Category: شاعری

  • کراچی میں اومیکرون کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص

    کراچی میں اومیکرون کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص

    کراچی: شہر قائد میں اومیکرون کرونا وائرس کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے اومیکرون کے تیسرے ویرینٹ کی تشخیص کر دی ہے، تيسرے ويرينٹ کو بی اے۔ٹو۔ون ٹو کا نام ديا گيا ہے۔

    اس سے قبل اين آئی ايچ نے بی اے۔ٹو۔ون ٹو۔ون کے دوسرے ویرینٹ کی تشخيص کی تھی۔

    آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے محکمہ صحت سندھ کو نئے ویرینٹ سے متعلق آگاہ کر دیا، وبائی صورت حال سے نمٹنے کے لیے محکمہ صحت سندھ نے الرٹس جاری کر ديے ہیں۔

    کراچی میں اومی کرون کے نئے ویرینٹ کا پہلا کیس : سندھ حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا

    محکمہ صحت سندھ نے ہدایت جاری کی ہے کہ کرونا وائرس میں مبتلا افراد کی کونٹیکٹ ٹریسنگ سمیت سرکاری اور نجی اسپتالوں میں کرونا ٹیسٹنگ کو بڑھایا جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اوميکرون کی ذيلی اقسام کے زيادہ پھيلاؤ کا خدشہ ہے۔

    یاد رہے وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کی زیر صدارت قومی ادارہ صحت میں اجلاس ہوا تھا، جس میں بتایا گیا کہ اومیکرون کا نیا ویرینٹ قطر سے آئے مسافر میں پایا گیا تھا، اومیکرون کی معمولی علامات والا مریض اب صحت یاب ہے اور مریض کے خاندان کے تمام افراد کی ٹیسٹ رپورٹ منفی آئی ہے۔

  • چین میں 5 لاکھ افراد قرنطینہ

    چین میں 5 لاکھ افراد قرنطینہ

    ژی جیانگ: چین کے صوبے ژی جیانگ میں 5 لاکھ سے زائد افراد کو قرنطینہ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق چین میں ایک بار پھر کرونا وائرس کے نئے کیسز سامنے آئے ہیں، تعداد میں یہ اتنے کیسز نہیں ہیں لیکن چین کی پالیسی کرونا وبا کنٹرول کے حوالے سے سخت ہونے کی وجہ سے ایک بڑی آبادی کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔

    چینی میڈیا کے مطابق صوبے ژی جیانگ میں کرونا کیسز کی وجہ سے 5 لاکھ سے زائد افراد قرنطینہ کر دیے گئے ہیں، ژی جیانگ ملک کے مشرقی ساحل پر واقع ایک بڑا صنعتی اور برآمدی مرکز ہے، جہاں مقامی طور پر 44 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

    صوبہ ژی جیانگ میں مجموعی طور پر کرونا وائرس متاثرین کی تعداد 200 ہو گئی ہے، دوسری طرف انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے 5 لاکھ 40 ہزار لوگوں کو قرنطینہ کیا ہے۔

    حکام کی جانب سے کرونا وبا کی روک تھام کا حالیہ اقدام گزشتہ روز صوبے میں اومیکرون کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا ہے، غیر ملکی میڈیا نے آج چین کے شہر گوانگ زو میں اومیکرون کے دوسرے کیس کی تصدیق کی خبر بھی شائع کی ہے، یہ کیس دو ہفتے قبل باہر سے آیا تھا۔

    میڈیا کے مطابق اومیکرون سے متاثرہ پہلا شخص 9 دسمبر کو بیرون ملک سے آیا تھا، متاثرہ شخص کو اسپتال کے آئسولیشن وارڈ میں داخل کر دیا گیا ہے۔

    صوبے کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر ہانگژو میں کئی کمپنیوں نے پروڈکشن کا کام معطل کر دیا ہے۔ فلائٹ ٹریکر ویری فلائٹ کے ڈیٹا کے مطابق ہانگزو کی کئی پروازیں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔

  • کلام عید: چلو پھر سے مسکرا دیں!

    کلام عید: چلو پھر سے مسکرا دیں!

    عید آئی ہے کیسی دھوم دھام سے

    مناتے ہیں مسلمان ،

    اسے بڑی شان سے

    کہیں بنتی ہیں سوّیاں

    تو کہیں شیر خورما

    سجتا ہے دستر خوان پر،

    بریانی اور قورمہ

    نت نئے رنگوں کی

    پوشاک ہے پہنی جاتی

    رنگِ حنا ہاتھوں کی ،

    زینت بھی ہے بڑ ھاتی

    ہنسنا ، ہنسانا ، ملِنا ، ملانا

    پر دیکھو یہ نہ بھول جانا

    رکھنا خیال اُنکا ،

    جو ہیں نادار

    بے بس و مجبو ر ۔ ۔ ۔ اور لاچار

    دے دینا دسترخوان پر تھوڑی سی جگہ اُنکو

    دینا تحفے میں کچھ کپڑے ،

    ہو ضرورتِ لباس جنکو

    بُھلا کر ساری ناراضگیاں

    پہل کرکے مل لینا

    اور جو چاہو خود کی معافی،

    تو سیکھو معاف کرنا

    منظور تھی شہادت جنکی

    ماہِ صیام میں خدا کو

    جدا وہ لوگ ہوئے حادثے میں

    عظیم تر ’ ’الوداع“ کو

    سائے میں اپنی رحمتوں کے

    رکھے سب کو ربِ ذوالجلال

    دیکھا جو عید کا ہلال،

    آیا یہ دل میں خیال

    مٹ جائے ہر دکھ زمانے سے

    جو کرلیں سب ،

    سب کا خیال!

    شاعرِامن

    کاشف شمیم صدیقی

  • گزرے دنوں ۔۔۔ وہ جو پرندے گئے جاں سے! شاعر : کاشف شمیم صدیقی

    گزرے دنوں ۔۔۔ وہ جو پرندے گئے جاں سے! شاعر : کاشف شمیم صدیقی

    (پنچھی نامہ)

    گزرے دنوں ۔۔۔ وہ جو پرندے گئے جاں سے!

    *****

    زندگی حَسین تھی

    خوبصورت رنگین تھی

    میں اُڑتا تھا تازہ ہواﺅں میں ،

    لیتا تھا سانسیں ، کھُلی فضاﺅں میں

    اُڑتا پھرتا تھا میںخوب چہچہاتا ، ، پروں کو پھیلاتا

     کبھی اُوپر چلا جاتا

     کبھی نیچے آجاتا

    کبھی دائیں سفر کرتا ،، کبھی بائیں مُڑ جاتا

    میں جا بیٹھتاگھنے شجر پہ، جب دھوپ تیز ہوتی

    پھر باغوں میں پھولوں سے ملتا ،

    جیسے ہی شام ہوتی

     دانا چُگتے ، پانی پیتے

     تنکوں سے کچے گھر کو بناتے

    ہر سانس رب کا شُکر بجا لاتے،

    کٹتے تھے دن یونہی ، ہنستے مسکراتے

     

    پھر ہوا یوں ۔۔۔۔،

    کہ بچھے کسی جال میں

    مجھے جکڑ لیا گیا

    دُور شہر بازار میں

    مجھے بیچ دیا گیا

     کٹنے لگے پھر دن اور رات ، قفس میں بند ہو کر

    سُوج گئیں تھیں آنکھیں ، میری رو رو کر

     میں کرتا بھی کیا ، سوائے صبر کے

    نہ کر سکتا تھا کچھ بھی ، بدلے میں جبر کے

    سمجھوتا حالات سے کر لیا میں نے،

    اُس قفس کو ہی گھر اپنا ، سمجھ لیا میں نے

    گر کٹتی زندگی یونہی ، تو بھی بھلی تھی

    میں تھا جس دُکاں میں ، نہ وہ آج کھُلی تھی

    نہ شور تھا بازار میں ، نہ تھی کوئی ہلچل

    بے چینی بڑھا رہا تھا ، گزرتا ہوا ہر پل

     

    خالی پیٹ اُس مکاں میں

     بھلا کیوں شام کو کچھ ملتا !

     ملِتی تھی غذا صبح میں

    تھا میں بازار کی جس دکاں میں

     چھایا تھا اندھیرا ہر سُو

    تھا نہ باجرہ ، نہ پانی

    دن گزر گیا ایسے ہی

    بنا کھائے کھانا،، بن پیے پانی

     

     دوسرے دن بھی ہوا یہی

    قُفل دکاں کا کھُلا نہیں

    اُٹھا جا رہا تھا ، نہ چلا جا رہا تھا

    میں بیٹھا پنجرے میں اک طرف

    گھُپ اندھیروں کو بس، تکا جا رہا تھا

    پیاس سے حلق سُوکھ چکا تھا

    دانے ، دُنکے سے تھا پیٹ خالی

    مسلسل اندھیرا تھا اس دکاں میں

    تھا قفس ہر طرح کے ، اُجالے سے عاری

     

     پھر اچانک سے ہی ۔ ۔ ۔ بند ہو گئیں تھیں آنکھیں

    بے سُدھ تھا میرا جسم سارا

    بس باقی تھیں ، تو صرف چند سانسیں

    کیا قصور تھا ۔ ۔ ۔ میں معصوم تھا !

    بے ضرّر بھی،، با وفا!

    نہ جانے یہ کیوں ملی تھی سزا

    سامنے بند آنکھوں کے

    تھے منظر حَسین یادوں کے

    کر کے یاد اُنہی یادوں کو

    سر اک طرف ڈھلک گیا تھا

    میں پنچھی کھُلی فضاﺅں کا

    موت بے بسی کی مر گیا تھا

    ہاں ۔۔۔ میں”مر ” گیا تھا !!

    *****

    شاعرِامن

    کاشف شمیم صدیقی

  • کرونا وائرس: اموات کی تعداد 722، امریکی شہری بھی ہلاک، دنیا کا بڑا آٹو پلانٹ بند

    کرونا وائرس: اموات کی تعداد 722، امریکی شہری بھی ہلاک، دنیا کا بڑا آٹو پلانٹ بند

    بیجنگ: چین میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 722 ہو گئی ہے، غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ وائرس سے چین میں 34 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں جن میں 2 ہزار سے زائدکی حالت تشویش ناک ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چین میں مہلک کرونا وائرس سے ہونے والی اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اور مؤثر اقدامات کے باوجود وائرس کی ہلاکت خیزی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

    چینی صوبے ووہان میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والا امریکی شہری بھی دم توڑ گیا ہے۔ یہ کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والا پہلا امریکی شہری ہے، رپورٹس کے مطابق ہلاک شہری ایک 60 سالہ خاتون تھی جس نے جمعرات کو دم توڑا۔ جاپان کی بندرگاہ پر روکے گئے کروز میں 64 افراد میں وائرس کی تشخیص ہو گئی، سنگاپور میں مریضوں کی تعداد 33 ہو گئی جس کے بعد سنگاپور میں ہائی الرٹ کر دیا گیا، کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے امریکا نے چین کو 100 ملین ڈالر امداد کی پیش کش کر دی ہے۔

    ادھر کرونا وائرس کے اثرات کے پیش نظر دنیا کا سب سے بڑا آٹو پلانٹ بند کر دیا گیا ہے، غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیئول میں واقع ساؤتھ کورین کار ساز کمپنی یونڈے کا پلانٹ بند کر دیا گیا ہے، اس آٹو پلانٹ میں سالانہ 14 لاکھ گاڑیاں بنائی جاتی ہیں، پلانٹ بڑی تعداد میں آٹو پارٹس درآمد کرتا ہے، اور یہاں 25 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔

    کرونا وائرس سے خبردار کرنے والا ڈاکٹر دم توڑ گیا

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس بچاؤ کے پیش نظر ایشیائی ترقیاتی بینک نے 20 لاکھ ڈالر دینے کا اعلان کر دیا ہے، یہ رقم تکنیکی اور تحقیقاتی سپورٹ اور وائرس سے بچاؤ کے اقدامات پر استعمال ہوگی، رقم کمبوڈیا، چین، لاؤ، میانمار، تھائی لینڈ اور ویتنام کے لیے جاری کی گئی ہے، خیال رہے کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے اے ڈی بی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

  • جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    جون ایلیا: باغی اور روایت شکن شاعر

    روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید بھائی جون کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ ضرور ہوتے تھے، مگر مجلس میں دلیل، منطق اور مثال دے کر اپنا مؤقف سب کے سامنے رکھتے۔

    علمی مباحث اور فکر کا اظہار کرتے ہوئے جون ایلیا تاریخ، فلسفہ، منطق، مذاہبِ عالم، زبانوں، ثقافتوں اور مختلف ادوار کی نابغۂ روزگار شخصیات کے نظریات، سیاسی و سماجی تحریکوں کے حوالے دیتے۔

    آج نظم اور نثر پر یکساں قادر، منفرد اسلوب کے حامل اورعظیم تخلیق کار جون ایلیا کی برسی منائی جارہی ہے۔
    اس باغی اور روایت شکن شاعر نے امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں سبھی افراد علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن اور روشن فکر تھے۔

    آئے روز علمی و ادبی نشستیں، فکری مباحث منعقد ہوا کرتیں اور کم عمر جون ایلیا کو کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک سبھی کچھ جاننے، سمجھنے کا موقع مل جاتا۔ اس ماحول کے پروردہ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا۔

    14 دسمبر 1931 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے جون ایلیا نظم اور نثر دونوں میں باکمال ٹھہرے۔ وہ شاعر اور ایک انشا پرداز کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اپنی باغیانہ فکر کے ساتھ اپنے منفرد لب و لہجے سے انھوں نے نہ صرف دنیائے ادب میں بلند اور نمایاں مقام و مرتبہ حاصل کیا بلکہ ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئے۔

    شاعری کی بات کی جائے تو جون ایلیا نے روایت سے ہٹ کر اپنے محبوب سے براہِ راست کلام کیا۔ یہ قطعہ دیکھیے:

    شرم، دہشت جھجھک، پریشانی
    ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں
    آپ، وہ، جی، مگر یہ سب کیا ہے
    تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

    ایک اور شعر دیکھیے:

    کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
    تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو

    یہ شعر ملاحظہ ہو:

    اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
    کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

    جون ایلیا کی زندگی میں ان کا صرف ایک ہی مجموعۂ کلام منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان تھا، شاید۔ اس کتاب کا دیباچہ جون کی زندگی کے مختلف واقعات سے آراستہ ہے۔ اس کتاب کے ان چند صفحات نے ہر خاص و عام کی توجہ حاصل کی اور اسے بہت پسند کیا گیا۔

    جون ایلیا کی شاعری نے ہر عمر اور طبقے کو متاثر کیا۔ ان کا حلیہ، گفتگو اور مشاعرے پڑھنے کا انداز بھی شعروسخن کے شائقین میں بے حد مقبول ہوا۔ وہ اپنے عہد کے ایک بڑے تخلیق کار تھے، جس نے روایتی بندشوں سے غزل کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اسے ایک نئے ڈھب سے آشنا کیا۔

    محبوب سے شکوہ کرنا ہو یا رسوا، زمانے کے چلن سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کرنا ہو یا کسی رویے پر چوٹ، جون ایلیا خوف زدہ نظر نہیں آتے۔ وہ بات کہنے اور بات بنانے کا ہنر بھی خوب جانتے تھے۔

    علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
    وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

    اور یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

    بہت نزدیک آتی جارہی ہو
    بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا

    یہ شعر دیکھیے:

    نہیں دنیا کو جب پروا ہماری
    تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

    جون ایلیا ایک شاعر، مصنف، مترجم اور فلسفی کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔ وہ اردو زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور عبرانی بھی جانتے تھے اور ان کے کلام میں ان زبانوں کے الفاظ اور تراکیب پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    جون ایلیا نے زندگی کو اپنی ہی نظر سے دیکھا، سمجھا، اور اپنے انداز سے گزارا۔ وہ کسی کی پیروی اور تقلید کے قائل نہ تھے۔ ان کا باغی طرزِ فکر، ہر شے سے بیزاری اور تلخی ان کی شخصیت کا ایک حصہ بن چکی تھی۔

    جس کو بھی شیخ و شاہ نے حکمِ خدا دیا قرار
    ہم نے نہیں کیا وہ کام، ہاں بہ خدا نہیں کیا

    8 نومبر 2002 کو جون ایلیا اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کا ایک شعر ہے:

    ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
    دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

  • مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا

    مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
    میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا

    ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنام خیالی ٹھہرو
    میرا دل گوشہ تنہائی میں گھبرائے گا

    لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
    زخم گہرا ہی سہی زخم ہے بھر جائے گا

    عزم پختہ ہی سہی ترک وفا کا لیکن
    منتظر ہوں کوئی آ کر مجھے سمجھائے گا

    آنکھ جھپکے نہ کہیں راہ اندھیری ہی سہی
    آگے چل کر وہ کسی موڑ پہ مل جائے گا

    دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
    جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا

    *********

  • کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی

    کیا کہیئے کہ اب اس کی صدا تک نہیں آتی
    اونچی ہوں فصیلیں تو ہوا تک نہیں آتی

    شاید ہی کوئی آ سکے اس موڑ سے آگے
    اس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی

    وہ گل نہ رہے نکہت گل خاک ملے گی
    یہ سوچ کے گلشن میں صبا تک نہیں آتی

    اس شور تلاطم میں کوئی کس کو پکارے
    کانوں میں یہاں اپنی صدا تک نہیں آتی

    خوددار ہوں کیوں آؤں در اہل کرم پر
    کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی

    اس دشت میں قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہے ہو
    پیڑوں سے جہاں چھن کے ضیا تک نہیں آتی

    یا جاتے ہوئے مجھ سے لپٹ جاتی تھیں شاخیں
    یا میرے بلانے سے صبا تک نہیں آتی

    کیا خشک ہوا روشنیوں کا وہ سمندر
    اب کوئی کرن آبلہ پا تک نہیں آتی

    چھپ چھپ کے سدا جھانکتی ہیں خلوت گل میں
    مہتاب کی کرنوں کو حیا تک نہیں آتی

    یہ کون بتائے عدم آباد ہے کیسا
    ٹوٹی ہوئی قبروں سے صدا تک نہیں آتی

    بہتر ہے پلٹ جاؤ سیہ خانہ غم سے
    اس سرد گپھا میں تو ہوا تک نہیں آتی

    ***********

  • ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر

    ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
    بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر

    آ کر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر
    تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

    پوچھو سمندروں سے کبھی خاک کا پتہ
    دیکھو ہوا کا نقش کبھی بادبان پر

    یارو میں اس نظر کی بلندی کو کیا کروں
    سایہ بھی اپنا دیکھتا ہوں آسمان پر

    کتنے ہی زخم ہیں مرے اک زخم میں چھپے
    کتنے ہی تیر آنے لگے اک نشان پر

    جل تھل ہوئی تمام زمیں آس پاس کی
    پانی کی بوند بھی نہ گری سائبان پر

    ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
    چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکاں پر

    سایہ نہیں تھا نیند کا آنکھوں میں دور تک
    بکھرے تھے روشنی کے نگیں آسمان پر

    حق بات آ کے رک سی گئی تھی کبھی شکیبؔ
    چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر

    **********

  • ساتھی

    میں اس کو پانا بھی چاہوں
    تو یہ میرے لیے نا ممکن ہے
    وہ آگے آگے تیز خرام
    میں اس کے پیچھے پیچھے
    افتاں خیزاں
    آوازیں دیتا
    شور مچاتا
    کب سے رواں ہوں
    برگ خزاں ہوں
    جب میں اکتا کر رک جاؤں گا
    وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر
    مجھ سے آنکھیں چار کرے گا
    پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا
    پھر میں
    منہ توڑ کے
    تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا
    اپنے نقش قدم روندوں گا
    اب وہ دل تھام کے
    میرے پیچھے لپکتا آئے گا
    ندی نالے
    پتھر پربت پھاند آ جائے گا
    میں آگے آگے
    وہ پیچھے پیچھے
    دونوں کی رفتار ہے اک جیسی
    پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے
    وہ مجھ کو یا میں اس کو پا لوں
    *********