Category: میگزین

میگزین یعنی انٹرٹینمنٹ- بالی وڈ، ہالی وڈ، لالی وڈ، نیٹ فلکس، پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی خبریں

دلچسپ خبریں اور مضامین

Magazine- Entertainment, Bollywood, Hollywood, Lollywood, Pakistani Drama Industry News in Urdu

میگزین انٹرٹینمنٹ

  • وزن بڑھنے پر تنقید نے ذہنی صحت متاثر کی، کومل میر

    وزن بڑھنے پر تنقید نے ذہنی صحت متاثر کی، کومل میر

    شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ کومل میر کا کہنا ہے کہ وزن میں اضافے پر تنقید نے ذہنی صحت کو متاثر کیا۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامہ سیریل ’اے دل‘ میں مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ کومل میر نے حالیہ انٹرویو میں وزن بڑھنے پر تنقید کے بعد ذہنی صحت متاثر ہونے کا انکشاف کیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فیروز قادری جانتے ہیں میں چند بار روئی جب میرے اردگرد کے لوگ ذاتی طور پر تبصرے کرنے اور عجیب و غریب باتیں کرنے لگے۔

    کومل میر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کو میں نے کہا کہ دو سے تین دن بعد ختم ہوجائے گی لیکن یہ سلسلہ دو سے تین ماہ جاری رہا جس نے مجھے پریشان کردیا۔

    یہ پڑھیں: وزن کم ہونے پر ’سوکھی‘ کہا جاتا تھا، کومل میر

    اداکارہ کے مطابق دوستوں نے مشورہ دیا کہ ویڈیو بنا کر واضح کروں لیکن میں جو کچھ بھی کہتی کوئی اس پر یقین ہی نہیں کرتا۔

    انہوں نے بتایا کہ ایک انٹرویو میں بتایا کہ قدرتی طور پر وزن بڑھا ہے تو لوگوں نے کہا کہ جھوٹ بول رہی ہوں۔

    کومل میر کے مطابق انہوں نے کسی طرح کا کوئی میک اپ پراسیجر نہیں کروایا، نہ انہوں نے کوئی سرجری کروائی ہے، البتہ انہوں نے اپنا وزن بڑھایا ہے، جس وجہ سے ظاہری طور پر ان کا چہرہ بھی بدل چکا ہے۔

  • علی ظفر سے ہر ہفتے بات ہوتی ہے، بھارتی گلوکار سونو نگم

    علی ظفر سے ہر ہفتے بات ہوتی ہے، بھارتی گلوکار سونو نگم

    معروف بھارتی گلوکار سونو نگم نے کہا ہے کہ ان کی پاکستانی گلوکار علی ظفر سے تقریباً ہر ہفتے باتی ہوتی ہے، وہ اچھے شخص ہیں۔

    بالی ووڈ کے گلوکور سونو نگم جو اپنی سریلی آواز کی وجہ سے انڈسٹری میں خاص مقام رکھتے ہیں انھوں نے اپنے پاکستانی گلوکار علی ظفر کے بہترین تعلق کا انکشاف کیا ہے، حالیہ دنوں میں وائرل ہونے والی ویڈیو کلپ وہ علی ظفر کی شخصیت کی تعریف کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

    سونو نگم کا کہنا تھا کہ علی ظفر بہت پیارا آدمی ہے، اس سے ہر ہفتہ یا دو ہفتہ بعد میری بات ہوتی ہے، وہ بہت ہی اچھا شخص ہے۔

    بھارتی فلم انڈسٹری کے کئی یادگار اور مشہور گانوں کو اپنی آواز دینے والے ویٹرن گلوکار کا مزید کہنا تھا کہ جو ہمارے ذہن کے لوگ ہوتے ہیں، ہمارا ان سے پیار رہتا ہے۔

    حال ہی میں سونو نگم نے میزبان فریدون شہریار کو انٹرویو دیا تھا جس میں انھوں نے ایک اور پاکستانی گلوکار عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے خصوصی جذبات کا اظہار کیا تھا۔

    سونو نگم کا کہنا تھا کہ یقینی طور وہ میری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، جب میرا کیریئر ان کے گانوں سے شروع ہوا، تو انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا، ‘مسٹر سونو، میں پاکستان سے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی ہوں، اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے اسے بہت اچھا گایا تھا۔’

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی گلوکار نے اپنے کیریئر کا آغاز عطا اللہ کے مشہور گانے ’اچھا سلا دیا تو نے میرے پیار کا‘ سے کیا اور اپنی کامیابی کا سہرا بھی لیجنڈ گلوکار کو دیا تھا۔

    واضح رہے کہ بھارتی گلوکار نے اپنے کیریئر کا آغاز عطا اللہ کے مشہور گانے ’اچھا صلہ دیا تو نے میرے پیار کا‘ سے کیا تھا۔

    https://urdu.arynews.tv/sonu-nigam-thanks-atta-ullah-eesa-khelwi/

  • بھارتی اداکارہ پر آئی ٹی پروفیشنل کے اغوا اور تشدد کا مقدمہ درج

    بھارتی اداکارہ پر آئی ٹی پروفیشنل کے اغوا اور تشدد کا مقدمہ درج

    تامل اور ملیالم فلموں کی اداکارہ لکشمی مینن اور ان کے ساتھیوں پر آئی ٹی پروفیشنل کے اغوا اور تشدد کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ لکشمی مینن نے ضمانت قبل ازوقت گرفتاری کروالی لیکن ان کے تین ساتھیوں کو گرفتار کرکے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔

    پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ اتوار 24 اگست کی رات پیش آیا جب اداکارہ اور اس کے دوستوں نے مبینہ طور پر ریلوے پل کے قریب متاثرہ شخص کو روکا اور گاڑی میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اسے صبح چھوڑ دیا۔

    بعدازاں اداکارہ سمیت ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کیاگیا۔

    یہ پڑھیں: منگیتر نے ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلر کی طرح پٹائی کی، معروف بھارتی گلوکارہ

    لکشمی مینن نے کئی تامل اور ملیالم فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں، وہ آخری بار رواں برس تامل ہارر تھرلر فلم سبدھم میں نظر آئی تھیں۔

    اداکارہ تامل اور ملیالم فلموں کی اداکارہ ہیں، جو 19 مئی 1996ء کو کیرالہ میں پیدا ہوئیں، انہوں نے فلموں میں آنے سے پہلے کلاسیکی رقاصہ کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا اور اپنی اداکاری کا آغاز 2011ء کی ملیالم فلم رگھوونتے سوانتھم رازیہ سے کیا، تاہم 2012ء کی تامل فلم سندرا پانڈین میں سسی کمار کے مقابل ان کے اہم کردار نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

  • منگیتر نے ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلر کی طرح پٹائی کی، معروف بھارتی گلوکارہ

    منگیتر نے ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلر کی طرح پٹائی کی، معروف بھارتی گلوکارہ

    بھارتی گلوکارہ نے الزام عائد کیا ہے کہ منگیتر نے انھیں ایسے ہی بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جیسے ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلرز مارتے ہیں۔

    بھارت کی ساؤتھ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی معروف گلوکارہ، نغمہ نگار، کمپوزر اور اداکارہ سوچترا رامادورائی نے اپنے منگیتر اور چنئی ہائیکورٹ کے وکیل شنمگراج پر گھریلو تشدد کا سنگین الزام عائد کرتے ہوئے اس کی پوری تفصیل بتائی ہے۔

    چنئی سے تعلق رکھنے والی سوچترا نے اپنے وکیل منگیتر پر مالی فراڈ کے الزامات بھیہ عائد کیے ہیں، گلوکارہ نے دعویٰ کیا کہ منگیتر نے چنئی میں واقع گھر ہتھیالیا اور مالی طور پر انھیں بالکل کنگال کردیا ہے۔

    انسٹاگرام پر اپنی شیئر ویڈیو میں سوچترا نے کہا انھیں تعلق کے دوران جذباتی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، گلوکارہ نے منگیتر کے خلاف قانونی کارروائی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

    تامل ملیالم، تیلگو اور دیگر زبانوں میں گانے والی گلوکارہ نے بری طرح تشدد کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ منگیتر شنمگراج انھیں ڈبلیو ڈبلیو ایف ریسلر کی طرح مارا پیٹا۔

    43 سالہ گلوکارہ نے بتایا کہ وہ برسوں سے اس کے مظالم اور فراڈ پر اس کے خلاف قانونی کارروائی کا سوچ رہی تھیں۔

  • عتیقہ اوڈھو نے شان کو ڈراموں میں دیکھنے کی خواہش ظاہر کردی

    عتیقہ اوڈھو نے شان کو ڈراموں میں دیکھنے کی خواہش ظاہر کردی

    شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے شان شاہد کو ڈراموں میں دیکھنے کی خواہش ظاہر کردی۔

    اداکارہ عتیقہ اوڈھو جو اپنی خوبصورت شخصیت اور بہترین اداکاری کی صلاحیتوں کی وجہ سے تعریف کی جاتی ہیں۔ انہوں بہت سے مقبول ڈرامہ سیریل میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔

    اب وہ بطور جج شریک میزبانی کر رہی ہیں۔ عتیقہ اوڈھو اکثر ٹی وی شوز میں اپنے بے باک اور وائرل ہونے والے بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتی ہیں۔

    اپنے حالیہ ایپی سوڈ میں انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ شان شاہد صائمہ، بابر علی اور جاوید شیخ کی طرح ٹیلی ویژن پر نظر آئیں۔

    یہ پڑھیں: تیسری شادی کس کے کہنے پر کی؟ عتیقہ اوڈھو نے بتادیا

    ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کا جائزہ لیتے ہوئے عتیقہ اوڈھو نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں شان شاہد کو پاکستانی ڈراموں میں دیکھنا چاہتی ہوں کیونکہ وہ ایک فلمی اداکار ہیں جو ٹیلی ویژن کی ایک الگ چمک یا جہت لائے گا، ہمیں شان کی کمی محسوس ہوتی ہے، وہ ٹیلی ویژن اور فلم بھی نہیں کر رہا یا جو کچھ کر رہا ہے وہ کافی نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شان کو مزید کام کرنا چاہیے، مجھ جیسے بڑے اسٹار کو پروڈیوس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے لیے کسی بڑے اداکار کی ضرورت ہے۔

    اسے ڈرامے کے لیے ڈھیروں پیسے دیں کیونکہ پھر لوگ اس کے دیوانے ہو جائیں گے، وہ یقیناً ریکارڈ توڑ دے گا۔

    نادیہ خان نے مزید کہا کہ ٹی وی ہمارا سب سے بڑا میڈیم ہے اور اسے ٹی وی پر آنا چاہیے۔

  • منیب بٹ نے تینوں بیٹیوں کی خوبصورت تصاویر شیئر کردیں

    منیب بٹ نے تینوں بیٹیوں کی خوبصورت تصاویر شیئر کردیں

    شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار منیب بٹ نے نومولود نیمل اور دیگر دونوں بیٹیوں امل اور مرال کی تصاویر شیئر کردیں۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر منیب بٹ نے تصاویر شیئر کی ہیں جس میں انہیں امل کو چھوٹی بہن نیمل کو گود میں پکڑے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ والد بھی موجود ہیں۔

    اداکار کو تینوں بیٹیوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے لکھا کہ ’ہماری بچی آگئی ہے، نیمل منیب بٹ۔‘

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Muneeb Butt (@muneeb_butt)

    مداحوں کی جانب سے منیب بٹ کی تصاویر کو پسند کیا جارہا ہے اور ان کے اچھے نصیب کے لیے دعائیں کی جارہی ہیں۔

    یہ پڑھیں: ایمن خان اور منیب بٹ کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش، نام بھی بتادیا

    واضح رہے کہ اس سے قبل اداکارہ منال خان نے پوسٹ میں بتایا تھا کہ معروف جوڑے کے ہاں 26 اگست کو بیٹی کی ولادت ہوئی ہے جس کا نام ‘نیمل منیب’ رکھا ہے، جبکہ منال خان بھی نیمل کی آمد پر بہت خوش ہیں۔

    ایمن اور منیب کہ ہاں پہلی بیٹی امل کی پیدائش 2019 میں جب کہ دوسری بیٹی مرال کی پیدائش 2023 میں ہوئی تھی، انہوں نے 2016 میں منیب بٹ سے شادی کی تھی۔

  • ماہر چور اور اصلاحِ احوال

    ماہر چور اور اصلاحِ احوال

    آپ یقین مانیے کہ اگر مذہبی قیود، سماجی ذمہ داریاں اور ذاتی وقعت کا خیال لوگوں کے دلوں سے نکال دیا جائے تو آپ کو یہ جتنے شریف صورت انسان نظر آ رہے ہیں، ان کے کارناموں سے شیطان بھی پناہ مانگے اور یہ لوگ وہ حشر بپا کر دیں کہ دنیا دوزخ کا نمونہ بن جائے۔

    یہ تو شاید آپ بھی مانتے ہوں گے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ خطاب اس کو محض اس کی دماغی قوتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ چونکہ شیطان اور اس کی ذریات یقیناً اشرف المخلوقات کے زمرے سے خارج ہیں، اس لئے ماننا پڑے گا کہ ان کے سروں میں دماغ نہیں ہے اور جب دماغ ہی نہیں ہے تو وہ کسی طرح بھی سوچ سوچ کر وہ بد معاشیاں نہیں کر سکتے جو انسان کر سکتا ہے اور جو جو باتیں دماغ سے اتار کر یہ کر جاتا ہے وہ فرشتہ تو کیا حضرت عزرائیل کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آ سکتیں۔

    اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر واقعات کسی شخص کو نیک سے بد اور اچھے سے برا کر سکتے ہیں تو کیا واقعات کسی بدمعاش کو نیک معاش بھی بنا سکتے ہیں۔ اس بارے میں میری اور دنیا کی بعض قابل احترام ہستیوں کی رائے میں اختلاف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ چیز ممکن ہے وہ کہتے ہیں کہ برائی کا مادّہ پختہ ہو کر کوئی بیرونی اثر قبول نہیں کر سکتا۔ یہ وہ بحث ہے جس کے سلسلے میں اپنی زندگی کے بعض حالت لکھ کر میں آپ کی رائے کا طالب ہوں۔ مگر خدا کے لیے رائے ظاہر کرتے وقت آپ صرف واقعات کو دیکھیے اور اس کا خیال نہ کیجیے کہ ایک طرف تو ایک ایسے شخص کی رائے ہے جس کی تمام عمر بدمعاشیاں کرتے گزری ہے اور دوسری طرف ان لوگوں رائے ہے جن کی عزت دنیا میں ہر شخص کے دل میں ہے اور جن کے قول آپ حدیث اور آیت کے ہم پلہ سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی بتائیے کہ کیا طریقے ہو سکتے ہیں جو پختہ کار بدمعاشوں کو راہِ راست پر لا سکیں اور ان کی اصلاح حال کر سکیں۔

    اس سے غرض نہیں کہ میں کہاں پیدا ہوا اور کب پیدا ہوا۔ اس سے مطلب نہیں کہ میں کس خاندان میں پیدا ہوا۔ میرا نام کیا رکھا گیا اور میں نے اس ایک نام کے رفتہ رفتہ کتنے نام کر لیے۔ ہمارے گرد و پیش کے واقعات سمجھنے کے لیے بس اتنا جاننا کافی ہے کہ ہم پیدا ہوئے اور ایسے والدین کے ہاں پیدا ہوئے کہ جناب والد صاحب قبلہ سخت شرابی اور بے فکرے تھے اور ہماری اماں بالکل اپاہج۔ گھر میں پہلے کچھ جمع پونجی ہو تو ہو لیکن جب سے ہوش سنبھالا، ہم نے تو یہاں خاک ہی اڑتے دیکھی۔ ہم کو اب تک یہ معلوم نہیں کہ آخر گھر کا خرچ چلتا تھا تو کیوں کر چلتا تھا۔ آٹھ نو برس تک ہماری عمر لونڈوں میں گیڑیاں اور گلی ڈنڈا کھیلنے، بدمعاشیاں کرنے اور شہر بھر کے گلی کوچوں کی خاک چھاننے میں گزری۔

    کوئی ہم دس برس کے ہوں گے کہ والدہ صاحبہ نے گھر کا خرچ چلانے کا آلہ ہم کو بنایا۔ یعنی چوری کرنے کی ترغیب دی اور اس طرح ہم نے چوری کی۔ بسم اللہ سامنے کے گھر والے مولوی صاحب کے مرغے سے کی لیکن وہ مرغا بھی آخر مولوی صاحب کا مرغا تھا۔ ادھر ہم نے اس پر ہاتھ ڈالا اور ادھر اس نے غل مچا کر سارے محلّے کو جمع کر لیا۔ مولوی صاحب بھی باہر نکل آئے۔ مرغے کو ہماری بغل سے رہائی دلائی۔ ہمارے دو تین چپت رسید کیے۔ خوب ڈانٹا۔ ہماری اماں سے شکایت کی اور ڈرامے کا یہ سین ختم ہو گیا۔ ہماری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کسی کو یہ خیال بھی نہیں گزرا کہ ہم نے چوری کی نیّت سے یہ مرغا پکڑا تھا۔ یہ سمجھے کہ جس طرح بچّے جانوروں کو ستاتے ہیں، اسی طرح اس نے بھی کیا ہوگا۔ چلیے گئی گزری بات ہوئی۔

    ہم روتے ہوئے اماں کے پاس آئے۔ انہوں نے ہم کو ایک ایسی ترکیب بتا دی کہ اب کہو تو سارے شہر کی مرغیاں پکڑ لاؤں اور کیا مجال ہے کہ ایک بھی ذرا چوں کر جائے۔ خیر وہ ترکیب بھی سن لیجیے۔ مگر للہ اس پر عمل نہ کیجیے، ورنہ یاد رکھیے کہ چوری کا جو مادّہ فطرت نے آپ کو ودیعت کیا ہے اس میں ہیجان پیدا ہو جائے گا اور ممکن ہے آپ بھی مرغے چور ہو جائیں۔

    یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ مرغی پر اگر پانی کی ایک بوند بھی پڑ جائے تو وہ سکڑ کر وہیں بیٹھ جاتی ہے اور چاہے مار بھی ڈالو تو آواز نہیں نکالتی اور اسی سے ’’بھیگی مرغی‘‘ کا محاورہ نکلا ہے۔ فطرت کے مطالعے نے چوروں کو سکھا دیا ہے کہ مرغیوں کے چرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کو کسی طرح گیلا کر دیا جائے۔ وہ کیا کرتے ہیں کہ جہاں کسی مرغی کو اپنے موقع پر دیکھا اور چپکے سے گیلا کپڑا اس پر ڈال دیا۔ ادھر گیلا کپڑا پڑا اور ادھر وہ دبکی۔ انہوں نے اٹھا کر بغل میں دبایا اور چلتے بنے۔ اب مرغی ہے کہ آنکھیں بند کیے سکڑی سکڑائی بغل میں دبی چلی جا رہی ہے۔ نہ کڑ کڑاتی ہے اور نہ منہ سے آواز نکالتی ہے۔ بہر حال یہ طریقہ سیکھ ہم نے سب سے پہلے مولوی صاحب کے مرغے پر ہی ہاتھ صاف کیا۔ اس روز بہت دنوں کے بعد ہمارے ہاں مرغ کا سالن پکا اور سب نے بڑے مزے سے اڑایا۔ مرغ کے بال و پر سب گڑھا کھود کر گھر ہی میں دفن کر دیے۔

    بات یہ ہے کہ بچّے کو جو چیز سکھائی جاتی ہے وہ جلد سیکھ جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اپنے ہاتھ کی چالاکی دکھا کر لوگوں کو بتائے کہ ہم کسی کارروائی میں بڑوں سے دب کر رہنے والے نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی مرغیاں پکڑنے کا تانتا باندھ دیا۔ شاید ہی کوئی منحوس دن ہوتا ہوگا جو ہم مرغیاں پکڑ کر نہ لاتے ہوں۔ کچھ دنوں تو یہ مرغیاں صرف ہمارے کھانے میں آتی رہیں۔ اس کے بعد ان کی تجارت شروع کی۔ یہاں کی مرغی پکڑی وہاں بیچ دی۔ وہاں کی مرغی لائے یہاں فروخت کر دی۔ غرض ہمارے بل پر گھر کا خرچ چلنے لگا۔ گھر کے خرچ سے جو کچھ بچتا وہ والد صاحب قبلہ مار پیٹ کر لے جاتے اور مفت کی شراب اڑاتے۔

    اسی آوارہ گردی میں ہماری ملاقات ایسے لوگوں سے ہو گئی جو چوری میں مشاق تھے۔ ان میں بعضے ایسے تھے جو قید خانے کی ڈگریاں بھی حاصل کر چکے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی صحبت میں ہم کو مزہ آنے لگا۔ ہم اپنے کارنامے بیان کرتے وہ اپنے قصے سناتے۔ ہمارا شوق بڑھتا اور جی چاہتا کہ کچھ ایسا کام کرو جو یہ بھی کہیں کہ ’’واہ میاں صاحب زادے تم نے تو کمال کر دیا۔‘‘ غرض’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔‘‘ کے خیال نے ہم کو مرغی چور سے پکا چور کر دیا۔ پہلے جیب کترنے کی مشق کی۔ گندہ بروزہ مل مل کر انگلیوں کی کگریں ایسی سخت کر لیں کہ مضبوط سے مضبوط اور موٹے سے موٹے کپڑے کو چٹکی میں لیا، ذرا مسلا اور جیب ہاتھ میں آ گئی۔ ہوتے ہوتے انگلیاں ایسا کام کرنے لگیں کہ قینچی بھی کیا کرے گی۔ جب اس میں کمال حاصل ہوگیا تو پھر قفل شکنی کی مشق بہم پہنچائی۔

    قفل دو طرح سے کھولے جاتے ہیں۔ یا کنجیوں سے یا تار سے۔ اب یہ چور کا کمال ہے کہ قفل کو دیکھتے ہی اپنے لچھے میں سے کنجی ایسی نکالے جو قفل میں ٹھیک بیٹھ جائے، اور تار کو اس طرح موڑ کر ڈالے کہ پہلے ہی چکر میں سب پتلیاں ہٹ کر کھٹ سے قفل کھل جائے۔ کچھ خدا کی دین تھی کہ مجھے اس کام میں یدِ طولٰی حاصل ہو گیا۔ معمولی قفل تو درکنار، چپ کے کارخانے کا قفل بھی میں ایک منٹ میں کھول دیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ شہر کے بڑے بڑے چور بھی میری خوشامد کرتے۔ سب سے بڑا حصہ دیتے۔ اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر مجھے ساتھ لے جاتے مگر میں سوائے قفل کھول دینے کے چوری سے کچھ غرض نہ رکھتا تھا۔ قفل کھولا اور چلا آیا۔ یار لوگوں نے چوری کا مال فروخت کیا اور میرا حصہ چپکے سے میرے پاس بھیج دیا۔ میرے ساتھی اکثر گرفتار ہوئے جیل گئے لیکن میرا نام کبھی عدالت کے سامنے نہیں آیا اورمیں باوجود سیکڑوں وارداتوں میں حصہ لینے کے بچا رہا۔

    ہوتے ہوتے میرے ہاتھ کی صفائی نے وہ نام پیدا کیا کہ مجھے شہر بھر کے چوروں نے اپنا سردار بنا لیا۔ کوئی بڑی واردات نہ ہوتی تھی جس میں مجھ سے مشورہ نہ کیا جاتا ہو۔ کوئی بڑی چوری نہ ہوتی تھی جس کا میں نقشہ نہ ڈالتا ہوں اور کوئی مقدمہ نہ ہوتا تھا جس میں میری ذہانت سے مدد لے کر ملز مین رہا نہ ہوتے ہوں۔ بڑے بڑے گھاگ جیب کترے میرا لوہا مانتے تھے اور بڑے بڑے دیہاڑی چور میرے مشورے بغیر کسی کام میں ہاتھ نہ ڈالتے تھے۔

    میری عمر کوئی اٹھارہ انیس سال کی ہو گی کہ اخبار ’’حفاظت‘‘ میں ایک اشتہار میری نظر سے گزرا۔ ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے ادیب مسٹر مسعود نے لکھا تھا کہ ’’میں ایک ناول لکھنا اور چوری کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اگر اس فن کا کوئی ماہر میری مدد کرے تو میں اس کو مناسب معاوضہ دینے پر بھی تیار ہوں۔‘‘ آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنے کارناموں پر فخر کرتا اور ان کو مشتہر کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک انسانی کمزوری ہے اور اس سے کوئی فرد بشر خالی نہیں ہے۔ خیر انعام و اکرام کا تو مجھے فکر نہ تھا۔ ہاں میرے دل نے کہا کہ ذرا ان صاحب سے چل کر مل لو اور دیکھو کہ ہیں یہ کتنے پانی میں۔ چوروں کے قصے لکھ لکھ کر یہ اتنے مشہور ہو گئے ہیں لیکن یہ جانتے بھی ہیں کہ چور کیسے ہوتے ہیں اور چوری کس طرح کرتے ہیں۔

    خطرہ ضرور تھا مگر میرے شوق نے مجھے اس قدر گھیرا کہ میں آخر شریفوں کی سی شکل بنا ان کے پاس پہنچ ہی گیا۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوبصورت نوجوان سا شخص سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ آنکھوں میں ذہانت اور چہرہ پر متانت کے ساتھ شوخی اور لباس میں سادگی کے ساتھ صفائی ہے۔ آتے ہی ہاتھ بڑھایا اور کہا، ’’معاف کیجیے گا میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں آپ ہی کی طلبی پر حاضر ہوا ہوں۔ آپ ہم لوگوں کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ میں آپ کی اس خواہش کو پورا کر سکوں۔‘‘

    کہنے لگے ’’اوہو۔ آپ میرے اشتہار کے جواب میں تشریف لائے ہیں۔ ذرا ٹھہریے۔ میں ابھی اپنی موٹر لاتا ہوں۔ ایسی باتیں کرنے کے لئے یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔ کہیں سوفتے میں بیٹھ کر گفتگو کریں گے۔ مجھے آپ سے بہت کچھ پوچھنا ہے۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ گفتگو دونوں کے لئے فائدہ بخش ہو۔‘‘

    وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے اور مجھے خیال ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حضرت مجھے گرفتار کرا دیں۔ پھر سوچا کہ مجھ پر الزام ہی کیا ہے جو میں ڈروں۔ اور ان کو میرے حالات ہی کیا معلوم ہیں جو مجھے کچھ اندیشہ ہو۔ اگر گڑبڑ ہوئی بھی تو خود انہی کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ موٹر لے آئے اور میں ’’ہر چہ باد باد ما کشتی در آب انداختیم‘‘ کہتا ہوا ان کے ساتھ سوار ہو گیا۔

    موٹر فراٹے بھرتی شہر سے گزر آبادی کو پیچھے چھوڑ، جنگل میں سے ہوتی ہوئی ایک ندی پر پہنچی۔ مسٹر مسعود نے موٹر روکی۔ ہم دونوں اترے۔ چائے کا سامان نکالا گیا اور ندی کے کنارے دستر خوان بچھا کر ہم دونوں بیٹھے۔ اب کھاتے جاتے ہیں اور باتیں ہوتی جاتی ہیں۔

    مسٹر مسعود نے کہا کہ ’’معاف کیجیے میں آپ کا نام نہیں جانتا اس لئے آپ کو گفتگو میں صرف ’’مسٹر‘‘ کہوں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کے حالات شاید اس کی اجازت نہ دیں کہ آپ اپنا نام کسی اجنبی شخص پر ظاہر کریں۔ اور اگر آپ نے ظاہر کیا بھی تو وہ یقیناً آپ کا اصلی نام نہ ہوگا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ صرف لفط ’’مسٹر‘‘ سے ان تمام دقتوں کو رفع کیا جائے۔

    اس سے تو آپ مطمئن ہو گئے ہوں گے کہ میں آپ کو ایسی جگہ لایا ہوں جہاں کوئی شخص چھپ چھپا کر ہماری باتیں نہیں سن سکتا۔ اور میں نے یہ صرف اس لیے کیا ہے کہ آپ کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ میں آپ کے واقعات سننے میں کسی دوسرے کو شریک کر کے گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ اب ہم نہایت اطمینان سے گفتگو کر سکتے ہیں۔ آپ کا جو جی چاہے مجھ سے پوچھیے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر چیز صاف دلی سے بیان کروں گا اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی میرے سوالوں کے جواب میں سچائی کا پہلو اختیار کریں گے اور اس طرح ممکن ہے کہ یہ صحبت ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا دوست اور پکا دوست بنا دے۔

    مسٹر مسعود کی آواز میں کچھ ایسا لوچ، الفاظ میں کچھ ایسی شیرینی، نگاہ میں کچھ ایسی محبت اور گفتگو میں کچھ ایسی دل چسپی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ تمام اندیشے ہوا ہو گئے جو مجھ جیسے شخص کے دل میں پیدا ہوئے تھے۔ اور پیدا ہونے لازمی تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ میرے دل میں کسی شخص کی وقعت قائم ہوئی۔ اور خود اپنے متعلق بھی سمجھا کہ میں بھی آدمی ہوں اور ایک شریف آدمی بن سکتا ہوں۔ باتوں باتوں میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مسٹر مسعود کو ابتدا ہی سے مجھ جیسے لوگوں سے ملنے کا شوق ہے اور وہ کوئی کتاب نہیں لکھتے جب تک اس کی بنا واقعات پر نہ ہو۔ ان کو بہت سے بدمعاشوں نے دھوکے بھی دیے اور دوستی کی آڑ میں ان کو خوب لوٹا۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ تو خود ان کے گھر میں چوری کی اور مزہ یہ ہے کہ خود اس چوری کا حال ان سے بیان بھی کر دیا مگر اس اللہ کے بندے نے نہ کبھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ کبھی کوئی شکوہ و شکایت زبان پر لایا۔

    مجھے یہ معلوم کر کے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ اور تو اور، خود میرے حالات سے پوری طرح واقف ہیں۔ انہوں نے اپنا جال کچھ اس طرح پھیلایا تھا کہ کوئی واردات نہ ہوتی ہوگی جس کا رتی رتی حال ان کو نہ معلوم ہو جاتا ہو۔ اور کوئی مشہور چور یا ڈاکو ایسا نہ تھا جس کو وہ ذاتی طور پر نہ جانتے ہوں، اور ضرورت کے وقت اس کی مدد نہ کرتے ہوں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ضرورت اکثر لوگوں کو چوری کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے لیکن رفتہ رفتہ گرد و پیش کے واقعات جال بن کر ان کو اس طرح پھنسا لیتے ہیں کہ وہ جتنا نکلنا چاہتے ہیں اتنی ہی جال کی رسیاں ان کو کستی چلی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ کسی جیل خانے میں مر کر رہ جاتے ہیں یا ضمیر کی ملامت کسی مرض میں مبتلا کر کےان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔

    مسٹر مسعود جیسے شخص کے ساتھ دل کھول کر گفتگو نہ کرنا واقعی ظلم تھا۔ میں نے بھی اپنے اگلے پچھلے واقعات سب بیان کر دیے۔ چوری کرنے کی ترکیبیں بتائیں۔ قفل کھولنے کے طریقے بتائے۔ اپنے ساتھیوں کے قصے بیان کیے۔ غرض کوئی تین چار گھنٹے اسی قسم کی گفتگو میں گزر گئے۔ شام ہو گئی تھی اس لیے ہم دونوں اٹھے۔ شہر کے کنارے پر انہوں نے مجھے موٹر سے اتار دیا۔ دوسرے دن ملنے کا وعدہ لیا اور اس طرح ہم دونوں کی گفتگو کا سلسلہ کوئی مہینہ بھر چلتا رہا۔ انہوں نے مجھے معقول معاضہ دینا بھی چاہا لیکن میں نے لینے سے انکار کر دیا۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے، ’’مسٹر اب معلوم نہیں آئندہ ہمارا ملنا ہو یا نہ ہو لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ آپ کی صحبت میں جو مزہ مجھے آیا ہے، وہ شاید ہی کسی کی صحبت میں آیا ہو۔ میرا ارادہ ہے کل یہاں سے چلا جاؤں گا۔ اس لئے یہ سمجھنا چاہیے کہ آج میری اور آپ کی آخری ملاقات ہے۔

    ایک دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ قفلوں کے ایک بڑے کارخانے میں ایک کاریگر کی ضرورت ہے۔ اسّی روپے تنخواہ ملے گی مگر انہی لوگوں کو درخواست دینی چاہیے جو قفلوں کی پتلیوں کو سمجھتے ہوں اور ان میں ایجاد کرنے کا مشورہ دے سکتے ہوں۔ مجھ کو آتا ہی کیا تھا، اگر کچھ آتا تھا تو انہی پتلیوں کا الٹ پھیر۔ دل میں آیا کہ چلو یہاں قسمت آزمائی کریں۔ جیب جو ٹٹولی تو کرایہ تک پاس نہ تھا۔ اللہ کا نام لے کر پیدل چل کھڑا ہوا۔

    سو میل کا فاصلہ چار دن میں طے کیا۔ کارخانے میں پہنچا۔ میری زدہ حالت دیکھ کر کسی نے منہ نہ لگایا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جگہ بھر چکی ہے۔ کارخانے کی سیڑھیوں پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر نہ ہوئی تھی کہ خدا کی قدرت سے کارخانے کے مالک وہاں سے گزرے۔ مجھے سر پکڑے بیٹھا دیکھ کر وہیں ٹھہر گئے۔ مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کون ہیں اور یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘

    میں نے اپنے پیدل آنے کا قصہ بیان کیا۔ ان پر اس کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ مجھے لے کر کارخانے میں گئے۔ ایک بڑی تجوری رکھی تھی۔ کہنے لگے، ’’ذرا بتاؤ تو سہی کہ اس میں کتنی پتلیاں ہیں۔ ہمارے کار خانے کا دعویٰ ہے کہ اسے کوئی نہیں کھول سکتا۔‘‘ میں نے ان سے ایک موٹا تار مانگا۔ قفل کے سوراخ میں ڈال کر گھمایا اور کہا کہ’’اس میں گیارہ پتلیاں ہیں اور اس کے کھولنے کے لیے دو کنجیاں چاہییں۔ لیکن اگر آپ کہیں تو اسی تار سے میں اس کو کھول دوں۔‘‘

    میں نے تار کو ذرا موڑ کر دو چکر دیے۔ قفل کھٹ سے کھل گیا۔ یہ دیکھ کر تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کہنے لگے، ’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس میں اور کیا ترمیم کی ضرورت ہے جو قفل بغیر کسی کنجی کے نہ کھل سکے۔‘‘ میں نے اپنے تجربے کے لحاظ سے ان کو پتلیوں کی ترتیب بتائی۔ یہ سن کر تو وہ ایسے خوش ہوئے کہ وہیں کھڑے کھڑے اسّی روپے پر مجھے نوکر رکھ لیا۔ اس کے بعد میں نے اتنی محنت سے کام کیا اور قفلوں میں وہ ایجادیں کیں کہ تھوڑے ہی دنوں میں وہ کارخانہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ میری تنخواہ بڑھ کر تین سو روپے ہو گئی۔ دوسرے کارخانے والوں نے مجھے توڑنا بھی چاہا لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جس شخص نے مصیبت میں میری مدد کی تھی اس کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ غرض یہ کہ تمام ملک میں ہمارے کارخانے کی دھاک بیٹھ گئی۔ جب اس طرح اطمینان ہو گیا، تو میں نے گھر بسانے کا ارادہ کیا۔ شادی بھی ٹھہر گئی لیکن عین وقت پر از غیبی گولہ پڑا۔

    ہوا یہ کہ ہمارے شہر میں’’چور اور چوری‘‘ پر ایک لیکچر کا اشتہار دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ چلو دیکھیں کہ یہ لیکچرار صاحب اس پیشے کے متعلق کیا جانتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ وقت مقررہ پر جو میں جلسہ میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع ہے۔ سیکڑوں اخباروں کے نمائندے فوٹو کے کیمرے لیے موجود ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ان بھلے آدمیوں کو چوروں سے کچھ ایسی دلچسپی ہے جو اپنا سارا کاروبار چھوڑ کر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ بہرحال چار بجے کے قریب مقرر صاحب تشریف لائے۔ ان کے خیر مقدم میں تالیوں کا وہ شور اور ہرے ہرے کا وہ غل ہوا کہ زمین آسمان ہل گئے۔ وہ بھی نہایت شان سے چبوترہ پر آئے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو یہ تو میرے پرانے دوست مسٹر مسعود ہیں۔ میں نے کہا، ’’لو بھئی اچھا ہوا، اب ان کو بتاؤں گا کہ حضرت مجھے دیکھ کر آپ اندازہ کیجیے کہ میں صحیح کہتا تھا یا آپ صحیح کہتے تھے۔ میں پہلے کیا تھا اور اب کیا ہوں۔ آخر میری اصلاح حال ہوئی یا نہیں۔‘‘

    خیر لیکچر شروع ہوا۔ مسٹر مسعود نے چوروں کی ٹولیوں کے، ان کے رہنے سہنے کے، ان کے چوری کرنے کے، ان کے خیالات کے غرض ان کی زندگی کے ہر پہلو کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا کہ دل خوش ہو گیا۔ اور اس وقت معلوم ہواکہ واقعی مطالعۂ زندگی اس طرح کیا جاتا ہے اور تجربات کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔ اپنے لیکچر کے آخر میں انہوں نے وہی پرانی بحث چھیڑی کہ ’’جس شخص کو چوری کا مرض پڑ گیا ہو کیا اس کی اصلاح حال کی جا سکتی ہے؟‘‘ اور اپنی وہی پرانی رائے ظاہر کی کہ ’’یہ مرض پختہ ہو کر عادت ثانی ہو جاتا ہے۔ اور عادت ثانی کا چھڑانا ناممکن ہے۔‘‘ لیکچر ختم ہونے کے بعد مجھ سے نہ رہا گیا اور میں سیدھا لیکچرار صاحب کے چبوترے پر پہنچا۔ انہوں نے مجھ کو ذرا غور سے دیکھا لیکن یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ کون شخص ہے۔

    مجھ کو لیکچر وکچر دینا تو آتا نہیں۔ ہاں میں نے سیدھی سیدھی زبان میں کہا، ’’معزز حاضرین! ہمارے کرم فرما مسٹر مسعود نے آخر میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی دریافت میں کوئی ایسا چور نہ ملا ہو جو راہ راست پر آیا ہو۔ لیکن میرا تجربہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ بد سے بد تر شخص کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ خواہ اس کو مسٹر مسعود مانیں یا نہ مانیں۔‘‘ میں یہیں تک کہنے پایا تھا کہ جلسہ میں غل مچ گیا۔ کوئی کہتا، ’’حضرت آپ کے دماغ کا علاج کرائیے۔‘‘ کوئی کہتا، ’’آپ کی فصد لیجیے۔‘‘ غرض کیسا سننا اور کیسا سمجھنا۔ ایک طوفان بے تمیزی برپا ہو گیا۔ مسٹر مسعود تو سوار ہو کر چل دیے اور مجھے اخبار کے نمائندوں نے گھیر لیا۔ بیسیوں فوٹو لیے گئے۔ہزاروں سوالات کیے گئے۔

    میں نے پوچھا، ’’بھائیو یہ کیا معاملہ ہے۔ آخر میں نے ایسی کون سی عجیب بات کہی ہے جو مجھے یوں دیوانہ بنا لیا ہے۔‘‘ آخر بڑی مشکل سے ایک صاحب نے کہا، ’’حضرت معلوم بھی ہے کہ آپ نے کس شخص کی تردید کی ہے۔ مسٹر مسعود وہ شخص ہیں کہ جرائم پیشہ لوگوں کی واقفیت کے متعلق تمام دنیا ان کا لوہا مانتی ہے۔ آپ کے سوا اس شہر میں تو کیا ساری دنیا میں کوئی نہ ہوگا کہ مسٹر مسعود ان لوگوں کے بارے میں کچھ فرمائیں اور وہ آمنّا اور صدقنا نہ کہے۔ خیر اور کچھ نہیں تو یہ ضرور ہوگا کہ ساری دنیا میں شہرت ہو جائے گی کہ آج بھرے جلسے میں ایک صاحب نے مسٹر مسعود پراعتراض ٹھونک دیا۔‘‘ میں پریشان تھا کہ یا میرے اللہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ دنیا والے جب کسی کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں تو پھر اس کے خلا ف کچھ سننا ہی نہیں چاہتے اور اس کی صحیح اور غلط ہر بات پر سر تسلیم جھکا دیتے ہیں۔

    چار روز بھی نہیں گزرتے تھے کہ ملک کے سارے اخباروں میں اس جلسے کی کیفیت اور میری تقریر چھپ گئی۔ ہر اخبارمیں میری تصویر تھی اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ ’’آپ فلاں شہر میں لوہار ہیں۔ اور چوروں کے اصلاح حال کے بارے میں مسٹر مسعود کی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔‘‘ غرض کوئی پرچہ نہ تھا جس میں مجھے خوب نہ بنایا گیا ہو، اور میرا مذاق نہ اڑایا گیا ہو۔ جو پرچہ چھپتا اس کی ایک کاپی میرے پاس بھی آتی۔ میں دیکھتا اور ہنس کر خاموش ہو جاتا۔ لوگوں کی اس بے ہودگی کی تو مجھے پروا نہ تھی لیکن غضب یہ ہوا کہ یہ اخبار میرے قدیم ہم پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں بھی پڑے۔ وہ پہلے سے میری تلاش میں تھے، اور پیشہ چھوڑنے کی وجہ سے مجھ سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ کیا کہ میرے سابقہ حالات اخباروں میں چھپوا دیے۔ اور دنیا کو بتا دیا کہ جن صاحب نے مسٹر مسعود کی مخالفت کی ہے وہ خود بڑے دیہاڑی چور ہیں۔ اور اس لیے ان کی رائے کسی طرح بھی مسٹر مسعود کی رائے سے کم وقعت نہیں رکھتی۔

    ان حالات کا چھپنا تھا کہ سارے ملک میں اودھم مچ گیا ور جو عزت میں نے اپنی محنت، کار گزاری اور دیانت سے حاصل کی تھی وہ سب خاک میں مل گئی۔

    (اردو کے مقبول مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر سے اقتباسات)

  • ٹیلر سوئفٹ کی منگنی پر خاتون رپورٹر کا ردعمل وائرل

    ٹیلر سوئفٹ کی منگنی پر خاتون رپورٹر کا ردعمل وائرل

    گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کی منگنی کا اعلان کرنے والی خاتون رپورٹر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

                انٹرنیٹ پر ٹیلر سوئفٹ اور فٹبالر ٹریوس کیلس کی منگنی کے چرچے ہیں لیکن ایک ردعمل نے سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔

    سی بی ایس کی رپورٹر اولیویا رینالڈی کا ڈرامائی ردعمل اب وائرل ہو چکا ہے اور لوگ اسے شیئر بھی کررہے ہیں۔

    وائٹ ہاؤس کے باہر فلمائے گئے ایک وائرل کلپ میں رینالڈی اپنے فون کے ذریعے اسکرول کرتے ہوئے نظر آتی ہیں جب اسے اچانک سوئفٹ کی منگنی کی پوسٹ کا پتہ چلا۔

    یہ پڑھیں: ٹیلر سوئفٹ نے امریکی فٹبال اسٹار سے منگنی کر لی

    ٹیلر سوئفٹ کی منگنی کا جان کر وہ حیران اور پرجوش نظر آتی ہے۔ تقریباً فوراً ہی، وہ بولتی ہے، "ٹیلر سوئفٹ کی منگنی ہو گئی ہے!”، ایک بار نہیں بلکہ کئی بار، گویا اسے یقین کرنے کے لیے اسے خود سننے کی ضرورت تھی۔

    خاتون رپورٹر کہتی ہیں کہ ’اوہ میرے خدا، اوہ میرے خدا۔” یہ میرے پیشہ ورانہ کیریئر میں ایک بہت ہی دلچسپ لمحہ ہے، کیونکہ مجھے یہ اعلان کرنے کا موقع ملا کہ ٹیلر سوئفٹ اور ٹریوس کیلس کی منگنی ہو گئی ہے۔” ا

    پوسٹ کو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے لیکن یہ خاص ویڈیو ایکس (سابقہ ​​ٹویٹر) پر ہینڈل کولنگ رگ کے ذریعے شیئر کی گئی تھی

    واضح رہے کہ ٹیلر سوئفٹ نے گزشتہ روز انسٹاگرام پر اپنی منگنی کی تصاویر شیئر کیں تھیں جس پر مداحوں کی جانب سے انہیں مبارکباد دی گئی۔

  • ماہرہ خان کا شوہر سلیم کریم کی سالگرہ پر جذباتی پیغام وائرل

    ماہرہ خان کا شوہر سلیم کریم کی سالگرہ پر جذباتی پیغام وائرل

    عالمی شہرت یافتہ پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان کا شوہر سلیم کریم کی سالگرہ پر جذباتی پیغام وائرل ہوگیا۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ ماہرہ خان نے شوہر سلیم کریم کے ساتھ تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہیپی برتھ ڈے میری جان، میرے سلیم۔‘

    انہوں نے لکھا کہ ’براہ کرم ہمارے اور ہمارے چھوٹے سے خاندان کے لیے دعا کریں، بہت اچھا لگے گا۔‘

    maHIRA KHAN

    اداکارہ کے اس محبت بھرے پیغام پر مداحوں اور شوبز سے وابسطہ شخصیات نے نیک خواہشات اور دعاؤں کا سلسلہ شروع کردیا۔

    یہ پڑھیں: ماہرہ خان نے بارش اور سیلاب کا خوفناک تجربہ بیان کردیا

    کسی نے لکھا، ’اللّٰہ آپ دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے‘، تو کسی نے کہا، ’اللّٰہ ہمیشہ آپ دونوں کو اپنی امان میں رکھے۔‘

    یاد رہے کہ ماہرہ خان نے اکتوبر 2023 میں بزنس مین سلیم کریم سے دوسری شادی کی تھی۔

  • بڑے بچّوں‌ کے لیے لکھی گئی ایک کہانی

    بڑے بچّوں‌ کے لیے لکھی گئی ایک کہانی

    جب رات کو سونے سے پہلے میرا نواسا فوزان اصرار کرتا ہے کہ نانا ابو کہانی سنائیں اور کہانی بھی اپنے بچپن کی تو میں سوچتا ہوں نانا دادا لوگ بچوں کے لیے ہمیشہ داستانوی کردار کیوں ہوتے ہیں؟ کیا واقعی وہ زندگی کی کہانیوں کے ہیرو ہوتے ہیں یا محض بچوں کی فنطاسیہ کا کرشمہ یعنی سراب خیال یا ایسے علائم و تصورات جنہیں وہ حقیقی خیال کر لیتے ہیں؟

    کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے بچوں کے لیے وہ کسی دور دراز سیارے کی مخلوق ہوتے ہیں یا ان دیکھے زمانوں کے کردار جنھیں بچے ہمیشہ کوئی کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے دیکھنا یا سننا چاہتے ہیں۔

    میں اپنے بچپن کے یاد رہ جانے والے تمام واقعات فوزان کو سنا چکا ہوں مگر وہ تو ہر شب میرے بچپن کی کوئی نہ کوئی کہانی سننا چاہتا ہے۔ گاؤں کے ایک متوسط زمیندار گھرانے کے بچے کے بچپن میں کیا ہو سکتا تھا! گرمیوں کی تپتی دوپہروں میں دادیوں، ماسیوں، خالاؤں، چچیوں کی تیز نگاہوں سے بچ بچا کر مٹیوں سے اناج نکالنا اور ہٹی سے پھلیاں، نگدی اور بتاشے لے کر کھانا، ویرانوں میں جن بھوت ڈھونڈنا، کھیتوں سے خربوزے چوری کرنا، رہٹوں اور ڈلیوں میں ننگا کھلا ہوکر نہانا، کوئلوں سے دیواروں پر تصویریں بنانا، پرندوں کے گھونسلوں سے انڈے اور بچے چوری کرنا، آنکھ مچولی کھیلنا اور کھیتوں میں اور ڈیروں اور خالی چھتوں پر ہونے والی نو عمر محبتوں کو چھپ چھپ کر دیکھنا۔ سردیوں کی لمبی راتوں میں چرخہ کاتتی عورتوں کے درمیان گھس کر بیٹھ جانا۔ نئی سہاگنوں کی سرگوشیوں اور حنائی مہک سے ایک انجانی سی لذت محسوس کرنا اور ان کے آس پاس پھرنا، یہ ساری باتیں آج کے بیکن ہاؤس، روٹس اور سٹی اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے ناقابل فہم ہیں مگر فوزان کو دلچسپ لگتی ہیں۔ عورتوں کے ذکر پر وہ بڑی معصومیت سے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتا ہے جیسے اس طرح کہانی کا وہ حصہ اسے سنائی اور دکھائی نہ دے رہا ہو۔

    ہمارے گاؤں میں سانپ بہت ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کبھی چھت کے شہتیروں اور کڑیوں سے سانپ لٹکا ہوتا تھا، کبھی رسوئی سے کوبرے کی پھنکار سنائی دیتی تھی، کبھی رات کو صحن میں چلتے ہوئے اچانک پاؤں کے نیچے سانپ آ جاتا تھا اور کبھی کسی پانی کی نالی میں اس کی سرسراہٹ سنائی دیتی تھی۔ نیولوں، سانپوں، کتوں اور سیہہ کی لڑائیاں بھی بہت دیکھیں۔ فوزان کو سانپوں، پرندوں اور دیگر جانوروں کے واقعات سننا بہت پسند ہے بشرطیکہ کہانی میں ان کی موت واقع نہ ہو۔

    ایک شب جب سنانے کے لیے کوئی واقعہ نہ رہا تو پوچھنے لگا کہ آپ کے نانا ابو تھے؟ میں نے کہا کہ ہاں تھے۔ تو پھر ان کے بچپن کی کہانی سنائیں۔ میں نے کہا کہ ان کا بچپن تو میں نے نہیں دیکھا، ہمیشہ انہیں بڑا ہی دیکھا۔ فوراً چالاکی سے بولا تو وہی نا، آپ تو تب بچے تھے نا، اپنے بچپن کے نانا کی کوئی اسٹوری سنائیں پلیز نانا ابو، ورنہ میں آپ کو سونے نہیں دوں گا۔

    اس نے نیند بھری آنکھوں سے دھمکی دی۔ میں نے بتایا کہ میرے نانا درویش منش تھے۔ ان کا گاؤں میرے ددھیال سے دو کوس کے فاصلے پر تھا۔ وہ پانچوں نمازیں مسجد میں جاکر ادا کرتے تھے۔ گھر میں گائے بھینس بھی تھی مگر انھوں نے اپنے شغل کے لیے چندر دھاری بکریاں پالی ہوئی تھیں جنھیں چرانے کے لیے قریبی جنگل میں لے جاتے تھے اور اس بہانے سارا سارا دن فطرت سے ہمکلام رہتے تھے۔ جب میں ننھیال میں ہوتا تھا تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک کنواں اور ایک کھیت میں سبزیاں پالی ہوئیں تھیں جن کی بالکل بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ میں نے پہلی بار بھنڈی توری کے پھول وہیں دیکھے۔ جتنا وقت گھر میں ہوتے کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے تھے۔ ان کی غذا سادہ اور سونے کے اوقات کم تھے۔

    فوزان کے لیے علمِ موجودات سے متعلق یہ باتیں قدرے بوجھل تھیں کہنے لگا۔ وہ تو ٹھیک ہے نانا ابو لیکن کہانی بھی شروع کریں نا۔۔۔ اور میں نے کہانی شروع کی۔ میں تیسری جماعت میں تھا۔ کھیتوں پر ٹڈی دَل نے حملہ کر دیا تھا۔ ٹڈی کا آنا کال کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسپرے وغیرہ تو تھے نہیں۔ حکومت نے تمام اسکولوں کو حکم نامہ جاری کیا کہ بچوں کی پڑھائی موقوف کر کے انھیں ٹڈی مار مہم پر روانہ کیا جائے۔ ہمارے ایک یک چشم ماسٹر جی تھے بڑے ظالم۔ انہوں نے پانچ پانچ بچوں کی ٹولیاں بنائیں اور ڈنڈا لہراتے ہوئے فی بچہ پانچ پانچ سو ٹڈیاں مارنے کا حکم دے کر روانہ کر دیا۔ ہم کچھ ماسٹر جی کے ڈر سے اور کچھ جوش میں ٹڈیوں کے لشکر کو مارتے، کشتوں کے پشتے لگاتے چلے گئے۔ پتا ہی نہ چلا اور گاؤں سے بہت دور نکل آئے۔ اچانک احساس ہوا کہ ہم صرف دو ہیں، میں اور میرا ایک چچا زاد۔ باقی تینوں کسی اور طرف نکل گئے تھے۔ چلچلاتی دھوپ میں بھوک اور پیاس سے برا حال ہو رہا تھا۔ کپڑے اور جوتے بھی پھٹ چکے تھے۔ اچانک سامنے ننھیالی گاؤں نظر آیا اور ہم اس طرف چل پڑے اور ننھیال پہنچ گئے۔ ہماری حالت دیکھ کر نانی اور نانا پریشان ہو گئے۔ پہلے پانی پلایا اور دیر تک دونوں پنکھا جھلتے رہے۔ پھر نانا ہمیں باری باری غسل خانے تک لے گئے اور گاؤں کے واحد کنویں سے لا کر ذخیرہ کیے ہوئے ٹھنڈے پانی سے نہلایا۔ اس دوران نانی نے کھانا تیار کر لیا۔ نانی کے بنائے ہوئے پراٹھوں، مکھن، لسّی، اچار اور آم کے مربے کا وہ ذائقہ آج تک نہیں بھولا اور ہمیں کھاتے ہوئے دیکھ کر نانا کے چہرے پر جو شانتی تھی۔ وہ زندگی میں پھر کہیں نہیں دیکھی۔ اسی نروانتا میں ہم خواب نشیں میں چلے گئے۔ جاگے تو سہ پہر ڈھل چکی تھی۔ نانا نے ایک آدمی کے ساتھ ہمیں ہمارے گاؤں روانہ کیا۔

    فوزان نے سوتے سوتے اگلا سوال داغ دیا۔ آپ کی امی کے نانا ابو تھے؟ امی ابو کی طرح ہر بچے کے نانا نانی اور دادا دادی ہوتے ہیں میں نے اپنے تئیں اسے شافی جواب دیا۔ اللہ میاں کے بھی؟ اللہ میاں بچہ نہیں ہوتا میں نے کہا۔ تو پھر اللہ میاں کتنا بڑا ہوتا ہے؟ وہ مجھے لاجواب کرنے پر تلا ہوا تھا۔ دیکھو میری امی کے نانا بڑے بہادر تھے۔ وہ لوگ حقیقی ہیرو تھے۔ ان کی زندگیاں کسی مہم جوئی سے کم نہیں ہوتی تھیں۔ یہ سنتے ہی فوزان کی نیند سے بوجھل آنکھوں میں یکدم چمک آ گئی۔ میں اسے پھر کہانی کی طرف لے آیا۔

    امی جی کے نانا کا گاؤں میرے ننھیالی گاؤں سے پانچ چھ کوس کے فاصلے پر تھا۔ ان کی نالا بھمبھر کے کنارے کچھ زمین تھی جہاں وہ ہر سال خربوزے کاشت کرتے تھے۔ وہ تہبند باندھتے تھے، قمیص کم ہی پہنتے تھے، کاندھے پر ایک چادر اور ہاتھ میں ڈانگ یا کلہاڑی ضرور رکھتے تھے۔ خربوزوں کے موسم میں ان کا معمول تھا کہ ہر چوتھے پانچویں روز چادر میں خربوزے بھر کر اپنی بیٹی یعنی میری نانی کو پیدل دینے جاتے تھے۔ وہ بعد دوپہر چلتے اور شام کے قریب بیٹی کے گھر پہنچتے، خربوزے چارپائی پر ڈھیر کرتے اور پانی کا ایک پیالہ پی کر واپس چل پڑتے۔ بیٹی کے گھر رکنا یا کھانا پینا معیوب سمجھتے تھے۔

    ایک بار خربوزے دینے آئے تو شام ڈھل چکی تھی۔ ان دنوں ایک بھیڑنی کے قصے بڑے مشہور تھے۔ رات کو کئی راہگیروں پر حملہ کر کے انھیں زخمی کر چکی تھی۔ اس لیے نانی نے کہا کہ رات کو نہ جائیں مبادہ بھیڑنی انھیں نقصان پہنچائے۔ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی اور کلہاڑی پر ان کے ہاتھوں کی گرفت سخت ہو گئی جیسے اندر ہی اندر انھوں نے کوئی فیصلہ کر لیا تھا۔ امی بتاتی تھیں کہ انھوں نے جلدی جلدی پانی پیا، اپنے ایک ہاتھ پر چادر کو مضبوطی سے لپیٹا، دوسرے ہاتھ میں کلہاڑی پکڑی اور تیزی سے واپس روانہ ہو گئے۔ راستے میں بھیڑنی نے سچ مچ ان پر حملہ کر دیا۔ انھوں نے چادر والا ہاتھ آگے کیا۔ جونہی بھیڑنی نے اس پر اپنے دانت گاڑے دوسرے ہاتھ سے کلہاڑی کے زوردار وار سے اس کی گردن کاٹ دی۔ اگلے دن سارے علاقے میں ان کا یہ کارنامہ مشہور ہو گیا۔ میں نے فاتح نظروں سے فوزان کی طرف دیکھا جیسے بھیڑنی کو امی کے نانا نے نہیں میں نے مارا ہو، لیکن وہ نیند کی جھپکی میں تھا۔ اچھا ہی ہوا ورنہ وہ کلہاڑی اٹھتے ہی چیخ اٹھتا نانا ابو اسے مارنا نہیں اور ممکن ہے اس کی آواز سے امی کے نانا کا اٹھا ہوا ہاتھ رک جاتا اور بھیڑنی اصل میں تو نہیں کہانی میں انہیں زخمی کر دیتی۔

    میں سوچنے لگا کہ وہ لوگ واقعی بہادر تھے جو دوسروں کا سفر اور راستے محفوظ بنانے کے لیے اپنی جان کی پروا نہیں کرتے تھے جبکہ ہم جیسے نظریاتی بزدل، قانون پسند پرامن شریف شہری، معیشت، سماج اور صارفیت کے جبر میں جکڑے ہوئے اپنے جائز حقوق کا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔ انسانی بھیڑیے اور بھیڑنیاں ہمیں نوچتی رہتی ہیں۔ میرے وسوسوں اور سوچوں سے بے نیاز فوزان ہونٹوں پہ ایک ملکوتی مسکراہٹ لیے گہری نیند سو رہا تھا۔

    (شاعر و ادیب پروفیسر نصیر احمد ناصر کے قلم سے)