Category: صحت

Health News in Urdu

صحت سے متعلق خبریں آپ کو تازہ ترین طبی تحقیق، بیماریوں کے پھیلنے، اور صحت مند رہنے کے طریقوں کے بارے میں جاننے میں مدد کر سکتی ہیں۔

  • اینٹی بایوٹک ادویات بلوغت کی عمر میں کتنی نقصان دہ ہیں، ہوشربا حقائق

    اینٹی بایوٹک ادویات بلوغت کی عمر میں کتنی نقصان دہ ہیں، ہوشربا حقائق

    چھوٹے بچوں‌ کو اینٹی بایوٹک ادویات دینے کا بڑا نقصان سامنے آیا ہے، ماہرین صحت نے والدین کو خبردار کردیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ شیر خوار بچوں کو دی جانے والی اینٹی بایوٹک بلوغت کی عمر میں پہنچ کر آنتوں کی صحت پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

    برطانوی طبی جریدے جرنل آف فزیولوجی میں شائع شدہ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا گیا ہے کہ شیر خوار بچوں کو اینٹی بایوٹکس دینے کے مستقبل میں کئی نقصانات سامنے آسکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے اور کم وزن بچوں کو نہ صرف انفیکشن کے علاج بلکہ اس لیے بھی کہ وہ انفیکشن سے محفوظ رہیں، معمول کے مطابق اینٹی بایوٹکس دی جاتی ہیں۔

    تاہم نوزائیدہ چوہوں پر ایک تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ ابتدائی زندگی میں اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے مائیکرو بائیوٹا، اندرونی اعصابی نظام اور آنتوں کی کارکردگی پر دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جن بچوں کو اینٹی بایوٹک دی جاتی ہے وہ بڑے ہو کر معدے کے مسائل کا سامنا کر سکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ میلبورن یونیورسٹی کے شعبہ اناٹومی اینڈ فزیالوجی کی تحقیقی ٹیم کی یہ دریافت پہلی بار یہ ظاہر کرتی ہے کہ نوزائیدہ چوہوں کو دی جانے والی اینٹی بایوٹکس کے دیرپا اثرات ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں معدے کے افعال میں خلل پڑتا ہے، آنتوں کی حرکت پذیری کی رفتار متاثر ہو جاتی ہے، اور جوانی میں اسہال جیسی علامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    ریسرچ کے دوران تحقیقی ٹیم نے چوہوں کو ان کی زندگی کے پہلے دس دنوں تک ہر روز وینکومائسن کی خوراک کھلائی، اس کے بعد بلوغت تک ان کی نشوونما معمول کے مطابق ہوتی رہی، اور اس کے بعد آنتوں کی ساخت، کارکردگی، مائکرو بائیوٹا اور اعصابی نظام کی پیمائش کے لیے ان کی آنتوں کے ٹشوز کا جائزہ لیا گیا۔

    محققین نے دیکھا کہ سامنے آنے والی تبدیلیاں چوہوں کی جنس پر بھی منحصر تھیں، انھوں نے مادہ اور نر چوہوں کے فضلوں میں فرق پایا، نر چوہوں کے فضلے کا وزن کم تھا۔ تاہم نر اور مادہ دونوں کے پاخانے میں پانی کی مقدار زیادہ تھی، جو کہ اسہال جیسی ایک علامت ہے۔

     

  • ملک میں سیلاب سے متاثرہ مراکز صحت کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی

    ملک میں سیلاب سے متاثرہ مراکز صحت کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی

    اسلام آباد (02 ستمبر 2025): ملک میں سیلاب سے ہیلتھ اسٹرکچر کو نقصانات کی رپورٹ وفاق کو موصول ہو گئی، ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلوں سے متاثرہ مراکز صحت کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے۔

    ذرائع وزارت صحت کے مطابق ملک بھر میں سیلاب سے 104 مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے، خیبر پختونخوا، سندھ، اور گلگت بلتستان کا ہیلتھ اسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے۔

    سیلاب سے 7 مراکز صحت مکمل تباہ ہو گئے، جب کہ 97 کو جزوی نقصان پہنچا ہے، کے پی، سندھ، اور گلگت بلتستان میں 7 مراکز صحت مکمل تباہ ہوئے، کے پی میں 3، سندھ میں 2، جی بی میں 2 مراکز صحت مکمل تباہ ہوئے ہیں۔

    کراچی میں 27 ہزار والدین کا پولیو ویکسین پلانے سے انکار کا انکشاف

    ذرائع کے مطابق سیلاب سے متاثرہ 97 مراکز صحت از سر نو بحال کیے جا چکے ہیں، خیبرپختونخوا میں 60 لیڈی ہیلتھ ورکرز کے گھروں کو نقصان پہنچا، کے پی میں 32 لیڈی ہیلتھ ورکرز کے گھر مکمل تباہ اور 28 کو جزوی نقصان پہنچا۔

    سندھ میں 25، پنجاب میں 12 مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے، گلگت بلتستان میں بارشوں اور سیلاب سے 7 مراکز صحت کو نقصان ہوا ہے، جی بی میں 2 مراکز صحت مکمل تباہ اور 5 کو جزوی نقصان پہنچا، جب کہ سیلاب سے تباہ شدہ 2 مراکز صحت غیر فعال ہیں۔

  • جنوبی خیبرپختونخوا سے پولیو کا کیس رپورٹ

    جنوبی خیبرپختونخوا سے پولیو کا کیس رپورٹ

    اسلام آباد (01 ستمبر 2025): ملک میں پولیو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آ گیا ہے، جس سے رواں سال کے پولیو کیسز کی تعداد 24 ہو گئی ہے۔

    ذرائع ریفرنس لیب کے مطابق نیشنل ریفرنس لیب نے ملک میں ایک اور پولیو کیس کی تصدیق کر دی ہے، یہ کیس جنوبی خیبرپختونخوا سے رپورٹ ہوا ہے۔

    ذرائع کے مطابق پولیو وائرس سے متاثرہ بچی کی عمر 20 ماہ ہے، جس کا تعلق ٹانک کی تحصیل جنڈولہ، یو سی پنگ سے ہے، رواں برس خیبرپختونخوا سے یہ 16 واں کیس ہے، جب کہ جنوبی کے پی سے اب تک 14 پولیو کیس رپورٹ ہو چکے ہیں۔

    پولیو وائرس کے کم پھیلاؤ کا موسم، اہم حکومتی فیصلہ سامنے آ گیا

    رواں سال سندھ سے پولیو وائرس کے 6 کیس رپورٹ ہوئے ہیں، پنجاب، گلگت بلتستان سے ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

    ذرائع ریفرنس لیب کا کہنا ہے کہ پولیو کیس کی جینیاتی تشخیص کا عمل جاری ہے، جنڈولہ میں سیکیورٹی مسائل پر پولیو مہم منعقد نہیں ہوتی ہے۔

  • بال اُگانے کیلیے سرمہ کے ساتھ صرف دو چیزیں ۔ ۔ ۔ گنج پن سے چھٹکارا

    بال اُگانے کیلیے سرمہ کے ساتھ صرف دو چیزیں ۔ ۔ ۔ گنج پن سے چھٹکارا

    سرمہ آنکھوں کی بینائی کو بہتر بنانے، انہیں صاف رکھنے اور انفیکشن سے بچانے کے ساتھ ساتھ پلکوں اور بھنوؤں کی مضبوطی اور بالوں کی نشونما میں مددگار ہوسکتا ہے۔

    سرمے کا پتھر، جسے عربی میں «اثمد» کہتے ہیں، ایک قدرتی طور پر پایا جانے والا سیاہ مائل سرخی رنگ کا چمکدار پتھر ہے جسے پیس کر آنکھوں کے لیے سرمہ بنایا جاتا ہے۔

    سرمہ کا پتھر بینائی کو بہتر بنانے، آنکھوں کی صفائی کرنے اور انہیں مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ پتھر باجوڑ ، چترال اور کوہستان کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

    یہ آنکھوں کے اعصاب کو تقویت دیتا ہے، زکام کے دوران آنکھوں سے بہنے والا پانی سرمہ سے خشک ہو جاتا ہے اور آنکھوں کی سرخی جاتی رہتی ہے، آگ سے جلے ہوئے زخموں پر سرمہ چکنائی میں حل کرکے لگانا از حد مفید ہے۔

    مندرجہ ذیل سطور میں سرمے کی مدد سے بالوں کیلیے خاص تِل کا تیل بنانے کا طریقہ بیان کیا جارہا ہے جس کو استعمال کرنے سے بالوں کی نشونما اور خوبصورتی میں اضافہ ہوگا۔

    تِل اور سرمے کا تیل بنانے کا طریقہ

    اس کو تیار کرنے کیلیے آدھا چمچ سرمہ میں 25 ملی گرام تل کا تیل اس میں شامل کرلیں۔ اس جو جب بھی استعمال کرنا چاہیں اسے اچھی طرح ہلا لیں تاکہ نیچے بیٹھا ہوا سرمہ اوپر آجائے۔

    اس کے علاوہ بال چر یا گنج پن میں مبتلا افراد کیلیے یہ تیل بہترین دوا ہے اس کو استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے چند قطرے متاثرہ جگہ پراچھے سے لگائیں اور لہسن کے جوے کو آدھا کاٹ کر اس پر ربنگ کریں۔ یہ عمل چارچھ دن تک کریں وہاں بال اگنا شروع ہوجائیں گے۔

    ہاد رہے کہ سرمہ پلکوں کو مضبوط بنانے اور بالوں کی نشوونما میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم، ہمیشہ خالص اور معیاری سرمہ استعمال کرنا چاہیے۔ جعلی یا کیمیکل والے سرمے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ یہ آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • پلاسٹک کی بوتل سے پیاس بجھانا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے، لیکن کیسے

    پلاسٹک کی بوتل سے پیاس بجھانا بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے، لیکن کیسے

    مارکیٹ میں دستیاب 80 فیصد تک بوتل بند پانی میں پلاسٹک کے باریک ذرات اور پوشیدہ کیمیکلز پائے گئے ہیں، جو امراض قلب اور ہارمون کے عدم توازن بلکہ کینسر کا باعث بھی سکتے ہے۔

    ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گاڑی میں چھوڑ دی جانے والی پلاسٹک کی بوتلوں سے پانی پینا جسم میں بتدریج زہر پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔

    سرطان، بانجھ پن، بچوں میں نشوونما کی سستی اور ذیابیطس جیسے امراض سے جُڑے ہوئے ہیں۔ یہ خطرہ اس وقت کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب بوتلیں گرمی میں بند گاڑی کے اندر چھوڑ دی جائیں اور ایئر کنڈیشنر بھی بند ہو۔

    نیویارک پوسٹ کے مطابق جریدے مائیکرو پلاسٹک میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی پینے سے خون میں مائیکرو پلاسٹک (ننھے ذرات) کے داخل ہونے کے نتیجے میں بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔

    چین کی نانجنگ یونیورسٹی کے محققین نے پلاسٹک کی بوتلوں کو 70 درجۂ حرارت پر چار ہفتے تک رکھا ہے جس کا نتیجہ حیران کن تھا۔

    پلاسٹک کے ایک عام جزو "پولی ایتھلین ٹیریفتھالیٹ ” سے ایک زہریلا دھات "اینٹیمونی” اور خطرناک مادہ "بیسفینول اے ” پانی میں خارج ہو گیا۔

    اینٹیمونی سے فوری طور پر سر درد، چکر، متلی اور پیٹ درد جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں، جبکہ طویل مدتی اثرات میں پھیپھڑوں کی سوزش اور معدے کے السر شامل ہیں۔

    دوسری جانب بیسفینول اے سرطان، دل کی بیماریاں، آٹزم اور قبل از وقت موت جیسے خطرات سے منسلک ہے۔

    جدید لیزر ٹیکنالوجی سے کی گئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک پلاسٹک بوتل میں اوسطاً 2 لاکھ 40 ہزار ذرات موجود ہوتے ہیں، جب کہ نل کے پانی میں یہ مقدار محض 5.5 ذرات فی لیٹر پائی گئی۔

    یہ نہایت باریک "نینو پلاسٹکس” خون اور دماغ کے خلیوں میں براہِ راست داخل ہوسکتے ہیں اور اپنے ساتھ "فتھالیٹس” جیسے کیمیکلز لے جاتے ہیں جو پلاسٹک کو مضبوط اور لچک دار بناتے ہیں۔

    فتھالیٹس سے بچپن کی پیدائشی خرابیاں، سرطان، دماغی زوال، دمہ، بانجھ پن اور بچوں میں سیکھنے کی دشواریاں جیسی بیماریاں جڑی ہوئی ہیں۔

  • وٹامن ڈی : آنکھوں کی بینائی کیلیے کتنا ضروری ہے؟

    وٹامن ڈی : آنکھوں کی بینائی کیلیے کتنا ضروری ہے؟

    وٹامن ڈی اور ​کیلشیم مضبوط ہڈیوں اور صحت عامہ کے لئے بہت ضروری ہے، انسان کو روزانہ وٹامن ڈی اور کیلشیم کی کتنی خوراک درکار ہوتی ہے۔

    کیلشیم کی ہی طرح وٹامن ڈی بھی ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے ضروری ھے، وٹامن ڈی کو ” سن شائن” وٹامن بھی کہتے ہیں۔

    وٹامن ڈی ایک ضروری ہارمون کی قسم ہے جو کیلشیم کے جذب میں مدد دیتا ہے، مضبوط ہڈیوں اور دانتوں کے لیے ضروری ہے، مدافعتی نظام کو سہارا دیتا ہے اور موڈ کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    اس کا اہم ترین ذریعہ سورج کی روشنی ہے، لیکن یہ کچھ خوراکوں اور سپلیمنٹس سے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، وٹامن ڈی کی کمی ہڈیوں کی کمزوری، مدافعتی نظام کی خرابی اور دیگر صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

    وٹامن ڈی کی کمی کی عام علامات میں تھکاوٹ، ہڈیوں اور پٹھوں میں درد یا کمزوری، موڈ میں تبدیلیاں (جیسے ڈپریشن)، بال گرنا، اور کمزور مدافعتی نظام شامل ہیں، شدید کمی کی صورت میں، بالغوں میں آسٹیومالیشیا (ہڈیوں کا نرم ہونا) اور بچوں میں رکٹس (ہڈیوں کا جھکنا) ہو سکتا ہے۔

    انسان کی صحت کیلئے وٹامنز بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، اگر جسم کو مطلوبہ مقدار میں وٹامنز میسر نہ ہوں تو صحت کے پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔

    تاہم ایک نئی تحقیق میں اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی ہماری بینائی کے لیے بھی خطرات پیدا کرسکتی ہے۔

    طیی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی سے جہاں دیگر مسائل ہوسکتے ہیں، وہیں آنکھوں کی بیماری میکولر ڈجنریشن (macular degeneration)بھی ہوسکتی ہے۔

    مذکورہ بیماری اگرچہ زائد العمری میں عام ہوتی ہے، تاہم اس سے وٹامن ڈی کی وجہ سے ادھیڑ عمر اور یہاں تک کے نوجوان بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔

    اس مسئلے کے دوران متاثرہ شخص کا وژن یا ںظر بلر ہوجاتی ہے، اسے تمام چیزیں غیر واضح یا دھندلی دکھائی دیتی ہیں اور مذکورہ مسئلہ مسلسل رہنے سے بینائی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

    اگرچہ میکولر ڈجنریشن مختلف وجوہات کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور اس کا کوئی مستند علاج بھی دستیاب نہیں، تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کا ایک سبب ہے اور متعدد تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وٹامن ڈی کی اچھی مقدار اس بیماری سے بچا سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اگرچہ وٹامن ڈی کی مناسب مقدار سے میکولر ڈجنریشن بیماری کو ختم نہیں کیا جا سکتا لیکن وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے یہ بیماری ہوسکتی ہے۔

    علاوہ ازیں میکولر ڈجنریشن دیگر وٹامنز جن میں وٹامن ای، وٹامن اے، زنک، وٹامن سی، کوپر اور لیوٹین کی کمی سے بھی ہوسکتی ہے، تاہم وٹامن ڈی کی کمی سے اس کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    عام طور پر وٹامن ڈی کو انسانی جسم سورج کے درجہ حرارت سے حاصل کرتا ہے لیکن اس باوجود جسم کو وٹامن ڈی کی مطلوبہ مقدار نہیں مل پاتی، اس لیے ماہرین صحت وٹامن ڈی سے بھرپور پھل اور سبزیاں کھانے سمیت وٹامن ڈی کے سپلیمنٹس کھانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

    وٹامن ڈی سے بھرپور سپلیمنٹس میں ایکٹو وٹامن ڈی ہوتی ہے جو کہ اس کی کمی کو فوری طور پر مکمل کرنے میں مددگا ثابت ہوتی ہیں۔

  • پاگل خانہ : مینٹل اسپتال لاہور کے اندر کی دنیا کیسی ہے؟ ویڈیو میں ہوشربا انکشاف

    پاگل خانہ : مینٹل اسپتال لاہور کے اندر کی دنیا کیسی ہے؟ ویڈیو میں ہوشربا انکشاف

    پاگل خانہ اپنی نوعیت کی ایک ایسی جگہ ہے جہاں جانے والوں کے سامنے ایک علیحدہ اور عجیب و غریب زندگی ہوتی ہے جس کا تصور یا موازنہ باہر کی دنیا سے کرنا بہت مشکل ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے لاہور کے مینٹل اسپتال جا کر وہاں فراہم کی جانے والی سہولیات اور علاج معالجے کے حوالے سے معلومات حاصل کیں۔

    ایک پاگل خانے (مینٹل ہسپتال) کے مریض دن رات کیسے گزارتے ہیں؟ مینٹل اسپتال کو عام اسپتال سے الگ کیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا حقیقت واقعی وہی ہے جو ہم جانتے ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور کہانی ہے؟ گھر والے ایسے مریضوں کو بوجھ کیوں سمجھتے ہیں؟

    ٹیم سرعام جب لاہور کے پاگل خانہ (مینٹل اسپتال) پہنچی تو وہاں ایسی کہانیاں سامنے آئیں جنہیں جاننا لوگوں کے لیے بے حد ضروری ہے۔

    اگر لاہور کے مینٹل اسپتال کی بات کی جائے تو یہاں بہت بہترین اور تسلی بخش علاج کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، مریضوں کیلیے ادویات اور ان کے کھانے کیلیے بہترین اور اعلیٰ معیار کے پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔

    دس سال سے کوئی ملنے نہیں آیا

    پاگل خانے میں تین ایسی ضعیف خواتین بھی تھیں جو گزشتہ دس سال سے یہاں زیر علاج ہیں لیکن انہیں کوئی ملنے نہیں آتا، تاہم اسپتال کا عملہ ان خواتین کا ہر لحاظ سے خیال رکھتا ہے۔

    ٹیم سرعام نے ایک اور مریض سے بات کی لیکن اس دوران کہیں سے بھی ایسا نہیں لگا کہ وہ کوئی نفسیاتی مریض ہے بلکہ بظاہر وہ بہت سمجھدار اور سلجھا ہوا لگ رہا تھا، اس کے بارے میں ڈاکٹر نے بتایا کہ ڈس آرڈر کا مریض ہے اور اس کی طبیعت میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔

    مجھے اکثر کوئی آوازیں دیتا ہے

    ایک خاتون نے بتایا کہ میں 16 سال سے ایک بیماری کا شکار ہوں، میرے ہاں جب بیٹے کی پیدائش ہوئی تو اس کے بعد سے مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی باہر سے کوئی مجھے آوازیں دے رہا ہے۔

    ایک بار میں وہ آواز سن کر گھر سے ایسے ہی باہر بغیر دوپٹے کے نکل آئی جس کے بعد میرے شوہر علاج کیلیے یہاں لے آئے، مجھے اب بھی آوازیں آتی ہیں کہ ایسا کرلو ویسا کرلو لیکن میں وہی کرتی ہوں جو میرا دل چاہتا ہے۔

    آپ اگر کسی پاگل سے ملیں تو آپ کو اس کا یقین حیران کر دے گا وہ اپنی بات کا یقین دلانے کیلیے بڑی سے بڑی قسم کھا جائے گا۔

    دنیا کا ہر پاگل دن میں خواب دیکھتا ہے اور وہ اس خواب کو حقیقت سمجھتا رہتا ہے اور دنیا کا ہر پاگل بحث کا استاد ہوتا ہے اگر وہ اپنی پر آجائے تو آپ اسے بحث میں نہیں ہرا سکتے۔

    گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 34 فیصد حصہ ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہے۔ پاکستان میں 30ہزار ذہنی مریضوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر ہے۔ ذہنی امراض میں مینٹل ڈس آرڈر کی شرح 12۔7 فیصد سالانہ ہے۔

  • کیلشیم کی کمی جاننے کے 7 آسان طریقے

    کیلشیم کی کمی جاننے کے 7 آسان طریقے

    عام طور پر کیلشیم کی کمی ہڈیوں کو کمزور کرنے، پٹھوں میں درد، تھکاوٹ اور دانتوں کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔ تاہم جسم میں پیدا ہونے والی 7 علامات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

    ماہرین صحت کے مطابق اس کی وجوہات میں کیلشیم سے بھرپور غذا نہ کھانا یا وٹامن ڈی کی کمی شامل ہے جبکہ علاج میں متوازن غذا، کیلشیم سپلیمنٹس اور وٹامن ڈی کا استعمال شامل ہے۔

    یاد رکھیں ! کیلشیئم مرکزی اعصابی نظام کے متعدد حصوں کے لیے اہم کردار ادا کرنے والا غذائی جز ہے۔

    کیلشیئم ہمارے جسم اور صحت کے لیے بہت اہم غذائی جز ہے کیونکہ ہمارا جسم اس منرل کو ہڈیاں اور دانت مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ دل اور دیگر مسلز کے افعال کے لیے بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

    جب جسم میں کیلشیئم کی کمی ہونا شروع ہوجاتی ہے تو ہڈیوں کی کمزوری سمیت دیگر امراض کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

    جسم میں کیلشیئم کی کمی ہونے پر ابتدا میں عموماً واضح علامات نمودار نہیں ہوتیں، مگر وقت کے ساتھ یہ مسئلہ سنگین ہوجاتا ہے جس کے بعد جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں۔

    کیلشیئم کی کمی کا سامنا کرنے والے فرد کو مسلز میں تکلیف، اکڑن اور تشنج جیسے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    اسی طرح چلنے کے دوران رانوں اور ہاتھوں میں تکلیف ہوسکتی ہے جبکہ ہاتھوں اور پیروں کے سن ہونے یا سوئیاں چبھنے جیسے احساس کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

    جسم میں کیلشیئم کی مقدار کم ہونے پر بہت زیادہ تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے جبکہ ایسا لگتا ہے جیسے جسمانی توانائی ختم ہوگئی ہے۔بہت زیادہ تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ سستی، بے خوابی اور سر چکرانے جیسے مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔

    کیلشیئم کی کمی ہونے پر خشک جِلد، کمزور یا بھربھرے ناخن، سر کے درمیان سے بالوں کے جھڑنے، چنبل اور کھردرے بالوں جیسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ البتہ ناخنوں پر سفید نشان بننا کیلشیئم کی کمی کی علامت نہیں ہوتی۔

    اس کے علاوہ ہماری ہڈیوں کو کیلشیئم کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کی مضبوطی برقرار رہ سکے مگر جب جسم میں کیلشیئم کی سطح گھٹ جاتی ہے تو ہڈیوں کی کمزوری اور انجری کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہڈیوں کی کثافت گھٹ جاتی ہے اور ہڈیوں کے بھربھرے پن کے مرض کا سامنا ہوتا ہے۔اسی طرح ہڈیوں میں بہت زیادہ تکلیف بھی ہونے لگتی ہے۔

    کیلشیئم کی کمی کے باعث دانتوں کی کمزوری، مسوڑوں میں خارش، دانتوں کی جڑیں کمزور ہونا اور دانت ٹوٹنے جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی انگلیاں سن ہونے یا سوئیاں چبھنے کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

    اگر جسم میں کیلشیئم کی کمی ہو تو اعصاب پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں خاص طور پر ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں پر، جن میں اکثر سن ہونے یا سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتا ہے۔

    کچھ شواہد کے مطابق جسم میں کیلشیئم کی کمی سے ذہنی امراض بشمول ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے، ایسی صورتحال میں کسی معالج سے فوری رابطہ کرنا ضروری ہے۔

  • ڈینگی ٹیسٹ کی فیس فکس کرنے کا فیصلہ

    ڈینگی ٹیسٹ کی فیس فکس کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد(28 اگست 2025): وفاقی حکومت نے ڈینگی ٹیسٹ کی فیس فکس کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں ٹیسٹ کی من مانی فیس وصولی کا نوٹس لیتے ہوئے ڈینگی ٹیسٹ کی فیس فکس کرنے کا اعلان کردیا، اسلام آباد کی حدود میں ٹیسٹ فیس کی 1500 روپے مقرر کردی گئی۔

    اسلام آباد ہیلتھ کیئر ریگولیٹری اتھارٹی نے ٹیسٹ فیس مقرر کی اسلام آباد میں واقع نجی، سرکاری اسپتال، لیبارٹریز پر فیصلے کا اطلاق ہو گا، اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی نے سیکرٹری صحت، ڈی ایچ او کو مراسلہ ارسال کردیا۔

    ذرائع کے مطابق اسلام آباد ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی نے اسپتالوں، لیبارٹریز کے نام مراسلے میں بتایا گیا ہے کہ اسلام آباد ہیلتھ ریگولیشن 2018 کے تحت ڈینگی ٹیسٹ فیس مقرر ہوئی ہے۔

    اسلام آباد ہیلتھ اتھارٹی کے مطابق اسلام آباد میں ڈینگی ٹیسٹ فیس کا اطلاق 31 دسمبر 2025 تک ہو گا، ٹیسٹ فیس فکس کرنے پر اسپتال، لیبارٹریز سے مشاورت ہوئی ہے۔

    اسپتال، لیبارٹریز ڈینگی ٹیسٹ فیس لسٹ آویزاں کرنے کی پابند ہونگی، ٹیسٹ رپورٹ میں مشین کا نام، کٹ، بیچ نمبر کا اندراج لازم ہو گا، مقررہ سے زائد ڈینگی ٹیسٹ فیس وصولی پر کارروائی ہو گی۔

  • قبض کی شکایت کبھی نہ ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دودھ کے ساتھ صرف دو چیزیں

    قبض کی شکایت کبھی نہ ہوگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دودھ کے ساتھ صرف دو چیزیں

    قبض کو اگر امّ الامراض کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، کیونکہ یہ بیماری اپنے ساتھ کئی بیماریوں کو لاتی ہے، بہتر یہی ہے کہ اس کا علاج جتنی جلدی ممکن ہو کرلیا جائے۔

    قبض کا اگر وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ دائمی شکل اختیار کرکے روز مرہ کی روٹین کو متاثر اور آپ کو بے آرام کرسکتا ہے۔

    قبض سے نجات کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خوراک میں فائبر کی مقدار بڑھائیں، وافر مقدار میں پانی پیئں، باقاعدگی سے ورزش کریں اور جنک فوڈز سے مکمل پرہیز کریں۔

    اس کے علاوہ قدرتی علاج جیسے گرم پانی یا گرم لیموں کا پانی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور گھریلو ٹوٹکے یا نسخے بھی کارآمد ہوسکتے ہیں۔

    اس حوالے سے ماہرصحت نے قبض سے نجات کے لیے ایک نسخہ تجویز کیا ہے جس کو بنانے کا طریقہ مندرجہ ذیل سطور میں بیان کیا جارہا ہے۔

    اس نسخے کی تیاری کیلیے 3 اجزاء کی ضرورت ہے جس میں سب سے پہلے آدھا گلاس گرم دودھ میں دو چمچ اسپغول کی بھوسی اور ایک چمچ زیتون کا تیل ملائیں اور اسے اتنی دیر تک ملاتے رہے کہ یہ اتنا ٹھنڈا ہوجائے کہ باآسانی پیا جاسکے۔

    اس کو پینے کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل پی لیا جائے تو نہ صرف یہ قبض کشا ہے بلکہ آنتوں میں ہونے والی خشکی کے خاتمے کیلیے بھی انتہائی کارآمد ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔