امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات ختم ہوگئی۔
امریکی صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے اعزاز میں کیبنٹ روم میں ظہرانہ دیا اور ان کی ملاقات دو گھنٹے جاری رہی۔
پہلی مرتبہ کوئی امریکی صدر نے کسی ملک کے آرمی چیف سے ملاقات کی ہے۔امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹ بھی وائٹ ہاؤس میں موجود تھے۔
فیلڈمارشل عاصم منیر کوکسی بھی بھارتی وفدسے پہلے وائٹ ہاؤس مدعوکیا گیا جو امریکی خارجہ پالیسی میں پاکستان کی اسٹریٹجک ترجیح کا واضح اشارہ ہے۔
ملاقات اس بات کی غمازی ہے کہ امریکا علاقائی استحکام کے لیے پاکستان کے کردار سے بخوبی واقف ہے۔
فیلڈمارشل کادورہ امریکا پاکستان کا جنوبی ایشیا نیٹ ریجنل اسٹیبلائزر کے طور پر کردار واضح کرتا ہے، دورہ تعلقات، عالمی سطح پر پاکستان کی عسکری قیادت کی پہچان ہے۔
ٹرمپ اور فیلڈ مارشل کی ملاقات پاکستان کی عسکری قیادت پر بڑھتے اعتماد، اہمیت کی نشاندہی کرتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایران حملوں سے پریشان ہے وہ اب مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اب بات کرنا چاہتا ہے پہلے جب موقع تھا کیوں بات نہیں کی، اب بات کرنے پیغام بھجوایا ہے میں نے جواب دیا بہت دیر ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے لیے آج بھی یہی پیغام ہے کہ غیر مشروط سرنڈر کردے۔
ٹرمپ نے کہا کہ نہیں معلوم جنگ کتنے دن چلے گی لیکن ایران کی دفاعی صلاحیت نہیں ہے، ایران اس وقت مشکل میں ہے انہیں آگے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی صدر نے کہا کہ آئندہ ہفتے انتہائی اہم ہے ہوسکتا ہے اس سے پہلے بڑی کارروائی ہو، پہلے دور میں بھی کہا تھا ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایرانی 40 سال سے امریکا مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں یہ کوئی نہیں جانتا، امریکا ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کرے گا یا نہیں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ میں صدر ہوتا تو روس اور یوکرین کے درمیان کبھی جنگ نہ ہوتی، روس اور یوکرین کی لڑائی میں جو رپورٹ ہوئی اس سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔
پاکستان سے متعلق ٹرمپ نے کہا کہ پاک بھارت جنگ بند کروائی، پاکستان ایٹمی طاقت ہے میں پاکستان کو پسند کرتا ہوں۔
واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج فیلڈ مارشل اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے اعزاز میں ظہرانہ دیں گے۔
ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے اعزاز میں ظہرانہ کیبنٹ روم میں دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ظہرانے پر امریکی صدر ٹرمپ سے خصوصی ملاقات بھی ہوگی جس میں پاک امریکا تعلقات اور ایران اسرائیل جنگ سمیت خطے کی موجودہ صورتحال پر بھی گفتگو ہوگی۔
ظہرانے میں نائب امریکی صدر جے ڈی وینس امریکی وزیر دفاع اور ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر اہم عہدیداروں کی شرکت بھی متوقع ہے۔
وائٹ ہاؤس سے جاری اعلامیہ کے مطابق امریکی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے ہونے والے ظہرانے کے بعد صدر ٹرمپ میڈیا سے بھی گفتگو کریں گے۔
علاوہ ازیں ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ امریکی دورے کے موقع پر جنرل عاصم منیر کی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو اور سیکریٹری دفاع پیٹ ہیگستھ سے بھی ملاقات متوقع ہے۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ دور حکومت میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی دوسرے ملک کے آرمی چیف کو وائٹ ہاؤس مدعو کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میزائل حملے میں ملٹری انٹیلی جنس مرکز اور موساد کے آپریشنز پلاننگ سینٹر کو نشانہ بنایا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت طویل جنگ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اسرائیل کی صفائیاں پیش کررہی ہے، ترجمان اسماعیل بغائی کی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف کایا کالاس پر تنقید کی اور کہا کہ جارح کا وکیل نہ بنیں حقیقت دیکھیں اور صورتحال سمجھیں۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن، آئی اے ای اے کی سخت نگرانی میں ہے۔
ماسکو: روس نے اسرائیل اور ایران کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس ایران اور اسرائیل کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
پیسکوف نے نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ صدر پوتن نے کہا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو روس ثالثی کی خدمات فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم کم از کم اسرائیل کی طرف سے کسی ثالثی کی خدمات کا سہارا لینے یا تصفیہ کی طرف پرامن راستہ اختیار کرنے میں ہچکچاہٹ دیکھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایران روس کے سب سے بڑے اتحادیوں میں سے ایک ہے، لیکن وہ اسرائیل کو الگ نہ کرنے کا بھی خواہش مند رہا ہے، جس کے ساتھ اس نے برسوں سے اچھے تعلقات برقرار رکھے ہیں۔
چند روز قبل امریکی صدر ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن سے ٹیلیفون پرگفتگو کی تھی جس میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پربات کی گئی تھی۔
روسی صدارتی دفترکریملن کے حکام کے مطابق دونوں صدور کی گفتگو 50 منٹ تک جاری رہی،گفتگو بہت مفید اور بامعنی تھی۔ صدرپیوٹن نےکہا تھا کہ روس ایران کےخلاف اسرائیلی فوجی آپریشن کی مذمت کرتا ہے۔
اسرائیل ایران تنازعہ چوتھے روز میں داخل ہوگیا، ایران نے میزائل اور ڈرونز کے ذریعے تل ابیب اور حیفہ پر ڈرون اور میزائل داغ دیئے۔
خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے حملوں کے بعد ایرانی میزائلوں نے اسرائیلی شہروں تل ابیب اور حیفہ کو نشانہ بنایا، جس سے کئی مکانات تباہ ہوگئے۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس نے فوج کے ساتھ مل کر اسرائیل پر مشترکہ میزائل اور ڈرون حملہ کیا ہے جس میں کم از کم 100 میزائل فائر کیے گئے ہیں۔
ایران کا کہنا ہے کہ وہ تہران میں کیے گئے اسرائیل کے حملے کا بدلہ لے رہا ہے، جس میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام اور فوجی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسرائیل اور ایران جنگ کے معاملے پر عالمی رہنماؤں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ جی 7 ممالک کے رہنما اس ہفتے کینیڈا میں ملاقات کے لیے تیار ہیں، جہاں یہ تنازعہ ایجنڈے میں سرفہرست رہے گا۔
3 ممالک کا ایران سے رابطے کا فیصلہ
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے، تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ایرانی ہم منصب سے ٹیلیفون پربات کریں گے۔
اسرائیل کی ایمرجنسی سروس ماگن ڈیوڈ آڈوم نے بتایا کہ وسطی اسرائیل میں چار مختلف مقامات پر حملوں میں 4 افراد ہلاک اور 87 زخمی ہوئے، ہلاک ہونے والے دو مرد اور دو خواتین شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تل ابیب کے قریب پیٹا ٹکوا نامی شہر میں ایرانی میزائلوں نے ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنایا، جس سے دیواریں کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور کئی فلیٹ شدید متاثر ہوئے۔
اسرائیلی آئل ریفائنری کمپنی کا کہنا ہے کہ میزائل حملوں سے محفوظ رہنے کیلئے ریفائنریز اور ذیلی کمپنیاں بند کردی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ 13 جون کو اسرائیل نے تہران اور ایران کے دیگر مقامات پر درجنوں فوجی ہیڈکوارٹرز اور جوہری تنصیبات پر فضائی حملے کیے، جن میں 200 سے زائد جنگی طیارے استعمال کیے گئے، اس حملے کے نتیجے میں ایران کے متعدد اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدان شہید ہوگئے۔
جوابی کارروائی کے طور پر، ایران نے اتوار کے روز اپنی سرزمین پر جاری حملوں کے ردعمل میں سیکڑوں میزائل فائر کیے، ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ تل ابیب کے حکام کو اپنی جارحیت کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
اسرائیل نے ایرانی سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشریات کے دوران حملہ کردیا، میزائل حملے کے دوران خاتون اینکر اس سے بچتی نظر آئیں۔
الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کے وزیر دفاع کی جانب سے ایران کے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو کو دھمکیوں کے کچھ دیر بعد ہی اسرائیل نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر میزائل حملہ کیا ہے، خاتون اینکر لائیو نشریات کے دوران خدمات انجام دے رہی تھی کہ اسرائیلی میزائل عمارت پرگرا۔
الجزیرہ ٹی وی نے مزید بتایا کہ ایرانی سرکاری ٹی وی پرحملہ اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے، اسرائیل ماضی میں بھی میڈیا اداروں پر حملے کرتا رہا ہے، حزب اللہ سے منسلک المنارٹی وی پر بھی اسرائیل حملے کرچکا ہے۔
غزہ پر حملوں کے دوران اسرائیل نے کئی مقامی میڈیا دفاتر تباہ کیے، اسرائیل میڈیا اداروں کو دشمن تنظیموں سے جوڑکر نشانہ بناتا ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی بڑھتی جارحیت میں میڈیا اداروں کو نشانہ بنانا تشویشناک ہے۔
مہرنیوز ایجنسی نے بتایا کہ خاتون اینکر سحرامامی نے دوبارہ نشریات سنبھال لی ہیں، تاہم ایران کے سرکاری ٹی وی کے قریب رہائشی علاقوں سے انخلا شروع ہوگیا ہے۔
اسرائیلی وزیردفاع نے حملے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی پروپیگنڈا کا مرکز ختم ہونے والا ہے، ایرانی نشریاتی اداروں کو بند کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے اسرائیل پر ایٹمی حملے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے فلور آف دی ہاؤس پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف ملکی دفاع وسلامتی کیلئے ہے۔
نائب وزیراعظم نے برطانوی اخبار میل آن لائن کی خبر کی دوٹوک الفاظ میں تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے اسرائیل پر ایٹمی حملے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ایسی گمراہ کن اور جھوٹی معلومات قومی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ایسی رپورٹس عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو بھی متاثر کر سکتی ہیں تمام حلقے احتیاط برتیں اور تصدیق شدہ معلومات پر انحصار کریں، پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے۔
برطانوی اخبار نے بےبنیاد اور جھوٹی خبر دی کہ پاکستان اسرائیل پر ایٹمی حملہ کر سکتا ہے۔
ایرانی صدر کے خطاب کے بعد ایرانی پارلیمنٹ میں ’’شکریہ پاکستان‘‘ کے نعرے گونج اٹھے۔ پاکستان تشکر! ایران کی مجلس شوریٰ میں پاکستان کےحق میں زبردست نعرے بازی کی گئی۔
پاکستان کے دوٹوک اور واضح مؤقف اور حمایت پر ایرانی قیادت نے اظہارتشکر کیا اور پاکستان کی حمایت پر زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔