Category: پاکستان الیکشن 2018

پاکستان میں الیکشن 2018 کا طبل بج چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت پہلی بار کامیابی سے 10 سال کا عرصہ تسلسل کے ساتھ گزار چکی ہے ۔ اس عرصے میں دو جمہوری حکومتوں نے اپنا دورِ اقتدار مکمل کیا۔ جمہوریت کے اس دوام سے عوام کی امیدیں بے پناہ بڑھ چکی ہیں ۔ اس سال ہونے والے انتخابات کو ایسا الیکشن قرار دیا جارہاہے جس کا پاکستان کے عوام کو شدت سے انتظار تھا۔

4جون 2018انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ریٹرننگ افسر کے پاس کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ تھی

11جون2018نامزد امیدواروں کی فہرست شائع کرنے کا دن تھا،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد کی فہرست جاری کردی۔

19جون2018امید واروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا آخری دن تھا،ریٹرننگ افسران نے ایف آئی اے، نیب ، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ایف بی آر کی مدد سے امید واروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل کی۔

22جون2018ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی قبول کرنے یا مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کا آخری دن تھا،وہ تمام امید وار جن کی اہلیت پر الیکشن کمیشن نے سال اٹھائے تھے، انہوں نے ای سی پی کی جانب سے تشکیل کردہ اپیلٹ ٹریبیونل میں اپیل دائر کی ۔ اپیلٹ ٹریبیونل، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھا۔

27جون2018امیدواروں کی جانب سے دائر کی جانے والی اپیلوں پر فیصلے کا آخری دن تھا۔اپیلٹ ٹریبیونل نے دائر کردہ درخواستوں کی اور ریٹرننگ افسران کی جانب سے رد کیے جانے والے امید واروں کی اپیل پر اپنا حتمی فیصلہ سنایا۔

28جون2018 کو الیکشن ٹریبیونل کی جانب سے جاری کردہ فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی ترمیم شدہ حتمی امیدواروں کی فہرست جاری کی۔

29جون2018کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے کا آخری دن تھا،وہ امید وار جو اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لینا چاہتے تھے انہوں نے اس کا نوٹس ریٹرننگ افسران کو دیا۔

30جون2018 کوالیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امید واروں کو انتخابی نشان جاری کردیے۔

25جولائی2018 کو ملک بھر میں 18 سال سے زائد عمر کے شہری اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے ، ان کا یہ ووٹ آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

  • بلوچستان میں جوڑے کے قتل کا  واقعہ، جوڈیشل مجسٹریٹ کا خاتون کی قبر کشائی  کا حکم

    بلوچستان میں جوڑے کے قتل کا واقعہ، جوڈیشل مجسٹریٹ کا خاتون کی قبر کشائی کا حکم

    کوئٹہ : جوڈیشل مجسٹریٹ نے بلوچستان غیرت کے نام پر شادی شدہ جوڑے کے قتل کے واقعے میں خاتون کی قبر کشائی کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جوڈیشل مجسٹریٹ نے بلوچستان میں جوڑے کے قتل کے واقعے میں پولیس کی درخواست پر مقتول خاتون کی قبرکشائی کا حکم دے دیا۔

    جس کے بعد قبر کشائی کیلئے ٹیم ڈیگاری پہنچ گئی اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی موجودگی میں قبر کشائی کا عمل شروع کردیا گیا۔

    میڈیکل لیگل ٹیم میں پولیس سرجن اور دیگر عملہ شامل ہے، قبرکشائی کے موقع پرسیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

    تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے قبرکشائی کے بعد مقتولہ کا پوسٹ مارٹم ہوگا۔

    مزید پڑھیں : بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کے قتل کا مقدمہ درج، اہم انکشافات

    یاد رہے گذشتہ روز بلوچستان میں پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا، فائرنگ کے دردناک مناظر کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوئی۔

    بتایا جاتا ہے میاں بیوی ڈیڑھ سال سے روپوش تھے، دونوں کو دعوت کے بہانے بلایا گیا، جرگے میں فیصلہ سنایا گیا اور پھر کھلے میدان میں لے جا کر گولیاں چلا دی گئیں۔

    وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے ایکس پر بتایا مقتولین کی شناخت ہوگئی ہے اور قاتل کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

    بعد ازاں بلوچستان میں میاں بیوی کے بہیمانہ قتل میں ملوث 11 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا، گرفتار شدگان میں ساتکزئی قبیلے کا سربراہ بھی شامل ہے

  • خواتین کے شناختی کارڈز پر غیر قانونی سمز ایکٹیو کرانے کا انکشاف

    خواتین کے شناختی کارڈز پر غیر قانونی سمز ایکٹیو کرانے کا انکشاف

    کراچی : پی ٹی اے کی خواتین کے شناختی کارڈز پر غیر قانونی سمز ایکٹیویشن کی نشاندہی پر نیشنل سائبرکرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم راشد ایوب کو گرفتار کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں نیشنل سائبرکرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے کارروائی کی ، حکام نے بتایا کہ پی ٹی اے نے خواتین کے شناختی کارڈز پر غیر قانونی سمز ایکٹیویشن کی نشاندہی کی۔

    این سی سی آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ سمز غیر قانونی طور پر فرنچائز میں فعال کی گئیں، کارروائی میں ایک ملزم راشد ایوب کو گرفتار کرکے ڈیجیٹل آلات اور مجرمانہ مواد برآمد کرلیا۔

    حکام نے کہا کہ مارچ میں 1069 سمز غیر قانونی طور پر ایکٹیویٹ کی گئیں، جس میں سے 895 سمز خواتین کے شناختی کارڈزپر جاری کی گئیں۔

    مزید پڑھیں : پی ٹی اے کا لاکھوں موبائل سمز بند کرنیکا فیصلہ

    این سی سی آئی اے کے مطابق فرنچائز مالک اور منیجربھی جرم میں ملوث پائےگئے تاہم گرفتار ملزم راشد ایوب کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش جاری، پی ٹی اےکی شکایت پرکارروائی کی گئی۔

    یاد رہے زائدالمیعاد شناختی کارڈز پر جاری 49 لاکھ سے زائد موبائل سمز بند کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    نادرا کی سفارش پر وزارت داخلہ نے پی ٹی اے کو کارروائی کی ہدایت جاری کردی گئی ہے ، منسوخ، زائدالمیعاد اور فوت شدگان کے شناختی کارڈز پر رجسٹرڈ سمز مرحلہ وار بند ہوں گی۔

  • لاہور : نوکری دلانے کے بہانے سے نوجوان کا گردہ نکال لیا گیا

    لاہور : نوکری دلانے کے بہانے سے نوجوان کا گردہ نکال لیا گیا

    لاہور : نوکری دلانے کے بہانے سے نوجوان کا گردہ نکال لیا گیا، متاثرہ نوجوان کے والد نے مقدمہ درج کرادیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے چوہنگ میں بھٹے پر کام کرنے والے نوجوان کاگردہ نکال لیا گیا، پولیس نے متاثرہ نوجوان کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا کہ وہاڑی کا رہائشی احسن علی مانگا منڈی میں بھٹہ پر کام کرتا تھا، ملزم نے احسن علی کو نوکری دلانے کے بہانے بلایا۔

    ملزم کالی کھنڈ نے ساتھیوں سےملکراحسن علی کونشہ آور بوتل پلائی، ملزم اور اس کےساتھیوں نےکلینک لیجا کراحسن کاگردہ نکالا۔

  • عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب

    عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ، تحریک انصاف ک سربراہ عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے وزیراعظم منتخب ہوگئے ہیں۔

    تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے ووٹنگ میں 176 ووٹ حاصل کیے جبکہ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف نے  96 ووٹ حاصل کیے۔


    لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ


     شام 5:38: عمران خان آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے وزیراعظم متخب ہوگئے

    شام 5:30: وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا عمل ختم ہوگیا، ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔

    شام 5:07:  شہباز شریف کی آخری لمحات میں پیپلز پارٹی کو منانے کی کوشش، بلاول بھٹو کی نشست پر گئے اور ووٹنگ میں حصہ لینے کی درخواست کی، لیگی رہنما بھی ساتھ موجود تھے، پیپلز پارٹی اپنے فیصلے پر برقرار

    شام 4:57:  ممبران رجسٹر میں اپنے نام کا اندراج کرکے دائیں اور بائیں پولنگ کے لیے مختص کی گئی  لابیوں میں جارہے ہیں ، دائیں ہاتھ والی لابی میں عمران خان کے حق میں ووٹنگ ہوگی اور بائیں ہاتھ کی لابی میں شہباز شریف کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔

    پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ارکانِ اسمبلی پولنگ کے عمل میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔

    شام 4:51: اسپیکر نے وزارتِ عظمیٰ کے امیداروں کےنام کا اعلان کیا، تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان اور مسلم لیگ ن کی جانب سے شہباز شریف میدان میں ہیں، ایوان کو ووٹنگ کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

    شام 4:41 : اسپیکر قومی اسمبلی نے ایوان کے ارکان کو وزیراعظم کے انتخاب کے لیے رائے دہی کے لیے مروجہ طریقہ کار سے آگاہ کیا، اور اس کے اصول و ضوابط بیان کیے۔

    شام 4:35: اسپیکر اسد قیصر نے گیلری میں موجود مہمانوں سے گزارش کی کہ نعرے بازی سے گریز کیا جائے ، اور گیلری کے راستے خالی کیے جائیں۔

    شام 4:26: اسپیکر اسد قیصر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ، ان کے آتے ہی تلاوت سے اجلاس کا آغاز ہوگیا

     سہ پہر3:39: تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف، اور پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے

     

    پاکستان کے وزرائے اعظم


    قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے رفیق نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیر اعظم نامزد کیا جنہوں نے 15اگست 1947 ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انہیں 16اکتوبر1951ء کو اس وقت کے کمپنی باغ اور آج کے لیاقت باغ راولپنڈی میں قاتل سید اکبرعلی نے گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

    ان کے بعد پاکستان کا دوسرا وزراعظم خواجہ ناظم ا لدین کو بنایا گیا جو اس وقت قائد کی وفات 1948ء کے باعث ان کے خالی ہونے والی نشست پر 14ستمبر1948ء کو بحثیت گورنر جنرل پاکستان مقرر ہوئے او رنوبزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد 19 اکتوبر1951ء کو ملک کے دوسرے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ان کی نرم دلی کے باعث حکومت کو بہت سے مشکل مسائل سے دوچار ہونا پڑا جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد نے 17اپریل1953ء کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا۔

    ان کی جگہ محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا جنہوں نے 18اپریل1953ء کو حلف اٹھایا۔ ان کا تمام عرصہ گورنر جنرل کے زیر سایہ اطاعت میں گزرا۔ وہ ایک ایسی حکومت تھی جس میں کوئی اسمبلی ہی نہیں تھی۔ ان کے دور میں ہی نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل پائی۔ اسمبلی منتحب ہونے پر وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نئی کابینہ بنانے میں ناکام ہونے پر 11اگست1955ء میں مجبوراً مستعفی ہو گئے۔

    پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر چوہدری محمد علی نے 11اگست کو ہی وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 12ستمبر1956ء تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے ہی دور میں مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین بنایا گیا۔ انہوں نے حکومت سے اختلافات کے باعث 8ستمبر کو استعفیٰ دے دیا۔

    ان کے بعد پانچویں وزیر اعظم کی حیثیت سے سید حسین شہید سہر وردی کو گورنر جنرل اسکندر مرزا نے نامزد کیا۔ انہوں نے 12ستمبر1956ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا لیکن گورنر جنرل اسکندر مرزا سے اختلافات اور ان کی بے ایمانی کے باعث کیونکہ اس نے 24اکتوبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی بجائے اسمبلی توڑ دی اور یوں ان کا دور ختم ہوا۔

    پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم کے طور پر اسماعیل ابراہیم چندریگر نے 18اکتوبر کو حلف اٹھایا وہ حکومتی جماعت سے اختلاف کے باعث گیارہ دسمبر1957 ء کو از خود مستعفی ہو گئے۔

    ان کے بعد 16 دسمبر1957 ء کو ملک فیروز خان نون نے ساتویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا۔ اسکند ر مرزا سے اختلافات شدید ہونے کے باعث ملک میں پارلیمانی نظام کو ختم کرتے ہوئے ملک فیروز خان نون کی حکومت ختم کرکے 8 اکتوبر کو ملک میں مارشل لانافذ کر دیا اور 1956 ء کا آئین منسوخ کر دیا۔ اس طرح وہ پاکستان کے پہلے پارلیمانی دور کے آخری وزیر اعظم بھی تھے۔

    آٹھ اکتوبر کو جنرل محمد ایوب خان جو اس وقت افواج پاکستان کے سربراہ تھے نے چیف ماشل لا ایڈمنسٹریٹر اور حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔ سربراہ مملکت کے طور پر اسکندر مرزا کو برقرار رہنے دیا۔ 24اکتوبر کو اسکندر مرزا نے جنرل محمد ایوب خان کو با ضابطہ طور پر پاکستان کا آٹھواں وزیر اعظم نامزد کر دیا ان کا یہ عہدہ 2نومبر 1958تک برقرار رہا۔ 2نومبر1958ء کو اسکندر مرزا کو جبراً ملک بدر کر دیا گیا اور ایوب خان نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھال لیا جو 25مارچ1969ء تک برقرار رہا۔ عوامی دباؤ اور احتجاج کے باعث انہوں نے مجبوراً عہدہ چھوڑ دیا۔ ان کی جگہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد یحیٰ خان نے لے لی اور نورالامین کو7دسمبر1971ء کو پاکستان کا نواں وزیر اعظم نامزد کیا گیا۔

    قومی اسمبلی کے انتخابات دسمبر1970 میں مکمل ہو چکے تھے، اس کے باوجود جنرل یحیےٰ خان نے اقتدار منتقل نہیں کیا۔ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے۔ جس کے باعث 16دسمبر1971کو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس طرح نورالامین 7دسمبر سے 22دسمبر تک پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔ صرف چودہ دن ان کی وزارت قائم رہ سکی۔

    اس کے بعد پاکستان کے دسویں وزیراعظم کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے 21دسمبر کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا اور ان کے ہی نامزد کردہ سربراہ افواج پاکستان ضیاء الحق 4اور 5جولائی1977ء کی درمیانی شب بھٹو حکومت کو ختم کرکے ملک میں ایک بار پھر ماشل لا نا فذ کر دیا اور نوے دن میں الیکشن کرانے کے اعلان کے باوجود ضیاالحق نے انتخابات مقررہ وقت پر نہ کرائے ۔

    سنہ 1985 ء میں غیر جماعتی الیکشن کرائے گئے جس کے بعد رکن قومی اسمبلی محمد خان جونیجو سے30مارچ1985ء کو بحثیت وزیر اعظم حلف لیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے29مارچ1988ء کو نہ صرف محمد خان جونیجو کو برطرف کر دیا بلکہ تمام اسمبلیاں بھی توڑ دیں۔

    پاکستان کے بارہویں وزیر اعظم کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2دسمبر1988ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔6اگست 1990ء کواس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم بے نظیر پر بدعنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات عائد کرکے نہ صرف انہیں بلکہ قومی و صوبائی اسمبلیاں بھی برخاست کر دیں۔

    ان کے بعد میاں محمد نواز شریف نے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے باعث بطور وزیر اعظم2نومبر 1990ء کو پاکستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا جو ان سے صدر غلام اسحاق خان نے لیا۔ میاں محمد نواز شریف کا پہلا دور حکومت اسحاق خان سے اختلافات کے باعث ان کی برطرفی پر 17اپریل1993ء کو اختتام پذیر ہوا۔

    سنہ 1993 انتخابات میں محترمہ بے نطیر بھٹو کے منتخب ہونے کے باعث19اکتوبر کو اقتدار محترمہ کو منتقل کر دیا۔ اس طرح بے نظیر بھٹو نے ایک بار پھر پاکستان کی 17 وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا لیکن خود ان کی پارٹی کے صدر فاروق احمد لغاری نے بد عنوانی اور کرپشن کے شدید الزامات لگا کر ان کی مدت پوری ہونے سے بہت پہلے انہیں اور ان کے ساتھ پارلیمنٹ کو بھی رخصت کر دیا ۔

    سنہ 1997 میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو دوسری مدت کیلئے سونپ کر رخصت ہوئے لیکن اکتوبر1999 ء میں میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف میں ہونے والے اختلافات نے انہیں اقتدار سے محروم کر دیا اور انہیں جبری طور پر حکومت سے نکال دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے الیکشن کراکر پارلیمنٹ تشکیل دی۔

    سنہ 2002 میں وزیراعظم ظفراﷲ جمالی کے نام وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال نکلا تاہم جلد ہی مسلم لیگ کی قیادت سے اختلاف کے باعث انہیں ہٹا کرمسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے مختصر مدت کے لیے وزیراعظم کے طور پرحلف لیا ۔

    ا سکے بعد شوکت عزیز نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا اور ساڑھے تین سال اقتدار میں رہنے اور اپنی مدت جو پارلیمنٹ سے مشروط تھی پوری ہونے پر رخصت ہوئے۔

    سنہ 2208 کے انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی 25مارچ2008ء سے 2012ء تک آئینی وزیر اعظم رہے۔ ان کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں جون2012ء میں نااہل قرار دیا جس کے بعد وہ عہدے پر برقرار نہ رہے۔

    گیلانی کی برطرفی سے اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے جو22جون2012ء سے2013ء تک اس عہدہ پر رہے۔

    نواز شریف وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے تین بار وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کی تا ہم تینوں بار وہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔تیسری بار وہ 5جون 2013ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔سپریم کورٹ نے پانامہ لیک اسکینڈل کیس میں انہیں62اور63کے تحت 28جولائی کو نااہل قرار دیا۔

    نواز شریف کی نا اہلی کے بعد قومی اسمبلی نے شاہد خاقان عباسی کو28ویں وزیراعظم کے طور پر یکم اگست2017ء کومنتخب کیا جو کہ اپنے عہدے کی مدت 31 مئی 2018 کو ختم کرکے رخصت ہوگئے۔

    نگراں وزرائے اعظم


    اس تمام عرصے میں حکومتوں کے خاتمے پر نگراں حکومتیں قائم ہوتی رہیں جن کی نگرانی کے لیے نگراں وزیر اعظم کا انتخاب کیا جاتا رہا ہے، اس عہدے پر سب سے پہلے غلام مصطفیٰ جتوئی فائز ہوئے ، اس کے بعد بلخ شیر مزاری، معین الدین قریشی، معراج خالد، محمد میاں سومرو، میر ہزار خان کھوسو، اور ناصر الملک بالترتیب فائز رہے۔

    نگراں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کا کام صرف یہ ہوتا تھا کہ ایک حکومت سے دوسری حکومت تک انتقالِ اقتدار کے عرصے میں ملک کا نظم و نسق سنبھالے رکھا جائے اور بروقت انتخابات کا انعقاف ممکن بنایا جائے۔

  • ملک بھر میں صدارتی الیکشن 4 ستمبر کو ہوگا

    ملک بھر میں صدارتی الیکشن 4 ستمبر کو ہوگا

    اسلام آباد : ملک بھر میں صدارتی الیکشن چار ستمبر کو ہوگا، کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ ستائیس اگست ہے۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی الیکشن کا شیڈول جاری کردیا، جس کے مطابق ملک بھر میں صدارتی الیکشن 4 ستمبر کو ہوگا۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 27اگست ہے، امیدواروں کی اسکروٹنی 29 اگست تک ہوگی جبکہ امیدوار کاغذات نامزدگی 30 اگست تک واپس لے سکیں گے۔

    ای سی کے مطابق امیدواروں کی حتمی فہرست 30 اگست کو جاری ہوگی، پولنگ پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی،پولنگ صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی۔

    خیال رہے صدر کی آئینی مدت 9 ستمبر 2018 کو پوری ہوگی ، صدر کی آئینی مدت پوری ہونے سے 30دن قبل انتخابات کرانے ہوتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات کے حوالے آئینی تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں، عام انتخابات میں تاخیر کی وجہ سے صدارتی انتخابات کے لیے وقت کم ہے۔

    نئی اسمبلیاں ملک کے 13ویں صدر کا انتخاب کریں گی۔

  • اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی سے ہوگا، گورنرہاؤس کو تعلیمی ادارہ بنائینگے، عمران اسماعیل

    اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی سے ہوگا، گورنرہاؤس کو تعلیمی ادارہ بنائینگے، عمران اسماعیل

    کراچی : تحریک انصاف کے رہنما اور نامزد گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ لیڈر آف اپوزیشن پی ٹی آئی کا ہی ہوگا، تاہم نام کا اعلان مشاورت سے ہوگا، گورنرہاؤس کو تعلیمی ادارہ بنائیں گے۔

    یہ بات انہوں نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، عمران اسماعیل نے کہا کہ کراچی دس سال میں بہت پیچھے چلا گیا ہے، کرپشن کے خاتمے کے بغیر ملک میں ترقی ممکن نہیں ہے، ہماری کوشش ہوگی ترقیاتی منصوبوں میں پیپلزپارٹی بھی ہمارا ساتھ دے، پی ٹی آئی کراچی کے مسائل کا حل چاہتی ہے.

    گورنرہاؤس کو تعلیمی ادارہ بنائیں گے، گورنر ہاؤس کا صرف آفس استعمال کیا جائے گا، میں وہاں رہائش اختیارنہیں کروں گا، ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میئر کراچی کو اپنے ہمراہ ساتھ لے کر چلیں گے تاکہ سندھ کو تمام صوبوں سے زیادہ ترقی یافتہ بنا سکیں، میئر سے لے کر کونسلر تک اختیارات کی منتقلی یقینی بنائیں گے، کوشش ہوگی حکومت کے اخراجات کم سے کم کریں.

    کراچی کے ہر منصوبے کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایاجائے گا، صحافی برادری سے بھی اپیل ہے کہ وہ بھی منصوبوں پر کڑی نگاہ رکھیں اور کسی قسم کی بدعنوانی کی نشاندہی کریں۔

    کرپشن کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے اور رہے گی۔عمران خان کے وژن کے مطابق شفافیت کو یقینی بنایا جائیگا، عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ کراچی کی عوام نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے، سندھ اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن پی ٹی آئی کا ہی ہوگا، اپوزیشن لیڈر کے نام کا اعلان آج پارٹی مشاورت کے بعد ہوگا۔

  • ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایوان میں تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا

    ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایوان میں تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا

    لاہور : پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں ٹف ٹائم دینے کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی اکٹھے ہوگئے، ایوان میں حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے سر جوڑ لیے۔

    تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کی تشکیل کے بعد ایوان میں اپوزیشن نے بھی ٹف ٹائم دینے کے لیے تیاریاں شروع کردی ہیں۔

    اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے پی پی رہنما سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور یوسف رضا گیلانی نے ملاقات کی،رہنماؤں کی ملاقات میں آئندہ کی حکمت عملی طے کی گئی۔

    پیپلزپارٹی کے وفد میں ان دونوں شخصیات کے ہمراہ قمرالزمان کائرہ جبکہ ن لیگ کی جانب سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایازصادق، مشاہد حسین سید، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، رانا تنویر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی موجود تھے ،ملاقات میں مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

    مزید پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج میں‌ چیف جسٹس کے خلاف نازیبا کلمات، مقدمہ درج

    بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ن لیگی رہنما رانا تنویر نے کہا کہ جو ہونا تھا ہوگیا، اب تحریک انصاف کو ایوان میں لگ پتہ جائے گا۔

    یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکومت سازی کے لئے نمبر گیم پورے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

  • اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج میں‌ چیف جسٹس کے خلاف نازیبا کلمات، مقدمہ درج

    اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج میں‌ چیف جسٹس کے خلاف نازیبا کلمات، مقدمہ درج

    اسلام آباد: الیکشن میں شکست کا سامنا کرنے والی سیاسی جماعتوں کے احتجاج میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال پر انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز انتخابات 2018 میں تحریک انصاف کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے دوچار جماعتوں کے رہنماؤں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مرکزی دفتر کے باہر احتجاج کیا تھا۔

    مظاہرین نے چیف جسٹس کے خلاف نعرے لگائے اور نازیبا الفاظ استعمال کیے جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔

    مقدمے میں امتیاز راجہ اور گوثر گیلانی کو نامزد کیا گیا جبکہ ایف آئی آر کےمتن میں کہا گیا ہے کہ نازیبا الفاظ کی ویڈیو حاصل کرلی گئی ہے جس کی مدد سے نعرے لگانے والے دیگر مظاہرین کی شناخت کی جائے گی۔

    مزید پڑھیں: ہمارا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن مستعفی ہو: شیری رحمٰن

    واضح رہے کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے۔

    قبل ازیں اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا تھا کہ ’تمام جماعتیں الیکشن کو مسترد کرتی ہیں اور ہم دوبارہ انتخابات کے لیے تحریک چلائیں گے‘۔

    دوسری جانب عمران خان نے قوم سے کیے جانے والے پہلے خطاب میں پہلے ہی مخالفین کو پیش کش کی کہ وہ حلقوں کی نشاندہی کریں حکومت انہیں ہر صورت کھولے گی۔

  • پاکستان تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں 180ممبران کی حمایت کا دعویٰ

    پاکستان تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں 180ممبران کی حمایت کا دعویٰ

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کی مرکز میں پوزیشن مضبوط ہوگئی اور قومی اسمبلی میں ایک سو اسی ممبران کی حمایت کا دعویٰ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنما فوادچوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ پی ٹی آئی اوراتحادیوں کا قومی اسمبلی میں نمبر180 کراس کرگیا، حتمی اکثریت کےلیے172ارکان کی حمایت درکار تھی، تحریک انصاف کووفاق میں بڑی کامیابی بی این پی(مینگل) کی حمایت کے بعد ملی۔

    گزشتہ روز کوئٹہ میں پی ٹی آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی میں چھ نکاتی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا، تحریک انصاف کو مرکز میں ق لیگ،ایم کیو ایم پاکستان ، جی ڈی اے، بی اے پی ،جمہوری وطن پارٹی، عوامی مسلم لیگ سمیت آٓزار اراکین کی بھرپور حمایت حاصل ہوگئی ہیں۔


    مزید پڑھیں : مذاکرات کام یاب: بلوچستان نیشنل پارٹی وزارتِ عظمیٰ کے لیے عمران خان کی حمایت کرے گی


    اختر مینگل کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ساتھ دو دن سے رابطے میں ہوں، اب بلوچستان کے لوگوں کے زخموں کو بھرنے کا وقت آ گیا، پی ٹی آئی بلوچستان کا احساسِ محرومی ختم کر سکتی ہے۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ دیرینہ مسائل حل کرنے کیلئے نیک نیتی سے معاہدہ کیا ہے، پی ٹی آئی وفاق کی علامت ہے، وفاقی سوچ لے کر کوئٹہ آئے، سی پیک قومی منصوبہ ہے، بلوچستان کی اہمیت تبدیل ہو جائے گی، تمام فیصلے مشترکہ اتفاق رائے سے ہوں گے۔

    واضح رہے کہ وزارت عظمی کے لئے 172 اراکین کی حمایت درکار ہوگی، پہلے مرحلے میں مطلوبہ اکثیرت حاصل نہ ہونے پر قائد ایوان کا دوبارہ الیکشن ہوگا، ایوان میں موجود اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل کرنے پرقائد ایوان منتخب ہو جائے گا۔

  • قائد اعظم کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ پنجاب سے آج تک، کون اس عہدے پررہا

    قائد اعظم کے نامزد کردہ وزیراعلیٰ پنجاب سے آج تک، کون اس عہدے پررہا

    ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے تحریک انصاف آئندہ دو روز میں اپنی جانب سے نامزد کردہ امیدوار کے نام کا اعلان کرے گی، یاسمین راشد اور علیم خان کے نام وزارتِ اعلیٰ کے لیے سرخیو ں کی زینت بنے ہوئے ہیں، دیکھتے ہیں کون کب اس عہدے پر فائز رہا۔

    تحریک انصاف کااپارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج عمران خان کی صدارت میں منعقد ہواہے ، وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے یاسمین راشد یا علیم خان کا نام پر زیرغور ہے تاہم کوئی نیا چہرہ بھی اس عہدے کے لیے منتخب ہوسکتا ہے۔اجلاس میں اسپیکراورڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے امیدواروں کے لئے بھی ناموں پر غور ہوگا۔

    آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کون اس عہدے پر کتنی مدت کے لیے براجمان رہا ہے۔ پنجاب کے پہلے وزیراعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ تھے جنہیں قائد اعظم نے وزارتِ اعلیٰ کے لیے نامزد کیا تھا۔

    افتخارحسین خان ممدوٹ:

    نواب افتخارحسین خان ممدوٹ پنجاب سے تعلق رکھنے والےسیاستدان تھے، وہ 15 اگست 1947ءسے 25 جنوری 1949ءتک پنجاب کےپہلےوزیراعلیٰ رہے،انہیں قائداعظم محمدعلی جناح نےوزیراعلیٰ مقررکیاتھا۔

    میاں ممتاز دولتانہ:

    15 اپریل 1951 سے 3 اپریل 1953 تک میاں ممتاز دولتانہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، وہ تحریک پاکستان کے سرگرم رکن رہے جنہوں نے قائد اعظم کے ساتھ مل کر پاکستان کے حصول کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔

    ملک فیروز خان نون:

    3 اپریل 1953 سے 21 مئی 1955 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، آپ پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے، اعلیٰ تعلیم انگلستان سے حاصل کی، بعد ازاں ملک کے اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    عبد الحمید خان دستی:

    عبدالحمیدخان دستی 21 مئی 1955ءسے 14 اکتوبر 1955ءتک وزیراعلیٰ پنجاب رہے، امجدحمیدخان دستی ان کےصاحبزادےتھے، عبدالحمیدخان دستی 1895 میںمظفرگڑھ میں پیداہوئے۔

    ملک معراج خالد:

    2 مئی 1972 سے 12 نومبر 1973 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، معراج خالدپیپلزپارٹی میں شامل ہونےوالےابتدائی لوگوں میں شامل تھےاورپیپلزپارٹی کےٹکٹ پرلاہورسے 1970ءکےانتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

    غلام مصطفیٰ کھر:

    12 نومبر 1973 سے 15 مارچ 1974 تک وزیر اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا، پنجاب سے تعلق رکھنے والے غلام مصطفیٰ پنجاب کے وزیر گورنر بھی رہ چکے ہیں۔

    حنیف رامے:

    حنیف رامے انیس سو بہترمیں پاکستان پیپلزپارٹی کےعہد میں وہ پہلےپنجاب حکومت میں مشیرخزانہ بنےاوربعد میں مارچ انیس سوچوہتر میں وزیراعلی ٰپنجاب منتخب ہوئے، وہ 15 مارچ 1975 سے 15 جولائی 1975 تک وزیر اعلیٰ رہے۔

    صادق حسین قریشی:

    15 جولائی 1975 سے 5 جولائی 1977 تک وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہے، وہ مارچ 1974ءتا 13 مارچ 1975صوبہ پنجاب کےگورنربھی رہے۔

    نواز شریف:

    میاں نواز شریف مسلم لیگ ن کے سابقہ قائد ہیں، وہ 9 اپریل 1985 سے 13 اگست 1990 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، نوازشریف تین بار 1990ءتا 1993ء، 1997ءتا 1999ءاورآخری بارء2013 تا 2017ءوزیراعظم پاکستان بھی رہے، انہیں کرپشن اور دیگر چارجز میں برطرف کیا گیا اور دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    غلام حیدر وائن:

    8 نومبر 1990 سے 25 اپریل 1993 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے، ان کا تعلق اس وقت کے اسلامی جمہوری اتحاد سے تھا، آپ پارٹی میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔

    منظور وٹو:

    غلام حیدر وائن کے بعد مسلم لیگ ج سے تعلق رکھنے والے منظور وٹو نے وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا، وہ 25 اپریل 1993 سے 19 جولائی 1993 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔

    منظور الہٰی:

    منظور الہٰی نگراں وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائن کے بعد بنے، وہ 19 جولائی 1993 سے 20 اکتوبر 1993 تک پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ رہے۔

    منظور وٹو:

    منظور وٹو نے دوسری بار وزارت اعلیٰ کا قلمدان سنبھالا جس کے بعد وہ 20 اکتوبر 1993 سے 13 ستمبر 1995 تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔

    سردار عارف نکئی:

    13 ستمبر 1995 سے 3 نومبر 1996 تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، قبل ازیں پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے اس کے علاوہ مختلف شعبوں کے وزیر بھی رہے، ان کا 20 فروری سن 2000 میں لاہور میں ہوا۔

    منظور وٹو:

    منظور وٹو اس بار پنجاب کے تیسری بار وزیر اعلیٰ بنے اور 3 نومبر 1996 سے 16 نومبر 1996 تک قلمدان اپنے پاس رکھا، وہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے، تعلق تو ان کا مسلم لیگ ج سے تھا لیکن انہوں نے بعد میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

    میاں افضل حیات:

    16 نومبر 1996 سے 20 فروری 1997 تک نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، ان کے تعلق پنجاب کے ضلع گجرات سے تھا، بعد ازاں انہوں نے دسمبر 2011 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔

    شہباز شریف:

    شہباز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر ہیں، وہ پہلی بار 20 فروری 1997 سے 12 اکتوبر 1999 تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، شہبازشریف 1988ءمیں پنجاب صوبائی اسمبلی اور 1990ءمیں قومی اسمبلی پاکستان کےرکن بھی رہے، 1993ء میں پنجاب صوبائی اسمبلی کےرکن منتخب ہوئےاورقائدحزب اختلاف بھی نامزد کیے گئے تھے۔

    چوہدری پرویز الہٰی:

    چوہدری پرویز الہٰی بھی پاکستان کےسب سےبڑےصوبےپنجاب کے 2002ءسے 2007ءتک وزیراعلیٰ رہے، وہ پاکستان کےپہلےنائب وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں، وہ پاکستان مسلم لیگ ق کےاہم رہنمااورصوبائی صدربھی ہیں۔

    شیخ اعجاز نثار:

    چوہدری پرویز الہٰی کے بعد شیخ اعجاز نثار پنجاب کے نگراں وزیر اعلیٰ نامزد ہوئے، وہ 19 نومبر 2007 سے 11 اپریل 2008 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    دوست محمد کھوسہ:

    دوست محمد کھوسہ 2007 سے 2008 تک تین ماہ پنجاب کےوزیراعلیٰ رہے، 1999ءمیں اپنےوالدکی چھوڑی ہوئی نشست پرپنجاب اسمبلی کےرکن منتخب ہوئے، گزشتہ کئی سالوں تک وہ مسلم لیگ ن کےڈیرہ غازی خان کےصدربھی رہے ہیں۔

    شہبار شریف:

    شہباز شریف دوسری مرتبہ 8 جون 2008 سے 25 فروری 2009 تک وزیر اعلیٰ پنجاب رہے، وہ 1988ءمیں پنجاب صوبائیاسمبلی اور 1990ءمیں قومی اسمبلی پاکستان کےرکن بھی رہے۔ 1993ءمیں پنجاب صوبائی اسمبلی کےرکن منتخب ہوئےاورقائدحزب اختلافب ھی نامزد کیے گئے تھے۔

    2009ءمیں جب اس وقت کے صدرآصف علی زرداری نےگورنرراج کانفاذکرکےسلمان تاثیرکوگورنرپنجاب نامزدکیاتوشہبازشریف معزول ہوگئے،شریف برادران نےعدالت کی بحالی کےلیےیوسفرضاگیلانی کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیاجس کےنتیجے میں عدلیہ بحال ہوگئی اورگورنرراج ختم ہوگیا۔ گورنر راج ختم ہوا تو شہباز شریف بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب دوبارہ بحال ہوگئے اور 30 مارچ 2009 سے 26 مارچ 2013 تک وزیر اعلیٰ کے عہدے پر رہے۔

    نجم سیٹھی:

    نجم سیٹھی بحیثیت نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب 27 مارچ 2013 سے 7 جون 2013 تک رہے، نجم سیٹھی کی شہرت بطورصحافی ہے،مارچ 2013ءمیں انتخابات سےپہلےبطورنگران وزیراعلی ٰمقررہوئے،یوں پنجاب کے 16 ویں وزیراعلیٰ بنے۔

    شہباز شریف:

    پنجاب کی تاریخ میں تیسری بار شہباز شریف 8 جون 2013 کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنے اور مئی 2018 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    حسن عسکری:

    پنجاب کے موجودہ نگراں وزیر اعلیٰ حسن عسکری ہیں جنہوں نے مئی 2018 میں حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور پنجاب کے 18 ویں وزیراعلیٰ قرار پائے۔