Category: شاعری

  • گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا

    گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
    ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا

    ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
    فسانہ جگر لخت لخت ایسا تھا

    ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
    چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا

    یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
    کوئی نہ سہہ سکے لہجہ کرخت ایسا تھا

    کہاں کی سیر نہ کی توسنِ تخیل پر
    ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا

    ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
    کوئی نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا

    *********

  • جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے

    جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
    جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
    یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجیئے
    رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی
    نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجیئے
    یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
    مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجیئے
    کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی
    اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجیئے
    ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا
    جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجیئے
    ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی
    نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجیئے
    جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی
    وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجیئے
    وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
    ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجیئے

    **********

  • اظہار اورسائی

    مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
    بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
    آدمی کس سے مگر بات کرے؟
    بات جب حیلہ تقریب ملاقات نہ ہو
    اور رسائی کہ ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند
    بات کی غایت ِغایات نہ ہو
    ایک ذرہ کفِ خاکستر کا
    شرر جستہ کے مانند کبھی
    کسی انجانی تمنا کی خلش سے مسرور
    اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنور کی لو سے مجبور
    ایک ذرہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور
    کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
    آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
    اور بنتا ہے معانی کا خداوند کبھی
    وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو
    اسی اک ذرے کی تابانی سے
    کسی سوئے ہوئے رقاص کے دست و پا میں
    کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
    اسی اک ذرے کی حیرانی سے
    شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
    اسی اک ذرہ لافانی سے
    خشت بے مایہ کو ملتا ہے دوام
    بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو
    آدمی کس سے مگر بات کرے؟
    مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
    آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
    اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
    اور پھر کس کے لیے بات کروں؟

    ************

  • خودکشی

    کر چکا ہوں آج عزم آخری
    شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
    چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
    صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
    رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
    تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
    منہ بسورے، رہ گزاروں سے لپٹتے، سوگوار
    گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اکتایا ہوا
    میرا عزم آخری یہ ہے کہ میں
    کود جاؤں ساتویں منزل سے آج
    آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب
    آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
    ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
    اس کے تخت خواب کے نیچے مگر
    آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
    تازہ و رخشاں لہو،
    بوئے مے میں بوئے خوں الجھی ہوئی
    وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
    اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزم آخری
    جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
    اس دریچے میں سے جو
    جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو
    شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
    چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
    صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
    آج تو آخر ہم آغوش زمیں ہو جائے گی
    *********

  • دستور: میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
    میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
    جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
    چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
    اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
    چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    *********

  • بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

    بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
    نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے

    تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
    کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے

    نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
    عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

    اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
    یہ کیسی شام ِخرابات ہو گئی پیارے

    وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
    ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے

    تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
    الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے

    *********

  • اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے

    اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
    زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

    یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
    تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

    حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
    ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

    ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
    ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے

    کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
    کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

    ********

  • دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

    دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
    ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

    بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
    لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

    ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
    دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

    جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
    آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

    وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
    اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

    **********

  • کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی

    کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
    اس نے خوشبو کی طرح میری پزیرائی کی

    کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا اُس نے
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

    وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
    بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

    تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد رہے
    تجھ پہ گزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

    اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پر جب ہاتھ رکھا
    رُوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

    اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
    جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

    **********

  • تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے

    تازہ محبتوں کا نشہ جسم و جاں میں ہے
    پھر موسمِ بہار مرے گلستاں میں ہے

    اِک خواب ہے کہ بارِ دگر دیکھتے ہیں ہم
    اِک آشنا سی روشنی سارے مکاں میں ہے

    تابِش میں اپنی مہر و مہ و نجم سے سوا
    جگنو سی یہ زمیں جو کفِ آسماں میں ہے

    اِک شاخِ یاسمین تھی کل تک خزاں اَثر
    اور آج سارا باغ اُسی کی امں میں ہے

    خوشبو کو ترک کر کے نہ لائے چمن میں رنگ
    اتنی تو سوجھ بوجھ مرے باغباں میں ہے

    لشکر کی آنکھ مالِ غنیمت پہ ہے لگی
    سالارِ فوج اور کسی امتحاں میں ہے

    ہر جاں نثار یاد دہانی میں منہمک
    نیکی کا ہر حساب دِل دوستاں میں ہے

    حیرت سے دیکھتا ہے سمندر مری طرف
    کشتی میں کوئی بات ہے یا بادباں میں ہے

    اُس کا بھی دھیا ن جشن کی شب اے سپاہِ دوست
    باقی ابھی جو تیر، عُدو کی کمال میں ہے

    بیٹھے رہیں گے، شام تلک تیرے شیشہ گر
    یہ جانتے ہوئے کہ خسارہ دکاں میں ہے

    مسند کے اتنے پاس نہ جائیں کہ پھر کَھلے
    وہ بے تعلقی جو مزاجِ شہاں میں ہے

    ورنہ یہ تیز دھوپ تو چبھتی ہمیں بھی ہے
    ہم چپ کھڑے ہوئے ہیں کہ تُو سائباں میں ہے

    **********