Category: ملٹی میڈیا

Audio and video stories from ARY News

اے آر وائی نیوز کی جانب سے آڈیو اور ویڈیو خبریں

  • خوبانی کو ہر سال ضائع ہونے سے کیسے بچایا جائے؟ اہم ویڈیو رپورٹ

    خوبانی کو ہر سال ضائع ہونے سے کیسے بچایا جائے؟ اہم ویڈیو رپورٹ

    چترال کا معتدل موسم اور زرخیز مٹی خوبانی کی کاشت کیلیے بہت موزوں ہے، ان دنوں خوبانی پک کر تیار ہوچکی ہے لیکن کچھ مسائل کے سبب یہ پھل ضائع ہورہا ہے۔

    اس کا درخت 8 سے 12 میٹر (24 سے 48 ) فٹ اونچا ہوتا ہے جس کا قطر 40 سینٹی میٹر یعنی 16انچ تک ہے، جبکہ یہ 20 سے 25 سال تک پھل دیتے ہیں۔

    یہ پہاڑی اور سرد علاقوں میں پیدا ہونے والا پھل ہے، پاکستان میں اعلیٰ درجے کی خوبانی کا مرکز وادیٔ ہنزہ ہے دیگر مقامات میں چترال، گلگت، بلتستان، مردان، زیارت، ہزارہ، قلات، سوات، ایبٹ آباد اور کوئٹہ شامل ہیں۔

    

    ہر سال یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ خوبانی کی بہت بڑی تعداد مارکیٹ تک پہنچتے پہنچتے صاضع ہوجاتی ہے جس کی بڑی وجہ مارکیٹ تک رسائی جدید معلومات کا فقدان اور خراب سڑکیں ہیں۔

    اگر کسانوں کو حکومت کی جانب سے جدید تربیت اور زرعی سہولیات اور پروسسنگ کا نظام فراہم کیا جائے تو خوبانی کی صنعت مقامی معیشت کیلیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔

    بڑھتی ہوئی آبادی نے باغبانی کو محدود کرکے رکھ دیا ہے، تاہم ہر گھر میں چند ایک درخت اور پودے ضرور موجود ہیں، جن سے لوگ اپنی ضرورت کے پھل حاصل کرتے ہیں، بلکہ بعض گھروں میں اب بھی ڈرائی فروٹ کی کافی مقدار جمع کی جاتی ہے۔

  • پولیس کی فوری مدد کیلیے 15 کے بعد ’ون انفو ایپ‘ متعارف

    پولیس کی فوری مدد کیلیے 15 کے بعد ’ون انفو ایپ‘ متعارف

    اسلام آباد پولیس نے شہریوں کی آسانی کیلئے ون انفو ایپ متعارف کروا دی ہے، شہری کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں 15 کے علاوہ اس ایپ سے بھی پولیس کی فوری مدد حاصل کر سکتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈی جی سیف سٹی اسلام آباد شاکر حسین داوڑ نے ناظرین کو ایپ کی خصوصیات اور اس کی اہمیت سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہے، ہماری ون انفو ایپ پولیس کی فوری مدد حاصل کرنے میں عوام کیلیے انتہائی مددگار ہے، اسے گوگل یا ایپل ایپ اسٹور سے باآسانی ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے۔

    شاکر حسین داوڑ کا کہنا تھا کہ اس کے اندر آپ کو سبز اور لال رنگ کے دو بٹن نظر آئیں گے سبز بٹن پُش کرکے آپ کوئی بھی مشکوک یا کرمنل قسم کی ایکٹویٹی جو آپنے دیکھی ہو اسے بیان کرسکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ لال بٹن دبانے سے پولیس فوراً متحرک ہوجاتی ہے اور جائے وقوعہ پر فوری کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

    info app isb

    انہوں نے بتایا کہ عوامی شکایات کا اس کی اہمیت کے پیش نظر فوری طور پر ایکشن لیا جاتا ہے یا اسے ریکارڈ کا حصہ بنا کر مناسب وقت پر کارروائی کی جاتی ہے۔

  • ہیئر ٹرانسپلانٹ کرانا جان لیوا ہے؟ برطانوی شہری کی ہلاکت نے سوالات کھڑے کردیے

    ہیئر ٹرانسپلانٹ کرانا جان لیوا ہے؟ برطانوی شہری کی ہلاکت نے سوالات کھڑے کردیے

    بڑھتی عمر یا کسی سنگین بیماری کے سبب گنج پن کی شکایت اکثر ہوجاتی ہے جس کیلیے ہیئر ٹرانسپلانٹ یعنی بالوں کی پیوند کاری کرانا عام ہوچکا ہے۔

    ترکی ہیئر ٹرانسپلانٹ کے لیے ایک مقبول ملک بن گیا ہے جہاں دنیا بھر سے بڑی تعداد میں گنج پن کے شکار افراد علاج کی غرض سے آتے ہیں۔

    اگر بالوں کی پیوند کاری صحیح طریقے یا معیاری انداز سے نہ ہو تو یہ علاج جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہیئر ٹرانسپلانٹ کے لیے ترکی جانے والے ایک برطانوی شہری کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑگئے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق 38 سالہ برطانوی شہری مارٹن لیچمن ہیئر ٹرانسپلانٹ کے لیے ترکی گیا جہاں بالوں کی پیوند کاری کے عمل کے دوران اس کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور اسپتال میں دوران علاج اس کی موت واقع ہوگئی۔

    دوسری جانب جس کلینک میں وہ زیر علاج تھا اس کی جانب سے جاری ایک بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ مارٹن لیچمن کا علاج ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ اس کی طبیعت اچانک بگڑی جس کے سبب اسے فوری طور پر اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

    دوسری جانب ہیئر ٹرانسپلانٹ کے بعد ہونے والی پیچیدگیوں کے علاج کیلیے غیر ملکی خصوصاً برطانوی شہری واپس ترکی جانے کے بجائے مقامی کلینکس سے علاج کرواتے ہیں۔

    برطانوی این ایچ ایس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 3 سال کے دوران ملک سے باہر کرائی جانے والی بالوں کی پیوند کاری کے بعد ہونے والی پیچیدگیوں میں 94 فیصد اضافہ ہوا ہے جو تشویشناک ہے اس کے علاج پر فی کس 15 ہزار پاؤنڈ کے اخراجات آتے ہیں۔

    ترک ٹریول کاؤنسل کی رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا بھر سے 11 لاکھ افراد بالوں کی پیوند کاری کیلیے ترکی آتے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے آنے وجہ یہ ہے کہ یہاں ہیئر ٹرانسپلانٹ پر آنے والے اخراجات دیگر ممالک کی نسبت بہت کم ہیں۔

  • "آسان شادی تحریک” جہیز کی لعنت سے چھٹکارا (ویڈیو رپورٹ)

    "آسان شادی تحریک” جہیز کی لعنت سے چھٹکارا (ویڈیو رپورٹ)

    ہمارے معاشرے میں آج شادی کو اتنا مہنگا اور پرتعیش بنا دیا گیا ہے کہ غریب کے لیے شادی کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے لیکن اب تبدیلی آ رہی ہے۔

    شادی سنت نبویﷺ ہے، مگر سادگی کے ساتھ۔ لیکن ہمارے معاشرے میں سوائے نکاح کے اب کہیں سنت نبوی کی پیروی نظر نہیں آتی۔ شادی سے پہلے برائیڈل شاور، مایوں، بری، مہندی، شہندی پھر بارات اور ولیمہ، درجنوں کھانے، مہنگے ہال اور پیسے کی بے جا نمائش نے اس عمل کو غریب کے لیے ایک خواب بنا دیا ہے۔

    تاہم معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مہنگی شادی کے تصور کو تبدیل کرنے کا مشن لے کر چلے ہیں اور حدیث نبوی ﷺ کے مطابق شادی کو آسان اور کم سےکم خرچ میں انجام پہنچانے کے لیے ’’آسان شادی تحریک‘‘ شروع کی ہے۔

    اس انقلابی تحریک کا آغاز آزاد کشمیر کے علاقے راولاکوٹ سے ہوا ہے، جہاں کے نوجوانوں نے یہ بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کا مقصد بڑھتی ہوئی مہنگائی میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے آسانی پیدا کرنا،فضول رسومات کا خاتمہ اور جہیز کے نام پر لڑکی والوں پر بوجھ کو کم کرنا ہے۔ اس تحریک کے تحت سادگی سے شادیوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

    اس شادی میں نہ مہندی ہے نہ مایوں کی رسم، صرف مختصر زیور اور ضروری سامان کے علاوہ کوئی جہیز نہیں۔کھانے میں بھی صرف ون ڈش اور وہ بھی دولہا والوں کی طرف سے ولیمے کی تقریب میں۔ یہ سب غریب افراد کے لیے شادی کو آسان بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

    آسان شادی کے تحت ایک شہری نے اپنے بیٹے کی سادگی سے شادی کی۔ انہوں نے بتایا کہ کل میں اور میرا بیٹا، اس کے دو دوست اور میرے دو بھائی گئے تھے دلہن کے گھر اور نکاح کراکے سادگی سے دلہن رخصت کرا کے اپنے گھر لے آئے، کوئی جہیز نہیں لیا اور آج بیٹے کا ولیمہ کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ صاحب استطاعت لوگوں کو چاہیے کہ وہ خود سادگی سے شادی پر عمل کر کے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں تاکہ جو صاحب استطاعت نہیں ہیں، انہیں بھی حوصلہ ہو کہ شادی سادگی سے بھی ہو سکتی ہے اور یہی ہمارا پیغام ہے۔

    عام شہریوں نے بھی تحریک کو معاشرے کے لیے بہترین مثال قرار دیا ہے اور شادی جیسے فرض کو آسان بنانے پر تحریک کو سراہا ہے۔

    نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کی شادی کے نام پر فضول رسومات، مہندی، مایوں، زیور جہیز اور دیگر بہت ساری فضولیات رائج ہو چکی ہیں۔ اسی وجہ سے بہت سارے غریب اپنے بچوں کی شادی نہیں کر پاتے۔ اس تحریک سے سادگی سے شادی کرنے کی ترغیب ملے گی تو غریب بھی اپنے بچوں کی شادی کرنے کا حوصلہ کر سکے گا۔

    آسان شادی تحریک شروع کرنے والی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا کہ آسان شادی پر ایک لاکھ سے 12 سے 15 لاکھ تک اخراجات آتے ہیں۔ یہ اخراجات لوگوں پر منحصر ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں آسان شادی ہر گھر کی آواز بن جائے گی، اور نوجوان کے لیے شادی کرنا بہت ہی آسان ہو جائے گی۔

    ویڈیو رپورٹ: سردار راشد نذیر

  • امریکا سے طبی تعلیم کے بعد چائلڈ اسپیشلسٹ نے پبلک پارک میں مفت مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا

    امریکا سے طبی تعلیم کے بعد چائلڈ اسپیشلسٹ نے پبلک پارک میں مفت مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا

    کراچی کے پارکس میں ان دنوں چرچا ہے بچوں کے ماہر ایک ڈاکٹر کا، جو رضاکارانہ طور پہ ماؤں میں بچوں کی صحت کے حوالے سے آگاہی پھیلا رہے ہیں، ڈاکٹر اظہر چغتائی یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟ جانتے ہیں اس ویڈیو رپورٹ میں۔

    ماؤں نے بچوں کی صحت کے حوالے سے سوال پوچھے اور ڈاکٹر اظہر چغتائی نے پریزنٹیشن کے ذریعے جوابات دیے۔ مقامی انتطامیہ کے تعاون سے پارکس اور مساجد سمیت عوامی مقامات پر ایسی مہمات شہریوں کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔

    امریکا سے تعلیم مکمل کر کے گزشتہ 25 برس سے صحت کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر اظہر چغتائی نے شہر کے پارکس میں کھیل کود کے ساتھ صحت کی آگاہی مہم بھی شروع کر رکھی ہے، وہ کہتے ہیں یہ کراچی کا قرض ہے جو لوٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔


    ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں کچھ امراض سے اموات میں اضافہ ہو جائے گا، بین الاقوامی جریدے کا انکشاف


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • انجیر کی کاشت کیسے کی جاتی ہے؟ دلچسپ رپورٹ

    انجیر کی کاشت کیسے کی جاتی ہے؟ دلچسپ رپورٹ

    چمن : انجیر ایک ایسا پھل ہے جس کا پودا گرم اور دھوپ والے موسم میں بہتر طریقے سے افزائش پاتا ہے جبکہ یہ ہلکی سردی اور گرمی بھی برداشت کر سکتا ہے۔

    انجیر کے پودے عام طور پر بہار یا خزاں میں لگائے جاتے ہیں لیکن سخت سردی اسے نقصان پہنچا سکتی ہے۔ چمن کاریزات میں جنت کا پھل انجیر کے ہزاروں درخت اگائے گئے ہیں۔

    انجیر کو جنت کا میوہ بھی کہا جاتا ہے، انجیر کی کاشت کیسے ہوتی ہے؟ اسے خشک کرکے بازاروں میں کیسے لے جایا جاتا ہے؟

    اے آر وائی نیوز چمن کے نمائندے اختر گلفام کی رپورٹ کے مطابق چمن میں جنت کے اس پھل کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ یہاں کی انجیر دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ میٹھی رسیلی اور ذائقہ دار ہوتی ہے۔

    اس کی متعدد قسمیں ہیں جن میں سے سبھی رنگ اور ساخت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں چمن میں کاریزات کے باغات سے اس کی بڑی پیداوار حاصل کی جاتی ہے جن کو اندرون ملک بھیجا جاتا ہے۔

    باغ کے نزدیک یہاں پروسسنگ کا عمل کیا جاتا ہے فریش انجیر کاٹ کر یہاں چھانٹی کی جاتی ہے اور خراب دانوں کو علیحدہ کیا جاتا ہے۔

    اس کی چھٹائی پر خشک ہونے کے لیے چھوڑدیا جاتا ہے خشک ہونے کے بعد اسے ایک بالٹی میں رکھا جاتا ہے 4 گھنٹے بعد اس کو کمرے میں لے جا کے رسی ڈالی جاتی ہے۔ چار دن میدان میں پڑے رہنے کے بعد ان کو کپڑے کے نیچے ایک ہفتے تک ڈمپ کیا جاتا ہے۔

  • کیا ہوٹلوں میں گدھے کا گوشت کھلایا جارہا ہے؟ کھانے والے تذبذب کا شکار

    کیا ہوٹلوں میں گدھے کا گوشت کھلایا جارہا ہے؟ کھانے والے تذبذب کا شکار

    راولپنڈی : گزشتہ دنوں ملک کے مختلف شہروں کے غیر قانونی سے ذبح خانوں سے بڑی مقدار میں گدھے کا گوشت برآمد ہونے کی خبروں کے بعد لوگوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

    اس خبر کے بعد سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان امڈ آیا جس میں کہا گیا کہ اب لاہور کے بعد اسلام آباد کے شہری بھی گدھے کے گوشت سے ’لطف اندوز‘ ہورہے ہیں۔

    اس کے علاوہ شہر کے معروف ریستورانوں اور ڈھابوں سے کھانا کھانے والے شہری اسی تذبذب کاشکار ہیں کہ کیا انہیں بھی یہ گوشت کھلا دیا گیا ہے؟

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے پنجاب فوڈ اتھارٹی راولپنڈی کے عملے کے ساتھ مختلف ہوٹلوں اور ریستورانوں کا معائنہ کیا اور حقیقت جاننے کی کوشش کی۔

    اس موقع پر ٹیم سرعام اور پی ایف اے نے باری باری ہوٹلوں اور ریستورانوں میں جاکر مالکان اور کھانا کھانے کیلیے وہاں موجود لوگوں سے گفتگو کی اور ان کے خیالات جاننے کوشش کی۔

    اس دوران یہ بات سامنے آئی کہ خوش قسمتی سے کسی ہوٹل پر گدھے کے گوشت کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اس موقع پر وہاں موجود گوشت کی خریداری کی رسیدیں بھی چیک کی گئیں، البتہ کچھ ہوٹلوں پر گندگی اور صفائی کے ناقص انتظامات ضرور دیکھنے میں آئے۔

    ہوٹلوں میں موجود شہریوں سے بات کی گئی تو کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم پہلے پوچھ کر پھر کھانا کھاتے ہیں، تاہم لوگوں میں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں دھوکے سے گدھے کا گوشت نہ کھلا دیا جائے اس لیے وہ دال سبزی کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔

    رنگون بیف پلاؤ کی شاپ کے معائنے کے دوران وہاں حفظان صحت کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی دیکھنے میں آئی جہاں صفائی ستھرائی کا شدید فقدان تھا، کھانوں میں استعمال ہونے والے مسالہ جات اور انہیں رکھنے کی جگہیں غلاظت سے اٹی ہوئی تھیں۔

    یاد رہے کہ اسلام آباد کے ملحقہ علاقے ترنول کے ایک فارم ہاؤس میں قائم غیر قانونی ذبح خانے سے 900کلو گدھے کا گوشت برآمد ہوا ہے جبکہ 50 زندہ گدھے بھی تحویل میں لیے گئے تھے۔

    پنجاب فوڈ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے مکورہ دھندے میں ملوث ایک غیر ملکی باشندے کو گرفتار کیا ہے۔

  • آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کیسے داخلہ لے سکتے ہیں؟ ویڈیو رپورٹ‌

    آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کیسے داخلہ لے سکتے ہیں؟ ویڈیو رپورٹ‌

    ویلنگٹن : آکسفورڈ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی قدیم ترین اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے اور یہاں داخلہ حاصل کرنا ایک باوقار لیکن سخت مقابلے کا عمل ہوتا ہے، خاص طور پر غیر ملکی یا پاکستانی طلبہ کے لیے۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی میں داخلے کے حوالے سے ہر سال دنیا بھر سے 30 ہزار کے زائد طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلیے یہاں آتے ہیں۔

    پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو، ٹونی بلیئر، ڈیوڈ کیمرون اور دنیا کی نامور ترین شخصیات نے اس عظیم تعلیمی درسگاہ سے استفادہ کیا۔

    رپورٹ کے مطابق فنڈز کی کمی کے باعث بے شمار پاکستانی طلبہ یہاں تعلیم حاصل نہیں کرپاتے یہ فنڈز کہاں سے اور کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں اس سلسلے میں وہاں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ نے تفصیلات سے آگاہ کیا۔

    اس حوالے سے جھنگ کے جعفر علی اور چترال سے تعلق رکھنے والے عبد الواحد نے بتایا کہ ایک پروگرام کے تحت داخلے کے خواہشمند پاکستانی طلبہ کو کاغذات اور دیگر معاملات سے متعلق مکمل رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔

    اس وقت آکسفورڈ یونیورسٹی میں صرف 50 پاکستانی طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، یقیناً پاکستان میں ذہین اور قابل طلباکی کمی نہیں، حکومتی سطح پر دلچسپی اور سرپرستی سے یہ طلبہ دنیا کی اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

    داخلے کا مکمل طریقہ کار

    مندرجہ ذیل سطور میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کے داخلے کا مکمل طریقہ کار بیان کیا گیا ہے۔

    پہلے فیصلہ کریں کہ آپ کون سا مضمون پڑھنا چاہتے ہیں (جیسے لاء ، طب، انجینئرنگ وغیرہ)۔

    تعلیمی قابلیت کیلیے اے لیولز میں عام طور پر AAA یا AAA گریڈز درکار ہوتے ہیں۔ صرف ایف ایس سی سے براہ راست داخلہ ممکن نہیں۔ ، اے لیولز یا فاؤنڈیشن ایئر ضروری ہے۔

    داخلے کیلیے آپ کو یو سی اے ایس ویب سائٹ کے ذریعے اپلائی کرنا ہوتا ہے، جس کی آخری تاریخ ہر سال 15 اکتوبر ہوتی ہے۔
    www.ucas.com

    اس کے علاوہ کچھ کورسز کے لیے ٹیسٹ اور آن لائن انٹرویو دینا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی سے آفر لیٹر ملنے کے بعد پھر آپ کو یو کے اسٹوڈنٹ ویزا کے لیے اپلائی کرنا ہوگا۔

    اگر آپ کسی خاص مقصد کے لیے مدد چاہتے ہیں یا اسکالر شپ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ان مفید ویب سائٹ پر وزٹ کریں۔
    www.ox.ac.uk

    اس کے علاوہ آکسفورڈ کی اس ویب سائٹ پر تمام کورسز کی فہرست موجود ہے:
    https://www.ox.ac.uk/admissions

  • ویڈیو رپورٹ: مٹھائیوں اور بیکری آئٹمز کی برآمدات میں اضافہ ہو گیا

    ویڈیو رپورٹ: مٹھائیوں اور بیکری آئٹمز کی برآمدات میں اضافہ ہو گیا

    کراچی میں جاری نمائش ’مائی کراچی‘ میں شریک کمپنیوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے مقامی فروخت میں کمی آئی ہے، تاہم کنفیکشنری مٹھائیوں، فروزن فوڈ اور بیکری ائیٹم کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    مائی کراچی نمائش کراچی کا مثبت امیج اجاگر کرنے کے لیے ہر سال منعقد کی جاتی ہے، یہ نمائش نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے، نمائش میں شریک پاکستانی کمپنیوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوڈ آئٹم کی بیرون ملک مانگ میں اضافہ ہوا ہے، نمکو، بیکری اور مٹھائیوں کی کینڈا، امریکا اور آسٹریلیا کو ایکسپورٹ میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔


    کیا دودھ اور آئس کریم سے ڈراؤنے خواب آتے ہیں؟


    نمائش میں شریک تاجروں کا کہنا تھا کہ مائی کراچی نمائش کا انعقاد شہر میں مثبت تجارتی سرگرمیوں کا ثبوت ہے، نمائش میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں اپنی مصنوعات رعایتی نرخوں پر پیش کر رہی ہیں، یہ تین روزہ نمائش کراچی والوں کو تفریح فراہم کرنے کے علاوہ بزنس ٹو بزنس میٹنگز کے لیے بہترین پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • بے نظیر بھٹو کا پہلا تعلیمی شہر مری : جس کی شرح خواندگی نے سب کو حیران کردیا

    بے نظیر بھٹو کا پہلا تعلیمی شہر مری : جس کی شرح خواندگی نے سب کو حیران کردیا

    لاہور : پنجاب کے شہروں میں شرح خواندگی کے اعتبار سے درجہ بندی پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق صوبائی اضلاع میں شرح خواندگی کے لحاظ سے ضلع مری سب سے آگے ہے۔

    یہ شہر خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تو ہے ہی میں لیکن اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے اضلاع میں شرح خواندگی کے لحاظ سے بھی ضلع مری 84.8 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پنجاب کے41 اضلاع میں ضلع مری سر فہرست رہا، جبکہ صوبے کے10 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز یعنی راولپنڈی سرگودھا فیصل آباد گوجرنوالہ سیالکوٹ لاہور ساہیوال ملتان بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے علاوہ دیگر 30اضلاع بھی مری سے پیچھے رہے۔

    اگر مری سے باہر سے آنے والے غیر تربیت یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ مزدوروں کو نکال دیا جائے تو یہ شرح 95 فیصد سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔

     

    تعلیمی حلقوں اور سوسائٹی کی جانب سے ان اضلاع میں تعلیمی ترقی میں کردار ادا کرنے والے اساتذہ، والدین اور طلبہ کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے جنہوں نے کم وسائل میں علم کی شمع روشن رکھی۔

    انگریزوں کے دور حکومت میں تعمیر کیے گئے تعلیمی اداروں میں کئی نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کی اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

    مشہور ملی نغمہ جو ہر پاکستانی کی زبان پر ہوتا ہے ’اے وطن پاک وطن‘کو مری کے رہنبے والے پروفیسر کرم حیدری نے لکھا تھا اس کے علاوہ مری میں پہلا کالج بنانے کا اعزاز بھی پروفیسر کرم حیدری کو حاصل ہے۔

    اس کے علاوہ پاکستان کی پہلی اور سابق خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کا پہلا اسکول بھی مری میں واقع ہے جہاں انہوں نے 1958 سے 1961 تک ابتدائی تعلیم حاصل کی۔