Category: شاعری

  • وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

    وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
    مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

    ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
    کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا

    وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
    ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا

    وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے
    موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا

    آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی
    تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا

    مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
    جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا

    **********

  • میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا

    میں فقط چلتی رہی منزل کو سر اس نے کیا
    ساتھ میرے روشنی بن کر سفر اس نے کیا

    اس طرح کھینچی ہے میرے گرد دیوار خبر
    سارے دشمن روزنوں کو بے نظر اس نے کیا

    مجھ میں بستے سارے سناٹوں کی لے اس سے بنی
    پتھروں کے درمیاں تھی نغمہ گر اس نے کیا

    بے سر و ساماں پہ دل داری کی چادر ڈال دی
    بے در و دیوار تھی میں مجھ کو گھر اس نے کیا

    پانیوں میں یہ بھی پانی ایک دن تحلیل تھا
    قطرۂ بے صرفہ کو لیکن گہر اس نے کیا

    ایک معمولی سی اچھائی تراشی ہے بہت
    اور فکر خام سے صرف نظر اس نے کیا

    پھر تو امکانات پھولوں کی طرح کھلتے گئے
    ایک ننھے سے شگوفے کو شجر اس نے کیا

    طاق میں رکھے دیے کو پیار سے روشن کیا
    اس دیے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا

    *********

  • دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

    ن

    دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
    وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

    قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
    کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

    جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
    بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا

    میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
    وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

    انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
    وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

    سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

    اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
    سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

    مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
    تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا

    **********

  • چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا

    چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
    عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

    اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
    اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا

    ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
    اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا

    اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
    بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا

    ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا

    میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
    شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا

    چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
    وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا

    مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
    منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

    **********

  • اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا

    اک ہنر تھا کمال تھا، کیا تھا
    مجھ میں تیرا جمال تھا، کیا تھا

    تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
    دل میں ڈر تھا ملال تھا، کیا تھا

    برق نے مجھ کو کر دیا روشن
    تیرا عکس جلال تھا، کیا تھا

    ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم
    تیرا وقت زوال تھا کیا تھا

    جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا
    ڈوبنے کا خیال تھا، کیا تھا

    جس پہ دل سارے عہد بھول گیا
    بھولنے کا سوال تھا ،کیا تھا

    تتلیاں تھے ہم اور قضا کے پاس
    سرخ پھولوں کا جال تھا، کیا تھا

    *********

  • کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

    کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

    طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
    وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

    تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
    کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

    دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
    نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں

    نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
    مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

    نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
    نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

    میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
    ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

    *********

  • ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

    تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
    یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

    قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
    چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

    اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
    مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

    تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
    ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

    اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
    کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

    گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
    یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

    **********

  • ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

    یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

    ********

  • ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

    ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
    یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

    علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
    غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق

    مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
    خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

    اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم
    بغل میں اس کی ہیں اب تک بتانِ عہد عتیق

    مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت
    ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحبِ تصدیق

    اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
    نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

    **********

  • مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

    مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
    مروت حسن عالم گیر ہے مردان ِغازی کا

    شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
    سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

    بہت مدت کے نخچیروں کا انداز نگہ بدلا
    کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا

    قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
    فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

    حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
    نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

    کہاں سے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
    کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

    ***********