Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • بریڈ پٹ کی ریسنگ فلم ایف ون نے چین میں دھوم مچادی

    بریڈ پٹ کی ریسنگ فلم ایف ون نے چین میں دھوم مچادی

    ریسنگ فلم ایف ون نے چینی باکس آفس پر رکنے سے انکار کردیا ہے، بریڈ پٹ کی فلم نے چین میں ایک اہم سنگ میل عبور کرلیا ہے۔

    ہالی ووڈ سپراسٹار بریڈ پٹ کی فلم نے کووِڈ کے بعد ان 25 ہالی ووڈ فلموں میں سے ایک بن گئی ہے جس نے باکس آفس پر دھوم مچائی ہے جبکہ فلم ایف ون شمالی امریکا میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

    پانچ ہفلم نے دنیا بھر کے باکس آفس پر500ملین ڈالرز سے زیادہ کا بزنس کیا ہے۔ یہ بریڈ پٹ کی اب تک کی سب سے بڑی ہٹ فلم بھی بن سکتی ہے، اس فلم نے ورلڈ وار زیڈ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

    اس ہفتے کے آخر میں یہ بریڈ کی دوسری سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم کے طور پر سامنے آئی ہے جس نے دنیا بھر میں کامیابی حاصل کی۔

    فلم کے ریسنگ سیکوینس اور پریمیم ساؤنڈ ڈیزائن شائقین کو اب بھی تھیٹروں کی طرف راغب کر رہے ہیں، کچھ لوگ اسے سوشل میڈیا پر بہترین سنیما فلم بھی کہہ رہے ہیں۔

    انڈسٹری ٹریکر کی رپورٹ کے مطابق بریڈ پٹ کی فلم نے چین میں باکس آفس پر اپنے پانچویں ویک اینڈ پر 3 ملین ڈالرز کی کمائی کی ، فلم نے 5 ویں اتوار کو 1.3 ملین ڈالر اکٹھے کیے جو کہ 5K اسکریننگ سے زیادہ ہے۔

    جوزف کوسنسکی کی فلم نے چین میں باکس آفس پر مجموعی طر پر 50 ملین ڈالرز کا سنگ میل عبور کرلیا ہے۔ 31 دن کے بعد، فلم چینی باکس آفس پر 51.4 ملین ڈالرز کما چکی ہے۔

  • والدہ کی سپورٹ کی وجہ سے اس مقام پر ہوں، فیضلہ قاضی

    والدہ کی سپورٹ کی وجہ سے اس مقام پر ہوں، فیضلہ قاضی

    اداکارہ فضیلہ قاضی کا کہنا ہے کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ والدہ کی وجہ سے ہی ہوں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں اداکارہ فضیلہ قاضی نے شرکت کی اور ماں کے حوالے سے اپنی خیالات کا اظہار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ میری والدہ مجھ سے زیادہ مضبوط خاتون تھیں، وہ کسی پر انحصار کرکے نہیں بلکہ اپنے آپ میں خود مضبوط خاتون تھیں۔

    اداکارہ نے کہا کہ وقت کے ساتھ احساس ہوتا ہے کہ والدہ کے وہ کونسے فیصلے تھے جس کی وجہ سے چیزیں بہتر ہوتی چلی گئیں۔

    فضیلہ قاضی نے کہا کہ میری والدہ کی سپورٹ کی وجہ سے آج اس مقام پر ہوں۔

    اس سے قبل انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ اولاد کو تو والدین کو ’اُف‘ تک نہیں کہنا چاہیے، معلوم نہیں اولاد اتنی بدتمیزی کیسے کرلیتی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ والدین کو کبھی بھی اُف تک نہ کہو، سوائے اس صورت میں کہ وہ تمہیں میرے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرنے کا کہیں۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ ایسی صورتحال میں بھی اولاد کو والدین سے بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے رویے سے یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ والدین غلطی پر ہیں۔

    فضیلہ قاضی کا کہنا تھا کہ والدین اولاد کے لیے اتنی قربانیاں دیتے ہیں کہ اولاد چاہ کر بھی کبھی ان کا قرض نہیں اتار سکتی اور اس کا اندازہ اولاد کو تب ہی ہوتا ہے جب وہ خود والدین کے مقام پر فائز ہوتے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ماں باپ کا رتبہ اور ان کی محبت بے مثال ہوتی ہے، مگر بدقسمتی سے اولاد کو اس کا شعور اکثر دیر سے حاصل ہوتا ہے۔

  • کومل میر کے رشتے بہت آتے ہیں، شادی کروانے کی کوشش کررہی ہوں، یشما گل

    کومل میر کے رشتے بہت آتے ہیں، شادی کروانے کی کوشش کررہی ہوں، یشما گل

    اداکارہ یشما گل کا کہنا ہے کہ کومل میر کے رشتے بہت آتے ہیں ان کی شادی کروانے کی کوشش کررہی ہوں۔

    حالیہ انٹرویو میں یشما گل نے ساتھی اداکارہ کومل میر سے متعلق گفتگو کی اور بتایا کہ آج کل ان کے بہت سارے رشتے آرہے ہیں اور ان کی شادی کروانے کی کوشش کررہی ہوں۔

    یشما گل نے کہا کہ آج کل گھروں میں کومل کی بہت ڈیمانڈ ہے اور انہیں اپنے گھر کا تاج بنانا چاہتے ہیں۔

    اداکارہ نے یہ بھی کہا کہ کومل میر کو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ میں ان کی شادی کروانے کی کوشش کررہی ہوں۔

    یہ پڑھیں: امیر اور بے وفا شخص کا انتخاب کروں گی، کومل میر

    اس سے قبل انٹرویو میں اداکارہ کومل میر کا کہنا تھا کہ وہ شادی کے لیے ایسے مرد کو ترجیح دیں گی جو امیر ہو، چاہے وہ بے وفا ہی کیوں نہ ہو۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر لڑکا امیر ہو اور بے وفا بھی ہو، تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ آج کے دور میں کوئی وفادار نہیں، اس لیے میں امیر شخص کو ترجیح دوں گی۔

    واضح رہے کہ یشما گل نے حال ہی میں ڈرامہ سیریل ’شکوہ‘ میں منفی کردار نبھایا تھا جبکہ کومل میر نے ’اے دل‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

  • سرحد کے دونوں طرف ہمارا کلچر، زبان ایک جیسی، وزیراعلیٰ پنجاب ’سردار جی 3‘ کی حمایت میں بول پڑے

    سرحد کے دونوں طرف ہمارا کلچر، زبان ایک جیسی، وزیراعلیٰ پنجاب ’سردار جی 3‘ کی حمایت میں بول پڑے

    بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان جو خود بھی ماضی میں شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھتے تھے دلجیت دوسانجھ کی فلم ’سردار جی 3 ‘ کی حمایت میں سامنے آگئے۔

    صوبائی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے پاکستانی اسٹار ہانیہ عامر کے ساتھ کام کرنے والے دلجیت دوسانجھ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، بھگونت مان نے سکھوں کے ساتھ بھارتی حکومت کے رویے کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا۔

    بھگونت مان کا کہنا تھا کہ جس فلم پر تنقید کی جارہی ہے اس کی شوٹنگ پہلگام واقعے سے پہلے ہوچکی تھی، پنجابیوں کا کلچر، زبان اور روایات چاہے وہ سرحد کے اس طرف ہوں یا اُس طرف، ایک جیسی ہے۔

    پاکستان کے پنجاب میں رہنے والے بھی پنجابی بولتے ہیں ہم بھی پنجابی بولتے ہیں لیکن نہیں دلجیت دوسانجھ کی فلم ریلیز نہیں ہونے دیں گے اسے غدار کہہ دیا گیا۔

    بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ ملک پنجاب نے لےکر دیا ہے اب ہمیں ہی غدار کہا جاتا ہے، لڑائیاں پنجاب نے لڑی ہیں، ہم سے بڑا دیش بھگت کوئی نہیں، پنجاب کا قصور کیا ہے۔

    انھوں نے تلخ لہجے میں کہا کہ کبھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان سے لڑو پھر کہا جاتا ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ ٹھیک ہو جاؤ، پنجاب میں رہنے والوں کو بھیڑ بکریاں سمجھا ہوا ہے؟

    خیال رہے کہ بھارتی پنجابب سے تعلق رکھنے والے اداکار دلجیت دوسانجھ اور ہانیہ عامر کی فلم سردار جی 3 کو بھارت میں ریلیز نہیں کیا گیا اس کے باوجود دلجیت پر بھارتی انتہاپسندوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/sardaar-ji-3-box-office-collection-first-week/

  • ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی:‌ یکتائے روزگار ماہرِ لسانیات اور نقاد

    ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی:‌ یکتائے روزگار ماہرِ لسانیات اور نقاد

    آج اردو زبان میں لسانی مباحث، املا اور انشا کے ساتھ نقد و نظر کا میدان کسی عالم فاضل اور نکتہ بیں کا متلاشی بھی ہے اور حکومتی سرپرستی کا متقاضی بھی، مگر بدقسمتی سے نہ تو علمی و تحقیقی کام کرنے والے جامعات سے فارغ التحصیل لوگ آگے آسکے ہیں اور نہ ہی اربابِ‌ اختیار اس جانب توجہ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں جس قدر کام تقسیمِ ہند سے قبل اور بٹوارے کے بعد ابتدائی چند عشروں کے دوران ہوا، آج اس کی ضرورت پھر محسوس کی جارہی ہے۔ اردو کا یہی نوحہ لکھتے ہوئے تھک جانے والے قلم آج کے روز ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی کو بھی یاد کرتے ہیں جنھوں نے اپنی قابلیت، علمی استعداد اور وسیع مطالعے سے زبان کی بڑی خدمت کی تھی۔

    یہ وہ کام ہے جس کے لیے لسانیات سے گہرا شغف اور تحقیق کا ذوق و شوق بھی چاہیے۔ اور اب ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی جیسے ذہین، محنتی اور لگن سے کام کرنے والے ہمارے درمیان نہیں رہے ہیں۔ اگر آج ہم انہی بلند پایہ محقّق، ماہرِ لسانیات اور علم الحروف میں یکتا ڈاکٹر صدیقی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اردو کے لیے کام کریں تو اس کی ترقی اور فروغ ممکن ہے۔ صدیقی صاحب 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد (بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی کام اور ان کی تنقیدی بصیرت انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ اردو زبان پر ان کے مقالہ جات، تصانیف اور پُرمغر مضامین سے بھارت اور پاکستان میں بھی استفادہ کیا جاتا رہا ہے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ایک ایسے گوہرِ نایاب تھے جن کی کاوشوں نے تحقیق کو گویا ایک مستقل فن بنا دیا۔ وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ املا انشا، الفاظ کے مآخذ کی تحقیق اور تاریخ کے حوالے سے ان کی سعیِ بلیغ اور محنتِ شاقّہ قابلِ رشک ہے۔

    اردو ہی نہیں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اردو کے ساتھ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی ہی نہیں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض اٹھانے والوں میں ہندوستان کی عالم فاضل شخصیات اور مشاہیر شامل رہے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی ان کی راہ نمائی اور مدد حاصل رہی، کیوں کہ وہ حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ اور بعد میں پاکستان میں بھی اردو املا اور لغت نویسی کے کام انجام دیتے رہےتھے۔ اس دوران زبان و بیان سے متعلق باریکیوں اور دوسری باتوں کو سمجھنے کے لیے بابائے اردو بھی صدیقی صاحب سے رجوع کرتے تھے۔ مرحوم 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام پذیر رہے اور اسی زمانہ میں اپنے ذوق و شوق کے سبب متعدد یورپی زبانیں سیکھیں۔ ان کا زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ سے متعلق علم حیرت انگیز تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے کئی اہم موضوعات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا جو اس زمانے میں‌ کسی کے لیے بھی نہایت مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ ان میں سے ایک تحقیقی کام وہ فارسی الفاظ تھے جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکی عربی کا حصّہ رہے۔ ان کی تحقیقی کاوش وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابتِ رشیدی’ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس میں اُن عربی الفاظ پر مباحث شامل ہیں جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے آئے تھے۔

    اس دور میں ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل کا خوب چرچا تھا اور مشاہیر ان سے ملاقات اور گفتگو کرنے کی خواہش کرتے تھے۔ ان کے مضامین اور مقالات کئی اردو جرائد میں شائع ہوئے جنھیں یکجا تو کیا گیا مگر بدقسمتی سے ان کی تعداد بہت کم ہے اور وہ بھی کتابی شکل میں محفوظ نہیں‌ ہیں۔ اس کی ایک وجہ خود ڈاکٹر صاحب کی علمی و تحقیقی کام میں مصروفیات تھیں اور وہ اپنے مضامین کو اشاعت کے لیے بہم نہیں کرسکے اور پھر وہ محفوظ نہیں رہے۔

    عبدالستار صدیقی کا تعلق سندیلہ، ضلع ہردوئی سے تھا جہاں انھوں نے 26 دسمبر 1885ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد اس زمانے کی مرفّہ الحال اور اردو زبان میں‌ علم و فنون کی سرپرستی کے لیے مشہور ریاست، حیدرآباد دکن میں‌ ملازم تھے، یوں ڈاکٹر صدیقی کی ابتدائی تعلیم دکن اور گلبرگہ میں ہوئی۔ بی اے اور ایم اے کی اسناد لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی چلے گئے جہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانیں سیکھنے کا موقع ملا۔ 1917ء میں عربی قواعد پر تحقیق کے لیے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    1919ء میں ہندوستان واپسی کے بعد انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد ازاں حیدر آباد دکن کی عالمی شہرت یافتہ جامعہ عثمانیہ میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کے سربراہ بھی رہے۔

    منتخاب اللغت (عربی) اور فرہنگِ رشیدی (فارسی) ان کی تحریر کردہ مستند اور جامع لغات ہیں۔

  • روز اہلیہ کے پاؤں دبا کر سوتا ہوں، احمد حسن

    روز اہلیہ کے پاؤں دبا کر سوتا ہوں، احمد حسن

    شوبز انڈسٹری کے اداکار احمد حسن نے انکشاف کیا ہے کہ وہ روز رات کو اہلیہ نوشین احمد کے پاؤں دبا کر سوتے ہیں۔

    اداکار احمد حسن نے اہلیہ و اداکارہ نوشین احمد کے ساتھ نجی ٹی وی کے مزاحیہ شو میں شرکت کی اور اس دوران مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ میرا روز کا معمول ہے کہ سونے سے پہلے بیوی کے پاؤں دبا کر سوتا ہوں اس سے اس کو سکون اور مجھے برکت ملتی ہے۔

    اداکار نے کہا کہ میں ایک فرمابردار شوہر ہوں اور بیوی سے بھی انہوں نے بیان کی گواہی طلب کی تو انہوں نے کہا کہ ظاہر ہے وہ میرے شوہر ہیں ایسا کرسکتے ہیں۔‘

    احمد حسن نے کہا کہ کسی بھی تقریب میں جانے سے پہلے تیار ہونے میں زیادہ وقت وہی لیتے ہیں، کیونکہ وہ اس وقت تک تیار ہونا شروع نہیں کرتے جب تک ان کی بیوی تقریباً تیار نہ ہو جائیں۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حال ہی میں انہوں نے ایک ڈرامے کی ہدایتکاری کی، جس میں ان کی بیوی نے بطور اداکارہ کام کیا، چونکہ ڈرامے میں سینئر اداکار بھی شامل تھے، تو کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ اپنی بیوی کی طرف داری کر رہے ہیں، اس لیے وہ کبھی کبھار انہیں ڈانٹ بھی دیا کرتے تھے، تاہم فطری طور پر وہ ان سے نرمی سے پیش آتے تھے۔

    واضح رہے کہ احمد اور نوشین کی شادی 12 سال قبل ہوئی اور دونوں کی پہلی ملاقات ڈرامے کے سیٹ پر ہوئی تھی جس کے بعد انہوں نے شادی کرلی۔

  • پنجابی فلم پھیرے اور بابا عالم سیاہ پوش

    پنجابی فلم پھیرے اور بابا عالم سیاہ پوش

    پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ تھی جو نذیر صاحب نے بنائی تھی۔ یہ فلم آج ہی کے روز 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گانے بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے تھے اور یہ وہ نام ہے جس سے نئی نسل نامانوس بھی ہوگی اور یہ ان کے لیے ایک قسم کی پُراسراریت بھی رکھتا ہے۔ بابا عالم سیاہ پوش اور ان جیسے کئی فن کار، فلم ساز اور دوسرے آرٹسٹ ہی تھے جنھوں نے اس زمانہ میں فلمی صنعت کی بنیاد مضبوط کی اور اپنے کام کی بدولت پہچان بنائی۔

    28 جولائی کو ریلیز ہونے والی فلم پھیرے کو زبردست کام یابی ملی تھی اور اس کے بعد فلم سازوں نے مزید پنجابی فلمیں بنائیں اور خوب بزنس کیا۔ یہ فلم صرف دو ماہ کے دورانیہ میں مکمل کی گئی تھی جس کے نغمات بے حد مقبول ہوئے تھے۔ پھیرے میں فلم ساز نذیر اور ان کی بیوی سورن لتا کے ساتھ بابا عالم سیاہ پوش نے بھی اداکاری کی تھی۔

    بابا عالم سیاہ پوش کے فلمی گیتوں اور مکالموں میں بڑا زور تھا۔ ان کی فلمی کاوشیں پنجاب کی زرخیز مٹی کی مہک میں‌ بسی اور اس کی ثقافت میں رنگی ہوتی تھیں جس کو پنجاب میں فلم بینوں‌ نے بے حد پسند کیا اور فلم سازوں نے مزید پنجابی فلمیں بنائیں۔

    بابا عالم سیاہ پوش 1916ء میں پیدا ہوئے۔ دستیاب معلومات کے مطابق وہ گورداسپور کے تھے۔ ان کا نام محمد حسین تھا۔ لیکن انھیں سب جوانی ہی میں "بابا” کہنے لگے تھے اور "سیاہ پوش” اس لیے کہا جانے لگا کہ ایک ناکام عشق کے بعد انھوں نے دنیا داری ترک کردی تھی۔ وہ زیادہ تر سیاہ لباس میں رہتے تھے جو غم اور سوگ کی علامت تھا۔ لیکن بعد میں‌ ساتھیوں کے سمجھانے پر کافی حد تک بدل گئے تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور پنجابی زبان پر عبور رکھتے تھے۔

    سیاہ پوش تقسیم سے قبل فلم بھنور (1947) کے گیت نگار اور مکالمہ نویس کے طور پر سامنے آئے تھے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم پھیرے تھی جو پہلی سپر ہٹ سلور جوبلی فلم ثابت ہوئی۔اس میں ان کا لکھا ہوا گیت عنایت حسین بھٹی نے گایا جس کے بول تھے، "جے نئیں سی پیار نبھانا، سانوں دس جا کوئی ٹھکانا۔” یہ پنجابی گیت بڑا مقبول ہوا تھا۔ پاکستان میں اپنی اوّلین کام یابی کے بعد انھوں نے بے شمار پنجابی فلموں کے لیے گیت اور مکالمے لکھے۔ یہ وہ دور تھا جب فلمی صنعت میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس وقت کئی دوسرے پنجابی نغمہ نگار اور مکالمہ نویس بھی میدان میں اتر چکے تھے مگر بابا عالم سیاہ پوش کا انداز سب سے جدا تھا۔ ان کے تحریر کردہ پنجابی نغمات میں کئی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ ان فلموں میں چوڑیاں، دلدار، لارا لپّا، تیس مار خان، جانی دشمن، بدلہ، میرا ویر کے علاوہ کئی اور فلمیں شامل ہیں۔

    بابا عالم سیاہ پوش پنجابی فلموں کے گیت نگار ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اس زبان میں معیاری شاعری بھی کی اور ان کی نظمیں اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔سیاہ پوش کی نظموں میں سماج اور حکومت پر طنز بھی ملتا ہے۔ ان کی نظم ’’آٹا‘‘ جس زمانہ میں‌ اخبار میں شائع ہوئی تو ممتاز دولتانہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس نظم پر ان کے حکم سے اخبار کو نوٹس بھیجا گیا تھا۔ طنز کی شدّت سے بھرپور اس نظم کو عوام کی طرف سے بہت پذیرائی ملی تھی۔ بابا سیاہ پوش نے شہرت اور مقبولیت تو بہت حاصل کی مگر تمام عمر تنگ دست رہے۔ دراصل بابا عالم سیاہ پوش بھی فلم سازوں کی روایتی چیرہ دستیوں کا شکار رہے تھے اور رائلٹی یا معاوضہ کے معاملے میں ان کو مشکلات کا سامنا ہی رہا۔ کہتے ہیں کہ مالی تنگی کے باوجود وہ زندہ دل اور خوش اخلاق و ملنسار تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھیں‌ مایوسیوں کے اندھیروں میں بھی اُمید کی روشنی دکھائی دیتی تھی۔ دو مارچ 1970ء کو بابا عالم سیاہ پوش زندگی کی تمام پریشانیوں اور دکھوں سے نجات پا گئے تھے۔

  • سارہ خان نے اپنے بیان کی خوبصورتی سے وضاحت کردی

    سارہ خان نے اپنے بیان کی خوبصورتی سے وضاحت کردی

    پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ سارہ خان نے اپنے اینٹی فیمنسٹ بیان پر اپنے مداحوں کو وضاحت دیدی ہے۔

    سارہ خان پاکستان کی مقبول ترین اداکاراؤں میں سے ایک ہیں جو کئی مقبول ترین ڈراموں میں اپنے کام کے لیے جانی جاتی ہیں، وہ اس وقت دانش تیمور کے ساتھ اپنی ڈرامہ سیریز شیر کی وجہ سے بھی ٹرینڈ پر ہیں۔

    حال ہی میں سارہ خان نے ایک انٹرویو میں فیمنزم کے حوالے سے اپنی رائے دی تھی، جس پر ریحام خان نے تنقید کی تھی جبکہ گزشتہ روز فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے اپنی پوسٹ میں سارہ خان کی حمایت کرتے ہوئے ریحام خان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

    اب اداکارہ سارہ خان نے فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک اسٹوری شیئر کی جس میں انہوں نے ایک بار پھر فیمنزم سے متعلق اپنے مؤقف کو واضح کیا ہے۔

    سارہ خان نے لکھا کہ جب میں نے کہا کہ میں فیمنسٹ نہیں ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں برابری پر یقین نہیں رکھتی، میں عورتوں کے لیے مساوی عزت، مساوی حقوق اور مساوی مواقع پر مکمل یقین رکھتی ہیں۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ بات کا مطلب یہ تھا کہ میں آج کل کی فیمنسٹ نہیں بلکہ ایک اصل، حقیقی اور پرانی فیمنسٹ ہوں، میرا ماننا ہے کہ عورت کی اصل طاقت مردوں کی نقل کرنے میں نہیں، بلکہ اپنی نسوانیت کو اپنانے میں ہے۔

    سارہ نے لکھا کہ عورتیں اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ انہیں ملکاؤں کی طرح عزت، محبت اور اہمیت دی جانی چاہیے، جیسی وہ حقیقت میں ہیں، عورتوں کو مشینوں کی طرح محنت کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ ہم گھروں کو سنوارنے، نسلوں کو پروان چڑھانے، سلطنتیں کھڑی کرنے اور وقار سے قیادت کرنے کے لیے بنی ہیں۔

    اداکارہ نے حضرت خدیجہؓ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہم سب کے لیے ایک کامیاب تاجرہ، باوقار، متوازن اور نسوانیت کی بہترین مثال ہیں، انہیں کام کا حق حاصل تھا اور ہمیں بھی ہے، لیکن انہوں نے خاندان، مقصد اور ایمان کی پاکیزگی کی بھی قدر کی اور کبھی خود کو دوسروں کی تسلیمات کی دوڑ میں گم نہیں ہونے دیا۔

    اداکارہ نے یہ بھی کہا کہ مجھے اس ذہنیت کی بالکل سمجھ نہیں آتی کہ کسی دفتر میں جا کر کسی اور کا خواب پورا کرنے کو سراہا جاتا ہے، لیکن اپنے شوہر کے لیے ناشتہ بنانے یا اپنے بچوں کی پرورش کو کمتر سمجھا جاتا ہے، آخر کب سے ایک وفادار بیوی یا ماں ہونا کم تر ہو گیا ہے؟

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ عورت کا کردار مقدس ہے، وہ تعلیم یافتہ، پرعزم اور بلند حوصلہ ہو سکتی ہے لیکن ساتھ ہی نرم، باوقار اور اپنی جڑوں سے جڑی ہوئی بھی ہو سکتی ہے، اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنی زندگی کا توازن خود بنانے کی اجازت ہونی چاہیے۔

    آخر میں انہوں نے کہا کہ فیمنزم کا مطلب نسوانیت کو ترک کرنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ ہماری اپنی پسند کا احترام ہونا چاہیے، چاہے وہ پسند گھر، ماں بننا، نرمی، یا محبت میں لپٹی طاقت ہی کیوں نہ ہو، یہ ایک خدائی طاقت ہے، آئیے اسے اس قسم کی طاقت سے تبدیل نہ کریں جو ہمیں ہماری اصل پہچان بھلا دے۔

  • منسا ملک مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں: علیزے شاہ کا دعویٰ

    منسا ملک مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں: علیزے شاہ کا دعویٰ

    (28 جولائی 2025): پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف ادکارہ علیزے شاہ نے دعویٰ کیا کہ منسا ملک انہیں دھمکیاں دے رہی ہیں۔

    علیزے شاہ حال ہی میں ساتھ اداکارہ منسا ملک کے ساتھ آن لائن فائٹ کے بارے میں حیران کن انکشافات کی وجہ سے توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں تاہم اب انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ منسا انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہیں۔

    اداکارہ نے انسٹاگرام پر اسٹوری میں لکھا کہ منسا ملک مجھے انجان نمبروں سے کال کر رہی ہے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو جان لو یہ اسی کا کام ہوگا۔

    اداکارہ نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا 3 سال پہلے بھی اسی عورت نے مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی تھی، میں نے آج تک جو کمایا وہ عزت اور حلال طریقے سے کمایا، مگر جو حرام کھاتے ہیں، انہیں نہ خدا کا خوف ہوتا ہے نہ انجام کا۔

    علیزے نے ان میسجز کے اسکرین شاٹس بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیں ہیں، ساتھ ہی ایک اور اسٹوری میں علیزے شاہ نے کہا کہ میں منسا ملک کو اس وقت تک معاف نہیں کروں گی جب تک وہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتی، میری آپ سب فالوورز سے اپیل کی کہ آپ سب منسا ملک کو سب تک ٹرول کریں جب تک وہ معافی نہیں مانگ لیتی۔

  • اے آر رحمان کی بیٹی نے گریجویشن مکمل کرلی، موسیقار کا دل کو چھولینے والا پیغام

    اے آر رحمان کی بیٹی نے گریجویشن مکمل کرلی، موسیقار کا دل کو چھولینے والا پیغام

    آسکر ایوارڈ یافتہ بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے اپنی بیٹی کی گریجویشن مکمل ہونے پر دل کو چھولینے والا پیغام شیئر کیا ہے۔

    بھارتی موسیقار کی بیٹی رحیمہ نے حال ہی میں تعلیمی میدان میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے جس پر اے آر رحمان بہت زیادہ خوش ہیں انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر ایک جذباتی پیغام شیئر کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی کو دل کھول کر سراہا ہے۔

    سوئٹزرلینڈ کے مشہور ‘گلائن انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن’ سے اے آر رحمان کی بیٹی رحیمہ رحمان نے "Hospitality, Entrepreneurship And Innovation” کے شعبے میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے۔

    شمالی امریکا میں اپنے ‘وانڈرمینٹ ٹور’ پر موجود اے آر رحمان نے اپنی مصروفیت کو ایک سائیڈ پر رکھ پر بیٹی کے لیے وقت نکالا اور ان کےلیے پوسٹ شیئر کی۔

    سوشل میڈیا پر رحیمہ کی گریجویشن کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے اے آر رحمان نے لکھا کہ ‘میری ننھی شہزادی رحیمہ نے ‘گلائن انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن’ سے گریجویشن مکمل کر لی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ میری بیٹی نے ہاسپٹیلٹی، انٹرپرینرشپ اینڈ انوویشن کے شعبوں میں مہارت حاصل کی، کیپشن کے ساتھ انہوں نے#Prouddad ، #Womanleaders اور #Alhamdulillah جیسے ہیش ٹیگز کا استعمال کیا۔