Category: حیرت انگیز

VIRAL STORIES FROM AROUND THE WORLD IN URDU BY ARY News Urdu وائرل حیرت انگیز خبریں اور معلومات

  • برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت سامنے آگئی

    برمودا ٹرائی اینگل کی حقیقت سامنے آگئی

    جنگ عظیم دوئم کے زمانے سے برمودا ٹرائی اینگل ساری دنیا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے اور اس کے بارے میں مافوق البشر یا غیر ماورائی معاملات مشہور ہیں لیکن اب وہ تمام مفروضات اپنی موت آپ مرنے والے ہیں۔

    بحر اوقیانوس (اٹلانٹک ) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو برمودا ٹرائی اینگل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میلبورن، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔

    اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں کہ جن کے باعث اس کو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے۔ ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی اور مافوق الفطرت واقعات شامل ہیں۔

    ان ماوراء طبیعی داستانوں (یا واقعات) کی اصلیت جاننے کے لیے جو تفاسیر کی گئی ہیں ان میں بھی اکثر غیر معمولی اور مسلمہ سائنسی اصولوں سے ہٹ کر ایسی ہیں کہ جن کے لیے کم از کم موجودہ سائنس میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔

    ان تفاسیر میں طبیعیات کے قوانین کا معلق و غیر موثر ہوجانا اور ان واقعات میں بیرون ارضی حیات (extraterrestrial life) کا ملوث ہونا جیسے خیالات اور تفکرات بھی پائے جاتے ہیں۔ ان گمشدگی کے واقعات میں سے خاصے یا تقریباً تمام ہی ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایک معمہ کی خصوصیت وابستہ ہو چکی ہے اور ان کو انسانی عمل دخل سے بالا پیش آنے والے حوادث کی حیثیت دی جاتی ہے۔

    بہت سی دستاویزات ایسی ہیں کہ جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل کو تاریخی اعتبار سے ملاحوں کے لیے ایک اسطورہ یا افسانوی مقام کی سی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ مختلف مصنفین اور ناول نگاروں نے بھی اس مقام کے بیان کو الفاظ کے بامہارت انتخاب اور انداز و بیان کی آرائش و زیبائش سے مزید پراسرار بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندر میں بلاؤں کی کہانیاں سچ نکلیں

    عوامی حلقوں میں مشہور قصے اپنی جگہ لیکن برمودا کے بارے میں بعض مفکرین کا خیال یہ ہے کہ اصل میں یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی فوجی اڈے اور کچھ امریکی فوجی اڈے تھے۔ لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لیے برمودا کی مثلث کے افسانے مشہور کیے گئے جن کو قصص یا فکشن (بطور خاص سائنسی قصص) لکھنے والوں نے اپنے ناولوں میں استعمال کیا۔ اب چونکہ اڈوں والا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہا اس لیے عرصے سے سمندر کے اس حصے میں ہونے والے پراسرار واقعات بھی نہیں ہوئے۔ مواصلات کے اس جدید دور میں اب بھی کوئی ایسا علاقہ نہیں ملا جہاں قطب نما کی سوئی کام نہ کرتی ہو یا اس طرح کے واقعات ہوتے ہوں جو برمودا کی مثلث کے سلسلے میں بیان کیے جاتے ہیں۔

    برمودہ ٹرائی اینگل کا معمہ سائنسی بنیادوں پہ حل ہو چکا ہے بلکہ کئی معمے ایسے تھے ہی نہیں لیکن مشہور ہو گئے تھے۔ وہ ہوائی جہاز جو کہ پانی میں گر کر تباہ ہوئے تھے۔ ان کو، انہی پانیوں کی گہرائیوں سے جا کر نکال لیا گیا ہے کہ جو خود اس بات کو رد کرتا ہے کہ برمودہ تکون کے پانیوں میں نہیں جایا جا سکتا۔

    برمودہ مثلث کے بارے میں تب پتہ چلا کہ جب جنگ عظیم کے دوران ٹریننگ پر گئے ہوائی جہازوں کا ایک پورا فلیٹ غائب ہو گیا۔ اس فلیٹ کے لیڈر کے جہاز کی جایئروسکوپ خراب ہو گئی تھی اور وہ ہوائی اور بحری جہاز کی دنیا کا ایک سب سے خوفناک مسئلے کا شکار ہوا کہ جسے پائلٹ ڈس اورینٹیشن
    pilot Disorientation کہتے ہیں۔ اس دوران پائلٹ کا اپنے کنٹرول ٹاور سے مکمل رابطہ رہا اور اس فلیٹ کو نیویگیٹ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اور کنٹرول ٹاور میں بھی موجود افراد کو یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ اگر یہ مسئلہ درپیش رہا تو فیول ختم ہونے کے بعد سب جہاز گر جائیں گے۔ پهر ہوا بھی یہی ۔ کنٹرول ٹاور اور جہازوں کے مابین ہونے والی آخری وقت تک کی گفتگو بھی موجود ھے۔ لہذا ایسا نہیں ہوا تھا کہ یک دم چلتے جہاز کو کوئی حادثہ پیش آگیا۔

    دراصل وہ خطہ ایسا تھا کہ جب نیوی گیشن کا مسئلہ آیا توجہاز میں بیٹھے ہوئے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ غلطی سے بحر الکاہل میں چلے گئے ہیں، جبکہ وہ بحر اوقیانوس میں ہی تین جزیروں کے بیچ میں گھومتے رہے۔اور ا سی طرح کے مسائل کی وجہ کچھ واقعات پیش آئےتو اس تکون کے بارے میں وہ سب مشہور ہوا جس پر یقین کیا جاتا ہے۔

    جہاں تک بحری جہازوں کے ڈوبنے کا تعلق ہے تو وہ معمہ اس طرح کھلا کہ جب ایک آئل رِگ سمندر کی گہرائی میں موجود میتھین گیس کی لیکیج کی وجہ سے ڈوب گئی۔ اور اس وقت یہ اندازہ ھوا کہ کہ سمندر میں اگر گیس کا اخراج ہو جائے، تو وہ گیس اپنے اخراج کی جگہ سے لے کر سمندر سے باہر نکلنے تک پانی کو کافی حد تک اپنی جگہ سے ہٹا دیتی ہے ۔ اسی سبب اس جگہ پرموجود پانی اور گیس کا ایک ایسا میکسچر بنتا ہے کہ وہاں بایوسنی خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے کہ جس میں بحری جہاز تو کیا ایک آئل رگ بھی ڈوب جائے۔ اور یہی اس خطے میں ہوا تھا۔

    جنگ عظیم کے زمانے میں جنگوں کے دوراں ہونے والے ایسے واقعات کہ جن کی گہرائی تک عوام کی رسائی نہ تھی، تو ان کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مثلا نیواڈا کے علاقے میں فضائی اور ہوائی تجربات کی وجہ سے لوگوں نے یو۔ایف۔او کی تھیوری تشکیل دی اور یہ کہا کہ کوئی غیر زمینی مخلوق زمین پر آتی ہے۔ مگر جب کئی عرصے بعد امریکہ کی ایئر فورس نے خود اس حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ اسی طرح جنگ عظیم کے دوران کئی واقعات منظر عام پہ نہیں آسکے اور مختلف ازہان نے اپنی اپنی تھیوریاں بنائیں۔

    مافوق الفطرت صورتحال پہ یقین کرنے والوں نے اپنی تهیوری بنائی، اور سائنسی اذہان نے کچھ مستند سامنے آنے تک اپنے وثوق کو موخر کیا۔
    مگر یہ معمہ اب حل شدہ ہے، کیونکہ انہی سمندروں پہ جہاز چلتے ہیں، انہی فضاؤں میں جہاز اڑتے ہیں، اور انہی پانیوں کی گہرائیوں میں لوگ جاتے ہیں اوروہی جہاز ڈھونڈھ کر لاتے ہیں، کہ جنہیں کسی مافوق الفطرت واقعہے کے کھاتے میں ڈال کر ڈوبنے کا بتایا جاتا ہے کہ وہ ایسے جگہ ڈوبے کہ جہاں کوئی نہیں جا سکتا۔

    مزید پڑھیں: فراعنہ مصر کے مقبروں کے راز جاننے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

    برمودا ٹرائی اینگل کی شہرت کا باعث وہ کہانیاں ہیں جو اس کے ساتھ وابستہ کی جاتی رہی ہیں۔ ان کہانیوں کے مطابق کئی بحری جہاز اور کئی ہوائی جہاز اس علاقے سے گزرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے اور ان کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔ انہی حادثات کے باعث اس علاقے کو شیطان کی مثلث (Devil’s Triangle) بھی کہتے ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ تندوتیز طوفانوں کا علاقہ ہے۔ لیکن ماس میڈیا میں اسے ایک ماورائی یا پیرانارمل جگہ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے جہاں طبیعات کے تسلیم شدہ قوانین یا تو غلط ثابت ہوجاتے ہیں، بدل جاتے ہیں یا ان کے ساتھ بیک وقت دونوں صورتیں پیش آجاتی ہیں۔

    اسی لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس علاقے میں کئی ہوائی جہاز اور کئی بحری جہاز انتہائی غیرعمومی حالات میں غائب ہوگئے۔ امریکی کوسٹ گارڈ اور دوسرے لوگ اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ حادثات کے بارے میں جمع کئے جانے والے اعدادوشمار سے کہیں بھی یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس علاقے میں پیش آنے والے حادثات دنیا کی دیگر مصروف ترین گزرگاہوں سے زیادہ رہے ہوں اور باریک بینی سے جائزہ لینے پر اس علاقے کے بارے میں پھیلائی جانے والی کسی بھی کہانی میں کوئی غیرمعمولی عوامل دکھائی نہیں دئیے۔

    اس علاقے میں جہازوں کے غائب ہونے کی بات پہلے پہل 1950ء میں کی گئی۔ یہ کہانی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ذریعے سامنے آئی اور اس کے لکھنے والے کا نام ای وی ڈبلیو جونز تھا۔ جونز نے جہاں اپنے آرٹیکل میں ان حادثات کو ہوائی جہازوں، بحری جہازوں اور چھوٹی کشتیوں کی ’’پراسرار گمشدگی‘‘ سے تعبیر کیا وہیں اس علاقے کو ’’ڈیولز ٹرائی اینگل‘‘ کا نام بھی دیا۔ دوسری بار اس کا ذکر 1952 میں ’’فیٹ میگزین‘‘ کے ایک آرٹیکل میں ہوا جسے جارج ایکس سینڈ نے تحریر کیا اور اس میں کئی پراسرار بحری گمشدگیوں کا ذکر کیا گیا۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کی اصطلاح 1964ء میں ونسینٹ گیڈیز کے Argosy فیچر کے ذریعے مقبول ہوئی۔ جو مقبولیت اس علاقے کو آج حاصل ہے وہ چارلس برلٹیز کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ ’’برمودا ٹرائی اینگل‘‘ کے نام سے چارلس برلیٹز کی کتاب 1974ء میں شائع ہوئی اور بعد میں اس پر فلم بھی بنائی گئی۔

    کتاب میں ان ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کے بارے میں طویل اور پراسرار کہانیاں لکھی گئی ہیں جو اس سمندری علاقے میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس میں خصوصی طور پر امریکی بحریہ کے پانچ تارپیڈو بمبار طیاروں کا ذکر کیا گیا ہے جو دسمبر 1945ء میں اس علاقے میں لاپتہ ہوئے۔ اسے فلائٹ 19 کا حادثہ کہاجاتا ہے۔ یہ کتاب ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوئی اور اس میں گمشدگیوں کی کئی وجوہات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً حادثوں کی ایک وجہ اس علاقے میں بھاری آمدورفت بھی ہو سکتی ہے، سمندری طوفان بھی ان حادثوں کا باعث ہو سکتے ہیں۔

    ان دو سمجھ میں آنے والی وجوہات کے علاوہ کئی ایسے اسباب کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو ماورائے عقل ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ ان گمشدگیوں کا باعث ٹمپرل ہولز (temporal holes) بھی ہو سکتے ہیں۔ سمندر میں غرق ہوجانے والی افسانوی سلطنت ’’اٹلانٹس‘‘ جس کا ذکر سب سے پہلے افلاطون نے کیا تھا، بھی ان حادثوں کا سبب ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے سیارے کی ٹرانسپورٹیشن ٹیکنالوجی بھی ان حادثوں کی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی سپر نیچرل وجوہات کے ذکر اس کتاب کے اندر ملتا ہے۔ فلائٹ 19 کے حادثے کے وقت ہی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے ریفرنس لائبریرین لارنس کوشے نے برمودا ٹرائی اینگل کے بارے میں طلباء کی بے پناہ دلچسپی اور سوالات سے تحریک پاکر اصلی رپورٹوں کی چھان بین کا تھکا دینے والا کام شروع کردیا اور ان رپورٹوں سے حاصل ہونے والے نتائج 1975ء میں The Bermuda Triangle Mystery: Solved کے نام سے ایک کتاب میں شائع ہوئے۔ کوشے نے بڑی جابک دستی سے برلیٹز کی کہانیوں اور عینی شاہدین کے بیانات میں پائے جانے والے نقائص کو سامنے لاکر ان کا پردہ فاش کردیا۔ آج تک کی جانے والی کھوج بین سے کسی غیرعمومی مظہر کے ان حادثات میں ملوث ہونے کی کوئی سائنسی شہادت نہیں مل سکی۔

    نوٹ: یہ تحریر سائنس کی دنیا نامی فیس بک پیچ پراختر علی شاہ نے شیئر کی تھی ۔ معلوماتِ عامہ کے فروغ کے لیے اسے یہاں شائع کیا گیا ہے۔

  • سال نو کی آمد پر دلچسپ رسومات

    سال نو کی آمد پر دلچسپ رسومات

    دنیا بھر میں نئے سال کی آمد پر جہاں لوگ اپنے نئے اہداف اور منصوبہ بندی ترتیب دیتے ہیں وہی دنیا بھر میں ایسے بھی ممالک ہیں جہاں نئے سال کی آمد سے جڑی رسومات ادا کی جاتی ہیں تاہم دلچسپ بات یہ رسمیں ترقی یافتہ ممالک میں بھی ادا کی جاتی ہیں۔

    چین

    1

    نئے سال کو چین میں ’’جشن بہاراں‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو شمسی اور قمری کلینڈر کے حساب سے ہوتا ہے، نئے سال شروع ہوتے ہی چین میں خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جو جنوری کے آخر اور فروری کے وسط میں اچانک شروع ہوتی ہیں۔ خصوصی تقاریب شروع ہوتے ہی چین کے لوگ اپنے گھروں کی دیواروں کو صاف کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تاہم جمع ہونے والی گرد کو خاص طور پر گھر کے پچھلے دروازے سے ہی باہر پھینکتے ہیں۔

    ایکواڈور

    2

    نیا سال شروع ہوتے ہی لوگ رات کے درمیانی پہر اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور ایک پتلے کو نذآتش کرتے ہیں۔ جس کا مقصد پرانی سال کی تلخ یادوں کا خاتمہ اور نئے سال میں مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔

    لاطینی امریکا 

    3

    لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ رات کو خالی سوٹ کیس گھر کے کونے میں رکھ دیتے ہیں جبکہ بعض افراد خالی سوٹ کیس کو گھروں میں گھماتے بھی ہیں جس کا مقصد نئے سال میں رزق اور سفر کی بہترین مواقع حاصل کرنا ہوتا ہے۔

    اسپین

    4

    اسپین اور لاطینی امریکا میں 31 دسمبر کی رات کو انگور کھانے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اور جیسے ہی یکم جنوری کی تاریخ شروع ہوتی ہے اس کام کو ختم کردیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ عمل کرنے سے پورے سال خوراک کے حصول میں مدد ملتی ہے۔

    بیلا روس

    5

    نیا سال شروع ہوتے ہی کنواری لڑکیاں ایک میدان میں دائرے کی صورت میں اپنے سامنے مکئی کے دانے رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں پھر اس کے درمیان ایک مرغا چھوڑا جاتا ہے اور وہ جس لڑکی کے سامنے جاکر مکئی چگتا ہے اُسے نئے سال میں دلہن بننے کی ایڈوانس مبارک باد دی جاتی ہے۔

    ڈنمارک 

    6

    ڈنمارک میں نیا سال شروع ہوتے ہی لوگ اپنے گھر کے برتن (پلیٹیں) توڑ کر پڑوسی کے گھر پر پھینکتے ہیں اس کام میں دونوں پڑوسیوں کی رضا مندی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس عمل کا مقصد بھی پورے سال مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔

    رومانیہ 

    7

    رومانیہ میں کرسمس اور نئے سال کی آمد کے درمیان کسی بھی وقت ریچھ کی کھال پہن کر رقص کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے، جس کا مقصد پورے سال نحوست سے محفوظ رہنا ہے۔

    جنوبی افریقا

    8

    جنوبی افریقا میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ پرانے فرنیچر کو گھروں کی کھڑکیوں سے باہر پھینکتے ہیں ، خاص طور پر جوہانسبرگ میں بلند و بالا عمارتوں میں رہائش پذیر گھرانے بھی یہی عمل کرتے ہیں جس کے باعث نیو ائیر کے موقع پر ہر سال سینکٹروں افراد زخمی بھی ہوتے ہیں اور ہرسال پولیس و امدادی اداروں کو طلب کرنا پڑتا ہے۔

    برازیل

    9

    برازیل میں نئے سال کی پہلی صبح سمندر میں سفید پھول چھوڑے جاتے ہیں، جس کا مقصد فرضی دیوی ’’یمانجہ‘‘ کو نئے سال کا تحفہ پیش کرنا ہوتا ہے،ایسا کرنے والوں کا ماننا ہے کہ نئے سال پر دیوی کو یاد رکھنے سے پورا سال مسائل اور مصیبتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

  • سمندر میں بلاؤں کی کہانیاں سچ نکلیں

    سمندر میں بلاؤں کی کہانیاں سچ نکلیں

    بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا کہ سمندر میں بلائیں رہتی ہیں‘ روس کے ایک مچھیرے نے اس قدیم کہانی کے ثبوت فراہم کردیے۔

    رومن فیڈورٹسو نامی اس مچھیرے کا تعلق روس سے ہے اور وہ گہرے پانیوںمیں مچھلیاں پکڑتا ہے ‘ اس مچھیرے نے شکار کے دوران سمندر میں پائی جانے والی ایسی ایسی مخلوقات کو دیکھا ہے جنہیں دیکھتے ہیں آپ کے اوسان خطا ہوجائیں گے۔

    انہوں نے اپنے ٹویٹر پر ’او ہ! میرے خدا یہ کیا ہے ‘کہ عنوان سے سمندر کی انتہائی حیرت انگیز اور خوفنا ک نظر آنے والی مخلوقات کی تصاویر شیئر کی ہیں۔

    ان کی شیئر کردہ تصاویر میں سے بعض ایسی بھی ہیں جو کہ جم ہینسن کی سمندری مخلوقات پر بنائی گئی مووی سے مشابہہ ہیں۔

    اس مچھیرے کا تعلق روس کے علاقے مرمنسک سے ہے جہاں کے سمندر میں دنیا کی عجیب ترین مخلوقات پائی جاتی ہیں۔

  • کراچی کے راشد نسیم نے ماتھے سے 43 ناریل توڑ کر ریکارڈ بنالیا

    کراچی کے راشد نسیم نے ماتھے سے 43 ناریل توڑ کر ریکارڈ بنالیا

    کراچی : مارشل آرٹ کے ماہر راشد نسیم نے ماتھے سے ناریل توڑنے کا عالمی ریکارڈ بنالیا۔ راشد نسیم نے ماتھے سے تینتالیس ناریل توڑ کر ریکارڈ بنایا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے رہائشی راشد نسیم نے سال کے آخری دن پاکستان کو ایک اور اعزازدلا دیا، مارشل آرٹ کے ماہر راشد نسیم نے اپنے ماتھے سے مسلسل تینتیالیس ہرے ناریل توڑنے کا نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔

    راشد نسیم نے اتنی مہارت اور تیزی سے ناریل توڑے کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے۔ اس سے قبل ماتھے سے پینتیس ہرے ناریل توڑنے کا ورلڈ ریکارڈ قائم ہے۔

    راشد نسیم اس سے قبل سترہ عالمی ریکارڈ بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔ ناریل توڑ کر نیا ریکارڈ بنانے کی ویڈیو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو بھیجی جائے گی۔

  • سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال کے آخری دن، آخری سیکنڈ میں کچھ حیرت انگیز ہونے والا ہے

    سال 2016 اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بہت جلد ہم اس سال اور اس کی یادوں کو الوداع کہہ کر نئے سال میں داخل ہوجائیں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سال کے اختتام سے چند لمحوں قبل ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بہت کم پیش آتا ہے؟

    آج یعنی 2016 کے آخری دن جب 11 بج کر 59 منٹ ہوں گے تو ہم نئے سال میں داخل نہیں ہوں گے، بلکہ اس کے لیے ہمیں مزید 1 سیکنڈ کا انتطار کرنا پڑے گا۔

    دراصل آج وقت کے دورانیے میں ایک سیکنڈ کا اضافہ ہوجائے گا اور جس وقت 12 بج کر 1 منٹ ہونا چاہیئے اس وقت 12 بجیں گے اور ایک سیکنڈ بعد ہم اگلے سال میں داخل ہوں گے۔

    وقت کی یہ رفتار برطانیہ، آئرلینڈ، آئس لینڈ اور کچھ افریقی ممالک میں اپنی چال بدلے گی جبکہ پاکستان سمیت دیگر کئی ممالک میں وقت وہی رہے گا اور اس میں کسی قسم کا کوئی اضافہ یا کمی نہیں ہوگی۔

    leap-3

    سائنسدانوں کے مطابق جس طرح فروری کی 29 ویں تاریخ کا سال لیپ کا سال کہلاتا ہے، اسی طرح اس اضافی سیکنڈ کو بھی لیپ سیکنڈ کہا جاتا ہے اور آج اس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک میں 2016 کا آخری منٹ 60 کے بجائے 61 سیکنڈ کا ہوگا۔

    سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لیپ سیکنڈ ہر ڈیڑھ سال کے وقفے کے بعد آتا ہے اور آخری لیپ سیکنڈ 30 جون 2015 میں دیکھا گیا تھا۔

    دوسری جانب پیرس آبزرویٹری کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق وقت میں اس اضافے کے بعد، خلا کے وقت کا درست تعین کرنے کے لیے بھی اس میں تبدیلی کرنی ہوگی۔

    سائنسی و خلائی تحقیقوں کے لیے سیکنڈ کا ہزارواں حصہ بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ زمین کے وقت کے ساتھ خلا کے وقت کو بھی درست کیا جائے۔

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کا دورانیہ ہمیشہ ایک سا نہیں ہوتا اور اس میں چند سیکنڈز کا اضافہ یا کمی ہوتی رہتی ہے۔

    leap-2

    ماہرین کے مطابق یہ فرق اس لیے رونما ہوتا ہے کیونکہ زمین کی گردش کا سبب بننے والے جغرافیائی عوامل اس قدر طویل عرصے تک اتنی درستگی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتے۔ کسی نہ کسی وجہ سے ان میں فرق آجاتا ہے جو نہایت معمولی ہوتا ہے۔

    رائل گرین وچ آبزرویٹری کے سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کی گردش میں جن وجوہات کے باعث تبدیلی آتی ہے ان میں چاند کے زمین پر اثرات، برفانی دور کے بعد آنے والی تبدیلیاں، زمین کی تہہ میں موجود دھاتوں کی حرکت اور ان کا زمین کی سطح سے ٹکراؤ، اور سطح سمندر میں اضافہ یا کمی شامل ہیں۔

    چند روز قبل ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں ماہرین کا کہنا تھا کہ زمین کی گردش کی رفتار کبھی آہستہ ہوتی ہے اور کبھی تیز، لیکن فی الحال مجموعی طور پر زمین کی گردش کی رفتار آہستہ ہوگئی ہے یعنی دن بڑے ہوگئے ہیں۔

  • بھکاریوں کی مدد کے لیے کریڈٹ کارڈ مشین متعارف

    بھکاریوں کی مدد کے لیے کریڈٹ کارڈ مشین متعارف

    ایمسٹرڈیم: ہالی لینڈ کی مقامی کمپنی نے بھکاریوں اور بے گھر افراد کی مدد کے لیے ایسی جیکٹ متعارف کروائی ہے، اس جیکٹ پر کریڈیٹ یا ڈیبٹ کارڈ لگاتے ہی مطلوبہ رقم بے گھر افراد کی فلاحی تنظیم کے بینک اکاؤنٹ میں خود بہ خود منتقل ہوجاتی ہے۔

    ترقی پذیر ممالک میں نقد رقم کے استعمال کا سلسلہ کم سے کم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث بے گھر اور بھکاری افراد کو خیرات میں ملنے والی رقم روز بہ روز کم ہوتی جارہی ہے، اسی مشکل کو دیکھتے ہوئے ہالینڈ کی کمپنی نے بھکاریوں کے لیے کریڈیٹ کارڈ جیکٹ متعارف کروائی ہے۔

    یہ جیکٹ ہالینڈ کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی نے بنائی ہے جسے’’ کانٹیکٹ لیس پے منٹ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، اس جیکٹ میں غریب افراد کا اسمارٹ کارڈ اور آگے ایک ایل سی ڈی بھی نصب کی گئی ہے۔

    پڑھیں: ’’ فوٹو گرافرز کے لیے کوڈک کا مخصوص فون متعارف ‘‘

    جیکٹ ڈیزائن کرنے والے ماہر کا کہنا ہے کہ ’’اس جیکٹ کا خیال اُس وقت ذہن میں آیا کہ جب اکثر لوگوں کو یہ کہتے سُنا کہ ہمارے پاس کھلے پیسے نہیں تاہم کریڈٹ کارڈ موجود ہے، ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جیکٹ کی تیاری شروع کی گئی جس میں کامیابی بھی ملی‘‘۔

    جیکٹ ڈیزائنر کے مطابق کسی اجنبی کے ہاتھوں میں جانے والا آپ کا ایک یورو بھی ایسے بینک اکاؤنٹ میں جاتا ہے جس کی رقم غریبوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کے بدلے اس غریب کو تازہ کھانا، لباس یا شیلٹر ہوم میں ایک رات گزارنے کی مہلت مل جاتی ہے جس کا عموماً کرایہ 5 یورو فی 24 گھنٹے ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ’’ نوکیا کا کم قیمت خصوصی موبائل متعارف ‘‘

    کوئی بھی شخص جب کسی بھکاری کی فریاد سُن کر مدد کے لیے اُس کے پاس پہنچے گا  تو اب اُسے کھلے پیسے یا نقد رقم نہ ہونے افسوس نہیں ہوگا کیونکہ وہ جیکٹ پر جیسے ہی اپنا کریڈٹ کا ڈیبٹ کارڈ لگائے گا مطلوبہ رقم فلاحی تنظیم کے اکاؤنٹ میں خود بہ خود منتقل ہوجائے گی۔

    جیکٹ پہننے والے کو رقم کے حصول کے لیے ایک بٹن دبانا ہوگا جس کے بعد عطیہ کی جانے والی یہ رقم اُس کی آئی ڈی کے ساتھ بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہوجائے گی جسے وہ بعد میں آسانی سے نکال سکے گا۔

  • تصویر میں چھپے جانور کو ڈھونڈیے

    تصویر میں چھپے جانور کو ڈھونڈیے

    فنون لطیفہ انسانی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے، فوٹو گرافی فنون لطیفہ کا اہم شعبہ ہے جس میں فوٹو گرافر ایک ہی منظر کو مختلف زاویوں سے ایسی منظر کشی کرتا ہے دل خود گواہی دیتا ہے کہ واقعی تصویریں بولتی ہیں۔

    ایسے ہی ایک فوٹو گرافر نے جنگلی حیات کے اپنے اردگرد کے ماحول سے مطابقت اور مشابہت کو کچھ ایسے پیرائے میں کیمرے میں محفوظ کیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، کس طرح جانور اپنے ماحول کو جانتے اور سمجھتے ہوئے خود کو اس میں کیموفلاج کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

     

     

    deer-post-1

    فوٹو گرافر جہاں ان تصاویر کے ذریعے جنگلی حیات کا اپنے ماحول سے مطابقت اور مشابہت کے مربوط تعلق کو واضح کررہے ہیں تو وہیں وہ ناطرین کو شش و پنج میں ڈالتے ہوئے ان کی ذہانت کا امتحان بھی لیتے ہیں۔

    معروف فوٹو گرافر نے جنگلات میں کھینچی ایسی تصاویر شائع کی ہیں جن میں جانور کہیں منظر میں موجود تو ہے لیکن آنکھ سے اوجھل رہتا ہے، فوٹو گرافر نے ان تصاویر کے ذریعے ثابت کیا کہ قدرت نے جانوروں کو اپنے ماحول سے اتنا ہم آہنگ رکھا ہے کہ وہ ماحول سے مشابہت کے باعث پہچانے بھی نہیں جاتے۔

    بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ دی گئی تصویر میں چُھپے ہوئے جانور کو تلاش کرنا ہے جس کے لیے آپ کے پاس محض 30 سیکنڈ کا وقت ہے۔

    اگر آپ جانور کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پوسٹ کے نیچے دیئے گئے کمنٹ کے خانے میں جواب لکھ دیجیئے اور اپنے دوستوں کو یہ پوسٹ شیئر کر کے دل چسپ جوابات پائیں اور ذہانت کا امتحان لیں۔

    ہمیں یقین ہے آپ کی ذہانت جانچنے کا یہ امتحان آپ کی بچپن کی یادیں تازہ کردے گا جب کسی اخبار یا میگزین میں پوچھے گئے ایسے سوالات کا جواب دینا آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔

    deer-final

    تصویر نمبر 1 میں ہرن چھاڑیوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے، جو بہ مشکل نظر آرہا ہے لیکن تصویر نمبر 2 میں جھاڑیوں کو چھپانے پر چھپا پوا ہرن نظر آجاتا ہے دونوں تصاویر کے تقابل سے آپ کو تصویر نمبر ایک میں چھپا ہوا نظر واضح نظر آجائے گا۔

  • بھارتی سیاست دان کا بی کام میں ’فزکس‘ پڑھنے کا دعویٰ

    بھارتی سیاست دان کا بی کام میں ’فزکس‘ پڑھنے کا دعویٰ

    نئی دہلی: بھارتی ریاست آندھرا پردیش کی حکمران جماعت کے ایم ایل اے نے بی کام کی تعلیم کے دوران فزکس اور میتھ پڑھنے کا حیرت انگیز دعویٰ کردیا۔

    بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی ویب سائٹ کے مطابق بھارت کی تیلگو ڈیشام پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم ایل اے جلیل خان نے یہ دعویٰ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران کیا۔

    ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو کامرس میں دلچسپی تھی یا آپ چارٹرڈ اکاونٹنٹ بننا چاہتے تھے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’ میں نے بی کام میں داخلہ اس لیے لیا کہ مجھے میتھ اور فزکس میں دلچسپی تھی‘‘۔

    اس موقع پر انٹرویو لینے والے شخص نے جو کہ خود بھی ایک بی کام گرایجویٹ تھا‘ اس نے سیاسی رہنما کی تصیح کرنے کی کوشش کی کہ میتھ اور فزکس بی کام میں نہیں پڑھائے جاتے تاہم جلیل خان انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ اپنے دعوے پر قائم رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ کس نے کہا کہ نہیں پڑھائے جاتے ‘ ممکن ہے تم بھول گئے ہو‘‘۔

    نہ صرف یہ بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ میتھ بچپن سے ان کے لیے ایک آسان مضمون رہا ہے اور انہوں نے کبھی بھی کیلکولیٹر کا استعمال نہیں کیا۔ اس کے باوجود ان کے سومیں سو نمبر آئے تھے۔

    ان کا یہ مضحکہ خیز انٹرویو فوراً ہی بھارتی عوام نے سوشل میڈیا پر وائرل کرنا شروع کردیا اور نہ صرف مذکورہ سیاسی رہنما بلکہ ان کی سیاسی جماعت اور پورے سیاسی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

    جلیل خان وجے وادا مغربی اسمبلی میں کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے تاہم بعد ازاں انہوں نے تیلگو ڈیشام پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

     

  • ہینڈز اپ! پیسے نہیں پیزا چاہیئے

    ہینڈز اپ! پیسے نہیں پیزا چاہیئے

    پیرس: پیسوں کی چوری کرنا تو پرانی بات ہوگئی۔ فرانس میں ایک انوکھا ڈاکو پیزا شاپ پر جا پہنچا جہاں اس نے ریوالور دکھاتے ہوئے پیزا کا مطالبہ کر ڈالا۔

    فرانس کے شہر لیون میں ڈکیتی کی یہ انوکھی واردات ہوئی جہاں نشے میں دھت ایک مسلح شخص مشہور بین الاقوامی پیزا ہاؤس میں گھس گیا۔

    pizza-3

    مسلح شخص نے بندوق کی زور پر عملے کو یرغمال بنا کر تازہ پیزا بنانے کی فرمائش کر ڈالی۔

    واردات کے بعد ملزم کے بھاگنے کا انداز بھی انوکھا تھا جب اس نے سائیکل پر بھاگنے کی کوشش کی، جس کو پولیس نے با آسانی ناکام بنا دیا۔

    مزید پڑھیں: پیزا میں کم پنیر کیوں؟ خاتون نے پولیس کو کال کردی

    گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ پیزا کے شوقین اس ڈاکو کی پستول بھی جعلی ہے۔

  • فیس بک پر بیٹی کی سالگرہ کا دعوت نامہ مہنگا پڑ گیا

    فیس بک پر بیٹی کی سالگرہ کا دعوت نامہ مہنگا پڑ گیا

    میکسیکو: بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر ایک شخص نے فیس بک پر دعوت عام پوسٹ کی تو یہ بہت تیزی سے وائرل ہوئی اور سالگرہ کی تقریب میں ہزاروں لوگ پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق میکسیکو سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کی سالگرہ پر اُس کے والد نے رسماً دعوت نامہ فیس بک پرپوسٹ کیا تواسے لاکھوں لوگوں نے تسلیم کیا اور ساتھ ہی ساتھ ہزاروں لوگ غیر متوقع طور پر تقریب میں پہنچ گئے۔

    مہمانوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے سیکیورٹی کے لیے پولیس طلب کی گئی تو میڈیا نمائندے بھی خبر کی کھوج میں اُس مقام پر پہنچ گئے، جس کے بعد 15 برس کی عام لڑکی اسٹار بن گئی۔

    birth-day-2

    میکسیکن شخص نے سالگرہ کے لیے جو انتظامات کیے تھے وہ چند سو افراد کے لیے تھے تاہم عوام کی اتنی بڑی تعداد کے پہنچنے کے بعد اُس نے تقریب کو کھلے میدان میں منعقد کیا، بعد ازاں یہ تقریب میلے کا منظر پیش کرنے لگی۔

    birth-day-1

    لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ ’’فیس بک کے توسط سے دوستوں اور ہمسایوں کو دعوت دی تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر اُن کے دعوت نامے کی ویڈیو وائر ہوئی اور دور دراز سے ہزاروں لوگ سالگرہ میں شرکت کے لیے پہنچ گئے‘‘۔

    birth-day-3

    انہوں نے کہا کہ ’’مہمانوں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر حیرت اور پریشانی ہوئی تاہم جب بیٹی کو ایک اسٹار کے روپ میں دیکھا اور میڈیا نے اس کو توجہ دی تو یہ پریشانی خوشی میں تبدیل ہوگئی، تاہم یہ تجربہ بہت تلخ مگر اچھا رہا‘‘۔