Category: شاعری

  • سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے

    سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
    بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے

    ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
    ہاں ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے

    آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
    بھولے تو یوں کہ جیسے کبھی آشنا نہ تھے

    کیوں داد غم ہمیں نے طلب کی برا کیا
    ہم سے جہاں میں کشتۂ غم اور کیا نہ تھے

    گر فکر زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
    کیوں محو مدح خوبی تیغ ادا نہ تھے

    ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
    ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے

    لب پر ہے تلخی مئے ایام ورنہ فیضؔ
    ہم تلخی کلام پہ مائل ذرا نہ تھے

    *********

  • تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

    تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
    کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

    حدیث یار کے عنواں نکھرنے لگتے ہیں
    تو ہر حریم میں گیسو سنورنے لگتے ہیں

    ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
    جو اب بھی تیری گلی سے گزرنے لگتے ہیں

    صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکر وطن
    تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں

    وہ جب بھی کرتے ہیں اس نطق و لب کی بخیہ گری
    فضا میں اور بھی نغمے بکھرنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
    تو فیضؔ دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    *********

  • آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    آنکھ سے دور طلسمات کے در وا ہیں کئی
    خواب در خواب محلات کے در وا ہیں کئی
    اور مکیں کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت
    کوئی امید، کوئی آس مسافر صورت
    کوئی غم، کوئی کسک، کوئی شک، کوئی یقیں
    کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے
    تم اگر ہو، تو مرے پاس ہو یا دور ہو تم
    ہر گھڑی سایہ گر خاطر رنجور ہو تم
    اور نہیں ہو تو کہیں۔۔ کوئی نہیں، کوئی نہیں ہے
    آج شب دل کے قریں کوئی نہیں ہے

    ***********

  • نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی

    نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی
    تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا

    جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی
    بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

    پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے
    اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا

    ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
    بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

    ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ
    سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا

    **********

  • آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

    آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
    چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر

    گاہ جلتی ہوئی گاہ بجھتی ہوئی
    شمع غم جھلملاتی رہی رات بھر

    کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن
    کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر

    پھر صبا سایۂ شاخ گل کے تلے
    کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر

    جو نہ آیا اسے کوئی زنجیر ِدر
    ہر صدا پر بلاتی رہی رات بھر

    ایک امید سے دل بہلتا رہا
    اک تمنا ستاتی رہی رات بھر

    **********

  • لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں

     لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
    ساقیا‘ ساقیا سنبھال ہمیں​

    رو رہے ہیں کہ ایک عادت ہے ​
    ورنہ اتنا نہیں ملال ہمیں

    ​اختلافِ جہاں کا رنج نہ تھا
    دے گئے مات ہم خیال ہمیں

    خلوتی ہیں ترے جمال کے ہم
    آئینے کی طرح سنبھال ہمیں

    کیا توقع کریں زمانے سے
    ہو بھی گر جراتِ سوال ہمیں

    ہم یہاں بھی نہیں ہیں خوش لیکن
    اپنی محفل سے مت نکال ہمیں

    ہم ترے دوست ہیں فرازؔ مگر
    اب نہ اور الجھنوں میں ڈال ہمیں

    *********

  • سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

    سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے​
    شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا
    اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے​
    کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
    پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے​
    جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی
    پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے​
    اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے​
    *******
  • گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا

    گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
    مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

    دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
    اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

    ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
    آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

    باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
    شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا

    کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
    تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

    ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
    کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

    اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
    اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

    میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
    تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا

    **********

  • قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا

    قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
    وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا

    آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
    اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا

    وہ راحت ِجاں ہے مگر اس در بدری میں
    ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا

    ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
    پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا

    دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
    اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

    پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا
    اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا

    *********

  • آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

    آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
    وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا

    اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
    تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

    ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
    میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

    زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
    تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

    ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
    ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

    *********