Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • ’بڑی ظالم فیلڈ ہے ہماری یہاں مرنے کے بعد شہرت ملتی ہے‘

    ’بڑی ظالم فیلڈ ہے ہماری یہاں مرنے کے بعد شہرت ملتی ہے‘

    اداکار بلال قریشی نے حمیرا اصغر کی موت کے بعد انڈسٹری سے متعلق پوسٹ شیئر کردی۔

    اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کے بعد شوبز انڈسٹری کی شخصیات غمزدہ ہیں اور ان کے لیے تعزیت کا اظہار کررہے ہیں۔

    اداکار بلال قریشی نے بھی ان کے انتقال کے بعد پوسٹ شیئر کی ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ ’یار بڑی ظالم فیلڈ ہے ہماری یہاں مرنے کے بعد شہرت ملتی ہے۔‘

    واضح رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی تدفین لاہور میں کردی گئی، ان کی تدفین ماڈل ٹاؤن کیو بلاک قبرستان میں کی گئی۔

    خیال رہے پاکستانی اداکارہ و ماڈل حمیرہ اصغر علی، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز سکس میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔

    حمیرا اصغر کیس سے متعلق تمام خبریں

    لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔

    پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے، کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے۔ فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔

    حمیرا تماشا گھر اور فلم جلیبی (2015) میں اپنے کرداروں کی وجہ سے مشہور تھیں، وہ ایک ماہر مصورہ اور مجسمہ ساز بھی تھیں، جن کے انسٹاگرام پر 715,000 فالوورز تھے اور ان کی آخری پوسٹ 30 ستمبر 2024ء کو تھی۔

    ان کی موت نے شوبز انڈسٹری میں صدمے کی لہر دوڑا دی، جہاں سونیا حسین، عتیقہ اوڈھو اور دیگر نے افسوس کا اظہار کیا۔ یہ کیس تنہائی اور ذہنی صحت کے مسائل پر بحث چھیڑ گیا ہے۔

  • سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    شاعری سیف الدین سیف کا بنیادی حوالہ اور ان کا تعارف ہے، لیکن بطور فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف ان کی فلم کرتار سنگھ (1959ء) انھیں ایک قابل اور باکمال فن کار ثابت کرتی ہے۔ سیف ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی فکر اور خیالات سے زندگی کو آسودگی بخشی اور اظہار و ابلاغ کی نئی نئی راہیں بھی تراشی ہیں۔

    سیف الدین سیف 12 جولائی 1993ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا جہاں وہ 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں کے ایک گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیا جہاں اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض تھے ان عالی دماغ اور بلند قامت شخصیات کی قربت نے سیف الدین سیف میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    سیف الدین سیف کو شروع ہی سے شاعری سے لگاؤ تھا اور کالج کے زمانے میں وہ شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا فلمی دنیا سے بطور گیت نگار تعلق جڑ گیا تھا، مگر اتفاق ہے کہ وہ فلمیں ریلیز نہ ہو سکیں۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انھوں نے فلموں کے لیے مکالمے لکھنا شروع کیے۔ یہی ان کا ذریعۂ معاش تھا، لیکن شہرت اور مقبولیت بحیثیت گیت نگار پائی۔ وہ ایک عمدہ غزل گو شاعر بھی تھے اور مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ رباعی اور طویل و مختصر نظمیں کہنے والے سیف الدین سیف کو ذاتی طور پر غزل گوئی پسند رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے…. ان کے مقبول ترین فلمی گیت ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔ ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے سیف الدین سیف کو سب سے زیادہ شہرت فلم ’’گمنام‘‘ کے گیت ’’تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘‘ سے ملی جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔

    سیف الدین سیف لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • آغا ناصر: فن کی دنیا کا ایک باکمال

    آغا ناصر: فن کی دنیا کا ایک باکمال

    تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں‌ ادب و فنون کی دنیا میں جن قابل اور باصلاحیت شخصیات نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے مختلف شعبہ جات میں اپنے منفرد کام کی بدولت نام و مقام پایا، ان میں آغا ناصر بھی شامل ہیں۔ وہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اور ’’الف نون‘‘ جیسے پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے ہدایت کار اور متعدد کتب کے مصنّف تھے۔

    آغا ناصر کی شہرت بطور پروڈیوسر، ہدایت کار، براڈ کاسٹر ہی نہیں‌ بلکہ وہ ٹیلی ویژن کی ایسی شخصیت بھی تھے جن کا تذکرہ کیے بغیر اس مقبول میڈیم کے ابتدائی برسوں کی تاریخ مکمل نہیں‌ ہوسکتی۔ آغا صاحب 12 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں‌ انتقال کر گئے تھے۔

    9 فروری 1937ء میں آغا ناصر نے میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ یہاں انھوں‌ نے تاریخ کے مضمون میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا۔ بعد میں وہ اس ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد آغا ناصر جیسے قابل اور باصلاحیت براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کو پی ٹی وی سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور 1964ء میں انھوں نے نشریاتی ادارے میں اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا جب کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور نیف ڈیک کے سربراہ رہے۔

    آغا ناصر کا ایک حوالہ ادب بھی ہے اور کشور ناہید اس سے متعلق اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، "وہ شخص جس نے ساری عمر میڈیا میں گزاری۔ فیض صاحب سے عشق کیا۔ ان کے شعروں اور نظموں کی ایسی تشریح کی کہ ہم جیسے لوگ جو فیض صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے تھے، وہ بھی کتاب پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس کو آپ سب اور ہم آغا ناصر کے نام سے پکارتے، جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس نے ایک سال تک موت کو للکارا، صفیہ کی محبت اور بچوں کی خدمت کا امتحان لیا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اب سب سوئے ہوئے ہیں۔ خاموشی سے نیند کے عالم میں اپنی محبتوں، دوستیوں اور کتابوں کو خدا حافظ کہا۔”

    1974 میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کا سارا انتظام بھی آغا صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگ کے زمانے میں انھوں نے عالی جی اور دیگر شعرا سے قوم کا لہو گرمانے اور محاذ پر لڑنے والے اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نغمات لکھوائے اور انھیں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔

    خواجہ معین الدّین کے سماجی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کو آغا ناصر نے بہ طور ہدایت کار پی ٹی وی پر پیش کیا تھا۔ 1966ء میں اس ڈرامے نے مقبولیت کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل پی ٹی وی کے ناظرین ڈرامہ سیریز ’’الف نون‘‘ سے لطف اندوز ہوئے اور یہ بھی مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک تھا جس کے ہدایت کار آغا ناصر ہی تھے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے پیش کردہ پروگراموں‌ میں ’’اسٹوڈیو نمبر 9 ‘‘ اور’’حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

    آغا ناصر نے ڈرامے بھی تحریر کیے اور اپنی خودنوشت سوانح بعنوان آغا سے آغا ناصر بھی یادگار چھوڑی۔ اس میں انھوں نے اپنی یادوں، باتوں اور مشاہیر و احباب سے ملاقاتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے دورانِ ملازمت پیش آنے والے کچھ اہم اور یادگار واقعات کو بھی رقم کیا ہے۔ خودنوشت کے علاوہ ان کی کتابیں ’گمشدہ لوگ‘، ’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    آغا ناصر کو سرکاری سطح پر تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • حمیرا اصغر کے بھائی نے قتل کا شبہ کیوں ظاہر کردیا؟

    حمیرا اصغر کے بھائی نے قتل کا شبہ کیوں ظاہر کردیا؟

    اداکارہ حمیرا اصغر کے بھائی نے بہن کے قتل کا شبہ ظاہر کردیا۔

    ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی موت کا معمہ اب بھی حل طلب ہے لیکن دوسری طرف ان کے خاندان میں اختلافات کی بھی مختلف افواہیں زیر گردش ہیں۔

    اداکارہ 8 سے 10 ماہ پہلے ہی انتقال کرچکی تھیں اہلخانہ نے کیوں رابطے کی کوشش نہیں کی۔

    کیا حمیرا اصغر کے رشتے دار انہیں بھول چکے تھے، والدین سے تعلقات کیسے تھے، کیا بھائی ملتے تھے، بھائی نے قتل کا شبہ کیوں ظاہر کردیا؟

    حمیرا اصغر کے بھائی نے قتل کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ گھر کی دو چابیاں موجود ہوں۔

    اداکارہ کی موت بہت سے سوالات چھوڑ گئی ہے۔

    حمیرا اصغر کے چچا محمد علی نے میڈیا سے مختصر گفتگو میں کہا کہ ’دس ماہ سے حمیرا سے کوئی رابطہ نہیں ہو پایا، پولیس سے ہم نے گمشدگی کے حوالے سے رابطہ نہیں کیا۔

    چچا کے مطابق حمیرا کے والد پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور یہ چار بہن بھائی ہیں۔

    حمیرا اصغر کیس سے متعلق تمام خبریں

    ان کے چچا کا کہنا تھا کہ حمیرا اصغر کراچی میں کہاں رہتی تھیں یہ معلوم نہیں تھا بس ایک فون نمبر ہمارے پاس تھا، ان کی دوستوں کا نمبر تھا جن سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ معلوم نہیں ہے۔

    اہلخانہ کا کہنا ہے کہ جائیداد کا حمیرا سے کسی قسم کا کوئی تنازع نہیں تھا، وہ ہر دو سے تین ماہ بعد لاہور آیا کرتی تھیں۔

  • نیمل خاور کی سالوں بعد ڈرامہ انڈسٹری میں واپسی

    نیمل خاور کی سالوں بعد ڈرامہ انڈسٹری میں واپسی

    شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار حمزہ علی عباسی کی اہلیہ نیمل خاور خان جلد ڈرامہ انڈسٹری میں واپسی کریں گی۔

    نیمل خاور خان پاکستانی اداکارہ ہیں جو سوشل میڈیا پر متحرک رہتی ہیں اور پینٹر ہیں، کئی سالوں سے میڈیا انڈسٹری کا حصہ ہیں۔

    ان کے 3.6 ملین سے زیادہ انسٹاگرام فالوورز ہیں اور کامیاب پروجیکٹس کے لیے جانی جاتی ہیں ان کے دو ڈرامے ہی اسکرین پر مقبول تھے۔

    نیمل خاور نے حمزہ علی عباسی سے شادی اور بچے کی پیدائش کے بعد میڈیا انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کرلی، اب وہ ڈرامہ سیریل سے واپسی کر رہی ہیں۔

    حال ہی میں سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ نیمل خاور خان اپنے شوہر کے ساتھ ایک پروجیکٹ میں اداکاری میں واپسی کے لیے تیار ہیں۔

    حمزہ علی عباسی جلد ہی نجی ٹی وی میں نیمل کے ساتھ نظر آئیں گے۔

    ڈرامے کی کہانی محسن ندیم نے لکھی ہے اور اس کی ہدایات شہزاد کشمیری نے دی ہیں۔

    اذان سمیع خان کے مداحوں کی جانب سے شیئر کی گئی تفصیلات کے مطابق سسٹرولوجی سے شہرت پانے والی رابعہ فیصل بھی آنے والے ڈرامے کا حصہ ہوں گی۔

    نیمل خاور خان اور حمزہ علی عباسی کے مداح کافی پرجوش ہیں۔

    ایک مداح نے لکھا، ’’واہ، حمزہ اور نیمل کا ایک ساتھ خواب پورا ہونا ہے۔‘‘ ایک اور نے پرجوش انداز میں پوچھا کہ کیا یہ حقیقی خبر ہے، جبکہ ایک اور نے حبا بخاری کی جگہ لینے پر صدمے کا اظہار کیا۔

  • شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    شیفتہ:‌ قادرالکلام شاعر جن کے متعدد اشعار زباں زدِ عام ہوئے

    محمد مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کی شعر گوئی ہی نہیں ان کی سخن فہمی بھی مشہور ہے۔ وہ شعر و سخن کا ایسا اعلٰی مذاق رکھتے تھے کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب بھی ان سے پسندیدگی کی سند لے کر اپنے دیوان میں کوئی شعر شامل کرتے تھے۔ آج اردو کے معروف شاعر اور غالب کے اس محسن کی برسی ہے۔

    نواب مصطفیٰ خان متخلص بہ شیفتہؔ کے بارے میں‌ مرزا غالب جیسے عظیم شاعر کا یہ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ شیفتہؔ سخن فہم ہی نہیں زبان و بیان پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ شیفتہ قادرُالکلام شاعر تھے۔ ان کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی خوب لکھی ہے۔ شیفتہ کو اردو اور فارسی زبان میں کامل دستگاہ تھی۔ مولانا حالیؔ نے بھی شیفتہ کی صحبت سے فیض اٹھایا تھا جو اپنے علمی و تحقیقی کاموں اور ادبی تخلیقات کے سبب ہندوستان میں مشہور ہیں۔

    غالب کی وفات کے چند ماہ بعد 1869ء میں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ بھی آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اور متأخرین شعرا میں شیفتہ اُن اصحاب میں سے ایک ہیں‌ جن کی رائے اہلِ قلم کے نزدیک سند کا درجہ رکھتی ہے۔ مرزا غالب کے علاوہ بھی معاصر شخصیات شیفتہ کے مذاقِ سخن اور نکتہ رسی کی معترف رہی ہیں۔

    شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا۔ ان کا سنہ پیدائش 1809ء بتایا جاتا ہے۔ شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور الطاف حسین حالی کو غالب سے انھوں نے ہی متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے دواوین کے علاوہ ان کا سفرنامۂ حجاز بھی مشہور ہے جب کہ گلشنِ بے خار وہ کتاب ہے جو کلاسیکی ادب میں اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے جس میں‌ شعرا کے تذکرے کے ساتھ شاعری پر تنقیدی رائے شامل ہے۔ فارسی زبان میں شیفتہ کی یہ تنقید دقّتِ نظر کی حامل ہے۔

    ان کا سفرنامۂ حجاز ایک مقبول کتاب رہی ہے اور خاص طور پر وہ واقعات جو اُس افتاد اور مسافروں کے عالمِ بیچارگی سے جڑے ہیں کہ جب ان کا بحری جہاز تباہ ہو گیا لیکن حادثہ میں تمام مسافر زندہ بچ گئے۔ شیفتہ 1839ء میں اس بحری جہاز پر سوار ہوئے تھے۔ بعد میں انھوں نے اس سفر پر فارسی زبان میں ’ترغیب المسالک الی احسن المسالک‘ نامی کتابچہ لکھا جس کا ایک اور نام ’رہَ آورد‘ بھی ہے۔ اسے ہندوستان کے اوّلین سفر ناموں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ شیفتہ کی اس کتاب کو پڑھ کر ایک طرف تو اس دور کے حجاز کے مقامات مقدسہ اور یمن کے حالات، معاشرت اور ثقافت سے آگاہی ہوتی ہے، اور دوسری طرف بحری جہاز کی تباہی کے بعد مسافروں‌ کے ایک بے آب و گیاہ اور گمنام جزیرے پر پناہ کے دوران پیش آنے والے واقعات بھی سبق آموز ہیں۔ شیفتہ نے لکھا ہے کہ اس جزیرے پر بھوک پیاس مٹانے کو کچھ نہ تھا اور طوفانی ہواؤں کے ساتھ انھیں اور دیگر مسافروں کو موت کے منہ میں چلے جانے کا خوف بھی تھا۔ لیکن پھر ہمّت کر کے مسافروں میں سے چند ایک چھوٹی کشتی پر ساحل کی تلاش میں نکلے اور کئی روز بعد امداد پہنچی اور سب کو بخیریت جزیرے سے نکال لیا گیا۔

    نواب مصطفیٰ خان شیفتہ کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • حمیرا اصغر کی تدفین لاہور میں کردی گئی

    حمیرا اصغر کی تدفین لاہور میں کردی گئی

    ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی تدفین لاہور میں کردی گئی۔

    اداکارہ حمیرا اصغر کو ماڈل ٹاؤن کیو بلاک قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا، ان کی میت کل کراچی سے لاہور پہنچائی گئی تھی۔

    چچا نے کہا کہ ہمارے خاندان کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے، ان کے خاندان سے کوئی اختلافات نہیں تھے وہ مرضی سے کراچی گئی۔

    چچا کا کہنا ہے کہ گھروں میں اختلافات ہوجاتے ہیں، حمیرا سے کافی عرصہ سے رابطہ نہیں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ جائیداد کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، سوشل میڈیا کی خبروں میں صداقت نہیں۔

    حمیرا اصغر کیس سے متعلق تمام خبریں

    خیال رہے پاکستانی اداکارہ و ماڈل حمیرہ اصغر علی، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز VI میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔

    لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔

    پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے، کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے۔ فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔

    حمیرا تماشا گھر اور فلم جلیبی (2015) میں اپنے کرداروں کی وجہ سے مشہور تھیں، وہ ایک ماہر مصورہ اور مجسمہ ساز بھی تھیں، جن کے انسٹاگرام پر 715,000 فالوورز تھے اور ان کی آخری پوسٹ 30 ستمبر 2024ء کو تھی۔

    ان کی موت نے شوبز انڈسٹری میں صدمے کی لہر دوڑا دی، جہاں سونیا حسین، عتیقہ اوڈھو اور دیگر نے افسوس کا اظہار کیا۔ یہ کیس تنہائی اور ذہنی صحت کے مسائل پر بحث چھیڑ گیا ہے۔

  • حمیرا اصغر کے خاندان سے اختلافات تھے یا نہیں؟ چچا نے سب بتا دیا

    حمیرا اصغر کے خاندان سے اختلافات تھے یا نہیں؟ چچا نے سب بتا دیا

    اداکارہ حمیرا اصغر کے چچا نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ان کے خاندان سے اختلافات تھے یا نہیں۔

    لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حمیرا اصغر کے چچا نے کہا کہ ہمارے خاندان کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے، ان کے خاندان سے کوئی اختلافات نہیں تھے وہ مرضی سے کراچی گئی۔

    چچا کا کہنا ہے کہ گھروں میں اختلافات ہوجاتے ہیں، حمیرا سے کافی عرصہ سے رابطہ نہیں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ جائیداد کا کوئی جھگڑا نہیں تھا، سوشل میڈیا کی خبروں میں صداقت نہیں۔

    واضح رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی تدفین لاہور میں کردی گئی، ان کی تدفین ماڈل ٹاؤن کیو بلاک قبرستان میں کی گئی۔

    حمیرا اصغر کیس سے متعلق تمام خبریں

    خیال رہے پاکستانی اداکارہ و ماڈل حمیرہ اصغر علی، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز VI میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔

    لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔

    پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے، کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے۔ فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔

    حمیرا تماشا گھر اور فلم جلیبی (2015) میں اپنے کرداروں کی وجہ سے مشہور تھیں، وہ ایک ماہر مصورہ اور مجسمہ ساز بھی تھیں، جن کے انسٹاگرام پر 715,000 فالوورز تھے اور ان کی آخری پوسٹ 30 ستمبر 2024ء کو تھی۔

    ان کی موت نے شوبز انڈسٹری میں صدمے کی لہر دوڑا دی، جہاں سونیا حسین، عتیقہ اوڈھو اور دیگر نے افسوس کا اظہار کیا۔ یہ کیس تنہائی اور ذہنی صحت کے مسائل پر بحث چھیڑ گیا ہے۔

  • ’شیکی شیکی‘ اداکارہ مایا علی بھی وائرل ٹرینڈ کا حصہ بن گئیں

    ’شیکی شیکی‘ اداکارہ مایا علی بھی وائرل ٹرینڈ کا حصہ بن گئیں

    پاکستانی اداکارہ مایا علی بھی سوشل میڈیا کے ٹرینڈ کا حصہ بن گئیں جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    ماڈل اور اداکارہ مایا علی نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر دلکش ویڈیو جاری کی جس میں انہیں خوشگوار موڈ میں ٹک ٹاک کے وائرل ٹرینڈ پر ویڈیو بناتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں اداکارہ اپنے کلاتنھگ برانڈ میں ساتھ کام کرنے والی دو لڑکیوں اور ساتھی اداکار وہاج علی کی اہلیہ ثنا فاروق کے ساتھ یادگار لمحے گزارتی دکھیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Maya Ali (@official_mayaali)

    ویڈیو میں مایا علی مختلف دیسی لُک میں حسن کے جلوے بکھیرنے کے علاوہ چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی ہنستی کھیلتی نظر آئیں، مایا نے اس ویڈیو پر ایک ایسا گانا لگایا جو ان دنوں سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہے اور وہ ایک بھارتی گلوکار سنجو راتھوڑ نے گایا ہے اور اداکارہ ایشا مالویا نے اس پر پرفارم کیا ہے۔

    گانے کا نام ‘شیکی’ ہے جس پر ہر کوئی رقص کرتا نظر آرہا ہے لیکن مایا نے اس گانے پر اپنی زندگی کے محبت سے بھرے لمحے شیئر کیے، ساتھ ہی کیپشن میں اداکارہ نے لکھا کہ ‘میرے نزدیک اچھے دنوں کے اصل معنیٰ ایسے ہی لمحے ہیں۔’

  • قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی:‌ معروف غزل گو شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    قتیل شفائی کو اردو ادب میں بہترین غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی گیت نگار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ نصف صدی پر محیط اپنے فلمی کیریئر کے دوران انھوں نے کئی گیت تحریر کیے جو یادگار ثابت ہوئے۔ آج بھی قتیل شفائی کی فلمی شاعری مشہور گلوکاروں کی آواز میں ہماری سماعتوں میں رس گھول رہی ہے۔

    قتیل شفائی کا تعلق ہزارہ ڈویژن کے شہر ہری پور سے تھا۔ وہ 1919ء میں‌ پیدا ہوئے۔ چھوٹی عمر میں‌ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ قتیل شفائی ایک پسماندہ علاقے کے ایسے ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے جس میں علم و ادب سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ قتیل شفائی نے معاش کے لیے ابتداً جو کوششیں کیں، ان میں کھیل کے سامان کی دکان کے علاوہ راولپنڈی جاکر ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں، ’’مَیں ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوا، جہاں علم و ادب کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ قدرتی مناظر سے تو بھرپور تھا لیکن علم و ادب کے حوالے سے وہ ایک بنجر علاقہ تھا، سوائے اس کے کہ باہر سے کچھ پرچے آتے تھے۔ ’زمیندار‘ آتا تھا، جس میں مولانا ظفر علی خاں کی نظمیں ہوتی تھیں۔ کچھ علامہ اقبال کا احوال لکھا ہوتا تھا۔ پھر کچھ عرصے بعد اختر شیرانی کا چرچا ہوا تو لوگ رومان کی طرف لگ گئے۔‘‘

    قتیل شفائی اسکول کے زمانے میں ہی شعر و ادب سے لگاؤ رکھتے تھے اور اسی سبب بزمِ ادب کے عہدے دار بنا دیے گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں:’’میں نے شعر و شاعری کا سلسلہ اسکول سے شروع کیا، جہاں بزم ادب میں سیکرٹری چنا گیا۔ وہاں مقابلوں میں کچھ حوصلہ افزائی ہوئی۔ تب محسوس ہوا کہ کوئی چیز اندر موجود ہے، جو میری وساطت سے باہر آنا چاہتی ہے۔ اور وہ، ظاہر ہے، شاعری تھی۔ قابلِ فخر بات میرے لیے یہ ہے کہ اُس پورے علاقے میں پہلا مشاعرہ میں نے 1939ء میں کروایا تھا، علامہ اقبال کی پہلی برسی کے موقع پر۔ آج وہاں یہ حالت ہے کہ جگہ جگہ شاعری کا چرچا ہے، اچھے اچھے شاعر پیدا ہوئے ہیں۔ تو یہ میرا آغاز تھا۔‘‘

    بعد میں‌ قتیل شفائی لاہور منتقل ہوگئے اور وہیں فلمی دنیا میں بطور گیت نگار قدم رکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عمر کے آخری برسوں میں بھارتی فلموں کے لیے بھی کئی گیت لکھے، جو بہت مقبول ہوئے۔ ان میں ’تیرے در پر صنم چلے آئے‘ یا پھر ’سنبھالا ہے مَیں نے بہت اپنے دل کو‘ شامل ہیں۔ اگرچہ فلموں کے لیے گیت نگاری قتیل شفائی کی نمایاں وجہِ شہرت بنی لیکن خود انہیں ہمیشہ اس بات پر اصرار رہا کہ شعر و ادب ہی اُن کا خاص میدان ہے۔ فلمی گیت نگاری کو وہ محض ذریعۂ روزگار تصور کرتے تھے۔ قتیل شفائی نے فلموں کے لیے دو ہزار سے زائد گیت لکھے جب کہ اُن کی شاعری کے بیس سے زائد مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور باذوق قارئین نے انھیں پسند کیا۔

    قیام پاکستان کے بعد یہاں بننے والی پہلی فلم ’تیری یاد‘ تھی اور اسی فلم سے قتیل شفائی نے اپنی گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کے تحریر کردہ فلمی نغمات سرحد پار بھی مقبول ہوئے اور پھر انھیں بولی وڈ کے لیے بھی لکھنے کا موقع دیا گیا۔ قتیل شفائی کے پاکستانی فلموں کے لیے لکھے گئے مقبول ترین نغمات میں ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘، ’اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں‘، ’یوں زندگی کی راہ سے ٹکرا گیا کوئی‘ دل دیتا ہے رو رو دہائی، کسی سے کوئی پیار نہ کرے، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا، کیا ہے جو پیار، وہ پڑے گا نبھانا…. شامل ہیں۔

    غزل گو شاعر اور فلمی گیت نگار قتیل شفائی کو ان کی ادبی خدمات اور فلمی دنیا کے لیے بہترین کام پر کئی اعزازات دیے گئے اور 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    قتیل شفائی نے اپنی آپ بیتی بھی تحریر کی تھی جس میں وہ لکھتے ہیں‌، میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور غیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اور علم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے۔ انھوں نے مزید لکھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی، پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمحِ نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔

    اپنے والدین اور اپنی پیدائش سے متعلق وہ لکھتے ہیں، میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ یوں ان کے والد نے مجبوراً دوسری شادی کی جس سے ان کو خدا نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا اور ان میں قتیل شفائی پہلی اولاد تھے۔ قتیل شفائی اس بارے میں‌ لکھتے ہیں، چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولد ہونے کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں (والد کی پہلی زوجہ) سے بھی ایک بچّہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچّہ تھا۔

    قتیل شفائی کا اصل نام محمد اورنگ زیب تھا۔ قتیل ان کا تخلص اور شفائی کا لاحقہ انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا کانپوری کی نسبت سے لگایا تھا۔ اسی نام سے وہ اردو ادب اور فلمی دنیا میں پہچانے گئے۔

    11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں علاّمہ اقبال ٹاؤن کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔