Category: شاعری

  • ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​

    ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں​
    میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں​

    ہم نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو​
    ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں​

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے​
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں​

    میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے​
    میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں​

    کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں​
    کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاءیاد نہیں​

    صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے​
    کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے خفا یاد نہیں​

    آﺅ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں​
    لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں​

    **********

  • ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں

    ذرا کچھ اور قربت زیر داماں لڑکھڑاتے ہیں
    مئے شعلہ فگن پی کر گلستاں لڑکھڑاتے ہیں

    تخیل سے گزرتے ہیں تو نغمے چونک اُٹھتے ہیں
    تصور میں بہ انداز بہاراں لڑکھڑاتے ہیں

    قرار دین و دنیا آپ کی بانہوں میں لرزاں ہیں
    سہارے دیکھ کر زلف پریشاں لڑکھڑاتے ہیں

    تری آنکھوں کے افسانے بھی پیمانے ہیں مستی کے
    بنام ہوش مدہوشی کے عنواں لڑکھڑاتے ہیں

    سنو! اے عشق میں توقیر ہستی ڈھونڈنے والو
    یہ وہ منزل ہے جس منزل پہ انساں لڑکھڑاتے ہیں

    تمہارا نام لیتا ہوں فضائیں رقص کرتی ہیں
    تمہاری یاد آتی ہے تو ارماں لڑکھڑاتے ہیں

    کہیں سے میکدے میں اس طرح کے آدمی لاؤ
    کہ جن کی جنبشِ ابرو سے ایماں لڑکھڑاتے ہیں

    یقیناً حشر کی تقریب کے لمحات آ پہنچے
    قدم ساغر قریب کوئے جاناں لڑکھڑاتے ہیں​

    ***********

  • کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا

    کلیوں کی مہک ہوتا تاروں کی ضیا ہوتا
    میں بھی ترے گلشن میں پھولوں کا خدا ہوتا

    ہر چیز زمانے کی آئینہ دل ہوتی
    خاموش محبت کا اتنا تو صلہ ہوتا

    تم حالِ پریشاں کی پرسش کے لیے آتے
    صحرائے تمنا میں میلہ سا لگا ہوتا

    ہر گام پہ کام آتے زلفوں کے تری سائے
    یہ قافلۂ ہستی بے راہنما ہوتا

    احساس کی ڈالی پر اک پھول مہکتا ہے
    زلفوں کے لیے تم نے اک روز چنا ہوتا

    *********

  • تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا

    تیری نظر کا رنگ بہاروں نے لے لیا
    افسردگی کا روپ ترانوں نے لے لیا

    جس کو بھری بہار میں غنچے نہ کہہ سکے
    وہ واقعہ بھی میرے فسانوں نے لے لیا

    شاید ملے گا قریۂ مہتاب میں سکوں
    اہل خرد کو ایسے گمانوں نے لے لیا

    یزداں سے بچ رہا تھا جلالت کا ایک لفظ
    اس کو حرم کے شوخ بیانوں نے لے لیا

    تیری ادا سے ہو نہ سکا جس کا فیصلہ
    وہ زندگی کا راز نشانوں نے لے لیا

    افسانۂ حیات کی تکمیل ہو گئی
    اپنوں نے لے لیا کہ بیگانوں نے لے لیا

    بھولی نہیں وہ قوس قزح کی سی صورتیں
    ساغرؔ تمہیں تو مست دھیانوں نے لے لیا

    **********

  • اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا

    اس درجہ عشق موجبِ رسوائی بن گیا
    میں آپ اپنے گھر کا تماشائی بن گیا

    دیر و حرم کی راہ سے دل بچ گیا مگر
    تیری گلی کے موڑ پہ سودائی بن گیا

    بزم وفا میں آپ سے اک پل کا سامنا
    یاد آ گیا تو عہد شناسائی بن گیا

    بے ساختہ بکھر گئی جلووں کی کائنات
    آئینہ ٹوٹ کر تری انگڑائی بن گیا

    دیکھی جو رقص کرتی ہوئی موج زندگی
    میرا خیال وقت کی شہنائی بن گیا

    **********

  • فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا

    فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
    بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا​

    دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
    ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا​

    تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل
    تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا​

    گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
    میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا​

    محسن اب اُس کا نام ہے سب کی زبان پر
    کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا​

    **********

  • شکل اس کی تھی دلبروں جیسی

    شکل اس کی تھی دلبروں جیسی
    خو تھی لیکن ستمگروں جیسی

    اس کے لب تھے سکوت کے دریا
    اس کی آنکھیں سخنوروں جیسی

    میری پرواز ِجاں میں حائل ہے
    سانس ٹوٹے ہوئے پروں جیسی

    دل کی بستی ميں رونقیں ہيں مگر
    چند اجڑے ہوئے گھروں جیسی

    کون دیکھے گا اب صلیبوں پر
    صورتیں وہ پیمبروں جیسی

    میری دنیا کے بادشاہوں کی
    عادتیں ہیں گداگروں جیسی

    رخ پہ صحرا ہیں پیاس کے محسن
    دل میں لہریں سمندروں جیسی

    *************

  • پھروہی میں ہوں وہی شہربدرسناٹا

    پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
    مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا

    دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
    ہجر والوں نے لیا رختِ سفر سناٹا

    کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا
    اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا

    تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے
    تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا

    اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے
    جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا

    حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی
    رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا

    قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت
    قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا

    جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے
    ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

    ***********

  • اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
    ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا

    اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
    زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

    موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
    ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا

    تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
    ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

    آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
    راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا

    زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
    اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا

    کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
    دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

    ***********

  • اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

    اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
    دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا

    کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے
    خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا

    پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
    اس کا اندازِ تغافل تھا خداؤں جیسا

    کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس‌ مآل
    پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا

    کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
    جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا

    پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر
    پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

    بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ
    اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

    **********