Category: پاکستان

پاکستان اردو نیوز

ملک پاکستان میں اے آر وائی نیوز کی جانب سے آنے والی تازہ ترین خبریں

Pakistan Urdu News- Daily Pak Urdu News

  • ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    ہیٹ ویو اور روزہ ۔ علما کیا کہتے ہیں؟

    کراچی: گزشتہ برس کراچی میں ماہ رمضان میں پڑنے والی شدید گرمی سے 1 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے۔ گرمی کی یہ شدید لہر جسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے، موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کا ایک نتیجہ تھا۔

    شہر کراچی میں درختوں کی کٹائی، بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر، دن بدن فیکٹریوں اور صنعتوں میں اضافہ اور ان سے نکلنے والے دھویں نے اس شہر کو ساحلی شہر ہونے کے باوجود گرم ترین شہر میں تبدیل کردیا ہے۔

    یہ تبدیلی بہ مشکل 2 عشروں میں وجود میں آئی۔ کراچی والوں کو اب بھی وہ دن یاد ہیں جب شہر میں ہر وقت سمندر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور موسم معتدل رہتا تھا۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    گزشتہ برس آنے والی ہیٹ ویو کراچی والوں کے لیے ایک نئی بات تھی۔ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ایسی صورتحال بھی پیش آسکتی ہے اور ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیئے۔ ہوش و حواس بحال ہونے تک 1 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ 36 ہزار سے زائد افراد اسپتالوں میں داخل ہوگئے۔

    رواں برس کا آغاز ہوتے ہی محکمہ موسمیات اور موسمیاتی ماہرین نے خبردار کردیا کہ یہ ہیٹ ویو دوبارہ آئے گی۔ نہ صرف کراچی میں بلکہ پورے ملک میں ایسی ہی شدید گرمی کی لہریں آئیں گی اور ایک نہیں کئی لہریں آئیں گی جو پورے موسم گرما میں جاری رہیں گی۔

    خوش آئند بات یہ ہوئی کہ موسم گرما کے آغاز سے قبل ہی صوبائی و شہری حکومت متحرک ہوگئی۔ بڑے پیمانے پر ہیٹ ویو کے نقصانات سے بچنے کے انتظامات کر لیے گئے۔ پورے شہر میں ہیٹ ریلیف سینٹرز قائم کردیے گئے۔ کئی غیر حکومتی تنطیموں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور جگہ جگہ پانی کے اسٹالز اور سایہ دار جگہیں قائم کردیں۔ مارچ اور اپریل میں 400 سے زائد رضا کاروں کو ہیٹ ویو کا شکار افراد کو ہنگامی طبی امداد دینے کی تربیت دی گئی۔

    مزید پڑھیں: کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    ہیٹ ویو سے قبل آگہی مہم بھی بھرپور انداز میں چلائی گئی۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ نے اندرون سندھ بڑی تعداد میں پمفلٹس تقسیم کیے۔ الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بھی بھرپور آگہی دی گئی یوں گزشتہ برس کی 1000 ہلاکتوں کے مقابلے میں رواں برس اب تک صرف 2 افراد کی ہلاکت دیکھنے میں آئی۔

    رواں برس ماہ رمضان کے آغاز سے ہی محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو سے بھی خبردار کردیا اور یوں شدید گرمی میں روزے رکھ سکنے یا نہ رکھنے کا مسئلہ سامنے آگیا۔ گزشتہ برس بھی علما کی جانب سے روزے میں آسانی کا فتویٰ جاری کیا گیا تھا۔ شدید گرمی میں روزوں کے بارے میں کیا حکم ہے، اس بارے میں ہم نے مختلف علما سے رائے لی۔

    مزید پڑھیں: ناگپور میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کی انوکھی تدبیر

    مختلف مکتبہ فکر کے علما کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایسے افراد جن کی حالت اتنی خراب ہو کہ جان جانے کا خطرہ ہو، روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔

    پاکستان علما کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی کا اس بارے میں کہنا ہے، ’ڈاکٹرز کے مطابق اگر شدید گرمی سے آپ کی جان جانے کا خدشہ ہو، یا جسمانی طور پر آپ بدتر حالت میں ہوں اور روزہ رکھنے سے اس میں مزید خرابی کا اندیشہ ہو، تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ رمضان میں شدید گرمی کی لہر آنے کی صورت میں کونسل کی جانب سے روزے میں لچک کی ہدایت بھی جاری کردی جائے گی۔

    کیو ٹی وی کے پروگرام ’آسک مفتی‘ میں علامہ لیاقت حسین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’قرآن میں لکھا ہے، ’اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘ اگر جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ چھوڑا جا سکتا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا، ’جہاں تک ہیٹ ویو کا تعلق ہے تو اس کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مثلاً دھوپ میں گھر سے نہ نکلیں، زیادہ مشقت والا کام نہ کریں۔ پھر بھی اگر جسمانی حالت اس قابل نہ ہو کہ سارا دن بھوکے پیاسے رہ کر نہ گزارا جا سکے تو روزہ چھوڑ دیں، اور بعد میں اس کا کفارہ دے دیں‘۔

    البتہ انہوں نے صرف ’گمان‘ کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ ’یہ سوچنا کہ تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود میں روزہ رکھنے کے قابل نہیں، غلط ہے اور یہ جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے کے مترادف ہے‘۔

    گرمی کے باعث اگر طبیعت خراب ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس بارے میں رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے بتایا، ’جہاں تک برداشت ہوسکے روزہ کو نہ توڑا جائے، لیکن اگر برداشت سے باہر ہوجائے، انسان بے ہوش ہونے لگے تو اس صورت میں روزہ توڑا جا سکتا ہے۔ اس روزہ کی قضا ہوگی، کفارہ نہیں ہوگا‘۔

    واضح رہے کہ کراچی میں پچھلے 2 دن سے درجہ حرارت 40 کے قریب ہے۔ موسم گرما کے آغاز سے ہی سندھ کے جنوبی حصوں جیکب آباد، لاڑکانہ اور موہن جو دڑو میں درجہ حرارت 52 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزہ دار اس موسم میں مشروبات اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور مرغن اور چکنائی والی غذاؤں سے پرہیز کریں۔

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

  • دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    کراچی: ماہرین کے مطابق دنیا کا مستقبل 5 ’پیز‘ پر مشتمل ہے۔ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک۔ یہ 5 ’پی‘ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف یعنی سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کا حصہ ہیں اور تمام اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی جامعہ این ای ڈی میں سسٹین ایبل ترقیاتی اہداف پر تربیتی ورکشاپ منعقد ہوئی۔ ورکشاپ میں تمام شعبہ جات کے ماہرین، این جی اوز کے نمائندے، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا اراکین نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    اس موقع پر شہری ترقیاتی امور کے ماہر فرحان انور نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے بارے میں بتایا کہ اقوام متحدہ نے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد اب سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان اہداف کو 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    ورکشاپ میں کراچی کی ہیٹ ویو بھی موضوع بحث رہی۔ ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کا حصہ ہے۔ کلائمٹ چینج اور ماحولیات کا تعلق سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں سے پلینٹ یعنی کرہ ارض سے ہے۔ اس موقع پر پیرس میں ہونے والی کلائمٹ ڈیل بھی زیر بحث آئی جس میں عالمی درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ کرنے پر 195 ممالک نے اتفاق کیا۔ یہ ڈیل بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت، ماحولیاتی نقصانات، اس کی وجہ سے قدرتی آفات اور قحط یا خشک سالی جیسے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    تمام ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ اس ڈیل پر ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد شروع کیا جائے اس سے پہلے کہ ماحولیاتی نقصانات شدید ہوتے جائیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پیس دراصل عالمی بھوک، وسائل کی کمی، قحط اور تعلیم کی کمی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ انہی کی عدم فراہمی شدت پسندی کو فروغ دیتی ہے اور القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ایسے ہی محروم لوگوں کو اپنا ہدف بنا کر ان کا برین واش کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    ترقیاتی اہداف میں شامل پروسپیرٹی ڈویلپمنٹ سیکٹر کا احاطہ کرتی ہے۔ پیپل یعنی لوگوں کے اہداف ان کی صحت، تعلیم اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف میں پارٹنرشپ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اب تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہے چاہے وہ ایشیا کے ہوں یا افریقہ کے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی افریقی ملک میں کوئی آفت آئے تو امریکہ یا ایشیا اس سے محفوظ رہے۔ تمام ممالک کو علاقائی سطح پر تعاون کر کے اپنے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔

  • اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو شاعری میں کلاسک کی حیثیت رکھنے والے اس شعر کے خالق حسرت موہانی کی آج 66 ویں برسی ہے۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    قیام پاکستان سے قبل جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار، انگریزوں کی غلامی کا دور اور اس کے بعد تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو اردو شاعری حسن و عشق کے قصوں کو چھوڑ کر قید و بند، انقلاب، آزادی اور زنجیروں جیسے موضوعات سے مزین ہوگئی۔ غزل میں بھی انہی موضوعات نے جگہ بنالی تو یہ حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے اردو غزل کا ارتقا کیا۔

    البتہ اس وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات سے وہ بھی نہ محفوط رہ سکے اور ان کی شاعری میں بھی سیاست در آئی۔ وہ خود بھی سیاست میں رہے۔ پہلے کانگریس کے ساتھ تھے پھر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

    حسرت موہانی ایک صحافی بھی تھے۔ 1903 میں انہوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردو معلیٰ بھی جاری کیا۔ 1907 میں ایک حکومت مخالف مضمون شائع ہونے پر انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

    ان کا یہ مشہور زمانہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔

    علامہ شبلی نعمانی نے ایک بار ان کے لیے کہا تھا۔ ’تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔‘ حسرت موہانی سے زیادہ متنوع شاعر اردو شاعری میں شاید ہی کوئی اور ہو۔

    حسرت کی شاعری سادہ زبان میں عشق و حسن کا بہترین مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔

    بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
    ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

    اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والا یہ شاعر 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں انتقال کر گیا۔

  • کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    کراچی ہیٹ ویو: اسے ہوّا مت بنائیں

    کراچی: جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا ہے کہ کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوّا بنانے کی ضرورت نہیں۔

    کراچی میں کلائمٹ چینج پر ہونے والے ایک مباحثہ میں کراچی کی ہیٹ ویو کو بھی موضوع بحث بنایا گیا۔ پینل ڈسکشن میں ایڈیشنل کمشنر شاہ زیب شاہ، ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی سمیت مختلف ماہرین نے شرکت کی۔

    آئی بی اے میں ہونے والے اس مباحثے کے موضوعات تو اور بھی تھے لیکن شرکا کی توجہ کراچی کی ہیٹ ویو رہی۔ اسسٹنٹ کمشنر شاہ زیب شاہ نے حکومتی اقدامات کے بارے میں بتایا کہ شہر بھر میں کئی مقامات پر ہیٹ اسٹروک ایمرجنسی سینٹرز قائم کیے جاچکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت اس حوالے سے طویل المدتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ اب درخت کٹنے پر ایکشن بھی لیا جارہا ہے اور ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔

    اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق سال 2015 میں ہیٹ ویو کراچی کے لیے بالکل نئی بات تھی۔ چنانچہ اسے سمجھنے اور اقدامات اٹھانے میں وقت لگا اور یوں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ ان کے مطابق اس سال ڈیزاسٹر ریلیف مینجمنٹ کو بھی ہیٹ ویو کے لیے تیار کیا گیا ہے جو پچھلے سال نہیں تھا۔

    شرکا کی جانب سے درخت کٹنے کے سوال پر انہوں نے آگاہ کیا کہ اس ضمن میں ایک ہیلپ لائن 1299 قائم کی جا چکی ہے جس پر اس قسم کی شکایات درج کروائی جاسکتی ہیں۔

    جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ کراچی میں آنے والی ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کے باعث اب ایک معمول کی بات ہوگی۔ اسے ہوا بنانے کی ضرورت نہیں۔ خوف مت پھیلائیں، آگہی پھیلائیں کہ لوگوں کو کیسے بچنا ہے۔

    ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق پچھلے سال کی نسبت اس سال لوگ آگاہ بھی ہیں اور انہوں نے خود ہی حفاظتی انتظامات اختیار کرنے شروع کردیے ہیں۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے بھی نہ صرف آگاہی و شعور پھیلایا جارہا ہے بلکہ عملی اقدامات بھی کیے گئے جیسے پانی کے اسٹالز لگانا اور عوامی جگہوں کو سایہ دار بنانا۔

    ماہر برائے موسمیاتی تبدیلی عباد الرحمٰن نے بتایا کہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں میں اخراج کا صرف 0.6 حصہ ہے۔ کلائمٹ چینج عالمی امن و امان کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور مستقبل میں یہ شدت پسندی میں کئی گنا اضافہ کرے گا۔

  • قائد اعظم محمد علی جناح کا 139 واں یوم ولات آج قومی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے

    قائد اعظم محمد علی جناح کا 139 واں یوم ولات آج قومی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے

    کراچی: بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا ایک سو انتالیس واں یوم ولات آج ملک بھر میں قومی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔

    قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد کا نام ہے، قائد اعظم محمد علی جناح پچیس دسمبر اٹھارہ سو چھیتر میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اٹھارہ سو بیاسی میں کیا، قائد اعظم اٹھارہ سو ترانوے میں اعلی تعلیم کے حصول کے لئے انگلینڈ روانہ ہوگئے جہاں آپ اعلی تعلیم حاصل کی، اٹھارہ سو چھیانوے میں قائد اعظم نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور وطن واپس آگئے ۔

    محمد علی جناح نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز انیس سو چھ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سے کیا تاہم انیس سو تیرہ میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی، آپ نے خودمختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کیے۔

    قائد اعظم کی قیادت میں برِّصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف برطانیہ سے آزادی حاصل کی، بلکہ تقسیمِ ہند کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔

    پچیس دسمبراٹھارہ سوچھیترکو کراچی میں جناح پونجا کے گھرجنم لینے والے بچے نے برصغیر کی نئی تاریخ رقم کی اور مسلمانوں کی ایسی قیادت کی جس کے بل پر پاکستان نے جنم لیا ، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

    قائداعظم محمد علی جناح ان میں سے ایک ہیں، قائد اعظم محمدعلی جناح کی زندگی جرات،انتھک محنت ،دیانتداری عزم مصمم ،حق گوئی کاحسن امتزاج تھی، برصغیر کی آزادی کے لئے بابائے قوم کامؤقف دو ٹوک رہا،  نہ کانگریس انہیں اپنی جگہ سے ہلا کسی نہ انگریز سرکار ان کی بولی لگا سکی ۔

    پاکستانیوں کے حوالے سے بھی ان کا وژن واضح تھا ، پچیس مارچ انیس سو اڑتالیس کو مشرقی پاکستان میں سرکاری افسران سے خطاب کے الفاظ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے، قائد اعظم نےسرکاری افسران کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ’ آپ کسی بھی فرقے ذات یا عقیدے سے تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں اب آپ پاکستان کے خادم ہیں، وہ دن گئے جب ملک پرافسرشاہی کاحکم چلتاتھا، آپ کواپنافرض منصبی خادموں کی طرح انجام دیناہے، آپ کو کسی سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیئے‘۔

    شیکسپیئرکا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت پاتے ہیں ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنی جدوجہد اور لازوال کارناموں کی بدولت عظمت کے میناروں کو چھوتے ہیں۔

    جہاں ایک طرف اقبال  نے اپنی انقلابی شاعری سے قوم کو جھنجوڑا وہاں آپ نے اپنی سیاسی بصیرت ،فہم و فراست اور ولولہ انگیز قیادت کے ذریعے ان کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر یکجا کیا۔ یوں پاکستان کا قیام جو بظاہر دیوانے کا خواب دکھائی دیتا تھا ممکن بنا۔

    تعمیر پاکستان بلاشبہ ایک مشکل مرحلہ تھا مگر تکمیل پاکستان اس سے بھی کٹھن کام ہے، آج بانی پاکستان کے یوم ولادت کے دن تجدید عہدکرتے ہیں کہ ہم ہر قسم کے نسلی ،مذہبی اور فرقہ ورانہ تعصبات سے بالاتر ہو کرصرف اورصرف ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کریں گے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب قائدکے افکا ر کو سمجھا جائے اور ان پر عمل کیا جائے۔

    ہم تو مٹ جائیں گے اے ارضِ وطن تجھ کو مگر

     زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک

  • اسلام آباد: پولیس اور رینجرز کا آپریشن،130مشتبہ افراد گرفتار

    اسلام آباد: پولیس اور رینجرز کا آپریشن،130مشتبہ افراد گرفتار

    اسلام آباد :  پولیس اور رینجر کےمشترکہ آپریشن میں ایک سو تیس مشتبہ افرادحراست میں لےلیےگئے۔

    سرچ آپریشن ایف الیون ، میرا آباد ی، آئی الیون کچی آبادی ، ایف بارہ ، آئی نائن ، فیض آباد اور کراچی کمپنی کے علاقوں میں کیا گیا، فیض آباد اور آئی نائن کے علاقوں سے ستر سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں لیاگیا، دیگر ملزمان کو اسلام آبا د کے دیگر حصوں سے گرفتار کیا گیا ہے، ملزمان کو مختلف تھانوں میں منتقل کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

  • پہلے ٹی ٹونٹی میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 136 رنز کا ہدف دیدیا

    پہلے ٹی ٹونٹی میں نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 136 رنز کا ہدف دیدیا

    دبئی: پاکستان کے خلاف پہلے ٹی ٹونٹی میچ میں نیوزی لینڈ نے 136 رنز کا ہدف دیدیا ہے۔

    میچ کا آغاز ہوا تو پاکستانی کپتان شاہد آفریدی نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر باؤلنگ کا فیصلہ کیا تو انور علی کے پہلے اوور کی دوسری گیند پر ہی کیوی کپتان ولیم سن کوئی رن بنائے بغیر پویلین لوٹ گئے۔ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئےکیویز نے مقررہ 20 اوورز میں7 وکٹوں کے نقصان پر135  رنز بنا ئے ۔نیوزی لینڈ کے اینڈرسن 48 رنز بنا کر نمایاں رہے جبکہ سہیل تنویر اور محمد عرفان نے دو، دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

  • وزیرا علیٰ سندھ کے حلقہ کے 13 ہزار ووٹ جعلی نکلے ، الیکشن کمیشن

    وزیرا علیٰ سندھ کے حلقہ کے 13 ہزار ووٹ جعلی نکلے ، الیکشن کمیشن

    الیکشن کمیشن نے وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کے حلقہ انتخاب پی ایس انتیس خیرپور کے تیرہ ہزار تین سو ارسٹھ ووٹ جعلی قرار دے دیے۔

    نادرا نے پی ایس انتیس خیر پور سے متعلق نادار کی تصدیقی رپورٹ جاری کردی، نادرا رپورٹ کے مندرجات اے آروائی نیوز نے حاصل کرلیے، نادرا کی تصدیقی رپورٹ کے مطابق پی ایس انتیس کے کل چھیاسی ہزار چورانوے ووٹ تصدیق کے لیے بھیجے گئے ، جن میں سے صرف سولہ ہزار چھہ سو سینتالیس ووٹ درست قرار پائے گئے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے تیرہ ہزار تین سو ارسٹھ ووٹ فنگر پرنٹ میچ نہ ہونے پر جعلی قرار دیے گئے،جبکہ چھپن ہزار اناسی ووٹوں کی تصدیق ہی نہ ہوسکی،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے کی وجہ غیر معیاری سیاہی کا استعمال ہے۔

  • سپریم کورٹ: الیکشن2013کالعدم کرنیکی درخواستیں مسترد

    سپریم کورٹ: الیکشن2013کالعدم کرنیکی درخواستیں مسترد

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن دو ہزار تیرہ کو کالعدم قرار دیئے جانے سےمتعلق درخواستیں مستردکردیں۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نےوکلا کےدلائل سُنے۔

    جس کے بعد اعلیٰ عدالت نے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے ثبوت فراہم کرنا نا ممکن ہیں۔.

    عدالت کو ایسے مقدمات کی سماعت کا اختیار حاصل نہیں۔ واضح رہے کہ مذکورہ درخواستیں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گیئں تھیں۔