Category: Uncategorized

  • سڑک میرے باپ کی ہے

    سڑک میرے باپ کی ہے

    تحریر:  ایاز خان 

    انسانی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جن اقوام میں بھی قانون کی عمل داری قائم ہوئی ہے اس نے طرقی کی بلندیوں کو چھولیا،  قانون کی عمل داری اگر خوش اسلوبی سے نافذ ہوجائے تو معاشرہ ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے اور اگر یہ عمل داری راستے میں رک جائے اور قانون کا تمام شہریوں پر یکساں اطلاق نہ ہو پائےگا، غریب کے لئے قانون موجود ہو اور با اثر افراد اور امراء کے لئے قانون لمبی تان کر سو رہا ہو تومعاشرہ ابتری کی عبرت ناک مثال بن جاتا ہے۔

     اس کی زندہ مثال برطانوی وزیراعلیٰ ڈیوڈ کیمرون ہیں جن کو ڈاکٹر نے انتہائی نہگداشت کے کمرے میں داخل ہونے سے نہ صرف روکا بلکہ اس کے نقصانات  پرلیکچر بھی دیا، ذکر برطانیہ کا ہو اور پاکستان کی سیاست کا ذکر نہ ہو ایسا نہیں ہو سکتا۔

    حال ہی میں برطانیہ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے آنے والے بلا ول بھٹو زرداری انداز بیان اور گفتار سے  پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں اور اخباروں میں ان کی لاڑکانہ والی تقریر پر خوب کالم بھی لکھے گئے مگر کسی نے بلاول سے یہ سوال نہیں پوچھا کی میاں برطانیہ میں سڑک پر قبضہ  کر نے کی کیا سزا ہے ؟ اور کو ئی پوچھے گا بھی نہیں  کیوں کے بلاول تو بڑے صاحب کے بیٹے ہیں انکے نانا سابق وزیر اعظم ،  والدہ دو مرتبہ سابق وزیر اعظم اور والد سابق صدر پاکستان اور مفاہمت کی پالیسی کے ایجاد کرنے والےہیں۔

     کچھ  عرصہ قبل سندھ ہائیکورٹ کے سابق  چیف جسٹس مشیر عالم نے کہا تھا کہ قانون کی بلاتفریق عمل داری سے ہی دہشت گردی اور جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے عدالتیں جن قوانین پر عمل درآمد کے احکامات جاری کرتی ہیں ان احکامات پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا جاتا، شہریوں کے جان و مال کی تحفظ کی ذمہ دار حکومت ہے، قانون کی بلاتفریق عمل داری نہ ہونے کے سبب معاشرے میں جرائم بڑھ رہا ہے۔

    میں  پریشان ہوا کے سندھ کی سب سے بڑی عدالت کے چیف نے ایسا کیوں کہا   تحقیق کر نے پر سمجھ آیا  کے شاید  پڑھے لھے لوگوں سے مخاطب ہیں، معاملہ کچھ یوں تھا کہ صوبہ سندھ کی سب سے بڑی عدالت جسے لوگ سندھ ہائی کورٹ کے نام سے جانتے ہیں اس کے حکم کے باوجود سڑک پر قبضہ جاری ہے اور سونے پر سوہاگاہ کے پولیس والے اس دیوار کی حفاظت پر معمور ہیں سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود کےعوامی حقوق کے علمبرداروں کے کان پر جوں نہیں رینگی۔

    سنا تو تھا کے پاکستان میں سب چلتا ہے مگر ایسی جیتی جاگتی مثال  شاید پہلے نہیں دیکھی ۔ پیپلز پارٹی کے رہنما تو اپنی  توپین  لیکر میدان میں اتر  آئیں ہیں مگر کا ش کوئی ان کو یہ سمجھا دے کہ سڑک عوام کے ٹیکس سے بنتی ہے  بلاول سمیت کسی کے والد محترم کی  ذاتی جائیداد نہیں ہوتی، مگر پیپلز پارٹی والے بہ ضد ہیں کہ  ہم سے جو ٹکرائے گا وہ مٹی میں مل جائے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی لندن میں  بھی دفاتر اور رہنماوں کے گھر موجود ہیں، جو پارٹی سڑک پر قبضہ کرنے کی حامی ہے ۔ لندن میں کسی بھی سڑک پر صرف 5 منٹ کے لئے  رکاوٹیں کھڑی کر کے دکھائے۔

     بچپن میں جب  ہم کرکٹ کھلنے جا تے اور وہاں کوئی اورٹیم پہلے سے کھیل رہی ہوتی تھی توان بچوں سے  الفاظ کی جنگ  ہوجایا کر تی تھی اور ایک ہی سوال پوچھا جاتا تھا کہ سڑک کیا تمھارے باپ کی ہے؟ بچےتو صرف سوال کیا کرتے تھے مگر پردیس سے آئے تعلیم یافتہ بلاول نے اس سوال کا جواب بہت ہی دیا ہے۔

     شاید میں یہ سب لکھنے کے بعد جمہوریت کا دشمن بھی کہلاوں اور گستا خ بھی مگر کیا کروں سچ کہنے کی بری عادت  ہے ،  کسی کو برا لگے تو خاکسار کیے لئے دعا فر ما دے

     بقولِ شاعر

     جو دل پر گزرتی ہے رقم کر تے رہیں گے

     ہم  پرورش  ِ لوح و قلم  کر تے  رہیں  گے

  • امریکا: سالانہ 125 ویں روز پریڈ کی رنگا رنگ تیاریاں

    امریکا: سالانہ 125 ویں روز پریڈ کی رنگا رنگ تیاریاں

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سالانہ روز پریڈ کی تیاریاں جوش وخروش کیساتھ جاری ہیں۔نئے سال کی رنگینیوں میں اضافہ کرنے والی یہ پریڈ یکم جنوری کو ہوگی جس میں ہزاروں لوگ شرکت کرینگے۔

    کیلیفورنیا میں ایک سو پچسیویں سالانہ روز پریڈ کی تیاریاں عروج پر ہیں، نئے سال کی رنگینیوں میں اضافہ کرنے والی پریڈ میں ہزاروں ٹن پھولوں اور پتیوں سے دیو ہیکل شاہکار تیار کئے جارہے ہیں ۔

    پھولوں سے بنے مجسمے بھی پریڈ کا حصہ ہونگے.پھولوں سے بنی سیکڑوں دلفریب اشیاء کو بنانے کیلئے دنیا بھر سے لاکھوں نایاب پھول درآمد کئے گئے ہیں، پریڈ میں لوگوں کیساتھ جانور بھی حصہ لینگے، یکم جنوری کو ہونے والی اس پریڈ میں شرکت کیلئے مقامی افراد کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوگی۔

  • سال 2013: برطانوی گلوکاروں کیلئے کامیابی کا سال رہا

    سال 2013: برطانوی گلوکاروں کیلئے کامیابی کا سال رہا

    سال دوہزار تیرہ برطانوی گلوکاروں کیلئے کامیابی کا سال رہا ، بر طانیہ کے راک بینڈ نے اس سال مداحوں کے دل جیتنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی، بہترین میوزک البم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا۔

    برطانوی میوزک بینڈ ون ڈائریکشن کی میوزک البم مڈنائٹ میموریز سال دو ہزار تیرہ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی البم بن گئی جس کی سات لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔

    ”ون ڈائریکشن“ بینڈ لیام پئین، ہیری اسٹائلز، لوئی ٹوم لن سن اور پاکستانی نژاد زین ملک پر مشتمل ہے۔اس بینڈ نے اب تک کئی ایوارڈ حاصل کیے ہیں، ون ڈائریکشن بینڈ پر بننے والی فلم نے باکس آفس پر بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔

    دوسری طرف برطانوی راک بینڈ آرکٹک منکیز کی البم ایم سال دو ہزار تیرہ کی سب سے زیادہ آن لا ئن دیکھی جانے والی البم رہی، برطانوی راک بینڈ بیسٹائل کی بیڈ بلڈ البم گزشتہ سال کی سب سے زیادہ بکنے والی ڈیجیٹل البم بن گئی۔ 

  • بھارت امن کی پیش کش سے فائدہ اٹھائے، جلیل عباس جیلانی

    بھارت امن کی پیش کش سے فائدہ اٹھائے، جلیل عباس جیلانی

    امریکا میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھارت سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں، بھارت کو ان کوششوں کا مثبت جواب دینا چاہئیے۔

    میڈیا سے گفتگو میں امریکا میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف بھارت سے پرامن تعلقات کے خواہاں ہیں، تعلقات کی بحالی کے لئے بھارت کو یہ موقع گنوانا نہیں چاہئیے۔

    وزیراعظم نواز شریف کی امن کے لئے کی گئی کوششوں کا مثبت جواب دے کر پاک بھارت تعلقات کومعمول پرلایا جاسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا مکمل انخلا نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ افغان عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

  • اٹھارواں کالم ، نکاح نامہ ایک زنجیر

    اٹھارواں کالم ، نکاح نامہ ایک زنجیر

    تحریر : وسیم نقوی

    ہاتھی کو بچپن میں زنجیر سے باندھ کر رکھا جاتا ہے وہ اُس زنجیر کو توڑنا چاہتا ہے لیکن توڑ نہیں سکتا اور جب ہاتھی بڑا ہو جاتا ہے تواُس کے پاس زنجیر توڑنے کی طاقت ہوتی ہے اور تب بھی اُسی زنجیر سے  اسکوباندھا جاتا ہے مگر کیونکہ بچپن سے ہاتھی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چُکی ہوتی ہے کہ میں جتنی چاہوں طاقت لگالوں لیکن اس زنجیر کو توڑ نہیں سکتااور وہ زنجیر ہاتھی کو اپنی گرفت میں جکڑے رکھتی ہے اور اپنی حدود سے باہر نہیں جانے دیتی اگرہم اس ہاتھی کو پاکستانی معاشرے میں رکھ کر دیکھیں تو یقیناً پاکستانی عورت آپکو اس ہاتھی کی طرح ہی نظر آئے گی جس کے پاس تمام طاقت اور اختیارات تو ہوتے ہیں مگر وہ معاشرے کی روایات اور خاندانی رسومات کے ہاتھوں لاعلم،مجبور اوربے بس بنا د ی گئی ہے۔

    پاکستان میں جہاں طلاق کی شرح 80-85 فیصد تک بڑھ گئی ہے یقیناًاس کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں کم عمری میں شادی کر دینا،وٹہ سٹہ جیسی رسومات، اسلام میں جہاں ازواجی زندگی گزارنے کی بہترین مثالیں موجود ہے جس میں رسولِ خدا  اور حضرت خدیجہ کی بہترین زندگی اس کے علاوہ حضرت علی کرم اللہ وجہ اور حضرت بی بی فاطمہ  کی زندگی بہترین نمونہ ہیں جہاں اگر بیوی مرد سے زیادہ عمر کی ہو تو بی بی خدیجہ اور رسول اللہ  اور اگر مرد عورت سے زیادہ عمر کا ہو تو حضرت علی  اور بی بی فاطمہ  کی ازواجی زندگی پر عمل کر کے اپنی زندگی جنت بنا سکتے ہیں ان بہترین مثالوں کے باوجود اسلامی معاشرے میں طلاق کی شرح کم ہونے کے باوجود بڑھتی جا رہی ہے۔

    میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اور آج تک جس سے میں نے یہ سوال کیا سب کا جواب " نا" میں آیا سوال تھا " کیا آپ نے شادی سے پہلے نکاح نامہ پڑھا تھا ؟؟ " نا تو نا اکژنے جواب دیا کہ شادی کی خوشی میں نکاح نامہ پڑھنا تو دور کی بات شادی کے بعد کے غم میں بھی کبھی نہیں پڑھا۔

    چلو مظلوم میاں بیوی تو ایک طرف… کیا کبھی مولوی صاحب نے یہ نکاح نامہ شادی کے وقت پڑھ کر سنایا؟ توسب مولویوں میں اس مسئلے پر اتحاد بین المسلمین پایا ،،،، یقین کریں سب کا جواب تھا کہ ضروری کالم پڑھ لیتے ہیں باقی نہیں۔۔ ضروری کیا ہے اس کا فیصلہ کون کرے گا اور کیا چیز کس کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے؟؟ آپ خود فیصلہ کر لیں کہ ہر شادی پر مولوی صاحب کو ہمیشہ یہ ہی سنتے پایا ہوگا کہ" فلاح بنت فلاح کا نکاح،، فلاح ابنِ فلاح سے فلاح حق مہر میں طے پارہا ہے کیا آپ کو قبول ہے؟ ؟ نکاح خواں مولویوں سے میرا بھی ایک سوال ہے کہ کیا کبھی اس سوال کا جواب نا میں آیا ہے؟؟ کتنے لڑکے لڑکیاں ہیں جنہوں نے اس سوال کا جواب " نا " میں دیا ہو…. آپ بھی اپنے اپنے علاقے کے مولویوں سے اس بات کی تصدیق کروا سکتے ہیں اور کبھی پوچھ کر خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور لڑکی "نا"کر بھی کیسے کر سکتی ہے،  نکاح کے وقت لڑکی کے سر پر پورا خاندان " "کسی چوبدار کی طرح کھڑا ہوتا ہے۔ شادی ایک " سوشل کنٹریکٹ' ہے اور میاں بیوی اس کنٹریکٹ کی دو پارٹیز… کنٹریکٹ کی تمام شقیں پڑھ کر دونوں پارٹیزکے علم میں لانا ہوتی ہیں اور کوئی بات بھی دونوں پارٹیوں سے خفیہ نہیں رکھی جاتی مگر اسی نکاح نامے کا18 کالم ہمارے معاشرے کے مولوی حضرات کاٹ دیتے ہیں کیونکہ اس کالم میں عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے مجھے نہیں پتا کہ تمام شقوں کو پڑھے بغیر یہ کنٹریکٹ قانونی رہا یا نہیں اور شریعت کے بارے میں بات کرنا میرے بس میں نہیں۔

     آج تک بہت کم لڑکیوں کو اس کالم کا پتہ ہے جو کہ نا ہونے کے برابر ہے اگر یہی کالم نکاح کے وقت باآوازِ بلند پڑھ کر سب کو سنایا جائے جیسے فلاح ابنِ فلاح پڑھا جاتا ہے تو شاید عورت اپنا قانونی حق اور طاقت جان سکے لیکن اگر ایسا ہو گیا تو تمام مولوی اور مردوں کی انا کہاں جائے گی ہمارا معاشرہ جو کہ مردوں کی مرضی پر انحصار کرتا ہے ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کیونکہ عورت تعلیم کے میدان میں مردوں کو مات دے رہی ہیں نوکریوں کے میدان میں مردوں کے برابر آگئی ہیں۔ان سب کے بعد عورت تو نکاح خواں نہیں بن سکتی اور اب مردوں کے پاس ایک ہی راستہ بچا کہ عورت کو اس کالم سے لاعلم رکھ کر اپنا غلام بنایا جا سکے اور شوہر بیوی پر جی بھر کر تشدد کر سکے اور عورت کو اگر طلاق بھی چاہیے ہو تو وہ مرد سے طلاق بھی بھیک مانگ مانگ کر حاصل کرے اور جب طلاق حاصل کر لے تو قصور کسی کا بھی ہو ۔۔ حقارت کی نظر صرف عورت کے مقدرمیں ہی آئے گی لیکن اگر کسی لڑکی کو اپنے اس حق کا علم ہو بھی جائے تو ہماری خاندانی رسومات کے بوجھ تلے لڑکی دب کے خاموش ہو جاتی ہے۔

    ایک ٹی وی چینل پر دو مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام تشریف فرما تھے کہ اور خلع کے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی اور دونوں اس بات پر متفق تھے کہ طلاق کا حق صرف مرد کو ہی حاصل ہے مولوی حضرات نکاح کے وقت اٹھارواں کالم کاٹ دیتے ہیں لیکن اگر عورت مرد کے تشدد سے تنگ آجائے توعورت کے پاس دوہی آپشن ہوتے ہیں ایک یہ کہ وہ زندگی بھر اس تشدد کو اپنا مقدر سمجھ کر صبر کرے یادوسرا عدالت کی طرف رجوع کرکے خلع لے کر اس عذاب سے جان چھڑائے یہ دونوں آپشن صرف اسی وقت قابلِ عمل ہوتے ہیں جب اس اٹھارویں کالم کو نکاح کے وقت کراس کر دیا جاتا ہے مجھے نہیں پتہ کہ اس کالم کو کاٹنا یا چھوڑ دینا شرعی ہے یا نہیں لیکن اتنامیں ضرور کہوں گا کہ اسے کراس کرکے جو ذلت عورت اور اس کے گھر والوں کو اٹھانی پڑتی ہے وہ قیامت سے کم نہیں ہمیں عورت کو اس کا قانونی حق دینا تو گوارہ نہیں مگر عورت کو تشدد اور عدالت کے چکر لگوا کر شاید ہم شریعت کی خدمت کر رہے ہیں۔
    ایسا ہی ایک واقعہ میرے دوست نے سنایا کہ ہمارے جاننے والے کے گھر ایک شادی تھی اور جس لڑکی کی شادی ہونے جارہی تھی وہ وکیل بھی تھی شادی سے ایک دن پہلے لڑکی نے اپنے والدین سے کہا کہ میں اپنے نکاح نامے میں 18 کالم نہیں کٹواوں گی، بس یہ کہنا تھا کہ جیسے اعلانِ جنگ ہوگیا ہو۔۔والدین کی طرف سے جو کچھ سننے کو ملا اس میں سے چند کلمات یہ تھے کہ "ابھی سے خلع لینے کا سوچ رہی ہے اگر یہ بات تمہارے سسرالیوں کو پتہ چل گئی تو وہ کیا سوچیں گے وہ سمجھیں سے کہ اس لڑکی کا ارادہ کہیں اور ہے جو یہ ابھی سے ایسے مطالبات کر رہی ہے" جب ہم اپنی بیٹی کو دلہن کے لباس میں غلامی کی زنجیریں ڈال دیں گے اور ہمیشہ کے لئے مرد کی غلامی میں دے دیں گے تو پھر یقیناًہمیں بُرے نتائج کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم صرف ایک کالم کا علم اور حق عورت کو دے دیں تو مکمل نا سہی مگر کافی حد تک عورت تشدد کی زنجیروں سے باہر نکل آئے گی اور کئی گھرانے برباد ہونے سے بچ جائیں گے ۔    
       

  • سال 2013 قومی ایئرلائن کیلئے بدترین خسارے کا سال

    سال 2013 قومی ایئرلائن کیلئے بدترین خسارے کا سال

    پی آئی اے انتظامیہ کی بدنظمی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے مالیاتی خسارے کی اڑان آسمان کی جانب ہے، سال 2013 بھی قومی ایئرلائن کیلئے بدترین خسارے کاسال ثابت ہوا، خسارہ 200 ارب روپے سے زائد تجاوز کرگیا۔

    قومی ایئرلائن ، باکمال لوگ لاجواب سروس اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے، فضاؤں کا سینا چیرتے ہوئے پی آئی اے کے جہاز کبھی پاکستانیوں کے مکمل اعتماد اور دنیا بھر میں پاکستانی وقار کی علامت سمجے جاتے تھے مگر شاہانہ اڑان کو انتظامیہ کی بدنظمی اور ناقص حکمت عملی لے ڈوبی۔

     گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی کوتاہیوں کی وجہ سے قومی ایئرلائن کا موازنہ زوال کی جانب سے گامزن دیگر اداروں کے ساتھ کیا جانے لگا، پروازوں کی روانگی میں تاخیر معمول بن گیا۔

    انجنوں کی عدم دستیابی اور طیاروں کے گراؤنڈ ہونے کی وجہ سے بڑھتا ہوا خسارہ قومی ایئرلائن کو ایک ایسی کھائی میں دھکیل دیا، جس پر حکومت کو قومی ایئرلائن کی نجکاری کا فیصلہ کرنا پڑا، پرزہ جات نہ ہونے کی وجہ سے دس سے زائد طیارے بدستور گراؤنڈ ہیں، جو ادارے پر بوجھ بن رہے ہیں۔

    انتظامیہ کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے قومی ایئرلائن کے ذریعے سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد میں بھی کمی آنا شروع ہوگئی، جس کی وجہ سے قومی ایئرلائن کو مزید خسارے سے دوچار ہونا پڑرہا ہے، پی آئی اے میں گذشتہ چند برسوں کے دوران انتظامیہ تبدیلی کے باعث ہر آنے والے سربراہ نے بلند باگ دعوے کیے اب تو سال بیت گیا مگر بات اب بھی جوں کی توں ہے، اس کے مستقبل کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔

  • انقرہ:ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے استفے کا مطالبہ مسترد کردیا

    انقرہ:ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے استفے کا مطالبہ مسترد کردیا

    ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے عوام کی جانب سے مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے۔

    ترکی کو نئے سیاسی بحران کا سامنا۔۔۔ کرپشن کے الزام میں ملوث ہونے والےمستعفی وزراء نے ملک میں جاری کرپشن کا منبع وزیراعظم رجب طیب اردگان کو قرار دے دیا ہے۔

    وزرا کےان الزامات کے بعد ترکی کے عوام وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں اور حزب اختلاف کی جانب سےملک بھر میں وزیراعظم کےخلاف ایک بڑی احتجاجی مہم کا آغاز کردیا گیاہے۔

    تاہم وزیراعظم اردگان نے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات بے بنیاد ہیں اور وہ آج بھی ترکی کے سب سے مقبول رہنما ہیں، اس سے قبل وہ ترکی کے دوسرے اہم شہر استنبول پہنچے تھے جہاں ان کے چاہنے والوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔
       

  • لاہور:مہنگائی،کرپشن کیخلاف ریلی،عوامی تحریک کارکنان مال روڈ پرجمع

    لاہور:مہنگائی،کرپشن کیخلاف ریلی،عوامی تحریک کارکنان مال روڈ پرجمع

    لاہور میں پاکستا ن عوامی تحریک کی مہنگائی اورکرپشن کیخلاف احتجاجی ریلی، کارکنوں میں جوش وخروش،خواتین اور بچے بھی شریک،ڈاکٹر علامہ طاہر القادری ویڈیو لنک سےخطاب کرینگے،تفصیلات کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے کارکن مہنگائی کے خلاف لاہور مال روڈ کی سڑکوں پر جمع ہوناشروع ہوگئے۔پارٹی جھنڈے ہاتھوں میں اٹھائے مردوں سمیت خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد مظاہرے میں شریک ہورہی ہے۔

    سردیوں کی ٹھنڈی صبح۔یخ بستہ ہوائیں۔ہر سو سردی کا کا راج۔ لیکن عوامی تحریک کے کارکنان نے اپنے قائدڈاکٹرطاہرالقادری کی آوازپر لبیک کہہ کرسرد موسم کو بھی گرما دیا۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری نے ہوشربا مہنگائی کے خلاف لاہور مال روڈ پر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیاتھا۔

    عوامی تحریک کےکارکنوں کی بڑی تعدادہاتھوں میں قومی پرچم اور پارٹی جھنڈے اٹھائے صبح سے ہی مقررہ مقام پرپہنچنا شروع ہوگئے۔ موسم کو گرماتے پارٹی کارکن پرجوش انداز میں نعرے بازی کرتے نظر آئے۔ شرکا نے فیس پینٹنگ اور ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے ہیں۔

    بعض منچلے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے بھی نظر آئے۔ ریلی کے شرکا کا کہناہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے انہیں گھروں سے باہرآنے پر مجبورکردیا ہے۔

    ناصر باغ سے پنجاب اسمبلی تک جانےوالی ریلی کے حوالے سے تمام انتظامات مکمل کر لئے گئےہیں۔ریلی سے جماعت کےروح رواں ڈاکٹر طاہرالقادری کینیڈا سے وڈیولنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔ مال روڈ ریلی کی قیادت ڈاکٹر طاہر القادری کے صاحبزادے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کررہے ہیں۔
        
       

  • کراچی بدامنی: سات افراد جاں بحق ، چھ زخمی ، مرزا یوسف بال بال بچے

    کراچی بدامنی: سات افراد جاں بحق ، چھ زخمی ، مرزا یوسف بال بال بچے


       
    کراچی میں ایک بار پھر قتل و غارت کا سلسلہ تیز ہوگیا، مجلس وحدت المسلمین کے رہنما مولانا یوسف مرزا پر حملہ دو ہلکار جاں بحق، مختلف واقعات میں ابتک سات افرادجاں بحق اور چھ زخمی ہوگئے

    پولیس کے مطابق گلستان جوہر کے علاقے بلاک بارہ میں ایم ڈبلو ایم کے رہنما مولانا مرزا یوسف پر مسلح افراد نے فائرنگ کی جس سے ان کے دو محافظ اقبال اور مظہر شدید زخمی ہوگئے، جنہیں قریبی اسپتال منتقل کیا جارہا تھا کہ دو نوں دم توڑ گئے، واقعے میں مولانا مرزا یوسف محفوظ رہے جبکہ مسلح افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

    شارع لیاقت پرپولیس مقابلہ کے دوران ملزمان کی فائرنگ سے اے ایس آئی عبدالجبارجاں بحق ہو گیا ، بنارس کی دیر کالونی میں کار پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک شخص کو موت کے گھاٹ اتاردیا، پاپوش میں فائرنگ کے واقعے ایک شخص جان کی بازی ہار گیا۔

     منگھوپیر اور اتحاد ٹاون کے علاقے سے دوافراد کی تشدد زدہ لاشیں ملی۔ سمن آباد کے علاقے میں پولیس موبائل پر فائرنگ سے ہیڈ کانسٹبل رحیم لاشاری زخمی ہوا،لیاری کے علاقے سنگولین میں نامعلوم افراد کے کریکر بم حملے میں دو افراد زخمی ہوگئے،لانڈھی ،ملیر، میٹرول سائٹ ایریا میں فائرنگ سے تین افراد زخمی ہوئے۔


    لیاری کےعلاقہ ہنگورآبادمیں بلدیاتی الیکشن کی مہم کیلئے جانے والے صوبائی وزیرجاوید ناگوری کی گاڑی پر نامعلوم افراد  نے فائرنگ 

    کردی،جاوید ناگوری نے اے آروائی  کو بتایا کہ  فائرنگ کے نشانات ان کی سرکاری اورپولیس موبائل پر دیکھے جاسکتے ہیں، دوسری 

    جانب جمعہ بلوچ روڈ کے مکینوں کا دعوی ہے کہ جاوید ناگوری کے محافظوں نے ان پر فائرنگ کی جس سے دو افراد زخمی ہوئے ، 

    واقعے کے خلاف مکینوں نے احتجاج بھی کیا۔

  • سابق صدر زرداری کی ظہرانے میں شرکت

    سابق صدر زرداری کی ظہرانے میں شرکت

     

       سابق صدر آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے ایم این ای سردار علی گوھر مہر کی جانب سے دیئے گئے ظہرانے میں شرکت کیلئے گھوٹکی کے ریگستانی علاقے تار پہنچے۔

     اس موقع پر سابق وزیر اعلیٰ علی محمد مہر اور صوبائی وزیر علی نواز مہر نے آصف زرداری کا استقبال کیا سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی صدارت مین پارٹی کا اجلاس بھی ہوا جس میں مہربرادران کی جانب سے پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر اور رکن سندھ اسمبلی احمد علی پتافی کے خلاف شکایات کرتے ہوٴے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

     آصف زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ کو ہدایات کی کہ احمد علی پتافی سے مل کر کارکنوں ا ور رہنماؤں کی شکایت کا ازالہ کیا جائے بصورت دیگر انہیں عہدے سے ہٹایا جائے۔بعد میں آصف زرداری گھوٹکی میں رکن سندھ اسمبلی جام اکرام اللہ دھاریجو کے عشائیے میں بھی شرکت کی۔