں سوچتی ہوں کہ بچے پڑھیں گے تو انہیں کتنا برا لگے گا۔

    انہوں نے کہا کہ لوگ بڑے برے کمنٹس کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

  • انگمار برگمین: فلم کی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    انگمار برگمین: فلم کی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    انگمار برگمین نے عالمی سنیما کو شاہکار فلمیں دیں اور فلم بینوں‌ کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے فن و کمال کی بدولت فلم سازی کے شعبہ میں مثالی اور قابلِ تقلید ٹھیرے۔ عالمی سنیما کی اس معتبر شخصیت نے 30 جولائی 2007ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    برگمین کی شاہکار تخلیق میں ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ شامل ہیں جنھیں فلمی دنیا کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ ان فلموں کے علاوہ کئی بہترین دستاویزی فلمیں‌ اس ہدایت کار کے فن و کمال کا ثبوت ہیں۔

    سنیما سے پہلے انگمار برگمین نے اسٹیج اور ریڈیو کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں کو نکھارا اور فنی مہارت کو منوایا۔ ان کی فلموں کا موضوع عام حالات، ازدواجی زندگی کے مسائل اور مذہبی فکر پس منظر رہا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سنیما اور جدید دنیا سے تعلق جوڑنے والے انگمار برگمین نے ایک قدامت پسند اور شاہی دربار سے وابستہ پادری کے گھر میں‌ آنکھ کھولی تھی اور وہ ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں مذہبی تعلیمات اور روایات کو مقدم رکھا جاتا تھا۔

    14 جولائی 1918 کو سویڈن کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے برگمین کے والد ایک سخت مزاج شخص تھے۔ والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار نے اپنے انٹرویوز میں بتایا تھا کہ ان کے والد کے غصّے سے سبھی ڈرتے تھے، ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے خلاف کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن برگمین نے اس ماحول میں پروان چڑھنے کے باوجود الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران ہی گھر میں کچھ گایا اور سنا جاسکتا تھا۔

    برگمین فلم کی دنیا سے وابستہ ہوئے تو اسی سخت گیر مذہبی سوچ اور روایتی فکر کے حامل افراد، ان کی ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، تضاد اور انسانوں کی محرومیوں کو بڑے پردے پر پیش کیا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ ہی نہیں ڈائریکشن بھی انگمار برگمین کی تھی۔ یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی ہے، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے۔ 1937 میں انھوں نے اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا اور یہاں تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع رہا جس نے ان کے ذہن کو مزید سوچنے، کھوجنے اور سوالات قائم کرنے پر اکسایا۔ یہیں انگمار برگمین اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹ لکھنے لگے۔ 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے اگلے برس، یعنی 1943 انھوں نے ایلس میری فشر سے شادی کی جو چند برس ہی چل سکی۔ 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

    1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا تھا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

    1960 کی ابتدا میں برگمین نے مذہب کو اپنی فلموں کا موضوع بنانا شروع کیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

    1976 میں انگمار برگمین نے بدسلوکی کے ایک واقعہ پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا۔ اس پر متعلقہ اداروں نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے انگمار برگمین سے معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن برگمین اس پر نہایت دل برداشتہ تھے اور اپنا اسٹوڈیو بند کرکے ملک چھوڑ‌ دیا۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ہدایت کاری کے لیے سوئیڈن گئے اور پھر ان کا آنا جانا لگا ہی رہا۔ اس فلم کو بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر بھی دیا گیا تھا۔ برگمین انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کیے گئے۔ ان کی فلموں کو تین اکیڈمی ایوارڈ ملے۔

    1970ء برگمین کو آسکر ایوارڈ اور 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی انگمار برگمین کے حصّے میں‌ آئے۔

  • سَر راس مسعود: ایک علمی و تہذیبی شخصیت

    سَر راس مسعود: ایک علمی و تہذیبی شخصیت

    شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن اقبال کو جن لوگوں سے گہرا اور دلی تعلقِ خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے۔ انہی گنے چنے لوگوں میں ایک سر راس مسعود تھے۔ راس مسعود کی پہچان کا ایک بڑا حوالہ یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کے عظیم مصلح اور ادیب سرسیّد احمد خان پوتے تھے۔

    اردو کے فاضل ادیب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر راس مسعود 1937ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ سر راس مسعود کے حالاتِ زندگی، علمی و ادبی ذوق اور ان کی اپنے شعبہ میں خدمات کا ذکر کئی اہلِ قلم نے کیا ہے۔ اردو کے صاحبِ طرز ادیب سیّد یوسف بخاری دہلوی کی کتاب ”یارانِ رفتہ“ سے یہ اقتباس ان کی شخصیت کی جھلک دکھاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "سر راس مسعود کی شخصیت اور اُن کی زندگی کے کارنامے جو جریدہ عالم پر ثبت ہیں اس وقت میرا موضوع سخن نہیں۔ اکتوبر 1935 میں اپنے عزیز دوست پروفیسر محمد اختر انصاری علیگ کے ہاں علی گڑھ میں مہمان تھا۔ اسی مہینے کے آخری ہفتہ میں مولانا حالی مرحوم کا صد سالہ جشن (سال گرہ) پانی پت میں ہونے والا تھا۔ وہ جذبہ تھا یا صوتِ حالی، اسی خیالی رو میں اختر کے ہمراہ بہہ کر پانی پت میں جا نکلا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی۔ رضا کار جلسہ گاہ کے قریب ایک بہت بڑے میدان میں خیموں کی ایک عارضی بستی میں لے گئے۔ باقی رات ہم نے ایک خیمے میں گزاری۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم نواب صاحب بھوپال کے استقبال کے لیے اسٹیشن چلے گئے۔

    میں گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا کہ ناگاہ میرے کانوں میں ”یوسف“ کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو میرے قریب میرے عم بزرگوار شمس العلما سید احمد، امام جامع مسجد دہلی کھڑے تھے۔ فرمایا ”تم بھی جلسے میں آئے ہو؟“

    ”جی ہاں“ میں نے جواباً عرض کیا۔ فرمانے لگے۔ ”سنو نواب حمید اللہ خاں کے ہمراہ راس مسعود بھی آرہے ہیں، میرے ساتھ رہنا، موقع پاکر تمہیں اُن سے بھی متعارف کرا دوں گا۔ یہ مسعود رشتے میں میرا بھتیجا ہے۔“ یہ ہم رشتہ ہونے کی بات پہلے بھی میرے کانوں میں پڑچکی تھی۔ لیکن اُس کی کڑیاں آج تک پوری طرح نہیں ملیں۔ خیر میں تو اس لمحے کا پہلے ہی سے متمنی تھا۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا۔

    ”میں نواب سَر راس مسعود کو اپنی کتاب ’موتی‘ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر میں نے اُن کو اپنا رومال دکھایا جس میں وہ کتاب لپٹی ہوئی تھی۔ ”اچھا! تو تم اس لیے یہاں آئے ہو۔“ معاً گاڑی آگئی۔ والیِ بھوپال کے شان دار استقبال اور اُن کی روانگیِ جلسہ گاہ کے بعد امام صاحب نے راس مسعود سے میرا تعارف کرایا، ”مسعود! یہ میرے چھوٹے بھائی حامد کا بڑا لڑکا یُوسف ہے۔ یہ تمہیں اپنی کتاب پیش کرنا چاہتا ہے۔“ سَر راس مسعود نے یہ سُن کر میرا سلام لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا، ”ہاہا! میرے بھائی کا بچہ یوسف ثانی! آؤ جانی میرے گلے لگو۔“

    پھر کتاب لے کر فرمایا، ”میں اسے کلکتہ سے واپس آکر اطمینان سے پڑھوں گا۔ بھوپال پہنچ کر تمہیں اس کے متعلق کچھ لکھوں گا۔“ اس کے بعد ہم دونوں جلسہ گاہ میں گئے۔ امام صاحب آگے آگے میں اُن کے پیچھے پیچھے، جب اسٹیج کے قریب آئے تو امام صاحب کو اسٹیج پر جگہ دی گئی۔ میں فرش پر پہلی قطار میں ایک خالی کرسی پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ سَر راس مسعود نے اپنی گردن کے اشارے سے مجھے اوپر بلایا۔ پھر اُنگلی سے دائیں طرف ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایاز قدرِ خود بہ شناس کے مصداق یہ جگہ تو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔

    اس ایک روزہ اجلاس کی تمام کارروائی مقررہ نظام کے مطابق انجام پذیر ہوئی۔ اس نشست میں ان آنکھوں کو ڈاکٹر اقبال کا پہلا اور آخری دیدار نصیب ہوا۔ وہیں میرے کانوں میں وہ نوائے سروش بھی گونجی جس کی مجھے ایک مدّت سے تمنا تھی۔ وہ خطبہ حمیدیہ بھی سُنا جو والیِ بھوپال نے ارشاد فرمایا تھا اور وہ اعلان عطیہ بھی جو مرحوم راس مسعود نے والیِ بھوپال کے ایما پر کیا تھا۔ جلسے کے اختتام سے قبل راس مسعود نے حاضرین اسٹیج میں سے بعض کو وہ رقعات بھی تقسیم کیے جو جلسے کے بعد ظہرانہ کے متعلق تھے۔ رقعات دیتے وقت جب وہ میرے قریب آئے تو بااندازِ سرگوشی فرمایا، ”یوسف! تم بھی جلسے کے بعد ہمارے ہی ساتھ کھانا کھانا۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کاش اُس دعوت کا وہ فوٹو مجھے حاصل ہوتا جس میں، میں امام صاحب کے پہلو میں اور اُسی صف میں یکے بعد دیگرے نواب صاحب بھوپال، سر راس مسعود اور ڈاکٹر اقبال جیسے اکابرِ وقت شریک طعام تھے۔”

    تذکرہ نویسوں نے راس مسعود کے حالاتِ زندگی یوں تحریر کیے ہیں…. وہ سیّد محمود کے گھر 15 فروری 1889ء کو پیدا ہوئے، راس مسعود نے گھر پر مذہبی تعلیم کے ساتھ ابتدائی کتب کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا اور پانچ سال کی عمر میں اسکول جانے لگے۔ بعد میں ان کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیا جنھوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور کچھ عرصے بعد انگریزی وظیفے پر مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دیا گیا۔

    راس مسعود عملی زندگی میں علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ آزادی کی تحریک کے لیے دن رات کام کرتے رہے۔ وہ 1929ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے تھے۔ راس مسعود انجمن ترقیِ اردو کے بھی صدر تھے۔ تحریکِ آزادی سے متعلق جلسوں میں تقریر کے ساتھ قلم کا سہارا بھی لیا۔ ان کی چند تصنیف اور تالیف کردہ کتب میں انتخابِ زرین، سرسیّد کے خطوط، اردو کے مستند نمونے شامل ہیں۔ ان کتابیں تعلیمی نظام، نصاب اور کتابچے طریقہ ہائے تدریس کے ساتھ مختلف اصلاحات کی سفارش پر مبنی ہیں۔ راس مسعود نے حیدرآباد دکن میں بھی ملازمت کی اور بھوپال میں بھی وقت گزارا تھا۔

    علّامہ اقبال ان سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ وہ راس مسعود کی علمی کاوشوں اور مسلمانوں کے لیے ان کی تڑپ اور مساعی سے بہت خوش ہوتے تھے۔ 1933ء میں جب علامہ اقبال افغانستان کے دورہ پر گئے تو راس مسعود بھی ان کے ہمراہ تھے۔ راس مسعود کی اچانک موت مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی زندگی کا بڑا نقصان تھی۔ علامہ اقبال نے ان کی وفات پر "مسعود مرحوم” کے عنوان سے ایک نظم بھی لکھی۔ انھیں نظام دکن نے "مسعود جنگ” کے خطاب سے نوازا جب کہ حکومتِ‌ ہند نے راس مسعود کو "سر” کا خطاب دیا تھا۔

  • میرے نام کا بینک بن رہا ہے، اروشی روٹیلا کا دعویٰ

    میرے نام کا بینک بن رہا ہے، اروشی روٹیلا کا دعویٰ

    متنازع حرکتوں کی بدولت ٹرینڈنگ میں رہنے والی اروشی روٹیلا نے دعویٰ کیا ہے کہ انکے نام کا ایک بینک بن رہا ہے۔

    اروشی روٹیلا ایک بھارتی اداکارہ اور ماڈل ہیں جو بالی ووڈ اور تیلگو فلموں میں کام کرتی ہیں، انہوں نے 2015 میں مس ڈیوا یونیورس انڈیا کا ٹائٹل جیتا اور اسی سال مس یونیورس مقابلے میں بھارت کی نمائندگی کی۔

    انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ماڈلنگ سے کیا اور 15 سال کی عمر میں مس ٹین انڈیا 2009 کا ٹائٹل بھی جیتا ہوا ہے، وہ سوشل میڈیا پر بھی کافی سرگرم ہیں اور ان کے انسٹاگرام فالوورز کی تعداد تقریباً 30 ملین سے زائد ہے۔

    اروشی اکثر اپنی فٹنس، فیشن، اور ذاتی زندگی سے متعلق پوسٹس کی وجہ سے خبروں میں رہتی ہیں۔ حال ہی میں ان کی فلم "ڈاکو مہاراج” کے گانے "دبیدی دبیدی” میں اداکار ننداموری بالاکرشنا کے ساتھ ڈانس کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

    اب ایک بار پھر وہ اپنے بیان کی وجہ سے صارفین کی جانب سے ٹرول ہورہی ہیں، حال ہی میں اروشی کو نجی فوڈ چین کے اشتہار  میں دیکھا گیا جہاں وہ  طنز و مزاح کرتے ہوئے خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی اور عجیب و غریب دعوے کرتی نظر آرہی ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by just_for_fun (@just_for_fun_with_luv)

    ویڈیو کلپ میں اروشی کہتی ہیں کہ وہ پائتھاگورس جی کے بعد ریاضی میں تعاون کرنے والی پہلی شخصیت بن گئیں ہیں کیونکہ انہوں نے ایک نیا ریاضی کا مسئلہ حل کیا ہے جس سے ان کی دولت دوگنی ہو گئی۔

    اداکارہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انکے نام کا ایک بینک بھی بن رہا ہے اور وارن بافیٹ تک اُن پر نظر رکھے ہوئے ہیں جو اب اُنہیں بھارت کی اگلی فنانس منسٹر قرار دے رہے ہیں۔

    صرف یہی نہیں بلکہ اسی کلپ میں جب  اسسٹنٹ انٹرویو کے دوران اداکارہ  کے لیے کھانا لے کر آتی ہے تو  اروشی آرام سے کہتی ہیں کہ،‘UFC – اروشی فرائیڈ چکن لانچ کرتے ہیں!’

    جیسے ہی یہ اشتہار صارفین کی نظر ہوا وہیں متضاد تبصروں کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا، ایک صارف نے لکھا کہ’وہ تو اب تک سب کو ٹرول کر رہی تھیں! کیا کمال کی شخصیت ہیں۔‘

  • بھارتی اداکارہ نے مسلم نوجوان کو گاڑی سے کچل دیا

    بھارتی اداکارہ نے مسلم نوجوان کو گاڑی سے کچل دیا

    (30 جولائی 2025): بھارتی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی اداکارہ نندنی کشیپ نے سڑک پر مسلم نوجوان کو گاڑی سے کچل کر قتل کر دیا۔

    انڈین میڈیا کے مطابق 25 جولائی 2025 کی رات 3 بجے نندنی کشیپ نے 21 سالہ طالب علم کو سڑک پر گاڑی سے ٹکر مار کر شدید زخمی کر دیا تھا اور موقع سے فرار ہوگئی تھیں۔

    سمیع الحق نامی نوجوان کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ زیرِ علاج رہا اور آج انتقال کر دیا۔ مقتول نوجوان نلباری پولی ٹیکنک کا طالب علم اور گوہاٹی میونسپل کارپوریشن (جی ایم سی) میں پارٹ ٹائم ملازمت کرتا تھا۔

    سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق سمیع الحق ایک لائٹ انسٹالیشن پروجیکٹ پر کام کرنے کے بعد گھر واپس جا رہا تھا جب اسے ایک تیز رفتار گاڑی نے ٹکر مار دی جسے نندنی کشیپ چلا رہی تھیں۔

    عینی شاہدین نے دعویٰ کیا کہ بھارتی اداکارہ زخمی نوجوان کو سڑک پر زخمی حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگئی تھیں۔ ایک عینی شاہد نے گاڑی کا پیچھا کیا جو کاہلی پاڑہ کے ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس میں داخل ہوئی تھی۔

    پولیس نے ابتدائی طور پر بھارتی اداکارہ سے پوچھ گچھ کی تھی اور گاڑی ضبط کر لی تھی لیکن گرفتار نہیں کیا تھا۔ بعدازاں مقتول نوجوان نے پولیس میں نندنی کشیپ کے خلاف مقدمہ درج کروایا اور پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا۔