Category: پاکستان

پاکستان اردو نیوز

ملک پاکستان میں اے آر وائی نیوز کی جانب سے آنے والی تازہ ترین خبریں

Pakistan Urdu News- Daily Pak Urdu News

  • بجلی کے نظام میں 213 ارب روپے کا نقصان صارفین سے وصول

    بجلی کے نظام میں 213 ارب روپے کا نقصان صارفین سے وصول

    سال 2017 میں بجلی کے نظام میں 213 ارب روپے کا نقصان صارفین سے وصول کیا گیا یعنی عوام نے بجلی کے بلوں کے ساتھ کمپنیوں کی نااہلی کا خمیازہ بھی بھگتا۔

    تفصیلات کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث اربوں روپے کا بوجھ عوام کے سر پر ڈال دیا گیا۔

    پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں پیپکو کے چیئرمین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ تیکنکی مسائل کے باعث گزشتہ سال 213 ارب روپےکا نقصان ہوا اور یہ ساری رقم عوام سے وصول کی گئی۔

    سب سے زیادہ لائن لاسز سکھر پاور کمپنی میں ہیں۔ سپیکو میں 38 فیصد سے زائد، پشاور میں 32.6 جبکہ حیدر آباد میں 30.6 فیصد لائن لاسز ہیں۔

    پیپکو کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ بجلی کے بل کے ساتھ ساتھ صارفین کو لائن لاسز کا بوجھ بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    مفکر و شاعر خلیل جبران کا 135 واں یوم پیدائش

    معروف مفکر، شاعر، اور مصور خلیل جبران کا آج 135 واں یوم پیدائش ہے۔ خلیل جبران شیکسپیئر کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر ہیں۔

    لبنان کے شہر بشری میں پیدا ہونے والے خلیل جبران نے اپنے خاندان کے ساتھ بہت کم عمری میں امریکا کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ ان کی نصف ابتدائی تعلیم لبنان، جبکہ نصف امریکا میں مکمل ہوئی۔

    خلیل جبران مفکر شاعر ہونے کے ساتھ ایک مصور بھی تھے۔ انہوں نے اپنی مصوری میں قدرت اور انسان کے فطری رنگوں کو پیش کیا۔

    art-1

    جبران کی شہرہ آفاق کتاب ’دا پرافٹ (پیغمبر)‘ ہے جس میں انہوں نے شاعرانہ مضامین تحریر کیے۔ یہ کتاب بے حد متنازعہ بھی رہی۔ بعد ازاں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی۔

    خلیل جبران ایک مفکر بھی تھے۔ انہوں نے اپنے اقوال میں زندگی کے ایسے پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔

    آئیے ان کے کچھ اقوال سے آپ بھی فیض حاصل کریں۔

    اگر تمہارا دل آتش فشاں ہے، تو تم اس میں سے پھول کھلنے کی توقع کیسے کرسکتے ہو؟

    میں نے باتونی سے خاموشی سیکھی، شدت پسند سے برداشت کرنا سیکھا، نامہربان سے مہربانی سیکھی، اور کتنی حیرانی کی بات ہے کہ میں ان استادوں کا شکر گزار نہیں ہوں۔

    خود محبت بھی اپنی گہرائی کا احساس نہیں کرپاتی جب تک وہ جدائی کا دکھ نہیں سہتی۔

    بے شک وہ ہاتھ جو کانٹوں کے تاج بناتے ہیں، ان ہاتھوں سے بہتر ہیں جو کچھ نہیں کرتے۔

    کیا یہ عجیب بات نہیں کہ جس مخلوق کی کمر میں مہرے نہیں، وہ سیپی کے اندر مہرہ دار مخلوق سے زیادہ پر امن زندگی بسر کرتی ہے۔

    تم جہاں سے چاہو زمین کھود لو، خزانہ تمہیں ضرور مل جائے گا۔ مگر شرط یہ ہے کہ زمین کامیابی کے یقین کے ساتھ کھودو۔

    گزرنے والا کل آج کی یاد ہے، آنے والا کل آج کا خواب ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سال 2017: پاکستانی سیاست کے مد و جزر، کسے کسے بہا لے گئے؟

    سال 2017: پاکستانی سیاست کے مد و جزر، کسے کسے بہا لے گئے؟

    سال 2017 دارالخلافہ میں بھونچال کا سال کہلایا جا سکتا ہے جو دھرنوں، جلسوں اور عدالتی کارروائیوں کے ہنگاموں میں گزرا، انکوائری رپورٹس ، عدالتی فیصلوں نے اس سال کو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید کردیا ہے.

    اس سال پاکستان کے مضبوط ترین وزیراعظم نواز شریف نے نااہل ہو نے کے بعد گھر کی راہ لی اور جگہ جگہ یہی کہتے نظر آئے کہ مجھے کیوں نکالا؟ معلوم نہیں آنے والے سال 2018 میں انہیں اس سوال کا جواب مل پائے گا یا کیوں نکالا کا پہاڑہ آئندہ سال بھی سماعتوں پر بوجھ بنا رہے گا۔

    سال 2017 شریف خاندان کے لیے بہت اچھا ثابت نہیں ہوا جہاں نواز شریف وزیراعظم ہاؤس سے نکالے گئے تو شہباز شریف پر بھی نااہلی کی تلوار بہ صورت سانحہ ماڈل ٹاؤن اور حدیبیہ پیپرز ملز مقدمات کی صورت میں لٹک رہی ہے تو دوسری جانب سمدھی صاحب و وفاقی وزیر خزانہ مقدمات کی زد میں ایسے آئے کہ ماہرین امراض قلب کو دل دے بیٹھے اور برطانیہ میں زیرعلاج ہیں۔

    آیئے جائزہ لیتے ہیں سال 2017 کی دھوپ نے کس کس کے چہرے جھلسائے اور کن کونپلوں کو نمو بخشی، کہاں قسمت کی دیوی مہربان رہی اور عذاب کے دیوتا نے کس کی کمر سیدھی رکھی، کون رہا فاتح اور کسے ہوئی شکست فاش، کون شہرت کی بلندی پر پہنچا اور کون رہا صاحب فراش۔

    28 جولائی 2017 ۔۔۔ نواز شریف نااہل قرار

    پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین دن جب طاقت ور ترین وزیراعظم نوازشریف پاناما کیس میں نااہل قرارپائے اور صادق اور امین نہ ہونے پر نواز شریف کو عہدے سے سبکدوش کردیا گیا۔

    29 اپریل 2017 ۔۔۔۔ ڈان لیکس ، طارق فاطمی کا استعفیٰ

    قومی سلامتی سے متعلق حساس خبر شائع ہونے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی ڈان لیکس سے متعلق رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کو پیش کی گئی، ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کی روشنی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کو عہدے سے فارغ کردیا گیا۔

    خیال رہے گزشتہ برس 2016 میں  وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید  ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کے آغاز پر ہی مستعفی ہوگئے تھے۔

    یکم اگست 2017 ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی نئے وزیر اعظم منتخب۔ چوہدری نثار کی دوریاں

    نوازشریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی کو نیا وزیراعظم منتخب کرلیا گیا جنہوں نے 4 اگست کو اپنی کابینہ کے ہمراہ حلف اُٹھایا۔

     دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے معتمد خاص اور سینیئر ساتھی چوہدری نثار نے نئی کابینہ میں شرکت سے انکار کردیا اور اپنی جماعت کے سربراہ کی اداروں سے تصادم کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے خود کو جماعتی سرگرمیوں سے علیحدہ رکھا۔

    2 اکتوبر 2017 ۔۔۔۔ ختم نبوت قانون میں تبدیلی

    نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل 2017 قومی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا تاہم اس بل میں ختم نبوت سے متعلق شقوں میں موجود حلف نامے میں تبدیلی پر پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

    اپوزیشن کی جانب سے شیخ رشید جب کہ حکومتی حلیف سینیٹر حمد اللہ کی توجہ دلانے سے بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی یہاں تک کہ پورے ملک میں قریہ قریہ اور گلی گلی میں احتجاج کرتے ناموس رسالت کے فدایان نے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔

    5 نومبر 2017 ۔۔۔ فیض آباد دھرنا

    تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان نے فیض آباد پر ختم نبوت سے متعلق حلف نامے میں تبدیلی کے خلاف دھرنا دے دیا جس سے ٹریفک معطل اور معمولات زندگی درہم برہم ہو گئی۔

    دھرنا شرکاء کا مطالبہ تھا کہ ختم نبوت قانون میں تبدیلی کے مرتکب وفاقی وزراء سے استعفی لیا جائے اور اس سازش کو تیار کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے، یہ دھرنا کوئی بائیس دن جاری رہا۔

    17 نومبر 2017۔۔ ختم نبوت قانون اپنی اصل حالت میں بحال 

    عوامی دباؤ کے پیش نظر حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی اور قومی اسمبلی سے انتخابی اصلاحات ترمیمی بل 2017 منظور کروا کر ختم نبوت سے متعلق شقوں کو اپنی اصل حالت میں بحال کردیا۔

    21 نومبر 2017۔۔۔ نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کے خلاف قرارداد مسترد

    نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے پر پابندی کا بل مسترد کر کے مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو سربراہ بنانے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنا دیا، یہ بل پیپلز پارٹی نے پیش کیا تھا۔

    25 نومبر 2017 ۔۔۔ فیض آباد دھرنا، شرکاء پر طاقت کا استعمال

    اسلام آباد انتظامیہ نے علی الصبح فیض آباد دھرنے میں موجود شرکاء کو طاقت کے ذریعے منتشر کرنا چاہا اس دوران ملک بھر ٹی وی نشریات معطل کردی گئیں اور نیٹ سہولیات بند رہیں اس کے باوجود پورے ملک میں طاقت کے استعمال کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔

    27 نومبر 2017۔۔ آرمی چیف کی مداخلت

    ایک روز قبل سعودی عرب کے دورے کو مختصر کرتے ہوئے آرمی چیف قمر باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور دھرنے کے خاتمے کے لیے حکمت عملی پر غور کیا جس کے بعد وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے رضاکارانہ استعفی دے دیا اور یوں ایک معاہدے کے بعد تحریک لبیک پاکستان نے 22 دن سے جاری دھرنا ختم کردیا۔

    21 ستمبر 2017 ۔۔۔ عمران خان صادق و امین قرار

    نااہلی سے متعلق ایک اور اہم کیس میں عدالت نے بنی گالہ اور اپنی جائیداد سے متعلق ثبوت پیش کرنے پر عمران خان کو صادق و امین قرار دیا جب کہ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیا گیا۔

    24 دسمبر 2017 ۔۔۔ باقر نجفی رپورٹ عام 

    لاہور ہائی کورٹ نے ماڈل ٹاون سانحہ کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت کے لیے نئی مشکل کھڑی ہوگئی ہے۔

    29 اکتوبر 2017 ۔۔ ڈپٹی میئر ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں شمولیت

    ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ نے اپنی جماعت کو خیر باد کہتے ہوئے پاک سر زمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی یہ اب تک کی سب سے اہم وکٹ ہے۔

    8 نومبر 2017 ۔۔۔ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کا انضمام

    حیران کن طور پر ایم کیو ایم پاکستان اور پا ک سرزمین پارٹی پہلی مرتبہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے نظر آئے جہاں جماعتی انضمام اور انتخابات میں ایک منشور، ایک نشان اور ایک نام سے حصہ لینے کا اعلان کیا گیا۔لیکن ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کا یہ سیاسی معاشقہ محض چو بیس گھنٹے ہی چل سکا.

    9 نومبر 2017 ۔۔۔ فاروق ستار کا سیاست چھوڑنے کا اعلان

     ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے انضمام پر ناخوش رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کی غیر موجودگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جماعتی انضمام کی تردید کی۔

    پریس کانفرنس کے بعد ایم کیو ایم کی پوری رابطہ کمیٹی فارق ستار کے گھر پی آئی بی پہنچی جہاں سربراہ ایم کیو ایم پہلے ہی پریس کانفرنس طلب کرچکے تھے، فاروق ستار نے رابطہ کمیٹی سے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

    بعد ازاں فاروق ستار نے اپنی والدہ اور اہلیہ کے سمجھانے اور رابطہ کمیٹی و کارکنان کی جانب سے معافی تلافی کے بعد دوبارہ ایم کیو ایم کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کیا اور یوں پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کا معاشقہ چوبیس گھنٹے میں ہی رقابت میں تبدیل ہو گیا۔

    متفرق

    نومنتخب گورنر جسٹس خلیق الزماں صدیقی 11 جنوری کو عارضہ قلب کے باعث انتقال کر گئے جس کے بعد نئے گورنر سندھ کے لیے محمد زبیر نے 2 فروری کو اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا۔

    تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عائشہ گلا لئی نے اپنے چیئرمین عمران خان پر الزامات کی بارش کرتے ہوئے پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کردیا تاہم وہ اب تک اپنی نشست سے مستعفی نہیں ہوئیں۔

    پاک سرزمین پارٹی نے  لیاقت آباد فلائی اوور پر کامیاب جلسہ کر کے ایم کیو ایم پاکستان اور کراچی کی دیگر سیاسی تنظیموں کو چیلینج کردیا ہے اور صوبائی دارالحکومت میں سیاسی منظر نامے میں تبدیلی ہوتی نظرآرہی ہے۔

    مکمل رپورٹ کی ویڈیو جھلک دیکھیں

  • صرف پنجاب میں13لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں، چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ

    صرف پنجاب میں13لاکھ مقدمات التواء کا شکار ہیں، چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ

    لاہور : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہمیں5ہزار ججز اور پورا ایک اسٹرکچر چاہیے، پنجاب میں 1.3 ملین کیسز پنجاب میں التواء کا شکار ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جسٹس منظور علی شاہ کا کہنا تھا کہ 1.3ملین کیسز1770ججز کیسے ختم کر سکتے ہیں، ہمیں5ہزار ججز چاہئیں اور پورا ایک اسٹرکچر چاہیے۔

    چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے مزید کہا کہ روزانہ بےشماردرخواستیں موصول ہوتی ہیں کہ آپ کیا کررہے ہیں، ہمارے اندرونی مسائل سے عام آدمی بھی بہت تنگ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اے ڈی آر نظام کو لاگو کرنے کےبارے میں سو چ رہے ہیں، ہمارا ارادہ ہے کہ سب ججز میڈی ایشن کے کورسز کریں، ورلڈ بینک کی مدد سے اے ڈی آر سینٹر بن رہا ہے۔

  • موسم کی خرابی: پیر13نومبر کو پی آئی اے کی پروازوں میں ردو بدل

    موسم کی خرابی: پیر13نومبر کو پی آئی اے کی پروازوں میں ردو بدل

    کراچی : ملک میں دھند اور اسموگ کی وجہ سے خراب موسمی صورتحال کے باعث13نومبر بروز پیر کو پی آئی اے کی چند پروازیں منسوخ اور کچھ کے شیڈول میں تبدیلی کی گئی ہے۔

    ترجمان پی آئی اے نے کہا ہے کہ موسم کی غیر یقینی صورتحال کے باعث پی آئی اے اپنے شیڈول میں تبدیلی کر رہی ہے ۔ترجمان نے مسافروں سے کہا ہے کہ وہ ایئر پورٹ آنے سے پہلے پی آئی اے کے کال سینٹر کے نمبر111-787-786 سے اپنی مطلوبہ پرواز کے متعلق معلومات حاصل کریں۔

    پیر13نومبر کو کراچی سے فیصل آباد کی دوطرفہ پروازیں پی کے342 اورپی کے342 ، لاہور سے کراچی کی پروازپی کے313 ، کراچی سے رحیم یار خان کی دو طرفہ پروازیں پی کے582 اور پی کے583 ، لاہور سے ملتان کی دوطرفہ پروازیں پی کے683 اور پی کے684 موسم کی خرابی کو پیش نظر رکھتے ہوئے منسوخ کر دی گئی ہیں۔

    پی آئی اے کی کراچی سے ملتان ، اسلام آباد اور واپسی کی پروازیں پی کے588 اورپی کے589 دو گھنٹے پینتالیس منٹ کی تاخیر سے روانہ ہوں گی۔

    فیصل آباد سے جدہ کی پروازپی کے763 اب کراچی سے جدہ کے لئے روانہ ہو گی، ابوظہبی سے رحیم یار خان اور لاہور آنے والی پرواز پی کے296 اب براہ راست ابوظہبی سے لاہور آئے گی۔

    فیصل آباد اور کراچی کے درمیان دو طرفہ پروازیں پی کے340 اورپی کے341 اب کراچی اور لاہور کے درمیان چلائی جائیں گی، کراچی سے سکھر اور اسلام آباد کی پروازپی کے390 تین گھنٹے جبکہ اسلام آباد سے سکھر اور کراچی کی پروازپی کے391 دو گھنٹے تیس منٹ کی تاخیر سے روانہ ہو گی۔

    لاہور سے اسلام آباد کی پرواز پی کے650 چار گھنٹے جبکہ اسلام آباد سے لاہور کی پرواز پی کے651 تین گھنٹہ تیس منٹ کی تاخیر سے روانہ ہو گی اور لاہور سے سکھر کی دوطرفہ پروازیںپی کے594 اورپی کے595 کی روانگی میں بھی چار گھنٹے کی تاخیر ہو گی۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے مسافروں کو ہونے والی زحمت پر پی آئی اے معذرت خواہ ہے۔

     

  • حدیبیہ پیپرمل ریفرنس دوبارہ کھولنے کیلئے سماعت13نومبرکوہوگی

    حدیبیہ پیپرمل ریفرنس دوبارہ کھولنے کیلئے سماعت13نومبرکوہوگی

    اسلام آباد : حدیبیہ پیپر مل ریفرنس دوبارہ کھولنے کیلئے نیب کی اپیل پر کیس کی سماعت تیرہ نومبر سے شروع ہوگی، سماعت تین رکنی بینچ کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کے خلاف ایک اور مقدمہ کھل گیا، دو دہائی بعد کرپشن کی ماں قرار پانے والے حدیبیہ پیپر مل کیس کی دوبارہ سماعت کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دوبار کھولنے کیلئے نیب کی اپیل پر 13 نومبر سماعت کے لئے مقرر کر دی گئی۔

    مذکورہ کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس دوست محمد اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل ہونگے۔

    پہلی سماعت کیلئے رجسٹرار آفس نے پراسیکیوٹر جنرل نیب کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں، نیب کی جانب سے پاناما کیس کے پانچ رکنی بینچ کی آبزرویشن پر سپریم کورٹ میں کیس کو دوبارہ کھولنے کی اپیل کی گئی تھی۔

    واضح رہے کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ حدیبیہ پیپر مل کو بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، نوے کی دہائی میں آڈٹ میں گھپلے کیے گئے، بیلنس شیٹ میں اربوں روپے کا اضافہ ہوا، جس پر مالیاتی ادارے متحرک ہوئے اور معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا۔

    بعد ازاں سال دو ہزار میں اسحاق ڈار نے اعترافی بیان میں وعدہ معاف گواہ بن کر شریف خاندان کی ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ ڈالر کے لگ بھگ منی لانڈرنگ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

    دوسری جانب نون لیگی رہنما کیس کو جھوٹ اور پروپیگنڈا گردانتے رہے۔ لیگی قیادت جتنا بھی معاملے کو نظراندز کرے لیکن منی لانڈرنگ، سٹی بینک، التوفیق انوسٹمنٹ بینک، البرکہ کے بینک اکاؤنٹ بہت کچھ بتاتے ہیں۔


    مزید پڑھیں: نیب کی حدیبیہ پیپرملز سے متعلق سپریم کورٹ میں اپیل سماعت کیلئے منظور


    جن میں رقم برطانیہ کے قاضی خاندان کے نام پر بھیجی جاتی رہی اور پھر وہی پیسہ واپس حدیبیہ پیپر ملز کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جاتا تھا۔

  • می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    می ٹو: ہراسمنٹ کے بارے میں پاکستانی خواتین کیا کہتی ہیں؟

    چند دن قبل ہالی ووڈ کے معروف فلم پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن پر بالی ووڈ کی کئی اداکاروں نے یکے بعد دیگرے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا جس نے ہالی ووڈ انڈسٹری سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔

    معروف ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی سمیت اب تک ہالی ووڈ کی 20 سے زائد اداکارؤں نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ جب وہ اپنے کیرئیر کے ابتدائی دور میں تھیں تب ہاروی نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی، 2 اداکاراؤں نے ہاروی پر ریپ کا الزام بھی لگایا۔

    اداکاراؤں کے ان الزامات کے بعد امریکا اور برطانیہ کے تمام تحقیقاتی ادارے متحرک ہوگئے اور ہاروی وائنسٹن کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئیں۔

    ہاروی نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک فلم ساز ادارہ ’میرا مکس فلمز‘ بنایا تھا، اس ادارے نے ہاروی سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا، جبکہ اس کے نام پر بنے دوسرے ادارے ’دی وائنسٹن‘ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے بھی اسے برطرف کر دیا ہے۔

    یہی نہیں بلکہ آسکر اور بافٹا ایوارڈز کی تنظیموں نے بھی اپنی جیوری سے ہاروی کی رکنیت معطل کر دی ہے۔

    جنسی ہراسمنٹ کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ کا آغاز ہوگیا جس کے تحت دنیا بھر کی خواتین نے آواز اٹھائی کہ وہ زندگی میں کس مرحلے پر جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنیں۔

    یہ ہیش ٹیگ پڑوسی ملک بھارت میں بھی بے حد مقبول ہوا اور بھارتی اداکارہ ودیا بالن اور ریچا چڈھا سمیت متعدد خواتین نے اس معاملے پر آواز اٹھائی کہ انہیں کس عمر میں، کن حالات میں اور کس طرح جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنایا گیا۔

    تاہم پاکستان میں اس مہم کو اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ آسکر ایوارڈ یافتہ فلمساز شرمین عبید چنائے کی کچھ متنازعہ ٹوئٹس نے معاملے کو ایک اور رنگ دے دیا اور ہراسمنٹ کا لفظ ہر مرد و خواتین کے منہ سے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں سنا جانے لگا جس نے اس معاملے کی حساسیت کو کم کردیا۔

    اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف شعبہ جات کی چند خواتین سے رابطہ کیا اور ان سے ان کے کیریئر میں ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کے تجربات کے بارے میں پوچھا۔

    عافیہ سلام ۔ صحافی / سماجی کارکن

    مختلف سماجی اداروں سے منسلک عافیہ سلام اس بارے میں کہتی ہیں کہ پاکستان میں دراصل جنسی ہراسمنٹ کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ ’جب آپ خود کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو لوگ انتہا پر پہنچ کر سوچتے ہیں کہ آپ کے ساتھ جسمانی طور چھیڑ چھاڑ یا زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے‘۔

    شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستانی خواتین کی اکثریت نے اس معاملے میں اپنی آواز اٹھانے سے گریز کیا۔ بقول عافیہ سلام کے، جب انہوں نے ’می ٹو‘ کا ہیش ٹیگ استعمال کیا تو ان کی اپنی بیٹی نے پریشان ہو کر ان سے پوچھا، ’یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ کیا واقعی آپ کے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہے‘۔

    تب عافیہ نے ہراسمنٹ کی صحیح لفظوں میں تعریف بیان کرتے ہوئے کہا کہ جنسی ہراساں کرنے کا مطلب جنسی زیادتی نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’جنسی ہراسمنٹ اور جنسی حملہ دو الگ چیزیں ہیں، جنسی حملہ کرنا تشدد کے زمرے میں آتا ہے جبکہ جنسی طور پر ہراساں ہونا ایک عام بات ہے اور بدقسمتی سے شاید ہی کوئی پاکستانی عورت اس ہراسمنٹ سے محفوظ رہی ہو‘۔

    مزید پڑھیں: جنسی حملوں سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

    عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ ہر وہ شے جو آپ کو عدم تحفظ کا احساس دے، ہراسمنٹ ہے۔ ’اب یہ ہراسمنٹ خواتین کی طرف سے خواتین کے لیے، اور مردوں کی طرف سے مردوں کے لیے بھی ہوسکتی ہے، لیکن جب جنس مخالف کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ جنسی ہراسمنٹ کہلاتی ہے‘۔

    انہوں نے اپنے تجربات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ عمر کے اس حصے میں جب زندگی اپنی تمام تر آسائشوں سے بھرپور سے ہے، ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ ’نوجوانی میں کالج، یونیورسٹی کے لیے بسوں میں لٹک کر بھی سفر کیا ہے، بس اسٹاپ پر کھڑے ہو کر بسوں کا انتظار بھی کیا ہے، اس وقت اندازہ ہوتا تھا کہ عورت ہونا کتنا مشکل ہے‘۔

    باہر نکلنے والی خواتین کو گھورے جانا بھی نہایت پریشان کرتا ہے۔ اس بارے میں عافیہ کا کہنا تھا، ’خواتین کو گھورنے کے لیے تو شکل و صورت، اور عمر کی کوئی قید نہیں۔ پاکستان میں شعوری یا لا شعوری طور پر خواتین کو گھورے جانا بدقسمتی سے ایک نہایت عام بات بن چکی ہے، لیکن جو اس گھورنے کی ہراسمنٹ کا شکار ہورہی ہوتی ہیں کوئی ان سے جا کر پوچھے، ایسے وقت میں دل چاہتا ہے کہ انسان کہیں کسی کمرے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور کبھی باہر نہ نکلے‘۔

    خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے

    صوبہ پنجاب، اقوام متحدہ برائے خواتین (یو این ویمن) کے تعاون سے مختلف شہروں کے عوامی مقامات کو خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں چند روز قبل پنجاب حکومت اور یو این وومین کا ایک ایونٹ منعقد ہوا جس میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوشوں کے بارے میں حاضرین کو آگاہ کیا گیا۔

    تقریب کے دوران پنجاب کمیشن آن دا اسٹیٹس آف وومین کی چیئرمین فوزیہ وقار نے بتایا، ’ایک بار ایک نو عمر لڑکا مجھے گھور رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تم آخر دیکھ کیا رہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا، کچھ خاص نہیں، بس خواتین کو گھورنا ہماری عادت ہے‘۔

    گویا یہ کام نا چاہتے ہوئے لاشعوری طور پر سرزد ہوتا ہے جو خواتین کا باہر نکلنا عذاب بنا دیتا ہے۔

    حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی جہاں خواتین کے بغیر برقعہ اور نقاب کے باہر نکلنے پر پابندی ہے، وہاں بھی لوگ برقع میں ملبوس خواتین کو گھورنے سے باز نہیں آتے۔ کسی انگریز نے اس صورتحال کا مشاہدہ کیا تو اسے بی ایم او ۔ بلیک موونگ آبجیکٹ کا نام دے ڈالا۔

    مرد کا ساتھ ہونا ضروری

    عافیہ سلام نے کہا کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی بعض اوقات آپ کو باہر نکلنے کے لیے کسی مرد کا ساتھ چاہیئے ہوتا ہے چاہے وہ آپ کا 10 سالہ بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

    انہوں نے کہا، ’اکثر لڑکیاں فلم دیکھنے کے لیے جاتے ہوئے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ وہ اس سیٹ پر بیٹھے جس کے دوسری طرف کوئی مرد موجود ہو۔ راشن لینے جارہے ہیں تو دکان داروں کی غیر ضروری چھیڑ چھاڑ اور گفتگو سے بچنے کے لیے بھی کسی مرد کا ساتھ ضروری ہے‘۔

    ان کے مطابق وہ تمام حالات جو آپ کو مردوں کی موجودگی میں غیر آرام دہ، غیر محفوظ اور ذہنی طور پر پریشان کرے، ہراسمنٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ ’چاہے وہ خاتون کی موجودگی میں مردوں کی آپس میں معنی خیز گفتگو ہو، خاتون سے براہ راست ذو معنی گفتگو ہو، بلا سبب دیکھنا ہو یا بغیر کسی ضرورت کے بات کرنا ہو۔ یہ ہراسمنٹ کا ابتدائی مرحلہ ہے‘۔

    دیگر مرحلوں میں دفاتر میں خواتین کے کاموں میں بلا وجہ مین میخ نکالنا، کسی ذمہ داری کے لیے مردوں کو صرف اس لیے ترجیح دینا کہ ’خواتین کیا کرسکتی ہیں‘، میٹنگز میں خواتین کی بات نہ سننا، اور اس کے بعد براہ راست خاتون کی ذات کو نشانہ بنانا، برا بھلا کہنا، خواتین کو کمتر محسوس کروانا آجاتے ہیں۔

    مزید دیگر مرحلوں میں خواتین ملازمین کا استحصال کرنا، ان کی سہولیات جیسے تنخواہ، تعطیلات وغیرہ میں خلل ڈالنا، انہیں جان بوجھ کر دیر تک دفتر میں بٹھائے رکھنا شامل ہے۔

    عافیہ کا کہنا تھا کہ پہلے کے زمانے اور تھے، پہلے جب دو دوست یا دو بھائی آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کا انداز گفتگو اور الفاظ الگ ہوتے ہیں، لیکن اسی وقت ان کے بیچ کوئی خاتون یا ان کی بہن آجاتی تو ان کا انداز گفتگو بالکل مختلف اور تمیز دار ہوجاتا تھا، ’مگر اب یہ صورتحال خال ہی نظر آتی ہے‘۔

    عافیہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب نئی نسل میں لڑکا اور لڑکی میں کوئی تخصیص ہی نہیں رہی، اکثر لڑکیاں بھی اپنے مرد دوستوں یا کولیگز کے ساتھ نامناسب انداز گفتگو اور گالیوں سے بھرپور خراب زبان میں گفتگو کرتی ہیں اور پھر آگے چل کر یہی عادت جنسی ہراسمنٹ کے زمرے میں جا پہنچتی ہے۔

     مرد بھی ہراسمنٹ کا شکار

    عافیہ کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ کی یہ صورتحال صرف خواتین یا لڑکیوں کے ساتھ ہی پیش نہیں آتی بلکہ کم عمر لڑکے بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ ’اپنے ملازمین، بڑے کزنز، استادوں کی طرف سے لڑکوں کو ہراس کیا جانا بھی عام بات ہے جو ان پر منفی ذہنی اثرات مرتب کرتا ہے جو تاعمر ان کے ساتھ رہتے ہیں‘۔

    ان کے مطابق ’خواتین تو پھر اس معاملے میں کسی سے مدد لے سکتی ہیں، لڑکے بیچارے تو شرمندگی کے مارے کسی کو بتا ہی نہیں سکتے۔ وہ ساری عمر نہیں بتا پاتے کہ ان کے ساتھ بچپن میں ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے‘۔

    ڈاکٹر آزادی فتح ۔ استاد

    یونیورسٹی میں باشعور طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہوئے ایک خاتون استاد کو کس قسم کی ہراسمنٹ کا سامنا ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر آزادی فتح کہتی ہیں کہ اپنے کولیگز کی طرف سے بہت کم ایسی شکایات ہوتی ہیں، تاہم نوجوان طلبا کی جانب سے بے حد ہراسمنٹ کا سامنا ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر آزادی جامعہ کراچی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں بطور لیکچرر اپنی ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔

    ان کے مطابق طالب علموں کی جانب سے بعض اوقات جملے کسے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت زیادہ پیش آتی ہے جب کوئی طالبہ حال ہی میں اپنی تعلیم مکمل کر کے اسی یونیورسٹی میں بطور معلمہ اپنے فرائض انجام دینے لگتی ہے۔ اب اسے ان لڑکوں کو پڑھانا ہے جو صرف ایک سال قبل تک اس کے کلاس فیلوز یا جونیئرز تھے، تو ایسی صورت میں وہ اپنے ساتھ ہونے والی ہراسمنٹ کو درگزر کرنا ہی بہتر سمجھتی ہے۔

    ڈاکٹر آزادی نے بتایا کہ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے سبب اب استاد اور طالب علم کا تعلق صرف درسگاہ تک محدود نہیں رہا، ’اب سوشل میڈیا پر آپ کے طلبا بھی آپ کے دوست ہیں جو آپ کی تصاویر پر کمنٹس کرتے ہیں اور بعد ازاں اسے کلاس میں بھی بتاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ طالب علم میسجز کر کے پرسنل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز استاد اور مذکورہ شاگرد کے درمیان ایک لکیر کھینچ دیتی ہے اور اب وہ معلمہ اس شاگرد کے ساتھ خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدم تحفظ کا یہ احساس آپ کو خواتین کولیگز کی جانب سے بھی ہوتا ہے جب وہ دیکھتی ہیں کہ آپ پراعتماد ہیں، اور مرد و خواتین کولیگز سے ایک ہی لہجے میں بات کر رہی ہیں، ایسے میں دیگر کولیگز کا کہنا ہوتا ہے، ’کیا بات ہے بہت ہنس ہنس کر باتیں ہورہی ہیں‘۔

    ڈاکٹر آزادی کے مطابق یہ رویہ آپ کو ذہنی طور پر بے سکون کردیتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتے۔

    ڈاکٹر سارہ خرم ۔ ڈاکٹر

    اس بارے میں جب ہم نے طب کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر سارہ خرم سے بات کی انہوں نے طب کے شعبے میں موجود کئی اخلاقی اصول و قوانین کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ جب ایک مریض ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتا ہے تو وہ اس کو اپنی تمام تفصیلات دے دیتا ہے۔

    ان کے مطابق ’ایسے کئی کیسز ہوچکے ہیں جب میڈیکل پروفیشنلز نے ان معلومات کا غلط استعمال کیا۔ یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں آتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا ہے کہ جب مریض اپنی بیماری و دیگر تمام تفصیلات اپنے طبی ماہر کو بتاتا ہے کہ تو وہ معلومات اس کے پاس امانت ہوتی ہیں۔ مریض اپنے ڈاکٹر کو ان تمام محسوسات و کیفیات سے آگاہ کردیتا ہے جو وہ عموماً کسی سے نہیں کہتا۔ ’اب ڈاکٹر کو مریض کے نجی معاملات پر اخلاقی دسترس حاصل ہوجاتی ہے اور اخلاقیات کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان معلومات کو اپنے پاس راز ہی رکھے‘۔

    اسی طرح انہوں نے کہا کہ جب کوئی خاتون کسی مرد ڈاکٹر یا مرد کسی خاتون ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے آتے ہیں تو ڈاکٹر کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں صرف ڈاکٹر ہی بن کر چیک کرے، مرد یا عورت بن کر نہیں۔ یہ اصول اس وقت بے حد ضروری ہے جب آپ مریض کے جسم کو چیک کر رہے ہیں۔

    بینش گل ۔ ایئر ہوسٹس

    اس حوالے سے جب ایک فضائی میزبان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی ایئرلائن کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہیں ذاتی طور پر جنسی ہراسمنٹ کا تجربہ ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق ایک معاملے کے سلسلے میں انہیں کسی غلطی کا ذمہ دار ٹہرایا گیا تو ان سے اچھوتوں کی طرح برتاؤ کیا جانے لگا۔ دفتر میں کئی مقامات پر ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی جبکہ معاملہ اتنا بڑا بھی نہیں تھا۔

    بینش نے بتایا کہ اس شعبے میں آنے والی بعض خواتین ضروت مند بھی ہوتی ہیں جو بحالت مجبوری کام کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے خواتین عملے کو زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے ان کے ساتھ مرد عملے کی جانب سے بدسلوکی، اور بدزبانی عام ہے۔

    زینب مواز ۔ مصورہ

    زینب مواز ایک مصورہ ہیں اور مختلف اداروں سے آرٹ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کے مشہور آرٹ کالج میں تدریسی فرائض بھی انجام دیے۔

    اپنے تجربات کے بارے میں وہ بتاتی ہیں کہ اس پیشے میں طاقت کا استعمال عام ہے۔ ’بطور ٹیچر مجھ پر دباؤ ڈالا جاتا تھا کہ با اثر افراد کے بچوں کو امتحانات میں پاس کروں۔ اس طرح سے ان طلبا کا حق مارا جاتا تھا جو واقعی قابل ہوتے تھے‘۔

    زینب کہتی ہیں کہ ہمارے پاس زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین کو ہراسمنٹ کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ وہ ہراسمنٹ سینئرز، جونیئرز اور کولیگز کسی کی بھی جانب سے ہوسکتی ہے۔


    مذکورہ بالا تمام خواتین کی متفقہ رائے تھی کہ ہراسمنٹ اب ایسا موضوع نہیں رہا جس سے آنکھیں چرا لی جائیں۔ اس موضوع پر بات کرنے اور اس سے تحفظ کے بارے میں سوچنے کی ازحد ضرورت ہے۔

  • زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    زندگی کو بدلنے کا عزم مبارک گوٹھ کے اس رہائشی سے سیکھیں

    آپ نے علامہ اقبال کا وہ شعر تو ضرور سنا ہوگا

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

    یہ نظریہ قوم و ملت سے لے کر انفرادی طور پر ہر شخص پر لاگو ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہیں اور اسے بدلنا چاہتے ہیں تو رونے دھونے اور شکوے شکایات کرنے کے بجائے اسے بدلنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

    آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک باعزم شخص سے ملوانے جارہے ہیں جس نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا اور خدا نے اس کا ساتھ دیا۔

    مبارک گوٹھ جسے عموماً مبارک ویلج کہا جاتا ہے، کراچی کے باسیوں کے لیے پسندیدہ ترین تفریح گاہ ہے، لیکن شاید بہت کم لوگ یہاں آباد ان کچی بستیوں سے واقف ہیں جو آج کے جدید دور میں بھی سترہویں صدی کے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    کچے پکے، ٹوٹے پھوٹے مکانات بلکہ زیادہ تر جھونپڑیوں میں رہائش پذیر یہ لوگ پاکستان کے ہر اس گاؤں کی طرح جدید دنیا کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں جو گزشتہ 70 سال سے گاؤں ہی رہے اور کسی حکومت نے انہیں جدید دور کی سہولیات تو دور، بنیادی انسانی ضروریات تک فراہم کرنے کی زحمت نہ کی۔

    یہ گاؤں ابھی تک فلاحی تنظیموں اور مخیر حضرات کی نگاہوں سے بھی اوجھل ہے لہٰذا یہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نہیں نظر آئی۔

    یہیں ہماری ملاقات حاتم سے ہوئی۔ پیشہ وارانہ امور کے سلسلے میں مبارک گوٹھ جانے پر یہی شخص ہمارا میزبان تھا اور گاڑی سے اترتے ہی سب سے پہلی شے جو ہمارا مرکز نگاہ بنی، وہ ایک جھونپڑی پر لگا ہوا شمسی توانائی سے بجلی بنانے والا سولر پینل تھا۔

    ایک ایسا گاؤں جہاں بجلی و باتھ روم کی بنیادی سہولت تک میسر نہ تھی، اور نہ وہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم سرگرم عمل نظر آتی تھی، وہاں بھلا سولر پینل کیسے آسکتا تھا، اور تب ہی حاتم کے بارے میں علم ہوا کہ بظاہر بدحال سا دکھنے والا یہ شخص اپنی قسمت پر رو دھو کر صابر ہوجانے والا نہیں، بلکہ اس میں آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہے۔

    دریافت کرنے پر وہی پرانی سی کہانی سننے کو ملی، کہ جہاں سورج ڈھلا وہیں گاؤں میں اندھیرے اور خوف کے بادل چھا جاتے تھے۔ گاؤں والے مٹی کے تیل سے جلنے والی لالٹینوں سے ضروری کام نمٹا لیا کرتے تھے۔ گویا یہاں دن سورج ڈھلنے تک کا تھا۔ سورج ڈھلنے کے بعد یہاں صرف اندھیرا تھا، ناامیدی تھی اور شاید کہیں کسی دل میں اپنے دن بدلنے کی خوش فہمی کی مدھم سے ٹمٹماتی لو۔۔

    لیکن حاتم نے اس خوش فہمی کو پہلے امید اور پھر حقیقت میں بدل دیا۔ ایک دفعہ کسی کام سے جب وہ شہر (کراچی) آیا تو اسے ان سولر پینلز کے بارے میں پتہ چلا جو دن بھر سورج سے بجلی بناتے ہیں، اور شام میں ان میں نصب بیٹریاں سورج کی روشنی کو بکھیر کر دن کا سا اجالا پھیلا دیتی ہیں۔

    حاتم نے سوچا کہ اگر اس کے گاؤں میں بھی یہ سہولت آن موجود ہو تو ان لوگوں کی زندگی کس قدر آسان ہوجائے۔ لیکن سرمایے کی کمی اس کی راہ کی رکاوٹ تھی۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اس نے مکمل معلومات حاصل کیں تو ایک چھوٹا سا سولر پینل اسے 8 ہزار روپے میں پڑ رہا تھا جو صرف گاؤں کے کسی ایک گھر کو روشن کرسکتا تھا۔ مزید برآں اس میں کسی خرابی کی صورت میں نہ صرف شہر سے کسی ماہر کو بلوانا پڑتا بلکہ اس پر خرچ کی جانے والی رقم الگ ہوتی۔

    لیکن حاتم اس عزم کے ساتھ واپس لوٹا کہ وہ بجلی کی اس نعمت کو ضرور اپنے گھر لائے گا۔

    اس کے بعد اس نے اپنی محنت مزدوری کے کام میں اضافہ کردیا اور اضافی حاصل ہونے والی آمدنی کو جمع کرنے لگا۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں رہتے ہوئے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہوئے کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ 8 ہزار روپے کا حصول کسی کی زندگی کا مقصد بھی ہوسکتا ہے؟ اتنی رقم تو شاید شہر کراچی کے لوگ ایک وقت کے کھانے یا شاپنگ پر خرچ کردیا کرتے ہیں۔

    بہرحال حاتم کے پاس رقم جمع ہونے لگی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ 8 ہزار روپے جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن اس سے قبل وہ ایک اور کام چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس سولر پینل کی تنصیب کے بعد اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو تو اسے کسی کا محتاج نہ ہونا پڑا، اور وہ خود ہی اسے درست کر سکے۔

    سولر پینل کے سسٹم کو سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اسے کراچی آنے اور مزید کچھ رقم کی ضرورت تھی اور وہ جلد ہی وہ بھی حاتم نے حاصل کرلی۔

    پھر ایک دن وہ بھی آیا جب وہ شہر سے واپس آیا تو اس کے ساتھ یہ سولر پینل اور ایک شخص تھا جو ایک جھونپڑی پر اس کی تنصیب کر کے چلا گیا۔

    اتنی محنت اور مشقت سے حاصل کیا جانے والا یہ سولر پینل حاتم نے اپنی جھونپڑی پر نصب نہیں کروایا، بلکہ جس جھونپڑی پر یہ سولر پینل نصب کیا گیا ہے اسے اس گاؤں کے اوطاق کی حیثیت دے دی گئی ہے۔

    سولر پینل لگنے کے بعد اب اس اوطاق میں سر شام خواتین کی محفل جمتی ہے، جبکہ رات میں مرد اکٹھے ہو کر ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ بیان کرتے ہیں۔ سولر پینل سے آراستہ یہ جھونپڑی اندر سے نہایت خوبصورت ہے اور اس میں جا بجا روایتی کڑھائی سے مزین فن پارے اور طغرے آویزاں ہیں جو خواتین کی اس جھونپڑی سے محبت کا ثبوت ہیں۔

    ذرا سے فاصلے پر واقع چند گھروں پر مشتمل مختلف گاؤں دیہاتوں میں اس جھونپڑی کے علاوہ ایک اور جھونپڑی بھی ایسی ہے جس پر سولر پینل نصب ہے۔

    یہ گھر بھی تقریباً اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس میں باقاعدہ کسی کی رہائش نہیں ہے۔

    حاتم چاہتا ہے کہ اس کے گاؤں کو بجلی سے روشن کرنے کے لیے نہ صرف حکومت بلکہ مخیر حضرات بھی آگے آئیں تاکہ ان کا دن بھی روشنی کی وجہ سے دن اور رات پر مشتمل ہوسکے، بغیر بجلی کے سورج کی روشنی اور صرف رات کے گھپ اندھیرے اور مایوسی تک نہ محدود رہے۔

  • زہریلی لسّی پینے سے13افراد کی ہلاکت کا معمہ حل، دلہن سمیت3گرفتار

    زہریلی لسّی پینے سے13افراد کی ہلاکت کا معمہ حل، دلہن سمیت3گرفتار

    علی پور : زہریلا مشروب پینے سے تیرہ افراد کی ہلاکت کا معمہ حل کرلیا گیا، لسی میں چوہے مار زہر ملایا گیا تھا، پولیس نے نئی نویلی بہو سمیت تین افراد کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق مظٖفر گڑھ کے علاقے علی پور میں زہریلی لسی پینے سے ہلاکتوں کا معاملہ پولیس نے حل کرلیا، واقعے کی تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ لسی میں چوہے مار زہر ملایا گیا تھا۔

    نئی نویلی دلہن آسیہ نے زبردستی شادی کا انتقام لینے کیلئے دودھ میں زہر ڈالا، آسیہ بی بی نے اپنے چچا زاد شاہد اور اس کی ممانی کے ذریعے دودھ میں زہرملایا تھا، بعد ازاں امجد کی والدہ نے لاعلمی میں اسی دودھ میں مزید دودھ شامل کرکے لسی بنائی تھی۔

    اس حوالے سے آرپی او ڈی جی خان سہیل تاجک نے میڈیا کو بتایا کہ بستی والوٹ کے رہائشی اکرم کے بیٹے امجد کی شادی ایک ماہ قبل آسیہ سے ہوئی تھی، شادی زبردستی کرائی گئی تھی جس کا انتقام آسیہ نے لیا۔

    دلہن آسیہ بی بی اپنےچچازاد شاہد سے شادی کرنا چاہتی تھی، جس میں ناکامی پر اس نے انتقاماً یہ کارروائی کی، اس کارروائی میں اس کے ساتھ شاہد اوراس کی ممانی بھی شامل تھی۔


    مزید پڑھیں: فیصل آباد میں زہریلا دودھ پینے سے سو افراد کی حالت غیر


    تھانہ کنڈائی پولیس نے دہشت گردی، قتل ودیگردفعات کےتحت مقدمہ درج کرکے آسیہ بی بی شاہد اوراس کی ممانی زرینہ مائی کو گرفتارکر کے مقدمہ درج کرلیا۔

  • فاروق ستار کا شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطہ

    فاروق ستار کا شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطہ

    کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی پر مشاورت سمیت ملک کی سیاسی صورتحال اور انتخابی اصلاحات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے لیے ایک صفحہ پر آگئے۔

    متحدہ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔

    دونوں رہنماؤں کے درمیان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے حوالے سے مشاورت، ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور انتخابی اصلاحات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

    ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی زیر قیادت وفد جلد ہی ایم کیو ایم کے مرکز کا دورہ کرے گا جس میں نئے اپوزیشن لیڈر کے نام پر غور کیا جائے گا۔

    ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار کا بطور اپوزیشن لیڈر پلڑا بھاری ہو نے کا قوی امکان ہے۔