Category: صحت

Health News in Urdu

صحت سے متعلق خبریں آپ کو تازہ ترین طبی تحقیق، بیماریوں کے پھیلنے، اور صحت مند رہنے کے طریقوں کے بارے میں جاننے میں مدد کر سکتی ہیں۔

  • افطار میں چنے کی چاٹ صحت کیلیے کتنی فائدہ مند ہے؟

    افطار میں چنے کی چاٹ صحت کیلیے کتنی فائدہ مند ہے؟

    ماہ رمضان میں لوگ سحر و افطار میں طرح طرح کے پکوان بناتے ہیں لیکن اگر افطار دسترخوان میں چنے کی چاٹ نہ ہو تو اس کے بغیر افطاری ادھوری سی لگتی ہے۔

    چاٹ اگر چنے کی ہو اور ساتھ آلو بھی ہوں تو پھر تو بات ہی الگ ہے تو آج پیش خدمت  ہے آپ کے لئے چنا چاٹ آپ بھی خود اپنے گھر بنا سکتے ہیں۔

    چنے نہ صرف ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ یہ صحت کے لیے بھی بہت مفید ہیں۔ چنے غذائیت سے بھرپور خوراک ہے جن میں وٹامن، فائبر اور پروٹین وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

    امریکہ کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک مضمون کے مطابق ایک کپ پکے ہوئے چنوں میں 14.5 گرام پلانٹ بیسڈ پروٹین پایا جاتا ہے۔

    پلانٹ بیسڈ پروٹین ایسا پروٹین ہوتا ہے جو دالوں، سبزیوں، بیج اور خشک میوے جات سے حاصل کیا جاتا ہے۔

    ایک کپ پکے ہوئے چنوں میں 12.5 گرام فائبر بھی پایا جاتا ہے جو نظامِ ہاضمہ کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول کے مضمون کے مطابق چنے آپ کا پیٹ دیر تک بھرا رکھتے ہیں جس سے آپ کو جلد بھوک محسوس نہیں ہوتی۔

    پروٹین اور فائبر کے علاوہ چنوں میں بہت سے وٹامن اور منرلز بھی پائے جاتے ہیں۔ ان میں وافر مقدار میں مینگنیز پایا جاتا ہے جو دماغ کے لیے فائدے مند ہوتا ہے۔

    چنوں میں وٹامن بی، کاپر، آئرن، زنک اور فاسفورس بھی پایا جاتا ہے۔اس کے علاوہ چنوں میں وٹامن اے، ای اور سی بھی موجود ہوتا ہے۔

    آلو چنا چاٹ بنانے کی ترکیب

    ایک پیالے میں کابلی چنے، آلو ، ہری مرچ، پیاز، لیموں کا رس، چینی، زیرہ، پسی لال مرچ، کٹی لال مرچ، چاٹ مصالحہ، نمک، ٹماٹر اور ہرا دھنیا ڈال کر اچھے سے مکس کریں۔

    اب اس پر ہرا دھنیا، املی کی چٹنی اور پاپڑی ڈال کر سرو کریں۔اگر آپ چاہیں تو لیمو بھی ڈال سکتے ہیں۔

  • نجی کمپنی کے انجکشن ”ویکسا“ کا استعمال فوری روکنے کا حکم

    نجی کمپنی کے انجکشن ”ویکسا“ کا استعمال فوری روکنے کا حکم

    لاہور کے میو اسپتال میں انجکشن سے مریضوں کو ری ایکشن کے معاملے پر ڈائریکٹوریٹ آف ڈرگ کنٹرول نے پنجاب بھر میں نجی کمپنی کے انجکشن کا استعمال فوری روکنے کا حکم دے دیا۔

    ڈائریکٹوریٹ آف ڈرگ کنٹرول نے صوبے بھر کی فارمیسیز کو ہدایات جاری کردیں، مراسلے میں کہا گیا کہ انجکشن کا استعمال مشتبہ طور پر صحت کے لیے خطرہ ہے، انجکشن ”ویکسا“ اور محلول ”نیوٹرولائن“ کا استعمال روک دیا جائے، انجکشن کے مخصوص بیچ استعمال سے روکے جائیں۔

    میو اسپتال لاہور میں اینٹی بیکٹریل انجکشن سے 2 مریض جاں بحق ، 17 کی حالت تشویشناک

    ڈائریکٹوریٹ ڈرگ کنٹرول کے مطابق انجکشن کا استعمال مشتبہ طور پر صحت کے لیے خطرہ ہے، ادویات کے ٹیسٹوں کی رپورٹس آنے تک استعمال روکا جائے، فیصلہ مریضوں کے تحفظ کے پیش نظر کیا گیا، انجکشن “ویکسا” کے مخصوص بیچ استعمال سے روکے جائیں۔

    واضح رہے کہ میو اسپتال لاہور کی چیسٹ وارڈ میں کیفٹرکسون انجکشن کے مبینہ ری ایکشن سے 36 سالہ مریضہ نورین جاں بحق ہو گئی تھی اور 15مریض متاثر ہوئے تھے، متاثرہ مریضوں میں سے دولت خان نامی مریض بھی دم توڑ گیا تھا دولت خان وینٹی لیٹر پر تھا۔

    یاد رہے چند روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور کے میو اسپتال کے اچانک دورے کے دوران فیصلہ کن کارروائی کرتے ہوئے مریضوں اور ان کے لواحقین کی جانب سے متعدد شکایات موصول ہونے کے بعد میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

  • پاکستان میں پائی جانے والی اسنیپر فیملی کی مچھلیوں کا تعارف اور ان کی شناخت میں پائی جانے والی غلط فہمیاں

    پاکستان میں پائی جانے والی اسنیپر فیملی کی مچھلیوں کا تعارف اور ان کی شناخت میں پائی جانے والی غلط فہمیاں

    اسنیپر فیملی کی مچھلیاں اپنے لذیذ ذائقے، خوب صورت بناوٹ، شوخ رنگوں اور تجارتی اہمیت کے باعث دنیا بھر میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ ان میں مرکری کی سطح بھی کم ہوتی ہے، یہ وٹامنز، پروٹینز، اور اومیگا 3 سے بھی پھرپور ہوتی ہیں۔ ان ہی خصوصیات کے باعث انھیں دنیا بھر میں مہنگی قیمتوں کے باوجود بھی بہت ہی زیادہ پسند کیا جاتا ہے اور خریدا جاتا ہے۔

    اسنیپر فیملی کا تعلق Lutjanidae خاندان سے ہے اور اب تک ان کی دنیا بھر میں 113 نسلوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔ امریکن فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے مطابق اسنیپر میں مرکری لیول 0.166ppm ہے، جو کہ کم ہے۔ یاد رہے کہ ایف ڈی اے نے اسنیپر فیملی کی الگ الگ نسلوں کی مرکری سطح کی بجائے صرف Snapper کے نام سے ریکارڈ درج کیا ہے۔

    اسنیپرز کی بناوٹ اور رنگوں کے امتزاج میں یکسانیت کے باعث ان کے درمیان کافی مماثلتیں پائی جاتی ہیں، جن سے ان کی پہچان میں پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ اس مضمون میں ان ہی پیچیدگیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی پہچان میں کوئی مشکل پیش نہ آئے، ساتھ ہی ساتھ آخر میں کچھ سمندروں کا محل وقوع بھی دیا جا رہا ہے تا کہ ان کا مسکن بھی آسانی سے سمجھا جا سکے۔

    پاکستان میں اسنیپر کی کئی اقسام پائی جاتی ہیں، یہاں صرف ان چند کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو کراچی فشری میں سال بھر نظر آتی ہیں اور عوام میں مقبول ہیں۔

    ہیرا مچھلی

    پاکستان میں اسنیپر فیملی میں سب سے مشہور، ذائقے دار اور نرم گوشت والی مچھلی ہیرا مچھلی ہے۔ اسے انگلش میں گولڈن اسنیپر کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus johnii ہے۔ یہ John’s snapper اور Finger Mark کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ وزن میں تقریباً 11 کلو تک اور عمر میں 10 سے 15 سال تک جی سکتی ہے۔

    ہیرا مچھلی

    فش بیس نامی گلوبل انفارمیشن سسٹم کے مطابق اس کا مسکن ہند بحرالکاہل (Indo-Pacific)، بحیرہ احمر (red sea)، خلیج فارس (Persian Gulf)، مشرقی افریقہ سے فجی، سامووا، شمال میں Ryukyu جزائر اور جنوب میں آسٹریلیا تک ہے۔ اسے پاکستان میں Red Snapper پکارا جاتا ہے حالاں کہ ریڈ اسنیپر پاکستان میں پائی ہی نہیں جاتی ہے۔

    ریڈ اسنیپر کا اصل نام Northern red snapper ہے لیکن یہ صرف ریڈ اسنیپر کے نام سے مشہور ہے، اس کا مسکن مغربی بحر اوقیانوس، بحیرہ کیریبین اور خلیج میکسیکو ہے۔ یہ وزن میں 23 کلو تک اور عمر میں 57 سال تک جی سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر لال رنگ کی ہوتی ہیں، جب کہ ہیرا مچھلی مجموعی طور پیلی نظر آتی ہے، اس کے بدن پر چھوٹے چھوٹے گہرے بھورے یا ہلکے کالے دھبوں کی قطاریں ہوتی ہیں، یہ دھبے پیٹ کے اوپری حصے سے شروع ہوتے ہیں اور پیٹ کے نچلے حصے تک آتے آتے ہلکے ہو کر غائب ہونے لگتے ہیں۔ اس کی پیٹھ پر دم کے قریب بھی ایک کالا دھبا ہوتا ہے۔

    دونوں مچھلیوں میں کافی جسمانی فرق اور مسکن بالکل الگ الگ ہونے کے باوجود بھی اسے ریڈ اسنیپر کہا جاتا ہے۔

    کنرچہ

    کنرچہ کو انگلش میں Mangrove Jack کہتے ہیں۔ یہ وزن میں 9 کلو تک اور عمر میں 31 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا اور ہیرا مچھلی کا مسکن ایک ہی ہے۔

    کنرچہ مچھلی

    مینگروز (تیمر) کے جنگلات کے کنرچہ کا رنگ عام طور پر پیٹھ پر سبز بھورا، سرخی مائل جب کہ گہرے پانیوں کے کنرچے کا رنگ لال، سرخی مائل ہوتا ہے۔ اسی لال سرخی مائل رنگ کی وجہ اسے بھی ریڈ اسنیپر کہا جاتا ہے جو پاکستان میں پائی ہی نہیں جاتی، اور جس کا تذکرہ اوپر کیا جا چکا ہے۔ کنرچہ کو مینگرو ریڈ اسنیپر بھی کہا جاتا ہے۔

    چھایا مچھلی

    چھایا مچھلی کو انگلش میں Blubberlip اسنیپر کہتے ہیں، یہ وزن میں 11 کلو تک اور عمر میں 20 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا رنگ زیتونی سبز سے بھورا ہوتا ہے، جسم پر چھوٹے چھوٹے ابھرے ہوئے دھبے ہوتے ہیں جو بدن پر ہاتھ لگانے پر محسوس ہوتے ہیں۔ سر اور گالوں پر نیلے رنگ کی لکیریں یا دھبے ہوتے ہیں، خاص طور پر آنکھوں کے گرد اور گلپھڑوں کے کور پر، ہونٹ موٹے اور اکثر سرخی مائل یا گلابی ہوتے ہیں۔ کمر اور دم کے پنکھوں پر سرخی مائل یا زرد رنگت ہو سکتی ہے، جب کہ چھاتی کے پنکھ پر پیلا رنگ، سر اور منہ بڑا ہوتا ہے۔

    چھایا مچھلی

    اس کا مسکن ہند-بحرالکاہل، مشرقی افریقہ سے تاہیٹی، شمال سے جنوبی جاپان، اور جنوب میں آسٹریلیا تک ہے۔

    پیلی ٹیکسی

    پیلی ٹیکسی کو انگلش میں Bigeye Snapper کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus Lutjanus ہے۔ یہ وزن میں 1 کلو تک بڑھ سکتی ہے لیکن عام طور 400 گرام تک نظر آتی ہے، اور یہ عمر میں 11 سال تک جی سکتی ہے۔ پیٹ کا اوپری حصہ ہلکا گلابی اور پیٹھ سلوری ہوتی ہے، جس پر پیلے رنگ کی پٹیاں ہوتی ہیں۔ ان پیلی پٹیوں کی وجہ سے یہ پیلی نظر آتی ہے۔ پنکھ زرد اور سرخی مائل ہوتے ہیں، سر اور آنکھیں بڑی ہوتی ہیں۔

    پیلی ٹیکسی مچھلی

    اس کا مسکن انڈو-ویسٹ پیسیفک، مشرقی افریقہ سے جزائر سلیمان، شمال سے جنوبی جاپان، اور جنوب میں آسٹریلیا تک ہے، یہ زیادہ تر مچھلیاں پکڑنے کے لیے چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

    لال پری

    لال پری کو انگلش میں Crimson snapper کہتے ہیں، یہ گہرے سرخ رنگ کی ہوتی ہے۔ اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، خلیج فارس، خلیج عمان سے فجی، شمال سے جنوبی جاپان اور جیجو جزیرہ کوریا، جنوب سے نیو ساؤتھ ویلز آسٹریلیا اور نیو کیلیڈونیا تک ہے۔ یہ عمر میں 8 سال تک اور وزن میں 5 سے 10 کلو تک بڑھ سکتی ہے۔

    لال پری مچھلی

    پوتہ مچھلی

    اسے انگریزی میں Malabar blood snapper کہتے ہیں۔ اس کا رنگ گہرے سرخ سے سرخ گلابی ہوتا ہے، جب کہ پیٹ اکثر ہلکا گلابی ہوتا ہے۔ تمام پنکھ جسم کی طرح سرخ ہوتے ہیں اور پنکھوں کے کنارے قدرے گہرے دکھائی دے سکتے ہیں۔ ان کا منہ قدرے نوک دار اور نچلا جبڑا قدرے پھیلا ہوا ہوتا ہے، جو شکار کو پکڑنے کے لیے تیز مخروطی دانتوں سے لیس ہوتا ہے۔

    پوتہ مالابار ریڈ اسنیپر مچھلی

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، خلیج فارس، بحیرہ عرب سے فجی، شمال سے جنوبی جاپان اور جنوب سے آسٹریلیا تک ہے۔ یہ وزن میں 8 کلو تک اور عمر میں 31 سال تک جی سکتی ہے۔

    ہمپ بیک ریڈ اسنیپر

    Humpback red snapper وزن میں 3 کلو تک اور عمر میں 18 سال تک جی سکتی ہے۔ یہ سرخی مائل گلابی ہوتی ہے، اکثر پیٹھ کے اوپری حصے پر پیتل یا زیتونی چمک ہوتی ہے، جب کہ پیٹ کا حصہ سلوری سے سفید ہوتا ہے۔ پنکھ سرخی مائل، جب کہ چھاتی کے پنکھ لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں، کچھ کے دموں پر کالے دھبے ہو سکتے ہیں۔

    پوتہ ہمپ بیک مچھلی

    سر بڑا ہوتا ہے، منہ میں دانت ہوتے ہیں اور اس کی کمر کوبڑ کی جیسی ہوتی ہے، یہ کوبڑ سر کے پیچھے سے شروع ہوتی ہے ایک کھڑی محراب والی پشت بناتی ہے جو دم کی طرف ڈھلوان ہو جاتی ہے۔ اس کا مسکن انڈو پیسیفک، بحیرہ احمر، مشرقی افریقہ، شمال سے جنوبی جاپان، اور جنوب سے آسٹریلیا تک ہے۔

    دوغلا ہیرا یا لائنر ہیرا

    اسے انگلش میں Dory Snapper کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus fulviflamma ہے۔ یہ وزن میں 2 سے 3 کلو تک اور عمر میں 23 سال بڑھ سکتی ہے۔

    اس کے پیٹھ اور اوپری اطراف کا رنگ بھورا، نچلے اطراف سفید یا ہلکے بھورے اور پیٹ سفید سے پیلے، عام طور پر اطراف میں 6 سے 7 پیلے رنگ کی پٹیوں کی قطاریں اور پس منظر کی لکیر (Lateral line) کی سطح پر ایک نمایاں سیاہ دھبہ، جو ڈورسل فن کے نرم حصے کے پچھلے حصے کے نیچے کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا مسکن ہند-بحرالکاہل، بحیرہ احمر، خلیج فارس، مشرقی افریقہ سے ساموا، شمال میں ریوکیو جزائر، جنوب میں آسٹریلیا تک ہے۔

    دوغلا ہیرا ڈوری اسنیپر مچھلی

    دوغلے ہیرے کے جیسی پاکستان میں کئی نسلیں پائی جاتی ہیں اور سب کی ہی غلط شناخت کی جاتی ہے، ان سب نسلوں کو Lane Snapper کہا جاتا ہے جب کہ لین اسنیپر پاکستان میں پائی ہی نہیں جاتی۔

    لین اسنیپر اسی کی طرح نظر آنے والی ایک اور مچھلی ہے، جس کا سائنسی نام Lutjanus synagris ہے اور اس کا مسکن مغربی بحر اوقیانوس، برمودا اور شمالی کیرولائنا، امریکا سے جنوب مشرقی برازیل، بشمول خلیج میکسیکو، بحیرہ کیریبین، پاناما اور جنوبی امریکا کے شمالی ساحلوں تک ہے۔ یہ وزن میں 4 کلو تک اور عمر میں 10 سال جی سکتی ہے۔

    کالے دھبے والی اسنیپر

    اسے انگلش میں Black Spot snapper کہتے ہیں، جب کہ اس کا سائنسی نام Lutjanus ehrenbergii ہے۔ یہ وزن میں 2 کلو تک اور عمر میں 10 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کی کمر اور اوپری اطراف کا رنگ گہرا بھورا، نیچے کی طرف اور پیٹ کا رنگ سلوری چمک کے ساتھ سفیدی مائل، عام طور پر لیٹرل لائن کے نیچے اطراف میں 4 سے 5 تنگ پیلے رنگ کی پٹیوں کی قطاریں، ڈورسل فن کے پچھلے حصے کے نیچے پیٹھ پر ایک سیاہ دھبا ہوتا ہے۔

    بلیک اسپاٹ دوغلا ہیرا مچھلی

    اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، بحیرہ احمر اور مشرقی افریقہ سے سلیمان اور ماریانا جزائر تک ہے۔

    پانچ لکیروں والی اسنیپر

    اسے five-lined snapper کہتے ہیں، یہ وزن میں 3 کلو تک اور عمر میں 31 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا رنگ عام طور پر پنکھوں سمیت چمک دار پیلا، اطراف میں 5 نیلی پٹیوں کی قطاریں، پچھلے حصے کے سب سے نرم ڈورسل فنز کے نیچے ایک گول سیاہ دھبا، آنکھ کے سائز یا اس سے بڑا، جو پیٹھ پر پس منظر کی لکیر (lateral line) کو چھوتی ہے، لیکن زیادہ تر اس کے اوپر ہوتی ہے۔ اس کا مسکن ہند-مغربی بحرالکاہل، خلیج فارس، خلیج عمان سے فجی، شمال سے جنوبی جاپان تک ہے۔

    پانچ لکیروں والی اسنیپر مچھلی

    رسلز اسنیپر

    Russell’s snapper کا رنگ عام طور پر سلوری چمک کے ساتھ گلابی سے سفید ہوتا ہے۔ ایک سیاہ دھبا، بنیادی طور پر پس منظر کی لکیر (lateral line) کے اوپر، نرم ڈورسل فنز کے اگلے کانٹوں کے نیچے (بحر ہند کی بالغ مچھلیوں کی پیٹھ پر عام طور پر 7 سے 8 تنگ سنہری بھوری پٹیاں ہوتی ہیں) بالغوں کی سفید رنگ کے ساتھ پیٹھ پر سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔ ان کے کمر کے اوپری حصے پر ایک گول سیاہ دھبا ہوتا ہے۔

    رسل اسنیپر مچھلی

    ان کا مسکن ہند-بحرالکاہل ہے اور یہ عمر میں 10 سے 15 سال تک اور وزن میں 2 سے 3 کلو تک بڑھ سکتی ہیں۔

  • ڈی ہائیڈریشن : افطار سے سحری کے دوران کتنے گلاس پانی پینا ضروری ہے؟

    ڈی ہائیڈریشن : افطار سے سحری کے دوران کتنے گلاس پانی پینا ضروری ہے؟

    روزے کی حالت میں سب سے مشکل کام جسم کو پانی کی کمی ( ڈی ہائیڈریشن ) اور سارا دن پیاس نہ لگنے کے احساس سے بچانا ہے، خصوصاً ان افراد کے لیے جو دن کے اوقات میں سفر یا آؤٹ ڈور کام کرتے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر سلیمان اوٹھو نے ڈی ہائیڈریشن (جسم میں پانی کی کمی) سے متعلق ناظرین کو مفید باتیں بتائیں۔

    انہوں نے کہا کہ دن بھر پانی کی کمی سے بچنے اور صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سحر و افطار میں ایسی غذاؤں کا استعمال کیا جائے جو جسم کی غذائی ضروریات بھی پوری کریں اور آپ کو توانائی پہنچائیں۔

    انہوں نے بتایا کہ افطار سے سحری کے درمیان کوشش کریں کہ ڈیڑھ سے دو لیٹر پانی پیا جائے، لسّی اور او آر ایس کا استعمال بھی بہت فائدہ مند ہے۔

    اس کے علاوہ فروٹ میں تربوز اور دیگر پھل جسم میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہمارے معاشرے میں لوگ کھانے کے بعد فروٹ کھاتے ہیں جبکہ اس صحیح وقت کھانا کھانے سے پہلے ہے۔

    ڈاکٹر سلیمان اوٹھو نے ڈی ہائیڈریشن کی ایک علامت یہ ہے کہ آپ بیٹھے ہوئے ہوں اور اچانک کھڑے ہوں تو سر چکرائے یا غشی محسوس ہو، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پانی کی کمی سے خون کا دباﺅ اور والیوم گرتا ہے۔

    اس کے علاوہ اگر آپ کو اکثر شدید سردرد رہتا ہے تو یہ ممکنہ طور پر اس بات کی علامت ہے کہ آپ ڈی ہائیڈریشن کے شکار ہورہے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ مناسب نیند کے باوجود اگر آپ دن بھر تھکاوٹ کے شکار رہتے ہیں تو اس کی وجہ ڈی ہائیڈریشن ہوسکتی ہے تو اگر آپ سستی محسوس کررہے ہوں تو پانی پی لیں، اگر پھر بھی شکایت دور نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ یہ دیگر امراض کا انتباہ بھی ہو سکتی ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • کافی ٹھنڈی پینی چاہیے یا گرم؟ نئی تحقیق

    کافی ٹھنڈی پینی چاہیے یا گرم؟ نئی تحقیق

    کافی ٹھنڈی ہو یا گرم اس کے پینے کے بہت سے طبی فوائد ہیں جو وزن کم کرنے سے لے کر سر درد، فالج، ذیابیطس اور دیگر بیماریوں سے بچانے میں بھی مددگار ہیں۔

    کافی کے سب سے بڑے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ یہ اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہے، جو آپ کے جسم اور خلیات کو بہتر طریقے سے کام کرنے ، بیماری کی روک تھام اور عام طور پر اچھی صحت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

    لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھنڈی اور گرم کافی کے درمیان انتخاب اکثر الجھن میں ڈال دیتا ہے اس کیلیے کیا کیا جائے؟

    اس حوالے سے بھارت میں کی جانے والی ایک تحقیق کے ذریعے اس معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے نتائج ایک طبی ویب سائٹ میں شائع کیے گئے ہیں۔

    مذکورہ تحقیق کے نتائج سے یہ معلوم کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا ٹھنڈی کافی گرم کافی سے زیادہ صحت بخش ہے یا نہیں۔

    کولڈ کافی

    یہ پتہ چلتا ہے کہ کولڈ بریو کافی عام طور پر برف اور پانی سے تیار کی گئی فوری کافی کا استعمال کرتے ہوئے بنائی جاتی ہے۔
    تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کی بنیادی غذائیت گرم کافی جیسی ہے لیکن کولڈ کافی اکثر چینی، دودھ یا کریم جیسے اجزاء کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔

    یہ اضافی چیزیں اضافی کیلوریز اور شوگر میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ یہ کیفین کے میٹابولزم کو بڑھانے والے کچھ فوائد کو کم کر سکتی ہیں۔

     گرم کافی

    گرم کافی گرم پانی کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی جاتی ہے جو ایسے مرکبات کو نکالتی ہے جن کے ہاضمے کے فوائد ہوتے ہیں۔

    گرم کافی کی گرمی گیسٹرک جوس کو متحرک کرنے اور ہاضمے کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ گرم کافی میٹابولزم پر بھی زیادہ فائدہ مند اثر ڈال سکتی ہے کیونکہ اس میں توانائی کو بڑھانے اور ہوشیار کرنے کی صلاحیت ہے۔

    گرم کافی کو صحت کے بہت سے فوائد سے بھی جوڑا گیا ہے، ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو، دل کی بیماری جیسی بیماریوں کو خطرے کو کم کرنا بھی شامل ہے۔

    صحت مند انتخاب

    اس کے علاوہ، گرم یا ٹھنڈی کافی کا صحت پر اثر نظام انہضام کی صحت، تیاری کا طریقہ، استعمال شدہ اجزاء اور صحت کے اہداف پر منحصر ہے۔

    کولڈ کافی کے مقابلے میں گرم کافی نظام ہاضمہ کو متحرک کرکے، آنتوں کی حرکت کو فروغ دے کر اور سوزش کو کم کرکے ہاضمے پر مثبت اثر ڈالتی ہے۔

  • ماہ رمضان میں فٹنس کا خیال کیسے رکھا جائے؟

    ماہ رمضان میں فٹنس کا خیال کیسے رکھا جائے؟

    ماہ رمضان کے آتے ہی بہت سے لوگ اپنی روز مرہ کی سرگرمیوں کو موقوف کردیتے ہیں جس میں ورزش سرفہرست ہے جس کی وجہ سے فٹنس کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    ایسے لوگوں کا ماننا ہوتا ہے کہ روزے کی وجہ سے ویسے ہی وزن میں کمی ہوجاتی ہے تو اس روٹین کو ایک ماہ کیلیے مؤخر کردیا جائے لیکن اس بات کو بنیاد بنا کر ورزش چھوڑ دینا مناسب نہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں فٹنس ٹرینر رضوان نور  نے ماہ رمضان میں ورزش سے متعلق اہم اور مفید مشوروں سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس ماہ رمضان میں بھی ورزش کو نہیں چھوڑنا چاہیے اگر روزے کی وجہ سے آپ کے اندر وہ توانائی نہیں تو افطار کے بعد ورزش کو معمول بنالیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ماہ رمضان میں فٹنس کیلیے روزہ رکھ کر ورزش کرنا مکمل طور پر محفوظ ہے، لوگوں کو اس ماہ میں بھی ورزش کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہیے کیوں کہ یہ جسم کو پُھرتیلا اور توانا رکھتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ روزے کے حالت میں صبح ہی ورزش کرلیں گے تو یہ آپ کی صحت کے لیے ایک اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہوگا، کیوں کہ صبح ورزش کرنے کے بعد آپ کے جسم میں پورا دن گزارنے کے لیے توانائی باقی نہیں رہے گی۔ اس موقع پر فٹنس ٹرینر رضوان نور نے کچھ ورزشیں کرکے بتائیں۔

  • ماہ رمضان میں کولیسٹرول اور وزن میں کمی کیسے کی جائے؟

    ماہ رمضان میں کولیسٹرول اور وزن میں کمی کیسے کی جائے؟

    ماہ رمضان میں روزے رکھنے کے سبب عام طور پر کولیسٹرول اور وزن میں کمی ہوجاتی ہے اور افطاری میں کھانے پینے میں احتیاط نہ کرنے سے اس کیفیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    افطار میں مرغن غذاؤں کا زیادہ استعمال روزے کی جسمانی افادیت پر اثر انداز ہوتا ہے لہٰذا اس سے متعلق جاننا اور اسے متوازن سطح پر لانا نہایت ضروری ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سحری کے بعد شام تک کچھ بھی نہ کھانے پینے سے اضافی کیلوریز کے روٹین میں سے ختم ہوجانے کے سبب صحت بہتر اور وزن میں کمی آتی ہے۔

    تاہم شام کو افطار میں کھانے پینے میں ہم کچھ غلطیاں کرجاتے ہیں جس کے نتیجے میں رمضان کا فائدہ اٹھانے اور صحت پہلے سے بہتر بنانے کے بجائے ہم اسے مزید بگاڑ لیتے ہیں۔

    رمضان کے دوران ہر گھر میں مرغن غذاؤں اور گوشت، انڈے، دودھ، مکھن اور گھی وغیرہ کا استعمال باقاعدگی سے کیا جاتا ہے، اس صورت میں روزوں کے سبب وزن تو کم ہو رہا ہوتا ہے مگر خون میں منفی کولیسٹرول کی سطح بڑھ رہی ہوتی ہے جس پر بروقت قابو پانا چاہیے ورنہ صحت سے متعلق بڑے مسائل سے دو چار ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

    اس بے احتیاطی کے سبب انسان خود کو ترو تازہ اور بہتر محسوس کرنے کے بجائے بوجھل، تھکا ہوا، سُست محسوس کرتا ہے اور بد ہضمی، تیزابیت کا شکار بھی نظر آ تا ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ خون میں کولیسٹرول کی سطح بڑھ چکی ہے جس سے جِلد از جلد جان چھڑانا لازمی ہے۔

    کولیسٹرول کم کرنے کے چند گھریلو ٹوٹکے

    اگر آپ کے جسم میں برا کولیسٹرول زیادہ ہے تو آپ کچا لہسن صبح خالی پیٹ یا رات کو سونے سے پہلے کھائیں۔ لہسن میں ایلیسن نامی عنصر پایا جاتا ہے جو خراب کولیسٹرول کو کم کرتا ہے۔ لہسن کھانے سے بلڈ پریشر بھی کنٹرول ہوتا ہے۔

    سبز چائے ہماری صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے، اس میں ایسے عناصر ہوتے ہیں جو صحت کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ روزانہ سبز چائے پینے سے میٹابولزم تیز ہوتا ہے اور کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سبز چائے آپ کے وزن کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔

    السی کے بیجوں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ پایا جاتا ہے جس کو اگر آپ پکا کر کھائیں تو بھی اور گرم پانی کے ساتھ نگل لیں تو بھی دونوں طرح سے کولیسٹرول کو بڑھنے سے روکنے میں مفید ہے۔

    دھنیے میں فولک ایسڈ، وٹامن اے، سی، کے اور بیٹا کیروٹن پایا جاتا ہے جوکہ جسم میں اضافی فیٹ، کولیسٹرول اور ایل ڈی ایل بڑھنے نہیں دیتا۔ اس کو آپ رات سونے سے ایک گھنٹہ قبل گرم پانی کے ساتھ استعمال کریں یہ نظامِ ہاضمہ کو بھی بہتر بناتا ہے اور فیٹ کو کنٹرول کرتا ہے۔

    وزن میں کمی کیسے کریں؟

    پانی پینا میٹابولزم کو بڑھا سکتا ہے، بھوک کو کم کر سکتا ہے اور آپ کو پیٹ بھرنے میں مدد دیتا ہے، جس سے کیلوریز کی مقدار کم ہوتی ہے۔ دن میں کم از کم آٹھ گلاس پانی پیئں۔

    فائبر خون میں شکر کی سطح کو منظم کرنے میں مدد کرتا ہے اور زیادہ کھانے کی عادت کو کم کرتا ہے۔ ہر کھانے میں زیادہ فائبر والی غذائیں جیسے پھل، سبزیاں اور اناج شامل کرنے پر غور کریں۔

    پروٹینز بھوک کو کم کرتے ہیں اور وزن میں کمی کے دوران پٹھوں کو مضبوط رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔ ہر کھانے میں چکن، مچھلی، بینز یا گریک یوگرٹ شامل کر سکتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں مالی غبن کا انکشاف

    پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں مالی غبن کا انکشاف

    لاہور: پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں مالی غبن اور بوگس بھرتیوں کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں مالی غبن کی اطلاع پر کی گئی ابتدائی انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈیپارٹمنٹ میں مالی غبن کیا گیا ہے اور بوگس بھرتیاں کی گئی ہیں۔

    انکوائری رپورٹ کے مطابق ڈیپارٹمنٹ میں کروڑوں روپے مالیت کی 6 دکانیں کوڑیوں کے بھاؤ من پسند افراد کو غیر معینہ مدت کے لیے دی گئیں، اور اس کے لیے ٹینڈر نہیں دیا گیا نہ ہی بولیاں لگیں۔

    رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ دکانوں کی سیکیورٹی کی رقم یونیوسٹی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے ملوث آفیشلز نے لی، اس مالی غبن میں ڈیپارٹمنٹ کے سابق سربراہ، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اور عملے کے چند افراد ملوث پائے گئے ہیں۔

    ڈیپارٹمنٹ میں بوگس بھرتیوں سے متعلق کیس اینٹی کرپشن کو بھیج دیا گیا ہے، اور ابتدائی رپورٹ میں ملوث افراد کے خلاف مکمل انکوائری اور تادیبی کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

  • پاکستان کے چاروں صوبوں کی ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

    پاکستان کے چاروں صوبوں کی ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق

    پاکستان کے چاروں صوبوں کی سیوریج لائنوں میں ایک بار پھر پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ماحولیاتی نمونوں میں وائلڈ پولیو ٹائپ ون پایا گیا ہے۔

    قومی صحت کے ادارے (این آئی ایچ) کے مطابق ریجنل ریفرنس لیب کی 14اضلاع کے سیمپلز میں پولیو کی تصدیق ہوئی ہے، ماحولیاتی نمونوں میں وائلڈ پولیو ٹائپ ون پایا گیا ہے، پولیو ٹیسٹ کیلئے ماحولیاتی نمونے 10 تا 18 فروری لئے گئے تھے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ سندھ کے 2، بلوچستان 7 اضلاع کے سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلے ہیں، خیبرپختونخوا کے 3، پنجاب کے 2 اضلاع کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے، کوئٹہ، گوادر، خضدار، نصیر آباد کی سیوریج پولیو پازیٹو ہے۔

    دریں اثنا اوستہ محمد، قلعہ سیف اللہ، کیچ کے ماحولیاتی نمونے پولیو پازیٹو ہیں، ایبٹ آباد، بنوں، ٹانک کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے، کراچی ایسٹ، ساوتھ کی سیوریج لائنیں پولیو وائرس سے آلودہ ہیں۔

    لاہور، سرگودھا کے ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، تیس اضلاع کے ماحولیاتی نمونے پولیو سے پاک نکلے ہیں، رواں سال ملک میں چھ پولیو وائرس کیس رپورٹ ہو چکے ہیں رواں سال سندھ سے 4، کے پی ایک، پنجاب ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/khyber-pakhtunkhwa-another-polio-case-confirmed/

  • سحر و افطار میں کون سی غذائیں لینا ضروری ہیں؟

    سحر و افطار میں کون سی غذائیں لینا ضروری ہیں؟

    ماہ رمضان میں صحت مند رہنے کیلیے ماہرین صحت مشورہ دیتے ہیں کہ لوگوں کو سحر و افطار میں مندرجہ ذیل اشیاء کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

    ہر گھر میں سحر و افطار کے موقع پر مختلف اقسام کے پکوانوں سے دسترخوان سجانے کی تیاریاں شروع کردی جاتی ہیں تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں کھانے پینے میں احتیاط کریں اور صحت مند رہنے کیلیے صرف غذائیت سے بھرپور خوراک ہی استعمال کی جائے۔

    ماہ رمضان میں کوشش کی جائے کہ سحری کے اوقات میں ایسی غذا کا استعمال کیا جائے جو کہ وٹامنز، معدنیات سے بھرپور ہوں اور اس کمی کو پورا کریں جو دن کے وقت روزے کے دوران جسم سے ضائع ہوتے ہیں۔

    تلی ہوئی اور چکنائی سے بھرپور غذائیں استعمال کرنے سے گریز کریں کیونکہ اس کا استعمال آپ میں تھکاوٹ کے احساس کو بڑھا سکتا ہے اور یہ کھانا آپ کے معدے میں صحت مند کھانے کی جگہ لے کر صحت کیلیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

    نمک سے بھرپور غذائیں جسم میں پانی کی کمی کا باعث بنتی ہیں اور اس کا زیادہ استعمال اس موسم میں آپ کو دوران روزہ نڈھال کرسکتا ہے اس لیے ایسی غذاؤں سے بھی پرہیز ہی بہتر ہوگا۔

    شکر کا زیادہ استعمال تو عام دنوں میں ہی صحت کیلیے کافی نقصان دہ ہوتا ہے لیکن یہاں شکر سے مراد صرف مٹھائیاں ہی نہیں بلکہ مٹھاس سے بھرپور دیگر غذائیں بھی ہیں جن میں عام طور پر کیلوریز بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن صحت بخش ہرگز نہیں یہ غذائیں جسم کو جلد اور مختصر مدت کیلیے توانائی ضرور فراہم کرتی ہیں لیکن انہیں کھانے کے بعد جلد ہی تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے۔

    کیفین کا زیادہ استعمال جسم میں مائعات کو کم کرتا ہے اور اس کے استعمال کے بعد پیاس کا احساس تیز ہوجاتا ہے کیونکہ کیفین ایک ڈائیوریٹک ہے اس لیے سحروافطار بالخصوص سحری کے دوران کیفین والے کھانے اور مشروبات جن میں سب سے اہم کافی، چائے اور چاکلیٹ شامل ہیں کھانے پینے سے گریز کریں یا کم سے کم استعمال کریں۔

    سادہ یا ریفائنڈ کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل غذائیں جن میں سفید روٹی اور پیسٹری وغیرہ شامل ہے یہ غذائیں جلد ہضم ہوجاتی ہیں اور اسی وجہ سے جلد بھوک کا احساس ہونے لگتا ہے اس لیے ایسی غذاؤں کا استعمال بھی کم سے کم کیا جائے تو بہتر ہے۔

    سافٹ ڈرنکس معدے میں جلن کا باعث بنتے ہیں خاص طور پر اگر وہ ٹھنڈے ہوں۔ یہ مشروبات بدہضمی کا باعث بھی بن سکتے ہیں اس لیے ان کی جگہ اگر ایک گلاس سادہ پانی پی لیا جائے تو وہ زیادہ بہتر ہے۔