Category: ملٹی میڈیا

Audio and video stories from ARY News

اے آر وائی نیوز کی جانب سے آڈیو اور ویڈیو خبریں

  • عمیر نجمی نے اپنی زندگی کا حسین ترین منظر ناظرین سے شیئر کردیا

    عمیر نجمی نے اپنی زندگی کا حسین ترین منظر ناظرین سے شیئر کردیا

    پاکستان کے نوجوان اُبھرتے ہوئے شعراء کرام میں منفرد لب و لہجے کے مالک عمیر نجمی اپنے سلجھے ہوئے اور سنجیدہ انداز کی بدولت نمایاں مقام رکھتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پوڈ کاسٹ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے بارے میں بہت سی باتیں بیان کیں جو ان کے مداحوں کیلیے بھی حیران کن ہوں گی۔

    انہوں نے بتایا کہ میری پیدائش لاہور کی ہے ابتدائی تعلیم رحیم یار خان پنجاب سے حاصل کی اور میٹرک کے بعد واپس لاہور آگیا، میرے خاندان میں دور دور تک کوئی شاعر نہیں لیکن دوران تعلیم ایف سی کالج اور یو اے ٹی کالج میں ادبی اور شعری محافل میں شرکت کی وجہ سے شاعری کا شوق پروان چڑھا۔

    عمیر نجمی بتایا کہ بچپن میں پی ٹی وی کے پروگرام نیلام گھر کا سیگمنٹ بیت بازی بہت شوق سے سنتا تھا اور اکثر گھر میں ہم بہن بھائی بھی بیت بازی کے مقابلے کرتے تھے اس طرح کرتے کرتے میں نے خود شاعری شروع کردی۔

    اپنے پہلے کلام کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یو اے ٹی کالج میں مشاعرہ کا پروگرام منعقد ہوا جس میں نے اپنی ایک نظم پڑھی جو دھنک کے رنگوں پر مشتمل تھی، حاضرین اور منتظمین کو یہ نظم بہت پسند آئی اور مجھے دوسری پوزیشن ملی۔

    اس مقابلے میں شرکت کی وجہ ایک لالچ تھا وہ یہ کہ یو اے ٹی سالانہ پروگرام میں ملک کے مشہور اور نامور شعراء کرام نے آنا تھا اور اسٹیج پر وہ لوگ ان کے ساتھ بیٹھیں گے جو اس مقابلے میں تین میں سے کوئی پوزیشن لیں گے۔

    بس پھر کیا تھا میری زندگی کا وہ یادگار لمحہ بھی آیا جب میں ان شعراء کرام کے درمیان اسٹیج پو موجود تھا یہ حسین منظر مین کبھی نہیں بھول سکتا۔

    عمیر نجمی نے بتایا کہ سال 2014سے باقاعدہ اپنے شعری سفر کا آغاز کیا میرے پسندیدہ شعرا میں میر تقی میر، مرزا غالب، علامہ اقبال، یگانہ چنگیزی، عرفان صدیقی، شکیبؔ جلالی، جمال احسانی اُور جون ایلیا شامل ہیں۔

    خبر جاری ہے 

     

  • بال اُگانے کیلیے سرمہ کے ساتھ صرف دو چیزیں ۔ ۔ ۔ گنج پن سے چھٹکارا

    بال اُگانے کیلیے سرمہ کے ساتھ صرف دو چیزیں ۔ ۔ ۔ گنج پن سے چھٹکارا

    سرمہ آنکھوں کی بینائی کو بہتر بنانے، انہیں صاف رکھنے اور انفیکشن سے بچانے کے ساتھ ساتھ پلکوں اور بھنوؤں کی مضبوطی اور بالوں کی نشونما میں مددگار ہوسکتا ہے۔

    سرمے کا پتھر، جسے عربی میں «اثمد» کہتے ہیں، ایک قدرتی طور پر پایا جانے والا سیاہ مائل سرخی رنگ کا چمکدار پتھر ہے جسے پیس کر آنکھوں کے لیے سرمہ بنایا جاتا ہے۔

    سرمہ کا پتھر بینائی کو بہتر بنانے، آنکھوں کی صفائی کرنے اور انہیں مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ پتھر باجوڑ ، چترال اور کوہستان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    یہ آنکھوں کے اعصاب کو تقویت دیتا ہے، زکام کے دوران آنکھوں سے بہنے والا پانی سرمہ سے خشک ہو جاتا ہے اور آنکھوں کی سرخی جاتی رہتی ہے، آگ سے جلے ہوئے زخموں پر سرمہ چکنائی میں حل کرکے لگانا از حد مفید ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں سرمے کی مدد سے بالوں کیلیے خاص تِل کا تیل بنانے کا طریقہ بیان کیا جارہا ہے جس کو استعمال کرنے سے بالوں کی نشونما اور خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔

    تِل اور سرمے کا تیل بنانے کا طریقہ

    اس کو تیار کرنے کیلیے آدھا چمچ سرمہ میں 25 ملی گرام تل کا تیل اس میں شامل کرلیں۔ اس جو جب بھی استعمال کرنا چاہیں اسے اچھی طرح ہلا لیں تاکہ نیچے بیٹھا ہوا سرمہ اوپر آجائے۔

    اس کے علاوہ بال چر یا گنج پن میں مبتلا افراد کیلیے یہ تیل بہترین دوا ہے اس کو استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے چند قطرے متاثرہ جگہ پراچھے سے لگائیں اور لہسن کے جوے کو آدھا کاٹ کر اس پر ربنگ کریں۔ یہ عمل چارچھ دن تک کریں وہاں بال اگنا شروع ہوجائیں گے۔

    ہاد رہے کہ سرمہ پلکوں کو مضبوط بنانے اور بالوں کی نشوونما میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، ہمیشہ خالص اور معیاری سرمہ استعمال کرنا چاہیے۔ جعلی یا کیمیکل والے سرمے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • پاگل خانہ : مینٹل اسپتال لاہور کے اندر کی دنیا کیسی ہے؟ ویڈیو میں ہوشربا انکشاف

    پاگل خانہ : مینٹل اسپتال لاہور کے اندر کی دنیا کیسی ہے؟ ویڈیو میں ہوشربا انکشاف

    پاگل خانہ اپنی نوعیت کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں جانے والوں کے سامنے ایک علیحدہ اور عجیب و غریب زندگی ہوتی ہے جس کا تصور یا موازنہ باہر کی دنیا سے کرنا بہت مشکل ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے لاہور کے مینٹل اسپتال جا کر وہاں فراہم کی جانے والی سہولیات اور علاج معالجے کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔

    ایک پاگل خانے (مینٹل ہسپتال) کے مریض دن رات کیسے گزارتے ہیں؟ مینٹل اسپتال کو عام اسپتال سے الگ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا حقیقت واقعی وہی ہے جو ہم جانتے ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور کہانی ہے؟ گھر والے ایسے مریضوں کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں؟

    ٹیم سرعام جب لاہور کے پاگل خانہ (مینٹل اسپتال) پہنچی تو وہاں ایسی کہانیاں سامنے آئیں جنہیں جاننا لوگوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    اگر لاہور کے مینٹل اسپتال کی بات کی جائے تو یہاں بہت بہترین اور تسلی بخش علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، مریضوں کیلیے ادویات اور ان کے کھانے کیلیے بہترین اور اعلیٰ معیار کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔

    دس سال سے کوئی ملنے نہیں آیا

    پاگل خانے میں تین ایسی ضعیف خواتین بھی تھیں جو گزشتہ دس سال سے یہاں زیر علاج ہیں لیکن انہیں کوئی ملنے نہیں آتا، تاہم اسپتال کا عملہ ان خواتین کا ہر لحاظ سے خیال رکھتا ہے۔

    ٹیم سرعام نے ایک اور مریض سے بات کی لیکن اس دوران کہیں سے بھی ایسا نہیں لگا کہ وہ کوئی نفسیاتی مریض ہے بلکہ بظاہر وہ بہت سمجھدار اور سلجھا ہوا لگ رہا تھا، اس کے بارے میں ڈاکٹر نے بتایا کہ ڈس آرڈر کا مریض ہے اور اس کی طبیعت میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔

    مجھے اکثر کوئی آوازیں دیتا ہے

    ایک خاتون نے بتایا کہ میں 16 سال سے ایک بیماری کا شکار ہوں، میرے ہاں جب بیٹے کی پیدائش ہوئی تو اس کے بعد سے مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی باہر سے کوئی مجھے آوازیں دے رہا ہے۔

    ایک بار میں وہ آواز سن کر گھر سے ایسے ہی باہر بغیر دوپٹے کے نکل آئی جس کے بعد میرے شوہر علاج کیلیے یہاں لے آئے، مجھے اب بھی آوازیں آتی ہیں کہ ایسا کرلو ویسا کرلو لیکن میں وہی کرتی ہوں جو میرا دل چاہتا ہے۔

    آپ اگر کسی پاگل سے ملیں تو آپ کو اس کا یقین حیران کر دے گا وہ اپنی بات کا یقین دلانے کیلیے بڑی سے بڑی قسم کھا جائے گا۔

    دنیا کا ہر پاگل دن میں خواب دیکھتا ہے اور وہ اس خواب کو حقیقت سمجھتا رہتا ہے اور دنیا کا ہر پاگل بحث کا استاد ہوتا ہے اگر وہ اپنی پر آجائے تو آپ اسے بحث میں نہیں ہرا سکتے۔

    گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 34 فیصد حصہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہے۔ پاکستان میں 30ہزار ذہنی مریضوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ہے۔ ذہنی امراض میں مینٹل ڈس آرڈر کی شرح 12۔7 فیصد سالانہ ہے۔

  • ڈالرز میں آمدنی، چوکیدار کی قسمت بدل گئی، ویڈیو دیکھیں

    ڈالرز میں آمدنی، چوکیدار کی قسمت بدل گئی، ویڈیو دیکھیں

    انٹرنیٹ پر آج کل جزو وقتی کام کرکے لوگ عام نوکریوں کی نسبت کہیں زیادہ آمدنی حاصل کررہے ہیں اور یہ ذریعہ آمدن لوگوں میں خاصا مقبول بھی ہو رہا ہے، ایک ایسے ہی چوکیدار  نے سب کو حیران کر ڈالا۔

    لاہور کے ایک سرکاری کالج میں سیکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے والے نذیر احمد نے اپنے شوق اور لگن کی بدولت تھوڑی سی محنت سے نہ صرف امریکی ڈالر کمائے بلکہ ایک نئی مثال بھی قائم کی۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نذیر احمد نے بتایا کہ میں چوکیدار کی نوکری کے ساتھ گزشتہ 6 سال سے فری لانسنگ کا کام بھی کرتا ہوں، اس سے قبل ایک سافٹ ویئر ہاؤس میں چوکیدار کی ملازمت کے دوران وہاں کے لڑکوں سے کمپیوٹر چلانا سیکھا۔

    انہوں نے بتایا کہ میں نے اس وقت ایک لیپ ٹاپ لیا تھا جس کے بعد اب چھٹی کے بعد آن لائن فوٹو شاپ کا کام کرتا ہوں۔

    فری لانسنگ

    چوکیدار نذیر احمد نے نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ جب میں کم تعلیم یافتہ ہوکر ملک میں ڈالر لاسکتا ہوں تو وہ لڑکے جو تعلیم یافتہ ہیں بیرون ملک جانے کے بجائے یہاں بیٹھ کر بھی اچھی آمدنی حاصل کرسکتے ہیں۔

  • سیلاب : ایک گھر سے 13 جنازے، صوابی سانحے کا دلخراش واقعہ

    سیلاب : ایک گھر سے 13 جنازے، صوابی سانحے کا دلخراش واقعہ

    صوابی میں سیلابی پانی تو اتر گیا لیکن علاقے میں سوگ کی فضا اب بھی قائم ہے، اپنے خاندان کے 13جنازے اٹھانے والے ضعیف شخص نے سانحے کو اللہ کی رضا قرار دے دیا۔

    اے آر وائی نیوز صوابی کے نمائندے محمد ریاض کی رپورٹ کے مطابق دالوڑی کے علاقے سے سیلاب تو اپنی آب و تاب سے گزر گیا لیکن اپنے ساتھ کئی لوگوں کی جانیں بھی لے گیا۔

    اس ناگہانی آفت میں کئی گھر تباہ ہوئے علاقہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت گھروں اور راستوں کی تعمیر و مرمت میں مصروف عمل ہیں اور جن لوگوں کی جان بچ گئی وہ اپنے پیاروں کا غم منا رہے ہیں۔

    صوابی کے ان گھروں میں ایک گھر ایسا بھی ہے جہاں سے 13 جنازے ایک ساتھ اٹھائے گئے اس گھر کے بزرگ سربراہ کا صبر و تحمل اور اللہ کی ذات پر بھروسہ قابل دید ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے بہوؤں اور بچوں سمیت 13 افراد سیلاب میں ڈوب کر جان سے چلے گئے لیکن میرے اللہ کو یہی منظور تھا، میں علاقے کے ہر اس شخص کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس وقت میری مدد کی۔

    دوسری جانب علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ زندگی معمول پر آنے میں ابھی وقت لگے گا مقامی انتظامیہ بھی امدادی کاموں میں مصروف ہے لیکن مستقل بحالی کے بغیر ہمارے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔

  • کالا باغ ڈیم کے علاوہ دیگر ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟

    کالا باغ ڈیم کے علاوہ دیگر ڈیموں کی تعمیر میں تاخیر کیوں؟

    "وطن عزیز کو تقریباً ہر سال تباہ کن سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوجاتے ہیں جس کی بڑی وجہ ڈیموں کی تعمیر نہ ہونا ہے، حالانکہ بھارت میں ان کی تعداد 6 ہزار ہے۔

    دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں ایسی مشکلات سے محفوظ رہنے کیلیے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ہیں، اگر پاکستان میں بھی اس طرح کے اقدامات اٹھاتے ہوئے ڈیموں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کیا جاتا تو آج صورت حال بہت مختلف ہوتی۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں آبی ماہر ارشد ایچ عباسی نے پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔

    انہوں نے بتایا کہ میں گزشتہ 30 سال سے بھارتی آبی ماہرین سے رابطے میں ہوں، وہ لوگ اس انڈس واٹر ٹریٹی کے اس جملے ’پانی کا بہترین استعمال‘ پر عمل کرتے ہوئے مزید ڈیم بنانے کی کوششوں میں ہیں۔

    ارشد ایچ عباسی نے بتایا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے سال 2004 میں ٹیلی میٹری کو متحرک کرلیا تھا، وہ پہلے 6 ماہ تو بہت اچھے سے چلی لیکن بدقسمتی سے ارسا نے بعد ازاں وہ ٹیلی میٹری ہی ختم کردی۔

    اس طرح کے تجربات بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہوئے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے بھارت میں 6 ہزار سے زائد ڈیم تعمیر ہوچکے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، کالا باغ ڈیم کو تو چھوڑیں، 1976 سے چنیوٹ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار ہے لیکن بدقسمتی سے آج تک ہم وہ ڈیم بھی نہیں بنا سکے حالانکہ اس پر تو کسی قسم کا کوئی تنازعہ بھی نہیں ہے۔

    آبی ماہر نے کہا کہ بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل مشرف نے سال2006 میں بھاشا ڈیم کا آغاز کیا تھا اور وہ بھی اب تک زیر تعمیر ہے 19 سال میں صرف 40 فیصد کام ہوا ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں ڈیموں کی تعمیر ملک کی آبی ضروریات کو پورا کرنے، توانائی پیدا کرنے اور سیلاب پر قابو پانے کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے، جس میں دریائے سندھ پر تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیم موجود ہیں تاہم دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا عمل بھی جاری ہے۔

    پاکستان میں کم و بیش 15 میٹر سے بلند 73 ڈیم اور آبی ذخائر موجود ہیں، جن میں سے بیشتر دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

  • گھر اور عمر بھر کی کمائی سب بہہ گئی، سوات کے سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے (ویڈیو)

    گھر اور عمر بھر کی کمائی سب بہہ گئی، سوات کے سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے (ویڈیو)

    سوات (29 اگست 2025) کے پی میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے بربادی کی نئی داستان رقم کی سوات میں متاثرین کی مشکلات ختم نہ ہوئیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کے پی میں گزشتہ دنوں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ سیاحوں کے لیے پاکستان کا پیرس کہلانے والی وادی سوات کا حسن بھی سیلاب نے ماند کر دیا۔

    اسی سوات کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں بربادی کے مناظر آج بھی لوگوں کے دل دہلا رہے ہیں اور لوگ اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی سیلاب کی نذر ہونے کے بعد اب کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔

    ان ہی میں ایک عمر زادہ ہیں، جنہوں نے دن رات محنت کر کے چار کمروں کا گھر بنا کر اپنے خوابوں کی تعبیر پائی تھی۔ لیکن بے رحم سیلاب کی موجیں اس کا گھر بہا کر لے گئیں، اب یہاں صرف ویران چوکھٹیں بچی ہیں جب کہ دیواریں مٹی میں دب چکی ہیں۔

    سیلاب صرف عمر زادہ کا گھر ہی نہیں بلکہ کمائی کا واحد ذریعہ رکشا، 4 بھینسیں، فرنیچر اور دیگر سامان بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

    کھلے آسمان تلے اپنے گھر کے ملبے پر ٹینٹ لگا کر بیٹھے عمر زادہ آہ بھر کر کہتے ہیں کہ لوگ تو کبھی ہزار اور کبھی پندرہ سو روپے دے جاتے ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے اب تک کوئی امداد نہیں دی گئی ہے۔

    عمر زادہ کا کہنا ہے کہ ہم اپنا سب کچھ سیلاب میں گنوا کر اس ویران جگہ پر بیٹھے ہیں، مگر اب تک حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں آئی ہے۔

    عمر زادے کا کزن شیر محمد خان بھی اپنی کمائی کا ذریعہ سیلاب کی نذر کر چکا ہے۔ شیر محمد کا کہنا ہے کہ اس کی ایک دکان یہاں تھی، جس میں تقریباً 10 لاکھ روپے کا سامان تھا، سب سیلاب کی لہریں بہا کر لے گئیں۔ حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ہماری دادرسی کرے۔

    سیلاب کی ان کی زندگی بھر کی کمائی خوشیاں اور امیدیں سب چھین لیں۔ یہ بے آسرا اور بے چھت متاثرین اب حکومت کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھے۔

     

  • سنگین حادثے کے بعد فوری مدد، میانوالی میں یہ کیا ہوا؟ (ویڈیو رپورٹ)

    سنگین حادثے کے بعد فوری مدد، میانوالی میں یہ کیا ہوا؟ (ویڈیو رپورٹ)

    (28 اگست 2025): پاکستان میں اکثر حادثات کے بعد زخمیوں کو فوری طبی امداد نہیں ملتی لیکن میانوالی میں زخمی کو فوری ریسکیو اور طبی مدد دی گئی۔

    پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے بیشتر شہر میں خودکار کیمروں کا جال بچھا کر اور انہیں ایک مربوط نظام سے جوڑ کر سیف سٹی بنا دیا گیا ہے۔ یہ سیف سٹی کیمرے ہر وقت ہر کسی پر نظر رکھتے ہیں اور عوام کے لیے بروقت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

    میانوالی کو بھی سیف سٹی کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں لگے سیف سٹی کیمرے بھی ہر وقت نظر رکھتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ مصروف شاہراہ پر ہوا جہاں سیف سٹی نے ایک شخص کی جان بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

    میانوالی کی مصروف شاہراہ پر ایک دل دہلا دینے والا حادثہ رونما ہوا۔ بے قابو لوڈر رکشا انتہائی تیز رفتاری سے موڑ مڑنے والی کار سے جا ٹکرایا۔ حادثے کا یہ منظر سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے لمحہ بہ لمحہ محفوظ کیا۔

    جس وقت سی سی ٹی وی کیمرے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ عین اسی وقت کنٹرول روم میں بھی یہ حادثہ دیکھا جا رہا تھا۔

    سیف سٹی افسر نے حادثے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے فوری ایکشن لیا۔ انہوں نے ریسکیو ٹیم اور ٹریفک وارڈن کو موقع پر روانہ کیا۔ ریسکیو ٹیم نے زخمی کو ابتدائی طبی امداد موقع پر فراہم کر کے اسپتال منتقل کیا۔

    پنجاب سیف سٹی اتھارٹی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ یاد رکھیں! سڑک پر ایک لمحے کی لاپروائی، بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ سیف سٹی کیمرے ہر وقت متحرک ہیں لیکن اصل تحفظ تب ہی ہو سکتا ہے، جب ہم سب قانون کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔

  • پاکستانی نژاد ظفر اقبال برمنگھم کے میئر کیسے بنے؟ کامیابی کا دلچسپ سفر

    پاکستانی نژاد ظفر اقبال برمنگھم کے میئر کیسے بنے؟ کامیابی کا دلچسپ سفر

    آزاد کشمیر کے علاقے چکسوادی میں پیدا ہونے والے ظفر اقبال نے برمنگھم کے 15 ویں لارڈ میئر بننے کا اعزاز کیسے حاصل کیا اس جدوجہد کی ایک الگ ہی داستان ہے۔

    ظفر اقبال نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں ہی حاصل کی اور محض 10 سال کی عمر میں اپنے بہتر مستقبل کیلیے والدین کے ہمراہ برطانیہ چلے گئے۔

    انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ انگلینڈ کے ویسٹ مڈلینڈز کے علاقے برمنگھم میں جاری رکھا اور آج 55 سال بعد اسی شہر کے لارڈ میئر منتخب ہوگئے۔

    اے آر وائی نیوز برمنگھم کے نمائندے عادل اعظم سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کہ جب میں یہاں 1970 آیا تھا تو مجھے انگلش بالکل بھی نہیں آتی تھی، میرے لیے انگلش بولنا سمجھنا اور لکھنا ناممکن تھا۔

    بہرحال 16 سال کی عمر میں اسکول چھوڑ دیا، ڈسلیکسیا کے مرض میں مبتلا ہونے کے سبب وہ تعلیم کا سلسلہ برقرار نہ رکھ سکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسکول کو خیر باد کہنے کے بعد میں نے پہلی نوکری کی جس کے بعد یہ سلسلہ آج تک یونہی چل رہا ہے۔ اس دوران میں نے ایک دن میں دو دو ملازمتیں بھی کیں۔

    ظفر اقبال نے بتایا کہ میں نے بہت سے سماجی کام بھی کیے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے شروع کے 20 سال میں نے نابینا افراد کی فلاح و بہبود کیلیے کام کرنے والی بلائنڈ ایسوسی ایشن کیلیے خدمات انجام دیں۔ اس طرح کی ایک اور سماجی تنظیم جو اسپیشل بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی اس میں خدمات انجام دیں اور بعد ازاں اسی وجہ سے میں میدان سیاست میں آگیا۔

    ان خدمات کی بدولت میرا حلقہ احباب بھی وسیع ہوتا گیا اور پھر میں کونسل کا رکن منتخب ہوگیا اور آج یہ بات میرے لیے باعث فخر ہے کہ اس عظیم شہر برمنگھم کا لارڈ میئر ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ میری تعلیم تو بہت زیادہ نہیں لیکن میں نے محنت بہت کی نوجوان نسل کو میرا پیغام یہی ہے کہ دل کھول کر اور پورے جی جان کے ساتھ محنت کریں چاہے آپ کسی بھی شعبے میں ہوں۔

  • بھارت نے پاکستان میں کتنے ڈیموں سے ایک ساتھ پانی کا اخراج کیا؟ ویڈیو رپورٹ

    بھارت نے پاکستان میں کتنے ڈیموں سے ایک ساتھ پانی کا اخراج کیا؟ ویڈیو رپورٹ

    بھارت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے دو ڈیموں کے تمام گیٹ کھول دیے، جس سے پاکستان میں سیلابی صورت حال پیدا ہوئی۔

    مقبوضہ کشمیر ریجن کے ڈیمز سے تقریباً 2 لاکھ کیوسک پانی چھوڑا گیا جس سے دریائے ستلج راوی اور چناب کی سطح میں اضافہ ہوا اور اطراف کی آبادیاں ڈوب گئیں۔

    یہ پانی کا ریلا کیسے اور کس جانب سے پاکستان میں داخل ہوا اس حوالے سے اے آر وائی نیوز اسلام آباد کی نمائندہ فرح ربانی کی رپورٹ کے مطابق تباہ کن ریلے سے ابتدائی طور پر خانکی مرالہ اور قادر آباد کے علاقے بری طرح متاثر ہوئے۔

    اس پانی کی آمد کے بعد پنجاب کے شہروں سیالکوٹ نارووال اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں آس پاس کے دیہات بہہ گئے اس صورتحال میں مزید شدت کا اندازہ کرتے ہوئے انتظامیہ نے دو بند دھماکے سے اڑا دیئے تاکہ پانی کو گزرنے کا راستہ مل سکے۔

     

    رپورٹ کے مطابق اگر یہ سیلابی صورتحال کنٹرول میں نہیں آتی ہے تو پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوگی جس کے بعد یہ ریلا گدو بیراج سے سندھ میں داخل ہوجائے گا۔

    مون سون کے حوالے سے بات کی جائے تو اس وقت آٹھواں اسپیل جاری ہے اور نوواں اسپیل 29اور 30اگست کی درمیانی شب پاکستان میں داخل ہوگا۔ جس کا بعد اس بات کا امکان ہے کہ یہ سیلابی صورتحال سندھ میں پیدا ہوسکتی ہے۔