Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • غزہ میں بچے بھوک سے مررہے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے، ہیلی بیبر

    غزہ میں بچے بھوک سے مررہے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے، ہیلی بیبر

    امریکی ماڈل ہیلی بیبر نے بھی غزہ میں اسرائیلی ظلم و ستم پر آواز بلند کردی۔

    انسٹاگرام پوسٹ میں امریکی ماڈل ہیلی بیبر نے غزہ میں بگڑتے ہوئے انسانی بحران کی طرف توجہ دلانے کہا ہے جہاں ہزاروں بچے اور خاندان شدید بھوک کا شکار ہیں۔

    انہوں نے لکھا کہ ’غزہ میں بچوں اور خاندانوں کے لیے بھوک ایک خوفناک حقیقت ہے، بڑے پیمانے پر امداد کی فوری اجازت دی جانی چاہیے۔‘

    ہیلی بیبر نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں بچے بھوک سے مررہے ہیں، شدید غذائی قلت ان تک امداد پہنچنے سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے جبکہ دنیا اسے ہوتا دیکھ رہی ہے۔

    غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی جانب سے فوجی مہم شروع کرنے کے بعد سے اب تک کم از کم 115 فلسطینی بھوک سے مرچکے ہیں، زیادہ تر متاثرین بچے ہیں جن میں زیادہ تر اموات حالیہ ہفتوں میں ہوئیں کیونکہ حالات بدتر ہوتے جارہے ہیں۔

    گزشتہ روز اسرائیلی حملے میں کم از کم 62 فلسطینی شہید ہوئے ان میں 19 افراد وہ بھی شامل تھے جو ضروری امداد جمع کرنے کی کوشش کرہے تھے۔

    اطلاعات کے مطابق بھوک کا بحران اب اس سے زیادہ تیزی سے جانیں لے رہا ہے کہ انسانی امداد ضرورت مندوں تک پہنچ سکتی ہے۔

    علاوہ ازیں اسرائیل کے اندر ہی اختلاف بڑھ رہا ہے، تل ابیب میں درجنوں اسرائیلی نوجوانوں نے غزہ پر جنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے ڈرافٹ آرڈرز کو سرعام جلا دیا۔

  • احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    احمد بن طولون کا انصاف (نوادرالخلفاء سے انتخاب)

    مصر کے ایک حاکم احمد کو اس دور کے دستور کے مطابق اپنے باپ کے نام کی نسبت سے احمد بن طولون پکارا جاتا ہے۔ اس والیِ مصر کا تذکرہ ایک بہادر اور عادل و منصف کے طور پر کیا گیا ہے اور اس سے چند حکایات بھی منسوب ہیں۔

    مزید حکایات اور سبق آموز کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں

    بعض تاریخی کتب اور تذکروں میں احمد بن طولون کے باپ کو ایک ترک غلام لکھا گیا ہے جو عباسی خلیفہ مامون الرشید کی فوج میں شامل تھا۔ احمد پیدا ہوا تو اسے بھی تعلیم و معاشرت کے مراحل طے کرنے کے بعد فوجی تربیت دی گئی۔ وہ بیس سال کی عمر میں اس وقت کے مصر کے حکم راں‌ بایکباک کی فوج میں شامل ہوا۔ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کے سبب 868ء میں مصر کا حاکم مقرر ہوا۔ چند سال بعد عباسی خیلفہ مہدی کے زمانہ میں اسے مصر میں خود مختار فرماں روا بنا دیا گیا۔ احمد بن طولون کو مردم شناس اور علم دوست حکم راں بھی کہا جاتا ہے۔

    جب احمد بن طولون نے مصر کے شہر قاہرہ میں وہ عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ کیا جو آج اسی کے نام سے مشہور ہے، تو اس پر ایک لاکھ دینار کی خطیر رقم خرچ کی۔ پھر علما، قرّاء، اربابِ شعائر اور متعلقہ مکانات کے لیے ماہانہ دس ہزار دینار کی باقاعدہ رقم مقرر کر دی، اور روزانہ صدقے کے لیے سو دینار وقف کیے۔

    یہ مسجد نہ صرف عبادت کا مقام تھی، بلکہ سلطان نے اس کے ذریعے خیر، عدل اور دینی شعائر کی نگہبانی کا بھی کام لیا۔ کہتے ہیں کہ اس مسجد کے آس پاس ایک غریب آدمی اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ ماں بیٹی گھر میں بیٹھ کر سوت کاتا کرتی تھیں تاکہ گزر بسر میں کچھ آسانی ہو اور ماں چاہتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کا جہیز بھی تیار کرسکے۔ لڑکی باحیا، پردہ دار اور شریف تھی۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی۔

    ایک دن اس نے والدین سے فرمائش کی کہ وہ بھی سوت لے کر ان کے ساتھ بازار جائے گی۔ چنانچہ وہ گھر سے بازار کے لیے نکلے۔ تینوں بازار کی طرف بڑھے، تو راستے میں ایک مقام پر ایک درباری امیر الفیل کا دروازہ پڑا۔

    اتفاق تھا کہ ماں باپ کسی بات میں مشغول ہو کر آگے بڑھ گئے اور بیٹی بھی دھیان نہ رکھ سکی کہ وہ راستے میں اِدھر اُدھر ہوتی ماں باپ سے فاصلہ پر رہ گئی ہے۔ اس لڑکی کی جب نگاہ اٹھی تو ماں باپ نظر نہ آئے۔ وہ گھبرا کر وہیں کھڑی ہو گئی۔ اس کے دل میں خوف تھا اور چہرے پر حیرت۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جائے تو کہاں، اور کس طرف قدم بڑھائے۔

    یہ لڑکی حسن و جمال میں بے مثال تھی۔ اتفاق سے اسی لمحے امیر الفیل محل سے باہر نکلا اور جب اس کی نظر اس دوشیزہ پر پڑی تو دل و دماغ پر عاشقانہ جنون چھا گیا۔ وہ اُسے پکڑ کر اندر محل نما گھر میں لے گیا۔ پھر اپنی کنیزوں کو حکم دیا کہ لڑکی کو نہلا کر، خوشبو لگا کر، عمدہ لباس پہنا کر اُس کے لیے تیار کریں۔ اس بد بخت کی نیّت خراب ہوچکی تھی۔ اسے لڑکی سے دو باتیں‌ کرکے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ تنہا بھی ہے اور اس کا باپ بھی کوئی بااثر اور بڑا آدمی نہیں ہے۔ اس نے لڑکی کی عصمت دری کی اور مردود بن گیا۔

    ادھر ماں باپ اپنی بیٹی کے یوں بچھڑ جانے کے بعد بدحواسی کے عالم میں راستے پر واپس لوٹے، لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ اب وہ شہر بھر میں اسے ڈھونڈتے پھرے، مگر کہیں ان کو اپنی بیٹی کا سراغ نہ ملا۔ وہ رات ہونے پر رنج و غم سے نڈھال، روتے بلکتے، گِریہ و زاری کرتے گھر لوٹ گئے۔

    نیند تو ان کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دونوں‌ بیٹی کی جان و آبرو کی سلامتی کے لیے دعا کررہے تھے کہ اچانک کسی نے دروازے پر دستک دی۔ غریب باپ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک اجنبی کھڑا ہے۔

    اس نے سلام کرکے غریب آدمی کو بتایا کہ "تمہاری بیٹی کو سلطان کے امیر الفیل نے اٹھایا ہے اور اس کی عصمت دری کی ہے۔”

    یہ سن کر لڑکی کے باپ پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔ وہ اتنے بڑے آدمی کے خلاف کیا کرے اور کیسے اپنی بیٹی تک پہنچے…اسے کچھ نہیں‌ سوجھ رہا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ بیتابی سے اس مسجد کے مؤذن کی طرف دوڑا جو اس کے گھر کے قریب تھی۔

    دراصل اس مسجد کو خاص اہمیت حاصل تھی کیوں کہ اسے والیِ مصر احمد بن طولون نے تعمیر کروایا تھا۔ وہاں کے مؤذن کو احمد بن طولون نے ہدایت کر رکھی تھی کہ اگر شہر میں کسی پر ظلم ہو اور ایسا واقعہ پیش آئے جس میں کوئی بڑا درباری ملوث ہو، تو مخصوص وقت سے ہٹ کر اذان دے۔ اور سلطان کے خاص سپاہی اذان سن کر فوراً مؤذن سے معاملہ پوچھیں۔

    غریب آدمی نے مؤذن کو نیند سے بیدار کردیا اور اپنی مشکل بتائی تو اس نے فوراً مینار پر چڑھ کر اذان دی۔ اگلی صبح یہ معاملہ احمد بن طولون کے دربار میں پہنچ چکا تھا۔ لڑکی کے ماں باپ دربار میں موجود تھے اور جب وہ بدبخت امیر الفیل معمول کے مطابق دربار میں حاضر ہوا تو سلطان نے اس پر سختی کی۔ پھر اس لڑکی کے باپ سے کہا: "میں اپنے اس غلام سے تمہاری بیٹی کے نکاح کا اعلان کرتا ہوں۔”

    لڑکی کے باپ نے اس کا فیصلہ قبول کرلیا اور گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ اس امیر سے لڑکی کا نکاح کردیا گیا۔ خاص بات یہ تھی کہ سلطان نے بڑی رقم مہر میں رکھی تھی جس سے انکار کی جرأت امیر الفیل نہ کرسکا تھا۔

    نکاح کے بعد احمد بن طولون نے جلّاد کو بلایا اور حکم دیا کہ امیر الفیل کا سر تن سے جدا کر دے۔

    چند لمحوں میں اس کا سر کٹ کر زمین پر گرا ہوا تھا۔ پھر ابن طولون نے لڑکی کے باپ سے کہا: "اب تمہاری بیٹی بیوہ ہے، اور شوہر کی ساری متروکہ دولت پر اس کا حق ہے۔”

    "جاؤ۔ اطمینان سے زندگی بسر کرو۔” ماں باپ فرطِ جذبات سے روتے اور سلطان کو دعا دیتے محل سے روانہ ہوگئے۔

    (عربی حکایات کے اردو ترجمہ نوادر الخلفاء سے انتخاب)

  • ’شیر‘ یوٹیوب پر چھا گیا، ہر قسط ٹرینڈنگ پر

    ’شیر‘ یوٹیوب پر چھا گیا، ہر قسط ٹرینڈنگ پر

    اے آر وائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ سیریل ’شیر‘ یوٹیوب پر چھا گیا ہر قسط ٹرینڈ بن گئی۔

    ڈرامہ سیریل ’شیر‘ میں دانش تیمور اور سارہ خان کی اداکاری کو مداحوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی مل رہی ہے جس کا ثبوت یوٹیوب پر ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہونا ہے۔

    ’شیر‘ میں دانش تیمور اور سارہ خان مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔

    ڈرامے کی دیگر کاسٹ میں فیضان شیخ، ارجمند رحیم، سنیتا مارشل، نادیہ افگن، نبیل ظفر، منزہ عارف، عتیقہ اوڈھو، حسان نیازی، آمنہ ملک، نورین گلوانی ودیگر شامل ہیں۔

    ’شیر‘ کی ہدایت کاری کے فرائض احسن تالش نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی زنجابیل عاصم شاہ نے لکھی ہے۔

    ڈرامے کی کہانی دو خاندانوں کی دشمنی کے گرد گھومتی ہے جس میں ایک خاندان شیر زمان اور دوسرا فجر شیخ کا ہے۔

    شیر کے والد کی موت کے بعد انہیں سر پر چوٹ آنے پر اسپتال منتقل کیا جاتا ہے لیکن جائیداد کی وجہ سے ان کے اپنے ہی چاچا ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر شیر کو پاگل کرنے کے در پے ہیں۔

    ادھر دشمن خاندان کی فجر شیخ جو ڈاکٹر ہیں وہ شیر کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ اچانک ڈاکٹر اور شیر کے چاچا کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھ کر سمجھ جاتی ہیں کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے جب وہ شیر کی ادویات اور انجکشن کا ٹیسٹ کرواتی ہیں تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ شیر کو جان بوجھ کر پاگل کیا جارہا ہے۔

    ادھر فجر کے والد بھی کہتے ہیں کہ ہمارے دشمن کے بیٹے شیر کو اسپتال میں ہی مار دو تو ہم تمہیں معاف کردیں گے۔

    20ویں قسط میں دکھایا گیا کہ فجر نے شیر کی والدہ تہمینہ بیگم کی مدد لے کر انہیں اسپتال سے فرار کروائیں گی۔

    کیا فجر، شیر کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی، یہ جاننے کے لیے ڈرامے کی 21ویں قسط بدھ کی رات 8 بجے دیکھیں۔

    یاد رہے کہ 29 مئی 2025 کو ڈرامہ سیریل ’شیر‘ نے دھوم مچاتے ہوئے یوٹیوب پر ٹرینڈنگ میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

    یوٹیوب پر ٹرینڈنگ میں ’شیر‘ کی تینوں اقساط ٹاپ ٹرینڈز میں دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر ٹرینڈ کر رہی تھیں۔

    پہلی قسط کو 15 ملین، دوسری کو 12 ملین جبکہ تیسری کو 5.3 ملین سے زائد بار دیکھا جا چکا تھا۔

    واضح رہے کہ یوٹیوب نے ٹرینڈنگ فیچر ختم کردیا ہے لیکن جب  ٹرینڈنگ کا فیچر موجود تھا تو شیر کی تمام اقساط ٹرینڈ کررہی تھیں۔

  • ’پورا دن فلیٹ میں بے ہوش رہی‘ اداکارہ عمارہ چوہدری نے اپنے ساتھ ہونے والا حیران کن واقعہ بتادیا

    ’پورا دن فلیٹ میں بے ہوش رہی‘ اداکارہ عمارہ چوہدری نے اپنے ساتھ ہونے والا حیران کن واقعہ بتادیا

    کراچی(25 جولائی 2025): پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ عمارہ چوہدری نے کراچی میں اکیلے رہنے کے حوالے سے خوفناک تجربہ شیئر کردیا۔

    حال ہی میں اداکارہ عمارہ چوہدری نے ایک نجی ٹی وی کے شو میں شرکت کی، اس دوران انہوں نے کراچی میں اپنے ساتھ ہونے والا حیران کن واقعہ بتایا۔

    اداکارہ نے کہا کہ کراچی میں بڑی تعداد میں لڑکے لڑکیاں تنہا رہتے ہیں جس کی کئی وجوہات ہیں کوئی کام کی وجہ سے تو کئی پڑھائی کے سلسلے میں چھوٹے شہر سے کراچی یا دیگر شہروں میں منتقل ہوتے ہیں۔

    عمارہ چوہدری نے کہا کہ تنہا رہنا آسان نہیں کیوں کہ  کئی مواقع ایسے ہوتے ہیں جب انسان کو اپنوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے خاص اس وقت جب آپ بیمار ہوں اور اکیلے ہوں۔

    تنہا رہنے کے حوالے سے خوفناک تجربہ شیئر کرتے ہوئے عمارہ نے بتایا کہ میری فیملی لاہور میں رہتی ہے لیکن میں کام کی وجہ سے کراچی منتقل ہوئی تھی، 2 سال قبل میں کورونا کا شکار ہوئی تھی، اس وقت شوٹس  کے سلسلے میں کراچی میں ہی موجود تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: آج کل کے دور میں پیار نہیں ہوتا، عمارہ چوہدری

    انہوں نے مزید بتایا کہ کورونا کا شکار ہونے کے  اگلے روز ہی میں پورا دن کیلئے بے ہوش ہوگئی لیکن کسی کو پتہ نہیں چلا، جب فیملی کا مجھ سے رابطہ نہیں ہوا تو گھر والوں نے مالک مکان سے رابطہ کیا۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ مالک مکان نے کسی کو  میرے فلیٹ  بھیج کر میری خیریت دریافت کرنا چاہی، اسی دوران  دروازہ کھٹکھٹانے پر میں ہوش میں آئی، میں پورا دن بے ہوش رہنے کے بعد جب  میری آنکھ کھلی تو میرے  موبائل پر گھر سے ڈھیروں کالز آئی ہوئی تھیں۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ میرے اہل خانہ کراچی آنے کیلئے ٹکٹس بک کرواچکے تھے، مکان مالک نے مجھے بتایا کہ ’میرا دروازہ اب بھی میرے گھر والوں کے کہنے پر کھٹکھٹایا گیا‘  اس سے قبل تو مکان مالک بھی یہی سمجھتا رہا کہ میں لاہور چلی گئی ہوں۔

  • سبطین فضلی:‌ مشہور فلم ساز اور باکمال ہدایت کار

    سبطین فضلی:‌ مشہور فلم ساز اور باکمال ہدایت کار

    ہندوستان کے بٹوارے سے قبل کولکتہ، ممبئی، لاہور اور دوسرے شہروں کے فلمی مراکز میں ’’فضلی برادران‘‘ بہت مشہور تھے یہ دو بھائی تھے جنھوں نے بحیثیت فلم ساز اپنی پہچان بنائی اور انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں دیں جن میں پاکستان میں بنائی گئی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ ان بھائیوں میں سے ایک سبطین فضلی اسی سپرہٹ فلم کے ہدایت کار تھے۔

    تقسیم کے بعد سبطین فضلی بہت کم کام کرسکے مگر انھیں پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 25 جولائی 1985ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    جس زمانہ میں کلکتہ فلم سازی کا مرکز تھا اور انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں شخصیات اپنے فن و کمال کی بدولت نام کما رہی تھیں، سبطین فضلی نے بھی اپنے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ مل کر فلم سازی کا آغاز کیا۔ دونوں بھائی اپنے کام کی وجہ سے کلکتہ ہی میں‌ پہچان کا سفر شروع کرچکے تھے۔ بعد میں‌ فلم انڈسٹری بمبئی منتقل ہوگئی اور پھر تقسیمِ ہند کے نتیجے میں فن اور فن کار بھی سرحدوں‌ کے اِدھر اُدھر جیسے بٹ کر رہ گیا۔ البتہ اس دور میں سرحد کے دونوں اطراف آنا جانا آسان تھا اور بھارت یا پاکستان کے فن کار بھی مل کر فلموں میں کام کرتے تھے۔بٹوارے کے بعد سبطین فضلی لاہور میں سکونت پذیر ہوئے اور وہاں فلم سازی کا آغاز کیا۔ لیکن وہ صرف تین ہی فلمیں بنا سکے۔ ان کی یہ فلمیں نہایت کام یاب ثابت ہوئیں اور سبطین فضلی کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔

    اخبارات کے فلمی صفحات اور مختلف جرائد میں فن کاروں پر جو مضامین لکھے جاتے تھے، ان میں سبطین فضلی کا اور ان کی فلموں کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک خوش اخلاق اور خوش لباس بھی مشہور تھے۔ فضلی برادران اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

    9 جولائی 1914ء کو سبطین فضلی بہرائچ (اتر پردیش) کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا فلمی کیریئر برطانوی راج کے دوران شروع ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد بطور ہدایت کار ان کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ نے بے مثال کام یابی حاصل کی۔ اسے کلاسک کا درجہ ملا۔ اس فلم کے بعد سبطین فضلی نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو بزنس کے اعتبار سے ناکام رہیں اور فلم بینوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکیں، لیکن فلمی ناقدین انھیں شان دار تخلیق مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ فلمیں سبطین فضلی کی محنت اور لگن کا ثمر ہی نہیں تھیں بلکہ بطور فلم ساز ان کی فنی مہارت کا عمدہ نمونہ ہیں‌۔

    سبطین فضلی کی وفات پر اس دور کے فلمی مبصرین اور قلم کاروں نے کہا کہ ان کی فلم دوپٹہ ہی ان کا نام زندہ رکھنے کو کافی ہے۔ اس فلم میں سبطین فضلی نے گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نئے چہرے کو اجے کمار کے نام سے پردے پر متعارف کروایا تھا۔ فلم کے ایک اداکار سدھیر بھی تھے۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس اردو نغماتی فلم کو اداکار سدھیر کی پہلی بڑی فلم بھی کہا جاتا ہے جو بعد میں فلم انڈسٹری کی ضرورت بن گئے تھے اور بطور ہیرو لازوال کام یابیاں سمیٹی تھیں۔ سبطین فضلی کی فلم دوپٹہ کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا گیا۔

    لاہور میں انتقال کرنے والے سبطین فضلی میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ہفتے میں 4 دن کام، 3 دن آرام: محققین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

    ہفتے میں 4 دن کام، 3 دن آرام: محققین اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

    ہفتے میں 4 دن کام کرنے کا تصور آج کل دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ایک جدید طرزِ عمل ہے جس کا مقصد ملازمین کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا، ذہنی صحت کو بہتر بنانا اور کام و زندگی کے توازن کو فروغ دینا ہے۔

    اسی طرح دنیا بھر میں بھی ملازمت کے اوقات کار تیزی سے بدلتے جارہے ہیں اور کئی ترقی یافتہ ممالک نے ہفتے میں 4 دن کام اور 3 دن آرام کا اصول اپنایا ہے جس سے نہ صرف ملازم کو بلکہ مالک کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

    اس نظام میں ملازمین ہفتے میں صرف چار دن کام کرتے ہیں، جبکہ تنخواہ اور دیگر مراعات وہی رہتی ہیں جو پانچ دن والے ہفتے میں ہوتی ہیں۔ اس کے پیچھے بنیادی خیال یہ ہے کہ کم وقت میں زیادہ موثر کام کیا جا سکے تاکہ ملازمین کو زیادہ آرام ملے، دنیا بھر کی کئی کمپنیاں اس ماڈل کو آزما رہی ہیں اور اس کے مثبت نتائج سامنے آ رہے ہیں، حال ہی میں اسی پر ایک تحقیق کی گئی۔

    تحقیق آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، برطانیہ، آئرلینڈ اور امریکا میں موجود 141 اداروں میں کی گئی، جنہوں نے 6 ماہ کے لیے چار دن ورک ویک کا تجربہ کیا اس تحقیق میں تقریباً 2,900 ملازمین کا مشاہدہ کیا گیا، اور ان کا موازنہ ایسے 12 اداروں کے 290 ملازمین سے کیا گیا جنہوں نے روایتی پانچ دن کا ورک ویک برقرار رکھا۔

    تحقیق کے مطابق چار دن کام کرنے والے ملازمین نے اوسطاً ہفتہ وار پانچ گھنٹے کم کام کیا، جن ملازمین کی ہفتہ وار اوقات کار میں آٹھ یا اس سے زیادہ گھنٹے کی کمی ہوئی، انہوں نے ذہنی تھکن میں واضح کمی اور ذہنی و جذباتی سکون میں نمایاں اضافہ کے بارے میں بتایا۔

    تحقیقی جریدے نیچر ہیومن بیہیویئر میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق جن کمپنیوں نے اپنے ملازمین کی تنخواہ میں کمی کئے بغیر ہفتے میں صرف چار دن دفتر میں کام کرنے کو کہا تو وہاں ملازمین نے کم ذہنی دباؤ، اطمینان سے کام کرنے اور مجموعی طور پر ذہنی و جسمانی صحت میں بہتری کے بارے میں آگاہ کیا۔

    محققین نے جریدے میں اس بات پر بھی زور دیا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ 4 دن کام کی افادیت کو وسیع پیمانے پر جانچا جا سکے، کہ واقعی یہ اصول ہر قسم کے اداروں اور ملازمین کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں، یہ تعارف اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہفتے میں 4 دن کام کرنے کا نظام مستقبل کے کام کے ڈھانچے کو تبدیل کر سکتا ہے۔

  • ’شیر‘ میں ’فہد‘ سے لوگوں کی نفرت میری کامیابی ہے، فیضان شیخ

    ’شیر‘ میں ’فہد‘ سے لوگوں کی نفرت میری کامیابی ہے، فیضان شیخ

    اداکار فیضان شیخ کا کہنا ہے کہ ڈرامہ سیریل ’شیر‘ میں میرے کردار ’فہد‘ سے نفرت میری کامیابی ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’شیر‘ کی 20 قسطیں نشر ہوئیں اور مداحوں کو ڈرامہ اتنا پسند آرہا ہے کہ یہ یوٹیوب پر ٹرینڈز میں شامل ہے۔

    ’شیر‘ میں دانش تیمور اور سارہ خان مرکزی کردار نبھا رہے ہیں۔

    ڈرامے کی دیگر کاسٹ میں فیضان شیخ، ارجمند رحیم، سنیتا مارشل، نادیہ افگن، نبیل ظفر، منزہ عارف، عتیقہ اوڈھو، حسان نیازی، آمنہ ملک، نورین گلوانی ودیگر شامل ہیں۔

    ’شیر‘ کی ہدایت کاری کے فرائض احسن تالش نے انجام دیے ہیں جبکہ اس کی کہانی زنجابیل عاصم شاہ نے لکھی ہے۔

    حالیہ انٹرویو میں فیضان شیخ سے میزبان نے سوال کیا کہ شیر میں آپ ولن بنے ہیں، لوگ آپ سے نفرت کررہے ہیں کیا کہیں کوئی کچھ کہہ رہا ہے؟

    جواب میں فیضان نے کہا کہ کبھی مال چلے جاؤ تو خواتین پکڑ لیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آپ کیا کررہے ہیں، آپ نے شیر کو کیوں پاگل خانے بھجوا دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میں خواتین سے کہتا ہوں کہ آپ دعا کریں شیر اسپتال سے واپس آجائے گا، ویسے اگر کسی کو میرے کردار سے نفرت ہے تو وہ میری جیت ہی ہے۔

    اداکار نے کہا کہ ایک اور نئے پروجیکٹ کی شوٹنگ کررہا ہوں اور مداح مجھے جلد اسکرین پر دیکھیں گے۔

  • دلجیت دوسانجھ بھی سجاد علی کے مداح نکلے

    دلجیت دوسانجھ بھی سجاد علی کے مداح نکلے

    بھارتی پنجاب گلوکار و اداکار دلجیت دوسانجھ بھی پاکستان کے معروف گلوکار سجاد علی کے مداح نکلے۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر بھارتی گلوکار دلجیت دوسانجھ نے ویڈیو شیئر کی جس کے بیک گراؤنڈ میں سجاد علی کا گانا ’راوی‘ واضح طور پر سنا جاسکتا ہے۔

    سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے دلجیت دوسانجھ کی جانب سے سجاد علی کے گانے کو لگانے پر خوب سراہا رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ دلجیت بھارتی فلم ‘سردار جی 3’ میں پاکستانی اداکارہ  ہانیہ عامر کے ساتھ کام کرنے کے بعد بھارت میں تنازع کا شکار ہیں۔

    اس پر سرحد کے دونوں پار فنکار  دلجیت کی حمایت میں سامنے آئے۔ دلجیت کا مؤقف تھا کہ فروری میں فلم کی شوٹنگ ہونے تک سب ٹھیک تھا۔

    یاد رہے کہ دلجیت اور  ہانیہ کی فلم سرادر  جی 3 بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں 27 جون کو ریلیز کی گئی تھی۔

    اس سے قبل بھی دلجیت دوسانجھ پاکستانی گلوکاروں کے گانے سوشل میڈیا پر شیئر کرچکے ہیں۔

  • انٹرویو بورڈ اور بی اے میں فرسٹ ڈویژن….

    انٹرویو بورڈ اور بی اے میں فرسٹ ڈویژن….

    کنہیا لال کپور کو بطور مزاح نگار ہندوستان اور پاکستان میں‌ بہت مقبولیت ملی اور ان کی طنزیہ تحریریں‌ اور کالم بہت ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ کنہیا لال کپور نے کئی برس اپنے قلم کا جادو جگایا اور متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    ان کی ایک مزاحیہ تحریر قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    پطرؔس میرے استاد تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تب ہوئی جب گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لینے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انٹرویو بورڈ تین اراکین پر مشتمل تھا۔ پروفیسر ڈکنسن (صدر شعبہ انگریزی) پروفیسر مدن گوپال سنگھ اور پروفیسر اے ایس بخاری۔

    گھر سے خوب تیار ہو کر گئے تھے کہ سوالات کا کرارا جواب دے کر بورڈ کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں گے، مگر بخاری صاحب نے ایسے سوال کیے کہ پسینے چھوٹنے لگے۔ جونہی کمرے میں داخل ہو کر آداب بجا لائے انھوں نے خاکسار پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ’’آپ ہمیشہ اتنے ہی لمبے نظر آتے ہیں یا آج خاص اہتمام کر کے آئے ہیں؟‘‘ لاجواب ہو کر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔

    ’’آپ شاعر ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’دیکھنے میں تو آپ مجنوں گورکھپوری نظر آتے ہیں۔‘‘

    پروفیسر مدن گوپال سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

    ’’بخدا ان کی شکل خطرناک حد تک مجنوںؔ گورکھپوری سے ملتی ہے۔‘‘ پھر میری جانب متوجہ ہوئے۔ ’’آپ کبھی مجنوں گورکھپوری سے ملے ہیں؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘

    ’’ضرور ملیے۔ وہ آپ کے ہم قافیہ ہیں۔‘‘

    پھر پوچھا۔ ’’یہ آپ کے سرٹیفکیٹ میں لکھا ہے کہ آپ کتابی کیڑے ہیں، جانتے ہو کتابی کیڑا کسے کہتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔ جو شخص ہروقت مطالعہ میں منہمک رہتا ہے۔‘‘

    ’’کتابی کیڑا وہ ہوتا ہے، جو کتاب کے بجائے قاری کو کھا جاتا ہے۔‘‘

    پروفیسر ڈکنسن نے بخاری صاحب سے دریافت کیا۔ ’’ان کے بی اے میں کتنے نمبر آئے تھے؟‘‘

    انھوں نے میرا ایک سرٹیفیکیٹ پڑھتے ہوئے جواب دیا۔ ۳۲۹ فرسٹ ڈویژن۔

    ’’تو پھر کیا خیال ہے؟‘‘ پروفیسر مدن گوپال سنگھ نے پوچھا۔

    بخاری صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔

    ’’ داخل کرنا ہی پڑے گا۔ جو کام ہم سے عمر بھر نہ ہوسکا وہ انھوں نے کردیا۔

    پروفیسر ڈکنسن نے چونک کر پوچھا۔ ’’کون سا کام بخاری صاحب؟‘‘

    سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے فرمایا۔

    ’’یہی بی اے میں فرسٹ ڈویژن لینے کا۔‘‘

  • علیزے شاہ اور منسا ملک کا جھگڑا، سمیع خان نے ساری کہانی بیان کردی

    علیزے شاہ اور منسا ملک کا جھگڑا، سمیع خان نے ساری کہانی بیان کردی

    اداکار سمیع خان نے اداکارہ علیزے شاہ اور منسا ملک کے درمیان ہونے والی لڑائی کی کہانی بیان کردی۔

    اداکارہ علیزے شاہ اور منسا ملک کے درمیان لڑائی کی خبریں سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں اب ڈرامے کے مرکزی کردار سمیع خان نے بھی ذکر کیا ہے۔

    گزشتہ دنوں علیزے شاہ نے اپنے ساتھ پیش آئے واقعے کو سوشل میڈیا پر کھل کر بیان کیا اور پورا قصہ بتایا کہ ڈرامے کے سیٹ پر منسا ملک نے پہلے انہیں تھپڑ مارا جس کے جواب میں انہوں نے بھی چپل دے ماری لیکن منسا ملک نے سوشل میڈیا پر مجھے ہی تنقید کانشانہ بنایا جس سے ناصرف میرا کام بلکہ زندگی بھی متاثر ہوئی۔

    یہ پڑھیں: شازیہ منظور نے ریمپ پر جان بوجھ کر دھکا دیا، علیزے شاہ

    تاہم اب ایک پروگرام میں سمیع خان نے اداکاراؤں کے نام لیے بغیر ان کے درمیان ہونے والی لڑائی کی حقیقت بتاتے ہوئے کہا کہ وہ میک روم میں بیٹھے فون کال پر اپنا ضروری کام کررہے تھے کہ ایک اداکارہ آئی اور مجھے کہنے لگی کہ میں نے کردیا، جو مجھے سمجھ نہیں آیا لیکن اتنی ہی دیر میں دوسری اداکارہ اندر داخل ہوئی، دونوں کے درمیان لفظی تکرار ہوئی اورپھر چپل اٹھا کر پھینکی گئی جو دیوار پر جا لگی۔

    انہوں نے کہا کہ میں ضروری کال پر تھا تو اٹھ کر باہر چلا گیا اور پھر فری ہونے کے بعد پورا ماجرا پوچھا۔

    اداکار نے مزید کہا کہ سیٹ پر کسی کو بھی ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے، اگر کوئی مسئلہ تھا تو ڈائریکٹر سے بات کرنی چاہیے تھی لیکن اچھی بات یہ ہے کہ جس اداکار کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی اس نے اپنے ڈرامے کی شوٹنگ کا کام مکمل کیا۔