Category: پاکستان

پاکستان اردو نیوز

ملک پاکستان میں اے آر وائی نیوز کی جانب سے آنے والی تازہ ترین خبریں

Pakistan Urdu News- Daily Pak Urdu News

  • نیند کی کمی دفتر میں لڑائی جھگڑے کا باعث

    نیند کی کمی دفتر میں لڑائی جھگڑے کا باعث

    ایمسٹر ڈیم: ہالینڈ کی ایراسمس یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دفاتر میں لڑائی اور خراب رویہ رکھنے والے لوگوں کی نیند پوری نہیں ہوتی۔

    ہالینڈ کی ایراسمس یونیورسٹی کے راٹرڈیم اسکول آف مینیجمنٹ کے ماہرین کے مطابق ایک رات کی ادھوری نیند دفتر میں لڑائی اور خراب رویے کا سبب بن سکتی ہے۔

    پڑھیں: ’’ پرسکون نیند کے لیے 5 غذائیں ‘‘

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی کی وجہ سے قوت ارادی کم ہوجاتی ہے اور صبر کا پیمانہ جلد لبریز ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے دفاتر میں کام کرنے والے لوگ ساتھیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ’’ نیند سے اٹھنے کے فوراً بعد انجام دی جانے والی ضروری عادت ‘‘

    تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ادھوری نیند والے افراد اپنے دفتری کاموں کو توجہ سے نہیں کرپاتے اس کی وجہ سے انہیں ناکامی کا خوف ہوتا ہے اور اُن پر مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔اسی باعث کم نیند والے افراد کو دفاتر میں ناکامی کا خوف رہتا ہے۔

  • لوڈشیڈنگ 2018 میں بھی ختم نہیں ہوگی، حکومت کا اعتراف

    لوڈشیڈنگ 2018 میں بھی ختم نہیں ہوگی، حکومت کا اعتراف

    کراچی : وزارت پانی و بجلی نے اعتراف کیا ہے کہ سال 2018ء تک بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔

    تفصیلات کے مطابق موسم گرما کے آغاز پر ملک کے مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے تک جا پہنچا، بجلی کی طویل بندش سے شہری بلبلا اُٹھے۔

    لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے حکومتی دعوے دھرے رہ گئے، بجلی کی طلب 17 ہزار 5 سو میگا واٹ ہے، پیدوار صرف 11  ہزار میگا واٹ ہے، حکومتی اعلانات کے برعکس اگلے سال بھی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوسکے گی۔

    وزارت پانی و بجلی نے بھی لوڈشیڈنگ پر قابو نہ پانے کا اعتراف کرلیا، ملک میں بجلی کے ساڑھے 5 ہزارمیگا واٹ شارٹ فال کے آگے حکومت بے بس نظر آتی ہے،

    ہائیڈل ذرائع سےصرف 1400 سو میگا واٹ بجلی مل رہی ہے۔ آئی پی پیز بھی واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث صرف 7 ہزار8  سو میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔

    علاوہ ازیں زیر گردش قرضوں کا حجم 414 ارب روپے ہونے پر یہ مسئلہ بھی شدت اختیار کرگیا ہے، حکومت نے پاور سیکڑ کو 50 ارب روپے فراہم کر دیئے ہیں۔

  • سندھ بھر میں‌ چھاپے،1300 تارکین وطن گرفتار

    سندھ بھر میں‌ چھاپے،1300 تارکین وطن گرفتار

    کراچی : سندھ بھر میں تارکین وطن کے خلاف چھاپے جاری ہے، 1301 تارکین وطن کو گرفتار کرکے 905 افراد کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے، عارضی ایکٹ کی خلاف ورزی پر 550 افراد کو گرفتار جبکہ 316 افراد پر مقدمات درج کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان سندھ پولیس کا کہنا ہے کہ تارکین وطن اورعارضی سکونت ایکٹ سے متعلق آئی جی سندھ کو رپورٹ پیش کردی گئی، رپورٹ میں یکم جنوری 2017 سے 10 مارچ تک کی گئی کارروائی کی تمام تفصیلات موجود ہیں۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال دو مہینے 10 دن میں عارضی سکونت ایکٹ کے تحت 221 مقدمات 423 گرفتاریاں کی گئیں۔ 384 مقدمات کے تحت 575  تارکین وطن کو گرفتار کیا گیا۔

    حیدر آباد میں کی جانے والی کارروائی میں 86 مقدمات کے تحت 236 تارکین وطن گرفتار کیے گئے عارضی سکونت ایکٹ کے 36 مقدمات میں 101 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

    علاوہ ازیں میرپور خاص میں 13 مقدمات کے تحت 13 تارکین وطن گرفتار ہوئے اور عارضی سکونت ایکٹ کے 12 مقدمات میں 13 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ شہید بے نظیرآباد میں 242 مقدمات کے تحت 253 تارکین وطن گرفتار ہوئے اور عارضی سکونت ایکٹ کے 42 مقدمات میں 4افراد کو گرفتار کیا گیا۔

    سکھر میں 156 مقدمات کے تحت 181 تارکین وطن کو گرفتار جبکہ عارضی سکونت ایکٹ کے تحت 5  مقدمات میں 9 افراد کو گرفتارکیا گیا۔ پولیس ترجمان کے مطابق رپورٹ میں لاڑکانہ میں ہونے والی کارروائی میں 24 مقدمات کے تحت 43 تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا۔

  • ملک کےمختلف شہروں میں کومبنگ آپریشن‘113افراد گرفتار

    ملک کےمختلف شہروں میں کومبنگ آپریشن‘113افراد گرفتار

    اسلام آباد: ملک کےمختلف شہروں میں سیکیورٹی فورسز نےکومبنگ آپریشن کےدوران 3دہشت گرد ہلاک جبکہ 113افرادکوگرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کےمطابق ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہرکےبعد سیکیورٹی اداروں نے مختلف شہروں میں کومبنگ آپریشن کے دوران 113افراد کو حراست میں لیا ہے۔

    خیبرپختونخواہ کے شہر ڈی آئی خان کے علاقے کلاچی مڈی روڈ پر سیکیورٹی فورسز نےکارروائی کے دوران 3دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔سیکورٹی حکام کےمطابق ہلاک دہشتگرد متعدد وارداتوں میں مطلوب تھے۔

    دوسری جانب کراچی میں بھی رات گئے پولیس نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران 37 ملزمان کو گرفتار کرلیا،آپریشن کے دوران فائرنگ سے 1اہلکار زخمی ہوا۔

    مزید پڑھیں:ملک بھرمیں دہشت گردوں کیخلاف گھیرا تنگ، 40 ہلاک

    ادھرراولپنڈی ،ٹیکسلا اور پتوکی میں رات گئےقانون نافذکرنےوالےاداروں نےسرچ آپریشن کے دوران 33ملزمان کوگرفتار کرلیا۔ایبٹ آباد میں سبزی منڈی کےقریب سےتین غیرملکیو ں سمیت تیرہ افراد کو گرفتار کر کے اسلحہ برآمد کیاگیا۔

    مزید پڑھیں:سیکورٹی فورسز کی مختلف شہروں میں کارروائیاں‘29دہشت گرد ہلاک

    واضح رہےکہ گزشتہ روزملک کےمختلف شہروں میں قانون نافذ کرنےوالےاداروں نےکارروائیوں کےدوران 29افراد مارے تھے۔

  • گھوڑا تحفے میں نہیں دیا، مریم اورنگزیب، پاک فضائیہ کی بھی تردید

    گھوڑا تحفے میں نہیں دیا، مریم اورنگزیب، پاک فضائیہ کی بھی تردید

    اسلام آباد : وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ میر قطر کو گھوڑا تحفے میں نہیں دیا گیا، کچھ ماہ پہلے امیر قطر کو دورہ پاکستان پر گھوڑا تحفے میں دیا جانا تھا جو نہیں دیا گیا.

    تفصیلات کے مطابق قطری شاہی خاندان کو حکومت پاکستان کی جانب سے نایاب نسل کے گھوڑے کا تحفہ گیا یا نہیں، زیر گردش مبینہ خط کی میڈیا میں بازگشت سنائی دی، گھوڑا بھجوانے کے لئے مبینہ قطری حکومت کو لکھا گیا خط منظر عام پر آیا، جس میں گھوڑا بھیجنے کے لیے خصوصی طیارہ طلب کیا گیا تھا۔

    خط میں سی ون تھرٹی کی کلیئرنس مانگی گئی تھی۔ بعد ازاں پاک فضائیہ نے اپنے طیارے کے استعمال کی تردید کردی۔ اس سے قبل امیر قطر کو نایاب نسل کا گھوڑا تحفہ میں دینے کا فیصلہ ہوا تھا، جس کا سرکاری ٹی وی نے بھی اعتراف کیا، امیر قطر کو گھوڑا بھیجنے کے لیے طیارہ طلب کرنے کے مبینہ خط کی حکومت نے سختی سے تردید کردی ہے۔

    مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ قبل امیر قطر کے دورہ پاکستان کے موقع پر خصوصی گھوڑا تحفے میں دیا جانا تھا، تاہم ان کے دورہ نہ کرنے کی وجہ سے یہ تحفہ نہیں دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: وزیراعظم کا قطری خاندان کیلیے خصوصی گھوڑے کا تحفہ

    دوسری جانب پاک فضائیہ نےسی ون تھرٹی سے گھوڑا ایئرلفٹ کرنے کی اطلاعات مسترد کردیں ہیں، پاک فضائیہ ترجمان نے واضح کیا ہے کہ سی ون تھرٹی کے ذریعے قطر گھوڑا بھیجنے سے متعلق اطلاعات بے بنیاد ہیں، پاک فضائیہ اس حوالے سےخبر کو مسترد کرتی ہے۔

  • وزیراعظم کا قطری خاندان کیلیے خصوصی گھوڑے کا تحفہ

    وزیراعظم کا قطری خاندان کیلیے خصوصی گھوڑے کا تحفہ

    اسلام آباد: قطری شہزادوں پر حکومت پاکستان کی کرم فرمائیاں ختم ہو کر ہی نہیں دے رہیں، قطر کے شاہی خاندان کو تحفے میں خصوصی گھوڑا بھجوا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے قطر کے شاہی خاندان کو تحفے میں خصوصی گھوڑا بھجوا دیا، گھوڑا بھجوانے کے لئے سی ون تھرٹی کا استعمال کیا جائے گا۔

    گھوڑا بھجوانے کے لئے قطر ی حکومت کو لکھاگیا خط منظر عام پر آگیا، خط میں سی ون تھرٹی کی کلیئرنس مانگی گئی تھی۔

    letter-final

    پی ٹی آئی رہنما عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ یہ تحفہ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ قومی خرچے پر بھجوایا گیا ہے۔

    اپوزیشن رہنما شیخ رشید نے کہا کہ بہت سے رہنما ایسے تحفے جہاز کا کرایہ نہ ہونے کے باعث میزبان ملک میں ہی چھوڑ دیتے ہیں، سیاست دانوں کا مزید کہنا ہے کہ پانامہ کیس میں قطری خاندان کی اہمیت کے پیش نظر اس موقع پر ایسا اقدام معنی خیز ہو سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل حکومت پاکستان کی جانب سے قطری شہزادوں کو تلور کے شکار کیلئے بھی خصوصی اجازت نامے جاری کیے گئے تھے۔

  • ملک سے سودی نظام کا خاتمہ، 13 فروری سے روز سماعت ہوگی، عدالت

    ملک سے سودی نظام کا خاتمہ، 13 فروری سے روز سماعت ہوگی، عدالت

    اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت میں ملک سے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق  مقدمات کی سماعت ہوئی، جج نے آئندہ سماعت سے ان مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کے احکامات جاری کیے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت میں ملک سے سودی نظام کے خاتمے سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس ریاض احمد کی سربراہی میں  جسٹس ڈاکٹرفدامحمد خان،جسٹس نجم الحسن اور جسٹس ظہور احمدشیروانی پر مشتمل عدالت کے چار رکنی لارجر بینچ نے مقدمات کی سماعت کی۔

    وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام خاتمے کے مقدمات کی سماعت 13 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے احکامات جاری کیے کہ آئندہ سے ان مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی اور کسی صورت کیس ملتوی نہیں کیا جائے گا۔

    اٹارنی جنرل نے بھی سماعت مکمل کرنے کیلئے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کراوائی جبکہ کیس کی سماعت  کے  دوران فریقین نے  باہمی مشاورت سے  عدالت کو آگاہ کیا کہ آئندہ سماعت سے جماعت اسلامی کے وکیل دلائل کاآغاز کرینگے۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، جماعت اسلامی کے وکلا قیصر امام، سیف اللہ گوندل،توصیف عباسی، شیر حامد خان اور دیگر فریقین عدالت میں پیش ہوئے۔جماعت اسلامی کے وکیل قیصر امام نے عدالت کو بتایا کہ جماعت اسلامی کے وکلاء ایک ٹیم کی اس مقدمہ  کے تمام پہلوؤں پر عدالت کی معاونت کرے گی۔

    ان کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس مقدمہ کو شرعی عدالت میں ریمانڈ کرنے اور اس ضمن میں اٹھائے گئے تمام سوالات کے جوابات کے حوالے سے بھی معاونت کی جائے گی۔

    اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت خود چاہتی ہے کہ از کیس کا فیصلہ جلد ہو کیونکہ یہ مقدمہ ملک کے عوام کے معاشی مسائل سے متعلق ہے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 13فروری تک ملتوی کردی۔

  • کراچی کے 13 مقامات مجرموں کی آماجگاہ بن گئے

    کراچی کے 13 مقامات مجرموں کی آماجگاہ بن گئے

    کراچی : شہر قائد میں کئی مقامات اسٹریٹ کرائم کا گڑھ بن چکے ہیں، سی پی ایل سی نے 13 مقامات پر زیادہ وارداتوں کی نشاندہی کردی، پولیس پھر بھی شہریوں کے تحفظ میں ناکام ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ سڑکوں کی حالت بہتر نہ ہونے تک جرائم پر قابو پانا مشکل ہے۔ 

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے جرائم ہپیشہ افراد کے لیےرات کا اندھیرا ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اورٹریفک جام معاون ومددگار بنے ہوئے ہیں۔ سی پی ایل سی کی رپورٹ میں کراچی کے 13 مقامات کو جرائم ہپیشہ افراد کی آماج گاہ بتایا گیا ہے۔

    رپورٹ میں جن علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں زیادہ تر علاقے ایسٹ زون میں آتے ہیں، الہ دین پارک، نیپا چورنگی، گلشن چورنگی، میلینئم مال، طارق روڈ ، خالد بن ولید روڈ، شارع فیصل بلوچ کالونی، یونیورسٹی روڈ، نورانی کباب چورنگی، محمود آباد، عیسیٰ نگری، پی آئی بی کالونی، قائد آباد اور لانڈھی کورنگی کے بیشتر علاقے شامل ہیں۔

    ان علاقوں میں لوگ روزانہ ان رہزنوں کے ہاتھوں نقدی اورموبائل فون اوردیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہو رہے ہیں، دن دیہاڑے وارداتوں کے باعث لوگوں میں خوف وہراس پھیل رہا ہے۔

    کراچی میں گزشتہ سال 33 ہزار سے زائد موبائل فون چھیننے کی وارداتیں ہوئی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جرائم کی بڑی وجہ سڑکوں کی زبوں حالی ہے، جس کی وجہ سے ملزمان بآسانی فرار ہوجاتے ہیں۔

    سی پی ایل سی کی چشم کشا رپورٹ کے باوجود شہر کے 113 تھانوں کی پولیس ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہے اور ان 13 مقامات پر شہریوں کو تحفظ دینےمیں ناکام نظرآتی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ جب تک سڑکوں کی حالت بہترنہیں ہوتی،اسٹریٹ کرائمز کےجن کو بوتل میں بند کرنا بہت مشکل ہے۔

  • جہلم، ٹریفک حادثے میں 13 افراد جاں بحق 4 زخمی

    جہلم، ٹریفک حادثے میں 13 افراد جاں بحق 4 زخمی

    جہلم : جی ٹی روڈ کے قریب ٹریفک حادثے میں 13 مسافر ہلاک اور 2 زخمی ہو گئے ہیں، ریسکیو اداروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر امدادی کاموں کا آغاز کردیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے نوید بٹ کے مطابق حادثہ جی ٹی روڈ پر ایک کار اور مسافر وین کی تصادم کی وجہ سے پیش آیا جس کے نتیجے میں 13 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہو گئے ہیں۔

    ریسکیو اداروں نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کو قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔

    ذرائع کے مطابق حادثہ کار کا ٹائر پھٹنے کی وجہ سے پیش آیا جس کے باعث کار مخالف سمت سے آنے والی مسافر وین سے جا ٹکرائی، تصادم اتنا شدید تھا کہ کار کا اگلا حصہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا جب کہ مسافر وین کے الٹنے کے سبب جانی نقصان زیادہ ہوا۔

    اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی ہے جب کہ جاں بحق ہونے والے افراد کی میتوں کو ضروری کارروائی کے بعد لواحقین کے حوالے کردیا جائے گا۔

  • گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    گھروں کو واپس لوٹنے والی آئی ڈی پی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار

    پشاور: ملک بھر میں جاری دہشت گردی کی لہر اور اس کے خلاف مسلح افواج کی جنگ نے جہاں ایک طرف تو ان دہشت گردوں کی کمر توڑ دی وہیں لاکھوں افراد اپنے گھروں سے بے دخلی پر مجبور ہوگئے تھے۔ گو کہ ان میں سے بیشتر افراد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، لیکن اب ان کے لیے زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ یہاں کی خصوصاً خواتین، جو کبھی آئی ڈی پیز تھیں مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکی ہیں۔

    سنہ 2009 میں شروع کیے جانے والے سوات آپریشن کے باعث 30 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ یہ اس وقت اندرونی طور پر ہجرت کرنے والے افراد (انٹرنلی ڈس پلیسڈ پرسن) کی سب سے بڑی تعداد تھی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

    یہ لوگ برسوں کا جما جمایا گھر چھوڑ کر خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کیے جانے والے کیمپوں میں آ بسے اور یہاں سے ان کی زندگی کا ایک تلخ دور شروع ہوا۔

    اپنے علاقوں میں خوشحال اور باعزت زندگی گزارنے والے افراد ایک وقت کی روٹی کے لیے لمبی قطاروں کی خواری اٹھانے اور دھکے کھانے پر مجبور ہوگئے۔ باپردہ خواتین کو بے پردگی کی اذیت سہنی پڑی، اور بچے تعلیم، کھیل اور صحت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔

    یہ وہ حالات تھے جن کا انہوں نے زندگی بھر کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    سنہ 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والے حملے کے بعد آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا گیا۔ یہ آپریشن شمالی وزیرستان، اور فاٹا کے علاقوں میں شروع کیا گیا اور اس بار یہاں کے لوگوں کو دربدری اور ہجرت کا دکھ اٹھانا پڑا۔

    آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں 20 لاکھ کے قریب افراد کو اپنے گھروں سے نقل مکانی کرنی پڑی۔ یہ دربدری، بے بسی اور بے چارگی کا ایک اور دور تھا تاہم اس بار انتظامات کچھ بہتر تھے۔

    ایک سال کے اندر ہی متاثرین کی واپسی کا عمل بھی شروع کردیا گیا۔ تمام متاثرین کی حتمی واپسی کے لیے دسمبر 2016 کا وقت دیا گیا تھا تاہم ابھی بھی آپریشن سے متاثر ہونے والے قبائلین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔

    کیا واپس جانے والوں کے لیے زندگی پہلے جیسی ہے؟

    بظاہر یوں لگتا ہے کہ اپنے گھروں کو واپس جانے والوں نے حکومتی امدادی رقم سے اپنے گھر بار تعمیر کر کے نئی زندگی کا آغاز کردیا ہے۔ اکثر کی زندگی آپریشن سے پہلے جتنی خوشحال تو نہیں، تاہم وہ ایک باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔

    لیکن درحقیقت سب کچھ پہلے جیسا نہیں ہے۔

    مینگورہ کی 29 سالہ خدیجہ بی بی آپریشن سے قبل اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوش باش زندگی گزار رہی تھیں۔ اپنے گھر کو خوبصورتی سے سجائے کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس گھر کو انہیں چھوڑنا پڑے گا، اور چھوڑنا بھی ایسا جو ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دے گا۔

    جب آپریشن شروع ہوا تو خدیجہ بی بی اپنا اور اپنے خاندان کا ضروری سامان اٹھائے ڈیرہ اسماعیل خان کے کیمپ میں آ بسیں، لیکن رکیے، وہ بسنا نہیں تھا، وہ تو خدیجہ بی بی کے لیے مجبوری کی حالت میں سر چھپانے کا ایک عارضی ٹھکانہ تھا جو ان کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا تھا۔

    ساری عمر بڑی سی چادر میں خود کو چھپائے خدیجہ بی بی نے بہت کم گھر سے قدم باہر نکالا تھا۔ اگر وہ گھر سے باہر گئی بھی تھیں تو باعزت طریقے سے، اپنے شوہر کے ساتھ باہر گئی تھیں۔ اس طرح بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑی میں لد کر آنے، اور ایک خیمے میں پڑاؤ ڈال لینے کا تو انہوں نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔

    فوج کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اور دیگر اشیا کے لیے قطاروں میں لگنا، چھینا جھپٹی، خوراک کے لیے ہاتھا پائی اور تکرار، اور رہنے کے لیے کپڑے سے بنا ہوا ایک خیمہ جہاں رہ کر صرف انہیں یہ اطمینان تھا کہ کوئی غیر مرد اندر جھانک نہیں سکے گا۔

    ان تمام حالات نے خدیجہ بی بی کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بالکل تبدیل کردیا۔ پچھلی زندگی کا سکون، اطمینان اور خوشی خواب و خیال بن گئی۔ بالآخر برا وقت ختم ہوا، ان کے علاقے کو کلیئر قرار دے دیا گیا اور خدیجہ بی بی کے خاندان اور ان جیسے کئی خاندانوں نے واپسی کی راہ اختیار کی، لیکن یہ خوف، بے سکونی اور نفسیاتی الجھنیں اب ان کی زندگی بھر کی ساتھی بن چکی تھیں۔

    اور ایک خدیجہ بی بی پر ہی کیا موقوف، ٹوٹے پھوٹے تباہ حال گھروں کو واپس آنے والا ہر شخص کم و بیش انہی مسائل کا شکار تھا، اور خواتین اور بچے زیادہ ابتر صورتحال میں تھے۔

    واپسی کے بعد بھی زندگی آسان نہیں

    خیبر پختونخواہ میں خواتین کی تعلیم و صحت کے لیے سرگرم ادارے اویئر گرلز کی بانی گلالئی اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ گھروں کو واپس لوٹنے والے آئی ڈی پیز کو صحت کے حوالے سے جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہے صدمہ وہ جو انہیں اپنا گھر بار چھوڑنے کی وجہ سے سہنا پڑا۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن 2009 میں شروع ہوا جس کے اثرات عام لوگوں کی زندگی میں ابھی تک برقرار ہیں، وہاں کے لوگ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہوچکے ہیں اور اس میں مرد و خواتین سمیت بچے بھی شامل ہیں۔

    اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ کسی ناقابل یقین حادثے یا سانحے کے ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس سانحے کی تلخ یادیں، ان کی وجہ سے مزاج، صحت اور نیند میں تبدیلیاں اور مختلف امراض جیسے سر درد، ڈپریشن یا بے چینی کا شکار ہونا پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کہلاتا ہے۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ایک جما جمایا گھر چھوڑ کر، جہاں آپ نے ایک طویل عرصے تک پرسکون زندگی گزاری ہو، کسی انجان مقام پر جا رہنا آسان بات نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ہونے والے ان آپریشنز نے بھی ان امن پسند لوگوں کو دربدر کردیا جس کے باعث یہ گھر واپسی کے بعد بھی مختلف پیچیدگیوں کا شکار ہیں۔

    فطری حاجت کے مسائل

    گلالئی کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں رہائش کے دوران قبائلی خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایسے مسائل تھے جن کا کبھی اس سے پہلے انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران ایک آئی ڈی پی کیمپ کے دورے کے دوران انہیں پتہ چلا کہ خواتین کو فطری حاجت سے متعلق بے شمار مسائل ہیں۔ خواتین نے شکایت کی کہ ان کے لیے بنائے گئے واش رومز یا پانی بھرنے کی جگہیں ان کے کیمپوں سے بہت دور تھیں، وہاں پر اندھیرا ہوتا تھا اور بعض اوقات باتھ روم کے دروازوں کی کنڈیاں درست نہیں تھیں۔

    گلالئی کے مطابق ان پردہ دار خواتین کے لیے ایسے غیر محفوظ بیت الخلا کا استعمال مشکل ترین امر تھا، نتیجتاً بے شمار خواتین گردوں کے امراض میں مبتلا ہوگئیں، ہر روز جو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی تھی وہ الگ تھی۔

    انہوں نے بتایا کہ ان غیر محفوظ باتھ رومز کی وجہ سے جنسی ہراسمنٹ کے بھی بے شمار واقعات پیش آئے۔

    گھریلو تشدد میں اضافہ

    ایک اور مسئلہ جو ان خواتین نے اس دربدری کی زندگی میں سہا، وہ تشدد تھا جو ان کے مردوں نے ان پر کیا۔

    گلالئی کے مطابق انہیں خواتین نے بتایا کہ جب وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں مہاجروں جیسی زندگی گزارنے لگے تو ان کی زندگی سے سکون اور اطمینان کا خاتمہ ہوگیا جس کا بدترین نقصان یہ ہوا کہ ان کے مردوں نے انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔

    خواتین نے بتایا کہ جب مرد کیمپ سے باہر نامساعد حالات سہہ کر آتے تو ان کی فرسٹریشن اور ڈپریشن اپنے عروج پر ہوتی جو انہوں نے اپنی خواتین اور بچوں پر تشدد کر کے نکالنی شروع کردی۔

    بیشتر خواتین نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ اپنے گھروں میں ایک پرسکون زندگی گزارتے تھے تو اس وقت کبھی ان کے مردوں نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔

    دماغی و نفسیاتی امراض میں اضافہ

    خیبر پختونخواہ میں معمولی پیمانے پر دماغی صحت کے حوالے سے کام کرنے والے ایک ادارے کے ترجمان کے مطابق مہاجر کیمپوں سے لوٹ کر آنے والے شدید دماغی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق لوگ ہر وقت ایک نامعلوم خوف اور بے چینی کے حصار میں رہنے لگے۔ ان کے لیے راتوں کو سونا مشکل ہوگیا تھا اور وہ ڈر کر اٹھ جایا کرتے تھے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ فطری سخت جانی کے سبب مردوں نے تو ان مسائل پر کسی حد تک قابو پالیا، تاہم خواتین اور بچے مستقل مریض بن گئے۔

    اس حوالے سے گلالئی نے بتایا کہ ایک بار جب انہوں نے بچوں سے ان کی تعلیم کے حوالے سے بات کی، تو بچوں نے انہیں بتایا کہ ان کے لیے تعلیم حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ پڑھنے کے دوران ان کے سر میں مستقل درد ہوتا ہے، وہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، جبکہ رات کو سونے کے دوران بھی انہیں ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور وہ ڈر کر اٹھ جاتے ہیں۔

    اور صرف بچے ہی نہیں خواتین بھی اسی قسم کے مسائل کا شکار ہیں۔ خانہ جنگی نے ان کی نفسیات و مزاج کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے اور وہ ہنسنا بھی بھول گئی ہیں۔

    گلالئی کا کہنا تھا کہ سوات آپریشن کے بعد اس امر کی اشد ضرورت تھی کہ جنگ کے نقصانات کا سامنا کرنے والے افراد کے لیے اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ادارے (ری ہیبلی ٹیشن سینٹر) قائم کیے جاتے، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں عام افراد کو صحت کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں، اس طرح کے اداروں کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔

    پھر سنہ 2014 میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوگیا اور اس بار مختلف قبائلی علاقوں کی بڑی آبادی کو دربدری اور اس کے بعد کم و بیش سوات آپریشن کے متاثرین جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ہماری پرانی عادت ہے ہم ماضی کے تجربات سے کبھی سبق نہیں سیکھتے‘۔ گلالئی نے کہا۔

    جنگ سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر و ترقی کا عمل جاری ہے، اور بہت جلد یہ پھر سے خوشحال اور آباد علاقے بن جائیں گے جہاں شاید پہلے سے جدید سہولیات موجود ہوں، لیکن اس جنگ میں معصوم لوگوں نے جو اپنے پیاروں سے محرومی کے ساتھ ساتھ، اپنی جسمانی و نفسیاتی صحت کا خراج ادا کیا، اس کے اثرات تا عمر باقی رہیں گے۔