Category: ملٹی میڈیا

Audio and video stories from ARY News

اے آر وائی نیوز کی جانب سے آڈیو اور ویڈیو خبریں

  • زندگی بھر لوگوں کو تفریح فراہم اور جانیں بچانے والے ملاح مایوس کیوں؟ (دیکھیے ویڈیو رپورٹ)

    زندگی بھر لوگوں کو تفریح فراہم اور جانیں بچانے والے ملاح مایوس کیوں؟ (دیکھیے ویڈیو رپورٹ)

    لاہور (26 اگست 2025): زندہ دلوں کا شہر کہلانے والے لاہور میں بہتے دریائے راوی کنارے بیٹھے ماہی گیر کشتی بانوں کی داستان کچھ الگ کہانی بیان کرتی ہے۔

    اس وقت تو سیلاب کے باعث دریائے راوی میں لہروں کی روانی ہے لیکن ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جب دریا کی روانی رک جاتی ہے اور دریا صحرا بننے لگتا ہے۔ تاہم موج رواں کے دوران شہری دریا میں کشتی کی سیر کرنے آتے ہیں اور خوب محظوظ ہوتے ہیں۔

    راوی کنارے کھڑی کچھ آخری کشتیاں اور خاموشی کی نیند سوئے ہوئے راوی کے ان مسافروں کی داستان خود ان کی زبانی سننے آئے تو انہوں نے اپنے دل کھول کر سامنے رکھ دیے اور وقت کی ستم گری بتائی۔

    کشتیاں بناتے بناتے بچپن سے بڑھاپے میں پہنچ جانے والے یہ بزرگ بتاتے ہیں کہ ان کا یہ جدی پشتی کام ہے، بچپن میں جب کام شروع کیا تھا تو اس وقت تو بہت کام تھا، مگر اب کوئی کام نہیں بھوکا مرنے والا کام ہے۔ راوی میں 15 سے 20 کشتیاں چلتی ہیں، لیکن دفعہ 144 کی وجہ سے کشتیوں پر پابندی لگی ہوئی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب کام شروع کیا تو اس وقت 250 روپے میں ایک کشتی بنتی تھی، اب اس پر 8 لاکھ روپے لاگت آتی ہے۔ ہماری کشتیاں ٹوٹی پھوٹی جا رہی ہیں، مگر ہمارے پاس ان کی مرمت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔

    بزرگ ملاح نے بتایا کہ میں ہر صورتحال میں فی سبیل اللہ لوگوں کو پہنچاتا رہا ہوں، سیلاب میں گھرے لوگوں کو نکال کر لاتا رہا ہوں۔ گورنمنٹ نے اس پر مجھ سند بھی دی ہے لیکن آج یہ صلہ مل رہا ہے کہ بھوکے مر رہے ہیں۔

    مزید جاننے کے لیے یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں:

     

  • کیلاش میں شادی تہوار، اوجال کیسے منایا جاتا ہے؟

    کیلاش میں شادی تہوار، اوجال کیسے منایا جاتا ہے؟

    پاکستان کی حسین ترین وادی کیلاش میں صدیوں سے آباد قبیلہ کے افراد سالانہ تہوار ”چلم جوش“ کے بعد "اوجال” کو بھی بھرپور جوش و خروش سے مناتے ہیں۔

    کیلاش قبیلے کا تہوار "اوجال” شادیوں کا تہوار کہلاتا ہے جو چلم جوش کے تہوار کے بعد منایا جاتا ہے، اور اس موقع پر پسند کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کا اعلان کرتے ہیں۔

    خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں بہار جوبن پر ہے جس کے ساتھ ہی یہاں صدیوں سے آباد قبیلہ کیلاش اپنا جشن چلم جوش جوش و خروش سے مناتا ہے جس کے بعد "اوجال” کو بھی بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔

    یہ تہوار پاکستان کے سب سے رنگا رنگ اور مشہور تہوار کی حیثیت سے سب سے زیادہ شہرت کا حامل ہے یہی وجہ ہے کہ اس تہوار کو دیکھنے ہر سال ہزاروں سیاح وادی کیلاش کا رخ کرتے ہیں۔

    کیلاش قبیلے کا تہوار "اوجال” شادیوں کا تہوار ہے جو چلم جوش کے تہوار کے بعد منایا جاتا ہے، اور اس میں پسند کرنے والے جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کا اعلان کرتے ہیں۔

    یہ تہوار بہار کی آمد اور نئی فصلوں کی خوشی میں منایا جاتا ہے، اور اس میں رقص و موسیقی کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔

    یہ تہوار نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے جیون ساتھی چننے کا اچھا موقع ہوتا ہے اور اس تہوار میں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی محبت کا ایک دوسرے سے کھل کر اظہار کرتے ہیں اور کیلاش ثقافت کے مطابق بھاگ جاتے ہیں۔

    مذہبی تہوار کے لیے کیلاش برادری خصوصی تیاری کرتی ہے۔ کیلاشی نئے لباس زیب تن کرتے ہیں، خواتین ثقافتی لباس پہنتی ہیں اور روایتی موسیقی پر رقص کرکے جشن کی جگہ پہنچ جاتی ہیں اور اس طرح جشن شروع ہو جاتا ہے۔ خواتین رقص کرتی ہیں اور نئے سال کے لیے گیت گاتی ہیں۔

  • کوئی اجنبی آپ کے نادرا خاندانی ریکارڈ میں شامل تو نہیں ہوگیا؟ اسے کیسے روکیں

    کوئی اجنبی آپ کے نادرا خاندانی ریکارڈ میں شامل تو نہیں ہوگیا؟ اسے کیسے روکیں

    پاکستان میں غیرقانونی طور پر رہنے والے لوگوں کے خلاف آپریشن جاری ہے، نئے نظام کی بدولت نادرا ڈیٹابیس میں موجود غیرملکیوں کی نشاندہی انتہائی آسان ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے خاندانی ریکارڈ کو دیکھنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے بعد ہر پاکستانی گھر بیٹھے اپنے خاندان کی تفصیلات دیکھ سکتا ہے۔

    ‎نئے قوانین کے تحت اب کوئی بھی پاکستانی اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ اس کے خاندانی ڈیٹا میں کوئی اجنبی یا غیر متعلقہ فرد (دخل انداز) تو رجسٹرڈ نہیں ہوگیا یا کردیا گیا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نادرا کے ریکارڈ میں دخل اندازی کیا ہوتی ہے؟ کوئی اجنبی آپ کے فیملی ٹری میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟ اور آپ کو اس کا علم کیسے ہوگا؟

    اس حوالے سے نادرا ترجمان سید شباہت علی نے ایک پوڈ کاسٹ انٹرویو میں دخل اندازی کے بارے ناظرین کو تفصیلی آگاہ کیا اور بتایا کہ نئے نظام کے تحت اب کوئی بھی پاکستانی اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ ان کے خاندان میں کوئی اجنبی یا غیر متعلقہ فرد تو رجسٹرڈ نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کسی اجنبی یا غیر متعلقہ فرد کے کسی خاندان میں شامل ہونے کی تین وجوہات ہوتی ہیں پہلی دانستہ طور پر کسی کو خاندان کا رکن بنا دینا دوسری وجہ یہ کہ کسی کو رقم کا لالچ دے کر یا دھوکے سے شامل کرنا اور تیسری وجہ کسی غلطی کے باعث ایسا ہوجانا۔

    انہوں نے بتایا کہ 19 جون 2025 سے پہلے اپنی فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ’آف آر سی‘ جاننے کیلیے نادرا میں درخواست دینا پڑتی تھی لیکن اب نئے نظام کے تحت آپ نادرا دفتر جاکر بغیر کوئی فیس ادا کیے بغیر اپنی آف آر سی دیکھ سکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ آپ کے موبائل فون میں نادرا کی پاک آئی ڈی ایپلی کیشن ہے تو اس میں آپ کے خاندان کی تمام تر تفصیلات شامل کردی گئی ہیں جسے گھر بیٹھے باآسانی دیکھ سکتے ہیں۔

    نادرا ترجمان سید شباہت علی نے بتایا کہ اگر کوئی شخص آپ کے خاندانی ڈیٹا میں شامل ہوگیا ہے تو اسے ہٹانے کیلیے ایپ میں رپورٹ کا آپشن ہے جسے باآسانی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ س کے علاوہ آپ قریبی نادرا دفتر جاکر بھی درخواست جمع کراسکتے ہیں۔

  • کوٹ ڈیجی میوزم : سندھ میں پتھروں کا جیتا جاگتا ماضی، حیرت انگیز ویڈیو

    کوٹ ڈیجی میوزم : سندھ میں پتھروں کا جیتا جاگتا ماضی، حیرت انگیز ویڈیو

    خیرپور میں کوٹ ڈیجی میوزم سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا، قلعہ سے متصل تعمیر کیے جانے والے میوزیم میں دور قدیم سے لے کر حالیہ زمانے کی رہائشی سہولیات کو مجسموں کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔

    تاریخ صرف کتابوں کا نام نہیں کچھ عمارتیں بھی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ کوٹ ڈیجی کے اس میوزیم میں ماضی آج بھی ان خوبصورت مجسموں کی صورت میں زندہ ہے۔

    سندھ کی ثقافت ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چمک اور شفافیت آج بھی قائم ہے، اس میوزیم کی خاص بات بھی یہی ہے کہ یہ ماضی کے دریچوں کو کھولتا ہے۔

    یہاں آنے والے سیاح ماضی کے جھروکوں میں گم ہوجاتے ہیںم اس میوزیم میں موہن جو دڑو اور کوٹ ڈیجی کے آثار قدیمہ سے دریافت ہونے والی سیکڑوں اشیاء موجود ہیں۔ ان نایاب اشیاء میں مٹی کے برتن، سکے مختلف اشکال کے قیمتی پتھر اور مجمسمے موجود ہیں۔

    اس عجائب گھر میں ماڈلز کے ذریعے سندھ کی ثقافت اور پتھر کے زمانے کے آریا دور کی منظر کشی بہت بہترین انداز سے کی گئی ہے۔

    حکومت اگر کوٹ ڈیجی کی تاریخ سے متعلق نئی نسل کو آگاہی فراہم کرے تو ملک میں سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

  • اورنگی ٹاؤن سے ہارورڈ یونیورسٹی کا سفر کیسے ممکن ہوا، کائنات انصاری نے جدوجہد کی داستان سنادی

    اورنگی ٹاؤن سے ہارورڈ یونیورسٹی کا سفر کیسے ممکن ہوا، کائنات انصاری نے جدوجہد کی داستان سنادی

    کراچی کے پسماندہ علاقے اورنگی ٹاؤن کی رہائشی کائنات انصاری نے اپنی محنت قابلیت اور جدوجہد سے امریکا کے اعلیٰ تعلیمی ادارے تک دسترس حاصل کرلی۔

    کائنات انصاری نے تعلیمی میدان سے جڑے اپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے انتھک محنت کی اور آج انہیں عالمی سطح کی نامور اور صفِ اوّل کی درس گاہ ہارورڈ گریجویٹ اسکول آف ایجوکیشن میں داخلہ مل گیا۔

    انہوں نے اورنگی ٹاون سے وٹ مین کالج واشنگٹن، آکسفورڈ یونیورسٹی اور ہارورڈ کا سفر کامیابی سے طے کیا اور قابل تقلید مثال قائم کی۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں کائنات انصاری نے بحیثیت مہمان شرکت کی اور اپنی اس شاندار کامیابی اور جدوجہد سے متعلق ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق اورنگی ٹاؤن کی کچی آبادی گلشن ضیاء سے ہے اور ہمارے ہاں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا رواج بھی نہیں ہے اور ان کی بہت جلدی شادیاں بھی کرادی جاتی ہیں۔

    کائنات نے بتایا کہ ابتدائی تعلیم تو مقامی سرکاری اسکول سے حاصل کی اور بعد میں میرا داخلہ ایک ٹی سی ایف اسکول میں ہوا جہاں میں والد صاحب کے ساتھ اپنے بھائی کا داخلہ کروانے گئی تو وہاں کا ماحول دیکھ کر مجھ میں پڑھنے کا جذبہ مزید بیدار ہوا اور میں نے وہی سے میٹرک کیا جس کے بعد میری زندگی ہی بدل گئی۔

    اسکول ٹیچرز نے میری دلچسپی دیکھتے ہوئے مشورہ دیا کہ ایک تنظیم ہے جو بچوں کو اسکالر شپ پر باہر پڑھنے بھیجتی ہے وہاں درخواست جمع کرادو جہاں امتحان میں کامیابی کے بعد میں انٹر کرنے ناروے چلی گئی، اور پھر وہاں سے مزید کامیابیاں ملتی چلی گئیں۔

    کائنات انصاری نے پاکستان کی نوجوان لڑکیوں کو مشورہ دیا کہ وہ ہمیشہ بڑے خواب دیکھیں اور انہیں پورا کرنے کیلیے پورے یقین کے ساتھ جدو جہد کریں۔

  • ویڈیو رپورٹ: 1952 میں دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم  الدین کے نام سے آباد علاقہ اب برباد

    ویڈیو رپورٹ: 1952 میں دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے نام سے آباد علاقہ اب برباد

    1952 میں دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے نام سے آباد کیا جانے والا علاقہ ناظم آباد اب برباد ہے!

    کراچی کا علاقہ ناظم آباد بارش کے بعد اُبلتے گٹروں، سیوریج کے بد حال نظام اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر سے جھوجھ رہا ہے۔ علاقے میں اٹھتا تعفن، کھلے گٹر شہریوں کے لیے ذہنی کوفت کا باعث بن چکے ہیں۔ شہریوں کی شکایات کے باوجود نہ نکاسی ہو سکی نہ سیوریج لائن کی درستگی ممکن ہوئی۔

    پاکستانی نوجوان نے موبائل سے گاڑی چلا کر سب کو حیران کر دیا

    بارش کے بعد مختلف بلاکس میں کھلے مین ہول، ابلتے گٹر، سیوریج کا بوسیدہ نظام اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر ہر طرف بربادی کی داستان بیان کرتے ہیں۔ معروف شخصیات، کھیل کے میدان، لائبریریاں، مشہور کالجوں سے جانا جانے والے ضلع وسطی کے اس پوش علاقے کی پہچان اب گرد آلود فضا، کئی کئی عرصے سے جمع تعفن زدہ سیوریج کا پانی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں بن چکی ہیں۔

    علاقہ مکین کہتے ہیں شکایتیں بہت کر لی ہیں، کوئی سننے والا نہیں۔ بد حال بلدیاتی نظام کے باعث علاقے میں قائم سرکاری کالج، پلے گراؤنڈ اور اسکول سمیت شہری بھی متاثر ہیں، جب کہ سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر نے علاقہ مکینوں کو ذہینی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے لیکن متعلقہ ادارے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہیں۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • پاکستانی نوجوان نے موبائل سے گاڑی چلا کر سب کو حیران کر دیا

    پاکستانی نوجوان نے موبائل سے گاڑی چلا کر سب کو حیران کر دیا

    پاکستان میں موبائل فون کی مدد سے ڈرائیور کے بغیر چلنے والی کار تیار کرلی گئی، یہ کارنامہ ٹیکسلا کے نوجوان محمد سبحان فاروقی نے انجام دیا ہے۔

    مکینیکل ڈپلومہ طالب علم سبحان فاروقی نے موبائل فون کے ذریعے گاڑی چلانے کا کامیاب تجربہ کرکے ٹیکسلا کا نام پاکستان سمیت دنیا بھر میں روشن کردیا یہ نوجوان ایلون مسک سے مقابلے کا بھی خواہش مند ہے۔

    ا ےآر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اس ہونہار نوجوان نے بحیثیت مہمان شرکت کی اور اپنی اس تاریخی ایجاد کے بارے میں بتایا۔

    محمد سبحان نے بتایا کہ میں نے ایک کار بنائی ہے جو موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے چلائی جاتی ہے جسے ہم موبائل فون سے کنٹرول کرسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ اپلی کیشن پلے اسٹور پر پہلے سے موجود ہے ہم نے صرف ایسی کٹ بنائی ہے جو اس ایپ سے منسلک ہوکر گاڑی کو چلاتی ہے۔

    اس کٹ کو بنانے میں مجھے تین ماہ کا عرصہ لگا، موبائل فون سے گاڑی کا اسٹیئرنگ بریک ایکسیلیٹر سمیت سب کچھ باآسانی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر یہ معذور افراد کیلیے بنانے کی کوشش ہے میرا ارداہ ہے کہ اب کار کو آرٹیفشل مائنڈ دیا جائے جیسے انسانوں سے بات کی جاتی ہے اسی طرح کار سے کہا جائے گا کہ فلاں شہر چلو تو یہ اپنے سینسرز کا استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ شہر تک جائے گی۔

    ایک سوال کے جواب میں سبحان نے بتایا کہ میں ایلون مسک سے بہت متاثر ہوں اور چاہتا ہوں ان سے مقابلہ کروں۔

  • بازوؤں سے محروم نوجوان کے حوصلے نے سب کو حیران کردیا

    بازوؤں سے محروم نوجوان کے حوصلے نے سب کو حیران کردیا

    دونوں بازوؤں سے محروم باہمت نوجوان نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا، وہ نہ صرف اپنے کام خود کرتا ہے بلکہ اپنی ماں کا بھی ہاتھ بٹاتا ہے۔

    کوئی بھی انسان اگر ہمت حوصلے اور مستقل مزاجی سے کام لے تو وہ ہر ناممکن کام کو ممکن بنا سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی کٹھن اور دشوار کیوں نہ ہو۔

    اس کی بہت بڑی مثال ان معذور افراد میں دیکھنے میں آتی ہے جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہونے کے باوجود قدرت کے فیصلے کو دل سے قبول کرتے ہوئے اپنے حوصلے بلند رکھتے ہیں۔

    ایک ایسا ہی نوجوان جس نے اپنے دونوں بازوؤں سے محرومی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور زندگی کو معمول کے مطابق بسر کرنے تہیہ کیا جسے دیکھنے والے بھی اس کی ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    اے آر وائی نیوز مری کے نمائندے ارسلان ایاز کی رپورٹ کے مطابق یہ باہمت نوجوان مری کا رہائشی کامران عباسی ہے جو دس سال قبل کرنٹ لگنے کے باعث اپنے دونوں بازو گنوا چکا ہے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور کسی پر بوجھ نہیں بنا۔

    کامران جنگل سے لکڑیاں بھی لاتا ہے مرغیوں کو دانہ پودوں کو پانی اور اپنے کپڑوں پر استری بھی خود ہی کرتا ہے۔

    دونوں ہاتھوں سے محروم نوجوان بے روزگاری کے باعث غربت کا شکار ہے اس کی ضعیف والدہ نے حکام بالا سے درخواست کی ہے کہ میرا بیٹا بہت ہمت والا ہے مین چاہتی ہوں اسے دو مصنوعی ہاتھ لگ جائیں اور اسے کوئی نوکری مل جائے تاکہ یہ اپنی باقی زندگی عزت اور سکون سے گزار سکے۔

  • بھٹے کے چھلکے اس قدر بھی کارآمد ہوسکتے ہیں! پاکستانی لڑکی کا بڑا کارنامہ

    بھٹے کے چھلکے اس قدر بھی کارآمد ہوسکتے ہیں! پاکستانی لڑکی کا بڑا کارنامہ

    بھٹے کے چھلکے بھی کام کی چیز ہوتے ہیں، لاہور کی طالبہ نے حیرت انگیز طور پر ان چھلکوں سے ماحول دوست اور کارآمد اشیا تیار کرلی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق بھٹا نہ صرف کھانے کےلیے مفید ہے بلکہ اسکے چھلکے بھی کام میں لائے جاسکتے ہیں، پاکستان کی ایک ہونہار طالبہ نے اپنی لگن اور محنت سے بھٹے کے چھلکوں سے چمڑا کاغذ اور رسی سمیت مختلف کام کی چیزیں بنانے کا کارنامہ انجام دیا ہے،

    بھٹے کے چھلکوں کو مختلف مراحل سے گزار کر کاغذ چمڑا، رسی اور دیگر چیزیں بنائی جاسکتی ہیں جو زرعی فضلے کو ماحول دوست انداز میں ری سائیکل کرتے ہیں۔

    بھٹے کے پردوں کو رات بھر پانی میں بھگو کر اس کو ابالا جاتا ہے، پھر اس کے ریشوں کو خشک ہونے کے بعد کامبنگ کرکے اس سے لوم تیار کیا جاتا ہے۔

    طالبہ سدرہ نے بتایا کہ فائبر ایکسٹریکشن کے عمل میں گودے کی طرح کا مٹیریل نکلتا ہے، جسے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری زیادہ تر ضائع کردیت ہے

    ان کا مزید کہنا تھا کہ میں فائبر سے دھاگہ بنایا ہے، اور گودے سے میں نے بائیو پلاسٹک، پیپر اور لیدر کی مختلف چیزیں بنائی ہیں۔

    ہونہار طالبہ نے مزید کہا کہ اس سے لیدر بیگ بناتے ہیں، یہاں تک کہ اگر ہم اسے لیدر جیولری میں لے کر جاتے ہیں تو وہ آسانی سے بن سکتا ہے، آپ اس سے کارپیٹس بنا سکتے ہیں، آپ وال ہینگنگ بناسکتے ہیں،

    سدرہ کہتی ہیں کہ پیپرز بنانے کےلیے ہر سال لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں لیکن بھٹنے کے پردے سے بغیر درخت کاٹے پیپر بنایا جاسکتا ہے۔

  • کامیاب اور خوشگوار زندگی کیسے گزاری جائے؟

    کامیاب اور خوشگوار زندگی کیسے گزاری جائے؟

    بحیثیت انسان ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی خوشگوار انداز اور مکمل آسودگی کے ساتھ گزارے جس کیلیے چند رہنما اصول ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔

    یہ رہنما اصول زندگی میں مثبت سمت اور کامیابی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، جس میں دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اپنے مقصد پر قائم رہنا شامل ہے۔

    اے آر وائی کیو ٹی وی کے پروگرام میں سید سرفراز شاہ نے کامیاب اور خوشگوار زندگی گزارنے کے حوالے سے اپنے تجربات اور مشاہدے کی روشنی میں ناظرین کو مفید مشوروں سے آگاہ کیا۔

    پروگرام کے میزبان عبد الرؤف کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مسلمان اس حوالے سے بہت فائدے میں ہیں کیونکہ بچپن میں اسکولوں میں جو اسلامیات کا مضمون پڑھایا جاتا ہے وہ اس بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    ARY News Urdu- فن و ثقافت

    زندگی گزارنے کے چند رہنما اصولوں میں جدوجہد، مقصد کا تعین، قناعت اور سخاوت، تکبر سے اجتناب، صبر، لوگوں کی مجبوریاں سمجھنا اور آزمائشوں کا سامنا کرنا شامل ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ رہنما اصول زندگی میں مثبت سمت اور کامیابی حاصل کرنے میں مدد دیتے ہیں، جس میں دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور اپنے مقصد پر قائم رہنا شامل ہیں۔

    سید سرفراز شاہ نے بتایا کہ اگر اس بات کو ایک لفظ میں بتانے کی کوشش کروں تو وہ سنسیارٹی ہے یعنی انسان اگر دوسروں کے معاملے میں مکمل طور پر بے لوث ہوجائے تو کسی کو کوئی شکایت نہ ہو۔