Category: صحت

Health News in Urdu

صحت سے متعلق خبریں آپ کو تازہ ترین طبی تحقیق، بیماریوں کے پھیلنے، اور صحت مند رہنے کے طریقوں کے بارے میں جاننے میں مدد کر سکتی ہیں۔

  • بچے کی پیدائش کے بعد نئی ماؤں کے لیے ڈائٹ پلان کیا ہونا چاہیے؟

    بچے کی پیدائش کے بعد نئی ماؤں کے لیے ڈائٹ پلان کیا ہونا چاہیے؟

    پہلی بار ماں بننے والی خواتین کیلیے انتہائی ضروری ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ڈائٹ پلان میں غذائیت والی خوراک کا انتخاب کریں۔

    ہر عورت کیلیے پہلی بار ماں بننے کا احساس انتہائی خوشگوار ہوتا ہے لیکن زچگی سے پہلے اور بعد میں ماں کو جو پیچیدگیاں اور طبی مسائل درپیش ہوتے ہیں ان پر قابو پانا بھی انتہائی ضروری ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر عائشہ نے خصوصاً پہلی بار ماں بننے والی خواتین کو صحت سے متعلق مفید مشورے دیے۔

    انہوں نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے بعد نئی ماؤں کی صحت کے لیے ڈائٹ پلان میں اچھی خوراک اور بہترین غذائیت بہت اہمیت کی حامل ہے۔

    حمل کے دوران ماں کئی پیچیدہ مراحل سے گزرتی ہے، بچے کی پیدائش کے بعد وہ جسمانی طور پر کافی کمزور ہو جاتی ہے، اس وقت ماں کو اپنے کھانے پینے پر کافی توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ بچے کی پیدائش کا عمل عورت کو کافی حد تک کمزور کردیتا ہے اس کے بعد بچے کی دیکھ بھال کیلیے ماؤں کی نیند اور کھانے پینے کا شیڈول بھی متاثر ہوتا ہے جو ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    انہوں نے نئی ماؤں کو ہدایت کی کہ اگر آپ کو کولڈ ڈرنکس، چاکلیٹ اور چائے کافی وغیرہ پینے کا شوق ہے جس میں کیفین کی زیادہ مقدار ہوتی ہے تو انہیں فوری طورپر روک دیں خاص طور پر جب تک آپ کا بچہ ماں کا دودھ پی رہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب ماں صحت مند رہے گی، تو بچہ بھی صحت مند رہے گا اس کیلیے ضروری ہے کہ مائیں دودھ، دہی پھل اور گوشت کا استعمال لازمی کریں کیونکہ جو آپ کھائیں گی اس کا اثر بچے کی صحت پر لامحالہ پڑے گا۔

  • "کینسر کا علاج ہے لیکن پولیو کا نہیں”

    "کینسر کا علاج ہے لیکن پولیو کا نہیں”

    وفاقی وزیرصحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ کینسر کا علاج ہے لیکن پولیو کا نہیں، بیشتر ممالک میں پولیو کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیرصحت نے پولیو ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج کے پانی کی ٹریٹمنٹ انتہائی ناگزیر ہے، دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں پولیو کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے، پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے۔

    مصطفیٰ کمال نے کہا کہ لگتا ہے افغانستان بھی جلد ہی پولیوفری ہوجائےگا، افغانستان میں طالبان حکومت کامیاب ویکسی نیشن مہم چلا رہی ہے۔

    ملک بھر کے 47 ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

    انھوں نے کہا کہ ہم پہلے لوگوں کو بیمار کرتے ہیں پھرعلاج کیلئے اسپتال بناتے ہیں، اگر ہرگلی میں اسپتال بنادیں تو بھی وہ کم ہوں گے۔

    وفاقی وزیرصحت مصظفیٰ کمال کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی بڑھتی آبادی ہمارے وسائل نگل رہی ہے، یہی صورتحال رہی تو 2030 تک ہم دنیا کی چوتھی بڑی آبادی بن جائیں گے۔

    خیال رہے کہ پولیو کے عالمی اداروں کے تقاضے پر حکومت نے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے انجکشن لگانے کا فیصلہ کیا ہے، کراچی، لاہور، پشاور میں بچوں کو پولیو ویکسین انجکشن لگائے جائیں گے۔

    ذرائع پولیو پروگرام کا کہنا تھا کہ پولیو ویکسین انجکشن 15 سال تک کے بچوں کو خصوصی مہم کے دوران لگائے جائیں گے، پولیو ویکسین انجکشن آئندہ چار ماہ میں مرحلہ وار لگائے جائیں گے۔

    https://urdu.arynews.tv/polio-vaccine-parents-refusal-cases-report-29-06-2025/

  • پاکستان میں ملیریا کی نئی دوا کے سلسلے میں بڑی پیش رفت

    پاکستان میں ملیریا کی نئی دوا کے سلسلے میں بڑی پیش رفت

    اسلام آباد: ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا کنٹرول پاکستان نے ملک کے پہلے G6PD پائلٹ منصوبے کے نتائج جاری کر دیے ہیں، جو ڈائریکٹوریٹ ملیریا اور عالمی ادارے ترقی برائے ادویات کے تعاون سے پاکستان کے 9 متاثرہ اضلاع میں کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کے مطابق اس سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں ڈبلیو ایچ او، یونیسیف، گلوبل فنڈ، میڈیسنز فار ملیریا وینچر سمیت قومی و بین الاقوامی اداروں کے نمائندے شریک ہوئے، اور قومی ادارہ تدارک برائے ملیریا کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مختار نے منصوبے پر بریفننگ دیتے ہوئے کہا منصوبہ G6PD ٹیسٹنگ کے عملی نفاذ پر مرکوز تھا۔

    وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر مختار بھرتھ نے کہا نتائج نے واضح کیا کہ بنیادی صحت کے نظام میں G6PD ٹیسٹنگ کو مؤثر طریقے سے ضم کیا جا سکتا ہے، 2022 کے سیلاب میں 28 لاکھ سے زائد ملیریا کیسز رپورٹ ہونے کے بعد اس ایجنڈے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، ہم اس پائلٹ منصوبے کے نتائج کو اپنی قومی حکمت عملی سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔

    انھوں نے بتایا اس منصوبے کا مقصد پاکستان میں ملیریا کے خلاف استعمال ہونے والی نئی دوا Tafenoquine کا استعمال تھا، نئی دوا ٹیفنو کوئن پرانی 14 روزہ دوا primaquine کے مقابلے میں مریضوں کی پیروی کو زیادہ مؤثر بناتی ہے، گزشتہ سال ستمبر میں ڈبلیو ایچ او کی منظوری کے بعد ڈریپ نے Tafenoquine کی رجسٹریشن کر دی ہے۔

    ڈاکٹر مختار بھرتھ نے کہا قبل ازیں پاکستان میں پریما کوئن دوا ملیریا کے مریض چودہ دن کے استعمال کے بعد مکمل صحت یاب ہوتا تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ملیریا کے مریض دو تین دن کھانے کے بعد یہ دوا چھوڑ دیتا تھا، جس سے مریض صحت یاب نہیں ہوتا تھا، مریضوں کی دوائی کا مکمل کورس نہ لینے کا یہ رویہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں چیلنج بنا ہوا تھا۔

    انھوں نے کہا ٹیفنو کوئین دوا کے استعمال کے بعد ملیریا کے خاتمے کی کوششوں میں بڑی پیش رفت ہوگی اور پاکستان جلد ان ممالک کی صف میں کھڑا ہوگا جو اس دوا کی مکمل تحقیق کے بعد اس دوا کا استعمال شروع کر رہے ہیں، پاکستان ان چند ممالک کی صف میں ہوگا جو جلد ملیریا کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیں گے۔

    وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کو قومی اور بین القوامی اداروں نے بڑی کامیابی قرار دیا ہے، پاکستان اگلے سال 2026 میں انٹرنیشنل کانفرنس برائے خاتمہ ملیریا کروانے جا رہا ہے، اس کانفرنس میں دنیا بھر کے سائنس دانوں، ماہرین، اور مندوبین کو مدعو کیا جائے گا، کانفرنس میں پاکستان ملیریا کے تدارک کے لیے تمام عالمی معیار کی کوششوں کا حصہ بنے گا۔

  • لیموں پانی پینے کے نقصانات

    لیموں پانی پینے کے نقصانات

    وٹامن سی سے بھرپور لیموں کو پانی میں نچوڑ کر پینا اکثر صحت بخش سمجھا جاتا ہے لیکن جہاں اس کے فوائد ہیں وہیں کچھ نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔

    لیموں پانی کو صحت کیلیے فائدہ مند اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹس جیسے دیگر بہت سے اجرا موجود ہوتے ہیں، لیکن اس کو خالی پیٹ پینا کچھ لوگوں کیلیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    کن لوگوں کو خالی پیٹ لیموں پانی نہیں پینا چاہیے؟

    لیموں میں بہت زیادہ سائٹرک ایسڈ ہوتا ہے لہٰذا اسے خالی پیٹ پینے سے تیزابیت ہو سکتی ہے۔

    باقاعدگی سے خالی پپیٹ لیموں پانی پینا دانتوں کی بیرونی تہہ انامیل کو کمزور کر سکتا ہے۔

    لیموں پانی کا زیادہ استعمال دل کی جلن کا سبب بن سکتا ہے۔

    اس کے علاوہ، خالی پیٹ لیموں پانی پینا درد شقیقہ کا سبب بن سکتا ہے۔

    کیا روزانہ لیموں پانی پینا چاہیے؟

    ماہرین کہتے ہیں روزانہ ایک یا دو گلاس لیموں پانی پینا صحت کیلیے مفید ہےتاہم اگر آپ کو معدے کے مسائل ہیں جیسے ایسڈ ریفلوکس تو یہ پانی ان علامات کو بڑھا سکتا ہے، ساتھ ہی یہ دانتوں کے اینامل کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس طرح لیموں کے پھل کیلیے حساسیت پیدا ہو سکتی ہے۔

    اس لیے جب بھی لیموں پانی کا استعمال کریں اس کی تاثیر کو کم کیلیے اس میں دیگر پھل اور سبزیوں کو بھی شامل کریں۔

    تاہم لیموں پانی کی تیاری کے وقت لیموں کو چھلکوں سمیت ڈالنے سے گریز کریں کیونکہ ان پر کیڑے مار ادویات کا اسپرے کیا جاتا ہے اور بہتر صفائی نہ ہونے کی صورت میں یہ کچھ لوگوں کیلیے سوزش اور گردے کے مسائل جیسے جوڑوں کے درد کا باعث بن سکتا ہے۔


    ڈسکلیمر (Disclaimer): 

    یہ خبر عام معلوماتی مقصد کیلیے شائع کی گئی ہے لہٰذا اسے کسی بھی صورت میں طبی مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

    لیموں پانی کے ممکنہ نقصانات سے متعلق دی گئی معلومات عمومی نوعیت کی ہیں اور ہر فرد پر اس کے اثرات مختلف ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی غذا، مشروب یا علاج کو اپنانے یا ترک کرنے سے پہلے معالج یا ماہر صحت سے مشورہ ضرور کریں۔

  • ذیابیطس سے آگاہی کیلیے پہلی باربی ڈول متعارف

    ذیابیطس سے آگاہی کیلیے پہلی باربی ڈول متعارف

    کیلیفورنیا : کھلونے تیار کرنے کی معروف کمپنی میٹل نے پہلی باربی گڑیا متعارف کرائی ہے جو ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا بچوں کی نمائندگی کرتی ہے۔

    یہ نئی گڑیا 2025 کی باربی فیشنسٹاز لائن کا حصہ ہے جس کا مقصد بچوں میں شمولیت اور ان بچوں کی نمائندگی کو فروغ دینا ہے جو کسی دائمی بیماری کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق یہ محض ایک گڑیا نہیں بلکہ ان لاکھوں بچوں کے لیے امید، ہمت اور پہچان کی علامت ہے جو روزانہ اس بیماری سے مقابلہ کرتے ہیں۔

    میٹل کمنی کی یہ گڑیا ’بریک تھرو ٹی ون ڈی چلڈرنز کانگریس‘نامی عالمی تنظیم کی شراکت سے دو سال کے عرصے میں تیار کی گئی ہے جو ٹائپ ون ذیابیطس پر تحقیق اور اس کی آگاہی پر کام کرتی ہے۔

    اس نئی فیشنسٹا باربی کا نا صرف انداز دلکش ہے بلکہ وہ ذیابیطس سے متعلق طبی آلات ایک انسولین پمپ، کنٹینیوئس گلوکوز مانیٹر، موبائل ایپ اور ذیابیطس سے متعلق دیگر ضروری سامان سے لیس ہے۔

    گڑیا نے نیلے رنگ کا کپڑوں کا خوبصورت جوڑا پہنا ہے جس پر پولکا ڈاٹس ہیں، نیلا رنگ اور گول نشان عالمی سطح پر ذیابیطس کی آگاہی کی علامت ہیں۔

    اس کے ساتھ ایک ہلکے نیلیے رنگ کا چھوٹا سا پرس بھی ہے جس میں گڑیا کے طبی سامان اور شوگر کم کرنے یا بڑھانے والے اسنیکس رکھے جاسکتے ہیں تاکہ بچے کھیل ہی کھیل میں اس بیماری کے عملی پہلو کو بھی سمجھ سکیں۔

    میٹل کمپنی کے مطابق یہ گڑیا ان بچوں کو خوشی دے گی جو خود ذیابیطس کا شکار ہیں اور باقی بچوں کو بھی یہ سلھائے گی کہ اپنی بیماری کے ساتھ جینا شرمندگی کی بات نہیں بلکہ ایک طاقت ہے۔

  • ’سالانہ 61 لاکھ بچے پیدا، ہم ہر سال ایک نیوزی لینڈ جتنی آبادی پاکستان میں شامل کر رہے ہیں‘

    ’سالانہ 61 لاکھ بچے پیدا، ہم ہر سال ایک نیوزی لینڈ جتنی آبادی پاکستان میں شامل کر رہے ہیں‘

    وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے پاکستان میں آبادی کے اضافے پر کہا ہے کہ ہم ہر سال نیوزی لینڈ جتنی آبادی اپنے ملک میں شامل کر رہے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 61 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی ہم اپنے ملک میں ہر سال ایک نیوزی لینڈ جتنی آبادی شامل کر رہے ہیں۔

    وزیر صحت نے کہا کہ خطے میں اوسط شرح افزائش 2 فیصد جب کہ پاکستان کا فرٹیلٹی ریٹ 3.6 فیصد کے ساتھ خطے میں بلند ترین سطح پر ہے۔ ہم ہیلتھ کیئر نہیں سِک کیئر پر کام کر رہے ہیں۔ چین اور بھارت نے آبادی پر قابو پایا، ہمیں بھی اس حوالے سے سنجیدگی سے اقدامات کرنے ہوں گے۔

    مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ تیزی سے بڑھتی آبادی کے باعث پاکستان کا انفرااسٹرکچر متاثر ہو رہا ہے۔ ہر سال زچگی کے دوران 11 ہزار مائیں جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ پاکستان میں 2 کروڑ 22 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ہیپاٹائٹس کیسز میں پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی پینے سے ہوتی ہیں۔ قوم کے پاس سیوریج کے پانی کو ٹریٹ کرنے کا شعور ہی نہیں۔ اس وقت ہر گلی میں بھی اسپتال بنا دیں، تب بھی کمی پوری نہیں ہو سکتی۔ ہمارا صحت کا موجودہ نظام الٹ چل رہا ہے، اس پر مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے اور بیماریوں سے بچاؤ پر توجہ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

    وزیر صحت نے این ایف سی ایوارڈ کی آبادی کے بنیاد پر تقسیم کا شیئر 50 فیصد تک محدود کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے بلوچستان پیچھے رہ جاتا ہے۔

    مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ وزیر اعظم 21 جولائی کو ہیلتھ کے فیس لیس سسٹم کا افتتاح کریں گے۔ اس سسٹم کے تحت پاکستان میں وہیل چیئر سے لے کر ایم آر آئی مشین تک کی امپورٹ بغیر انسانی رابطے کے ہوسکے گی۔

  • وٹامن سی کی کمی کی حیران کن وجوہات کیا ہیں؟

    وٹامن سی کی کمی کی حیران کن وجوہات کیا ہیں؟

    جسم میں وٹامن سی کی کمی کی چند حیران کن وجوہات میں غذائیت کی کمی، تمباکو نوشی، کچھ طبی حالات، اور ادویات شامل ہیں۔

    اگرچہ وٹامن سی کی کمی کی عام وجوہات میں تازہ پھلوں اور سبزیوں کا کم استعمال شامل ہے، لیکن کچھ کم واضح وجوہات بھی ہیں جو اس کمی کا باعث بن سکتی ہیں۔

    جسم میں اس کی کمی کی چند علامات ہیں جن میں موٹاپا، جلد کا خشک ہونا یا مسوڑھوں سے خون بہنا شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متوازن غذا کھانے سے کوئی بھی شخص اس کی کمی کو باآسانی پوری کر سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وٹامن کا حصول روزانہ کی بنیاد پر اس لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کیونکہ انسانی جسم نہ تو وٹامن سی خود پیدا کرتا ہے اور نہ ہی اسے ذخیرہ کرتا ہے۔

    بالغ خواتین کو یومیہ 75 ملی گرام وٹامن سی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ مردوں کو 90 ملی گرام یومیہ ضرورت ہوتی ہے، وٹامن سی سرخ مرچوں کے آدھے گلاس، بروکلی کے ایک کپ یا سنگترے کے 3/4 گلاس سے حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کا حصول قدرتی غذاؤں کے استعمال سے کیا جا سکتا ہے۔

     کمی کی خاص وجوہات

    ایسے افراد جو متوازن غذا کا استعمال نہیں کرتے ان کے جسم میں عموماً اس وٹامن کی کمی ہوتی ہے، اس کے علاوہ گردوں کے امراض میں مبتلا افراد جن کا ڈائیلاسز چل رہا ہو یا تمباکو نوشی کے عادی افراد کو روزانہ 35 ملی گرام وٹامن کی اضافی مقدار لینے کی تجویز دی جاتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ایسے افراد کے جسم میں ایسے فری ریڈیکل پیدا ہو جاتے ہیں جن کے لیے وٹامن سی کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وٹامن سی کی کمی کی علامات تین ماہ کے اندر ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

    جب کسی شخص کو زخم ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے جسم میں وٹامنز کی کمی ہوجاتی ہے، جسم کو کولاجن بنانے کے لیے اس وٹامن کی ضرورت ہوتی ہے، یہ پروٹین ہوتی ہے جو جلد کی اصلاح کے لیے کام کرتی ہے۔

    وٹامن سی خون کے سفید خلیے پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے جو جسم کی اصلاح کے لیے اس کی مدد کرتے ہیں۔

    وٹامن سی کی کمی اور جسم میں چربی کا اضافہ بالخصوص پیٹ کی چربی ہونے میں گہرا ربط ہے، وٹامن سی کی وجہ سے جسم کی اضافی چربی پگھل جاتی ہے اور جسم کو طاقت ملتی ہے۔

    جدید سائنسی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ وٹامن سی کی مقدار کی کمی سے وجہ جسم میں تھکاوٹ، چڑچڑاپن اور مایوسی کا احساس ہونے لگتا ہے، جبکہ ایسے افراد جن میں وٹامن سی کی مقدار پوری ہے وہ ایسا محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کا جسم پر کنٹرول زیادہ ہوتا ہے۔

  • مکھیوں کی یلغار : پانی اور آئل کے استعمال سے چھٹکارا مل جائے گا، ویڈیو

    مکھیوں کی یلغار : پانی اور آئل کے استعمال سے چھٹکارا مل جائے گا، ویڈیو

    کراچی : شہر قائد میں ہونے والی بارش کے بعد سے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر اور سیوریج کا پانی کھڑا ہے جس کے نتیجے میں مکھیوں کی یلغار اور بہتات سے شہری پریشانی کا شکار ہیں۔

    ماہرین صحت نے مکھیوں کی بہتات کو انتہائی مضر قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں یہ مسئلہ زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر سلیمان اوتھو نے مکھیوں کی افزائش اور ان سے ہونے والی بیماریوں سے متعلق آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ دنیا میں مکھیوں کی ہزاروں اقسام موجود ہیں لیکن کراچی میں پچھلے چند ہفتوں میں ملیریا اور ڈینگی کے مچھروں کے علاوہ مکھیوں کی بڑی تعداد حملہ آور ہوچکی ہے جو مختلف امراض کا سبب بن رہی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جب مکھیاں کچرے یا کسی گندی جگہ پر بیٹھتی ہیں تو وہ جراثیم اپنے پروں میں جمع کر لیتی ہیں۔ پھر وہ اِن جراثیم کو دوسری جگہ منتقل کرتی ہیں۔ مثلاً جب وہ کھانے پر بیٹھتی ہیں تو جراثیم کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر سلیمان اوتھو نے بتایا کہ مکھیوں کو کیمیکل یعنی کیڑے مار دوا یا مکینیکل ذرائع جیسے ٹریپ، چپچپا ٹیپ یا بجلی کے کرنٹ لگنے والی گرڈ سے مارا جاسکتا ہے، تاہم صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کو بہتر بنا کر ہی دیرپا نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ میونسپل اداروں کی جانب سے علاقوں میں آئی آر ایس ایم کا اسپرے کردیا جائے تو تقریباً 3 مہینے تک مکھیوں اور مچھروں کی افزائش نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ اگر کسی جگہ پانی کھڑا ہوا ہو تو اس کے اوپر کسی بھی طرح کا آئل ڈال دیں اس سے مکھیوں کی افزائش نہیں ہوپائے گی۔

    شہر میں مکھیوں کی بہتات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کراچی میں صفائی کا نظام ویسا نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے۔

    تمام شہری اداروں کی ذمہ داری ہے کہ جو کچرا اُن کے دائرہِ اختیار میں پیدا ہو رہا ہے اُس کو جتنا جلد ہو سکے جمع کریں اور لینڈ فِل سائٹس تک پہنچا دیں۔

  • گلگت بلتستان میں پولیو وائرس کی موجودگی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    گلگت بلتستان میں پولیو وائرس کی موجودگی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    گلگت بلتستان میں پولیو وائرس کی موجودگی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی اداروں نے پولیو کے گلگت بلتستان دوبارہ پہنچنے پر تشویش کا اظہار  کیا ہے، حکومت نے گلگت بلتستان، کے پی میں خصوصی پولیو مہم چلانے کا فیصلہ کرلیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیو مہم گلگت بلتستان اور کے پی کے سرحدی اضلاع میں چلائی جائے گی، خصوصی پولیو مہم گلگت بلتستان کے ضلع دیامر، کے پی کے ضلع کوہستان اپر، لوئر، کولائی پلس میں بھی چلائی جائے گی۔

    کے پی، گلگت بلتستان کے اضلاع میں پولیو مہم  14 تا 18 جولائی چلے گی، اس مہم میں 1 لاکھ 58497 بچوں کی ویکسینیشن ہو گی، خصوصی پولیو مہم کے دوران 1096 فرنٹ لائن ورکرز ڈیوٹی کریں گے۔

    یاد رہے کہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں دو جون کو پولیو کیس رپورٹ ہوا تھا، گلگت بلتستان میں آٹھ سال بعد پولیو وائرس کیس رپورٹ ہوا ہے۔

     گلگت بلتستان میں 2017 میں دیامر سے پولیو کیس رپورٹ ہوا تھا، ضلع دیامر کے 23 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی دیامر کے رہائشی بچے کے وائرس کا جینیاتی تعلق کراچی سے تھا، دیامر کے پولیو سے متاثرہ بچے کی ٹریول ہسٹری نہیں ملی تھی۔

    https://urdu.arynews.tv/gilgit-baltistan-first-case-of-polio-virus/

    واضح رہے کہ دیامر کا شمار گلگت بلتستان کے پولیو کے ہائی رسک اضلاع میں ہوتا ہے، ضلع دیامر میں روٹین ایمونائزیشن کوریج کا لیول کم ہے۔

    رواں سال ملک بھر سے پولیو وائرس کے چودہ کیس رپورٹ ہو چکے ہیں رواں سال کی تیسری قومی انسداد پولیو مہم مئی میں چلائی گئی تھی۔

  • سندھ میں 40 فیصد ڈرائیوروں کی بینائی کمزور ہونے کا انکشاف

    سندھ میں 40 فیصد ڈرائیوروں کی بینائی کمزور ہونے کا انکشاف

    حیدرآباد : سندھ میں سرکاری سطح پر ٹرک ڈرائیوروں کی آنکھوں کا معائنہ کیا جارہا ہے، اب تک ہزاروں کی تعداد میں ڈرائیوروں کا معائنہ کیا جا چکا ہے۔

    کوئی بھی گاڑی چلانے کیلیے ڈرائیور کو طبی لحاظ سے مکمل فٹ اور صحت مند ہونا چاہیے خصوصاً بینائی کے اعتبار سے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اکثر لوگ اس بات کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔

    اے آر وائی نیوز حیدرآباد کے نمائندے اشوک شرما کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف ہوا ہے کہ صوبہ سندھ میں تقریباً 40 فیصد ٹرک ڈرائیور نظر کی کمزوری کا شکار ہیں۔

    سندھ میں سرکاری سطح پر ڈرائیوروں کی آنکھوں کا معائنہ کیا جاتا ہے، جس میں بینائی کی جانچ پڑتال، رنگوں کی پہچان اور دیگر بصری صلاحیتوں کا معائنہ شامل ہے، اس مقصد کے لیے محکمہ ٹرانسپورٹ اور دیگر متعلقہ محکمے کام کر رہے ہیں۔

    اس سلسلے میں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف اوپتھامولوجی اینڈ ویژول سائنسز حیدرآباد کے تحت نیشنل ہائی وے پر خصوصی مرکز قائم کیا گیا ہے۔

    موٹر وے پولیس ہائی وے سے گزرنے والی بڑی گاڑیوں اور ٹرکوں کو روک کر ڈرائیوروں کی آنکھوں کا معائنہ کرکے انہیں ادویات فراہم کی جاتی ہیں یا جس کا معاملہ زیادہ سنگین ہو اسے حیدرآباد کے اسپتال ریفر کیا جاتا ہے۔

    متعلقہ حکام نے مطابق گزشتہ 6 ماہ کے دوران 5 ہزار ڈرائیوروں کی آنکھوں کا معائنہ کیا گیا، جن میں 20فیصد ڈرائیوروں کی موتیا، کالا پانی اور دیگر امراض کی تشخیص ہوئی، اس کے علاوہ 40 فیصد ڈرائیوروں کی بینائی کمزور اور گاڑی چلانے کیلیے ان فٹ ہونے کا انکشاف ہوا۔

    واضح رہے کہ سندھ میں ڈرائیوروں کی آنکھوں کا معائنہ ڈرائیونگ لائسنس کے حصول اور تجدید کے لیے لازمی ہے۔ اس معائنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ڈرائیور مناسب بینائی رکھتے ہوں تاکہ وہ سڑک پر محفوظ طریقے سے گاڑی چلا سکیں۔