Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    فلمی دنیا میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے گیتا دَت کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے، جن کی آواز میں کئی فلمی نغمات آپ نے بھی سنے ہوں گے۔ ان گانوں پر اپنے زمانے کی مقبول ترین فلمی جوڑیوں نے پرفارمنس دی۔ گیتا دَت 1972ء میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں۔ ان کی شادی نام ور بھارتی فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے ہوئی تھی۔

    گلوکارہ گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، اس وقت کے مغربی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور وہاں گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران ان کی ملاقات نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ہوئی۔ ان کے مابین بات چیت آگے بڑھی اور رومان کا سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔ 1957ء میں گرو دت نے انھیں اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں بطور اداکارہ بھی متعارف کروایا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ دراصل 1953 میں شادی کے بعد جب وہ دو بیٹوں کے والدین بنے تو گیتا دت یہ محسوس ہوا کہ وہ فلمی دنیا میں ناکام ہورہی ہیں کیوں اس وقت لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے کو اہمیت دی جانے لگی تھی۔ ادھر گیتا کے شوہر فلم سازی میں بے انتہا مصروف ہوگئے تھے اور دوسری طرف ان کے اداکاراؤں سے افیئرز کی باتیں بھی گیتا کو سننے کو مل رہی تھیں۔ ان کے درمیان دوریاں بڑھنے لگی تھیں اور اسی دور میں گرو دت کو اداکارہ وحیدہ رحمان سے عشق ہو گیا۔

    گیتا کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ بطور گلوکارہ تیزی سے زوال نے پہلے ہی گیتا کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور پھر شوہر کی بے اعتنائی نے بھی گیتا کو مایوس کیا۔ انھوں نے شراب نوشی شروع کردی۔ ایک روز گرو دت کی اچانک موت نے فلم انڈسٹری کو حیران کردیا۔ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ انھوں نے وحیدہ رحمان کے شادی سے انکار کرنے پر خود کشی کی ہے۔ شوہر کی ناگہانی موت کے بعد گیتا دت مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔ کہتے ہیں کہ وہ شکی اور حاسد طبیعت کی مالک تھیں۔ اسی عادت کی بنا پر فلمی دنیا میں گرو دت کے تعلقات کو سر پر سوار کرلیا تھا۔ دوسری طرف ایک اور بات ہوئی اور مشہور ہے کہ گیتا توہمات میں گھر کر بدروح یا جادو ٹونے پر یقین کرنے لگی تھیں۔ شوہر سے کشیدہ تعلقات کے دوران ہی وہ اپنے پالی ہل کے بنگلے میں شفٹ ہوئے تھے، جہاں مزید لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے نجانے کس کے کہنے پر گیتا نے بنگلے کو اپنے لیے منحوس سمجھنا شروع کردیا۔ لیکن وہ کچھ نہیں کرسکیں اور پھر گرو دت کی موت واقع ہوگئی۔

    گرو دت کی موت کے بعد گیتا دت نے دوبارہ گلوکاری کے میدان میں قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا۔ پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار نبھایا۔ انھوں نے 1971ء میں فلم ’’انوبھؤ‘‘ کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ لیکن زندگی کا وہ پیار اور سکھ ان کو نصیب نہیں ہوا جس کا لطف انھوں نے اپنے فلمی کیریئر اور گرو دت سے شادی کے ابتدائی زمانہ میں لیا تھا۔

    سب مانتے ہیں کہ ان کی آواز بلاشبہ بہت دل کش تھی۔ کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے گیتا دت کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جاؤ سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے بھی گیتا دت کی یاد دلاتے ہیں۔

  • یادِ رفتگاں: وحشت کلکتوی

    یادِ رفتگاں: وحشت کلکتوی

    وحشت کلکتوی کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے

    زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا
    ہماری بے کسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا

    ایک حساس طبع اور جذبات کی شدت کے ساتھ مصائب و آلام کو تڑپ کے بیان کرنے والے وحشت کلکتوی کا تعلق مغربی بنگال سے تھا۔ وہ کولکتہ میں پیدا ہوئے تھے اور بعد میں اس شہر کو خیرباد کہہ دیا تھا۔

    نوجوانوں اور ادب کے نئے قارئین کے لیے شاید یہ قلمی نام یا تخلّص کچھ عجیب سا ہو، مگر اس دور میں شعرا اسی طرح تخلّص رکھا کرتے تھے۔ آپ نے فانی، درد، حسرت، دلگیر وغیرہ کا تذکرہ شاید سنا ہو۔ کلاسیکی دور کے شعرا میں یہ تخلّص عام تھے۔ وحشت کی بات کریں تو انھیں مضمون آفرینی اور ندرتِ خیال کے سبب پسند کیا جاتا تھا۔ سادگی و سلاست کے ساتھ بات سے بات نکالنے کا ڈھنگ وحشت کلکتوی خوب جانتے تھے۔ شعریت ان کے کلام کا ایک بنیادی وصف معلوم ہوتی ہے۔

    وحشت کلکتوی کا اصل نام رضا علی تھا۔ انھیں اردو ادب میں ان کے قلمی نام وحشت کلکتوی سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے فن و شخصیت پر کتابیں بھی موجود ہیں اور ادبی مضامین لکھنے والوں نے انھیں اور ان کی شاعری کو موضوع بنایا ہے۔ وحشت کی شعری تصانیف میں ”مضامینِ وحشت، ترانۂ وحشت، اور دیوانِ وحشت‘‘ قابل ذکر ہیں۔

    1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بہت سے مسلمان خاندان مغربی بنگال کے علاقوں میں جا بسے تھے۔ ان میں ضلع ہُگلی، مرشد آباد اور کلکتہ (اب کولکتہ) کے خاندان بھی شامل ہیں۔وحشت کے خاندان کے لوگ بھی دہلی سے نکل کر بنگال چلے گئے تھے۔ لیکن ان کے والد سید شمشاد علی کلکتہ میں رہائش پذیر ہوئے جہاں 18 نومبر 1881ء کو وحشت کلکتوی نے آنکھ کھولی۔ اس دور میں کلکتہ ایک بڑا شہر تھا اور برطانوی حکومت نے اسے دارالحکومت بنایا ہوا تھا۔ بعد میں یہ حیثیت دہلی کو دی گئی تھی۔ وحشت نے کلکتہ میں مدرسہ عالیہ میں تعلیم حاصل کی۔ ان کی شاعری کا آغاز چھوٹی عمر میں ہی ہوگیا تھا۔ وحشت کے اتالیق معروف شاعر عبدالقاسم شمس کلکتوی تھے جن سے وحشت نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ بعد میں وحشت اردو اور فارسی کے مدرس مقرر ہوئے اور مشاعروں میں بھی شریک ہونے لگے۔ ایک وقت تھا کہ مرشد آباد ، عظیم آباد ، ڈھاکہ، ہوگلی جیسے بڑے بڑے شہروں میں ان کے شاگردوں کی بڑی تعداد رہی تھی۔ ان کا شمار اساتذہ میں ہونے لگا تھا۔ تدریس کے ساتھ ان کے ادبی مشاغل اور مصروفیات جاری تھیں کہ کولکتہ میں فسادات شروع ہوگئے اور وحشت کلکتوی نے مجبورا اپنا شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا وہ 1950ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں جا بسے تھے۔ وہیں 20 جولائی 1956 کو ان کا انتقال ہوا۔

    وحشت کلکتوی نے شاعری کے علاوہ زبان و بیان اور قواعدِ اردو پر ایک کتاب بھی تحریر کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اردو غزل کی کلاسیکی روایت کو خوبصورتی سے آگے بڑھایا۔ ان کے کلام میں جمالیاتی طرز احساس عروج پر نظر آتا ہے۔

    ان کا یہ شعر دیکھیے:
    کسی صورت سے اس محفل میں جا کر
    مقدر ہم بھی دیکھیں آزما کر

    وحشت کو بنگال کا غالب کہا جاتا تھا۔ انھیں یہ لقب الطاف حسین حالی جیسے ممتاز ادیب، نقاد اور شاعر نے دیا تھا۔ اردو اور فارسی کے اس معروف شاعر کو ڈھاکہ کے عظیم پورہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔​

  • کولڈ پلے کے لیڈ سنگر کی کنسرٹ سے پہلے شائقین کو دلچسپ وارننگ، ویڈیو وائرل

    کولڈ پلے کے لیڈ سنگر کی کنسرٹ سے پہلے شائقین کو دلچسپ وارننگ، ویڈیو وائرل

    (21 جولائی 2025): کولڈ پلے کے لیڈ سنگر کرس مارٹن نے اپنے حالیہ کنسرٹ کے دوران وائرل ”کِس کیم“ تنازعے کے تناظر میں اسٹیڈیم میں موجود شائقین کو خبردار کر دیا۔

    بدھ 16 جولائی کے روز، فاکسبورو، میساچوسٹس میں کولڈ پلے کنسرٹ کے دوران، جَمبوٹرون کیمرہ ایک مرد اور خاتون پر زوم کر گیا، جو مجمع میں گلے مل رہے تھے۔

    تاہم جب اس جوڑے نے خود کو بڑی اسکرین پر دیکھا تو وہ حیران اور پریشان نظر آئے، مرد کیمرے سے جھک کر نکل گیا اور عورت نے اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپایا اور پیچھے گھوم گئی۔

    کولڈ پلے کے گلوکار کرس مارٹن نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ اوہ اوہ، کیا؟ یا تو ان کا معاشقہ چل رہا ہے یا وہ بہت شرمیلے ہیں۔

    چند ہی گھنٹوں میں، انٹرنیٹ صارفین نے اس مرد کی شناخت ایسٹرونومر کے سی ای او اینڈی بائرن کے طور پر کرلی، اور کہا گیا کہ ساتھ موجود خاتون کمپنی کی چیف پیپل آفیسر کرسٹن کیبوٹ تھیں، اور دعویٰ کیا گیا کہ دونوں کا دفتر میں ناجائز تعلق ہے۔

    رائٹرز کے مطابق کمپنی کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ویڈیو میں نظر آنے والے دونوں افراد کمپنی کے ملازم ہیں، اس واقعے کے بعد گزشتہ روز امریکی ٹیک کمپنی ’ایسٹرونومر‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اینڈی بائرن نے شدید تنقید کے بعد استعفیٰ دے دیا۔

    تاہم اب برطانوی بینڈ کولڈ پلے کے لیڈ سنگر کرس مارٹن نے اپنے حالیہ کنسرٹ کے دوران وائرل ”کِس کیم“ تنازعے کے تناظر میں اسٹیڈیم میں موجود شائقین کو خبردار کر دیا۔

    19 جولائی کے کنسرٹ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں انہوں نے حاضرین کو اچانک کیمروں کے لیے تیار رہنے کا کہا ہے۔

    وسکونسن کے رینڈل اسٹیڈیم میں اسٹیج پر کہا مارٹن نے کہا  میں آپ لوگوں میں سے کچھ لوگوں کو ہیلو کہنا چاہتا ہوں لیکن ہم یہ کیسے کریں گے؟ ہم اپنے کیمرے استعمال کریں گے اور آپ میں سے کچھ کو بڑی اسکرین پر دکھائیں گے۔

    مارٹن نے گٹار بجاتے ہوئے مذاق میں بولا، "تو، براہ کرم، اگر آپ نے اپنا میک اپ نہیں کیا ہے، تو ابھی اپنا میک اپ کرلیں”، مارٹن کی اس وارننگ کے ان کے پچھلے کنسرٹ سے جوڑا جارہا ہے۔

    ویڈیو: کولڈ پلے کے کانسرٹ میں امریکی کمپنی کے سی ای او کا بھانڈا پھوٹ گیا

    کولڈ پلے کنسرٹ میں ویڈیو وائرل، امریکی ٹیک کمپنی کے سربراہ نے استعفیٰ دیدیا

  • مہوش حیات ساحر لودھی کے دفاع میں سامنے آگئیں

    مہوش حیات ساحر لودھی کے دفاع میں سامنے آگئیں

    (21 جولائی 2025): پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ مہوش حیات آن لائن ٹرول ہونے والے ساحر لودھی کے دفاع میں سامنے آگئیں ہیں۔

    اداکار و میزبان ساحر لودھی ایک بار پھر سوشل میڈیا پر ایکٹیو نظر آرہے ہیں، ان کی روزمرہ کی مصروفیات پر مبنی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں اور عوام کو ان کا انداز بےحد پسند آ رہا ہے۔

    تاہم ان ویڈیوز کی مقبولیت کے بعد پاکستان کے کئی معروف فنکاروں نے ساحر لودھی کی نقالی پر مبنی ویڈیوز بنانا شروع کردیں، ان میں فیصل قریشی، یاسر نواز اور اعجاز اسلم شامل ہیں۔

    کبھی شاہ رخ خان بننے کی کوشش نہیں کی، ساحر لودھی

    سب سے پہلے ویڈیو یاسر نواز نے بنائی، جس کے بعد دیگر فنکاروں نے بھی اسی طرز پر ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں، اس پر پاکستانی اداکارہ نے ردِ عمل دیا ہے۔

    اداکارہ نے کہا کہ ساحر لودھی نے اس سخت اور مسابقتی انڈسٹری میں اپنی جگہ بنائی اور آج بھی اپنے مقام پر ہیں، کسی کے انداز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر بنیادی احترام کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ معاشرے میں نرمی اور رواداری کی ضرورت ہے ہمیں طنز و تمسخر کی بجائے ایک دوسرے کو سہارا بننا چاہیے۔

  • عرفی جاوید کا چہرہ بگڑ گیا، ویڈیو وائرل

    عرفی جاوید کا چہرہ بگڑ گیا، ویڈیو وائرل

    منفرد فیشن سینس اور بولڈ شخصیت کی وجہ سے مشہور بھارتی اداکارہ و ماڈل عرفی جاوید کو سرجری کرانا مہنگا پڑگیا۔

    سوشل میڈیا کی فیشن آئیکن عرفی جاوید ایک بار پھر سرخیوں میں آگئیں لیکن اس بار ان کے فیشن کے انتخاب کے لیے نہیں، بلکہ ان کے پھولے ہوئے چہرے کی وجہ سے جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔

    ویڈیو میں عرفی جاوید کا نمایاں طور پر سوجا ہوا چہرہ دکھایا گیا ہے، عرفی جاوید نے اتوار کو اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کی ویڈیو میں انہیں ایک اسپتال میں دکھایا گیا ہے، جو ہونٹوں کی سرجری سے گزر رہی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Uorfi (@urf7i)

    ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ ایک ڈاکٹر ماڈل کے ہونٹوں پر انجکشن لگا رہا ہے اور عرفی درد سے سر جھکا کر بیٹھی ہیں، اس سرجری کے بعد اداکارہ کے ہونٹ اور چہرہ سوج گئے تاہم وہی ویڈیو میں مسکرا رہی ہے اور یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے۔

    ویڈیو کے کیپشن میں عرفی نے لکھا "نہیں، یہ کوئی فلٹر نہیں ہے میں نے اپنے فلرز کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ غلط جگہ پر فل کیا گیا تھا، میں انہیں دوبارہ کرواؤں گی۔ میں فلرز کے بالکل خلاف نہیں ہوں لیکن فلر ہٹانا تکلیف دہ ہے۔

    عرفی جاوید نے فلرز کروانے والوں کو ایک مشورہ بھی دیا ہے انہوں نے کہا کہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ آپ فلرز کے لیے کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس جائیں یہ فینسی کلینک کے ڈاکٹروں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا ہے۔”

    دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین نے اداکارہ عرفی جاوید کی ویڈیو دیکھنے کے بعد اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا جس میں ان کا چہرہ نمایاں طور پر سوجا ہوا نظر آ رہا ہے۔

  • شاہ رخ خان شوٹنگز کے دوران کتنی بار زخمی ہوئے؟

    شاہ رخ خان شوٹنگز کے دوران کتنی بار زخمی ہوئے؟

    ممبئی : بھارتی فلموں کے سپر اسٹار شاہ رخ خان کو ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہونے کی متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

    گزشتہ دنوں بھارتی میڈیا نے ایک رپورٹ دی تھی کہ شاہ رخ خان ممبئی میں گولڈن ٹوبیکو اسٹوڈیو میں فلم ’کنگ‘ کے ایک ایکشن سین کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہوئے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق اگرچہ زخمی ہونے کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں تاہم انہیں علاج کیلیے امریکا روانہ کر دیا گیا ہے لیکن اب بھارتی چینل این ڈی ٹی وی نے ان تمام اطلاعات کی تردید بھی کی ہے۔

    اب اس بات تصدیق، تردید یا حقیقت کچھ وقت گزرنے بعد ہی عیاں ہوگی، لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کنگ خان اس سے قبل بھی متعدد بار شوٹنگ کے دوران زخمی ہوچکے ہیں، جن میں سے کچھ وقتاً فوقتاً دوبارہ تکلیف دیتی ہیں اس علاج اور دیکھ بھال کے لیے وہ اکثر امریکا کا سفر کرتے ہیں۔

    کنگ خان کن فلموں کی شوٹنگ کے دوران زخمی ہوئے؟

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ان کے پرستار اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ کسی اسٹنٹ کے بجائے اپنے ایکشن زیادہ تر خود ہی شوٹ کرواتے ہیں جس کے سبب وہ کئی بار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

    اس سے قبل بھی ایسی خبریں میڈیا پر شائع ہوتی رہی ہیں کہ 2002میں بننے والی فلم ‘شکتی: دی پاور’ کی عکس بندی کراتے ہوئے انہیں کمر میں شدید تکلیف کی شکایت ہوئی، جس کے بعد انہوں نے برطانیہ میں ریڑھ کی ہڈی کی سرجری کروائی تھی۔

    اس سے قبل سال 1993 میں مشہور فلم ’ڈر‘ کی شوٹنگ کے موقع پر انہیں پسلیوں کی ہڈی کے فریکچر کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    اس کے علاوہ 1997 میں فلم کوئلہ کی شوٹنگ کرتے ہوئے گھٹنے میں زخم اور 2011 میں فلم ‘را-ون’ کی عکس بندی کے دوران ایک بار پھر گھٹنے میں شدید چوٹ آئی تھی۔

    شاہ رخ خان کو سال 2007 میں فلم ‘دلہا مل گیا’ اور سال 2008 میں فلم ‘مائی نیم از خان’ کی شوٹنگ کرتے ہوئے کندھے میں چوٹ لگی اور اس طرح کے دیگر واقعات میں وہ اکثر اندرونی اور بیرونی تکالیف کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ فلم ’کنگ‘ شاہ رخ خان کیلیے اہم پروجیکٹ ہے جس میں ان کی بیٹی سہانا سمیت ابھیشیک بچن، رانی مکھرجی، دپیکا پڈوکون، ارشد وارثی، ابھے ورما، انیل کپور، جیکی شروف، راگھو جوئیل، جئے دیپ اہلاوت اور دیگر شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں : شاہ رخ خان فلم ’کنگ‘ کے سیٹ پر زخمی ہوگئے، علاج کیلیے امریکا روانہ

    اگرچہ فلم کی ریلیز کی تاریخ کا اعلان باضابطہ طور پر نہیں کیا گیا ہے لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سال 2026 میں ریلیز کی جائے گی۔ فی الحال مداح سُپر اسٹار کی جلد صحت یابی اور سیٹ پر جلد واپسی کے لیے دعاگو ہیں۔

  • عالیہ بھٹ نے اپنے گھر کے دو ملازموں کو 50، 50 لاکھ کا تحفہ کیوں دیا؟

    عالیہ بھٹ نے اپنے گھر کے دو ملازموں کو 50، 50 لاکھ کا تحفہ کیوں دیا؟

    بالی ووڈ کی معروف اداکارہ اور رنبیر کپور کی اہلیہ عالیہ بھٹ نے اپنے گھر کے دو ملازموں کو 50، 50 لاکھ کا تحفہ دے کر سب کو حیران کردیا۔

    بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق عالیہ بھٹ نہ صرف بہترین اداکارہ ہیں بلکہ ان کا دل بھی بہت بڑا ہے، انھوں نے 2019 میں اپنے ڈرائیور اور ملازمہ کو 50، 50 لاکھ روپے فی کس دیے تاکہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلیں اور اپنا گھر بناسکیں۔

    عالیہ نے تقریباً 6 سال قبل اپنے ڈرائیور سنیل اور گھریلو ملازمہ امول کو اپنا گھر خریدنے کیلئے یہ رقم دی کیوں کہ وہ دنوں کافی عرصے سے اداکارہ کے ملازم ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق 2012 سے عالیہ کے ڈرائیور اور ملازمہ اداکارہ کیلئے فرائض نبھارہے ہیں اور دونوں ان کے گھر کے فرد جیسے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں ملازمین کو اداکارہ نے 50 ، 50 لاکھ کی رقم تحفے میں دی۔

    اداکارہ نے جو رقم ملازمین کو دی انھوں نے اس سے ممبئی میں گھر خریدے، عالیہ بھٹ نے 2019 میں ملازمین کو یہ خاص تحفہ دیا جس دن ان کی سالگرہ تھی۔

  • کپل شرما نے اپنے کیفے پر فائرنگ کے بعد بڑا فیصلہ کرلیا

    کپل شرما نے اپنے کیفے پر فائرنگ کے بعد بڑا فیصلہ کرلیا

    بھارت کے معروف کامیڈین کپل شرما نے کینیڈا میں اپنے کیفے پر فائرنگ کے بعد اسے دوبارہ سے کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    بالی ووڈ اداکار و کامیڈین کپل شرما کینیڈا میں اپنے کیفے کو دوبارہ سے صارفین کی آمدورفت کے لیے کھولنے کو تیار ہیں، کپل اور ان کی اہلیہ گنی چترات نے جولائی کے شروع میں سرے، کینیڈا میں کیپس کیفے کھولا تھا۔

    اس کے افتتاح کے فوراً بعد، کیفے کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے عارضی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔

    کپل شرما نے انسٹاگرام پوسٹ میں کیفے کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا، انھوں نے صارفین کےلیے لکھا کہ ہم نے آپ کو مس کیا اور آپ کی سپورٹ کےلیے شکریہ، دل کی گہرائیوں شکریہ کے ساتھ ہم اپنا ریستورنٹ دوبارہ کھول رہے ہیں۔

    کچھ دنوں قبل بھارتی کامیڈین کپل شرما کے کیفے پر فائرنگ نے اداکا کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا تھا، واقعے کی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی۔

    کینیڈا کے شہر سرے میں کامیڈین کپل شرما نے نیا کیفے کھولا تھا مبینہ طور پر نامعلوم حملہ آوروں نے اسے شدید فائرنگ کا نشانہ بنا ڈالا، اس واقعے کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہیں جس میں حملہ آور اندھا دھند فائرنگ کررہا تھا۔

    ذرائع کے مطابق ہرجیت سنگھ لادی نامی شخص نے مبینہ طور پر کپل شرما کے ماضی کے تبصرے کے جواب میں گولی چلانے کا حکم دیا، ایک شو کے دوران مبینہ طور پر کامیڈین کے تبصرے ہرجیت کو ناگوار گزارے تھے۔

    https://urdu.arynews.tv/kapil-sharma-cafe-firing-making-fun-show-video/

  • بروس لی: فلمی اداکار اور مارشل آرٹ کے ماہر کا تذکرہ

    بروس لی: فلمی اداکار اور مارشل آرٹ کے ماہر کا تذکرہ

    بروس لی کا تذکرہ جب بھی ہوگا تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ان خوش نصیب اداکاروں میں سے ایک تھا جس نے اپنی زندگی میں لاکھوں دلوں پر راج کیا اور اس کی ناگہانی موت پر یہ ثابت ہوا کہ مداح اسے جنون کی حد تک چاہتے تھے۔ سنجیدہ اور پُراعتماد شخصیت کے مالک بروس لی نے 70 کی دہائی میں عالمی سنیما میں تہلکہ مچا دیا تھا۔

    بروس لی کی پہلی فلم بگ باس تھی جس نے ایشیائی ممالک میں زبردست بزنس کیا اور بروس لی کو غیرمعمولی شہرت ملی۔ اداکار نے ہانگ کانگ میں 32 سال کی عمر میں اپنی موت سے قبل صرف پانچ فلموں میں کام کیا تھا اور ان میں سے بھی صرف تین فلمیں ہی اس کی زندگی میں ریلیز ہو سکی تھیں۔ اس کے باوجود وہ ایک لازوال کردار اور موت کے بعد اساطیر بن کر ابھرا۔

    بروس لی مارشل آرٹ کا ماہر ایسا اداکار تھا جس کی زندگی آج بھی کئی لوگوں‌ کے لیے پراسرار اور اس کی موت ایک معمہ ہے۔ بروس لی نے لنڈا نامی لڑکی سے شادی کی تھی جو مارشل آرٹ میں اس کی شاگرد تھی۔ اس جوڑے کے گھر شینن لی نے جنم لیا اور یہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی۔ شینن لی کی عمر چار برس تھی جب اس کے والد اور مارشل آرٹ کے شہنشاہ بروس لی حادثاتی موت کا شکار ہوا۔ 27 نومبر 1940ء کو پیدا ہونے والا بروس لی کی زندگی کا سفر 20 جولائی 1973ء میں‌ تمام ہوگیا تھا۔ وہ ہانگ کانگ کا باسی تھا اور پھر امریکہ منتقل ہوگیا تھا جہاں اس نے ہانگ کانگ کا مارشل آرٹس بھی متعارف کروایا۔ بروس لی نے اداکاری ہی نہیں بلکہ بطور ہدایت کار اور مارشل آرٹ کے ماہر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بروس لی نے فلم کی دنیا میں کنگ فو میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کر کے ایک نئی اور دل چسپ طرز پیدا کی۔

    بروس لی کو تعلیمی اعتبار سے ذہین نہیں سمجھا جاتا تھا اور اسے 18 سال کی عمر میں امریکہ بھیج دیا گیا۔ یونیورسٹی میں بروس لی چینی مارشل آرٹ سکھانے لگا اور شادی کے بعد وہ امریکی ریاست کیلیفورنیا منتقل ہو گیا جہاں اس نے پہلا ٹی وی سیريل ’دا گرین ہارنٹ‘ کیا۔ مارشل آرٹ کے ساتھ بروس لی کو اداکاری سے بھی عشق ہوگیا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ ہالی وڈ کی کسی فلم میں مرکزی کردار حاصل کرے، لیکن متعدد کوششوں کے بعد اسے مایوسی ہوئی اور پھر اس نے ہانگ کانگ واپسی کا فیصلہ کرلیا۔

    1973ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”انٹر دی ڈریگن‘‘ میں کنگ فو لیجنڈ بروس لی کو آخری بار دیکھا گیا۔ اس فلم نے زبردست بزنس کیا۔ اداکار کی دیگر بہترین فلموں میں ”وے آف دا ڈریگن‘‘ اور ”فسٹ آف فیوری‘‘ شامل ہیں۔

    نوجوانی میں بروس لی کی اچانک موت پر قیاس آرائیوں کا طوفان کھڑا ہوگیا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی بے انتہا مقبولیت اور فلموں کی کام یابی سے حسد کرنے والے کسی شخص نے بروس لی کو زہر دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور باتیں کی گئیں اور بعد میں اس کی پراسرار موت سے متعلق تحقیق بھی کی جاتی رہی۔ تاہم تفتیش کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی وہ بتاتی ہے کہ اداکار نے اس روز پانی پینے کے بعد سر درد کی شکایت کی تھی اور ایک درد کش دوا کھانے کے دو گھنٹے بعد اس کی موت واقع ہوگئی تھی۔

  • ابنِ مقلہ کا تذکرہ جن کا شمار اسلامی دنیا کے تین بڑے خطّاطوں میں ہوتا ہے

    ابنِ مقلہ کا تذکرہ جن کا شمار اسلامی دنیا کے تین بڑے خطّاطوں میں ہوتا ہے

    عالمِ اسلام میں‌ خوش نویسی بالخصوص قرآنی آیات کی خطّاطی کو ہر دور میں اہمیت دی گئی ہے۔ فنِ خطّاطی کو باعثِ برکت و اعزاز بھی سمجھا جاتا ہے اور خوش نویس اس سے روحانی مسرّت حاصل کرتے ہیں۔ عباسی دورِ خلافت میں اس فن میں ابنِ مقلہ نے بڑا کمال حاصل کیا اور نام ور ہوئے۔ ابنِ مقلہ نے اس فن کو قواعد و ضوابط دینے کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر بھی متعارف کروائے۔

    ابنِ مقلہ کے زمانہ میں بغداد کو اسلامی دنیا کے بڑے علمی و ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ ابنِ مقلہ بغداد کے تین مشہور خطّاطوں میں سے ایک تھے جو 20 جولائی 940ء کو وفات پاگئے تھے۔ محققین نے استاد خطّاط ابنِ مقلہ کا سنہ پیدائش 886ء لکھا ہے۔ ان کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب کے ساتھ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت رکھتے تھے۔

    ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر بھی رہے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا وہ اس عہد میں سیاسی امور میں‌ بھی عمل دخل رکھتے تھے۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ غیرمعروف اور ایک غریب شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ میں تین مرتبہ وزیر بنائے گئے۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

    کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر وہ ایک سازش کا شکار ہوئے اور انھیں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ یوں ظاہر ہے کہ ہر قسم کا مرتبہ اور عہدہ ان کے ہاتھ سے چلا گیا، لیکن وقت گزرا تو حالات بہتر ہوئے تو دوبارہ ان کی رسائی دربار تک ہوئی اور انھوں نے اپنا مقام و مرتبہ حاصل کرلیا۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں بڑا عروج حاصل ہوا۔ لیکن اس مرتبہ پھر وہ محلّاتی سازشوں کی وجہ سے درباری مراتب سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس بار قید و اذیت بھی جھیلنا پڑی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ ابنِ مقلہ کا انتقال دورانِ‌ قید ہی ہوگیا تھا۔

    ان سرکاری عہدوں اور اثر رسوخ کے علاوہ وہ بغداد میں فن خطّاطی کے ایک ماہر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے اور ہر خاص و عام میں‌ ان کی بہت عزّت تھی۔ ابنِ مقلہ کو مؤرخین نے عباسی دور کی ایک قابل اور معاملہ فہم شخصیت بھی لکھا ہے اور انہی خصوصیات کی وجہ سے انھیں دربار میں اہمیت دی جاتی تھی۔

    اکبر نامہ کے مصنّف اور مشہور مؤرخ ابوالفضل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔