Category: شاعری

  • سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے

    سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
    جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے

    ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
    مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے

    دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
    جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے

    یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
    میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے

    *********

  • کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا

    کون ہے جو مجھ پہ تاسف نہیں کرتا
    پر میرا جگر دیکھ کہ میں اف نہیں کرتا

    کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میں اس کے
    اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا

    کچھ اور گماں دل میں نہ گزرے ترے کافر
    دم اس لیے میں سورۂ یوسف نہیں کرتا

    پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنواں
    جب تک کہ وہ مضموں میں تصرف نہیں کرتا

    دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
    دنیا کے زر و مال پہ میں تف نہیں کرتا

    تا صاف کرے دل نہ مئے صاف سے صوفی
    کچھ سود و صفا علم تصوف نہیں کرتا

    اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر
    آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا

    *********

  • بلبل ہوں صحنِ باغ سے دوراورشکستہ پر

    بلبل ہوں صحنِ باغ سے دور اور شکستہ پر
    پروانہ ہوں چراغ سے دور اور شکستہ پر

    کیا ڈھونڈے دشتِ گمشدگی میں مجھے کہ ہے
    عنقا مرے سراغ سے دور اور شکستہ پر

    اُس مرغِ ناتواں پہ ہے حسرت جو رہ گیا
    مرغانِ کوہ و راغ سے دور اور شکستہ پر

    ساقی بطِ شراب ہے تجھ بن پڑی ہوئی
    خُم سے الگ ایاغ سے دور اور شکستہ پر

    خود اُڑ کے پہنچے نامہ جو ہو مرغِ نامہ بر
    اُس شوخِ خوش دماغ سے دور اور شکستہ پر

    کرتا ہے دل کا قصد کماں دار تیرا تیر
    پر ہے نشانِ داغ سے دور اور شکستہ پر

    اے ذوقؔ میرے طائرِ دل کو کہاں فراغ
    کوسوں ہے وہ فراغ سے دور اور شکستہ پر

    ********

  • خوب روکا شکایتوں سے مجھے

    خوب روکا شکایتوں سے مجھے
    تونے مارا عنایتوں سے مجھے

    بات قسمت کی ہے کہ لکھتے ہیں
    خط وہ کن کن کنایتوں سے مجھے

    واجب القتل اُس نے ٹھہرایا
    آیتوں سے، روایتوں سے مجھے

    حالِ مہر و وفا کہوں تو ، کہیں
    نہیں شوق ان حکایتوں سے مجھے

    کہہ دو اشکوں سے کیوں ہوکرتے کمی
    شوق کم ہے کفایتوں سے مجھے

    لے گئی عشق کی ہدایت ذوق
    اُس سرے سب نہایتوں سے مجھے​

    **********

  • اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

    تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی
    تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے

    خالی اے چارہ گرو! ہوں گے بہت مرہم واں
    پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے

    پہنچیں گے رہِ گزرِ یار تلک کیوں کر ہم
    پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے

    شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
    پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے

    ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
    بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے

    آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
    جب یہ عاصی عرقِ شرم سے تر جائیں گے

    نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
    ہم جہاں سے روشِ تیرِ نظر جائیں گے

    ذوق جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
    ان کو مے خانے میں لے آؤ، سنور جائیں گے

    *********

  • اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا

    زخمی ہوں میں اُس ناوکِ دزدیدہ نظر سے
    جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے

    ہم خوب ہیں واقف تری اندازِ کمر سے
    یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے

    گر اب کے پھرے جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
    تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے

    سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
    اک آہ بھی سینے میں سو ناامّیدِ اثر سے

    وہ خُلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
    ہے شاخِ ثمردار میں گُل پہلے ثمر سے

    حاضر ہیں مرے توسنِ وحشت کے جلو میں
    باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے

    فریاد ستم کش ہے وہ شمشیرِ کشیدہ
    جس کا نہ رُکے وار فلک کی بھی سپر سے

    اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم جانبِ دریا
    مقصودِ زہِ کعبہ ہے دریا کے سفر سے

    اُف گرمیِ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
    پتھر ہیں پہاڑوں کے اُڑے جاتے شرر سے

    کچھ رحمتِ باری سے نہیں دور کہ ساقی
    رو دیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے

    کُشتہ ہوں میں کس چشمِ سیہ مست کا یارب
    ٹپکے ہے جو مستی مری تُربت کے شجر سے

    کھُلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
    کیا جانیں کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے

    نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
    کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے

    اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
    بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے

    ***********

  • دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا

    دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
    ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

    سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
    یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

    میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
    وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

    دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
    گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا

    ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
    گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا

    کس سے محرومیٔ قسمت کی شکایت کیجیے
    ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

    وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے
    مجھ سا کافرکہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

    مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
    ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا

    ***********

  • جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

    جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
    کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

    رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
    ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

    لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
    جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

    ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
    یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

    موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
    آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

    عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
    مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے
    کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

    *********

  • میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

    میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
    تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

    غیر کی مرگ کا غم کس لئے، اے غیرتِ ماہ!
    ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی

    تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟
    تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی

    حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی
    آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی

    تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا
    کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی

    کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ!
    خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی

    کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب
    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    مجھ کو وہ دو، کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
    زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی

    مجھ سے غالبؔ یہ علائی نے غزل لکھوائی
    ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی

    **********

  • درد منت ِکش دوا نہ ہوا

    درد منت ِکش دوا نہ ہوا
    میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا

    جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
    اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

    ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
    تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

    کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
    گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

    ہے خبر گرم ان کے آنے کی
    آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

    کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
    بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

    جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
    حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

    زخم گر دب گیا لہو نہ تھما
    کام گر رک گیا روا نہ ہوا

    رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے
    لے کے دل دل ستاں روانہ ہوا

    کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
    آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا

    *********