Category: ضرور پڑھیں

دن بھر کی وہ خبریں جو آپ کو ضرور پڑھنی چاہئے VIRAL NEWS- ضرور پڑھیں

  • دہشتگردوں کے لیے دہشت، چوہدری اسلم کی زندگی پر ایک نظر

    دہشتگردوں کے لیے دہشت، چوہدری اسلم کی زندگی پر ایک نظر

    دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کراچی پولیس کی فرنٹ لائن شخصیت ایس پی چوہدری اسلم آج ریموٹ کنٹرول دھماکے میں شہید ہوگئے، تحریک طالبان پاکستان نے ان پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

    دہشتگردوں کیلئےدہشت کی علامت ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم اپنے گھر سے نکلے اور کراچی کے مرکز، گنجان ترین علاقے گلشن اقبال کے بالمقابل عیسیٰ نگری سے متصل لیاری ایکسپریس وےکی انٹری پوائنٹ پر پونے پانچ بجے شام کے قریب پہنچے تو زور دار دھماکاہوا۔

    دھماکا اس قدر زور دار تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنائی دی گئی، دھماکے نے ان کی گاڑی کو تباہ کردیا ، اس حملے میں چوہدری اسلم کے ڈرائیور اور گن بھی شہادت پائی، حملے میں بارہ اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

    حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان مہمند ایجنسی نے قبول کرلی، ڈی آئی جی ویسٹ کا کہنا ہے ان کے پاس موجود بم پروف گاڑی کچھ روز قبل بننے کے لیئے دی گئی تھی اس لئے اس وقت ان کے پاس بم پروف گاڑی نہیں تھی ۔

    اپنی شہادت سے چودہ پندرہ گھنٹے پہلے ، چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم نے ایک کارروائی میں طالبان کے تین دہشتگرد ہلاک کیئے تھے۔ چوہدری اسلم پر اس سے پہلے بھی حملے ہوچکے ہیں۔ ایک خطرناک حملہ ان کے گھر پر بھی ہوا تھا، لیکن ایکسپریس وے دھماکا جان لیوا ثابت ہوا۔

    بم دھماکےمیں شہید ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم نے پسماندگان میں بیوہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی سوگوار چھوڑی ہے، بیوہ کا کہناہے کہ چوہدری اسلم بچوں کو ٹیوشن چھوڑنے جارہے تھے کہ ہیڈ آفس سے فون آگیا۔

    انیس سو تریسٹھ میں ایبٹ آباد کے محلے ارغشال میں پیدا ہونے والے ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم نے ابتدائی تعلیم آبائی علاقے میں حاصل کی، انیس سو چوراسی میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر پو لیس میں بھر تی ہو ئے اسلم خان کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا کے سیاحتی و فوجی شہر ایبٹ آباد سے تھا لیکن دو ستوں نے ان کے لباس اور چال ڈھال کیو جہ سے انہیں چو ہدر ی کہنا شروع کیا اور پھر یہ نام ان کے ساتھ ایسا جڑا کہ وہ چو ہدری اسلم کے نام سے ہی پہچا نے جا نے لگے ۔

    جرائم پیشہ افراد و دہشت گردوں کیخلاف سینہ سپر چو ہدری اسلم نو ے کی دہا ئی میں متعدد تھا نو ں کے ایس ایچ او بھی رہے، دو ہزار دس میں سی آئی ڈی کی تفتیشی کمیٹی کی سربراہی کا منصب انہو ں نے سنبھا لا۔ اس دوران ان کے گھر پر خود کش حملہ بھی کیا گیا لیکن وہ محفو ظ رہے، ان کے گھر پر حملے کی ذمہ داری المختار گروپ نے قبول کی تھی۔،

    میڈیا رپورٹس کے مطابق چوہدری اسلم کے گیارہ سے سولہ سال کے تین بیٹے اور اٹھارہ سال کی ایک بیٹی ہے۔

    بیوہ نور کا کہناہے کہ چوہدری اسلم بچوں کو ٹیوشن چھوڑنے کیلئے جانا چاہتے تھے لیکن ہیڈآفس سے فون آگیا ۔اور وہ بچوں کو چھوڑ کر آفس چلے گئے، اگر بچوں کو ٹیوشن چھوڑنے جاتے تو روٹ مختلف ہوتا اور ان کی جان بچ جاتی۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ چوہدری اسلم کی نماز جنازہ کل ادا کی جائے گی اور تدفین والدہ کے پہلو میں کی جائے گی۔

    جناح اسپتال کے شعبے حادثات کی انچارج ڈاکٹر سیمی جمالی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ چوہدری اسلم کو حملے میں سر، چہرے،سینے، پیٹ اور ٹانگوں پر زخم آئے اس کے علاوہ ان کے جسم سے کچھ پلاسٹک اور دھاتی ذرات میں بھی ملے ہیں۔

    حکومت سندھ کا چوہدری اسلم کے اہل خانہ کے لئے دوکروڑ روپے کا اعلان کیا ہے، واقعے میں شہید ہونے والے دیگر اہلکاروں کےلواحقین کو بیس بیس لاکھ روپے اور زخمیوں کو ایک ایک لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔

    اس کے علاوہ سندھ حکومت نے شہیدپولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کوپلاٹ اوربچوں کو نوکری بھی دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس واقعے میں مزید دو جاں بحق اور پانچ افراد کو آغا خان اسپتال لایا گیا۔ ترجمان آغا خان اسپتال کے مطابق ہلاک ہونیوالوں کی شناخت فرحان جونیجو اور کامران کے ناموں سے ہوئی ہے۔ زخمیوں میں فیاض ،بلال ،فرحان ،فراز ،احمد ،محمد عرفان ،محمد رحمت شامل ہیں ۔

    کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے قریب لیاری ایکسپریس وے پر دہشت گرد کارروائی میں ایس پی سی آئی ڈی چوہدری اسلم اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر کو بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں جگہ دی گئی ہے، بی بی سی ، وائس آف امریکا اور جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے پر کراچی دھماکے اور چوہدری اسلم کی شہادت کو اہم واقعہ اور بڑا نقصان قرار دیا گیا ہے۔

    انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق چوہدری اسلم پر اس سے پہلے پانچ ناکام حملے ہو چکے ہیں اور دہشت گرد چھٹی کوشش میں چوہدری اسلم کی جان لینے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ چوہدری اسلم دہشت گردوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کی وجہ سے خبروں میں رہتے تھے۔
       


       

  • مشرف کے مقدمے کا مدعی آئینِ پاکستان ہے ، نواز

    مشرف کے مقدمے کا مدعی آئینِ پاکستان ہے ، نواز

    وزیراعظم نوازشریف کا کہناہےکہ پرویز مشرف کے مقدمےکااصل مدعی پاکستان کی ریاست اور آئین ہے۔

    سابق صدر پرویز مشرف پر چلنے والے غداری مقدمہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کیس میں مدعی ریاست پاکستان اور آئین پاکستان ہے
    یہ مقدمہ فرد واحد کا نہیں ہے۔
     
    عدالت فیصلہ کرے کہ تین نومبر کو ایمرجینسی لگانے کا معاملہ آئین پاکستان میں موجود غداری کی شق آرٹیکل سکس کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں عدالت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ تین نومبر کو ریاست کی توہین ہوئی کہ نہیں۔

     ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم آئین اور قانون کا احترام کرنے والی جمہوری ریاست ہیںیا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا بھی عدالت کا کام ہے کہ پرویز مشرف معصوم ہیں یا مجرم انہوں نے کہا کہ عدالت کی نظر میں ہر ایک برابر ہے اس لئے ہر شہری کو عدالت کو جوابدہ ہونا چاہیے۔

    دوسری جانب میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے پاکستان کا مستقبل قانون کی بالادستی سے وابستہ ہے۔

    مریم نواز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کا مستقبل قانون کی بالادستی سے وابستہ ہے، مریم نواز شریف نے اپنے پیغام میں لکھا ہے یہ بات سب کو سمجھنی چاہیئے کہ پاکستان بنانا ریپبلک نہیں ہے۔

  • پاکستان میں 2013 کا آخری سورج غروب ہو گیا

    پاکستان میں 2013 کا آخری سورج غروب ہو گیا

    بہت سی کامیابیوں ، ناکامیوں اور تبدیلیوں کو دامن میں سمیٹے دو ہزار تیرہ کا آخری سورج پاکستان میں غروب ہو گیا. بہت سی ناکامیوں ، کئی کامیابیوں اور تبدیلیوں کو دامن میں سمیٹے دو ہزار تیرہ کا آخری سورج غروب پاکستان میں ہو گیا، پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے رخصت ہوئی اور عام انتخابات میں مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کر کے حکومت بنائی۔

    چھ برس تک مسلح افواج کے سربراہ رہنے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آرمی ہاوس کالی کرتے ہوئے مسلح افواج کی کمان جنرل راحیل شریف کے سپرد کی، متحرک عدلیہ کی بنیاد رکھنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہوئے اور ان کی جگہ جسٹس تصدق حسین جیلانی نئے چیف جسٹس بنے۔

    سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف وطن واپس آئے اور ان کے خلاف قائم مقدمات میں کارروائی جاری ہے، کراچی سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کا سلسہ بھی روکا نہ جا سکا۔ سینکڑوں گھروں کے چراغ بجھا دیے گئے اور ہزاروں بچے یتیم ہوئے۔ رواں سال کے دوران جہاں شوبز سمیت کئی شعبہ ہائے زندگی کی اہم شخصیات ہم سے جدا ہوئیں تو کھیل کے میدانوں میں کئی کامیابیاں بھی پاکستان کے حصے میں آئیں۔

  • اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی کا عرس عقیدت سےمنایا جارہا ہے

    اعلیٰ حضرت احمد رضاخان بریلوی کا عرس عقیدت سےمنایا جارہا ہے

    دلوں میں عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نئی جلادینے والے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کا عرس پاکستان سمیت دنیا بھرمیں نہایت عقیدت سے منایا جارہا ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کی زندگی پر ڈالتی ہیں۔

    اعلیٰ حضرت کی ولادت دس شوال بارہ سوباہترھجری بریلی یوپی بھارت میں ہوئی، فاضل بریلوی کا نام محمد اورتاریخی نام المختار لیکن جداامجد مولانا رضا علی خان نے احمدرضا تجویزکیا بعد میں فاضل بریلوی نے خود نام کے ساتھ عبدالمصطفٰی کا اضافہ فرمایا-

    اعلیٰ حضرت نے چاربرس کی عمرمیں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا، چھ سال کی عمرمیں بہت بڑے مجمع میں ذکرمیلاد شریف پڑھا۔ اردو فارسی کی کتابیں پڑھنے کےبعد آپ نے حضرت مولانا نقی علی خان ؒ سے اکیس علوم پڑھے، تیرہ برس کی عمرمیں آپ فارغ التحصیل ہوئے اوردستار فضیلت سے نوازے گئے۔

    اعلی حضرت احمدرضاخان بریلوی نے مسلمانوں کے دلوں میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نعتیہ شاعری اورسلام عقیدت پیش کرکے ایک نئی جلابخشی۔ فاضل بریلوی نے پچیس صفرسن تیرہ سوچالیس ہجری جمعۃ المبارک کے روزبریلی میں وصال فرمایااوروہیں آخری آرام گاہ بھی ہے۔

  • ٹیکسٹائل کی دنیامیں سب سے بڑی سالانہ نمائش

    ٹیکسٹائل کی دنیامیں سب سے بڑی سالانہ نمائش

     (محمد صلاح الدین)

    ٹیکسٹائل کی دنیامیں سب سے بڑی سالانہ نمائش ”ہیم ٹیکسٹائل‘  میں پاکستان ایک فہرست شرکت کنندہ ملک بن گیا ہے،بین الاقوامی نمائش میں پاکستانی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے لیئے کامیابی کے امکانات روشن۔

    پاکستان میں فرینکفرٹ کے نمائندے اور ڈائریکٹرحاجی صلاح الدین نے اے آر وائی نیوزسے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ جرمنی کے شہرفرینک فرٹ میں چارروزہ ہیم ٹیکسٹائل ایکسپو 2014 کاآغازآٹھ جنوری سے ہوگا جس میں پاکستان کی222 کمپنیاں شرکت کررہی ہیں جس میں ایکسپورٹر، مینوفیکچررز، ریٹیلرز اور ڈیزائنرز کے علاوہ ہوم ٹیکسٹائل، ٹاولز سمیت دیگرٹیکسٹائل مصنوعات کے بڑے مینوفیکچررز شامل ہیں۔انہوں نے بتایاکہ 2013 میں ہونیوالی ہیم ٹیکس ایکسپو میں 62 ممالک کی 2158 کمپنیوں نے شرکت کی جبکہ129 ممالک کے 66ہزار وزٹرز نے تجارتی وبرآمدی معاہدوں کیلیے اس نمائش کا دورہ کیا۔حاجی صلاح الدین نے بتایا کہ ہیم ٹیکس ایکسپو میں ٹی ڈی اے پی نے پاکستان کا ایک علیحدہ پویلین قائم کیاجائے گا اور ٹی ڈی اے پی 45 پاکستانی ٹیکسٹائل کمپنیوں کے ساتھ نمائش میں حصہ لے رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ہیم ٹیکسٹائل ایکسپو2014 کے تمام اسٹالز پہلے ہی بک ہوچکے ہیں۔انہوں نے توقع ظاہر کی کہ نمائش پاکستانی ٹیکسٹائل کی مصنوعات کے معاہدوں اور ایکسپورٹرکوبڑی تعداد میں برآمدی آرڈرزملنے کے حوالے سے انتہائی کامیاب ثابت ہوگی۔دوسری جانب پاکستان کویورپی یونین میں جی یس پی پلس کادرجہ ملنے کے بعدیکم جنوری 2014سے پاکستا ن کی 3500سے زائدمصنوعات کویورپ کے 27ممالک میں ڈیوٹی فری رسائی مل جائے گی لیکن اس سہولت کے لیئے پاکستان کو26عالمی کنونشنزکی پاسداری کرناہوگی۔

     

  • مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے’
    ‘کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِبیاں اور

    جب سخن کا صفحہ کھلتا ہے تومرزا غالب کےوجود اور تذکرے کے بغیراُردو شاعری پھیکی پھیکی سی لگتی ہے، آج اُسی سخنور غالب کی دو سو سولہویں سالگرہ ہے۔ مرزا غالب برِصغیر کی شعروادب کی دنیا میں ایک نامور مقام رکھتے تھے۔ وہ کسی ایک عہد کے نہیں بلکہ ہر عہد اور ہر زمانے کے شاعر ہیں۔اُنکی طرزِادا میں جدت اوربانکپن ہے۔ اُردو زبان جس شاعر پہ بجا طور سے ناز کرسکتی ہے اور جسکو دنیا کے بہترین شعراء کی صف میں کھڑا کر سکتی وہ مرزا اسد اللہ خان غالب ہیں۔جنھوں نے شاعری کو تازہ زندگی بخشی، اُنکا تخلص ’اسد‘ تھا۔

    مرزا غالب ۲۷ دسبمر ۱۷۹۷ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ۵ برس کے تھے کہ انُکے والد عبداللہ خان ریاست الور میں مارے گئےغالب نے آگرہ میں تعلیم پائی،نواب الٰحی بخش خان معروف کی صاحبزادی امراؤ بیگم سے شادی ہوئی۔ غالب آگرہ چھوڑ کر دہلی آگئے،پھروہیں قیام پذیر رہے۔

     

     

     

     

     

     

     

     

     


    یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ یار ہوتا’
    ‘اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    مرزا فارسی کے اعلٰی پایہ ادیب اور شاعر تھے۔ اُردو میں اُنکی غزلوں کا دیوان اگرچہ مختصرہے لیکن اُردو کے نقاد اس کو سرآنکھوں پررکھتے ہیں۔ انھوں نے گیارہ برس کی عمر میں غزل کہنا شروع کی، زیادہ ترتوجہ فارسی کی طرف رہی۔ مرزا کو ہمیشہ فارسی پہ فخررہا مگر آپکی پہچان اُردو زبان کی شاعری بنی۔
    غالب انسانی فطرت کے نباض تھے اور نفسیاتی حقائق کا گہرا ادراک رکھتےتھے۔ انھیں مسائل تصوف خصوصاً فلسفہ وحدت الوجود سے گہری دلچسپی تھی۔ مرزا نے مالی پریشانیاں بھی دیکھیں۔ قیامِ دہلی کے دوران اُنہیں خاندانی پنشن کا مقدمہ درپیش رہا جو بالآخر مرزا ہارگئے۔ تاہم خوداری کا یہ عالم تھا کہ دہلی کالج میں حصول ملازمت کیلئےگئے اور باہر یہ سوچ کر انتظار کرتے رہے کہ کالج کے سرپرست جیمز ٹامسن استقبال کے لئے آئے گے مگر وہ نہ آئے اور مرزا لوٹ آئے۔

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے’
    ‘بہت نکلے میرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے

    جنگِ آزادی کے ہنگاموں کے بعد والی رامپور کے وظیفے پر اکتفاکرنا پڑا۔ آخری عمر میں صحت بہت خراب ہوگئی تھی۔ آخرکار دماغ پرفالج کا حملہ ہوا اور مرزا ۱۵ فروری ۱۸۶۹ء کو خالقِ حقیقی سےجاملے،اور ایک عظیم شاعر ہم سے بچھڑگیا۔ 

    ہوئی مدت کے غالب مرگیا پر یاد آتا ہے’
    ‘وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

     

    (راؤ محسن علی خان)

     

  • بے نظیر بھٹو شہید کی چھٹی برسی آج منائی جارہی ہے

    بے نظیر بھٹو شہید کی چھٹی برسی آج منائی جارہی ہے

    لاڑکانہ میں شہید بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی آج منائی جارہی ہے، مرکزی جلسے کی تقریب سے پارٹی چئیرمین بلاول بھٹوزرداری اورسابق صدر آصف علی زرداری خطاب کرینگے۔

    برسی کے موقع پر سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے ہیں، اس موقع پر چھ ہزار پولیس اہلکار، رینجرز کے جوان اور خصوصی کمانڈوز سیکورٹی پر مامور ہونگے۔

    جلسہ گاہ کو چاروں طرف سے سیل کردیا گیا ہے جبکہ واک تھرو گیٹ کے ذریعے چیکنگ کے بعد شرکاء کو اندر جانے کی اجازت ہوگی، شرکاء کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کیلئے سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کئے گئے ہیں۔

    برسی کے موقع پر صبح نو بجے قران خوانی کا اہتمام کیا گیا ہے جبکہ اس موقع پر سابق صدر آصف علی زرادری کی جانب سے لنگر تقسیم کیا جائے گا برسی کی تقریب کا باقاعدہ آغاز دوپہر دو بجے ہوگا، جسکے بعد مشاعرے کا اہتمام کیا جائے گا۔

    تقریب سے پیپلز پارٹی کے چاروں صوبائی صدور اور مرکزی رہنماوُں کے علاوہ پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری خطاب کرینگے جبکہ پانچ بج کر بیس منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔

    برسی کے اختتام پر شہدا کیلئے دعا کی جائے گی، دوسری جانب برسی کے موقع پر سندھ حکومت کی جانب سے آج تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے، اس موقع پر صوبائی حکومت کے تمام دفاتر اور تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔
        
       

  • منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منفرداسلوب اور تشبیہات واستعارات شاعر منیر نیازی کو ہم سے بچھڑے 7 برس بیت گئے

    منیر نیازی 9 اپریل 1923ءکو مشرقی پنجاب کے شہر ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔

    انہوں نے اردو کے 13 اور پنجابی کے 3 شعری مجموعے یادگار چھوڑے جن میں اس بے وفا کا شہر‘ تیز ہوا اور تنہا پھول‘ جنگل میں دھنک‘ دشمنوں کے درمیان شام‘ سفید دن کی ہوا‘آغاز زمستاں میں دوبارہ، سیاہ شب کا سمندر‘ ماہ منیر‘ چھ رنگین دروازے‘ ساعت سیار، پہلی بات ہی آخری تھی، ایک دعا جو میں بھول گیا تھا، محبت اب نہیں ہوگی اور ایک تسلسل کے نام شامل ہیں جبکہ ان کی پنجابی شاعری کے مجموعے چار چپ چیزاں‘ رستہ دسن والے تارے اور سفردی رات کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔انہوں متعدد فلموں کے نغمات بھی تحریر کئے جو بے حد مقبول ہوئے۔

    منیر نیازی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ سے نوازا تھا۔26 دسمبر 2006ءکواردو اور پنجابی کے صف اوّل کے شاعر منیر نیازی لاہور میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں قبرستان ماڈل ٹاﺅن،کے بلاک میں آسودہ خاک ہیں۔

  • پروین شاکر کوآج ہم سے بچھڑے ۱۹ برس بیت گئے

    پروین شاکر کوآج ہم سے بچھڑے ۱۹ برس بیت گئے

    ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجرکا فیصلہ بھی تھا’
    ‘ہم نے تو ایک بات کی اُس نے کمال کردیا

    اُردو غزل و نظم کی مشہور شاعرہ پروین شاکر کوآج ہم سے بچھڑے ۱۹ برس بیت گئے۔پروین شاکر۲۴ نومبر ۱۹۵۲ کو کراچی میں پیدا ہوئی، آپکو اُردو کے منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے نہایت قلیل عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت ہی کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔انگلش لٹریچراور زبان دانی میں پروین شاکر نے گریجویشن کیا اور بعد میں انھی مضامین میں کراچی یونیورسٹی سےایم۔اے کی ڈگری حاصل کی ۔ پروین شاکراستاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابسطہ پھر بعد میں پروین شاکر نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔

     

     

     

     

     

     

     

    پروین شاکرکی شادی ڈاکٹرنصیرعلی سے ہوئی جن سےبعد میں طلاق ہوگئی۔ پروین شاکر کا انتقال ۲۶ دسمبر ۱۹۹۴ میں ایک ٹریفک حادثے میں اسلام آباد میں ہواجب اُنکی عمر ۴۲برس تھی۔ پروین شاکرکی پہلی کتاب شائع ہونے سے پہلے ہی ادبی جرائد میں چھپنے والی انُکی نظموں اور غزلوں کو بےپناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور جب پروین شاکرکا پہلا مجموعہ شائع ہوا تونہ صرف اُسے سب سے زیادہ فروخت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا بلکے پروین شاکر کے فکروفن کی خوشبو ملکی حدود سے نکل کرچھاردانگ عالم میں پھیل گئی۔ پروین شاکر کی شاعری نوجوان نسل کا قرض بن گئی۔ کچی عمرکے رومانی جذبات کو گہرے فنکارانہ شعور اور کلاسقی رچاؤ کے ساتھ پیش کرنا پروین شاکر کے اسلوب کی پہچان قرارپایا۔

     

     

     

     

     

     

     

     

     

    خوشبوکے بعد آنے والی کتابوں ان کے موضوعات ہماگیر اور فکرگہری پختگی کی حامل نظرآتی ہے۔ پروین شاکر کے انتقال سے پہلے انُکی کلیات ماہِ تمام کے نام سےشائع ہوئی۔ پروین شاکر کی ذاتی زندگی کا دکھ جو انکی زواجی زندگی کی ناکامی پر اثرانداز ہوا، پروین شاکر کی شاعری اور شخصیت میں ہذن اور اُداسی کی کیفیت بن کرسامنے آیا۔

    میری طلب تھا ایک شخص اب جو نھیں ملا تو پھر’
    ‘ہاتھ دعاؤں سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی

    پروین شاکر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہےکہ انُکی کتاب خوشبومنگتاگروں اور محبوب چہروں کو تحفے کی صورت میں دی جاتی رہی۔ انکو صدرِپاکستان کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس کے علاوہ آدمجی ادبی ایوارڈ بھی ملا۔
    پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ پروین شاکر کی شاعری میں جو اظہارِمحبت کرتی ہوئی بے جہجک عورت نظرآتی ہے، اُسے پُربی اور ہندی کی روایتی عورت پر گراہ قراردیا جاسکتاہے۔ جو اپنے گیتوں میں مرد محبوب کو مخاطب کرکےاپنے تن من کے روگ بیاں کرتی ہے۔

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑدیا ہے اُس نے’
    ‘بات تو سچ ہے مگربات ہے رسوائی کی

     

     

     

     

     

     


    کچھ لوگ اس رویے کو مغرب کے جدید رویوں کا پرتو قرار دیتے ہیں مگر پروین شاکر کی شاعری کی اصل قوت کہیں اور ہے اور اس نے اپنی نظموں میں بار بارخود کو یونان کی سیفو اور ہندوستان کی میرا کا ہم قافلہ کہا ہے۔

    پروین شاکر گوکہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر اُنکی غزلیں اور نظمیں  ہمارے دلوں میں انکو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔

    (راؤ محسن علی خان)

  • وزیر مینشن: میں گاہِ گمشدہ ہوں مجھے یاد کیجئے

    آج ملک بھرمیں بانی ِ پاکستان محمد علی جناح کا 137 واں یوم ولادت منایاجارہا ہے، قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو اپنے گھر میں پیدا ہوئے، جسکا نام وزیر مینشن ہے اور وہ کراچی کے علاقے کھارادر میں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آپکی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پر لی تھی انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اسکے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اسکی  زیریں منزل کو ریڈنگ ہال میں اور پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور اسکے بعد اسے 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔
     
    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو  وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جنکی مدد سے وہ اپنے مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔  

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پر آنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔