Category: صحت

Health News in Urdu

صحت سے متعلق خبریں آپ کو تازہ ترین طبی تحقیق، بیماریوں کے پھیلنے، اور صحت مند رہنے کے طریقوں کے بارے میں جاننے میں مدد کر سکتی ہیں۔

  • گرمی کے موسم میں دانوں کی مشکل کیسے دور ہو؟

    گرمی کے موسم میں دانوں کی مشکل کیسے دور ہو؟

    گرمی کا موسم  آتے ہی صحت سے متعلق پریشانیاں بڑھ جاتی ہیں، حساس جِلد والوں کے لیے یہ موسم کافی مشکلات لاتا ہے جن میں ایک شکایت گرمی دانوں کی ہے جو کہ کافی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

    بہت زیادہ گرمی لگنے کی صورت میں کوئی بھی شخص بیمار ہو سکتا ہے تاہم، کچھ لوگوں کے لیں سنگین طور پر بیمار ہونے کا زیادہ خطرہ پایا جاتا ہے۔

    اس رہنمائی پر عمل کرنا ضروری ہے تاکہ آپ گرم موسم کے لیے تیار رہیں اور خود کو اور اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اقدامات کر سکیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض جِلد ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ گرمی میں جِلدی امراض سے بچنے کے لیے سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ پانی زیادہ پئیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اس موسم میں لوگوں کو پسینہ بہت آرہا ہے جس کی وجہ سے فنگل انفیکشن کی شکایات بہت زیادہ آرہی ہیں۔

    ڈاکٹر کاشف نے گرمی کے موسم میں سن بلاک لازمی لگائیں اور یاد رکھیں یہ آئلی نہ ہو سن بلاک واٹر بیس استعمال کریں۔

    ایکنی کے علاج کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلیے کولڈ ڈرنکس کے بجائے لیموں پانی یا کوئی جوس استعمال کریں اور گھی یا تیل میں تلی ہوئی کوئی چیز نہ کھائیں۔

  • کالی کشمش : بلڈ پریشر، نظام ہاضمہ اور ہڈیاں مضبوط، لیکن کیسے؟

    کالی کشمش : بلڈ پریشر، نظام ہاضمہ اور ہڈیاں مضبوط، لیکن کیسے؟

    کالی کشمش ایسا میوہ ہے جو نہ صرف آپ کو غذائیت فراہم کرتی ہے بلکہ بہت سے امراض کیلیے نہایت مفید بھی ہے، یہ قدرت کا انمول تحفہ ہے۔

    وٹامنز، معدنیات اور اینٹی آکسیڈنٹس سے مالا مال یہ خشک میوہ خاص طور پر قدرتی شکر، جیسے گلوکوز اور فریکٹوز سے بھرپور ہوتا ہے، جو فوری توانائی فراہم کرتی ہے۔

    کالی کشمش میں پوٹاشیم کی بھرپور مقدار اسے صبح سویرے کھانے کو بہترین بناتا ہے جس سے جسم میں سوڈیم کی کافی حد تک کمی ہوتی ہے۔

    سوڈیم ہائی بلڈ پریشر کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے، اس طرح مٹھی بھر کالی کشمش آپ کے مسئلے کا علاج کر سکتی ہے۔

    استعمال کرنے کا طریقہ

    ماہرین صحت کے مطابق اگر کالی کشمش کو رات بھر پانی میں بھگو کر رکھا جائے اور صبح نہار منہ استعمال کیا جائے تو اس کے فوائد کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔

    آپ کو ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کشمش کو اگر بھگو کر اس میں دودھ شامل کرکے پئیں گے تو یہ آپ کو ذہنی سکون بھی فراہم کرے گا۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق بھیگی ہوئی کالی کشمش کے 6 بڑے فوائد ہیں جس کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہاہے

    نظامِ ہاضمہ :

    کالی کشمش میں موجود فائبر ہاضمے کے عمل کو بہتر کرتا ہے، اس سے قبض کی شکایت دور جبکہ اس سے آنتوں میں مفید بیکٹیریا کی افزائش بھی ہوتی ہے۔ اس میں موجود قدرتی شکر نہ صرف فوری توانائی فراہم کرتی ہے بلکہ معدے کی بے چینی میں بھی آرام دیتی ہے۔

    ہڈیاں مضبوط :

    اس میں کیلشیم کی وافر مقدار ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اسے روزانہ بھگو کر کھانے سے آسٹیوپوروسس (ہڈیوں کے بھربھرا پن) جیسے امراض سے بچاؤ ممکن ہے، خاص طور پر بڑی عمر کے افراد کے لیے یہ نہایت مفید ہے۔

    سوزش میں کمی :

    کالی کشمش میں اینٹی آکسیڈنٹس کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے، جیسے پولی فینولز، فلیوونوئڈز اور فینولک ایسڈ۔ یہ مرکبات جسم میں موجود مضر فری ریڈیکلز کو بے اثر کرتے ہیں، جس سے آکسیڈیٹیو اسٹریس اور سوزش میں کمی آتی ہے۔

    امراض قلب سے بچاؤ :

    فلیوونوئڈز جیسے کیورسیٹن اور کیٹیچن دل کے لیے نہایت مفید سمجھے جاتے ہیں۔ یہ خون کی گردش کو بہتر بناتے ہیں، سوزش کم کرتے ہیں، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھتے ہیں، جس سے ہارٹ اٹیک اور فالج کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اور امراض قلب اور کینسر کے خطرات بھی کم ہوجاتے ہیں۔

    قوت مدافعت کی مضبوطی :

    وٹامن سی، بی 6 اور زنک جیسے اہم غذائی اجزا پر مشتمل کالی کشمش مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے۔ اور جسم موسمی اثرات سے لڑنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

    خون میں آئرن کی کمی : 

    کالی کشمش آئرن حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو خون میں سرخ خلیات بنانے اور جسم کے مختلف حصوں تک آکسیجن پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ آئرن کی کمی سے پیدا ہونے والی کمزوری، تھکن اور خون کی کمی (انیمیا) میں بھی بھیگا ہوا کشمش فائدہ مند ہے۔

  • قوت مدافعت اچھی صحت کی ضامن : مضبوط کن غذاؤں سے بنائیں؟

    قوت مدافعت اچھی صحت کی ضامن : مضبوط کن غذاؤں سے بنائیں؟

    موجودہ موسم میں نمی کی وجہ سے بیکٹیریا اور دیگر وائرس کی بڑھتی نشونما کی وجہ سے قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے جس سے لوگوں کے بیمار ہونے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔

    انسان کی قوت مدافعت اس کی صحت کی ضامن ہے اسی لیے مدافعتی نظام کو ہر وقت اس کی بہترین حالت میں رکھنا بھی ضروری ہے۔

    درجہ حرارت کی بدلتی صورتحال اور نمی انسان کی قوت مدافعت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، یہ عموماً نزلہ، زکام اور معدے کے مسائل کا سبب بنتی ہے۔

    قوت مدافعت کو مضبوط اور توانا بنانے کے لیے ماہرین صحت کی جانب سے بے شمار غذائیں تجویز کی گئیں ہیں جس میں ادرک، ہلدی، لہسن، اسٹرابیری، دہی اور لیموں اور دیگر بھی شامل ہیں۔

    ادرک

    ادرک میں قدرتی طور پر طاقتور سوزش اور آکسیڈینٹ کی مخالف خصوصیات والے مادے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ادرک میں جنجرول جیسے مرکبات بھی پائے جاتے ہیں جو سوزش اور آکسیڈیٹیو تناؤ کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

    ہلدی

    ہلدی میں کرکومین ہوتا ہے جو ایک ایسا مرکب ہے جس کے استعمال سے سوزش اور آکسیڈینٹ سٹریس کو کم کیا جاسکتا ہے۔ کرکومین انفیکشن سے لڑنے اور سوزش کو کم کرنے کے لیے مدافعتی نظام کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔

    لہسن

    قوت مدافعت کی مضبوطی کیلیے لہسن کا استعمال بھی بڑا کارآمد ہوتا ہے۔ لہسن میں ایلیسن پایا جاتا ہے جس میں اینٹی مائکروبیل اور اینٹی وائرل خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس کا استعمال سفید خون کے خلیات کی پیداوار کو بڑھاتا ہے اور جسم کے مدافعاتی نظام کو مظبوط کرتا ہے۔

    کھٹے پھل

    سنگترے، لیموں اور چکوترے جیسے کھٹے پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کے استعمال سے خون کے سفید خلیوں کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خلیے انفیکشن سے لڑنے میں کلیدی کرادر ادا کرتے ہیں جبکہ وٹامن سی ٹشوز کی مرمت اور نشوونما میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔

    دہی

    دہی میں پروبائیوٹکس ہوتے ہیں جنہیں مفید بیکٹیریا مانا جاتا ہے۔ اس کا استعمال آنتوں کی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

    ایک صحت مند آنت مضبوط مدافعتی نظام کے لیے بہت ضروری ہے کیونکہ یہ اینٹی باڈیز کی پیداوار میں اہم کرادر ادا کرتی ہے۔

    بادام

    بادام وٹامن ای سے بھرپور ہوتے ہیں، وٹامن ای ایک اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو صحت مند مدافعتی نظام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا کرتا ہے۔ مٹھی بھر بادام بطور ناشتہ دلیے میں ملانا یا سنیک میں شامل کرکے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

  • پاکستان کی کتنے فیصد آبادی موٹاپے کا شکار؟ ماہرین صحت نے انتباہ جاری کر دیا!

    پاکستان کی کتنے فیصد آبادی موٹاپے کا شکار؟ ماہرین صحت نے انتباہ جاری کر دیا!

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ 80 فیصد پاکستانی مٹاپے کا شکار ہیں اور موٹاپا پاکستان کے بالغ افراد اور بچوں میں خطرناک امراض پیدا کر رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی پریس کلب کی ہیلتھ کمیٹی اور گیٹز فارما کے اشتراک سے آگہی اور اسکریننگ کیمپ لگایا گیا۔ اس دوران پریس بریفنگ میں ماہرین صحت نے موٹاپے کو تمام غیر متعدی بیماریوں کی “ماں” قرار دیتے ہوئے کہا کہ 80 فیصد پاکستانیوں کی کمر کی پیمائش خطرناک حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ موٹاپا مَردوں میں قبل از وقت اموات،عورتوں میں بانجھ پن اور بچوں کو چھوٹی عمر میں پیچیدہ بیماریوں میں جکڑ رہا ہے۔

    آغا خان اسپتال کی اینڈو کرائانالوجسٹ ڈاکٹر اسما احمد نے ایک حالیہ سروے کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں 35 فیصد خواتین اور 28 فیصد بچے موٹاپے کا شکار ہیں، جبکہ 80 فیصد سے زائد بالغ افراد کی کمر کی پیمائش غیر صحت مند حد سے تجاوز کر چکی ہے۔

    انہوں نے زور دے کر کہا کہ موٹاپے کو ایک باقاعدہ بیماری کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، جو نہ صرف طرزِ زندگی کا مسئلہ ہے بلکہ ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، بانجھ پن اور اعضا کی خرابی کا بنیادی سبب بھی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بچوں میں اسکرین ٹائم، جنک فوڈ اور دیر رات سونے کی عادتیں بڑھ رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ جسمانی طور پر کمزور اور موٹاپے کا شکار ہو رہے ہیں۔

    ڈاکٹر اسما کا کہنا تھا کہ زیادہ تر افراد کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں بلڈ پریشر ہے، جو اکثر موٹاپے سے جڑا ہوتا ہے اور گردوں، دل اور دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گھر کے کھانوں، سبزیوں، انڈے، دودھ، دہی اور دالوں کا استعمال بڑھانا اور فاسٹ فوڈ کو ترک کرنا ہوگا۔

    جناح اسپتال کے معدہ و جگر کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر نازش بٹ نے بھی کہا کہ موٹاپے کو سنجیدہ بیماری سمجھنا ہوگا کیونکہ یہ خود دیگر بیماریوں جیسے ذیابیطس، کولیسٹرول، دل کی بیماریوں اور فالج کا پیش خیمہ بنتا ہے۔

    اس موقع پر دیگر ماہرین نے زور دے کر کہا کہ موٹاپا اب صرف ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سطح کا بحران بن چکا ہے، جس پر قابو پانے کے لیے فوری عوامی آگہی، بروقت اسکریننگ اور ایک جامع سماجی و ثقافتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

  • پی اے سی کا محکمہ صحت میں ادویات کی خریداری پر آڈٹ کا حکم

    پی اے سی کا محکمہ صحت میں ادویات کی خریداری پر آڈٹ کا حکم

    کراچی: پی اے سی نے محکمہ صحت میں اربوں کی ادویات کی خریداری پر آڈٹ کا حکم دے دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پی اے سی کی آڈٹ کے لیے آڈیٹر جنرل پاکستان کو ٹیکنیکل اسٹاف کی فراہمی کی ہدایت کی گئی ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نثارکھوڑو کی صدارت میں ہوا جس میں محکمہ صحت کے 2018 اور 2019 کی آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔

    اجلاس میں محکمہ صحت 6 ارب روپے کا آڈٹ ریکارڈ فراہم نہیں کرسکا جس پر پی اے سی نے ایک ماہ میں آڈٹ ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

    چیئرمین پی اے سے نے کہا کہ محکمہ صحت میں ادویات کی خریداری کا کیا میکنزم ہے، کس معیار کے تحت کن کمپنیز کو ادویات کی خریداری کا ٹھیکہ دیا جاتا ہے۔

    سیکریٹری صحت نے بتایا کہ ادویات کی خریداری کے لیے پروکیورمنٹ کمیٹی کے ذریعے ٹینڈر دیا جاتا ہے۔

    کمیٹی رکن قاسم سومرو نے پوچھا کہ غیر رجسٹرڈ اور جعلی ادویات کیخلاف کتنی کاروائیاں کی گئی ہیں؟ چیف ڈرگ انسپکٹر حفیظ تونیو نے بتایا کہ جعلی اور غیر رجسٹرڈ ادویات کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص اور سکھر میں 25 ایف آئی آرز درج کی گئیں۔

    چیئرمین پی اے سی نے جعلی، غیر رجسٹرڈ ادویات برآمد ہونے پر میڈیکل اسٹور سیل، لائسنس منسوخ کرنے کا حکم دیا، اور سندھ بھر میں کریک ڈاؤن کی ہدایت کی۔

    پی اے سی نے محکمہ صحت کو سندھ بھر کے ڈرگ انسپکٹرز کی کارکردگی کی انکوائری کا حکم دیا۔

  • گردوں کی بیماری کن غذاؤں کی وجہ سے ہوتی ہے؟

    گردوں کی بیماری کن غذاؤں کی وجہ سے ہوتی ہے؟

    گردوں کی خرابی جسے اینڈ اسٹیج رینل ڈیزیز بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں 84 کروڑ افراد گردوں کے مختلف امراض سے متاثر ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک شخص گردوں کی کوئی نہ کوئی بیماری میں مبتلا ہے، جب گردے فیل ہوجاتے ہیں، تو مریض ڈائیلاسز یا گردے کی پیوند کاری کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

    اس پریشانی سے بچنے کیلیے ڈاکٹر محمد انیس نے ایک ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ وہ کون سی عادات اور غلطیاں ہیں جس کے سبب انسان کے گردے خرابی کی طرف جاتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ بہت سی غذائیں بھی گردے تباہ کردیتی ہیں اگر آپ بھی یہ کھانے استعمال کررہے ہیں تو آپ خود اپنے گردوں کی خرابی کے ذمہ دار ہیں۔

    سب سے پہلے ڈبل روٹی یا سلائس جو ہمارے پاکستان میں بہت زیادہ رغبت سے کھائے جاتے ہیں ڈبل روٹی کو نرم رکھنے کیلیے پوٹاشیم برومیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ گردوں کی بیماری کا سبب گوشت کا بہت زیادہ استعمال اور فرائیڈ اشیاء وغیرہ ہیں، اگر آپ تلا ہوا گوشت کھاتے ہیں تو اس سے بھی گردوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    تیسرے نمبر پر آرٹیفشل ڈائی یعنی کھانے تیار کرتے ہوئے ان میں فوڈ کلرز کا استعمال گردوں کیلیے تباہ کن ہے، یہ گردوں کو بہت زیادہ ڈیمج کرتے ہیں۔

    اس کے ساتھ سافٹ ڈرنکس بھی گردوں کی بیماری کا ذریعہ ہیں اور گردوں کیلیے انتہائی مضر ہیں اس کو پینے سے گردے جلدی خراب ہوتے ہیں، اور جو لوگ ذرا ذرا سے درد کیلیے پین کلر اینٹی بائیوٹک ادویات لیتے ہیں یاد رکھیں اس کو بہت ہی مجبوری یا ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔

    ڈاکٹر محمد انیس نے بتایا کہ جو لوگ پیشاب آنے پر اسے روک لیتے ہیں یا اس کا فوری اخراج نہیں کرتے یہ عمل بھی گردوں کو نقصان پہچاتا ہے۔

    یاد رکھیں سوڈیم، پوٹاشیم فاسفورس میں کم خوراک کھانے اور گردے کو نقصان پہنچانے والی دیگر غذاؤں سے پرہیز کرکے گردے کے نقصان کے خطرے کو کم کرنا ممکن ہے۔

    ہفتے کے دوران تازہ، قدرتی طور پر کم سوڈیم والے اجزاء جیسے گوبھی، بلیو بیری، مچھلی اور اناج استعمال کریں۔

     

  • فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    سڈنی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق کے نتائج میں یہ انکشاف کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    گزشتہ ماہ اپریل میں انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسٹی میں شائع شدہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ تو پہلے سے جانتے ہیں کہ سیر شدہ چکنائی (saturated fat) اور ریفائنڈ شوگر کے زیادہ استعمال سے ہمارے جسم پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم اب انسانوں پر اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ یہ ہمارے دماغ کے ایک مخصوص حصے پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔

    سائنس دانوں نے ورچوئل رئیلٹی (VR) سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے تحقیق کے دوران پایا کہ چکنائی اور شوگر کی زیادہ مقدار کھانے سے ’’مقامی نیویگیشن‘‘ (کسی جگہ یا ماحول میں اپنی پوزیشن کو سمجھنے، راستوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت) اور یادداشت کی خرابی کا خدشہ ہے، سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس سے قبل چوہوں پر کیے جانے والی تحقیقات کے نتائج بھی اس سے ملتے جلتے تھے۔

    فاسٹ فوڈ دماغ

    اس ریسرچ اسٹڈی کے دوران 120 نوجوان بالغ افراد نے غذائی چکنائی اور شکر کی جانچ (DFS) کرائی، تاکہ محققین گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران اندازہ لگا سکیں کہ انھوں نے اوسطاً کتنی شکر اور غذائی چکنائی کھائی۔ اس کے بعد انھیں سر پر ایک ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹ پہنائے گئے، اور انھیں تھری ڈی بھول بھلیاں گیم کھیلنے دیا گیا، کہ اس میں راستہ تلاش کریں، بھول بھلیاں میں خزانے تک پہنچنے کے لیے کچھ اشارے بھی دیے گئے تھے، جنھیں سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔

    شرکا نے یہ کھیل 6 بار کھیلا، ان میں سے جنھوں نے 4 منٹ سے کم وقت میں راستہ تلاش کر کے خزانے تک رسائی کی، وہ اگلی کوشش کی طرف بڑھ گئے، اور جو اس ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے تو انھیں ورچوئلی خزانے کے لوکیشن تک پہنچایا گیا جہاں انھوں نے اگلی کوشش کے لیے رہنما اشارے دیکھے۔


    اینٹی بائیوٹکس سے متعلق 5 اہم باتیں اور ہدایات


    ساتویں اور آخری کوشش میں خزانے کو ہٹایا گیا، اور اس بار شرکا کو بھول بھلیاں کے اس حصے تک جانا تھا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ پچھلی بار خزانے کا وہی مقام تھا۔

    اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ ورکنگ میموری اور وزن اور جسم کے سائز کو ایڈجسٹ کر لیا گیا تھا، ان شرکا نے جنھوں نے چکنائی اور شکر والی زیادہ غذا کھائی تھی، دیگر کے مقابلے میں بری کارکردگی دکھائی۔

    ان نتائج سے یہ نشان دہی ہوئی کہ زیادہ چکنائی اور شکر والی غذائیں (روایتی مغربی خوراک) ہپپوکیمپس کی ایک قسم کی خرابی (hippocampus impairment) کا سبب بنتی ہیں، جو مقامی نیویگیشن اور یادداشت کے فعل میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ مقامی نیویگیشن کا مطلب ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے راستے کو سمجھنا اور یاد رکھنا‘‘ ہے۔

    سڈنی یونیورسٹی کے محقق ڈومینک ٹران نے یہ تشویش بات کہی کہ عام عام BMI اسکور والے نسبتاً صحت مند افراد میں بھی ایک ناقص غذا دیگر میٹابولک حالات ظاہر ہونے سے بہت پہلے (دماغی صلاحیت) ادراک کو کمزور کر سکتی ہے۔

    تاہم دوسری طرف اس تحقیق میں یہ خوش خبری بھی دی گئی ہے کہ محققین کا خیال ہے کہ اس صورت حال سے آسانی سے بحالی ممکن ہے، محققین نے کہا کہ غذائی تبدیلیاں ہپپوکیمپس کی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔

  • اینٹی بائیوٹکس سے متعلق 5 اہم باتیں اور ہدایات

    اینٹی بائیوٹکس سے متعلق 5 اہم باتیں اور ہدایات

    اینٹی بائیوٹکس وہ دوائیں ہیں جو بیکٹیریل انفیکشن جیسے کہ کالی کھانسی، ایکنی، ایس ٹی ڈی اور مزید کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں وہ یا تو بیکٹیریا کو مار ڈالتے ہیں یا انہیں بڑھنے سے روکتے ہیں۔

    ہر ایک کے جسم میں بیکٹیریا اور وائرس ہوتے ہیں، اچھے بیکٹیریا ہمیں صحت مند رکھتے ہیں جبکہ وائرس ہمیں بیمار کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں وائرل انفیکشن کے علاج کے لیے اینٹی بیکٹیریل ادویات دی جاتی ہیں۔

    تاہم بعض اوقات لوگ دوسرے انفیکشن جیسے سردی، پیٹ میں انفیکشن یا فلو کے لیے خود بھی اینٹی بائیوٹکس لیتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ گلے کی خراش کا علاج بھی اینٹی بائیوٹکس سے کیا جا رہا ہے۔

    مختلف ممالک کے ماہرین نے پایا ہے کہ لوگ ضرورت نہ ہونے کے باوجود ہر بیماری کے لیے یہ ادویات لیتے ہیں۔

    یہ واقعی تشویشناک ہے کیونکہ جو مریض نارمل اینٹی بائیوٹکس لے رہا ہے اس میں اے ایم آر بڑھ رہا ہے۔ اسے اینٹی مائکروبیل ریزسٹنس کہا جاتا ہے۔

    فی الحال اے ایم آر عالمی صحت کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اگر آپ بھی ہر بیماری کے لیے یہ ادویات لیتے ہیں تو پہلے یہاں دی گئی اہم باتوں کو ذہن میں رکھیں۔

    کیا اینٹی بائیوٹکس محفوظ ہے

    ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر ان ادویات کو ضرورت کے بغیر لیا جائے تو یہ نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ لہذا، انہیں لینے سے پہلے آپ کو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے۔

    مسلسل یہ ادویات لینے سے قے، اسہال، چکر آنا، جلد پر خارش اور بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اس کے سنگین مضر اثرات کو دیکھیں تو سب سے زیادہ گردے متاثر ہوتے ہیں۔

    اینٹی بائیوٹکس کا کورس مکمل کریں

    زیادہ تر لوگ بیماری کے ٹھیک ہوتے ہی یہ ادویات لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی کئی بار دیکھا گیا ہے کہ ایسی علامات ظاہر ہونے پر مریض باقی گولیاں بچا کر خود دوا شروع کر دیتے ہیں۔

    لیکن یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ جن مریضوں کو یہ ادویات دی گئی ہیں انہیں کبھی بھی اینٹی بائیوٹکس علاج کو درمیان میں نہیں روکنا چاہیے۔

  • کالا موتیا کیا ہے؟ اس سے بچاؤ کیسے ممکن

    کالا موتیا کیا ہے؟ اس سے بچاؤ کیسے ممکن

    کالا موتیا (گلوکوما) اندھے پن کی ایک بڑی وجہ اور اس کا آغاز ہے، بدقسمتی سے اس کے شروع ہونے کی کوئی واضح علامت نہیں ہوتی بس اچانک ہی ظاہر ہوتی ہے۔

    یہ وہ بیماری ہے جس میں پردہ بصارت سے دماغ کو معلومات منتقل کرنے والے اعصاب کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کالے موتیا کی بروقت تشخیص بہت ضروری ہے۔

    دنیا بھر میں 36کروڑ افراد اندھے پن کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان میں 6فیصد شہری اس بیماری میں مبتلا ہوکر اپنی بینائی کھو چکے ہیں، بڑھتی عمر وٹامن اے کی کمی بھی کمزور بینائی کا سبب ہے، نابینا پن کی بنیادی وجہ کالا موتیا ہے۔

    آنکھ کے اندرونی حصوں کو خوراک فراہم کرنے کا کام خون میں موجود ایک مادہ سرانجام دیتا ہے۔ پانی جیسی شکل رکھنے والا یہ مادہ خوراک مہیا کرنے کے بعد پھر خون کا حصہ بن جاتا ہے۔

    کالے موتیا کے دوران اس مواد کے خون میں واپس جانے کے راستے میں رکاوٹ پڑ جاتی ہے اور وہ مواد آنکھ میں جمع ہونے لگتا ہے۔ جس سے آنکھ کا اندرونی دباؤ 22 ملی میٹر مرکری سے 50 ,40 اور بعض اوقات 100 تک پہنچ جاتا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق یہ بیماری آنکھوں پر پڑنے والے پریشر کی وجہ سے ہوتی ہے، آنکھ کا دماغ کے ساتھ رابطہ منقطع ہو جانے سے ابتداء میں نظر کمزور ہوتی ہے جس کے بعد آدمی مکمل طور پر بینائی سے محروم ہو جاتا ہے۔

    اس بیماری کی ابتدائی علامت یہ ہے کہ مریض کو اپنے اطراف نظر نہیں آتا لیکن وہ اس پر دھیان نہیں دیتے اور جب نظر 60 سے ستر فیصد تک خراب ہوجاتی ہے تو اس کے بعد علاج شروع کرتے ہیں۔

    اگرچہ کالے موتیے کی وجہ سے ضائع شدہ نظر بحال نہیں ہو پاتی تاہم بروقت تشخیص اور علاج سے نظر کو مزید خراب ہونے اور مکمل زائل ہونے سے بچاؤ ممکن ہے۔ کالا موتیا لا علاج نہیں ہے، علاج مرض کی کیفیت کے مطابق ادویات، لیزر یا آپریشن کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔

  • پاک بھارت کشیدگی: نجی اسپتالوں میں بھی ہائی الرٹ جاری

    پاک بھارت کشیدگی: نجی اسپتالوں میں بھی ہائی الرٹ جاری

    پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کے بعد نجی اسپتالوں میں بھی ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے صوبہ کے تمام نجی اسپتالوں کو ایمرجنسی ہیلتھ الرٹ جاری کر دیا ہے۔

    پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی جانب سے جاری مراسلے میں اسپتالوں کو جامع تیاری کے اقدامات نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، مراسلے میں کہا گیا کہ نجی اسپتالوں کو اپنی کل بستروں کی تعداد کا 35 فیصد ہنگامی حالات میں مفت علاج کے لیے مختص کرنا ہوگا۔

    مراسلے کے مطابق اسپتالوں کو ضروری ادویات، خون اور ایمرجنسی تیاری کے پروٹوکولز کو یقینی بنانا ہوگا، آپریشن تھیٹرز کو مکمل فعال رکھنا ہوگا اور طبی نگہداشت کے لیے متبادل انتظامات برقرار رکھنے ہوں گے۔

    مراسلے میں پی ایچ سی کی اسپتالوں کو خون کے بیگز اور عطیہ دہندگان کا تصدیق شدہ ڈیٹا بیس برقرار رکھنے کی بھی ہدایت کی گئی جبکہ مزید کہا گیا کہ تمام ضروری طبی آلات، جیسے وینٹی لیٹرز، کارڈیک مانیٹرز اور امیجنگ مشینیں فعال رہنی چاہئیے۔