Category: پاکستان الیکشن 2018

پاکستان میں الیکشن 2018 کا طبل بج چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اپنی اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت پہلی بار کامیابی سے 10 سال کا عرصہ تسلسل کے ساتھ گزار چکی ہے ۔ اس عرصے میں دو جمہوری حکومتوں نے اپنا دورِ اقتدار مکمل کیا۔ جمہوریت کے اس دوام سے عوام کی امیدیں بے پناہ بڑھ چکی ہیں ۔ اس سال ہونے والے انتخابات کو ایسا الیکشن قرار دیا جارہاہے جس کا پاکستان کے عوام کو شدت سے انتظار تھا۔

4جون 2018انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ریٹرننگ افسر کے پاس کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ تھی

11جون2018نامزد امیدواروں کی فہرست شائع کرنے کا دن تھا،الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند افراد کی فہرست جاری کردی۔

19جون2018امید واروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال کا آخری دن تھا،ریٹرننگ افسران نے ایف آئی اے، نیب ، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ایف بی آر کی مدد سے امید واروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل کی۔

22جون2018ریٹرننگ افسران کی جانب سے کاغذاتِ نامزدگی قبول کرنے یا مسترد کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل کا آخری دن تھا،وہ تمام امید وار جن کی اہلیت پر الیکشن کمیشن نے سال اٹھائے تھے، انہوں نے ای سی پی کی جانب سے تشکیل کردہ اپیلٹ ٹریبیونل میں اپیل دائر کی ۔ اپیلٹ ٹریبیونل، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے تشکیل دیا گیا تھا۔

27جون2018امیدواروں کی جانب سے دائر کی جانے والی اپیلوں پر فیصلے کا آخری دن تھا۔اپیلٹ ٹریبیونل نے دائر کردہ درخواستوں کی اور ریٹرننگ افسران کی جانب سے رد کیے جانے والے امید واروں کی اپیل پر اپنا حتمی فیصلہ سنایا۔

28جون2018 کو الیکشن ٹریبیونل کی جانب سے جاری کردہ فیصلوں کی روشنی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنی ترمیم شدہ حتمی امیدواروں کی فہرست جاری کی۔

29جون2018کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے کا آخری دن تھا،وہ امید وار جو اپنے کاغذاتِ نامزدگی واپس لینا چاہتے تھے انہوں نے اس کا نوٹس ریٹرننگ افسران کو دیا۔

30جون2018 کوالیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امید واروں کو انتخابی نشان جاری کردیے۔

25جولائی2018 کو ملک بھر میں 18 سال سے زائد عمر کے شہری اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے اپنی پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے ، ان کا یہ ووٹ آئندہ پانچ سال کے لیے پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

  • عوام میرا ساتھ دیں، پرامن پاکستان اور خوشحال بلوچستان چاہتا ہوں، بلاول بھٹو

    عوام میرا ساتھ دیں، پرامن پاکستان اور خوشحال بلوچستان چاہتا ہوں، بلاول بھٹو

    کوئٹہ : چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پرامن پاکستان اور خوشحال بلوچستان چاہتا ہوں، اقتدار میں آکر کسان کارڈ متعارف کرائیں گے۔

    یہ بات انہوں نے ہولوگرام ٹیکنالوجی کے ذریعے کوئٹہ میں کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہی، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی جب بھی اقتدار میں آتی ہے کسانوں، غریبوں اور مزدوروں کیلئے کام کرتی ہے، پیپلزپارٹی ہمیشہ ہم اقتدارمیں آکر کسان کارڈ متعارف کرائیں گے کیونکہ کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ ہم ملک سے بیروزگاری اور بھوک کا خاتمہ کریں گے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں توسیع کی جائے گی۔

    بلاول بھٹو نے بلوچستان کے عوام کو اپنا منشور پیش کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت بنانے کے بعد غربت مٹاؤ پروگرام پورے بلوچستان میں شروع کریں گے، بلوچستان کے عوام کو سندھ میں آکرعلاج کرانا پڑتا ہے،انہیں ان کے صوبے میں ہی صحت کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

    چیئرمین پیپلزپارٹی نے عوام سے اپیل کی کہ بلوچستان کےعوام نے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر شھید کا ساتھ دیا اب میرا ساتھ دیں، میں پرامن پاکستان اورخوشحال بلوچستان چاہتاہوں، پیپلزپارٹی کی اولین ترجیح ہے کہ بلوچستان کے مسائل ہوں۔

  • ایم ایم اے حکومت میں آئی تو ملک سے کرپشن ختم ہوجائے گی، مولانا فضل الرحمان

    ایم ایم اے حکومت میں آئی تو ملک سے کرپشن ختم ہوجائے گی، مولانا فضل الرحمان

    اسلام آباد : متحدہ جلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ایم ایم اے حکومت میں آئی تو ملک سے کرپشن ختم ہوجائے گی، مخصوص طبقہ ملک کے اسلامی تشخص کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، مولانافضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی آف شور کمپنی نہیں بنائی اور نہ ہی کسی این آر او میں ہمارا نام آیا، اگر ہماری حکومت آئی تو پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ کردیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اس الیکشن میں ہمارا مقابلہ ان طاقتوں سے ہے جو پاکستان کا مذہبی تشخص ختم کرنا چاہتے ہیں، ایک مخصوص طبقہ ملک کے اسلامی تشخص کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، نظریہ پاکستان سےمتصادم نظریات قوتوں کےعزائم ناکام بنائیں گے۔

    مولانا فضل الرحمان نے چیئرمین پی ٹی آئی پر ان کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے نئی نسل کی اخلاقیات کو تباہ کیا،۔

    مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمان نے نگراں حکومت سے شفاف انتخابات کا مطالبہ کردیا

    ملک پرقرض چڑھانے والے کس منہ سے ہم پر تنقید کرتے ہیں، صرف صوبہ خیبرپختونخوا پر ساڑھے تین سو ارب کا قرضہ ہے،300ڈیموں کا نعرہ لگانے والوں نے اپنے صوبے میں ایک ڈیم تک نہیں بنایا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • اُن کے دعووں، اُن کے وعدوں‌ پر ایک نظر: بڑی سیاسی جماعتوں‌ کے منشور کا تقابلی جائزہ

    اُن کے دعووں، اُن کے وعدوں‌ پر ایک نظر: بڑی سیاسی جماعتوں‌ کے منشور کا تقابلی جائزہ

    جوں جوں‌ الیکشن قریب آرہے ہیں، سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے. جلسے جلسوں کی لہر ہے، گلی گلی جھنڈے اور بینرز لہرا رہے ہیں. 

    الیکشن کی مناسبت سے سیاسی جماعتیں اپنے منشور بھی پیش کر رہی ہیں، جن میں‌ کہیں‌ پرانے وعدے دہرائے گئے ہیں، کہیں‌ نئے دعوے کیے گئے ہیں.

    اس ضمن میں ایم ایم اے نے پہل کی، دیگر جماعتوں سے پہلے اپنا منشور پیش کیا. بعد میں‌ پیپلزرٹی اور ن لیگ، آخر میں‌ پی ٹی آئی نے منشور عوام کے سامنے رکھا.

    اس تحریر میں‌ چار بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کا تقابلی جائزہ لیا گیا۔

    ایم ایم اے کے بارہ نکات

    دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل نے 5 جون کو اپنے 12 نکاتی منشور کا اعلان کیا۔

    منشور میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ، بااختیار و آزاد عدلیہ کا قیام، اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم، نئے ڈیمز کی تعمیر، بجلی کے مؤثر نظام کی تشکیل، بھارت کی آبی جارحیت کا مؤثر تدارک، سی پیک میں مقامی آبادی کے روزگار اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا احاطہ کیا گیا۔

    منشور میں ملک میں باوقار اور آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے، تمام ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات کے قیام، ٹیکسز کے خاتمے، استحصال اورعدم مساوات کے خاتمے اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنانے کا اعلان کیا گیا۔

    پیپلزپارٹی کے 76 صفحات پر پھیلے پروگرام

    پیپلزپارٹی نے 28 جون کو اپنا منشور پیش کیا، جو 76 صفحات پر مشتمل تھا۔

    معاشی انصاف، غربت میں کمی، تعلیم اور بنیادی صحت، معذور افراد کو معاشرے کا حصہ بنانا، زرعی اصلاحات، خواتین کی خود مختاری اور نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کی فراہمی پیپلزپارٹی کے منشور کے بنیادی اجزا ہیں۔

    اس منشور میں ماں، بچے کی صحت کا پروگرام، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، پاورٹی ریڈکشن پروگرام، بھوک مٹاؤ پرگرام، آب پاشی نظام بہتر بنانے کا پروگرام، زرعی اصلاحات کا پروگرام، پیپلز فوڈ کارڈ، فیملی ہیلتھ سروس شامل ہیں۔

    ن لیگ اور پنجاب ماڈل

    مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے 5 جولائی کو منشور پیش کیا.

    یہ منشورہ تعلیم یافتہ اور ہنرمند طبقے کوروزگار کی فراہمی کے لیے سرمایہ کاری کے فروغ، صنعتوں کے قیام، زرعی اجناس کی پراسیسنگ کے لیے انڈسٹریل کمپلیکس کی تعمیر، دیامر بھاشا ڈیم کے بڑے توانائی منصوبے کو مکمل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے۔

    اس منشور میں صنعتی انقلاب، دنیا کے جدید ترین ٹرانسپورٹ سسٹم، پنجاب اسپیڈ کو پاکستان اسپیڈ اور محصولات کے نظام کو کرپشن فری بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے منسلک کرنا، محروم طبقے کو پاؤں پر کھڑا کرنا، پنجاب میں شعبہ صحت میں کی گئی اصلاحات کا ملک بھرمیں نافذ، ہر اسکول میں ٹیکنیکل ووکیشنل ٹریننگ سینٹر بنانے کا اعلان کیا گیا.

    پی ٹی آئی کی کروڑوں ملازمتیں، لاکھوں گھر

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 9 جولائی کو آیندہ انتخابات کے لیے منشور پیش کیا.

    یہ منشور پولیس کوغیر سیاسی بنانے، اداروں کو مضبوط کرنے، عوام پر سرمایہ کاری، نوکریوں کی فراہمی، تعلیم، گھر، صحت کے شعبوں پر مرکوز ہے.

    اس منشور میں‌ ایک کروڑ ملازمتیں دینے، 50 لاکھ مکانات کی تعمیر، سی پیک سے گیم چینجنگ نتائج حاصل کرنا، غربت کے خاتمے کے لئے سیاحت کے فروغ، ایف بی آر میں اصلاحات، ملکی برآمدات میں اضافہ، کرپشن کا خاتمہ، پانی کو ری سائیکل کرنا، صحت اور تعلیم کے نظام کی بہتری، جنوبی پنجاب کا صوبہ اور کڑے ا حتساب کا احاطہ کیا گیا.

    حرف آخر

     بہ ظاہر چاروں بڑی جماعتوں کے منشور میں کئی دعوے اور وعدے نظر آتے ہیں، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے منشور کے پیچھے ان کا ماضی میں اقتدار میں رہنے کا وسیع تجربہ ہے۔

    پی ٹی آئی نئے وعدے اور ارادوں کے ساتھ میدان میں ہے، گو ایم ایم اے کے ہاں دینی رنگ نمایاں ہے، مگر توازن نظر آتا ہے۔

    چاروں جماعتوں کے منشور متوازن اور متاثر کن ہیں، مگر یوں لگتا ہے کہ عوام اس بار بھی منشور کے بجائے قائدین کی مقبولیت، امیدوار کی اثرپذیری، ووٹرز کی ماضی کی وابستگی اور نیب کیسز میں ہونے والی گرفتاریوں کی بنیاد پر ووٹ ڈالیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • ’پی آئی بی بہادرآباد تنازع نے ایم کیو ایم کو عوامی سطح  پر شدید نقصان پہنچایا‘

    ’پی آئی بی بہادرآباد تنازع نے ایم کیو ایم کو عوامی سطح پر شدید نقصان پہنچایا‘

    کراچی: ایم کیو ایم کے رہنما اور امیدوار علی رضا عابدی نے کہا ہے کہ پی آئی بی اور بہادرآباد تنازع کی وجہ سے پارٹی نے عوام کا اعتماد کھویا، کارکنان یا عوام کی حمایت کیوجہ عمران خان کا مدمقابل ہونا ہے ، آج بھی 60 فیصد کارکنان کی جذباتی وابستگی بانی ایم کیو ایم سے ہی ہے۔

    ایم کیو ایم کے رہنما اور قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 کے امیدوار علی رضا عابدی نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔

    متحدہ امیدواروں کی انتخابی مہم کارکنان اور عوام کی عدم دلچسپی، کیا لندن کے بائیکاٹ کا اعلان اثر انداز ہورہا ہے؟

    علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ میرے حلقے کے 60 فیصد کارکنان کی ابھی بھی لندن یا بانی ایم کیو ایم سے وابستگی ہے اور ساتھ میں بائیکاٹ کے اعلان کا اثر بھی ہے جس کی وجہ سے بالخصوص کارکنان اور عوام کوئی دلچسپی نہیں لے رہے البتہ حلقہ این اے 243 میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ووٹ نہ دینے کا بولا مگر وہ عمران خان کے مدمقابل ہونے کی وجہ سے مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔

    ’امیدواروں کی انتخابی مہم شروع ہوئے ابھی تین روز ہوئے آئندہ دنوں میں صورتحال تبدیل ہوگی، ایک روز قبل گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں ریلی نکلی جس کے بعد عوام کا تھوڑا بہت جذبہ بیدار ہوتا نظر آیا‘۔

    ’بائیکاٹ کا اعلان ایم کیو ایم پاکستان کی انتخابی مہم پر اثر انداز ہوسکتا ہے  اور اگر ایسا ہوگیا تو ہم پانچ سال کے لیے باہر ہوجائیں گے، یہ صرف جماعت ہی نہیں بلکہ کراچی کے لیے بھی نقصان دہ ہے، لندن کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ اعلان واپس لے اگر 40 فیصد ٹرن آؤٹ آگیا تو واپسی کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہوسکتے ہیں‘۔

    پی آئی بی اور بہادر آباد تنازع کی وجہ کیا بنی او ر اس سے کیا اثرات مرتب ہوئے؟

    علی رضا عابدی کا کہنا تھا کہ ’ہمارے درمیان تنازع کی وجہ کامران ٹیسوری بنے اور لڑائی ساس بہو والی تھی، یہ بالکل ایسی بات ہے کہ وہ فاروق ستار کے قریب ہوگئے پھر رابطہ کمیٹی کو اُن پر اعتراض ہونے لگا، اگر وہ دیگر اراکین کے ساتھ رہتے تب یہ معاملہ  پیش نہیں آتا‘۔

    ’ہمارے درمیان تنازع سے ایک بات سامنے آئی کہ ہم علیحدہ دھڑوں کی صورت میں تو چل سکتے ہیں مگر عوام ہمیں کبھی تسلیم نہیں کریں گے، کیونکہ یہ جتنے دنوں یہ معاملہ چلا کارکنان اور عوام نے ہمیں بہت سخت پیغامات بھجوائے،  دونوں طرف کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ اب کسی بھی صورت جھگڑا نہیں کیا جائے گا یا پھر یہ نوبت نہیں آئے گی کہ علیحدگی ہو وگرنہ کارکن اور ہمدرد ہمیں پھر تسلیم نہیں کریں گے۔

    ‘کافی ووٹر بھی اسی تنازع کی وجہ سے  بدظن ہوئے، اسی وجہ سے گراؤنڈ پر  جن لوگوں کی نظریں تھیں وہ آگئے البتہ ووٹر آج بھی خواہش رکھتا ہے کہ ایم کیو ایم ہی دوبارہ کامیاب ہو، لوگوں کو ہم سے شکایتیں ہیں جنہیں دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘۔

    ایم کیو ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ ’متحدہ سے جڑے کئی لوگ معجزے کے منتظر ہیں جو ماضی میں بھی ہوئے، ممکن ہے آئندہ کوئی ایسا معجزہ سامنے آئے جس کے بعد ساری صورتحال تبدیل ہوجائے‘۔

    ’ایم کیو ایم انتخابات کے بعد پانچ فروری والی پوزیشن پر واپس آجائے گی، کامران ٹیسوری اگر اتنے ہی نظریاتی تھے تو اُن کو پانچ حلقوں سے بطور آزاد امیدوار ایم کیو ایم کے مخالف امیدوار نہیں بننا تھا، پی آئی بی کے رہنماؤں میں سے اکثر بہادرآباد واپس آگئے بقیہ شاہد پاشا کے ساتھ کچھ لوگوں کو تکلیف ہے جن سے اب کوئی رابطہ نہیں‘۔

     پیپلزپارٹی اور پاک سرزمین پارٹی کا مستقبل کیا ہے؟

    ’پی ایس پی رہنماء تو 26 کے بعد واپسی کا ٹکٹ کٹوائیں گے ، پاک سرزمین پارٹی کے کئی کارکنان ہمارے رابطے میں آگئے اور وہ دوبارہ شمولیت کررہے ہیں، کورنگی سمیت کئی علاقوں سے لڑکے دوبارہ ایم کیو ایم میں آئے‘۔

    ’پیپلزپارٹی کا بھی کراچی میں خاطر خواہ مستقبل نہیں، شہلا رضا اس حلقے سے میری مخالف امیدوار ہیں، وہ کس منہ سے کراچی والوں سے ووٹ مانگ رہی ہیں کہ انہوں نے تو سندھ اسمبلی کے فلور پر شہر کے مسائل کو اجاگر تک نہیں کرنے دیا اور اگر ایم کیو ایم نے کوئی قرار داد پیش کرنے کی کوشش کی تو بطور اسپیکر انہوں نے آواز دبائی اس کے برعکس آغا سراج درانی نے متعدد بار ہمارے مسائل سنے، قرار داد پر بات کی‘۔

    علی رضا عابدی نے الزام دعویٰ کیا کہ ’ایم کیو ایم سے پیپلزپارٹی میں جانے والے کارکنان رابطے میں ہیں، اُن کے معاشی مسائل ہیں جس کی وجہ سے وہ دوسری طرف جاکر بیٹھے، پی پی قیادت انہیں ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ ادا کررہی ہے‘۔

    الیکشن جیتنے کے بعد ایم کیو ایم کی حکمت عملی کیا ہوگی؟

    ’ہم صوبے میں مخلوط حکومت بنائیں گے اور ساتھ شامل ہونے والی جماعتوں کے ساتھ مردم شماری کا پانچ آڈٹ ، صوبے یا انتظامی یونٹ کے قیام سمیت دیگر شہر کے حق میں قوانین بنائیں گے‘۔

    ’مردم شماری کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں ایم کیو ایم نے درخواست دائر کی ہوئی ہے، ہم نے مردم شماری یا حلقہ بندیوں کو تسلیم نہیں کیا بلکہ قانون کے تحت اعتراضات جمع کرائے‘۔

    عمران خان کے مد مقابل ہونے کی وجہ سے کارکنان اور ہمدردوں کی زیادہ حمایت مل رہی ہے؟

    ’گلشن اقبال اور حلقہ این اے 243 ایم کیو ایم کے لیے بہت اہم نشست ہے کیونکہ یہاں سے عمران خان بھی کھڑے ہوئے، کارکنان یا عوام کا رجحان دیگر امیدواروں کے مقابلے میں میری طرف اس لیے ہے اور اُن کی خواہش ہے کہ کم از کم یہ نشست متحدہ جیت جائے‘۔

    حلقہ این اے 243 میں گلشن ٹاؤن کی کارکردگی بہت بہتر رہی، عوام کے تحفظات اور شکایات سامنے آئے اور اُن کی ناراضی بھی دور ہوئی، دراصل 25 جولائی پی پی اور تحریک انصاف کا مقابلہ دوسری اور تیسری پوزیشن کے لیے ہے‘۔

    واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 243 میں کُل ووٹر کی تعداد 4 لاکھ ایک ہزار ہے جبکہ یہاں 9 یونین کونسلز اور 36 وارڈز  ہیں جو گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں موجود ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • الیکشن 2018: دو بیویوں والے انتخابی امیدواروں کی فہرست

    الیکشن 2018: دو بیویوں والے انتخابی امیدواروں کی فہرست

    الیکشن 2018 کے انعقاد میں اب کچھ ہی دن رہ گئے ہیں ، جہاں ایک جانب سیاست داں اپنی الیکشن کمپین میں مصروف ہیں وہی ان کے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں پر ہونے والی تحقیق میں دلچسپ انکشافات بھی سامنے آرہے ہیں۔

    انتخابی گوشواروں کا تنقیدی جائزہ لینے کے نتیجے میں ایک فہرست سامنے آئی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ کون کون سے سیاست دانوں نے دو شادیاں کی ہیں، یہ فہرست آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کی جارہی ہے۔

    مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپنی دستاویزات میں دو بیویاں نصرت شہباز اور تہمینہ درانی ظاہر کی ہیں۔
    تحریکِ انصاف کے ترجمان فواد چودھری بھی صائمہ فواد اور حبہ فواد نامی دو خواتین کے شوہر ہیں۔

    پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے طلعت بی بی سمیت بیویاں ظاہر کی ہیں۔

    ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار بھی افشاں فاروق اور شاہدہ کوثر فاروق نام کی دو بیویوں کے شوہر ہیں۔

    گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سندھ کے رہنما ارباب غلام رحیم نے صدف کوثر سمیت دو بیویاں اپنے کاغذات میں درج کی ہیں۔

    حمزہ شہباز نے مہرالنساء اور رابعہ ،خواجہ سعد رفیق نے غزالہ اور شفق حرا کے نام لکھے ہیں۔

    ریاض حسین پیر زادہ نے عائشہ ریاض اور بلقیس کے نام ظاہر کیے ہیں۔پیر امین الحسنات نے قدسیہ حسنات اور طاہرہ حسنات کے اور پی ایس پی کے ارشد وہرہ نے کلثوم وہرہ اور سونیا ارشد کے نام تحریر کیے ہیں۔

    قیصر محمود شیخ نے کنزہ شیخ اور ایک غیرملکی بیوی ظاہر کی ہے۔ رانا مبشر نے شازیہ اور نائلہ کے نام دیے ہیں۔ناصر اقبال بوسال نے نویدہ نواز اور مدیحہ عروج کو کاغذات میں اپنی زوجہ تسلیم کیا ہے۔احمد شاہ کھگا نے مصباح احمد اور عمارہ احمد کو اپنی زوجہ تسلیم کیا ہے۔

    آصف حسین ،فوزیہ آصف اور عشرت آصف نامی خواتین کے شوہر ہیں جبکہ اشرف آصف کی دو بیویاں مس نصرف اور طاہرہ حبیب کے نام سے سامنے آئی ہیں۔

    عارف خان سندھیلہ نے شمیم اور ثروت ناز کو الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں اپنی بیوی تسلیم کیا ہے جبکہ سردار عرفان ڈوگر نے رضیہ پروین اور کرن فاطمہ کا نام ازواج کے خانے میں لکھا ہے۔ ،

    زبیر کاردار نے صبا زبیر اور ناہید اختر ،سمیع اﷲخان نے عظمیٰ بخاری اور زاہدہ بخاری جبکہ جمشید اقبال چیمہ نے مسرت جمشید اور نسیم چیمہ کو اپنی بیوی ظاہر کیا ہے۔ ،

    انتخابی گوشواروں کے مطابق اسلم کچھیلہ نے عذرا بیگم اور افسر خاتون اور چودھری عابد رضا نے سعدیہ عابد اور رافعہ اشرف کا نام ظاہر کیا ہے۔ ،

    ثناء اﷲ خان مستی خیل نے فرحت خان اور سندس خان ،شیر افضل خان نے رقیہ نیازی اور نسیم اختر ،ڈاکٹر سعید الٰہی نے سامعیہ انعام اور ہدیٰ سعید جبکہ جام مہتاب نے عامرہ مہتاب اور عظمیٰ مہتاب اورخالد احمد لوند نے صوفیہ اور فوزیہ کے نام لکھے ہیں۔

    سید ایوب نے کلثوم اور بینش ، این اے 207سے امیدوار غلام مصطفیٰ نے زبیدہ نساء اور بشیراں ،این اے 210سے سید سورج شاہ نے تاج بی بی اور بی بی حاجراں کے نام سامنے آئے ہیں ۔

    این اے 211سے غلام مرتضیٰ نے تحسین اور مختیار بیگم ، این اے 224سے عبدالستار باچانی نے شمشاد ستار اور بدالنساء ،این اے 130سے سردار حر بخاری نے فوزیہ حر اور عالیہ حر کے نام گوشواروں میں لکھے ہیں۔

    این اے 123سے امیدوار لطیف خان سرانے مصباح شہزادی اور عذرا پروین ،این اے 126سے امیدوار چودھری اشرف نے نسرین اشرف اور آسیہ اشرف ،این اے 132سے طارق حسن نے حمیرہ حسن اور حنا حسن ، این اے 134سے امیدوار نواز نے مسرت نواز اور رفعت نواز کو اپنی بیوی ظاہر کیا ہے۔

    این اے 133سے نواب علی میر نے طاہرہ پروین اور عاصمہ ،این اے 123سے وحید احمدنے فریحہ وحید اور نائلہ وحید ،این اے 170سے امیدوار عرفان احمد نے فریحہ عرفان اور لاریب کو اپنی زوجہ تسلیم کیا ہے۔

    این اے 207سے امیر بخش مہر نے حسنہ اور صائمہ ،پی پی 240سے احمد ریاض نے غلام عائشہ اور نازیہ احمد ، این اے 167سے امیدوار اسلم نے عشیشہ بی بی اورسرداراں بی بی سامنے آئی ہیں۔

    این اے 116سے نذر عباس نے شازیہ اسلم اور شہناز کوثر ، این اے 169سے نورالحسن نے نادیہ اقبال اور شازیہ ،این اے 207سے حضور بخش میرانی نے دو بیویاں ظاہر کی ہیں۔

    این اے 130سے امیدوارابو بکر نے تین بیویاں آمنہ ، عروج اور سائرہ ، این اے 132سے امیدوار امجد نعیم نے ثریا ،صغرا ں اور تنزیلہ جبکہ این اے 213سے امیدوار قادر بخش مگسی نے بھی تین بیویاں ظاہرکی ہیں۔


    تحقیق : حجاب رندھاوا

  • الیکشن وقت پر ہوں گے ، مسلح افواج غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے گی، ڈی جی  آئی ایس پی آر

    الیکشن وقت پر ہوں گے ، مسلح افواج غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے گی، ڈی جی آئی ایس پی آر

    راولپنڈی : ڈی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں الیکشن وقت پر ہوں گے، مسلح افواج غیر سیاسی اورغیر جانبدارانہ کردارادا کرے گی، عوام کو جو سیاسی جماعت یا نمائندہ پسند ہے بغیر خوف اسے ووٹ ڈالیں، 25 جولائی کے بعد عوام جو بھی وزیراعظم منتخب کریں، ہمارے لئے وہی وزیراعظم ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن 2018سےمتعلق صورتحال سےآگاہ کرناچاہتے ہیں، الیکشن سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہا ہے، وقت کے ساتھ الیکشن کے بارے میں شکوک و شبہات دم توڑ گئے۔

    ڈی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں الیکشن وقت پر ہوں گے ،پاکستانی عوام 25 جولائی کو اپنا حق ادا کریں گے اور جمہوری عمل آگےبڑھائیں گے الیکشن کمیشن کو ہر قسم کی معاونت فراہم کررہے ہیں، الیکشن کے انعقاد میں ہمارا کوئی کردارنہیں، فوج کا کردار الیکشن کمیشن کی معاونت ہے، فوج الیکشن کمیشن کی پہلے بھی مدد کرتی آئی ہے۔

    [bs-quote quote=”پاکستان میں الیکشن وقت پر ہوں گے” style=”default” align=”left” author_name=”میجرجنرل آصف غفور” author_job=”ڈی جی آئی ایس پی آر” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/07/ISPR60x60.jpg”][/bs-quote]

    میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ 1997 کے الیکشن میں 35ہزار پولنگ اسٹیشنز پر 192000ہزار اہلکار ، 2002 کے الیکشن میں 64ہزار 470پولنگ اسٹیشنز  پر 30 ہزار  500  اہلکار ،  2008 کے الیکشن میں 67 ہزار176پولنگ اسٹیشنز پر 39 ہزار اہلکار تعینات کئے گئے تھے جبکہ 2013 کے الیکشن کے وقت فورسز دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مصروف تھیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ شفاف انتخابات کیلئے ماحول فراہم کرنا فورسز کی ذمہ داری ہے اور شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ، ووٹرز کو کسی بھی دباؤ کے بغیر حق رائے دہی استعمال کرنا چاہئے۔

    ترجمان پاک فوج نے کہا کہ الیکشن کے لئے صاف،شفاف اور آزادانہ ماحول فراہم کریں گے، بیلٹ باکس میں 100ووٹ ڈالے گئے ہیں تو 100ہی نکلنے چاہئیں، بے ضابطگی کا نوٹس لینا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔

    میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بلاخوف ہونی چاہیے، ووٹر کو بلا خوف اپنا حق استعمال کرنے کا موقع دینا فرض ہے، پہلا کام امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھا جائے، دوسرا کام پرنٹنگ پریس کو سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، الیکشن کا مواد پولنگ اسٹیشنز تک پہنچانا پاک فوج کی ذمہ داری ہے، صرف پرنٹنگ کے مواد کی ترسیل اور پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر سیکیورٹی پاک فوج کی ذمہ داری ہے۔

    انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اس بار فورسزکی تعیناتی کا کوڈ آف کنڈکٹ بنایا ہے، فوج کا نمائندہ بے ضابطگی پرالیکشن کمیشن کوآگاہ کرتاہے، براہ راست ملوث نہیں ہوتا، تین پرنٹ پریسز میں بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ جاری ہے، ہم پرنٹنگ موادکی صرف ترسیل کے ذمے دار ہیں۔

    [bs-quote quote=”مسلح افواج غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے گی” style=”default” align=”right” author_job=”ڈی جی آئی ایس پی آر” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/07/ISPR60x60.jpg”][/bs-quote]

    پاک فوج ترجمان کا کہنا تھا کہ الیکشن2018 کیلئے 85 ہزار 300 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں، پولنگ اسٹیشنز 48 ہزار 500 عمارتوں میں بنائے گئے ہیں، پولنگ اسٹیشنز کو سیکیورٹی فراہم کی جائیں گی، 3 لاکھ 71ہزار 300 کے قریب اہلکاروں کی تعیناتی کی ضرورت ہے، سول آرمڈ فورسز، پچھلے سال ریٹائرڈ اہلکاروں کو بھی شامل کررہے ہیں۔

    ڈی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سرحدی صورتحال، دہشت گردی کیخلاف جنگ کی وجہ سے نفری کی ضرورت تھی، غیرسیاسی اور غیرجانبدار رہتے ہوئے الیکشن کمیشن کی مدد کرنی ہے، مسلح افواج غیر سیاسی اور غیر جانبدارانہ کردار ادا کرے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلامرحلہ چھپائی کا ہے، جو21جولائی تک مکمل ہوجائے گا، انتخابی مواد کی ترسیل اور تقسیم الیکشن کمیشن کا عملہ کرے گا، پاک فوج پرنٹنگ مواد ترسیل کی صرف نگرانی کرے گی ، بیلٹ پیپرز کی زیادہ تر سیل بذریعہ سڑک ہوگی ،بیلٹ پیپرز کی ترسیل کیلئے ہیلی کاپٹر کی ضرورت پڑی تو استعمال کریں گے، بیلٹ پیپرز کی گنتی اور پرنٹنگ مواد سے متعلق دیگرامور کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، الیکشن عملے کو تحفظ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔

    ترجمان پاک فوج نے کہا کہ راولپنڈی میں آرمی الیکشن سپورٹ سینٹر قائم کیا گیا ہے، سینٹر الیکشن کمیشن سے روابط مربوط بنائے گا، فوج کی معاونت کا ضابطہ اخلاق جاری کر دیا گیا، پاک فوج ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کی پابند ہے۔

    میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ملک میں85 ہزار 600سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم ہوں گے، 45 ہزار 800 سے زائد عمارتوں میں پولنگ اسٹیشنز ہوں گے، فوج کو فرائض کی انجام دہی کے لئے 3 لاکھ 71ہزار سے زائد نفری درکارتھی، پاک فوج کیلئے اتنی نفری فراہم کرنا ممکن نہیں تھا، جس کے بعد آرمی کے ریٹائرڈ افراد، ریزرو فورس کی بھی خدمات لی گئی ہیں۔

    [bs-quote quote=”عوام کو جو سیاسی جماعت یا نمائندہ پسند ہے بغیر خوف اسے ووٹ ڈالیں ” style=”default” align=”left” author_name=”میجر جنرل آصف غفور ” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/07/ISPR60x60.jpg”][/bs-quote]

    ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ الیکشن کے بعد پولنگ کا مواد واپس پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہوگی،20 ہزار 800 حساس پولنگ اسٹیشنز ہیں ، پولنگ اسٹیشن کے اندر صرف ووٹر یا عملہ آسکتا ہے، غیر ملکی میڈیا یا مبصر کو پولنگ اسٹیشن کا کارڈ جاری ہوگا، پولنگ اسٹیشن میں غیر متعلقہ افراد کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    ان کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشن کے باہر نظم وضبط قائم رکھنے کی ذمہ داری پولیس کی ہوگی، ووٹرز کے ساتھ زبردستی یا دباؤ ڈالنے کی اجازت کسی کو نہیں ہوگی، بے ضابطگی نظر آئی تو اندر موجود جوان متعلقہ حکام کو بتائے گا، پولنگ اسٹیشنز پر کھڑے جوانوں سے سوالات سے گریز کیا جائے۔

    میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ بے ضابطگی پر میڈیا یا عوام الیکشن کمیشن، پاک فوج سے رابطہ کرسکتا ہے، سوالات کیلئےآئی ایس پی آر کا نمائندہ ہر ضلع میں موجود ہوگا۔

    ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان اپنے جوانوں کا خیال خود رکھتی ہے، جوانوں سے محبت کا اظہار یہی ہے ان کوڈیوٹی کرنے دی جائے، ہر پولنگ اسٹیشن پر موجود جوان پاک فوج کا نمائندہ ہے، ہماری ذمہ داری اور وفاداری پاکستان کےعوام کیساتھ ہے، عوام کو جو سیاسی جماعت یا نمائندہ پسند ہے بغیر خوف اسے ووٹ ڈالیں، امید کرتے ہیں، اس بار ووٹر ٹرن آؤٹ پہلے سے کہیں زیادہ ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ فوج کو غیر جانبدار رہ کرالیکشن کمیشن کی معاونت کا حکم دیا گیا ہے، انتخابی مواد کی ترسیل الیکشن کمیشن اسٹاف کے بغیر نہیں ہوگی،پولنگ سے 3روز پہلے جوانوں کی تعیناتی کا عمل مکمل ہوجائے گا، حساس پولنگ اسٹیشن میں 2 جوان اندر اور 2باہر ہوں گے، پولنگ اسٹیشنز پر صرف فوج نہیں پولیس و دیگر ادارے بھی ہوں گے۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشنز میں امیدوار،مقررکردہ ایجنٹ آسکتا ہے، پولنگ اسٹیشن میں غیر ملکی مبصر اور میڈیا آسکے گا، الیکشن کمیشن سے حاصل شدہ پاس ہونا لازمی ہوگا، ہماری کوئی پارٹی یاسیاسی وابستگی نہیں، پاک فوج کی وابستگی صرف عوام سے ہے۔

    انھوں نے کہا کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات ہمیشہ لگائے گئے، کون سے الیکشن تھے جس میں قبل از انتخاب دھاندلی کا الزام نہ لگا ہو، ایساالیکشن بتائیں جس سے پہلے لوگ دوسری پارٹیوں میں نہ گئے ہوں، ہر الیکشن سے پہلے امیدوار پارٹیاں بدلتے ہیں۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج 15سال سے پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑ رہی ہیں اور ملک کی خاطرقومی فریضہ انجام دیا ہے ، دھمکیاں آتی تھیں جلسے جلوس نہیں ہونے دیں گے آج ایسا نہیں ہے، افواج پاکستان کی توجہ اہم مسائل پر ہیں ، کچھ لوگ ہمیں اپنے اصل مقصد سے ہٹا کر سیاسی معاملات میں گھسیٹنا چاہتے ہیں، ہم نے بہت کچھ سیکھ لیا اب اپنے مقصد سے دورنہیں ہوں گے۔

    میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ جنرل فیض کا دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اہم کردار ہے ، ہر چیز کوشک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے ، جنرل فیض کا نام لینے والوں کو معلوم ہی نہیں ان کا کام کیا ہے۔

    پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کروڑوں پاکستانیوں کو یہ نہیں بتایا جاسکتا ووٹ کس کو دینا ہے اور کس کونہیں، سیاسی عمل کو سیاسی عمل تک رہنے دیں ، ایک خط سےریگنگ ہوگئی، ایسا بالکل نہیں ہے، کیسے ہوسکتا ہے ساڑھے 3 لاکھ جوانوں کو کہیں کہ الیکشن میں کچھ غلط کرو، وہ فوجی جوان جو ایک آرڈر پر جان پیش کر دے اسے غلط آرڈر کیسے دے سکتے ہیں، آج اگر جوان کو غلط آرڈر دیں گے تو کل وہ صحیح آرڈر کو بھی غلط سمجھے گا۔

    [bs-quote quote=”خلائی مخلوق سیاسی نعرہ ہے، فوج سیاست نہیں کرتی، مسلح افواج اللہ کی مخلوق ہیں،عوام کی خدمت کرتے رہے گی۔” style=”default” align=”left” author_job=”ڈی جی آئی ایس پی آر” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/07/ISPR60x60.jpg”][/bs-quote]

    انھوں نے کہا کہ ہر پارٹی دوسری پارٹی کو نیچا دکھانےکی کوشش کرتی ہے، ماضی میں امیدواروں کو دہشت گردی کے خدشات تھے، آج امیدواروں کوانتخابی مہم میں کوئی خطرہ نہیں، 7 سے 12 تک جس کا جو جی چاہے ٹی وی پر آکر کہہ دیتاہے، پارٹی اختلاف پر پارٹی چھوڑنا کوئی نئی بات نہیں۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ محکمہ زراعت کے واقعے میں آئی ایس آئی کا کوئی نمائندہ ملوث نہیں تھا، انتخابی نشان آئی ایس آئی اور پاک فوج جاری نہیں کرتی، جس رنگ کی جیپ کی بات ہورہی ہے، وہ ہمارے پاس نہیں ہے، نشان الاٹ کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہےہمارا اس سے تعلق نہیں۔

    انھوں نے مزید کہا فوج میں سب کے لئے ایک جیسا حکم جاری ہوتا ہے، فاٹا کے معاملے پر ریاست کا فیصلہ آخری ہوتا ہے، شفاف الیکشن کے عمل میں پاک فوج تعاون کے لئے موجود ہے ، عوام شفاف انتخابات کے نتائج 25جولائی کو دیکھیں گے، پاک فوج اپنی ڈیوٹی ذمہ داری کے ساتھ ادا کرتی رہےگی، الیکشن کے عمل کو جتنا شفاف لیکر چلیں گے، اتنا ہی شفاف رہے گا۔

    میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ کونسی جماعت جیتے گی یہ فیصلہ25جولائی کو ہوگا، قصور والا خط ایک جونیئر افسر کو لکھا گیا تھا اور خط غلطی سے سینئر عدالتی افسر کو بھی چلا گیا، ملتان واقعے میں آئی ایس آئی کا کوئی کردار نہیں تھا، امیدوار کے پوسٹر میں تصویر چھپنے کے واقعے کا نوٹس لیا گیا، کسی سے ڈنڈے کے زور پر کام نہیں لیا جاسکتا۔

    کیپٹن صفدر کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کیپٹن صفدر کا کیس سول عدالت میں ہے، مناسب وقت پر فوجی قواعد کے تحت کارروائی ہوگی۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے بہت اچھا کام کررہی ہے ہر معاملے سے واقف ہے، سوشل میڈیا پر ملک کیخلاف کوئی بھی اقدام نظر انداز نہیں کریں گے، ہمیں بھی معلوم ہے کس ملک کی پاکستان کے الیکشن پرنظر ہے اور کہاں مینڈیٹ سے تجاوز کیا جارہا ہے۔

    میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن اور انتخابی عمل کا ایک طریقہ کار موجود ہے، سیاسی جماعت کوالیکشن کمیشن رجسٹرڈ کرتا ہے، ہر شہری کو انتخابی امیدواروں کی تفصیلات جاننے کاحق ہے، حقائق سے برعکس دھاندلی کےالزامات ہرالیکشن میں لگے ہیں ، پولیٹیکل انجینئرنگ مان بھی لی جائےآخر میں فیصلہ ووٹر نے کرنا ہوتا ہے۔

    [bs-quote quote=”25 جولائی کے بعد عوام جو بھی وزیراعظم منتخب کریں، ہمارے لئے وہی وزیراعظم ہوگا۔” style=”default” align=”left” author_name=”میجر جنرل آصف غفور” author_job=”ڈی جی آئی ایس پی آر” author_avatar=”https://arynewsudweb.wpengine.com/wp-content/uploads/2018/07/ISPR60x60.jpg”][/bs-quote]

    ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آزاد اور شفاف الیکشن کیلئےپرعزم ہے، امید ہے الیکشن میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوگی، الیکشن پرانگلی اٹھتی ہےتوذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، سوشل میڈیا پر ملک کیخلاف کام کرنیوالوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، سوشل میڈیا پر ملک مخالف کام کرنے والے کچھ تھک گئے کچھ تھک جائیں گے، بے ضابطگی پر کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت قانونی کارروائی کا حق رکھتے ہیں، بے ضابطگی نظر آئی تو پہلے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا جائے گا۔

    خلائی مخلوق کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ خلائی مخلوق سیاسی نعرہ ہے، فوج سیاست نہیں کرتی، مسلح افواج اللہ کی مخلوق ہیں،عوام کی خدمت کرتے رہے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی کے بعد عوام جو بھی وزیراعظم منتخب کریں، ہمارے لئے وہی وزیراعظم ہوگا۔

    ڈیمز کی تعمیر سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ڈیمز کیلئے فنڈز میں جوبھی حصہ ڈالناچاہے ڈال سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • الیکشن 2018 : عمران خان آج پارٹی منشورکا اعلان کریں گے

    الیکشن 2018 : عمران خان آج پارٹی منشورکا اعلان کریں گے

    اسلام آباد : چیئرمین تحریک انصاف عمران خان آج پارٹی منشور کا اعلان کریں گے، جس کے بعد شام 7 بجے سکھر میں جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کاانتخابی منشور آج پیش کیا جائے گا، عمران خان آج دوپہر ایک بجے اسلام آباد میں عام انتخابات کے سلسلے میں پارٹی منشور کا باضابطہ اعلان کریں گے۔

    انتخابی منشور میں خیبرپختونخواہ بلین ٹری کا منصوبہ ملک کے باقی صوبوں میں لے جانے کا پلان ہے اور ابتدائی مرحلے میں 10ارب درخت لگانے کا ہدف دیا جائے گا جبکہ انتخابی منشور میں داخلی سیکیورٹی کو مربوط بنانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

    ملکی داخلی سیکیورٹی کے لیے نیا ادارے کا قیام ، نیشنل سیکیورٹی آرگنائزیشن داخلی سیکیورٹی کی ذمہ دار ہوگی، نیشنل سیکیورٹی آرگنائزیشن کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے اور تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سیکیورٹی آرگنائزیشن کے رکن ہوں گے ، یہ بھی انتخابی منشور کا حصہ ہے۔

    انتخابی منشور میں پی ٹی آئی اقتدارمیں آکر داخلی سیکیورٹی پر اقدامات، آزاد خارجہ پالیسی کا اعلان ،تعلیم اور صحت کے لیے وافر رقم مختص کرنے کا اعلان، چھوٹے کسانوں کی خصوصی مراعات بڑھانے کا اعلان اور تمام ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات شامل ہے۔

    منشور کے باضابطہ اعلان کے بعد کپتان عوامی اجتماع سے خطاب کے لئے قمبرشہداد کوٹ روانہ ہوں گے، شام چھ بجے سکھرایئر پورٹ اتریں گے، جس کے بعد وہ شام سات بجے قمبر شہداد کوٹ پہنچ کر کارکنوں سے خطاب کریں گے۔


    مزید پڑھیں : نواز شریف ضرور پاکستان آؤ لیکن نیلسن منڈیلا بننےکی کوشش نہ کرنا ، عمران خان


    واپسی پر سکھر مال روڈ پر ریلی سے رات نو بجے خطاب کریں گے، سکھر میں خطاب کے بعد عمران خان واپس اسلام آباد کیلئے روانہ ہوجائیں گے۔

    گذشتہ روز خطاب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ  کیپٹن صفدر گرفتاری دینے ایسے آیا جیسے کشمیر فتح کرکے آیا ہے، کیپٹن صفدر کو شرم آنی چاہیے ۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ سنا ہے جمعہ کو باپ بیٹی پاکستان آرہے ہی، ضرور آؤ لیکن نوازشریف نیلسن منڈیلا بننےکی کوشش نہ کرنا،  نواز شریف کا فیصلہ آنے پر حمزہ اور شہباز دونوں نے ہاتھ اٹھاکر میرا شکریہ ادا کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • انتخابات کے لیے مکمل تعاون فراہم کریں گے، چیئرمین آرمی الیکشن سپورٹ سینٹر

    انتخابات کے لیے مکمل تعاون فراہم کریں گے، چیئرمین آرمی الیکشن سپورٹ سینٹر

    اسلام آباد: آرمی الیکشن سپورٹ سینٹر کے چیئرمین نے کہا ہے کہ ان کی طرف سے انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لیے بھرپور تعاون فراہم کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں انتخابات 2018 کے پُر امن انعقاد کے سلسلے میں خصوصی طور پر قائم کردہ آرمی الکیشن سپورٹ سینٹر نے الیکشن کمیشن کو اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔

    اس سلسلے میں چیئرمین آرمی الیکشن سپورٹ سینٹر نے چیف الیکشن کمشنرسے ملاقات بھی کی، ملاقات میں انتخابات میں سیکورٹی انتظامات اور فوج کے تعاون پر بات چیت کی گئی۔

    آرمی الیکشن سپورٹ سینٹر کے چیئرمین نے چیف الیکشن کمشنر سے کہا کہ انتخابات کے لیے مکمل تعاون فراہم کریں گے، ادارہ ملک میں انتخابات کے پُر امن انعقاد کے لیے تیار ہے۔

    چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے پاک فوج کےعزم کو سراہا، انھوں نے کہا صوبائی حکومتیں بھی شفاف الیکشن کے لیے بھرپور تعاون کریں گی۔

    الیکشن 2018 فوج کی نگرانی میں کروائے جائیں گے: ذرائع


    واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ الیکشن 2018 فوج کی نگرانی میں کروائے جائیں گے۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ترسیل بھی فوج کی نگرانی میں ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اڈیالہ جیل کے قیدیوں کی حق رائے دہی استعمال کرنے کی درخواست

    اڈیالہ جیل کے قیدیوں کی حق رائے دہی استعمال کرنے کی درخواست

    راولپنڈی: اڈیالہ جیل کے قیدیوں نے اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے درخواست دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اڈیالہ جیل کے 400 قیدیوں نے پوسٹل بیلٹ کے لیے درخواست دے دی ہے۔

    جیل ذرائع کا کہنا ہے کہ درخواست دینے والوں میں مرد اور خواتین قیدی شامل ہیں جن میں سے کچھ مجرم ثابت ہوچکے ہیں جبکہ کچھ کے مقدمات ابھی زیر تفتیش ہیں۔

    ان کے مطابق جیل میں اس وقت 150 خواتین قیدی موجود ہیں جن میں سے بیشتر کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود نہیں جو ووٹ دینے کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    قیدیوں کو مطلع کردیا گیا ہے کہ حق رائے دہی صرف وہی قیدی استعمال کرسکے گا جس کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہوگا۔

    درخواستیں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو موصول ہوگئی ہیں جنہوں نے یہ درخواستیں ضلعی الیکشن کمیشن کو بھجوا دیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قیدیوں کا تعلق مختلف صوبوں اور علاقوں سے ہے اور ہر قیدی کی درخواست اس کے رہائشی علاقے کے انتخابی دفتر میں بھجوائی جائے گی۔

    ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ درخواستوں کی منظوری کی صورت میں پوسٹل بیلٹ 22 جولائی تک ضلعی ریٹرننگ افسر کو واپس بھجوایا جاسکے گا۔

    خیال رہے کہ ملک بھر میں عام انتخابات 25 جولائی کو منعقد کیے جائیں گے جس کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • 25 جولائی کو میڈیا سات بجے سے قبل پولنگ نتائج جاری نہ کرے، الیکشن کمیشن

    25 جولائی کو میڈیا سات بجے سے قبل پولنگ نتائج جاری نہ کرے، الیکشن کمیشن

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے میڈیا سے درخواست کی ہے کہ وہ انتخابات والے دن شام سات بجے سے قبل پولنگ کے نتائج جاری نہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ میڈیا اس بات کو یقینی بنائے کہ پچیس جولائی کو شام سات بجے سے پہلے انتخابات کے نتائج ٹی وی پر آن ایئر نہیں ہوں گے۔

    بابر یعقوب فتح محمد نے کہا ” برائے مہربانی اس بات کو یقینی بنائیں کہ پولنگ والے دن شام سات بجے سے قبل انتخابات کے نتائج جاری نہ ہوں۔“

    یہ درخواست ای سی اپی کے سیکریٹری، چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ جسٹس سردار محمد رضا اور چیئرمین پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) محمد بیگ کے مابین ایک ملاقات میں کی گئی۔

    کراچی شہر میں الیکشن کے روز32 ہزار 849 اہلکار تعینات ہوں گے


    پیمرا کے چیئرمین محمد بیگ نے انتخابات منعقد کرانے والے ادارے کو اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرادی، انھوں نے اس موقع پر جسٹس سردار محمد رضا اور ای سی پی سیکریٹری کو میڈیا ضابطۂ اخلاق کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔

    خیال رہے کہ پچیس جولائی کو عوام صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک ووٹ ڈال سکیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔