Category: صحت

Health News in Urdu

صحت سے متعلق خبریں آپ کو تازہ ترین طبی تحقیق، بیماریوں کے پھیلنے، اور صحت مند رہنے کے طریقوں کے بارے میں جاننے میں مدد کر سکتی ہیں۔

  • مچھلی کے تیل کا استعمال سگریٹ نوشی ترک کرنے میں معاون

    مچھلی کے تیل کا استعمال سگریٹ نوشی ترک کرنے میں معاون

    مچھلی کے تیل کے استعمال سے سگریٹ نوشی ترک کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق مچھلی کے تیل کا استعمال سگریٹ نوشی میں مبتلا افراد کو تمباکو نوشی سے چھٹکاراحاصل کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

    مچھلی کے تیل میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈ نکوٹین کی طلب کو پورا کرتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ایک ماہ تک مچھلی کے تیل کے کیسپول استعمال کرنے سے تمباکونوشی کی شرح میں گیارہ فیصد تک کمی واقع ہوتی ہے جبکہ صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    مچھلی کے تیل سے گونا گوں دماغی عارضوں کے علاج کا تجربہ کرنے والے ماہرین کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ روزانہ مچھلی کے تیل کا ایک کیپسول نگلنے سے نفسیاتی امراض کا شکار ایسے مریضوں کو، جن کا مرض کافی ایڈوانس اسٹیج پر ہو، افاقہ ہوسکتا ہے۔

    ریسرچ کے نتائج کے مطابق تین ماہ تک مچھلی کے تیل سے بنے کیپسول کا پابندی سے استعمال دماغی امراض، خاص طور سے انشقاق ذہنی جیسے مرض میں مبتلا افراد میں سے ایک چوتھائی کا علاج ممکن ہے۔

    دنیا میں انسانوں کی اموات کا باعث سب سے زیادہ قلب کے شریانوں کی بیماری بنتی ہے۔ ماہرین کی متعدد تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مچھلی کا تیل قلب کے عارضوں کو کم کرنے میں نہایت مفید ثابت ہوتا ہے۔ مچھلی کے تیل میں موجود چربیلے مادے اومیگا 3 ایسیڈ سے پیرگی کے امراض اور انسانوں کی بوسیدگی کی علامات بھی کم ظاہر ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھنڈے پانی کی مچھلیاں، خاص طور سے ٹونا، سامن اور دیگر چکنی مچھلیوں میں اومیگا تھری ایسڈ وافر مقدار میں پایا جاتا ہے جو دماغی اور دل کے امراض کے علاوہ انسانی جسم کے مختلف اعضاء کے لئے بہت فائدے مند ہے۔

  • گاجر بینائی تیز کرنے کے ساتھ کینسر سے بچاؤ میں بھی مفید

    گاجر بینائی تیز کرنے کے ساتھ کینسر سے بچاؤ میں بھی مفید

    گاجر کا استعمال بینائی تیز کرنے کی صلاحیت کے ساتھ کینسرسے بچاؤ میں مفید ہے۔

    طبی ماہرین کی ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کے گاجر کا روزانہ استعمال بڑی آنت کے کینسر، پھیپھڑوں کے کینسر اور چھاتی کے کینسر جیسی خطرناک بیماریوں کے اثرات کو کم کرتا ہے۔

    تحقیق سے ثابت ہوا ہے کے فیلکیرینول اور فیلکیری یہ دو ایسے مرکبات ہیں، جو کینسر سے لڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    گاجر میں بیٹا کیروٹین بکثرت موجود ہوتا ہے، جو آنتوں کے امراض اور انفیکشن سے بچاتا ہے، کینسر جیسے موذی مرض میں گاجر کا استعمال اکسیر ہے۔ معدے کے السر میں بھی یہ بے حد مفید ہے۔

    اس میں پائے جانے والے وٹامنز اے ، ای اور سی چہرے کی شگفتگی کو برقرار رکھتے ہیں اور جلد کو بے رونق ہونے سے بچاتے ہیں۔

    گاجر کے جوس کا باقاعدہ استعمال ناخن ،بال ، دانت اور ہڈیوں کے لئے انتہائی مفید ہے ۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گاجر میں وٹامن اے ، ای  سمیت کئی ایسے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو انسانی صحت کے لئے انتہائی اہم ہیں ۔

    ماہرین کے مطابق روزانہ گاجر کا جوس پینے سے نہ صرف جگر کا نظام فعال ہوتا ہے بلکہ یہ کینسر کی رسولیوں کی افزائش روکنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

  • امرود کا استعمال امراض قلب اور بلڈپریشر میں مفید

    امرود کا استعمال امراض قلب اور بلڈپریشر میں مفید

    امردو کا استعمال انسانی جسم کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں مفیدثابت ہوتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق امرود میں موجود وٹامن سی وہ طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہے، جو بیماریوں سے بچانے والے نظام کو طاقتور بناتا ہے اور کینسر و امراض قلب سے محفوظ رکھتا ہے۔

    امرود میں نیاسین اور پوٹاشیم بھی وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں، جو بلڈ پریشر کو اعتدال میں رکھتے ہیں۔ امرود کے گودے اور اس کے بیجوں میں پیکٹن سے بھر پور اجزاء پائے جاتے ہیں، جن سے کولیسٹرول کی سطح کو کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

    امرود میں کئی طرح کے وٹامن ملتے ہیں، جو جسم کو صحت برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں، امرود دل متعلق بیماریوں میں فائدہ پہنچاتا ہے، دل سے متعلق بیماریوں کے علاج میں امرود کارگر ہے۔

    ریسرچ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ امرود میں اینٹی آکسیڈنٹس کی خوبیاں دوسرے تمام پھلوں کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہیں، اینٹی آکسیڈینٹس وہ غذائیت بخش اجزاء ہیں، جو خلیات کو تباہ ہونے سے بچاتے ہیں، خلیات کے تباہ ہونے پر جلد بڑھاپے کے اثرات کا شکار ہو جاتی ہے۔

    جلد پر جھریاں اور شکنیں نمودار ہونے لگتی ہیں اور اسی وجہ سے سرطانی خلیات بھی بنتے ہیں، جو نہایت تباہ کن اور مضر اثرات کے حامل ہوتے ہیں۔

    امرود کے بیج سے تیل بھی نکالا جاتا ہے، جس میں آیوڈین ہوتا ہے اور یہ طبی نقطہء نظر سے بہت مفید ہے، امرود میں وٹامن اے یا کیروٹین  کی مقدار کم ہوتی ہے لیکن دیگر معدنیات بشمول فاسفورس اور کیلشیم زیادہ ہوتے ہیں، امرود ایک ایسا پھل ہے، جو ذائقے کے اعتبار سے شاید پسندیدہ نہ ہو مگر خصوصیات کے اعتبار سے بے حد مفید ہے۔

  • خبردار :  بیوٹی کریم نقصان پہنچا سکتی ہے

    خبردار : بیوٹی کریم نقصان پہنچا سکتی ہے

    اے آر وائی (ویب ڈیسک ) خواتین خوبصورت اوردل کش نظرآنے کے لئے مختلف کریموں کا استعمال کرتی ہیں ۔ لیکن اکثر ان کے غلط انتخاب سے جلد کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ا س کے متعلق تحقیق بھی کی جارہی ہے۔ ان کریموں کے اثرات کے حوالے سے ایک ریسرچ کی گئی ۔

    ڈاکٹر جان مک فیڈن لندن کے مشہور ڈرما ٹولوجسٹ ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ موسچرائزر ‘ ماسک ‘ شیمپو اوریہاں تک کہ کنڈیشنر بھی اسکن الرجی کا باعث ہوسکتے ہیں ۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ اورٹن برطانیہ کے ماہر ڈاکٹر ہیں وہ کہتے ہیں کہ کسی ایسے پروڈکٹ کے استعمال کے بعد جس میں شامل ہونے والے اجزاءکوبرداشت کرنے کی طاقت اس شخص میں نہ ہو وہ فوری طورپر الرجی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں پورے جسم پر خارش شروع ہوجاتی ہے اور جسم پر لال دھبے پڑنا شروع ہوجاتے ہیں ۔

    ڈاکٹر ڈیوٹ نے اپنی ایک تحقیق کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آج سے چند سال پہلے سو میں سے دو یا تین افراد کا کاسمیٹک الرجی کا شکار ہوتے تھے ۔

    لیکن اب کاسمیٹک الرجی کا شکار ہونے والے افراد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ دس سال پہلے تک لوگ الرجی نامی کسی بیماری سے واقف نہیں تھے آج ہر دس میں سے ایک فرد کو الرجی کا مرض لاحق ہے ۔ اس لیے الرجی موجودہ دور کاایک اہم مسئلہ بن چکی ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے مارکیٹ میں رنگ گورا کرنے‘ داغ دھبوں کو دور کرنے والی دانوں اورپھنسیوں سے نجات دلانے والی بہت سی ایسی کریمیں دستیاب ہیں جنہیں کاسمیٹک پروڈکٹ کی جانب سے پڑتال کرنے والے ادارے کو چیک نہیں کروایا جاتا ۔

    ایسی تمام کریمیں جو چھوٹی‘ بڑی کاسمیٹک کی دکانوں اورپارلر میں فروخت ہو رہی ہیں اسکن الرجی کا سبب بنتی ہیں ان کریموں کو فروخت کا لیبل بھی لگادیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کریمیں خرید سکیں۔ اگر ہم اس حوالے سے کی جانے والی ریسرچ کا مطالعہ کریں تو یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قدرتی اجزاءیا ہربل پروڈکٹ بھی اسکن الرجی یا دوسری بیماریوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔

    اس لیے جب کبھی آپ یہ محسوس کریں کہ آپ کے استعمال میں کوئی ایسی پروڈکٹ یا کریم ہے جس سے آپ کوخارش ہوتی ہے تو اسے معمولی جان کر نظر انداز نہ کریں بلکہ ایسے کیمیکل والے پروڈکٹ کااستعمال فوری طورپر ترک کردیں۔ خریداری سے پہلے لیبل کو اچھی طرح پڑھیں اور یہ تصدیق کریں کہ اس کی تیاری میں کوئی ایسے اجزاء شامل تو نہیں کیے گئے جس سے جلد کی بیماریوں کاخطرہ ہو۔

    اس بات کوہمیشہ یاد رکھیں کہ قدرتی اجزاءسے بنائے جانے والے کاسمیٹک آپ کی جلد کے لیے اتنے ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں جتنے کہ کیمیکل اجزاءسے بنائے گئے کریم ‘ لوشن اوردیگر میک اپ کا سامان۔ خواتین اکثر وبیش تر جھریاں‘جھائیاں اور کیل مہاسوں سے پریشان دکھائی دیتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر روز نئی نئی کریمیں بھی آزماتی رہتی ہیں ایسی تمام غیر معیاری کریمیں جلد کی بے شمار بیماریوں کا سبب بنتی ہیں ۔

    جن میں سے ایک الرجی ہے اس لیے کسی بھی کریم کو استعمال کرنے سے پہلے اس کے معیارکے بارے میں ضرور معلومات حاصل کریں ۔ اکثر کریموں کی خوشبو بھی الرجی کا سبب ہوتی ہے جس کا اندازہ عموماً خواتین کو نہیں ہوپاتا۔ وہ کریم استعمال کرنے کے بعد مسلسل خارش‘ جلن اوردیگر پریشانیوں میں گرفتار ہوجاتی ہیں اور یہ سمجھ ہی نہیں پاتیں کہ ان کی اس تکلیف کی وجہ کریم کی خوشبو بھی ہوسکتی ہے ۔

    خواتین اکثر یہ غلطی بھی کرتی ہیں کہ اپنی جلد کی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے مختلف گھریلو ٹوٹکے بھی اپناتی ہیں وہ بنا سوچے سمجھے ہر ٹوٹکا آزمالیتی ہیں ۔ یہ ٹوٹکے بہرحال اثر دکھاتے ہیں مگر چونکہ ہر جسم ایک علیحدہ ساخت رکھتا ہے اوراس کی ضروریات بھی مختلف ہوتی ہیں یوں ہر ٹوٹکا آزمانے سے بیماری مزید بگڑ سکتی ہے ۔

    اگرگھریلو ٹوٹکوں سے ہی علاج کرنا مقصود ہو تو پہلے ان ٹوٹکوں میں استعمال ہونے والے اجزاءکا اچھی طرح جائزہ لیں اوراس بات کا یقین کرلیں کہ ٹوٹکے میں استعمال ہونے ولے اجزاءکو برداشت کرنے کی طاقت آپ کے جسم میں موجود ہے ۔

    بہتر یہ ہے کہ کسی بھی جلد کی بیماری کا خود علاج کرنے کے بجائے پہلے کسی ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرلیاجائے تاکہ کسی نقصان کااندیشہ باقی نہ رہے۔ غیر معیاری اورسستی کریمیں استعمال کرنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے چہرہ جھلس گیا ہو یہ کریمیں چہرے کی اندرونی جلد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں ۔

    کچھ کریمیں چہرے کی اندرونی جلد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں کچھ کریمیں تو اس حد تک خطرناک ہوتی ہیں کہ ان سے جلد کے کینسر کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ خواتین سب سے زیادہ ان کریموں سے متاثر ہوتی ہیں جو کم وقت میں رنگ گورا کرنے کا دعویٰ کریں۔

    اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق کامطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مصنوعی طورپر کسی کی رنگت میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔ اگر کوئی کریم یہ دعویٰ کرے کہ وہ کم وقت میں رنگ گورا کرسکتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ۔ بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو یہ وقتی ثابت ہوگا۔

    جیسے ہی کریم کا استعمال بند ہوگا ۔ رنگت دوبارہ سے اپنی پرانی ڈگر پرآجائے گی اورمختلف بیماریاں بھی سراٹھانے لگیں گی ۔ رنگ گورا کرنے والی کریموں میں فارمولا کریمیں بے حد مشہور ہیں۔ یہ کریمیں کس فارمولا کے تحت بنائی جاتی ہیں ۔یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن ان کریموں کے استعمال سے ہونے والے نقصان سے اکثرخواتین واقف ہوں گی ۔

    فارمولا کریم سے چہرے کی کھال اترنا شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کریمیں نشے کی طرح ہیں جب تک ان کا استعمال جاری ہے یہ آپ کے حق میں بہتر ہیں لیکن جیسے ہی آپ نے ان کو استعمال کرنا بند کیاآپ کے چہرے پردانے نکلنا شروع ہو جائیں گے یا پھر اس سے دوسری بیماری کا خدشہ بھی رہتا ہے ۔

    موجودہ دور میں بے شک کاسمیٹک پروڈکٹ کااستعمال ترک نہیں کیاجاسکتا۔ لیکن ان کی خریداری میں احتیاط بہت سے جلدی مسائل سے بچا جا سکتی ہے۔

  • کئی عشروں بعد نئی’اینٹی بائیوٹک‘دریافت

    کئی عشروں بعد نئی’اینٹی بائیوٹک‘دریافت

    امریکی سائنس دانوں نے کئی عشروں کے تعطل کے بعد ایک نئی اینٹی بائیوٹک دریافت کی ہے۔

    بیکٹیریا اگانے کے ایک منفرد طریقے سے 25 نئی اینٹی بائیوٹکس حاصل ہوئی ہیں، جن میں سے ایک کو بہت ’حوصلہ افزا‘ قرار دیا گیا ہے۔

    اینٹی بائیوٹکس کی آخری نئی قسم آج سے تقریباً تین عشرے قبل متعارف کروائی گئی تھی۔

    سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق کو ’عہد ساز‘ قرار دیا گیا ہے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ نئی دریافت محض ابتدا ہے جس کے بعد اس قسم کی مزید ادویات کی دریافت کا راستہ کھل جائے گا۔

    1950 اور 60 کی دہائیاں اینٹی بائیوٹکس کی دریافت کے سنہرے عشرے کہلائے جاتے ہیں۔ لیکن 1987 کے بعد سے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں بیکٹیریا سے لڑنے کے لیے کوئی نیا ہتھیار نہیں آیا۔

    اس کے بعد سے جراثیم نے بھی اپنے اندر غیرمعمولی قوتِ مدافعت پیدا کر لی ہے۔ خاص طور پر تپِ دق پیدا کرنے والے ایک خاص قسم کے جراثیم پیدا ہو گئے ہیں جن کے اندر متعدد جراثیم کش ادویات کے خلاف مدافعت موجود ہے۔

    امریکی شہر بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے نئی اینٹی بائیوٹک کی دریافت کے لیے پرانے ماخذ کی طرف رجوع کیا، یعنی مٹی۔
    مٹی میں جراثیم بہت بڑی تعداد میں جراثیم موجود ہوتے ہیں لیکن ان میں سے صرف ایک فیصد کو تجربہ گاہ میں اگایا جا سکتا ہے۔
    سائنس دانوں نے بیکٹیریا کے لیے ایک خاص قسم کا ماحول تیار کیا جسے انھوں نے ’زیرِ زمین ہوٹل‘ کا نام دیا۔ اس ہوٹل کے ہر ’کمرے‘ میں ایک ایک بیکٹیریا ڈال دیا گیا اور اس آلے کو مٹی میں دفنا دیا گیا۔

    اس وقت جو ’جدید ترین‘ اینٹی بائیوٹکس بھی استعمال کی جا رہی ہیں وہ کم از کم تین عشرے پرانی ہیں
    اس طرح بیکٹیریا کو اپنی افزائش کے لیے مٹی کا مخصوص ماحول دستیاب ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ سائنس دانوں کو ان کا مشاہدہ کرنے کا موقع بھی مل گیا۔
    اس کے بعد ان جراثیم سے ایک دوسرے کے خلاف جو کیمیائی مادے خارج ہوئے، ان کی جراثیم کش خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا۔
    اس طریقے سے سائنس دانوں کو 25 نئی اینٹی بائیوٹکس ہاتھ آئیں، جن میں سے ایک ’ٹیکسوبیکٹن‘ سب سے زیادہ حوصلہ افزا نکلی۔

  • زیتون کا تیل، بیشمار فوائد کا حامل

    زیتون کا تیل، بیشمار فوائد کا حامل

    زیتون کے تیل کے بے شمار فوائد ہیں، یہ ہمارے جسم کو اندرونی طور پر فائدہ پہنچاتا ہے۔

    کھانا پکانے میں زیتون کے تیل کا ستعمال بے حد مفید ہے، کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھتا ہے، ساتھ ہی کینسر کے خلاف مدافعت بھی پیدا کرتا ہے، زیتون کا تیل بالوں میں پابندی سے لگانے سے بال چمکدار، ملائم اور خوبصورت ہوجاتے ہیں۔ بالوں کے علاوہ زیتون کا تیل جِلد کیلئے بھی مفید ہے۔

    زیتون کا تیل جِلد کی خشکی بھی دور کرتا ہے، جس سے جِلد صحت مند اور خوب صورت ہوجاتی ہے، ٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق زیتون کاتیل قدرتی موئسچرائر کا کام دیتا ہے، اس کا مساج نہ صرف جلد کو چمکد ار بناتا ہے بلکہ جلدی امراض سے بچاؤ میں بھی مدد دیتا ہے۔

    برطانیہ کی مقامی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ زیتون کے تیل کے استعمال سے دل کی شریانیں زیادہ بہتر طور پر کام کرتی ہیں اور اس کے مسلسل استعمال سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بہت کم ہو جاتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق روزانہ زیتون کے تیل کا استعمال کیا جائے تو یہ نہ صرف دل کو بیماریوں سے بچاتا ہے بلکہ اسے تندرست بھی رکھتا ہے۔ زیتون کے تیل میں صحت کو برقرار رکھنے والا اومیگا 6 عنصر پایا جاتا ہے۔ جو جسم کو خطرناک بیماریوں کی طرف جانے سے روکتا ہے۔

    ڈاکٹرز کے نزدیک زیتون کا تیل دل کی بیماریوں کو ہی نہیں بلکہ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے اور خون میں صحت مند اور نقصان پہنچانے والے فیٹس کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے۔

  • کاجو کا استعمال ذیابطیس کے مریضوں کیلئے مفید ہے

    کاجو کا استعمال ذیابطیس کے مریضوں کیلئے مفید ہے

    طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے شکار لوگوں کی بڑی تعداد کومعلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اس سنگین مرض کا شکار ہیں، کاجو کا استعمال ذیابطیس میں مبتلا افراد کےعلاج میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق کاجو کا استعمال ذیابطیس کے علاج میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کاجو میں ایسے قدرتی اجزاء پائے جاتے ہیں، جو خون میں موجود انسولین کو عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔

    کاجو میں ایسے ”ایکٹو کمپاونڈز“ پائے جاتے ہیں، جو ذیابطیس کو بڑھنے سے روکنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق کاجو میں موجود پوٹاشیم جسم میں موجود شکر کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

  • بادام انسانی صحت کو خطرناک بیماریوں سے بچاتے ہیں

    بادام انسانی صحت کو خطرناک بیماریوں سے بچاتے ہیں

    شکاگو: بادام کھانے سے انسانی جسم کو خطرناک بیماریوں سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے۔

    امریکا کی شکاگو یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ بیالیس گرام بادام کھانے سے پیٹ اور ٹانگوں کی چربی تیزی سے کم ہوتی ہے اور میٹا بولک سنڈروم سے نجات ملتی ہے۔

    میٹا بولک سنڈروم ذیا بیطس، ہائی بلڈ پریشر، موٹاپے اور دل کی بیماری کا باعث بنتا ہے، یعنی بادام ہمیں ان تمام خطرناک بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    بادام میں کیلشیم افراط سے ہوتا ہے، جو ہڈیوں کی صحت کے لئے ضروری ہے، یہ لوہے سے بھی بھر پور ہوتا ہے جو ہیمو گلوبن کی ترکیب میں مدد گار ہوتا ہے، اسے انیمیا کے علاج میں مفید بناتا ہے۔

    بادام وٹامن ای کا ایک ذریعہ ہے، یہ تیزابیت دفع کرتا اور امراض قلب کا خطرہ کم کرتا ہے، کینسر اور موتیا بند کے خطرے میں کمی کرتا ہے۔ اس میں واحد مرتکز چربی ہوتی ہے ،جو قلب سے مربوط شریانوں کے امراض میں فائدہ مند ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایل ڈی ایل کو لیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے۔

  • ناشپاتی کولیسٹرول کو کم کرنے میں مفید ہے

    ناشپاتی کولیسٹرول کو کم کرنے میں مفید ہے

    پنسلوانیا : ناشپاتی کا رس دار میٹھا پھل غذائی اہمیت کے لحاظ سے انتہائی افادیت کا حامل ہے کیونکہ اس پھل کا استعمال انسانی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کم کرنے ، جسم میں خون کی ترسیل بڑھانے میں اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔

    ناشپاتی کا روزانہ استعمال کولیسٹرول جیسے مرض سے بچانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

    امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی میں کی گئی طبی تحقیق کے مطابق ناشپاتی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار کم کرتے ہوئے موٹاپے سے بچاتی ہے  ۔

    تحقیق کے مطابق ناشپاتی کے باقاعدہ استعمال سے انسانی جسم میں تیرہ اعشاریہ ایک ملی گرام تک کمی واقع ہوتی ہے جبکہ ناشپاتی کھانے سے جسم میں خون کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ناشپاتی میں وٹامن ‘سی’ اور’ کے’ کی کافی مقدار پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ یہ حیاتین کی دیگر اقسام ٹوکو فیرول ، نیا سن ،رائبو فلیون کا بھی موثر زریعہ ہے، اسی طرح اس میں کاپر ،مینگنیز، پوٹاشیم ، فولاد ، فاسفورس بھی پائی جاتی ہے، 100گرام ناشپاتی میں تقریباً 42کیلوریز ہوتی ہیں، جو انسانی جسم کیلئے بہت مفید ہے۔

  • سورج کی کرنیں موٹاپا کم کرنے میں مددگار

    سورج کی کرنیں موٹاپا کم کرنے میں مددگار

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سورج کی کرنیں موٹاپا کم کرنے کیلئے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

    انسانی صحت پر سورج کی روشنی کے ممکنہ فوائد کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سورج کی روشنی موٹاپا بھگانے کا ایک آسان اور سستا علاج ہے۔

    سائنسی رسالے ڈائی بیٹیک جرنل میں شائع ہونے والی ریسرچ کے مطابق سورج کی روشنی میں بیٹھنے سے ہماری جلد وٹامن ڈی پیدا کرتی ہے، جس سے خون میں وٹامن ڈی (حیاتین) کا اخراج ہوتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ حیاتین اس کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتی ہے۔

    البتہ سائنسدانوں کے مطابق سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کے ذریعے علاج کا عمل دراصل جلد سے خارج ہونے والے نائٹرک آکسائیڈ (این او) کے ساتھ منسلک تھا۔

    چوہوں پر کی گئی تحقیق سے ثابت ہوا کہ سورج کی الٹرا وائلٹ ریز سے بھوک کم لگتی ہے جبکہ وزن میں اضافے کی رفتار بھی سست پڑجاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی میں رہنے، بہت ساری ورزش، صحت مند خوراک سے بچوں میں موٹاپے کے عمل کو شروع ہونے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔