Category: پاکستان

پاکستان اردو نیوز

ملک پاکستان میں اے آر وائی نیوز کی جانب سے آنے والی تازہ ترین خبریں

Pakistan Urdu News- Daily Pak Urdu News

  • پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    پاکستانی ثقافت کا گم گشتہ پہلو ’دالان‘ لندن میں جلوہ گر

    آپ کو وہ زمانہ یقیناً یاد ہوگا جب بڑے بڑے گھروں میں خوبصورت دالان ہوا کرتے تھے۔ دالان وہ کشادہ اور وسیع راہداریاں ہوتی ہیں جو آج کل کی تنگ راہداریوں کی طرح صرف گزرنے کے کام نہیں آتیں بلکہ یہاں بیٹھنے کا سامان رکھ کر اکثر محفلیں سجائی جاتی تھیں اور بچے ان دالانوں میں کھیلا کرتے تھے۔ ان دالانوں پر چھت بھی ہوتی ہے جو عموماً محراب دار ہوتی ہے۔

    ایران کے کئی شہروں میں ایسے بازار موجود ہیں جو محراب دار دالانوں کی شکل میں ہیں یعنی وسیع اور چوڑی راہداریوں میں دکاندار اپنا خوانچہ سجائے بیٹھے ہیں۔

    لیکن اب یہ مقام شاذ ہی کہیں نظر آتا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، بدلتے ہوئے طرز زندگی اور کم جگہ کے باعث رہائش کے لیے فلیٹوں اور چھوٹے گھروں کی تعمیر نے صرف ایک دالان تو کیا ہمارے رہنے کے لیے مناسب کھلی جگہ بھی چھین لی۔ ایک گنجان آباد شہر میں رہنے والا شخص شاید ہی بتا سکے کہ اس نے آخری بار آسمان پر چاند کب دیکھا تھا؟ یا وہ کون سا دن تھا جب اس نے آخری بار سورج ڈھلتے دیکھا؟ یا جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو اسے ابلتے گٹروں، جا بجا کھڑے پانی اور لوڈ شیڈنگ کے علاوہ مٹی کی وہ سوندھی خوشبو بھی محسوس ہوئی جو بارش کا پہلا قطرہ زمین پر پڑتے ہی چہار سو پھیل جاتی ہے؟

    آپ سمیت یقیناً بہت سے افراد ان سوالات پر تذبذب کا شکار ہوجائیں گے۔

    تو چلیں پھر آپ کو ان لوگوں سے ملواتے ہیں جنہوں نے شاید ان سب کو محسوس کیا ہو تب ہی ان چیزوں کو یاد کروانے کے لیے انہوں نے اپنا تصوراتی اور تخیلاتی دالان تشکیل دے ڈالا۔

    چھ افراد پر مشتمل پاکستانی تخلیق کاروں کی تخلیق ‘دالان‘ آج کل لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں ہونے والی لندن ڈیزائن بینالے 2016 میں جلوہ گر ہے جو مشرقی و مغربی افراد کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔

     یہ ڈیزائن کراچی کے کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کے تخلیق کاروں نے تشکیل دیا ہے جس میں ایک تخیلاتی دالان کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ اسٹوڈیو اس سے قبل بھی ’نروان‘ اور ’زاویہ‘ نامی ڈیزائن تشکیل دے چکا ہے جو ادب اور مصوری کی سرحدوں کو ملا کر تشکیل دیے گئے ہیں۔

    یہاں کی سب سے منفرد چیز گھومنے والے اسٹولز ہیں جنہیں لٹو کا نام دیا گیا ہے۔ چھت سے اسکرین پرنٹ (ڈیجیٹل سطح پر سیاہی یا دھات سے تصویر کشی) کے ذریعہ تصاویر آویزاں کی گئی ہیں جن میں پاکستانی ثقافت سے جڑے بچوں کے مختلف کھیلوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

    لندن میں ہونے والی اس نمائش کا مرکزی خیال آرٹ کے ذریعہ یوٹوپیا (خیالی دنیا) تشکیل دینا ہے جہاں فنکار اپنے خیالات و تصورات کو حقیقت میں ڈھال کر پیش کرسکتے ہیں۔ ایک فنکار کے تصور کی کوئی سرحد نہیں لہٰذا یہاں پیش کیے گئے نمونہ فن ایسے ہیں جو عام افراد کی سوچ و ادراک سے بالکل بالاتر ہے۔

    دالان کے تخلیق کاروں کی ٹیم نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پاکستانی ثقافت کو بیرون ملک پیش کرتے ہوئے نہایت فخر محسوس کر رہے ہیں۔ ’لوگ یہاں آتے ہیں اور جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہاں تشکیل دیا گیا نمونہ فن دراصل پاکستانی ثقافت و روایت کا حصہ ہے تو وہ حیران رہ جاتے ہیں‘۔

    سلمان جاوید، فائزہ آدم جی، علی حسین، مصطفیٰ مہدی، حنا فینکی، اور زید حمید پر مشتمل یہ تمام فنکار انڈس ویلی اسکول آف آرٹس سے فارغ التحصیل ہیں اور چونکہ اس ٹیم میں ماہر تعمیرات (آرکیٹیکچر)، ٹیکسٹائل ڈیزائنر، اور گرافک ڈیزائنر شامل ہیں لہٰذا ان تمام علوم کی آمیزش سے تخلیق کیا ہوا فن پاکستانی فن و مصوری کو نئی جہتیں عطا کررہا ہے۔

    لندن میں جاری اس 10 روزہ نمائش میں ’دالان‘ کو یہاں پیش کی گئی بہترین 6 تخلیقات میں سے ایک کا اعزاز مل چکا ہے۔ کوئلس ڈیزائن اسٹوڈیو کی ٹیم اس سے قبل گذشتہ برس بھی دبئی ڈیزائن ویک میں پاکستانی پویلین کے ذریعہ اپنا فن پیش کر چکی ہے جسے بہترین پویلین کے اعزاز سے نوازا گیا۔

    دالان کی روایت و رومانویت نے دراصل اردو شاعری کو بھی کافی متاثر کیا ہے۔

    کئی شاعر اپنی شاعری میں محبوب کے ہجر و فراق میں دالان کا ذکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    ساری گلی سنسان پڑی تھی باد فنا کے پہرے میں
    ہجر کے دالان اور آنگن میں بس اک سایہ زندہ تھا

    ۔ جون ایلیا

    دالان کے تخلیق کاروں کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب لوگ ان کے فن کو دیکھیں تو وہ اس بھولے بسرے وقت کو یاد کریں جب لمبی دوپہریں اور ٹھنڈی شامیں دالانوں کے سائے میں گزرتی تھیں اور انہیں احساس ہو کہ زندگی کی تیز رفتار چال کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش میں وہ اپنی ثقافت کے خوبصورت پہلوؤں کو بھی بھلا بیٹھے۔

    برطانیہ میں تعینات پاکستانی سفیر سید ابن عباس نے بھی نمائش کا دورہ کیا اور پاکستانی تخلیق کاروں سے ملاقات کی۔ ان کے حیرت انگیز فن کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’آپ لوگ پاکستان کا اصل چہرہ ہیں اور دراصل آپ ہی پاکستان کی درست اور حقیقی نمائندگی کر رہے ہیں‘۔

    انہوں نے کہا کہ جس طرح ان فنکاروں نے پاکستانی ثقافت اور طرز زندگی کو اجاگر کیا ہے یہ کوشش نہایت قابل تعریف ہے۔

    پاکستان کی دم توڑتی روایات کو زندہ کرنے کی کوششوں کی اس مثال کا اب تک کئی ہزار افراد دورہ کر چکے ہیں اور وہ اس اچھوتے اور سادہ ڈیزائن کو دیکھ کر سحر زدہ رہ جاتے ہیں۔

    لندن کے سمرسٹ ہاؤس میں جاری یہ نمائش مزید ایک روز تک جاری رہے گی اور ہر خاص و عام کے لیے دعوت عام ہے۔

  • پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ منعقد کیے جانے والے گلوبل گولز ایوارڈز میں ایک پاکستانی ادارے ’ڈاکٹ ۔ ہرز‘ نے بہترین اور کامیاب کوشش کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    یہ ایوارڈ اس ادارے یا فرد کو دیا جانا تھا جو خواتین اور کم عمر لڑکیوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے کام کرے۔ ’ڈاکٹ ہرز‘ نامی یہ ادارہ غیر ترقی یافتہ اور مضافاتی علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    نیویارک میں جاری جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران منعقدہ ایوارڈز کی تقریب میں یہ ایوارڈ ادارے کی بانی ڈاکٹر سارہ سعید خرم نے وصول کیا۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے ادارے کے کام کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ ان کا ادارہ طبی سہولیات سے محروم خواتین کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ ادارہ موبائل، یا انٹرنیٹ سے ویڈیو کانفرنس / کال کے ذریعہ خواتین کو طبی آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان کی مختلف بیماریوں کے لیے علاج تجویز کرتا ہے۔

    یہی نہیں یہ ادارہ کئی بیروزگار اور معاشی پریشانی کا شکار خواتین کو بھی مختلف طبی ٹریننگز دے کر ان کے ذریعہ روزگار کا سبب بن رہا ہے۔

    ادارے سے منسلک ڈاکٹرز گھر بیٹھ کر بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ مریضوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ان ڈاکٹرز کو ماہر کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور مڈ وائفس کے ذریعہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ روبرو بھی مریضوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔

    ادارے کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ ڈاکٹر اشعر حسین اور انہوں نے 2014 میں ایک کمیونٹی ہیلتھ پروجیکٹ کے تحت تجرباتی طور پر شروع کیا۔ آغاز میں کراچی کے مضافاتی علاقہ سلطان آباد میں ویڈیو کنسلٹنگ کے ذریعہ خواتین کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ اس دوران 6 ماہ میں 100 خواتین اس سے مستفید ہوئیں۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، مزید لوگ بھی شامل ہوتے گئے اور انہوں نے ڈاکٹر عفت ظفر کے ساتھ اس کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کردیا جس کے بعد اب پاکستان میں ان کے 9 ٹیلی کلینکس کام کر رہے ہیں۔ 6 کراچی کے مضافاتی علاقوں کورنگی، وائے ایریا لانڈھی، نیو لیاری، ضیا کالونی، بن قاسم اور بلدیہ ٹاؤن میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، 2 صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں دادار اور مانسہرہ جبکہ ایک پنجاب کے علاقہ حافظ آباد میں واقع ہے جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ایک  سال میں 22 ہزار افراد کو بالواسطہ اور ایک لاکھ افراد کو بلا واسطہ طبی امداد، طبی تربیت اور مختلف طبی سیشن فراہم کرچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    پاکستانی خواتین فلاحی اسپتالوں کی کیوں محتاج ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے بتایا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل پی ایم ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز کی تعداد صرف 1 لاکھ 57 ہزار 206 ہے یعنی 11 ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر۔ ان میں 74 ہزار خواتین ڈاکٹرز ہیں۔ پاکستان کے دیہی اور غیر ترقی یافتہ حصوں میں رہنے والوں میں سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو کسی قسم کی کوئی طبی امداد میسر نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جن خواتین کو ان کا ادارہ طبی امداد فراہم کرتا ہے ان میں 80 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں اگر اس ادارے کا آسرا نہ ہو تو انہیں زندگی بھر کوئی اور طبی امداد مل ہی نہیں سکتی۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق ہمارے ملک میں جاری بدترین صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ’ہمارے گھروں میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اچھا کھانا بھی ان کے لیے، اچھی تعلیم بھی ان کے لیے، تمام سہولیات بھی انہیں میسر، اور اگر وہ بیمار پڑجائیں تو ہزاروں روپے خرچ کر کے بہترین ڈاکٹر سے ان کا علاج کروایا جائے گا‘۔ ’اگلی نسل کی ضامن ہونے کے باوجود لڑکیاں کم اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں اور اس کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہی صنفی تفریق لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی وجہ ہے جیسے لڑکی کوئی بوجھ ہو جس کی جلد سے جلد شادی کر کے بوجھ سے جان چھڑائی جائے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ کم عمری کی شادیاں خواتین کے 70 فیصد طبی مسائل کی جڑ ہیں۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں میں خون کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ کم عمری میں شادی ہوجانے والی 42 فیصد لڑکیاں 20 سال کی عمر سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت بچوں کے وزن میں غیر معمولی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    یہی نہیں کم عمری کی شادیاں خواتین پر جنسی و گھریلو تشدد کا باعث بھی بنتی ہیں۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ دوران علاج اکثر انہیں خواتین نے کمپیوٹر کی اسکرین پر اپنے مسائل بتانے، یا تکلیف کا شکار کوئی جسمانی حصہ دکھانے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ انہیں ’اجازت‘ نہیں تھی۔

    انہوں نے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین میں اوسٹوپروسس (ہڈیوں کی بوسیدگی / ٹوٹ پھوٹ کا عمل) کا مرض زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی خواتین اپنے ہم عمر مردوں کی نسبت 20 سے 30 فیصد زیادہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔

    کام کے دوران ان کی ٹیم کو کن خطرات کا سامنا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ اکثر مضافاتی علاقے مختلف سیاسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں تاہم  ڈاکٹر سارہ کی ٹیم علاقہ کی تمام پارٹیوں سے غیر جانبدارانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

    لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ملک میں جاری پولیو ورکرز پر حملوں کے بعد ان کی ٹیم نے بھی غیر معمولی احتیاط کرنی شروع کردی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین عملہ کو ان علاقوں میں جانے کے بعد خراب ماحول کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ عموماً اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ جانے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پولیو ٹیم پر حملہ، 4 ورکرز جاں بحق

    اقوام متحدہ میں ملنے والا یہ ایوارڈ ڈاکٹر سارہ اور ان کی ٹیم کے خلوص اور انتھک محنت اور کاوشوں کا اعتراف ہے۔ ’یہ ایوارڈ ان آوازوں کے نام ہے جنہیں کوئی نہیں سنتا، ان خوابوں کے نام ہے جو پورا ہونا چاہتے ہیں مگر ہو نہیں پاتے، ان مریضوں کے نام ہیں جو قابل علاج بیماریوں کا بھی علاج نہیں کر سکتے اور ان عناصر کے خلاف ایک مزاحمت ہے جو ڈاکٹرز کو ان کے بنیادی فرض یعنی علاج کرنے سے روکتے ہیں‘۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل گولز ایوارڈز گزشتہ برس مقرر کیے گئے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے اعتراف میں دیے گئے۔

    ان کے تحت مزید 2 ایوارڈز ’دا گرل ایوارڈ‘ اور ’دا سوشل چینج ایوارڈ‘ بھی دیا گیا۔ دا گرل ایوارڈ 16 سالہ شامی مہاجر لڑکی یسریٰ ماردینی کو دیا گیا جس نے شام سے ہجرت کے دوران اپنی کشتی کو حادثہ پیش آنے کے بعد جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگائی اور تیرنے والے افراد کی رہنمائی کی۔ بعد ازاں اس لڑکی نے مہاجرین کی ٹیم میں شامل ہوکر ریو اولمپکس میں بھی شرکت کی۔

    سوشل چینج ایوارڈ تنزانیہ سے تعق رکھنے والی وکیل ربیکا گیومی کو دیا گیا جنہوں نے تنزانیہ میں چائلڈ میرج کے خلاف انتھک کوششیں کیں۔

  • ایم کیو ایم کا ملیر میں دفتر مسمار ، تعداد 139 ہوگئی

    ایم کیو ایم کا ملیر میں دفتر مسمار ، تعداد 139 ہوگئی

    کراچی: شہر قائد کے علاقے ملیر میں ایم کیو ایم کے غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا یونٹ آفس گرادیا گیا ہے، جس کے بعد گرائے جانے والے دفاتر کی تعداد ایک سو انتالیس ہوگئی ہے۔

    ملیر سٹی کے علاقے میں چٹائی گراؤنڈ میں قائم ایم کیوایم کا غیرقانونی دفتر گرا دیا گیا ہے، گرایا جانے والا دفتر غیرقانونی طور پر قائم کیا گیا تھا، گرائے جانے والے دفاتر میں ایم کیوایم کے یونٹ اور سیکٹر آفس شامل ہیں۔

    شہر میں اب تک ایم کیوایم کے ایک سو انتالیس غیرقانونی قائم دفاتر گرائے جا چکے ہیں، بائیس اگست کو پاکستان مخالف نعروں کے بعد ایم کیو ایم کے دوسو اٹھارہ دفاتر کو سیل کیا گیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق مختلف علاقوں میں ایم کیو ایم کے ایک سو اٹھتر یونٹ آفسز اور بائیس سیکٹر آفسزاسکولز، پارکس، کھیل کے میدانوں، واٹربورڈ اور ریلوے کی زمینوں پرقائم ہیں جنہیں بتدریج گرایا جائے گا۔

  • ٹی ٹوئنٹی میچ : انگلینڈ نے پاکستان کوجیت کیلئے 136 کا ٹارگٹ دے دیا

    ٹی ٹوئنٹی میچ : انگلینڈ نے پاکستان کوجیت کیلئے 136 کا ٹارگٹ دے دیا

    مانچسٹر: پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کا واحد ٹی ٹوئنٹی میچ مانچسٹر میں جاری ہے، انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستان کیخلاف مقررہ بیس اوورز میں 135 رنز بنا کر پاکستان کو جیت کے لیے 136 رنز کا ہدف دیا ہے اور اس کے سات کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔

    اس سے قبل انگلینڈ کے کپتان نے پاکستان کے خلاف ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، انگلینڈ کے اوپنرز نے اپنی ٹیم کو اچھا آغاز فراہم کیا۔

    ایلکس ہیلز نے 37 رنز اسکور کیے، جیسن روئے نے اکیس رنز بنائے، ایلکس ہیلز عماد وسیم کی بال پر اہل بی ڈبلیو ہوکر پویلین لوٹ گئے، جبکہ جیسن روئے کو بھی عماد وسیم نے کلین بولڈ کیا۔

    جے روٹ صرف چھ رنز بنا سکے اور شعیب ملک کی بال پر حسان علی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے، جوس بٹلر بھی کوئی نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکے اور سولہ رنز بنا کر چلتے بنے۔ جبکہ مورگن نے چودہ رنز، بین اسٹاکس صرف چار بناسکے اور آخری آؤٹ ہونے والے کھلاڑی ڈیوڈ ولے نے بارہ رنز اسکور کیے۔

    پاکستان کی جانب سے وہاب ریاض نے چار اوورز میں اٹھارہ رنز دے کر تین کھکاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی عماد وسیم نے چار اوورز میں سترہ رنز دے کر دو وکٹیں حاصل کیں، جبکہ حسان علی نے دو وکٹیں اپنے نام کیں۔

  • کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سج گئی

    کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سج گئی

    کراچی : عید قرباں کے قریب آتے ہی کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سج گئی۔ لوگ قربانی کیلئے اپنی پسند کا جانور خریدنے جوق در جوق آ رہے ہیں۔

    COW POST 1

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی سج گئی۔ ملک بھر سے قربانی کے جانور منڈی پہنچا دیئے گئے۔

    COW POST 2

    گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سپر ہائی وے پر سات سو ایکڑ سے زائد رقبے پر ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی لگائی جاتی ہے۔

    منڈی میں مختلف علاقوں سے چھوٹے بڑے ہر نسل کے تقریباً تین لاکھ سے زائد جانور بیچنے کے لیے لائے جاتے ہیں، جن میں ایک لاکھ 75ہزار بڑے جانور اور تقریباً ایک لاکھ 25ہزار چھوٹے جانور ہوتے ہیں۔

     

    مویشی منڈی میں لوگ جانوروں کی قیمتیں سن کر کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں لیکن پھر بھی پسند کا جانور بھاؤ تاؤ کے بعد خرید رہے ہیں۔

    بچوں کی تو موج ہی ہو گئی وہ جانوروں کے ساتھ خوب تفریح بھی کررہے ہیں، کوئی بھیڑ کی سواری کررہا ہے تو کوئی اونٹ کے ساتھ تصویریں بنوا رہا ہے۔ کسی کا بیل اس کی جان بن گیا ہے تو کوئی بکرے سے پیار کررہا ہے۔

    عید قرباں کے رنگ ملک بھر میں چھائے ہوئے ہیں اور کراچی سمیت ملک بھر میں مویشی منڈیوں میں رش لگا ہوا ہے۔ عید قربان جذبہ ایثار کا نام ہے اسی لیے ہر کوئی قربانی کیلئے خوبصورت اور صحت مند جانور کی تلاش میں ہے۔

    عید قربان کے آتے ہی سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ خوب سے خوب ترجانور قربان کیا جائے، مویشیوں کے بیوپاری بھی اپنے جانوروں کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہیں۔

     

  • کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    ہم سب ہی نے بچپن میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی سنی ہے جس میں کچھوا اپنی مستقل مزاجی کے باعث خرگوش سے ریس جیت جاتا ہے اور خرگوش پیچھے رہ جاتا ہے۔ مگر یہ کہانی اب پرانی ہوچکی ہے۔ اس کہانی کو اگر آج کے دور میں ڈھالا جائے تو اس بار کچھوا لازماً یہ ریس ہار جائے گا، کیونکہ اس بار اس کا مقابلہ اپنے جیسے کسی جنگلی جانور سے نہیں بلکہ چالاک و عیار انسان سے ہوگا، جو پیسوں کی خاطر اسے دنیا سے ختم کرنے پر تلے ہیں۔

    شاید کبھی کچھوا یہ ریس جیت جائے، کیونکہ بقا کا مقصد بہرحال سب سے عظیم ہوتا ہے اور جان بچانے کا مقصد کسی کو بھی اس کی استعداد سے بڑھ کر جدوجہد کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن فی الحال جو منظر نامہ ہے اس میں کچھوے کو شکست کا سامنا ہے، اور اس کے مقابل انسان فتح یاب ہورہا ہے۔

    پاکستان ایک زرخیز ملک؟

    پاکستان جغرافیہ کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ اپنے جغرافیہ اور موسمی حالات کی بنا پر پاکستان 11 جغرافیائی، 10 زرعی ماحولیاتی اور 9 بڑے ماحولیاتی زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

    اس کے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں جانداروں کی وسیع انواع موجود ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174 انواع، پرندوں کی 666 انواع، 177 رینگنے والے جانداروں کی اقسام اور جل تھلیوں (یا ایمفی بینس) کی 22 ایسی اقسام شامل ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے خزانے کی صحیح سے حفاطت نہیں کر پارہے۔ جانداروں کی کچھ اقسام معدوم ہوچکی ہیں، کچھ خطرے کا شکار بین الاقوامی جانداروں کی فہرست میں شامل ہیں اور کئی انواع قومی سطح پر خطرات سے دو چار ہیں۔

    گذشتہ 4 سو سال میں پاکستان (برصغیر) کے علاقے سے کم سے کم 4 ممالیہ اقسام کے بارے میں تصدیق کی جا چکی ہے کہ وہ معدوم ہوگئی ہیں۔ ان میں ٹائیگر (پنتھرو ٹائیگر)، دلدلی ہرن اور شیر شامل ہیں۔ چیتا سندھ کے علاقوں سےمعدوم ہوچکا ہے۔ مزید 2 اقسام حالیہ عشروں میں ممکنہ طور پر معدوم ہو رہی ہیں۔ ایشیاٹک چیتا اور کالی بطخ کو مقامی طور پر ختم ہوجانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ ایشیاٹک جنگلی گدھے کے پاکستان میں معدوم ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔

    ہمارے ملک میں معدومی کے خطرے کا شکار ایسا ہی ایک جاندار کچھوا بھی ہے، اور شاید لوگوں کو علم نہیں کہ یہ جاندار ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہیں۔

    معدومی کے خطرے سے دو چار ۔ کچھوا

    پاکستان میں کچھوے کی میٹھے پانی کی 8 انواع ہیں جبکہ 3 سمندری (نمکین) پانی میں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح گدھ کو فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے جو زمین سے مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے، اسی طرح کچھوا یہی کام پانی میں سرانجام دیتا ہے۔

    کچھوے پانی میں موجود مردہ اجسام کو کھاتے ہیں اور پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اب کچھوؤں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے 10 سے 15 سال میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    اس بارے میں سندھ وائلڈ لائف کے کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق یہ بات اب تصدیق شدہ ہے کہ کراچی میں اچانک پیدا ہونے والا نیگلریا وائرس کچھوؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوا۔ نیگلیریا وائرس میٹھے پانی جیسے دریاؤں، جھیل اور پینے کے پانی کے ذخائر میں پیدا ہوتا ہے اور یہاں کا محافظ یعنی میٹھے پانی کا کچھوا اپنی بقا کے مسئلہ سے دو چار ہے۔

    کچھوے اکثر ان فصلوں میں بھی پائے جاتے ہیں، یا لا کر چھوڑے جاتے ہیں جہاں پانی زیادہ ہوتا ہے جیسے چاول کی فصل۔ وہاں بھی کچھوے پانی کو صاف رکھتے ہیں اور فصل کو آبی خطرات سے بچاتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق اصل خطرہ ۔ اسمگلنگ

    پاکستان میں کچھوؤں کی اسمگلنگ ایک عام بات بن چکی ہے۔ اس حوالے سے کئی قوانین منظور کیے جاچکے ہیں اور اب ان پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے چنانچہ کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے کئی واقعات منظر عام پر آئے۔

    عدنان حمید کے مطابق اسمگل کیے جانے والے کچھوؤں کی پہلی کھیپ 1998 میں کراچی ائیرپورٹ سے پکڑی گئی۔ وہ اس وقت کراچی ائیر پورٹ پر کام کرتے تھے۔

    سنہ 2005 میں کراچی کی بندرگاہ پر 3650 کلو گرام کچھوے کا گوشت ضبط گیا جو ملزمان کے مطابق بھینسوں کا گوشت تھا۔ یہ گوشت ویتنام اسمگل کیا جارہا تھا۔

    سنہ 2007 میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر کچھوے کے جسم کے خشک کیے ہوئے 700 کلو گرام حصے چین لے جاتے ہوئے ضبط کیے گئے۔ اسے مچھلی کی خشک جلد بتائی جارہی تھی۔ 2007 ہی میں پشاور سے اسی طرح 300 کلو گرام کچھوے کے جسم کا خشک کیا ہوا حصہ پکڑا گیا۔

    اس کے بعد 2008 میں بھی اتنی ہی مقدار سے لاہور سے بھی کچھوے کا گوشت اسمگل ہوتا ہوا پکڑا گیا۔سنہ 2015 میں 5 کھیپوں سے 1,345 زندہ کچھوے پکڑے گئے جو مختلف مشرقی ایشیائی ممالک کی جانب اسمگل کیے جارہے تھے جبکہ 1.9 ٹن ان کے جسم کے مختلف حصے جیسے گوشت ہڈیاں وغیرہ پکڑی گئیں۔

    اپریل 2015 میں 200 سے زائد میٹھے پانی کے زندہ کچھوے چین کی سرحد پر اسمگل ہوتے ہوئے پکڑے گئے، جنہیں بعد ازاں چین نے ایک خصوصی تقریب میں پاکستان کے حوالے کیا تھا۔

    اس کے چند روز بعد ہی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل پر 4,243 مردہ کچھوے پکڑے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اسمگلروں کے پاس میرین فشریز ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ موجود تھا کہ یہ کچھوے نہیں مچھلی ہیں۔ ان پکڑے جانے والے 4 ہزار سے زائد کچھوؤں کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت 61 کروڑ بنتی ہے۔

    فروری 2016 میں کراچی ایئرپورٹ کے کسٹم حکام نے میٹھے پانی کے کالے دھبے والے 220 کچھوؤں کی غیر قانونی اسمگلنگ ناکام بنائی اور یہ کچھوے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیے۔

    مارچ میں کراچی کرائم برانچ پولیس نے ڈالمیا شانتی نگر میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر اسمگل کے لیے جانے والے نایاب نسل کے کچھوے برآمد کرلیے۔ واقعے میں ملزمان فرار ہوگئے۔

    اسمگلنگ کی وجہ کیا ہے؟

    کچھوے کے گوشت کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کے گوشت کو کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے انڈوں کے خول سے زیورات اور آرائشی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ اس کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    انہوں نے بتایا کہ کچھوے کے گوشت کی بیرون ملک 340 ڈالر فی کلو میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ جو لوگ اس میں حصے دار ہیں وہ چند سالوں میں بڑی بڑی لینڈ کروزرز اور وسیع و عریض بنگلوں کے مالک بن گئے۔

    ان کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، ویتنام وغیرہ سرفہرست ہیں۔

    عدنان حمید کے مطابق پنجاب میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اتنا با اثر نہیں چنانچہ اکثر پنجاب خاص طور پر تونسہ سے کچھؤے بآسانی پورے ملک میں اور بیرون ملک اسمگل ہوتے ہیں۔

    قوانین کیا ہیں؟

    پاکستان میں 1972 سے 1974 کے دوران ایکٹ برائے تحفظ جنگلی حیات سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیے گئے جس کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972 کے سیکشن (2) 12 کے مطابق کچھووں یا دیگر جنگلی جانوروں کی تجارت پر مکمل پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر ایک یا دو سال کی سزا بمعہ جرمانہ ہے۔

    پاکستان نے خطرے میں مبتلا انواع کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن ’سائٹس‘ پر 1975 میں دستخط کیے تھے جس کے تحت ان کچھوؤں یا ان سے متعلق پیداواری اشیا کی تجارت اور برآمد پر پابندی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اسمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی جنگلی اور آبی حیات کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں چھوڑنا لازمی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق غیر قانونی طور پر کچھوؤں کو رکھنے کا جرمانہ 80 ہزار روپے ہے۔ اگر 200 کچھوے پکڑے گئے تو ہر کچھوے کا الگ 80 ہزار ہرجانہ وصول کیا جائے گا۔

    دوسری جانب اپریل 2015 میں سندھ ہائیکورٹ نے بھی جنگلی حیات اور کچھوؤں کی اسمگلنگ کے حوالے سے انتہائی اہم فیصلہ دیا اور واضح طور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ذمے دار ٹہرا کر کچھوؤں کی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف قرار واقعی اقدامات کا حکم دیا۔

    سندھ ہائیکورٹ نے اس فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ صاف ستھرے ماحول میں زندگی گزارنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ایک مکمل ماحول انسان، جنگلات اور جنگلی حیات کے بقائے باہم سے وجود میں آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    فاضل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کچھووں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان ملزمان کے خلاف چاہے وہ عام فرد ہوں یا سرکاری اہلکار و افسران، تحقیقات کر کے فوجداری مقدمات چلائے جائیں اور سائٹس معاہدے پر مکمل عملدر آمد کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے پہلی بار کچھوؤں کے تحفظ کے قوانین برائے 2014 نہ صرف تیار کیے بلکہ انہیں صوبے میں نافذ کر کے دیگر صوبوں سے سبقت حاصل کرلی۔

    اگرچہ اب بھی پاکستان میں سائٹس معاہدے پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا تاہم اس پابندی سے خطرے سے دو چار انواع کی برآمد پر تھوڑا بہت اثر ضرور پڑا ہے اور ملک میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے مثبت تبدیلی رونما ہورہی ہے۔

    عدنان حمید نے مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وائلڈ لائف سے متعلق کیسوں کی سماعت میں جنگلی حیات کے فوائد، اس کی معدومی سے ہونے والے خطرات، اور اس کے متعلق قوانین کے بارے میں ججوں کو سمجھانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جج سرمد عثمان جلالی خود بھی شکاری تھے اور جنگلی حیات کے اہمیت کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں چنانچہ وہ مؤثر فیصلے دیا کرتے تھے۔

    عدنان حمید کے مطابق سخت قوانین کے باعث اب کسٹم حکام نے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے واقعات کی اطلاع دینی شروع کی ہے تاہم اب بھی کسٹم حکام اس کام میں ملوث ہیں۔

    اسمگلنگ کے علاوہ مزید کیا خطرات درپیش ہیں؟

    اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 کلو میٹر ہے جس میں سے بمشکل 50 سے 60 کلومیٹر کچھوؤں کی افزائش کے لیے موزوں ہے۔ یعنی ایک صوبے کی 300 کلو میٹر ساحلی پٹی میں سے صرف 15 سے 16 کلومیٹر میں کچھوے افزائش نسل کر سکتے ہیں۔

    مگر اب ساحل پر ہونے والی تعمیرات کے باعث کچھوے اس سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ عدنان حمید کے مطابق ہاکس بے پر ایک ہٹ بننے سے 200 مادہ کچھوے انڈے دینے سے محروم ہوجاتی ہیں۔ تیزی سے ہوتی تعمیرات کے باعث کچھوؤں کی افزائش کی جگہ یعنی نیسٹنگ سائٹس کم ہو رہی ہیں۔ مناسب نیسٹنگ سائٹس نہ ہونے کی وجہ سے مادہ کچھوے غیر محفوط جگہوں پر انڈے دیتی ہیں جہاں وہ عموماً کتے بلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان بھی اس عمل میں خلل پیدا کردیتے ہیں۔

    عدنان حمید نے بتایا کہ جولائی سے دسمبر کچھوؤں کے انڈوں دینے اور ان انڈوں سے بچے نکلنے کا موسم ہے۔ کلائمٹ چینج کی وجہ سے مون سون کے سیزن میں تبدیلی آئی ہے تو کچھووں کے نیسٹنگ سیزن میں بھی تبدیلی آئی۔

    بعض اوقات سمندر میں موجود کچھوے کشتیوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں جس کے باعث وہ مر جاتے ہیں۔ کچھوے سمندر میں بچھائے جال میں بھی پھنس جاتے ہیں۔ یہ کچھوے جب سطح سمندر پر آتے ہیں تو بعض دفعہ مچھیرے انہیں جال سے چھڑا کر واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ گاؤں والوں کی تفریح کا باعث بن جاتے ہیں اور یوں سمندر میں جانے سے قبل مر جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لیے بڑے بڑے جال بچھا دیے جاتے ہیں۔ کچھوؤں کو سطح سمندر پر کچھ دیر بعد آ کر سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جال کی وجہ سے وہ اوپر نہیں آ پاتے اور یوں زیر آب موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

    سندھ کا محکمہ جنگلی حیات 1979 سے جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این کے ساتھ مل کر کچھوؤں کے تحفظ کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام کرہا ہے۔ ان پروجیکٹس کے تحت اب تک 4 لاکھ کچھوؤں کے بچوں کو سمندر میں چھوڑا جاچکا ہے۔ ایک اور پروجیکٹ کے تحت کچھوؤں کے انڈوں کو لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے اور وہاں بحفاظت ان کی سکائی کی جاتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق 2014 سے اب تک 700 سے 800 زندہ کچھوؤں کو اسمگل ہونے سے روکا جا چکا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اس ضمن میں ماہی گیروں اور مچھیروں کو تربیت اور کچھوؤں، ڈولفن اور دیگر سمندری حیات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے تاکہ ان کے جال میں پھنسنے کی صورت میں وہ ان جانداروں کو آزاد کردیں۔

    عدنان حمید کے مطابق قانون پر عملدرآمد اور میڈیا کی بدولت آگہی کے سبب کچھوؤں کے لیے اب صورتحال خاصی بہتر ہے تاہم ان کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    کراچی: 2015 کا سال کراچی کے لیے ایک ’انوکھا‘ سال تھا۔ اس سال جب رمضان شروع ہوا تو اس کے ساتھ ہی قیامت خیز گرمی شروع ہوگئی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 1 ہزار سے زائد جانیں لے لیں۔ اس قدر شدید گرمی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک بالکل نئی بات تھی چنانچہ اسے سمجھنے اور اس سے بچاؤ کے اقدامات اٹھانے میں وقت لگا اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔

    شہر میں ہنگامی بنیادوں پر سرکاری و نجی اسپتالوں میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے اور 3 دن بعد جب ہیٹ ویو ختم ہوئی تو یہ اپنے ساتھ 1700 جانیں لے چکی تھیں۔

    گرمی کی اس شدید لہر نے تمام متعلقہ سرکاری اداروں اور ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو اب ہر سال کراچی کے موسم کا حصہ ہوں گی اور یہ لہر ایک بار نہیں بلکہ بار بار آئیں گی۔ اس وارننگ نے سب کو اور پریشان کردیا۔

    بہرحال 2016 کے آغاز سے ہی ہیٹ ویو کے خلاف مؤثر اقدامات شروع کردیے گئے اور بڑے پیمانے پر آگہی مہمات چلائی گئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رواں برس اب تک آنے والی ہیٹ ویو میں صرف 3 افراد ہلاک ہوئے۔

    ہیٹ ویو کیا ہے؟

    کراچی جیسے شہر میں رہتے ہوئے، جو ایک صنعتی حب بن چکا ہے اور درختوں کی کٹائی روز بروز جاری ہے، اس بات کو سمجھنا از حد ضروری ہے کہ ہیٹ ویو کیا ہے؟

    ہیٹ ویو موسمیاتی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے باعث پیدا ہونے والا ایک عمل ہے۔ کسی مقام کے ایک اوسط درجہ حرارت میں 5 سے 6 ڈگری اضافہ ہوجائے، ساتھ ہی ہوا بند ہوجائے، اور یہ عمل مستقل 3 سے 5 دن جاری رہے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔ اس کا پیمانہ ہر مقام کے لیے مختلف ہے۔

    مثال کے طور پر نیدرلینڈز میں واقع ڈی بلٹ علاقہ کا اوسط درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اگر اس کا درجہ حرارت بڑھ کر 30 ہوجائے تو اسے ہیٹ ویو کہا جاسکتا ہے۔

    کراچی کا جون (گرمی) کے مہینے میں اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن گذشتہ برس یہ 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا جس نے شہر کو تپتے دوزخ میں تبدیل کردیا۔

    عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ؟

    اکیسویں صدی کا آغاز ہوتے ہی صنعتی ترقی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر مسائل کا بھی آغاز ہوگیا جس میں سے ایک آبادی کا دیہاتوں اور ترقی پذیر علاقوں سے شہروں کی طرف ہجرت کرنا تھا۔ اس سے شہروں کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، رہائش و دیگر سہولیات کے لیے تعمیرات شروع ہوئیں جس کے لیے درختوں، جنگلوں کو کاٹا گیا اور پارکس کی جگہ ختم کی گئی، شہر کے انفراسٹرکچر پر منفی اثر پڑا اور شور، فضا کی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔

    ان صنعتوں سے جن گیسوں کا اخراج شروع ہوا اس نے شہر کی فضا کو آلودہ کیا، انسانوں کی صحت پر منفی اثر ڈالا، جنگلی حیات کو نقصان پہنچایا، اور مجموعی طور پر شہروں کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگیا۔

    ان گیسوں نے اوزون کی تہہ کو بھی نقصان پہنچایا۔ اوزون آسمان کے نیچے وہ تہہ ہے جو سورج کی روشنی کو براہ راست زمین پر آنے سے روکتی ہے۔ اس تہہ کی خرابی سے بھی سورج کی روشنی زمین پر زیادہ آنے لگی اور یوں گرمی میں اضافہ ہوگیا۔

    کراچی اس حوالے سے دہرے خطرات کا شکار ہے۔ ایک جانب میٹرو پولیٹن شہر ہونے کے باعث عمارتوں کا جنگل ویسے ہی اس شہر کی سانس بند کیے ہوئے ہے، دوسری جانب چونکہ یہ ساحلی شہر ہے، اور گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر میں اضافہ ہورہا ہے، تو کراچی کو ایک بڑے سونامی کا بھی خطرہ ہے۔ سطح سمندر میں اضافے کے باعث کراچی کے کئی ساحلی گاؤں اپنی زمین کھو چکے ہیں جبکہ کچھ دیہاتوں کا اگلے چند سالوں میں صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا امکان ہے۔

    گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

    کراچی ہیٹ ویو سے کیسے نمٹا گیا؟

    تاہم یہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ بھی شہروں کی نفسیات تبدیل کردے گا اور انہیں اپنے ترقیاتی منصوبے اس اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے بنانے ہوں گے۔

    یہاں ہم جائزہ لیں گے کہ 2015 میں کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو پر کس طرح قابو پایا گیا۔

    سال 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو کے بعد ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ لہر اگلے سال، اور ہر سال آئے گی اور کراچی کے شہریوں کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ چنانچہ 2016 کے آغاز سے ہی تمام متعلقہ ادارے الرٹ تھے اور شروع سال سے ہی اس پر کام ہو رہا تھا۔

    گرمیوں کے آغاز سے ہی اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ بڑے پیمانے پر آگاہی مہم شروع کردی گئی جس میں لوگوں کو ہیٹ ویو سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر، اس کا شکار ہونے کی صورت میں اس کی علامات اور اس کے بعد جان بچانے کے اقدامات اٹھانے کے بارے میں بتایا گیا۔

    ان آگاہی پیغامات میں لوگوں کو دن کے اوقات میں گھر سے باہر نکلنے، دھوپ کے چشمے اور ہیٹ استعمال کرنے، پانی زیادہ پینے، زیادہ مشقت کا کام نہ کرنے کا کہا گیا جبکہ ہیٹ ویو کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں قریبی ہیٹ ریلیف سینٹرز کے بارے میں بتایا گیا۔

    محکمہ موسمیات کو الرٹ رکھا گیا جس کے باعث ہیٹ ویو شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل ہی عوام کو آگاہ کردیا گیا۔

    حکومت کی جانب سے ڈیزاسٹر ریلیف مینجمنٹ کے تحت سرکاری اسپتالوں میں خصوصی ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کیے گئے۔ گرمیوں کی تعطیلات کی وجہ سے اسکول بند ہونے کے باعث اسکول اور کالجوں میں بھی یہ سینٹرز قائم کیے گئے۔

    مختلف تنظیموں کی جنب سے شہر بھر میں واٹر اسپاٹس قائم کردیے گئے جہاں سے ہیٹ ویو کے دنوں میں شہروں کو مفت پانی کی بوتلیں فراہم کی گئیں۔

    مختلف سرکاری و غیر سرکاری ایمبولینس سروسز بھی الرٹ رہیں جس کے تحت تمام علاقوں کے مرکزی مقامات پر تیار ایمبولینس کھڑی رہیں تاکہ کسی ہنگامی صورتحال میں فوری مدد کو پہنچا جاسکے۔

    ہیٹ ویو سے ہونے والی اموات کی وجہ چونکہ درختوں اور سایہ دار جگہوں کی عدم فراہمی تھی لہٰذا کمشنر کراچی کی جانب سے کسی بھی مقام پر درخت کٹنے کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا گیا اور اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن 1299 قائم کی گئی جس پر درخت کٹنے کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔

    چونکہ عوام خود بھی ہیٹ ویو کی تباہ کاری سے خوف زدہ تھی چنانچہ رواں برس تمام احتیاطی تدابیر اٹھائی گئیں اور یوں 2015 کی 1700 اموات کے مقابلے اس سال ہیٹ ویو سے صرف 3 اموات ہوئیں۔

    یہاں کراچی کے جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا ذکر ضروری ہے جن کے مطابق ’کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کے باعث اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوا بنانے کی ضرورت نہیں۔ خوف مت پھیلائیں، آگہی پھیلائیں کہ لوگوں کو کیسے بچنا ہے‘۔

    مطابقت کیسے کی جائے؟

    ماحولیاتی شعبہ میں دو اصلاحات استعمال کی جاتی ہیں، مٹی گیشن یعنی کمی کرنا اور ایڈاپٹیشن یعنی مطابقت پیدا کرنا۔

    کلائمٹ چینج ایک نیم قدرتی عمل ہے چنانچہ اسے روکنا یا اس میں کمی کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس سے مطابقت پیدا کرنی ازحد ضروی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس کی ہیٹ ویو پر اٹھائے جانے والے تمام اقدامات عارضی ہیں اور کسی خاص موقع پر انہیں اپنا کر زندگیاں تو بچائی جا سکتی ہیں تاہم مستقل بنیادوں پر گلوبل وارمنگ سے مطابقت کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے شہر کو ایک طویل المعیاد اور پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں ماحولیاتی خطرات کو سرفہرست رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    موسم کی شدت سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے ماہرین کچھ تجاویز اپنانے پر زور دیتے ہیں۔

    شہر بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔ کراچی میں شجر کاری تو کی جارہی ہے مگر بدقسمتی سے لگائے جانے والے درخت کونو کارپس کے ہیں۔ کونو کارپس ہماری مقامی آب و ہوا کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں۔ یہ کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ کونو کارپس دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ نیم کے درخت لگائے جائیں جو شہر کے درجہ حرارت کو معتدل رکھیں گے۔

    پرانی نہروں اور ندیوں کا احیا کیا جائے۔ یہاں کراچی کی ایک مشہور نہر ’نہر خیام‘ کا تذکرہ ضروری ہے جو حکومت اور عوام کی غفلت کے باعث گندے نالے میں تبدیل ہوچکی ہے۔ یہی حال لیاری ندی کا ہے جبکہ کراچی کی ایک بڑی ملیر ندی میں فیکٹریوں کا زہریلا پانی خارج کیا جاتا ہے۔

    ہیٹ ریلیف سینٹرز کو سال بھر فعال رکھا جائے اور بڑے پیمانے پر ڈاکٹرز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے۔

    محکمہ موسمیات کو تمام جدید ٹیکنالوجیز سے آراستہ کیا جائے تاکہ وہ بر وقت موسم کی شدت سے خبرادر کر سکیں۔

    حکومتی اداروں جیسے کے الیکٹرک اور مقامی واٹر بورڈ کے سیاسی استعمال سے گریز کیا جائے اور ان کی استعداد بڑھائی جائے تاکہ گرمی کے دنوں میں یہ عوام کو بجلی اور پانی فراہم کر سکیں۔

    سایہ دار جگہیں قائم کی جائیں۔ اس کی ایک مثال بھارت کے شہر ناگپور میں دیکھی گئی جہاں سگنلز پر سبز ترپال تان دیے گئے۔ یوں یہ سنگلز سایہ فراہم کرنے والے مقامت بن گئے۔ اس تدبیر سے ٹریفک قوانین کی عملداری میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔

    ماہرین گرمی سے بچاؤ کی ایک تجویز گرین روف ٹاپ بھی دیتے ہیں۔ یہ طریقہ اب دنیا بھر میں مقبول ہورہا ہے۔ اس کے ذریعہ گھروں کی چھتوں پر سبز گھاس، درخت اور پھول پودے لگائے جاسکتے ہیں جس سے گھر قدرتی طور پر ٹھنڈے رہیں گے اور پنکھوں اور اے سی کا استعمال بھی کم ہوگا۔

    ایک اور طریقہ ورٹیکل یا عمودی گارڈننگ کا بھی ہے۔ اس کے ذریعہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دیواروں میں بیلیں اور سبزہ اگایا جاسکتا ہے۔ یہ بھی گھروں اور دفتروں کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ اگلے چند سال میں دنیا کے لیے امن و امان اور دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی نہیں فطرت میں تبدیلی دنیا میں غربت، بے روزگاری، شدت پسندی اور جنگوں کو فروغ دے سکتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ اس سے مطابقت پیدا کی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔

  • پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی بے شمار مسائل کا سامنا تھا۔ وسائل کی کمی اور بے سروسامانی کے ساتھ ایک نوزائیدہ مملکت کو چلانا ایک ایسا کام تھا جو جان توڑ محنت اور کئی قربانیوں کا متقاضی تھا۔

    یہ زیادہ ضروری اس لیے بھی تھا کیونکہ پاکستان کے ابتدائی 10 سے 15 سال اس کی بنیاد کو مضبوط کرتے اور پاکستان کے مستقبل کا انحصار بھی انہی ابتدائی سالوں پر تھا۔

    پاکستان میں ایک شعبہ ایسا ہے جسے ابتدا سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور وہ تھا ماحولیات کا شعبہ۔ پاکستان کے متنوع جغرافیہ اور وسائل کے باعث یہ بات ضروری تھی کہ اس شعبہ کو ترجیحات میں رکھا جاتا مگر ہوا اس کے برعکس۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ترقی کرنا شروع ہوا تو یہ ایک اہم ذریعہ تھا جس کے ذریعہ عوام کو ماحولیاتی نقصانات سے آگاہ کیا جاتا مگر ادھر سے بھی اس شعبہ کی جانب سے بے اعتنائی برتی گئی۔

    دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو ۔ چین اور پاکستان کی سرحد پر واقع

    اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تباہی کے اثرات آہستہ آہستہ واضح ہونے لگے۔ قدرتی آفات جیسے زلزلوں اور سیلاب میں اضافہ، آبی ذخائر کی جانب سے بے اعتنائی برتنے کے باعث پینے کے پانی کے ذخائر میں کمی اور پاکستان کا پانی کی کمی کے شکار ممالک میں پہلے 10 ممالک میں آنا، سطح سمندر میں اضافہ اور اس کے باعث ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچنا، زراعت میں کمی اور ملک کے سب سے بڑے اور کاروباری شہر کراچی میں موسم کی قیامت خیز تبدیلی، یہ وہ عوامل ہیں جو شعبہ ماحولیات کی جانب سے ہماری مجرمانہ غفلت کو ظاہر کرتے ہیں۔

    اس مضمون میں ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان میں شعبہ ماحولیات کی کیا صورتحال تھی، اس میں کیا اصلاحات کی گئیں اور اس شعبہ میں کتنے قوانین نافذ العمل کیے گئے۔

    پاکستان کن پروگرامز کا رکن ہے؟

    پاکستان اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کا رکن ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے نونہالان یونیسف کا بھی رکن ہے اور یونیسف کے تحت اس وقت پاکستان میں کئی پروگرامز اور منصوبے جاری ہیں۔

    برصغیر کا وسیع ترین صحرا ۔ صحرائے تھر

    پاکستان مشترکہ ماحولیاتی پروگرام برائے جنوبی ایشیا ایس اے سی ای پی کا بھی رکن ہے۔

    کن معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے؟

    پاکستان حال ہی میں پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کر کے موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ بن چکا ہے۔ اس ڈیل کے تحت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی سے عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی سے زیادہ بڑھنے نہیں دیں گے۔

    اس معاہدے کے علاوہ پاکستان دیگر کئی کثیر الجہتی ماحولیاتی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے جنہیں ایم ای ایز کہا جاتا ہے۔

    سال 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ایک ’ارتھ سمٹ‘ منعقد ہوا جس میں پاکستان سمیت 100 سے زائد ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ ’ایجنڈا 21 ریو پرنسپلز‘ کی صورت میں سامنے آیا جس کے تحت تمام دستخط کنندگان کو اپنے ممالک میں ماحولیات کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔

    اسی کانفرنس میں جنگلات کے تحفظ کے لیے رہنما اصول، ماحولیاتی بہتری کے لیے اقوام متحدہ کے پروگرام یو این ایف سی سی، اور حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کی منظوری عمل میں آئی۔

    پاکستان 2002 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والی قدرتی وسائل کی پائیدار ترقی کانفرنس کے اعلامیہ پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

    صرف دریائے سندھ میں پائی جانے والی (نابینا) ڈولفن ۔ انڈس ڈولفن

    اسی طرح پاکستان خطرے سے دو چار جنگلی حیات کے شکار پر روک تھام کا معاہدہ سائٹس، صحرا زدگی کی روک تھام کا معاہدہ یو این سی سی ڈی، کیوٹو پروٹوکول (اس معاہدے کے تحت کاربن کا اخراج کرنے والے ان ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو اس کاربن اخراج سے متاثر ہو رہے ہیں۔)، ہجرت کرنے والے جانداروں کی حفاظت کا معاہدہ، آبگاہوں (کی حفاظت) کا رامسر معاہدہ، زہریلے مادوں کی بین السرحد نقل و حرکت کو روکنے کا باسل معاہدہ، بین الاقوامی تجارت میں کیمیائی مادوں کی روک تھام کا روٹر ڈیم معاہدہ، مضر صحت نامیاتی مادوں سے روک تھام کا اسٹاک ہوم معاہدہ، اور اوزون کی حفاظت کے مونٹریال پروٹوکول پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

    پاکستان 2000 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کے منصوبے ایم ڈی جیز کا بھی حصہ بنا۔

    ملک میں کون سے ماحولیاتی ادارے کام کر رہے ہیں؟

    پاکستان میں اب ماحولیات کے شعبہ میں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مل کر کام کر رہے ہیں جو ایک احسن قدم ہے۔ غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں میں ماحولیات سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے ماہرین موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر حکومتی ارکان کی رہنمائی و مشاورت کرتے ہیں۔

    پاکستان میں 1974 میں انوائرنمنٹ اینڈ اربن افیئرز ڈویژن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا کام ملک میں جاری ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا تھا۔

    سنہ 1983 میں پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل اور پاکستان انوائرنمنٹ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

    سنہ 1987 میں صوبائی پروٹیکشن ایجنسیاں ای پی ایز قائم کی گئیں تاہم یہ وفاق کے ماتحت تھیں۔

    بقا کے خطرے کا شکار برفانی چیتا پاکستان کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے

    اس کے بعد اس شعبہ میں کئی اصلاحات لائی گئیں اور پہلی بار باقاعدہ وزارت ماحولیات قائم کی گئی۔ پہلا وزیر ماحولیات سابق صدر آصف علی زرداری کو بنایا گیا۔

    سنہ 2010 میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل کردیے گئے جس کے بعد اب ہر صوبے کی ای پی اے یعنی ایجنسی برائے تحفظ ماحول خود مختار اداروں کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ اس ایجنسی کا مقصد صوبے میں ہونے والی ترقی کو ماحول دشمن ہونے سے بچانا اور ماحول اور عوامی صحت سے مطابقت کروانا ہے۔

    اب تک کون سی پالیسیاں عمل میں لائی گئیں؟

    پاکستان میں 1980 میں قومی حکمت عملی برائے تحفظ این سی ایس نافذ العمل کی گئی۔

    اگست 1993 میں حکومت نے قومی ماحولیاتی معیارات (نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ۔ این ای کیوز) کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد تمام صنعتوں کو پابند کرنا تھا کہ وہ ماحول دوست مشینری اور طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعات بنائیں۔

    فروری 2001 میں قومی ماحولیاتی ایکشن پلان این ای اے پی کی منظوری دی گئی۔ اس کا مقصد 4 شعبوں ( صاف ہوا، صاف پانی، زہریلے مادوں کی بحفاظت تلفی، اور ایکو / ماحول کی بہتری) میں حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔

    پاکستان کی بڑی آبگاہوں (میٹھے پانی کے ذخائر) میں سے ایک ۔ بلوچستان کا استولا جزیرہ

    اسی طرح 2005 میں قومی ماحولیاتی پالیسی کی بھی منظوری دی گئی۔ قومی پالیسی برائے صحت و صفائی ۔ نیشنل سینیٹیشن پالیسی 2006، قومی آبی پالیسی ۔ نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009، قومی پالیسی برائے موسمیاتی تغیرات ۔ نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی 2012، اور قومی پالیسی برائے جنگلات 2015 کا مسودہ بھی تیار رکھا ہوا ہے جو تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    ماحولیاتی عوامل کی اہمیت کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 2009 کو ماحولیات کا قومی سال قرار دیا۔

    سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد وزارت ماحولیات کو وزارت برائے موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) میں تبدیل کردیا گیا اور اب ملک میں کلائمٹ چینج کی وزارت مختلف ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہے۔

    اب تک کون سے قوانین بنائے گئے ہیں؟

    پاکستان میں ماحولیاتی قانون سازی سلطنت دہلی، مغلوں اور برطانوی حکومت کے دور سے کی جارہی ہے۔ سلاطین دہلی کے ادوار سے ہی ماحولیات سے متعلق تمام شعبہ جات جیسے اراضی کا استعمال، جنگلات، آب پاشی کا نظام، جنگلی حیات کا تحفظ، توانائی، کیڑے مار ادویات کا استعمال، شور کی آلودگی وغیرہ سے متعلق قوانین بنائے گئے۔

    اس وقت شکار کے متعلق بھی قوانین عائد تھے جو برطانوی دور میں بھی جاری رہے۔ مثال کے طور پر 1860 میں نافذ کیے جانے والے کرمنل کوڈ کے تحت ایسا جانور جس کی قیمت 10 روپے سے زیادہ ہو اس کے شکار پر جرمانہ عائد تھا۔

    ایک اور ایکٹ 1912 میں نافذ کیا گیا جس کے تحت پرندوں کے شکار کی اجازت ایک مخصوص علاقے، عرصہ اور صرف لائسنس یافتہ افراد ہی کو تھی۔ یہ ایکٹ قیام پاکستان کے بعد بھی نافذ العمل رہا۔

    اسی طرح 1913 میں جنگات کی کٹائی کے خلاف پنجاب فاریسٹ ایکٹ نافذ کیا گیا۔

    سنہ 1927 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے فاریسٹ ایکٹ کا نفاذ کیا گیا جو پاکستان کے قیام کے بعد کئی عشروں تک جنگلات کی قانون سازی کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت اختیار کیے ہوئے رہا۔

    سنہ 1936 میں ہزارہ فاریسٹ ایکٹ، 1934 میں فیکٹری ایکٹ (فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے مواد کی بحفاظت تلفی) نافذ کیا گیا۔

    پاکستان کی طویل اور قدیم ترین نمک کی کان ۔ کھیوڑہ سالٹ مائن

    قیام پاکستان کے بعد ماحولیات سے متعلق پہلا قانون 1948 میں متعارف کروایا گیا جو کان کنی اور تیل کی صنعت سے متعلق تھا۔

    سنہ 1952 میں 2 ایکٹ پنجاب ڈویلپمنٹ آف ڈیمیجڈ ایریاز ایکٹ اور پنجاب سوائل ری کلیمیشن ایکٹ متعارف کروائے گئے۔ یہ دونوں ایکٹ زرعی اراضی سے تعق رکھتے تھے۔

    سنہ 1954 میں جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کے لیے کوہاٹ مزاری کنٹرول ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

    سنہ 1959 میں مویشیوں سے متعلق ایکٹ ویسٹ پاکستان گوٹس ایکٹ اور عوامی صحت سے متعلق ویسٹ پاکستان فیکٹریز کینٹین رولز متعارف کروائے گئے۔

    سنہ 1960 میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ویسٹ پاکستان اسموکنگ آرڈیننس متعارف کروایا گیا جس کے تحت سینما گھروں کے اندر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    سنہ 1961 میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے ویسٹ پاکستان فشریز آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔

    سنہ 1964 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے ویسٹ پاکستان فائر ووڈ ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

    سنہ 1965 میں فضائی معیار اور شور کی آلودگی کے خلاف موٹر وہیکل آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔ اسی قسم کا ایک اور آرڈیننس اسلام آباد آرڈیننس کے نام سے 1966 میں بھی متعارف کروایا گیا۔

    ایشیا کے طویل ترین دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ ۔ یہ دریا پنجاب اور سندھ کی بیشتر زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے

    سنہ 1970 سے لے کر 1980 کے دوران اس شعبہ میں بہت زیادہ قانون سازی دیکھنے میں آئی جن پر مختصر نظر ڈالیں گے۔

    سنہ 1970 ۔ بلوچستان سی فشریز آرڈیننس

    سنہ 1971 ۔ آبی حیات، پارک اور جنگی حیات کی حفاظت کے لیے رہنما اصول، زراعت میں کیڑے مار ادویات کا آرڈیننس

    سنہ 1972 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سندھ

    سنہ 1973 ۔ زہریلے اور مضر صحت مواد کے خلاف اصول ۔ اس سال تشکیل دیے جانے والے مملکت خداداد کے آئین میں ماحولیات کو بھی شامل کیا گیا۔

    سنہ 1974 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ پنجاب، جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ و انتظام کا قانون، شجر کاری و تحفظ جنگلات پنجاب کا قانون

    سنہ 1975 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ بلوچستان، ثقافتی ماحول کی بہتری کے لیے نوادرات ایکٹ، خطرے کا شکار جنگلات کی حفاظت کا قانون، تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سرحد (خیبر پختونخوا)۔

    سنہ 1976 ۔ پاکستان شجر کاری ایکٹ، علاقائی پانیوں کا ایکٹ، پنجاب کی شہری ترقی کا ایکٹ، صوبہ سرحد کے فشریز کے قوانین

    سنہ 1978 ۔ بلوچستان کے زمینی پانی کے حقوق کا آرڈیننس، پانی کے بہتری معیار میں اضافے اور مویشیوں کے جنگلات میں چرنے کے حوالے سے قانون

    بلوچستان کا ہنگول نیشنل پارک ۔ یہ متنوع اقسام کے جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہے

    سنہ 1979 ۔ 1980 ۔ زرعی زمین کے استعمال، آبی اور فضائی معیار، ٹھوس اخراج، جنگلات، پارکس، جنگلی حیات، مویشی اور عوام کی صحت و حفاظت کا آرڈیننس چاروں صوبوں اور مقامی سطح پر نافذ العمل کیا گیا۔

    اسی دوران جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کا آرڈیننس ’اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس‘، جانوروں کی درآمد و برآمد کا آرڈیننس اور وبائی بیماریوں کے حوالے سے آرڈیننس بھی نافذ کیا گیا۔

    ماحولیات کے حوالے سے جامع قانون سازی 1983 میں عمل میں لائی گئی جسے آرڈیننس برائے تحفظ ماحول 1983 کا نام دیا گیا۔ 1983 سے 1997 تک کا عرصہ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بہترین عرصہ تھا۔

    سنہ 1997 میں پاکستان انوائرنمنٹ ایکٹ 1997 نافذ کیا گیا۔ یہ جنگلی حیات اور ماحول کی بہتری اور تحفظ کے حوالے سے بہترین ایکٹ تھا۔ اس کے تحت کئی ذیلی قوانین بھی نافذ  کیے گئے جن میں۔۔

    ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز رولز 2001

    پائیدار ترقی کے لیے فنڈز کا استعمال ۔ پاکستان سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ فنڈ (یوٹیلائزیشن) رولز 2001

    آلودگی پھیلانے پر جرمانہ ۔ پلوشن چارج فار انڈسٹری رولز 2001

    ماحولیاتی عدالت یا بینچ کا قیام ۔ انوائرنمنٹ ٹربیونل پروسیجر اینڈ کوالیفکیشن رولز 2000

    ہنزہ ۔ گلگت بلتستان میں پھسو کونز، اس قسم کے نوکیلے پہاڑ دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں

    ماحولیاتی مثالی اصول ۔ انوائرنمنٹل سیمپل رولز 2001

    مضر صحت اجزا کا قانون ۔ ہزارڈس سبسٹنس رولز 2000

    اور قومی ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ریگولیشن 2000 قابل ذکر ہیں۔

    پاکستان کے 2 نایاب قدرتی ذخائر

    آخر میں پاکستان میں موجود 2 ایسے ذخائر کا ذکر کریں گے جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔

    واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق کسی بھی ملک میں ماحول کی بہتری کے لیے اس کے 25 فیصد رقبہ پر جنگلات ہونا ضروری ہے۔

    صنوبر کے جنگلات

    بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

    واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

    یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

    اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔

    تیمر کے جنگلات

    کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔

    آئیں اس یوم آزادی کے موقع پر عہد کریں کہ ہم ماحولیاتی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور ماحول کو مزید تباہی کی طرف جانے سے بچائیں گے۔

    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ماہرین سے مدد لی گئی۔
    رافع عالم ۔ ماحولیاتی وکیل
    شبینہ فراز ۔ ماحولیاتی کارکن 

  • سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    سمندر کنارے پیاسا گاؤں اور غربت کا عفریت

    دنیا کے باشعور افراد کا ماننا ہے کہ دنیا کی ترقی کے لیے تمام آبادی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ دنیا کی نصف آبادی تو گھر بیٹھے، اور پھر ہم یہ توقع بھی کریں کہ دنیا جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گی۔ دراصل یہاں ’نصف آبادی‘ خواتین کی طرف اشارہ ہے جو نصف اب سے کچھ سال پہلے تک تھیں، اب ان کی تعداد مردوں سے دگنی ہوچکی ہے۔

    اکیسویں صدی کے دور میں اب یہ محاورہ پرانا ہوچکا ہے، ’ایک کمانے والا اور دس کھانے والے‘۔ جدید دور میں وہی گھرانہ یا قوم ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے جس میں کم از کم 8 ’کمانے والے‘ موجود ہیں، اور خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔

    حمیدہ خاتون بھی اس بات پر یقین رکھتی ہیں مگر ان کی کم علمی ان کے پیروں کی زنجیر ہے۔

    حمیدہ خاتون سومار گوٹھ کی رہائشی ہیں جو کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ساحلی گاؤں ہے۔ سمندر کنارے واقع، 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں کے مردوں کا پیشہ تو مچھلی پکڑنا ہے البتہ خواتین صرف گھر کے کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اور گاؤں کی معیشت میں ان کا کوئی کردار نہیں۔

    حمیدہ بی بی اور ان کی رشتہ دار خاتون زیتون

    گاؤں دیہاتوں میں عموماً خواتین مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ کچھ دیہاتوں میں پانی کی سہولت نہ ہونے باعث وہ میلوں دور پیدل چل کر جاتی ہیں اور پانی بھر کر لاتی ہیں۔ لیکن سومار گوٹھ ان تمام دیہاتوں سے نسبتاً ’جدید‘ گاؤں ہے۔ یہاں باتھ روم بھی ہیں، اور پائپوں سے متصل نلکے بھی، جن میں ہفتے میں چند دن پانی آہی جاتا ہے۔ اس گاؤں کا اصل مسئلہ غربت ہے۔

    کبھی یہاں آباد گاؤں والے بہت خوشحال ہوا کرتے تھے۔ سمندر میں مچھلیوں کی بہتات ہوا کرتی تھی۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ بہت کچھ تبدیل ہونے لگا۔ شہری آبادی نے جہاں سمندروں کو آلودہ کر کے لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا، وہیں سمندری حیات بھی اس سے محفوظ نہ رہی۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے فضلے نے کمزور سمندری حیات کا تو وجود ختم کردیا، جو ذرا سخت جان تھیں، وہ یہ وار سہہ گئیں لیکن اس قابل نہ رہیں کہ کسی انسان کی خوارک بن سکتیں۔

    حمیدہ خاتون کے مطابق جب حالات بہتر تھے تو ’مندی‘ کے دن بھی آسانی سے گزر جاتے تھے۔

    کشتیاں گاؤں والوں کا واحد ذریعہ روزگار ہیں

    یہ ’مندی‘ دراصل ان 4 مہینوں میں آتی ہے جن دنوں سمندر کی لہریں بلند ہوتی ہیں اور مچھیرے سمندر میں نہیں جا پاتے۔ مچھیروں کی کشتیاں کمزور ہیں اور سمندر کی تیز، چیختی چنگھاڑتی لہروں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ یہ 4 مہینے مچھیرے تقریباً گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس دوران وہ اپنے جالوں اور کشتیوں کی مرمت کرتے ہیں۔

    خواتین معاشی عمل کا حصہ کیسے؟

    حمیدہ خاتون بتاتی ہیں کہ جب حالات اچھے تھے تب تو تصور ہی نہیں تھا کہ عورتیں کچھ کمانے کی کوشش کریں۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں اور مرد بھی مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ خواتین کو باہر جانے کی اجازت دیں۔

    لیکن خواتین کے پاس نہ ہی تو تعلیم ہے، نہ کوئی ہنر۔ کچھ خواتین نے شہروں میں جا کر قسمت آزمائی کی تو انہیں گھروں میں صفائی کرنے کا کام مل گیا۔ لیکن شہر میں رہائش، کھانا پینا اور ہفتے میں ایک بار گاؤں آنے جانے کے اخراجات اتنے تھے کہ وہ اپنی تنخواہ سے گھر والوں کو کچھ نہ دے پاتیں یوں انہوں نے واپس گاؤں آنے میں ہی عافیت جانی۔

    حمیدہ خاتون کی ایک اور رشتہ دار نوجوان خاتون زیتون نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ جب گاؤں میں پولیو مہم شروع ہوتی ہے تو انتظامیہ کو خواتین رضا کاروں کی تلاش ہوتی ہے۔ تب وہ اس موقع کو حاصل کرتی ہیں اور گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام سر انجام دیتی ہیں۔ 3 یا 4 دن تک جاری اس پولیو مہم میں حصہ لینے کے انہیں 2 ہزار روپے ملتے ہیں۔

    ہر گاؤں کی طرح یہاں بھی بچے وافر تعداد میں تھے۔ میں نے سوال کیا کہ، جب لوگوں کو اپنی غربت کا احساس ہے، اور وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں، تو وہ اتنی تعداد میں بچے کیوں پیدا کرتے ہیں؟

    میرا سوال سن کر حمیدہ بی بی اور زیتون ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔ شاید انہوں نے اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھا۔ بعد میں حمیدہ بی بی نے دھیمی آواز میں کہا، ’کیا کریں مرد سنتے ہی نہیں ہیں‘۔

    حمیدہ بی بی کا شوہر شکار کے دوران کشتی میں گر پڑا تھا جس کی وجہ سے اسے کمر میں شدید چوٹ آئی۔ اب وہ کوئی کام کرنے سے محروم ہے اور پچھلے ایک سال سے گھر میں ہے۔ حمیدہ بی بی نے بعد ازاں درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا، ’وہ میرا شوہر ہے۔ ایک سال سے گھر پر پڑا ہے۔ بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں ہے‘۔ یہ کہہ کر وہ ڈوپٹے کے پلو میں منہ چھپا کر ہنسنے لگی۔

    گاؤں کے بچے گرین کریسنٹ نامی تنظیم کی جانب سے قائم کردہ ایک اسکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اسکول میں صرف 50 یا 100 روپے (پڑھنے والے کی مالی استعداد کے مطابق) فیس وصول کی جاتی ہے۔ دو کمروں پر مشتمل صاف ستھرا اسکول حقیقی معنوں میں گاؤں کے بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔

    گاؤں میں واقع مڈل اسکول

    لیکن یہ اسکول صرف مڈل تک ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئی اور تعلیمی ادارہ نہیں۔ گاؤں والے اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ بچوں کو پڑھنے کے لیے کہیں اور بھیج سکیں، یوں بچے تعلیم حاصل کرنے اور ان کے والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی حسرت دل میں دبائے بیٹھے ہیں۔

    حمیدہ خاتون نے اپنی بیٹی سے بھی ملوایا۔ ’اس نے اس سال اسکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے ہیں‘۔ حمیدہ بی بی نے فخر سے بتایا۔

    ان کے 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں اور حمیدہ بی بی کے مطابق سب ہی کو پڑھنے کا بے حد شوق ہے۔

    مسائل کیا ہیں؟

    سمندر کنارے واقع اس گاؤں میں پینے کی پانی کی شدید قلت ہے۔ گاؤں میں نلکے تو موجود ہیں لیکن ان میں پانی نہیں۔ یہاں ایک آر او پلانٹ لگایا گیا ہے اور گاؤں والے اس کا پانی خرید کر پیتے ہیں۔

    اسی طرح بجلی کا بھی مسئلہ ہے جو کم و بیش ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔ گاؤں میں 18 سے 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، یوں اس گاؤں اور ان دیگر پسماندہ دیہاتوں میں کوئی فرق نہیں رہتا جہاں سورج ڈھلتے ہی اندھیرے کا راج ہوتا ہے۔

    جس وقت ہم وہاں گئے ہمیں ماڑی پور روڈ سے آنے کے بجائے دوسرے متبادل اور لمبے راستے سے آنا پڑا کیونکہ ماڑی پور روڈ پر مختلف دیہاتوں کے لوگ بجلی کی بندش کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور سڑک بند تھی۔

    گاؤں میں بجلی کے تار تو ہیں مگر بجلی نہیں

    میں نے اس سے قبل جتنے بھی دیہاتوں کا دورہ کیا تھا وہاں باتھ رومز کی عدم دستیابی پائی تھی جو خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ تھی۔ اس بارے میں جب دریافت کیا تو پتہ چلا کہ تقریباً ہر گھر میں ایک ٹوٹا پھوٹا باتھ روم ضرور موجود ہے جسے سن کر مجھے خوشی ہوئی۔ ان میں سے کچھ باتھ رومز ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے بنوائے گئے ہیں۔

    البتہ حمیدہ بی بی نے یہ بتا کر میری خوشی ماند کردی کہ ان کے اپنے گھر کا باتھ روم اس قدر ٹوٹ چکا تھا کہ وہ قابل استعمال نہیں رہا تھا، اور اس ضرورت کے لیے وہ اپنے والد کے گھر آتی تھیں جو ان کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ باتھ روم کی از سر نو تعمیر میں وہی غربت حائل تھی۔

    غربت کا عفریت

    گاؤں کی معاشی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندری آلودگی کی وجہ سے ویسے ہی سمندر میں مچھلیاں کم ہیں۔ اوپر سے سمندر کی پابندی کے 4 ماہ مشکل ترین بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ گاؤں والے مچھلی پکڑنے کے لیے سمندر میں بہت آگے تک چلے جاتے جہاں تعینات کوسٹ گارڈز انہیں پکڑ لیتے ہیں۔

    ’ایک دفعہ انہوں نے سب کو بہت برا مارا‘۔ حمیدہ خاتون نے بتایا۔ ’انہوں نے ہنٹر کا استعمال کیا اور میرے شوہر سمیت کئی لوگوں کو مرغا بھی بنادیا۔ میرا بیٹا زخموں کی وجہ سے 2 دن تک اٹھ نہیں پایا‘۔

    حمیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جان بوجھ کر قانون شکنی نہیں کرتے۔ شدید بھوک اور غربت انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ مچھلی کا شکار کرنے والے خود ایک عرصہ سے مچھلی کھانے کے لیے ترس رہے ہیں کیونکہ جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ بیچ دی جاتی ہے۔

    یہاں شکار کی ہوئی مچھلی کو 20 سے 30 روپے کلو میں بیچا جاتا ہے۔ یہ خریداری ان سے ’بروکرز‘ کرتے ہیں جو شہر جا کر یہی مچھلی 300 سے 400 روپے میں بیچتے ہیں۔

    وہ خود کیوں نہیں اس مچھلی کو شہر لے جا کر بیچتے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حمیدہ بی بی نے بتایا کہ شہر جانے کے لیے سواری کا بندوبست کرنا، وہاں آنا اور پھر جانا اس قدر مہنگا اور تھکن طلب کام ہے کہ جو دگنی قیمت وہ شہر جا کر کمائیں گے وہ آنے اور جانے کے کرایوں کی ہی نذر ہوجائے گی۔ ’شہر کوئی نہیں جانا چاہتا‘۔

    شکار کے مہینوں میں بھی شکار پر جانا اتنا آسان نہیں۔ غربت کی وجہ سے بعض خاندان کشتی نہیں خرید پاتے۔ یوں 2 یا 3 گھر مل کر ایک کشتی خریدتے ہیں اور جو بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے اس میں تمام گھروں کا حصہ ہوتا ہے۔

    پابندی کے مہینوں میں گاؤں والے آس پاس کے دیہاتوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ اس کے عادی نہیں لہٰذا یہ ان کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ حمیدہ خاتون کا بیٹا بھی سائن بورڈز کی پینٹنگ کا کام کرتا ہے تاہم کم علم ہونے کی وجہ سے اسے زیادہ کام نہیں ملتا۔

    شکار کے لیے استعمال ہونے والے جال

    جن دنوں مرد شکار پر نہیں جاتے ان دنوں وہ گھر پر رہ کر اپنے جالوں کی مرمت بھی کرتے ہیں۔ خواتین ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں تاہم یہ ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ جالوں کی بنائی میں رسی، ڈوری اور نائیلون استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کے ہاتھ کٹ جاتے ہیں اور ان پر چھالے پڑجاتے ہیں۔

    جال تیاری کے مراحل میں

    حمیدہ بی بی نے بتایا کہ کچھ مخیر حضرات کبھی کبھار راشن دینے کے لیے آتے ہیں لیکن وہ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں اور اس کے توسط سے گاؤں والوں کو جو راشن ملتا ہے وہ سب کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔

    واضح رہے کہ سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آ کر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    گاؤں والے ’کلائمٹ چینج‘ سے واقف ہیں

    دنیا بھر کے ماہرین ابھی تک لوگوں کو یقین دلانے کی کوششوں میں ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے باعث کس قدر خطرات کا شکار ہے اور ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ دنیا کے لیے دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوگا، تاہم دنیا ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہے۔

    البتہ سومار گوٹھ کے رہنے والے ’کلائمٹ چینج‘ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ وہ براہ راست اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ سمندر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور زمین ختم ہو رہی ہے۔

    منہ زور سمندر 4 ماہ تک گاؤں والوں کو فاقے کرنے پر مجبور کردیتا ہے

    گاؤں کے پہلے سرے پر واقع جامع مسجد کبھی گاؤں کے آخری سرے پر قائم تھی۔ لیکن سمندر آگے آتا گیا جس کی وجہ سے گاؤں والوں کو اپنی رہائش پیچھے منتقل کرنی پڑی یوں پورا گاؤں اب کئی فٹ پیچھے چلا گیا ہے۔ گھروں کو دور منتقل کرنے کی وجہ سیلاب بھی تھے۔ سیلاب کے وقت سب سے آگے گھروں کو زیادہ نقصان پہنچتا تھا چنانچہ گاؤں والے سمندر سے دور چلے گئے۔

    تاہم گاؤں والوں کے گھر اب بھی غیر محفوظ ہیں۔ سیلاب کے دنوں میں انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر کہیں اور جانا پڑتا ہے جبکہ تیز بارش میں بھی وہ اپنے گھروں میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ’کچے گھر بارش سے کیسے بچا سکتے ہیں‘۔

    گاؤں میں سمندر کنارے اب صرف مسجد ہے جس کی بیرونی دیوار لہروں کے ساتھ مستقل تصادم کے باعث مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہے۔

    حمیدہ خاتون کو شہر والوں کی صنعتی ترقی سے بھی شکوہ ہے۔ ’یہ اپنی فیکٹریوں سے زہر والا پانی چھوڑ دیتے ہیں جس سے مچھلیاں مرجاتی ہیں، جو زندہ ہوتی ہیں وہ بیمار ہوتی ہیں، ان کو ہم کھا نہیں سکتے‘۔

    مداوا کیا ہے؟

    گاؤں میں سرگرم عمل ایک فلاحی تنظیم ’کاریتاس‘ حقیقی معنوں میں گاؤں کے لوگوں کا سہارا ہے۔ بقول حمیدہ بی بی کے مذکورہ تنظیم کے علاوہ انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ ’ادھر نثار مورائی آیا، سنیعہ ناز (رکن سندھ اسمبلی) آئی، آکر دلاسے دیے، کیا کچھ بھی نہیں‘۔

    جب میں نے انہیں بتایا کہ فشرمین کو آپریٹو سوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی آج کل جیل میں ہیں تو حمیدہ بی بی کی آنکھوں میں حیرت امڈ آئی، ’نثار مورائی کو پکڑ لیا؟ چلو اچھا ہی ہوا‘۔

    تنظیم کے کوآرڈینیٹر منشا نور کے مطابق خواتین کو صرف، شیمپو اور بلیچ بنانے کی ٹریننگ دی گئی ہے تاکہ وہ گاؤں کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ مچھلی کے جال بھی اکثر گھروں میں کاریتاس ہی کے فراہم کردہ ہیں۔ ایک جال مشترکہ طور پر 2 یا 3 گھروں کی ملکیت ہوتا ہے۔

    گاؤں میں سرگرم عمل تنظیم ’کاریتاس‘ کے کوآرڈینیٹر منشا نور

    انہوں نے مقامی آبادی کو مون سون کے حوالے سے بھی آگہی دی ہے جبکہ انفارمیشن شیئرنگ کا ایک سسٹم بھی قائم کیا گیا تاکہ سیلاب آنے کی صورت میں لوگ پہلے سے تیار رہیں۔

    پانی کے مسئلے کے حل کے لیے مستقبل قریب میں یہ پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینکس بنوانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ ہینڈ پمپس اس لیے کارآمد نہیں کیونکہ زیر زمین تمام پانی سمندر کی وجہ سے نمکین ہے۔

    حمیدہ بی بی کی رشتہ دار خاتون زیتون نے مجھے بتایا کہ اسے سلائی کڑھائی کا شوق ہے اور اپنے اس شوق سے وہ پیسہ بھی کمانا چاہتی ہے۔ ’ہم نے کاریتاس والوں سے کہا ہے کہ وہ ہمیں سلائی کا کام بھی سکھائیں‘۔

    خواتین کیسے گزارا کرتی ہیں؟

    اس سفر کا حاصل سفر ثمینہ محمد علی سے ملاقات رہی۔ ثمینہ مڈل پاس اور گاؤں کی لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں۔ وہ یہیں کی رہائشی ہیں اور ان کی ذہانت کی بدولت حکومت کی جانب سے انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

    ثمینہ محمد علی

    انہوں نے بتایا کہ وہ گاؤں والوں کی کھانسی اور بخار جیسی بیماریوں کا علاج کردیتی ہیں جبکہ پولیو مہم کے دوران وہ گھر گھر جا کر پولیو پلانے کا کام بھی انجام دیتی ہیں۔

    انہیں ادویات صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے بھجوائی جاتی ہیں مگر اکثر اوقات اس میں تاخیر ہوجاتی ہے اور وہ خود ہی ماڑی پور جا کر اپنے پیسوں سے دوائیں خرید لاتی ہیں۔

    اس سے قبل حمیدہ بی بی بتا چکی تھیں کہ گاؤں میں کوئی باقاعدہ اسپتال نہیں، اور خواتین کی زچگی کے لیے پورے گاؤں میں صرف ایک دائی موجود ہے۔ نارمل ڈلیوری گھر پر ہی ہوجاتی ہے البتہ کسی پیچیدگی کی صورت میں شہر جانا پڑتا ہے۔ قریب ترین شہر ماڑی پور ہے جہاں کا زیب النسا اسپتال ان گاؤں والوں کا سہارا ہے۔

    کئی بار ایسا بھی ہوا کہ گاڑی کا بندوبست کرنے میں اتنی دیر لگی کہ اسپتال جاتے ہوئے راستے میں ہی بچے کی ولادت ہوگئی۔

    اس حوالے سے ثمینہ نے بتایا کہ کئی بار حکومت کی جانب سے انہیں ٹریننگ دینے کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے منع کردیا۔ ’میری ہمت نہیں ہوتی اتنا بڑا کام کرنے کی، اس لیے میں نے منع کردیا‘۔

    البتہ ضرورت کے وقت ثمینہ گاؤں میں موجود دائی زرینہ کی مدد ضرور کرتی ہیں۔ ان کا گھر ایک چھوٹی سی ڈسپنسری معلوم ہوتا ہے جہاں انہوں نے ویٹ مشین بھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ بچوں اور خواتین کا وزن کرتی ہیں اور حمل کے دوران خواتین کو مشورے بھی دیتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس خاندانی منصوبہ بندی کا سامان بھی ہے۔ کیا لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی بھی ہے؟ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ گاؤں کے کئی لوگ انہیں استعمال کرتے ہیں۔ ’لوگوں کو شعور ہے اس بارے میں‘۔

    یہی نہیں سال میں اگر کوئی خصوصی مہم جیسے انسداد ڈینگی یا انسداد خسرہ مہم چلائی جاتی ہے تو گاؤں والے بھرپور تعاون کرتے ہیں۔

    رخصت ہوتے وقت ثمینہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کسی حکومت کے محکمہ سے آئی ہوں؟ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں اے آر وائی نیوز کی نمائندہ ہوں تو ان کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ انہوں نے جوش سے بتایا، ’ہم بہت شوق سے اے آر وائی دیکھتے ہیں‘۔

    بعد ازاں جب ان کے گھر کی ایک خاتون نے میرے متعلق دریافت کیا تو ثمینہ نے انہیں بتایا، ’اماں یہ آے آر وائی سے آئی ہیں۔ اپنا اے آر وائی، جو ہم روز دیکھتے ہیں‘۔

    غالباً گاؤں والوں کی واحد تفریح اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈرامے ہی تھے۔

    سندھ کے بے شمار دیہاتوں کی طرح سومار گوٹھ بھی ایک محروم گاؤں ہے۔ سندھ میں لاتعداد گاؤں ایسے بھی ہیں جو بنیادی سہولتوں سے اس حد تک محروم ہیں کہ وہاں جا کر آپ خود کو پندرہویں صدی میں محسوس کرتے ہیں۔ اس بات پر یقین کرنا ذرا مشکل ہے کہ یہ گاؤں ترقی کر کے جلد جدید دنیا کے ساتھ آ کھڑا ہوگا لیکن گاؤں والوں کے دل خوش فہم کو امیدیں باقی ہیں، اور یہی ان کے جینے کا سہارا ہیں۔

  • ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    ماہ رمضان اور سمندر کنارے گاؤں والوں کی مشکلات

    کراچی: آپ کے گھر کے پیچھے ایک خوبصورت، صاف ستھرا، نیلا سمندر بہتا ہو، تو آپ کو کیسا لگے گا؟

    کراچی جیسے شہر میں جہاں سال کے 10 مہینے گرمی، اور اس میں سے 6 مہینے شدید گرمی ہوتی ہو، ایسی صورت میں تو یہ نہایت ہی خوش کن خیال ہے۔

    اور اگر آپ اس سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرسکتے ہوں، تو پھر آپ کو اس جگہ سے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن ایسا آپ سوچتے ہیں، اس سمندر کنارے رہائش پذیر افراد نہیں۔۔

    کیماڑی سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سومار گوٹھ کا پہلا منظر تو بہت خوبصورت لگتا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، گاؤں کی پشت پر بہتا صاف ستھرا نیلا سمندر، لیکن جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں، تو بھوک اور غربت کا عفریت پوری طرح سامنے آتا جاتا ہے۔

    صرف 83 گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں میر بحر (مچھلی پکڑنے والے) ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ان کا بنیادی پیشہ مچھلی پکڑنا اور اسے بیچ کر اپنی روزی کمانا ہے۔ لیکن گاؤں کی رہائشی 45 سالہ حمیدہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو مچھلی کھائے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

    ’ہم ترس گئے ہیں مچھلی کھانے کے لیے، جتنی بھی مچھلی ہاتھ آتی ہے وہ ہم بیچ دیتے ہیں۔ اس رقم سے تھوڑا بہت گھر کا سامان آجاتاہے جس سے پیٹ کی آگ بجھا لیتے ہیں۔ مچھلی کھانے کی عیاشی کدھر سے کریں‘۔

    گاؤں والے سمندر سے جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے 20 سے 30 روپے فی کلو بیچتے ہیں۔ شہروں میں یہی مچھلی 400 سے 500 روپے کلو بکتی ہے۔ شہر لے جا کر بیچنے کے سوال پر حمیدہ بی بی نے بتایا کہ گاؤں سے شہر آنے جانے میں اتنا کرایہ خرچ ہوجاتا ہے کہ 500 کلو مچھلی کی فروخت بھی کوئی فائدہ نہیں دیتی۔ لہٰذا وہ گاؤں کے اندر ہی اسے بیچتے ہیں۔

    لیکن گاؤں والے آج کل اس سے بھی محروم ہیں۔ سمندر میں بلند لہروں کی وجہ سے 4 مہینے (مئی تا اگست) مچھیرے سمندر میں نہیں جا سکتے اور بقول حمیدہ بی بی یہ 4 مہینے ان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔

    ’گاؤں سے باہر کے لوگ آ کر ان دنوں میں تھوڑا بہت راشن دے جاتے ہیں جس سے کسی حد تک گزارہ ہوجاتا ہے‘۔

    پچھلے کچھ عرصے سے انہی دنوں میں رمضان آرہا ہے جس سے گاؤں والوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ’افطار میں کبھی کچھ کھانے کو ہوتا ہے، کبھی صرف پانی سے روزہ کھولتے ہیں‘، حمیدہ بی بی نے بتایا۔

    ’ان دنوں میں کھانے پینے کی اتنی مشکل ہوجاتی ہے کہ ہم بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ہیں تاکہ وہ سارا دن کچھ نہ مانگیں‘۔

    ماہ رمضان میں جہاں لوگوں کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ رمضان میں صحت مند غذا کھاتے ہیں، اس گاؤں کے لوگ اپنی روزمرہ غذا سے بھی محروم ہیں۔ ’کبھی کبھار مہینے میں ایک آدھ بار گوشت، یا پھل کھانے کو مل جاتا تھا، لیکن پابندی کے موسم میں تو ان چیزوں کے لیے ترس جاتے ہیں۔ کبھی کوئی آکر دال، آٹا دے جاتا ہے تو اسی سے گزارا کرتے ہیں‘۔

    گاؤں میں ایک بہت بڑا مسئلہ پانی کا بھی ہے۔ سمندر کنارے واقع یہ گاؤں پینے کے پانی سے محروم ہے۔ حمیدہ بی بی نے بتایا کہ وہ لوگ پانی نہ ہونے کے باعث کئی کئی ہفتہ نہا نہیں پاتے۔ پانی سے روزہ کھولنے کے لیے بھی بعض دفعہ پانی نہیں ہوتا۔

    گاؤں میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’کاریتاس‘ کے پروجیکٹ ہیڈ منشا نور نے اس بارے میں بتایا کہ پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے ہینڈ پمپس لگوانے کا سوچا۔ لیکن ان ہینڈ پمپس سے سمندر کا کھارا پانی نکل آیا۔ چنانچہ اب وہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹینکس پر کام کر رہے ہیں۔

    سومار گوٹھ قومی اسمبلی کے حلقہ 239 میں آتا ہے جو پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل کا حلقہ ہے۔ وہ 2008 کے الیکشن میں یہاں سے فتح یاب ہو کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکے ہیں۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ قادر پٹیل الیکشن کے بعد تو کیا آتے، وہ تو کبھی ووٹ مانگنے بھی یہاں نہیں آئے۔

    ان کی جانب سے کچھ لوگ آکر گاؤں کے وڈیرے سے ملتے ہیں، اور پھر وڈیرے کے حکم پر گاؤں والوں کو قادر پٹیل کو ہی ووٹ دینا پڑتا ہے۔

    ’ہمیں کبھی کسی نے پوچھ کر نہیں دیکھا، نہ کوئی حکومت کا کارندہ، نہ کوئی این جی او کبھی ادھر آئی‘، حمیدہ بی بی نے اپنے پلو سے آنسو صاف کرتے ہوئے بتایا۔ ’ان 4 مہینوں میں ہم فاقے کرتے ہیں۔ کبھی پانی بہت چڑھ جاتا اور سمندر کنارے واقع ہمارے گھر ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ہم اپنی مدد آپ کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔

    گاؤں کے لوگ یوں تو سارا سال ہی غربت کا شکار رہتے ہیں، مگر ان 4 مہینوں میں ان کی حالت بدتر ہوجاتی ہے اور وہ امید نہ ہونے کے باوجود فشریز ڈپارٹمنٹ، حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔