Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • سبینا فاروق نے ’رشتے‘ کے لیے تصویر شیئر کردی

    سبینا فاروق نے ’رشتے‘ کے لیے تصویر شیئر کردی

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ سبینا فاروق نے رشتے کے لیے تصویر شیئر کردی۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ سبینا فاروق نے سیاہ لباس میں خوبصورت تصویر شیئر کی جسے مداحوں کی جانب سے خوب سراہا جارہا ہے۔

    سبینا فاروق نے لکھا کہ ’رشتہ پکچر، لیکن میں کسی کو تلاش نہیں کررہی۔‘

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sabeena Farooq (@sabeena_farooq)

    اداکارہ نے چند گھنٹوں قبل یہ تصویر شیئر کی جسے ہزاروں کی تعداد میں مداح دیکھ چکے ہیں اور اس پر تبصرے بھی کررہے ہیں۔

    یہ پڑھیں: ’سمجھ نہیں آتا کس سے شادی کروں‘

    مداحوں نے لکھا کہ آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں۔‘ اداکارہ کے کیپشن پر ایک مداح نے لکھا کہ ’یہ بھی ٹھیک ہے۔‘

    اس سے قبل انٹرویو میں سبینا فاروق نے کہا تھا کہ میرے پاس تو آپشن اتنے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کس سے شادی کرنی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Sabeena Farooq (@sabeena_farooq)

    سبینا فاروق نے بتایا تھا کہ ان کا تعلق پنڈی سے ہے اور ڈرامہ انڈسٹری میں ان کا آڈیشن بہت ہی برا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ آڈیشن برا ہونے کے باوجود ڈائریکٹر نے پہچان لیا تھا کہ وہ مجھے کردار سمجھائیں گے تو میں کرلوں گی۔

    سبینا فاروق کا کہنا تھا کہ ’گھر والے اداکاری کے راضی نہیں تھے میری بڑی بہن نے سپورٹ کیا اور والدین سے کہا کہ اسے جانے دیں جس کے بعد کراچی آگئی۔

    اداکارہ کا کہنا تھا کہ بڑی بہن نے میرے لیے مار بھی کھائی ہے اور میری کامیابی کے پیچھے بہن کا ہاتھ ہے۔

  • اکشے کمار کی اسٹیڈیم میں موجودگی بھارتی ٹیم کی شکست کی وجہ بن گئی ؟

    اکشے کمار کی اسٹیڈیم میں موجودگی بھارتی ٹیم کی شکست کی وجہ بن گئی ؟

    لارڈز کے میدان میں بالی ووڈ اداکار اکشے کمار بھارتی ٹیم کو سپورٹ کرنے کے لیے میدان میں موجود تھے لیکن شبھمن گل الیون کو شکست ہوئی۔

    شائقین کرکٹ بھارتی اداکار اکشے کمار کی میدان میں موجودگی اور بھارتی ٹیم کی شکست کی فہرست سامنے لے آئے جس میں بتایا گیا ہے کہ اکشے کی موجودگی میں بھارتی ٹیم ہمیشہ شکست سے دوچار ہوئی ہے۔

    ورلڈ کپ 2023 کے ورلڈ کپ فائنل میں بھارت اور آسٹریلیا کی ٹیمیں مدمقابل آئیں، اکشے کمار میدان میں بھارتی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ کیا اکشے کی موجودگی کی وجہ سے بھارت ٹیم کینگروز کے ہاتھوں ورلڈ کپ فائنل ہار گئی؟۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ 2021 میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آمنے سامنے تھیں یہاں بھی اکشے کمار کی موجودگی بھارتی ٹیم کی شکست کی وجہ بن گئی۔

    اکشے کمار نے بھارت کے جتنے میچز میں شرکت کی بھارت نے وہ سبھی نہیں ہارے کچھ میچز جیتے بھی ہیں لیکن یہ شائقین کی جانب سے اکشے کی فہرست تیار کی گئی ہے جس میں ان کی موجودگی کو بھارت کی شکست سے جوڑا گیا ہے۔

  • ’حمیرا اصغر مالی بحران کا شکار تھیں، 10 افراد کو واٹس ایپ پر ’ہیلو‘ کہا کسی نے جواب نہ دیا‘

    ’حمیرا اصغر مالی بحران کا شکار تھیں، 10 افراد کو واٹس ایپ پر ’ہیلو‘ کہا کسی نے جواب نہ دیا‘

    تحقیقاتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر شدید مالی بحران کا شکار تھیں واٹس ایپ پر بھائی سمیت 10 افراد کو ’ہیلو‘ کہا کسی نے جواب نہ دیا۔

    ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی موت طبعی تھی، حادثاتی، خودکشی یا قتل؟ خصوصی ٹیم نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ 63 لوگوں سے تحقیقات کی جائیں گی، 5 افراد کے بیانات ریکارڈ کرلیے گئے ہیں۔

    حمیرا اصغر کیس سے متعلق تمام خبریں

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اداکارہ شدید مالی بحران کا شکار تھیں، بھائی سمیت قریبی لوگوں سے مدد کی درخواست کی تھی، 7 اکتوبر کو حمیرا نے 10 افراد کو واٹس ایپ پر ’ہیلو‘ کے پیغامات بھیجے اور لکھا کہ ہیلو میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا۔

    تحقیقاتی ذرائع کے مطابق حمیرا کے میسجز کا جواب نہ دینے والوں میں بھائی، سلمان، محسن، حسن، عمران شامل ہیں۔

    اداکارہ نے موت کے وقت نائٹ سوٹ پہن رکھا تھا، واش روم سے بھگوئے کپڑے، خشک ٹب اور پھٹے ہوئے کپڑے ملے ہیں، کمرے سے خالی سگریٹ کا پیکٹ اور استعمال فلٹر ملا، کمرے سے کوئی دوا نہیں ملی، موت کے وقت ان کے دونوں ہاتھ سینے سے چمٹے ہوئے تھے، ملازمہ کو بھی ہٹا دیا تھا۔

    جم ٹرینر کے مطابق حمیرا اصغر روزانہ تین، تین گھنٹے ورزش کرتی تھیں۔

    پس منظر

    اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز سکس میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔

    لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔

    پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے، فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔

    اداکارہ و ماڈل تماشا گھر اور فلم جلیبی (2015) میں اپنے کرداروں کی وجہ سے مشہور تھیں، وہ ایک ماہر مصورہ اور مجسمہ ساز بھی تھیں جن کے انسٹاگرام پر 715,000 فالوورز ہیں اور ان کی آخری پوسٹ 30 ستمبر 2024ء کو تھی۔

  • عتیقہ اوڈھو سسرال والوں کے رویے کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئیں

    عتیقہ اوڈھو سسرال والوں کے رویے کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئیں

    شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو سسرال والوں کے رویے کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئیں۔

    نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ میں نے طلاق کے بعد بھی کام نہیں چھوڑا، میں دو دن پہلے سو رہی تھی تو میرے کان میں انکل اقبال (سسر) کی آواز آئی وہ مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ سسر میرے اور بچوں کے ساتھ بہت اچھے تھے، وہ ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔

    عتیقہ اوڈھو نے ساس اور سسر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ طلاق ہوجانے کے باوجود ان کے سسرالیوں نے ان کا ساتھ دیا، ان کی ساس اور سسر انہیں پیار کرتے اور ان کا خیال رکھتے تھے۔

    یہ پڑھیں: تیسری شادی کس کے کہنے پر کی؟ عتیقہ اوڈھو نے بتادیا

    پروگرام کے دوران ساس اور سسر کی محبت اور شفقت کو یاد کرتے ہوئے عتیقہ اوڈھو آبدیدہ ہوگئیں اور انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے سسرالی ان کے ساتھ بہت اچھے تھے۔

    انہوں نے بتایا کہ طلاق کے بعد جب انہوں نے حالیہ شوہر سے شادی کا فیصلہ کیا تو ان کی سابق ساس اور سسر نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور بچوں کے حوالے سے بھی کوئی پریشانی نہیں دکھائی کہ وہ دوسرے والد کے ساتھ کیسے رہیں گے۔

    واضح رہے کہ عتیقہ اوڈھو ان دنوں اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’انتہا‘۔ ’شیر‘ اور ’نقاب‘ میں والدہ کا کردار نبھارہی ہیں جسے مداحوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔

  • پروفیسر سید سجاد حسین کی ”شکستِ آرزو“ کا ایک ورق

    پروفیسر سید سجاد حسین کی ”شکستِ آرزو“ کا ایک ورق

    ”شکستِ آرزو“ پروفیسر سید سجاد حسین کی انگریزی زبان میں تحریر کردہ کتاب "The Wastes of Time” کا اردو ترجمہ ہے۔ اسے پروفیسر صاحب کی داستانِ حیات بھی کہا جاسکتا ہے۔

    پروفیسر سجاد حسین نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد تدریسی شعبہ کو اپنایا۔ انھوں نے ناٹنگھم یونیورسٹی (برطانیہ) سے انگریزی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔ پروفیسر سجاد حسین کو سقوطِ ڈھاکا سے چند ماہ قبل ہی ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا عہدہ سونپا گیا تھا، لیکن بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ان کو پاکستان سے محبت کرنے کی سزا دی گئی۔ ان کی یہ کتاب سانحۂ مشرقی پاکستان کی وہ جھلک دکھاتی ہے جو کسی بھی محبّ وطن کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردے گی۔ یہاں ہم اس کتاب کے پیش لفظ کا اردو ترجمہ نقل کررہے ہیں۔

    میں نے یہ یادداشتیں ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل میں قلم بند کی تھیں، جہاں مجھے پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں شیخ مجیب الرحمان کا ساتھ نہ دینے کے جرم میں قید رکھا گیا تھا۔ میں نہ کوئی سیاست دان تھا اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا کارکن۔ البتہ میں یحییٰ حکومت کی درخواست پر ۱۹۷۱ء میں برطانیہ اور امریکا گیا تھا تاکہ یہ واضح کر سکوں کہ مشرقی پاکستان میں جاری جدوجہد دراصل کن دو قوتوں کے درمیان تھی۔ ایک طرف تو وہ لوگ تھے جو پاکستان کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور دوسری طرف وہ جو اِس کے نظریے سے محبت کرتے تھے۔

    جیل میں میرا موڈ شدید غصے، بدحواسی اور مایوسی کے امتزاج پر مبنی تھا۔ قتل کی ایک ناکام کوشش نے مجھے جسمانی معذوری سے بھی دوچار کر دیا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ جو کچھ میرے عقائد اور نظریات پر مبنی تھا وہ میری آنکھوں کے سامنے مٹی میں مل چکا تھا۔ مجھ پر اس کا خاص نفسیاتی اثر مرتب ہوا تھا۔ دل میں یہ احساس بھی جاگزیں تھا کہ ہم ایک ایسی شکست سے دوچار ہوئے ہیں جس کے اثرات سے جان چھڑانا ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ ۱۹۷۱ء میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی وہ میرے لوگوں کے لیے سودمند نہیں تھی۔ اس خیال نے مجھے خاصے دباؤ میں رکھا۔ اس لیے کہ کہیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس خاص ذہنی کیفیت اور فضا میں، میں نے ان واقعات سے متعلق یادداشتیں قلم بند کیں جو ۱۹۷۱ء کے سانحے پر منتج ہوئے۔

    میری خواہش تھی کہ تمام تکلفات کو بالائے طاق رکھ کر دل کی بات لکھوں۔ مگر اس بات کا کم ہی یقین تھا کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں وہ کبھی منظرِ عام پر آ سکے گا۔ بہرحال اس بات کو میں اپنا فرض سمجھتا تھا کہ جو کچھ دیکھا اور سنا ہے اُسے ریکارڈ پر ضرور لے آؤں۔
    میں نے سچ بیان کیا ہے اور اس معاملے میں کسی دوست یا دشمن کی پروا نہیں کی ہے۔ یہ سب کچھ لکھنے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ میں بیان کر سکوں کہ ہم اُس ریاست کی حفاظت کیوں نہ کر سکے جو کروڑوں انسانوں کے خوابوں کی تعبیر تھی اور جس کے حصول کے لیے ہم نے بے حساب خون، پسینہ اور آنسو بہائے تھے۔ منافقوں کی موقع پرستی سے بھی میں بہت رنجیدہ تھا۔ میں نے ایسے بھی بہت سے لوگ دیکھے تھے جو آخری لمحات تک متحدہ پاکستان کے حامی تھے، مگر بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ’’فاتحین‘‘ کو یقین دلانے میں مصروف ہو گئے کہ انہوں نے بھی اسی دن کا خواب دیکھا تھا۔

    سلاخوں کے پیچھے تنہائی میں ان یادداشتوں کو قلم بند ہوئے اکیس سال بیت چکے ہیں۔ مجھے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے جو کچھ ہوتا دکھائی دے رہا تھا، وہ ہو چکا ہے۔ شدید غربت، سیاسی عدم استحکام اور پسماندگی اُن کے لیے ایک تازیانہ ہے جنہوں نے ’’پاکستان کے استبداد‘‘ سے نجات کے لیے ہتھیار اٹھائے اور جو اَب یہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کا قیام کوئی بہت مسرت انگیز حقیقت نہیں۔ کچھ لوگ نجی طور پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں، مگر میں ان کا ذکر کرتے ہوئے پریشانی سی محسوس کرتا ہوں۔ میں نے ۱۹۷۳ء میں اپنے اندر جو مایوسی محسوس کی تھی، یہ لوگ اُس سے کہیں زیادہ مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
    میں نے ۷۱۔۱۹۷۰ء میں بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی مخالفت کی تھی۔ تاہم میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مشرقی بنگال کے مسلمانوں کو علیحدہ شناخت دے کر بنگالی قوم پرستی ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ضروری استحکام فراہم کر سکتی ہے۔ کسی بھی مسئلے کا حل مایوسی نہیں۔ ہمیں ہر حالت میں اپنے وجود پر یقین رکھنا ہے۔

    جن پر میں نے تنقید کی ہے، انہیں اگر میری زبان اور لہجے میں سختی محسوس ہو تو خیال رہے کہ میں نے یہ کتاب شدید (ذہنی و نفسیاتی) دباؤ میں لکھی تھی۔ انہیں محسوس کرنا چاہیے کہ جب خواب بکھرتے ہیں تو دل پر کیا گزرتی ہے۔ کتاب میں جابجا بیان کا خلا سا محسوس ہوگا، جس کی توضیح سے زیادہ، معذرت مناسب ہے۔ کتاب کا اختتام بھی آپ کو خاصا بے ربط سا محسوس ہوگا، اس کے لیے بھی میں معذرت خواہ ہوں۔

    کتاب میں رہ جانے والا خلا مَیں ۵ دسمبر ۱۹۷۳ء کو جیل سے رہائی پانے کے بعد دور کرسکتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جیل میں رہائی کی امید کے نہ ہونے کی کیفیت میں، جو کچھ میں نے لکھا وہ گھر کی آزاد فضا میں لکھی جانے والی باتوں سے بہت مختلف ہو گا۔ میں اس کتاب میں ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے کریک ڈاؤن میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار پر بھی پوری تفصیل سے بحث نہیں کر سکا۔ میں یہ بھی بیان نہیں کر پایا کہ اس کریک ڈاؤن کی نوعیت کیا تھی؟ پاکستانی فوج نے دسمبر ۱۹۷۰ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک علیحدگی کی تحریک کو کچلنے کے لیے کوئی بھی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟ اور پھر اچانک حرکت میں کیوں آگئی، جب کہ اس کریک ڈاؤن کے مؤثر ہونے کا خود اسے بھی کم ہی یقین تھا؟۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات پر بھی میں کھل کر روشنی نہیں ڈال سکا جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے منعقد کیے گئے تھے۔ جو شخص ۱۹۷۰ء میں زندہ و موجود رہا ہو اور اب بھی ان واقعات کو یاد کر سکتا ہو اُسے اندازہ ہو گا کہ عوامی لیگ نے انتخابات میں بھاری اکثریت پانے کے لیے کس طرح مخالفین کے خلاف بھرپور عسکری طاقت کا استعمال کیا۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد فتح سے بڑھ کر، واک اوور حاصل کرنا تھا۔ لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح یاد ہو گا کہ کُھلنا اور دیگر ساحلی علاقوں میں ۱۹۷۱ء کے خوفناک سمندری طوفان کے نتیجہ میں ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں کے باوجود، شیخ مجیب الرحمن نے انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیا تھا اور یحییٰ خان کو دھمکی دی تھی کہ انتخابات شیڈول کے مطابق نہ ہوئے تو ملک گیر احتجاج کیا جائے گا۔

    یہ اور بہت سے دوسرے واقعات مَیں اس لیے بیان نہیں کر سکا کہ ہمیں یہ عندیہ مل چکا تھا کہ ہم دسمبر ۱۹۷۳ء میں عام معافی کے تحت رہا کر دیے جائیں گے۔ پہلے میں نے یہ سوچا تھا کہ جیل سے باہر نکلنے پر مسودّے میں اضافہ نہیں کروں گا، مگر پھر یہ سوچا کہ مشرقی پاکستان کے سقوط کا سبب بننے والے واقعات کے بارے میں رائے دینا ضروری ہے، خواہ بیان بے ربط ہی لگے۔

    ۱۹۷۵ء میں، میں سعودی عرب جانے کے لیے، پہلے لندن روانہ ہوا، اس وقت میں نے کتاب کا مسودّہ عجلت میں ٹائپ کروا کے ایک دوست کے حوالے کر دیا۔ تاکہ یہ کہیں گم نہ ہو جائے۔ میں اپنے اس دوست کا شکرگزار ہوں کہ اس نے ۲۰ سال تک مسودّے کو سنبھال کر رکھا۔ کہیں ۱۹۹۲ء میں جاکر مجھے اس کی اشاعت کا خیال آیا۔ اس کتاب میں شائع ہونے والا مواد وہی ہے جو ۱۹۷۳ء میں ڈھاکا جیل سے میری رہائی کے وقت تھا۔ جن دوستوں کی محبت اور عنایت سے یہ کتاب شائع ہو رہی ہے میرے پاس ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ تاہم میں تجمل حسین، محمد اشرف حسین (ایڈیٹر بنگالی ماہنامہ ’’نتون سفر‘‘)، مصباح الدین احمد اور محمد عبدالمطلب کے تعاون کا خاص طور پر شکر گزار ہوں۔

    اگر تاریخ نے ۱۰۰ سال بعد بھی مادرِ وطن سے متعلق میرے خدشات کو غلط ثابت کر دیا تو قبر میں سہی، مجھ سے زیادہ خوش کوئی نہ ہو گا۔

  • روز نہیں کبھی کبھی ملنا چاہیے تاکہ محبت قائم رہے، فردوس جمال

    روز نہیں کبھی کبھی ملنا چاہیے تاکہ محبت قائم رہے، فردوس جمال

    شوبز انڈسٹری کے سینئر اداکار فردوس جمال کا کہنا ہے کہ روز روز ملنے سے قدر کم ہوتی ہے کبھی کبھی ملنا چاہیے تاکہ محبت قائم رہے۔

    حالیہ انٹرویو میں سینئر اداکار فردوس جمال نے کہا کہ جن سے ہم روز ملتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ ان سے ہمارا تعلق ہو، بظاہر لگتا ہے کہ تعلق ہے لیکن وہ ہوتا نہیں ہے۔

    اداکار نے کہا کہ تعلق انہی سے ہوتا ہے جو آپ کی قدر اور محبت کرتے ہیں، جو آپ کی ویلیو پہچانتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اندھوں کے ساتھ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ماسوائے کھانے پینے کے وہ بھی جو آپ کو نہیں کھلا سکتے، وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے سوچ نہیں سکتے اگر سوچیں گے بھی تو پتا نہیں کس زاویے سے سوچیں کہ آپ کون ہیں اور آپ کی شکل کیسی ہے۔

    فردوس جمال نے کہا کہ ہمارے یہاں بدقسمتی سے ہم لوگ ایک دوسرے کو مل رہیں گے دیکھ رہے ہیں اٹھ بیٹھ رہے ہیں کھا پی رہے ہیں لیکن وہ ہمیں پھر بھی نہیں دیکھ رہے جان نہیں رہے۔

    انہوں نے کہا کہ ‘اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی، تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن۔‘

    یہ پڑھیں: فردوس جمال نے اہلیہ سے علیحدگی کی خبروں پر خاموشی توڑ دی

    انٹرویو کے دوران انہوں نے اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر اور اداکارہ عائشہ خان کی المناک موت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت کی خبر سن کر دل بہت غمزدہ ہو گیا تھا، خاص طور پر یہ جان کر کہ ان کے آخری وقت میں کوئی ان کے پاس موجود نہ تھا۔

    اداکار نے کہا کہ عام طور پر اگر کوئی مر جائے تو ہم اسے سانحہ نہیں کہتے، کیونکہ موت ایک فطری عمل ہے، ہم سب نے مرنا ہے، صرف اللہ ہی ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، مٹی کو مٹی میں ملنا ہے، انسان کو واپس جانا ہے، یہ قدرتی عمل ہے، لیکن اس طرح کی واپسی انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔

    فردوس جمال کا کہنا تھا کہ جس انداز میں یہ واقعات پیش آئے وہ افسوسناک ہے، ان واقعات نے دل کو بے چین کر دیا ہے اور دل میں یہی خیال آ رہا ہے کہ معلوم نہیں جب ان کی موت ہوگی تو ان کے پاس کوئی ہوگا یا نہیں۔

  • ریحام رفیق نے پہلی بار اپنی عمر بتا دی

    ریحام رفیق نے پہلی بار اپنی عمر بتا دی

    اداکارہ ریحام رفیق نے پہلی بار اپنی عمر بتائی ہے کہ وہ کتنے سال کی ہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’پرورش‘ میں ’امل‘ کا کردار نبھانے والی اداکارہ ریحام رفیق نے حالیہ انٹرویو میں نجی زندگی سے متعلق انکشافات کیے۔

    انہوں نے کہا کہ میری عمر 29 سال ہے اور میں اداکاری کے ساتھ ساتھ وائس اوور کا کام بھی کرتی ہوں۔

    ریحام رفیق کے حوالے سے کچھ عرصے سے ایسی قیاس آرائیاں گردش کر رہی تھیں کہ ان کی عمر 35 سال ہے اور وہ اس عمر میں ڈراما سیریل ’پرورش‘ میں ایک نوعمر (ٹین ایجر) لڑکی کا کردار نبھا رہی ہیں۔

    وکی پیڈیا پر ریحام رفیق کی عمر 35 سال درج ہے، تاہم ان کی اصل عمر جان کر سوشل میڈیا صارفین حیران ہیں۔

    یہ پڑھیں: بعض اداکارائیں مقابلہ کرنے کے بجائے منفی رویوں پر اتر آتی ہیں، ریحام رفیق

    کئی صارفین نے تبصرہ کیا کہ وہ 29 سال کی بالکل بھی نہیں لگتیں، بلکہ ان کی عمر زیادہ سے زیادہ 22 سال لگتی ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں ریحام نے کہا کہ وہ کسی بھی موقع پر خوشی خوشی ڈانس کر سکتی ہیں اور اپنے فارغ وقت میں ٹک ٹاک ویڈیوز بھی بناتی ہیں۔

    ریحام رفیق نے کہا ہے کہ انہیں ڈانس کرنے کا بےحد شوق ہے اور ان کے شوہر ان کے بہترین ڈانس پارٹنر ہیں۔

  • فلم کی شوٹنگ کے دوران اسٹنٹ مین ہلاک، حادثے کی ویڈیو سامنے آگئی

    فلم کی شوٹنگ کے دوران اسٹنٹ مین ہلاک، حادثے کی ویڈیو سامنے آگئی

    تجربہ کار اسٹنٹ مین ایس ایم راجو گزشتہ روز تمل ناڈو میں پارنجیت کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’ویٹووان‘ کی شوٹنگ کے دوران حادثے میں ہلاک ہوگئے۔

    فلم کی شوٹنگ کے دوران ایکشن سین نے تباہ کن موڑ لیا، ویٹووان کے سیٹ سے سنسنی خیز فوٹیج وائرل ہوئی جس میں ایس ایم راجو کی گاڑی کو قلابازی کھاتے ہوئے گرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    حادثے کے بعد عملے کے ارکان فوری بھاگے اور راجو کو باہر نکالا تو وہ موقع پر ہی دم توڑ چکے تھے۔

    ویٹووان اداکار آریا اور ہدایت کار پارنجیت نے ابھی تک اس واقعے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

    اداکار وشال ساتھی اور دوست ایس ایم راجو کی المناک موت کی تصدیق کرنے والے پہلے شخص تھے۔

    وشال نے ایکس پر لکھا کہ ’میں راجو کو کئی سالوں سے جانتا ہوں اور اس نے میری فلموں میں کئی خطرناک اسٹنٹ بہت بار کیے ہیں، وہ ایسا بہادر شخص تھا، میں ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں۔

    ایک اور مقبول اسٹنٹ کوریوگرافر، اسٹنٹ سلوا نے بھی ایس ایم راجو کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    انہوں نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ’ہمارے ایک عظیم کار جمپنگ اسٹنٹ آرٹسٹ ایس ایم راجو کار اسٹنٹ کرتے ہوئے چل بسے، ہماری اسٹنٹ یونین اور بھارتی فلم انڈسٹری ان کی کمی محسوس کرے گی۔

    ایس ایم راجو کون تھے؟

    موہن راج جو ایس ایم راجو کے نام سے مشہور ہیں، تمل ناڈو کے کانچی پورم ضلع کے رہائشی تھے۔ سیلواراج کا بیٹا، 52 سالہ کالی ووڈ انڈسٹری میں ایک تجربہ کار اسٹنٹ پرفارمر تھا جس نے بڑے فلمی سیٹس پر کام کرنے اور مہارت کے ساتھ ہائی رسک ایکشن سیکوینس کو انجام دینے کا طویل ٹریک ریکارڈ رکھا تھا۔

    ویٹووان فلم

    آریا کے علاوہ ویٹووان فلم میں سوبھیتا دھولیپالا، اٹاکاتھی دنیش، کالائیراسن، اور لنگیش بھی ہیں۔

  • حمیرا اصغر کی پوسٹ پر فین کا کمنٹ وائرل

    حمیرا اصغر کی پوسٹ پر فین کا کمنٹ وائرل

    کراچی (13 جولائی 2025): ڈی ایچ اے فیز 6 میں فلیٹ سے مردہ حالت میں ملنے والی اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی پوسٹ پر فین کا کمنٹ وائرل ہوگیا۔

    پاکستانی اداکارہ حمیرا اصغر علی کی ان کی فلیٹ میں موت پچھلے سال اکتوبر میں ہوئی تھی، تاہم کئی مہینوں کے بعد اداکارہ کی موت کا پتا پچھلے دنوں چلا تھا اس خبر نے میڈیا میں بھونچال برپا کردیا تھا اور شوبز حلقوں سمیت عام افراد بھی اس پر اظہار افسوس کرتے پائے گئے تھے۔

    حمیرا اصغر علی کی موت کا سب کو ہی دکھ ہے، دکھ صرف اس کی موت کا نہیں بلکہ اس بات کا زیادہ ہے کہ حمیرا کے مرنے کا پتہ ہی مہینوں بعد لگا جس نے معاشرے کی بے حسی نمایاں کردی۔

    غیر تو غیر اپنوں تک نے حمیرا اصغر علی کا حال احوال جاننے کی کوشش نہیں کی اور اس کی سوختہ لاش اس بات کی گواہی دیتی نظر آتی ہے ۔

    اداکارہ کی موت کی خبر کے بعد اسٹائلسٹ دانش مقصود نے تہلکہ خیز انکشافات کیے تھے انہوں نے سوشل میڈیا پر بیان میں بتایا تھا کہ انکے میگزینز ‘فلانٹ’ اور ‘اپلاؤز’ نے حمیرا کے اچانک غائب ہونے پر آواز بلند کی تھی۔

    اسٹائلسٹ دانش نے کہا تھا کہ وہ خود مختلف پبلیکیشنز کے پاس اس حوالے سے نیوز شائع کرنے کی درخواست لیکر گئے لیکن سب نے انکو نظر انداز کیا تھا۔

    تاہم اب حمیرا اصغر کی ایک تصویر پر ان کی فین کا کمنٹ بہت تیزی سے وائرل ہورہا ہے جس میں انہوں نے اداکارہ کے سوشل میڈیا سے غائب ہونے کے بعد صارفین سے سوال کیا۔

    حمیرا اصغر کی انسٹاگرام پوسٹ پر فین نے کمنٹ کرکے پوچھا کہ "کسی کو پتا ہے کہ حمیرا آپی کدھر گئیں ہیں”۔

    پس منظر

    اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز VI میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔

    لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔

    پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے، فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔

    اداکارہ و ماڈل تماشا گھر اور فلم جلیبی (2015) میں اپنے کرداروں کی وجہ سے مشہور تھیں، وہ ایک ماہر مصورہ اور مجسمہ ساز بھی تھیں جن کے انسٹاگرام پر 715,000 فالوورز ہیں اور ان کی آخری پوسٹ 30 ستمبر 2024ء کو تھی۔

    حمیرا اصغر کیس سے متعلق تمام خبریں

  • مدن موہن: موسیقی کی دنیا کا ایک موہنا

    مدن موہن: موسیقی کی دنیا کا ایک موہنا

    مدن موہن ہندوستانی فلم انڈسٹری کے ایسے موسیقار ہیں جن کا ہر گیت ہی بے مثال اور یادگار ثابت ہوا۔ انھیں بولی وڈ کے بہترین موسیقاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اپنے وقت کے عظیم موسیقار نوشاد نے مدن موہن کے گیت ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘‘ سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ اس گیت کی دھن کے بدلے میں وہ اپنی تمام ریاضت مدن موہن کے نام کرسکتے ہیں۔

    14 جولائی 1975ء کو موسیقار مدن موہن چل بسے تھے۔ عراق میں پیدا ہونے والے مدن موہن کے والد بسلسلۂ ملازمت وہاں اپنے کنبے کے ساتھ مقیم تھے۔ لیکن مدن موہن کی پیدائش کے بعد ہندوستان لوٹ گئے۔ تاہم یہاں بھی انھیں کاروبار کی غرض سے ممبئی جا کر محنت کرنا تھی، اور یوں مدن موہن کا بچپن چکوال میں گزرا اور ابتدائی تعلیم لاہور میں ہوئی۔ ان کے والد نے کاروبار جمانے کے بعد اپنی فیملی کو ممبئی بلوا لیا تھا۔ 25 جون 1924ء کو پیدا ہونے والے مدن موہن کے دادا کا چکوال کے موتی بازار میں بڑا گھر تھا اور وہ اپنے وقت کے ایک مستند حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ مدن موہن کے والد چنی لال کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ لاہور میں‌ مدن موہن نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے دوران کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔ بعد میں ممبئی منتقل ہوئے تو سینٹ میری اسکول میں داخلہ لے کر جہاں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا وہیں ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے۔ ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ اسی دور میں پروان چڑھا۔ اس زمانہ میں ممبئی کی فلمی صنعت عروج پر تھی اور وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار موجود تھے۔ یہی لوگ ریڈیو سے بھی منسلک تھے، اور کبھی کبھار مدن موہن کو بڑے ناموں کو ریڈیو کی عمارت میں دیکھنے کا موقع مل جاتا تھا۔ مدن موہن نے موسیقی کے فن کو بغیر استاد سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش جاری رکھی اور تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ برٹش آرمی میں کمیشن لے لیا، لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل چاہتے تھے۔

    آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں۔ مدن موہن گلوکاری کے بھی شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام بھی گایا مگر پھر بطور موسیقار فلم انڈسٹری میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر توجہ دینے لگے۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم میں بطور معاون موسیقار کام کیا۔

    بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

    فلمی موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں اور ان کے نغمات آج بھی ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

    مدن موہن کے چند مشہور اور یادگار فلمی گیتوں میں‌ نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…، آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے، لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…، وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی، یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے شامل ہیں۔