کراچی: قومی ادارہ برائے امراض قلب میں یومیہ مریضوں کی تعداد 2 ہزار سے تجاوز کر گئی، سگریٹ نوشی اور پیدل نہ چلنے کے باعث امراض قلب کے مریضوں میں اضافہ ہونے لگا ہے۔
کراچی میں بڑھتے دل کے امراض کے باعث این آئی سی وی ڈی میں یومیہ 2000 سے زائد افراد ایمرجنسی اور او پی ڈی رپورٹ ہونے لگے ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے طرز زندگی کو تبدیل کرنا انہتائی ضروری ہو چکا ہے، مرغن غذاؤں کا استعمال امراض قلب کے مرض کی اہم وجہ بن چکی ہے، اور تاخیر سے سونے کا عمل بلڈ پریشر کو متاثر کرتا ہے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر این آئی سی وی ڈی پروفیسر طاہر صغیر کے مطابق سگریٹ نوشی اور پیدل نہ چلنے کے باعث شہری دل کے مرض کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق این آئی سی وی ڈی اور اس کے سندھ بھر میں قائم سیٹلایٹ مراکز میں مجموعی مریضوں کی تعداد 24 لاکھ کے قریب ہو جاتی ہے۔
قومی ادارہ امراض قلب میں آنے والے مریضوں کی انجیو گرافی، انجیوپلاسٹی اور مختلف نوعیت کے ٹیسٹ مفت کیے جاتے ہیں، ماہرین کے مطابق تاخیر سے کھاننا کھانے اور دیر سے سونے والے کم عمر نوجوان بھی امراض قلب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
حکومت نے ہنگامی حالات میں میڈیکل ڈیوائسز کی قلت سے بچاو کیلئے اہم فیصلہ کیا ہے، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے میڈیکل ڈیوائسز رولز 2017 میں ترمیم کر لی گئی۔
میڈیکل ڈیوائسز رولز میں ترمیم ڈریپ ایکٹ 2012 سیکشن 23 کے تحت ہوئی کمپنیز کو ہنگامی حالات میں اسپتالوں کو میڈیکل ڈیوائسز فراہمی کا پابند کر دیا گیا، جنگ اور ہنگامی حالات میں سول، فوجی اسپتالوں کو میڈیکل ڈیوائسزکی سپلائی لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ترمیم کے مطابق کمپنیز سول، فوجی اسپتالوں کو میڈیکل ڈیوائسز کی ترجیحی فراہمی کی پابند ہونگی، وزارت صحت نے میڈیکل ڈیوائسز رولز میں ترمیم کی ہدایت دی تھی۔
حکومت نے ہنگامی حالات میں میڈیکل ڈیوائسز کی قلت سے بچنے کیلئے فیصلہ کیا گیا ہے، میڈیکل ڈیوائسز لسٹ میں ساڑھے تین ہزار سے زائد آئٹم شامل ہیں، سرجیکل فیس ماسک سمیت سٹی اسکین مشین میڈیکل ڈیوائسز میں شامل ہیں۔
ادویات کی سپلائی سے متعلق قانون سازی میں اہم ترمیم کرتے ہوئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے ڈرگ رولز 1976 میں ترمیم کا حکم نامہ تیار کر لیا۔
جنگ اور ہنگامی حالات میں ادویات قلت سے بچاؤ کیلیے قومی حکمت عملی تیار کے تحت فارما کمپنیز کو ہنگامی حالات میں اسپتالوں کو میڈیسنز فراہمی کا پابند کر دیا گیا۔
برین اسٹروک کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے لیکن اکثر ادھیڑ عمر اور بوڑھے افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں، یہ ایک سنگین طبی حالت ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب دماغ کو خون کی فراہمی منقطع ہوجاتی ہے۔
برین اسٹروک کی وجہ سے دماغ کے ٹشوز کو آکسیجن اور غذائی اجزاء نہیں مل پاتے اور اس کی وجہ سے دماغی خلیات مر جاتے ہیں۔
اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ حالت جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے یا مستقل معذوری کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ برین اسٹروک کا خطرہ مردوں اور عورتوں میں مختلف ہوتا ہے؟
ایک رپورٹ کے مطابق بدلتے ہوئے طرز زندگی، تناؤ اور ناقص خوراک کی وجہ سے فالج کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ مردوں کے مقابلے خواتین کو برین اسٹروک کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
جی ہاں !! بہت سے مطالعات اور طبی رپورٹس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کو نہ صرف فالج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے بلکہ ان میں دیگر پیچیدگیوں کا بھی زیادہ امکان ہوتا ہے۔
قدیم زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور ہائی بلڈ پریشر جیسی عادات کی وجہ سے مردوں کو فالج کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ خواتین کو بھی ان عوامل کی وجہ سے مساوی خطرہ لاحق ہے، تاہم ان وجوہات کی وجہ سے خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق خواتین میں فالج کا خطرہ عمر کے ساتھ تیزی سے بڑھتا ہے خاص طور پر ماہواری کے بعد حمل کے دوران ہارمونل تبدیلیاں، مانع حمل گولیاں، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر حالات فالج کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین میں ڈپریشن، درد شقیقہ اور تناؤ جیسی ذہنی کیفیات کا زیادہ امکان ہوتا ہے جو کہ فالج کے خطرے والے عوامل میں شامل ہیں۔
برین اسٹروک کی علامات میں ذہنی الجھن، کچھ بھی بولنے اور سمجھنے میں دشواری، سر میں شدید درد،
چہرے، بازو، ٹانگ کے کچھ حصوں میں بے حسی خاص طور پر جسم کا ایک حصہ سُن ہوجانا اور چکر آنا شامل ہے۔
احتیاط اور علاج :
اگر بروقت علاج کیا جائے تو برین اسٹروک سے بچا جا سکتا ہے تاہم علامات ظاہر ہونے پر فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر منٹ کی تاخیر دماغ کے لاکھوں خلیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
فالج سے بچنے کے لیے ہائی بلڈ پریشر، شوگر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا ضروری ہے، صحت مند غذا برقرار رکھنا، روزانہ ورزش کرنا، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز کرنا بھی ضروری ہے۔ خواتین کو خاص طور پر حمل اور ماہواری کے دوران اپنی ہارمونل تبدیلیوں کی نگرانی کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔
یہ بات اکثر ہمارے مشاہدے میں آتی ہے کہ بچوں پر ضرورت سے زیادہ پڑھائی اور اچھی پوزیشن لانے کا پریشر انہیں ذہنی طور پر کمزور کرتا ہے اسی طرح سوشل میڈیا یا موبائل فون کا استعمال بھی ان کی صحت کیلئے انتہائی مضر ہے۔
تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بچوں کے سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے بھی ان کی دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی خوداعتمادی میں بھی کمی لاتا ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ کنول چیمہ نے بچوں کے موبائل فون کے استعمال سے متعلق والدین کو مفید مشورے دیے۔
انہوں نے بتایا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے سوشل میڈیا یا موبائل فون استعمال کرنے کے وقت پر کڑی نظر رکھیں اس کے علاوہ کچھ مخصوص ایپلی کیشنز ہیں جو والدین کیلیے بہت کار آمد ثابت ہوسکتی ہیں۔
ان ایپس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے بچے کی سوشل سرگرمیوں کو محدود اور اس کی نگرانی کرسکتی ہیں، بلکہ اسے بلاک بھی کرسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں کنول چیمہ نے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ کہ بچوں سے سختی والا برتاؤ باکل نہ کریں بکہ ام کے دوست بنیں تاکہ وہ آپ سے ہر موضوع پر کھل کر گفتگو کرسکیں۔
واضح رہے کہ قومی سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم کی جانب سے والدین کیلئے اہم ایڈوائزری جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ والدین بچوں کو ڈیجیٹل دنیا میں محفوظ اور ذمہ دار بنانے کی تربیت دیں۔
بچوں کو ذاتی معلومات کی حفاظت سے متعلق آگاہی دیں، والدین بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور سرگرمیوں پر نظر رکھیں، والدین پیغامات، تصاویر اور پوسٹس کی نگرانی ضرور کریں۔
ایڈوائزری میں کہاگیا ہے کہ سوشل میڈیا پر گھر کا پتہ، اسکول کی تفصیل شیئر کرنا خطرناک ہو سکتا ہے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی پرائیویسی سیٹنگز مضبوط کریں، پیرنٹل کنٹرول سافٹ ویئر کا مؤثر استعمال کریں، گوگل فیملی لنک، مائیکرو سافٹ فیملی سیفٹی کا استعمال کریں، غیر موزوں مواد اور سوشل میڈیا رسائی پر کنٹرول کریں۔
ڈپریشن، اضطراب، شیزو فرینیا اور بہت سی کیفیات کو ذہنی صحت کی خرابی سمجھا جاتا ہے لیکن ایک بیماری ایسی بھی ہے جس میں انسان کئی شخصیات میں تقسیم ہوجاتا ہے۔
ایک سے زیادہ ’پرسنلٹی ڈس آرڈر‘ کو سمجھنا۔ اختلال شخصیت کثیر (ملٹی پل پرسنالٹی ڈس آرڈر)، جسے اب اختلالِ شناخت کی خرابی یا ڈسوسی ایٹیو آئیڈینٹیٹی ڈس آرڈر (ڈی آئی ڈی) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہ ایک پیچیدہ اور اکثر غلط سمجھا جانے والا ذہنی مرض ہے، جس میں ایک شخص کی شناخت دو یا اس سے زیادہ مختلف شخصیات میں تقسیم ہوجاتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اختلالِ شناخت کی خرابی ایک ایسی بیماری ہے جس میں ایک ہی انسان کے اندر دو یا اس سے زیادہ شخصیات ہوتی ہیں، ہر شخصیت کا اپنا الگ انداز، یادداشت اور رویہ ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
ڈی آئی ڈی کیا ہے؟
ڈی آئی ڈی کا مطلب "خود کو کھو دینا” نہیں، بلکہ ٹکڑوں میں بٹنا ہے یہ حالت بچپن کے کسی شدید صدمے سے جنم لیتی ہے۔ ڈی آئی ڈی کے مریض اپنے تجربات سے خود کو لاتعلق محسوس کر سکتے ہیں اور دوسروں کے اعمال یا ان کی گفتگو کو بھی بھول سکتے ہیں۔
یہ حالت زیادہ تر بچپن میں ہونے والے شدید ذہنی یا جسمانی صدمے کی وجہ سے بنتی ہے، جس کے باعث دماغ اپنے آپ کو بچانے کے لیے الگ الگ شخصیات پیدا کرلیتا ہے۔
یہ شخصیات اپنے الگ رویے، یادیں اور دنیا سے تعلق قائم کرنے کے منفرد طریقے رکھتی ہیں، اکثر یہ شخصیات بچپن کے کسی شدید صدمے کے نتیجے میں دماغ کی طرف سے بچاؤ کے ایک طریقے کے طور پر ابھرتی ہیں۔
یہ بیماری صرف ایک طبی معمہ نہیں بلکہ انسانی اذیت کی عکاسی ہے، یہ ذہن کی وہ جدوجہد ہے جس میں دماغ ناقابلِ برداشت تکلیف سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
مریض کیا محسوس کرتا ہے؟
ڈی آئی ڈی کے مریض کو ایسا لگتا ہے جیسے اس کے اندر کئی لوگ رہتے ہوں، ہر شخصیت اپنے وقت پر کنٹرول سنبھال لیتی ہے۔ مریض کو یاد نہیں رہتا کہ اُس وقت کیا ہوا جب دوسری شخصیت نے کنٹرول سنبھالا ہوا تھا۔ مریض خود کو اجنبی محسوس کر سکتا ہے، جیسے اس کی اپنی زندگی خود کی نہ ہو۔
دو مشہور مثالیں
مثال کے طور پر شرلی میسن (فلم سائبل) ایک ایسی عورت تھی جس کے اندر 16 شخصیات تھیں، جن میں ایک ڈری ہوئی بچی بھی تھی وہ تمام شخصیات اس کے بچپن کے صدمے سے جڑی ہوئی تھیں، اس کی شخصیت پر ایک فلم اور کتاب بھی لکھی گئی۔
ڈاکٹر کورنیلیا ولبُر کی مدد سے برسوں کی تھراپی کے بعد شرلی میسن کی وہ شخصیات جزوی طور پر یکجا ہوئیں، اگرچہ بعد میں اس کیس کی سچائی پر کافی بحث بھی ہوئی مگر یہ کہانی ڈی آئی ڈی کو عوامی سطح پر متعارف کرانے کا ذریعہ بنی۔
کم نوبل ایک برطانوی فنکارہ ہیں جنہیں ڈی آئی ڈی ہے انہوں نے بچپن میں شدید بدسلوکی کا سامنا کیا ان کے اندر 20 سے زائد شخصیات ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اندازِ فن اور زندگی گزارنے کا الگ طریقہ ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’آل آف می‘ میں اپنی کہانی اپنے الفاظ میں بیان کی ہے۔
اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟
یہ بیماری ویسے تو لاعلاج ہے لیکن اس پر تھراپی یا کاؤنسلنگ کے ذریعے باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، ای ایم ڈی آر یا انٹرنل فیملی سسٹمز تھراپی کی مدد سے کئی لوگ اپنی شخصیات کو ضم کرنے یا ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک طویل اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے تاہم ان سے مریض کو اپنی شخصیات کو سمجھنے اور ان پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
یہ بیماری ایک حقیقت ہے کوئی فلم یا ڈرامہ ہرگز نہیں، ہمیں ایسے افراد سے ہمدردی اور سمجھداری سے پیش آنا چاہیے، یہ لوگ بہت ہمت والے ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اندر کی شدید ٹوٹ پھوٹ کے باوجود زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔
قربانی کے گوشت کو زیادہ دن فریز کرنا کتنا خطرناک ہے؟
عید الاضحیٰ میں قربانی کے گوشت کو فریج کے بغیر زیادہ دیر رکھنے سے وہ قابل استعمال نہیں رہتا، لیکن اگر اسے زیادہ فریز کرلیا جائے تو بھی نقصان کا باعث ہے۔
موسم گرما میں شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عید الاضحی پر قربانی کے گوشت کو محفوظ رکھنا شہریوں کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت دھونے کے بعد اسے صاف کپڑے سے اچھی طرح خشک کیا جائے اور پھر چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ایئر ٹائٹ ڈبے یا پالیتھن بیگز میں رکھ کر فریز کیا کردیا جائے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی محمد عاصم جاوید نے قربانی کے گوشت کو فریز کرنے سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ ضروری ہے کہ گوشت کو مائنس 18 پر فریز کیا جائے لیکن گرم موسم اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے فریزر کا درجہ حرارت قائم نہیں رہتا جس کی وجہ سے گوشت میں موجود خون بہنے لگتا ہے جو جراثیم کے پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فرزر میں گوشت کو زیادہ سے زیادہ 2 ہفتے رکھنا چاہیے اس کے علاوہ گوشت کو کسی کے ساتھ بنایا جائے اور مسالہ جات کا استعمال بھی کم سے کم کیا جائے۔ اور کھانے کے بعد لیموں پانی یا ڈیٹاکس واٹر لازمی پئیں۔
بھارت میں کورونا کیسز میں اچانک اضافہ ہوگیا اور مریضوں کی تعداد 5 ہزار سے تجاوز کرگئی۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نئے کورونا ویرینٹ این بی 1.8.1 کا کئی ممالک میں پھیلاؤ شروع ہوگیا، این بی 1.8.1 ویرینٹ برطانیہ، امریکا، چین، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ میں رپورٹ کیا گیا۔
عالمی ادارہ صحت نے این بی 1.81 کو زیر نگرانی ویرینٹ قرار دے دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق عالمی ماہرین نئے ویرینٹ کے زیادہ تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں، این بی 1.8.1 ویرینٹ میں انسانی خلیات سے جڑنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا نئے ویرینٹ کی علامات میں گلے کی خراش، کھانسی، بخار شامل ہیں، کورونا وائرس کی شدت نہیں بڑھیمگر پھیلاؤ کی رفتار زیادہ ہوسکتی ہے۔
گزشتہ دنوں بھارت کی مرکزی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں 685 نئے کورونا کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ چار افراد اس وبا کے باعث ہلاک ہوئے ہیں۔
یہ اموات نئی دہلی، کیرالہ، کرناٹک اور اترپردیش میں ہوئی ہیں۔مختلف ریاستوں میں کورونا کے فعال کیسز کی صورتحال کچھ یوں ہے، مہاراشٹر 467، دہلی 375، گجرات 265، کرناٹک 234، مغربی بنگال 205، تمل ناڈو 185 اور اترپردیش میں 117 فعال کیسز ہیں۔
رواں ماہ مئی کی 22 تاریخ تک پورے ملک میں صرف 257 فعال کیسز تھے جو 26 مئی تک بڑھ کر ایک ہزار 110 ہوئے اور اب 3400 تک جا پہنچے ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر راجیو بہل کا کہنا ہے کہ ’ہم صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ فی الحال ہمیں محتاط رہنے اور نگرانی کی ضرورت ہے،ہندوستان ٹائمز کے مطابق سنیچر کو ملک میں فعال کیسز کی تعداد 3400 کے قریب پہنچ گئی ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزن کم کرنے کیلئے کم کیلوریز والی غذاؤں کا استعمال بڑھانا چاہیے، پھل اور سبزیوں میں پانی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے اور پانی میں کیلوریز نہیں ہوتیں۔
اگرآپ واقعی اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو ایسی غذائیں کھائیں، جو حجم میں زیادہ لیکن ان میں کیلوریز تعداد کم سے کم ہو۔
اس کے علاوہ اناج میں بھی کم کیلوریز ہوتی ہیں، اناج ریشے دار غذا ہونے کی وجہ سے ہضم ہونے میں زیادہ وقت لگاتا ہے اور اسی لئے پھل، سبزیوں اور اناج کو کم توانائی والی غذائیں کہا جاتا ہے۔
کیلوریز کسے کہتے ہیں؟
کیلوری توانائی کی ایک اکائی ہے، جو اکثر کھانے کی اشیاء کی غذائی قدر کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہ اصطلاح لاطینی لفظ ‘کیلر’ سے آئی ہے، جس کا مطلب گرمی ہے اور یہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے مستعمل ہے۔
ہم روزانہ کی بنیاد پر ایسے کھانے کھا رہے ہوتے ہیں جس کے باعث جسم میں کیلوریز جمع ہوجاتی ہیں جو وزن میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
کیا آپ جسم سے کیلوریز آسانی اور تیزی سے کم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو درج ذیل آسان عادتیں اپنا لیں۔
پُرسکون نیند
رات کو دیر تک جاگنے سے ہماری نیند پوری نہیں ہوتی جس کے سبب بھی وزن بڑھتا ہے، اگر آپ اپنے جسم سے کیلوریز کو کم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو 7 سے 8 گھنٹے کی پرسکون نیند لینا ضروری ہے۔
پانی کا زیادہ استعمال
صحت کا راز پانی میں چھپا ہے، زیادہ پانی پینے سے ناصرف جسم سے زہریلے مادے نکل جاتے ہیں بلکہ اس سے میٹابولزم بھی بہتر ہوتا ہے جس کے ذریعے کیلوریز کم کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
چہل قدمی یا دوڑنا
رننگ یعنی دوڑ لگانا ایک آسان ورزش ہے جس کے ذریعے کیلوریز کو جسم سے جلانے میں مدد ملتی ہے۔
رسی کودنا
بچپن میں سب ہی کو رسی کودنا پسند ہوتا ہے، یہ ایک بہترین ورزش ہے جو جسم سے کیلوریز کو جلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ کیلوریز کی ضروریات دن بدن قوت کے استعمال کے مطابق بدلتی رہتی ہے، زیادہ فارغ رہنے والے آدمی کو 2500 کیلوری یومیہ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ایک اوسط متحرک آدمی کو 3000 کی اور محنت مزدوری کرنے والے فرد کو 4500 یا اس سے زیادہ کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔
گرمی کے موسم میں قربانی کے گوشت کو کئی دنوں کیلیے محفوظ رکھنا ایک مشکل امر ہے خاص طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران گوشت خراب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
قربانی کا گوشت محفوظ رکھنے کیلیے پہلا کام فریزر کی صفائی ہے تاکہ کولنگ کا عمل متاثر نہ ہو سکے۔ گوشت کے اوپر سے چکنائی اور غیر ضروری حصے نکال کر بوٹیوں کی شکل میں کاٹنے کے بعد فریزر میں رکھیں۔
ماہرین کے مطابق قربانی کے گوشت کو خراب ہونے سے بچانے اور فروزن یا منجمد کرنے کی صورت میں ان کی غذائیت میں کمی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ گوشت ریفریجریٹر کے باہر یا فریزر کے باہر دو گھنٹے سے زیادہ نہ چھوڑا جائے۔
اس بات کی پابندی نہ کرنے پر درجہ حرارت بڑھنے کی صورت میں گوشت میں موجود مائیکروب بڑھ جاتے ہیں جو اس کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔
اگر کوئی شخص قربانی کا گوشت فریزر میں محفوظ کرنا چاہتا ہے تو بہتر ہوگا کہ وہ اسے فریزر میں رکھنے سے قبل کم از کم چھ گھنٹے فریج میں رکھے۔ ایسا کرنے سے گوشت کی تازگی اور عمدگی برقرار رہتی ہے۔
قربانی کے گوشت کو فریج میں رکھنے سے قبل صاف ستھری تھیلیوں میں اچھی طرح پیک کرکے رکھیں اور پیکٹ بند کرنے سے قبل حتی الامکان اس کی ہوا نکال دیں اور پھر فریزر میں رکھیں۔
اس کے علاوہ اگر آپ کے فریزر نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا ہے تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بس گوشت کو ابال کر یا پھر نمک لگا کر خشک کر لیں، اس طرح بھی گوشت کو خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
گرمیوں میں ویسے تو بہت سے موسمی پھل مارکیٹ میں نظر آتے ہیں مگر جس پھل کو کھا کر آپ کی پیاس بھی بجھ سکتی ہے وہ تربوز ہوتا ہے۔
شدید تیز دوپہر میں قدرتی، ٹھنڈا اور تازگی بھرا تربوز کا شربت کسے پسند نہیں ہوگا، تاہم اگر اس میں ایک چھوٹی سی چیز گوند کتیرا بھی شامل کردیا جائے تو اس کی تاثیر ہی مختلف ہوجاتی ہے، گوند کتیرا ساتھ ملانے سے تربوز کا شربت ایک طاقتور اور صحت بخش مشروب بن جاتا ہے۔
یہ بہترین شربت نہ صرف ہاضمے کو بہتر کرتا ہے بلکہ قبض کو دور کرتا ہے، آنتوں کو صاف رکھتا ہے اور سب سے بڑھ کر جسم میں موجود چربی کو گھٹانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس سے وزن گھٹانے میں مدد ملتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ تربوز میں 90 فیصد سے زائد پانی ہوتا ہے، جو نہ صرف جسم کو ہائیڈریٹ رکھتا ہے بلکہ اس میں چھپے وٹامنز اور منرلز (وٹامن سی، اے، بی6، آئرن، میگنیشیم، پوٹاشیم) اسے مکمل سپر فوڈ بناتا ہے۔
دوسری جانب گوند کتیرا قدرت کی جانب سے ایک بہترین اینٹی انفلیمیشن فارمولا ہے، یہ ایک قدرتی جیل ہے جو اینٹی سوزش خصوصیات سے بھرپور ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گوند کتیرا جسم کی اندرونی سوزش کم کرتا ہے، جلد کو نمی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ رنگت نکھارتا ہے اور ہاضمے کےلیے بھی بہترین ہوتا ہے۔
اگر تربوز کے شربت میں گوند کتیرا کو شامل کیا جائے تو یہ کافی فائدہ مند ہوسکتا ہے، یعنی ایک ہائیڈریٹنگ پھل اور فائبر سے بھرپور گوند کتیرا ملیں تو زبردست نیچرل انرجی ڈرنک بن جاتا ہے جو جسم کو ٹھنڈک، توانائی اور راحت بخشتا ہے۔
احتیاط لازمی ہے
یہ بات دھیان میں رکھیں کہ گوند کتیرا کا زیادہ استعمال بعض اوقات اسہال جیسی شکایات پیدا کر سکتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں میں جو فائبر کے حوالے سے حساسیت رکھتے ہیں۔
اگر آپ کو پہلے سے کوئی الرجی ہے یا خاتون حاملہ/ دودھ پلانے والی ماں ہیں تو اس مشروب کو روزانہ پینے سے پہلے ماہرِ صحت سے مشورہ کرنا ازحد ضروری ہے۔