Category: حیرت انگیز

VIRAL STORIES FROM AROUND THE WORLD IN URDU BY ARY News Urdu وائرل حیرت انگیز خبریں اور معلومات

  • کراچی: مبارک ولیج کے گہرے پانیوں میں نیلی وہیل دیکھی گئی

    کراچی: مبارک ولیج کے گہرے پانیوں میں نیلی وہیل دیکھی گئی

    کراچی: شہرقائد سے ملحقہ ساحلی علاقےمبارک ولیج کے پانیوں میں نیلی وہیل دیکھی گئی ہے، نایاب نسل کی اس وہیل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مبارک ویلیج کے رہائشی مچھیروں نے فشنگ کے دوران گہرے پانیوں میں نیلی وہیل دیکھی اوراس کے ساتھ چھیڑچھاڑ بھی کی، تاہم مچھیروں نے اسے نقصان نہیں پینچایا۔

    واضح رہے کہ آخری مرتبہ بحیرہ عرب میں نیلی وہیل کراچی کے ساحلوں میں سال 2014 میں دکھائی دی تھی۔

    بیسوی صدی تک نیلی وہیل دنیا کے تمام بڑے سمندروں میں پائی جاتی تھی تاہم بے دریغ شکار کے سبب اس کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

    کراچی : مبارک ویلج کے قریب سمندر میں نایاب بلیووہیل منظرعام پرکراچی : مبارک ویلج کے قریب سمندر میں نایاب بلیووہیل منظرعام پر Posted by ARY News on Tuesday, March 15, 2016

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت صرف دس ہزار کے قریب نیلی وہیل موجود ہیں اوران کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    نیلی حوت یا نیلی وہیل دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ یہ ایک دودھ پلانے والا آبی جانورہے جس کا وزن 190 ٹن اور لمبائی 33 میٹر تک ہو سکتی ہے۔

    کرہ ارض پر موجودہ جانداروں میں یہ سب سے بڑی جسامت کا حامل اور اب تک کے تمام جانداروں میں سب سے زیادہ وزن رکھنے والا جانور تصور کیا جاتا ہے۔

    نیلی وھیل گہرے سمندروں میں رہتی ہے اوراس کا رنگ سرمئی مائل نیلا ہوتا ہے۔

  • بحراوقیانوس میں بھوتیہ آکٹوپس دریافت

    بحراوقیانوس میں بھوتیہ آکٹوپس دریافت

    نیویارک: زیرسمندر تحقیق کرنے والے کرافٹ نے بحراوقیانوس میں آکٹوپس کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے جو کہ کسی فلمی آسیب کی طرح دکھائی دیتا ہے۔

    امریکی سائنسدانوں کے مطابق یہ دریافت گزشتہ ہفتے بحراوقیانوس میں ہوائی کے ساحک کے قریب 4 کلومیٹر کی گہرائی میں ہوئی ہے۔

    ٹویٹرصارفین نے اس مخلوق کو ’’ کیسپر دی فرینڈؒی گھوسٹ’’ )Casper the Friendly Ghost) کا نام اس کی مخصوص ہیت کے سبب دیا ہے۔

    نیشنل اوشینک اینڈ ایٹماس فئیر ایڈمنسٹریشن کے مطابق گزشتہ ہفتے بحراوقیانوس میں سال 2016 میں اترنے والے پہلے مشن نے کی ہے۔

     

  • ہرچارسال بعد لیپ ایئرکیوں آتا ہے؟

    ہرچارسال بعد لیپ ایئرکیوں آتا ہے؟

    سال 2016 لیپ کا سال ہے اورلیپ کا سال ہرچارسال بعد آتا ہے جس کے سبب فروری کے مہینے میں 28 کے بجائے 29 دن ہوجاتے ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ صدیوں سے انسان اس معمے کو حل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ قدیم مصریوں نے یہ معلوم کرلیا تھا کہ زمین سورج کے گرد 365 دن میں چکرمکمل نہیں کرتی بلکہ اس سے کچھ زیادہ وقت لگاتی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہزارسال انسان اس کوشش میں رہا کہ کس طرح موسموں کے اوقات میں ایک مطابقت رہے اورکھیتی باڑی اوردیگرکام ایک نظام کے تحت ہوسکیں۔

    زمین کا سورج کے گرد گردش کا دورانیہ 365 دنوں کا نہیں ہے بلکہ چوتھائی دن زیادہ ہے یعنی کہ 365 دن، پانچ گھنٹے، 49 منٹ اور12 سیکنڈ اور چونکہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اس لیے موسموں کی تبدیلی کا انحصار بھی زمین اور سورج کے اس گردش کے رشتے پر ہوتا ہے۔ اس لیے اگرہرسال 365 دن رکھیں تو ہرسالچوتھائی دن کا فرق پڑنے لگتا ہے اورکیلنڈرموسموں سے دورہونا شروع ہوجاتا ہے۔

    یہی وجہ تھی تقریباً 45 قبل مسیح میں روم کے بادشاہ جولیس سیزرنے کلینڈروں کی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جس نے فیصلہ کیا کہ ہرچارسال میں سے ایک سال 366 دنوں کا کیا جائے۔ اسی لیے جولیس سیزر کے دور میں 46 قبلِ مسیح میں 90 دن کا اضافہ کیا گیا تاکہ زرعی موسموں کا بہتر انتظام ہوسکے۔ یہ وہ سال تھا جب سال 445دنوں کا گیا۔ جولیس سیزر نے اسے ’لاسٹ ایئرآف کنفیوژن‘ (انتشار کا آخری سال) کہا، لیکن عام لوگوں کے لیے یہ بھی انتشار کا سال ہی تھا۔ اس میں فصل بونے کے وقت کا تو تعین ہوگیا لیکن جہاز رانی کے نظام الاوقات سے لے کرلوگوں کے درمیان قانونی معاہدوں تک باقی سب کچھ گڑبڑہوا۔

    جولیس سیزر کی موت کے بعد ہر چارسال کے بعد ایک دن کا اضافہ کرنے کی بجائے یہ اضافہ ہرتین سال کے بعد کیا جانے لگا۔ اس طرح ایک مرتبہ پھر رومن کیلنڈر موسموں سے آگے بھاگنے لگا۔

    یہ مسئلہ جولیس سیزر کے بعد آنے والے اصلاح پسند بادشاہ آگسٹس سیزرنے 8 قبلِ مسیح میں حل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے لیپ کے تین سالوں کو سکپ کیا یا یوں کہیے کہ ان پرسے چھلانگ لگا کر ان کو پیچھے چھوڑا اور اس طرح یہ سلسلہ 16 ویں صدی تک چلتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ کلینڈر کے مہینوں میں آج تک جولیس سیزراور آگسٹس کو بالترتیب جولائی اوراگست کی صورت میں یاد رکھا جاتا ہے۔

    لیپ کا سال بنانے کے اور بھی فوائد ہیں مثلاً اب ہمیں پتا ہے کہ سال کا لمبا دن ہمیشہ 21 جون کو ہو گا، سب سے چھوٹا دن 21 دسمبر کو ہو گا، اور برابر کے دو دن 21 مارچ اور 21 ستمبر کو ہی ہوں گے۔ لیپ کے سال کی وجہ سے سورج اور زمین کی ہیرا پھیری کو ایک ترتیب مل جاتی ہے اورانتشار نہیں پھیلتا۔ اگرلیپ کے سال میں تبدیلی نہ کی جاتی تو ہر400 سال میں واضح فرق سامنے آتا چلا جاتا۔ اب انسانوں میں ہو نہ ہو کھیتی باڑی اور فصلیں اگانے کے لیے موسموں کے اوقات میں ضرور مطابقت پیدا ہو گئی ہے اور ہزاروں سال تک اس میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔

  • پاکستانی انجینئر نے کششِ ثقل کے نظریے کوغلط قراردے دیا: اشتہار

    پاکستانی انجینئر نے کششِ ثقل کے نظریے کوغلط قراردے دیا: اشتہار

    لاہور: مقامی اخبار میں چھپنےوالے اخبارمیں شائع ہونے والے ایک اشتہارمیں خود کو انجینئر ظاہر کرنے والے شخص کا دعویٰ ہے کہ نیوٹن کا کشش ثقل کا قانون اورآئن اسٹائن کی ثقلی لہروں کی تھیوری پرہونے والی تمام ترتحقیق غلط ہے۔

    اردو اخبار روزنامہ خبریں میں 18 فروری کو شائع ہونے والے اشتہارمیں لاہورکے رہائشی فرید اخترنامی انجینئر نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’ثقلی لہروں پر ہونے والی حالیہ تحقیق غلط ہے اور کشش ثقل نامی کسی شے کا وجود نہیں جسے وہ ایک لیکچرکے ذریے ثابت کرسکتے ہیں‘‘۔

    فرید نامی اس انجینئرنے نہ صرف یہ کہ دعویٰ کیا ہے بلکہ اپنے دوٹیلی فون نمبراورایک ای میل ایڈریس بھی دیا ہے جس کے ذریعے لوگ ان سے رابطہ کرکے کششِ ثقل کے بارے میں جان سکتے ہیں۔

    سائنسسدانوں نے فزکس اورفلکیا ت کے میدان میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کرتے ہوئے خلامیں کشش ثقل کی لہروں کے اخراج کی نشاندہی کرلی ہے، واضح رہے کہ آئن اسٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریے میں ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں انکشاف کیا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق خلا میں کشش ثقل کی لہروں کی تلاش کے لیے جاری عالمی کوششوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کشش ثقل کو مکمل طور پرسمجھنے کے سلسلے میں ایک چونکا دینے والی دریافت کی ہے۔

    ان کے مطابق انہوں نے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پرواقع دو بلیک ہولز کے تصادم کی وجہ سے اسپیس ٹائم میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کشش ثقل کی ان لہروں کی پہلی مرتبہ نشاندہی سے علم فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔

    واضح رہے کہ ایک صدی قبل مشہورسائنسدان البرٹ آئن اسٹائن نے ان لہروں کی موجودگی کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی، تاہم کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تلاش کے باوجود ایسی لہروں کی نشاندہی نہیں ہوسکی تھی۔

  • ڈیرہ اسمٰعیل خان کا کشتیوں سے بنا انوکھا پل

    ڈیرہ اسمٰعیل خان کا کشتیوں سے بنا انوکھا پل

    ڈیرہ اسمٰعیل خان: خیبرپختونخواہ کے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان اوردریا خان کو ملانے کے لئے کشتیوں کا حیرت انگیز پل استعمال ہوا کرتا تھا۔

    سن 1980 میں حکومت نے اس مقام پر پکا پل بنادیا تھا اس سے قبل جب دریائے سندھ کا پاٹ کم ہو جاتا تھا تو ملاح کشتیوں کو ملا کے ایک قطارمیں کھڑا کردیتے تھے اورتختے جڑکر پل کا فرش بناتے تھے۔

    تختے لگانے کے بعد اس پر مخصوص گھاس کی موٹی تہہ بچھا دی جاتی تھی اور مونج کی مضبوط رسیوں سے باندھ کے اس پرسارا دن پانی ڈالا جاتا تھا۔

    کشتیوں کے بنے اس کے اوپر سے موٹرسائیکل اورکارکیا ہیوی ٹریفک بھی گزرجاتی تھی ،اس سے پل ہلتا تھا لیکن نہ تختہ کوئی ٹوٹ کے الگ ہوتا تھا اورنہ کوئی اپنی جگہ کشتی جگہ چھوڑتی تھی۔

    download

    ماہرڈرائیورہچکولے کھاتی مسافروں سے بھری بس کو بھی آہستہ اہستہ چلاتے پل پرسے گزارکے دریا پارپہنچا دیتے تھے۔

    دریا میں طغیانی سے پہلے جب پل توڑدیا جاتا تھا تو دونوں کناروں کا رابطہ بھی ٹوٹ جاتا تھا اورمسافربعض اوقات چالیس پچاس میل دورجاکے کسی پکے پل پرسے دریا عبورکرتے تھے اورپھر اتنا ہی فاصلہ طے کرکے سامنے نظر آنے والے کنارے تک پہنچتے تھے۔

    حکومت کی جانب سے پکے پل کی تعمیرکے بعد عارضی طور پرقائم ہونے والا یہ پل اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔

  • پشاورمیں چوہوں کی بھرمار، پانچ شہری کاٹنے سے ہلاک

    پشاورمیں چوہوں کی بھرمار، پانچ شہری کاٹنے سے ہلاک

    پشاور: خیبرپختونخواہ کے صوبائی دارالحکومت میں شہریوں کا جینا چوہوں نے دو بھرکردیا، چوہوں کے کاٹنے سے ننھا عذیرجاں بحق ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور کے علاقے حسن گڑہی میں چوہوں کے انسانوں کو کاٹنے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اوراب تک پانچ افراد چوہوں کے ہاتھوں موت کاشکاربن چکے ہیں۔

    پشاورمیں چوہے کے کاٹنے کے سبب ننھے عزیر کی موت نے گھر میں کہرام بپا کردیا ہے اور ماں سمیت ہرآنکھ اس سانحے پر اشکبارہے۔

    گزشتہ سال گل زادہ نامی شہری کے ڈیڑھ سالہ بھانجے کی موت بھی چوہے کے کاٹنے کے سبب ہوئی تھی۔

    پشاورمیں نصیر نامی ایک شخص نے اپنی ایک عزیزہ کی چوہے کے کاٹنے کے سبب موت کے بعد اس نے چوہا مار مہم شروع کررکھی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک ایک لاکھ سے زائد چوہے مارچکاہے۔

    نصیر کے مطابق ’پشاورمیں پائے جانے والے زیادہ ترچوہوں کی لمبائی بائیس سے تیس سینٹی میٹرہے اوریہ گلیوں، بازاروں، دکانوں اورگھروں میں پائے جاتے ہیں‘۔

    نصیر کا کہنا ہے کہ ’پشاورمیں پہلے چوہوں کی تعداد اتنی نہیں تھی لیکن حالیہ برسوں میں سیلاب کے سبب ان کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے‘۔

    اے آروائی نیوزنے اس معاملے پربلدیہ عظمیٰ پشاور کا موقف لینے کی کوشش کی تاہم بلدیہ نے کسی بھی قسم کی گفتگو سے انکار کردیا

    ماہرین طب کے مطابق چوہے طاعون جیسے موذی مرض کا سبب بنتے ہے جبکہ مرغیوں اوردیگر پرندوں کو ہلاک کرنے کے ساتھ رہائشی علاقوں میں دیگربیماریاں پھیلانے کا ایک بڑا ذریعہ چوہے ہیں۔

  • ایبٹ آباد میں 200 سال قدیم درخت برفباری کی نذرہوگیا

    ایبٹ آباد میں 200 سال قدیم درخت برفباری کی نذرہوگیا

    ایبٹ آباد: کنٹونمنٹ پبلک پارک میں دوسو سالہ دیودارکا درخت حالیہ برفباری کی نذرہوگیا، درخت ٹوٹنےسےجہاں دو سوسالہ تاریخ کاباب ختم ہوا وہیں اہلیان ایبٹ آباد کو بھی اداس کرگیا۔

    حالیہ برف باری نے جہاں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی وہیں1815میں لگایا جانے والادیو دار کا درخت اپنی زندگی کی201 بہاریں گزارنے کے بعد بھاری برف کا بوجھ اپنے اوپرپرنہ سہارسکا، وزن سے درخت کاتنا اور شاخیں ٹکڑوں میں تقسیم ہوکرزمین پر آ گرے۔

    واضح رہےکہ پارک کی خوبصورتی کو چارچاند لگانے والے کچھ درخت پہلے ہی کنٹونمنٹ انتظامیہ کی ملی بھگت سے ختم کئے گئے تھےاورجو رہی سہی کسرتھی وہ برف باری نے پوری کردی۔

    اس شہر کے پہلے ڈپٹی کمشنر مسٹرجیمزایبٹ جن کے نام سے ایبٹ آباد شہرکا نام منسوب کیا گیا انہی کی تاریخی نظم بھی اس درخت کے نیچے لگائے کے کتبے کے اوپرآویزاں تاریخ کی یاد دلاتی ہے۔

    دوسوایک سالہ تاریخی درخت کو پہنچنے والے نقصان نے شہریوں کو آفسردہ کر دیا۔

  • خلا کا سفر کرنے والی پہلی مسلم خاتون

    خلا کا سفر کرنے والی پہلی مسلم خاتون

    کون کہتا ہے کہ مسلم خواتین پابندیوں کا شکارہیں اوردنیا کی ترقی میں مردوں سے پیچھے ہیں آج ہم آپ کو ملواتے ہیں ایک ایسی مسلمان خاتون سے جو نا صرف خلا نورد ہیں بلکہ وہاں سے بلاگنگ کرنے والی پہلی بلاگربھی ہیں۔

    انوشے انصاری 1966 میں ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئیں اور 1984 میں ان کا خاندان امریکہ منتقل ہوگیا، انہوں نے جارج میسن یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ اورکمپیوٹرسائنس میں بیچلرزکی ڈگری بھی حاصل کی۔

    انوشے انصاری نے خلا کا سفر بحیثیت سیاح کیا اورعالمی خلائی مرکزمیں آٹھ دن گزارے جہاں انہوں نے یورپی خلائی ایجنسی کی ایما پر کچھ تجربات میں بھی حصہ لیا۔


    دنیا کی پہلی مسلم خاتون پائلٹ – حجاب امتیازعلی


    واضح رہے کہ انوشے سے قبل محض تین خواتین کو خلائی سفرکرنےکا اعزازحاصل ہوا ہے۔

    انوشے انصاری نے اس دوران بلاگنگ بھی کی اورخلا سے بلاگنگ کرنے والی پہلی شخصیت کا اعزازحاصل کرلیا۔

    اپنے بلاگز میں انہوں نے خلائی سفر، عالمی اسپیس سنٹر میں وقت گزارنا اورزیرو گریوٹی میں جینے کا ہنر سیکھنے سے متعلق اپنے تجربات شیئر کیے۔

    انوشے انصاری نے یہ خلائی سفر ستمبر 2006 میں کیا تھا اوراس زمانے میں ان کی خبریں دنیا بھر کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی زینت بنی تھیں۔

  • پاکستان کے ساحلوں میں نایاب سورڈ فش پکڑی گئی

    پاکستان کے ساحلوں میں نایاب سورڈ فش پکڑی گئی

    کراچی: پاکستان کے ساحلوں میں ایک مچھیرے نے حیرت انگیزطور پرایک سورڈ فش (گھروراسپند) پکڑلی۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے لسبیلہ ڈسٹرکٹ میں رہنے والے ایک مچھیرے مولا بخش نے دوروزقبل ڈمب اور بیرا کے درمیانی ساحلی علاقے سے سات فٹ طویل سورڈ فش پکڑی جو کہ اس علاقے میں اس قبل کبھی نہیں پائی گئی۔

    مچھلی کا وزن 56 کلوگرام تھا اور مولا بخش نے اسے کراچی کی فش مارکیٹ میں 8،800 رپے کے عوض فروخت کردیا۔

    ورلڈ وائلڈ فنڈ کے مطابق سورڈ فش اس خطے کی مچھلی نہیں ہے اورعموماً گہرے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔

    واضح رہے کہ اس مچھلی کی دیگرآٹھ اقسام بھی موجود ہیں اورانہیں مقامی زبان میں گھروراسپند کہا جاتا ہے۔

    چیئرمین میرین پیس عزیزآغا کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مچھیرے اس مچھلی پکڑنے کے خواب دیکھتے ہیں تاہم آج تک کبھی کسی نے اسے پکڑنے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔

  • جدید دنیا کی اہم ایجادات مسلم سائنسدانوں نے کریں

    جدید دنیا کی اہم ایجادات مسلم سائنسدانوں نے کریں

    ہر دور میں انسان اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کی خاطرکائنات کی مختلف اشیاء کے مابین ربط پیدا کرکے کچھ نہ کچھ اختراع و ایجاد کرتا رہتا ہے لیکن اگرہم اسلام کے عہدِ زریں خلافت راشدہ سے لے کرمسلمانوں کے عروج کے روبہ زوال ہونے تک کے ادوار پر نظر ڈالیں تو یہ بات طشت ازبام ہو جا ئے گی کہ اگردنیا خصوصاً مغربی دنیا تعصب و تنگ نظری کا عینک اتار کرحقیقت پسندی و حق شناسی کے عینک سے دیکھے تو محو حیرت رہ جائے گی

    اسلامی محققین اور مفکرین نے ایسی اشیا کی اجیاد کی یا بنیاد ڈالی جن کے بغیر آج کی جدید دنیا کا تصور بھی محال ہے تو اگر مسلم سائنس دانوں کو آج کے جدید دور کا بانی اور موجد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہاں ہم چند انتہائی اہم ایجادات کا تذکرہ کرہے ہیں جنہوں نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔

    الجبرا


    محمد ابن موسیٰ الخوارزمی وہ پہلے سائنسدان ہیں جنہوں نے حساب اور الجبرا میں فرق کیا اور الجبرا کوباقاعدہ ریاضی کی صنف کو طورپرروشناس کرایا۔

    یورپ پہلی بار حساب کے اس نئے سسٹم سے بارھویں صدی میں روشناس ہوا جب برطانوی محقق رابرٹ آف چسٹر نےالخوارزمی کی شہرہ آفاق تصنیف ’’کتاب الجبر والمقابلہ‘‘ کا ترجمہ کیا۔

    الخوارزمی کو متفقہ طورپردنیا بھرمیں الجبرا کا بانی سمجھا جاتا ہے اورلفظ الگوریتھم بھی ان کے نام سے کشید کیا گیا ہے۔

    کیمرہ اوربصریات


    علم بصریات پردنیا کی سب سے پہلی اورشاہکارتصنیف کتاب المناظرابن الہیثم نے لکھی تھی۔ کروی اورسلجمی آئینوں پرتحقیق بھی ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ انہوں نے لینس کی میگنی فائنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی۔ انہوں نے اپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے بنائے۔ حدبی عدسوں پران کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں ما ئیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشےپر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجادکیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے۔

    ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا ، کیٹاریکٹ ، کورنیا جو ابھی تک مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصے پتلی کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے۔ لاطینی میں مسور کو لینٹل کہتے جو بعد میں لینس بن گیا۔

    دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ یعنی پن ہول کیمرہ بھی ابن الییثم کی ہی قابل فخر ایجاد ہے جس سے تصویری صنعت کا آغازہوا۔

    کافی


    خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روزبکریاں چرارہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جانور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہوگئے تھے۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کردنیا کی پہلی کافی تیارکی۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکرکرنے اور عبادت کر نے کے لئے اس کو پیتے تھے۔ پندرھویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ 1645ء میں وینس (اٹلی) پہنچی ۔ 1650ء میں یہ انگلینڈ لائی گئی۔ لانے والا ایک ترک ’’پاسکوا روزی‘‘ تھا جس نے لندن سٹریٹ پرسب سے پہلی کافی شاپ کھولی۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا ۔

    ڈپلوما


    طبیبوں کی رجسٹریشن کا کام سنان ابن ثابت نے 943ء میں بغداد میں شروع کیا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ ملک کے تمام اطباء کی گنتی کی جائے اورپھر امتحان لیا جائے۔ کامیاب ہونے والے 800 طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کرلیا اور پریکٹس کے لئے سرکاری سرٹیفکیٹ جاری کئے۔ مطب چلانے کے لئے لا ئسنس جاری کر نے کا نظام بھی اس نے شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما دینے اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے ۔

    گھڑی


    یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھی ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک )تحفہ میں بھیجی تھی ۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی 1185ء) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا ۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی۔

    اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا ۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی ۔ جرمنی میں گھڑیاں1525ء اور برطانیہ میں 1580ء میں بننا شروع ہوئی تھیں۔

    جنگی ساز


    سلطنتِ عثمانیہ میں مہتران یا مہترخانہ کے نام سے منسوم دفتر جنگی کے دوران جنگی ساز بجایا کرتا تھا۔ محققین کے مطابق سلطنتِ عثمانیہ وہ پہلی حکومت تھی جو کہ جنگوں کے دوران فوجی ساز کا مسلسل استعمال کرتی تھی تاآنکہ جنگ ختم نہیں ہوجائے۔

    یورپ نے عثمانیوں سے جنگ کے دوران جب سازوں کو نفسیاتی اعتبار سے انتہائی کارآمد دیکھا تو انہوں نے بھی اسے اپنالیا۔

    ہوابازی


    امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک آسٹرونامر، میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مؤرخ کے مطابق 852ء میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلا ئیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا ۔875ء میں اس نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پروازکی کوشش کی۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیارکی تھی وہ لگ بھگ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگراترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی۔

    اسپتال


    دنیا کا پہلا اسپتال قاہرہ میں احمد ابن طولون کے دورِحکومت میں 872ء میں قائم کیا گیا جہاں مریضوں کو مفت طبی امداد دی جاتی تھی۔ اسپتال میں مریضوں کی تیمار داری کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ نرسیں اورتربیت کا شعبہ بھی تھا بعد ازاں اسی اسپتال کی طرزپربغداد اور پھردنیا بھرمیں اسپتال قائم کئے گئے۔

    طب


    دنیا کا سب سے عظیم حکیم اورریاضی دان بو علی الحسین ابن عبداللہ السینا تھے جنہوں نے طب کی دنیا میں انتہائی اہم ترین دریافتیں کی، طبکے موضوع پر لکھی گئی ان کی کتاب القانون صدیوں تک یورپ میں پڑھائی جاتی رہی جبکہ ادویات کے لئے ان کی تصنیف ’’الادویہ‘‘ کوطب کی دنیا میں انجیل کا سا مقام حاصل ہے۔

    علم طبیعات میں ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا ۔ وہ پہلا طبیعات داں تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتارلا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتارہے ۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا ۔اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی، اناٹومی، اور تھیوری آف ویژن بیان کی ۔
    اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔اس نے بتلایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، پہاڑ کیسے بنتے ہیں ، سمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں۔

    مسلمانوں نے سائنسی میدان میں ایک ہزار سالہ انقلابی دور گزارا ہے۔ مگرافسوس پندرہویں صدی عیسوی میں اندلس سے عیسائیوں کے ذریعہ مسلمانوں کا نکالا جانا، وسط ایشیا میں تاتاریوں کے مسلسل کامیاب حملے ، ہلاکو کے ذریعہ بغداد کی تباہی ، قاہرہ کی الازھر یونیور سٹی کی لائبریریوں کا نذر آتش کرنا، مسلکی اختلافات کا پروان چڑھنا یہ وا اسباب تھے جن کی وجہ سے مسلمان زوال کا شکار ہو گئے اور ان کی سیاسی، علمی، سائنسی قوتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔ ایڈورڈایٹیا نے مسلمانوں کے اس زوال کو طویل نیند سے تعبیر کیا ہے۔