Category: حیرت انگیز

VIRAL STORIES FROM AROUND THE WORLD IN URDU BY ARY News Urdu وائرل حیرت انگیز خبریں اور معلومات

  • آدمی اور شیر کا آمنا سامنا، دونوں ڈر کر بھاگ نکلے، ویڈیو وائرل

    آدمی اور شیر کا آمنا سامنا، دونوں ڈر کر بھاگ نکلے، ویڈیو وائرل

    بھارت میں آدمی اور شیر ایک دوسرے سے ڈر کر بھاگ نکلے جس کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔

    بھارت میں مزدور سیمنٹ فیکٹری سے باہر نکلا اسی دوران دوسری طرف سے شیر بھی ٹہلتا ہوا آیا، شیر اور مزدور ایک دوسرے کو دیکھ کر رکے اور پھر بھاگ نکلے۔

    واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آدمی شیر کو دیکھ کر  فوراً فیکٹری کے اندر  دوڑا جبکہ شیر بھی چونک کر قریبی جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔

    حکام کے مطابق واقعے میں کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔

    یہ پڑھیں: خونخوار شیر نے خاتون کا بازو چبا کر الگ کردیا

    دلچسپ ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے بھی تبصرے کیے جارہے ہیں، ایک صارف نے لکھا کہ ’آدمی بھاگنے کے لیے پہلے ہی تیار تھا۔‘

    دوسرے صارف نے کہا کہ ’آپ شیر کو ڈرانے پر بہادری کے ایوارڈ کے مستحق ہو۔‘

  • میری سیلسٹ : بحری جہاز کا پورا عملہ پراسرار طور پر غائب، ناقابل یقین کہانی

    میری سیلسٹ : بحری جہاز کا پورا عملہ پراسرار طور پر غائب، ناقابل یقین کہانی

    بحری جہاز ’میری سیلسٹ‘ سمندر کی لہروں پر بہتی ایسی پراسرار کہانی ہے، جو ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی حل طلب ہے۔

    اس بحری جہاز کے ساتھ ایسا کیا حادثہ پیش آیا تھا کہ یہ لاوارث حالت میں ملا اور 10 افراد پر مشتمل اس کا عملہ پراسرار طور پر غائب تھا۔

    اس کہانی کا آغاز 7 نومبر 1872 کو ہوا جب ’میری سیلسٹ‘ نامی بحری جہاز امریکی شہر نیو یارک سے اٹلی کی جانب سفر کے لیے روانہ ہوا، اس جہاز میں صرف 10 لوگ سوار تھے، جس میں جہاز کے کپتان بینجمن بریگز اس کی بیوی اور بیٹی کے علاوہ عملہ کے 7 ارکان شامل تھے۔ اس پر موجود 10 افراد کا انجام آج تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔

    پائلٹ کی آخری کال، پراسرار آوازیں اور پھر ہمیشہ کے لیے غائب

    رپورٹ کے مطابق 5دسمبر 1872 کو ایک برطانوی جہاز ’دی گراتیا‘ جو پرتگال کے ایک جزیرے کے قریب سفر کر رہا تھا کے عملے نے گہرے سمندر میں ایک لاوارث جہاز کو دیکھا، جو تقریباً ساحل سے 400میل دور پانیوں میں ڈول رہا تھا۔

    جہاز کے کپتان ڈیوڈ مور نے اسے قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ میری سیلسٹ ہے وہی جہاز جو نیویارک سے کچھ روز قبل روانہ ہوا تھا اور اسے اب تک اٹلی پہنچ جانا چاہیے تھا۔

    برطانوی جہاز کے عملے نے میری سیلسٹ پر قدم رکھا تو عجیب و غریب قسم کے انکشافات ہوئے کہ جہاز کے کیبن میں مختلف نقشے بکھرے ہوئے تھے، ملاحوں کا سامان اپنی جگہ صحیح سلامت موجود تھا لیکن جہاز کی واحد لائف بوٹ غائب تھی۔ یعنی عملے نے شاید اپنی جان بچانے کے لیے اس لائف بوٹ کا استعمال کیا ہوگا، لیکن انہوں نے ایسا کیوں کیا؟

    جہاز کے دو پمپوں میں سے ایک کھلا ہوا تھا اور نچلے حصے میں ساڑھے تین فٹ پانی جمع تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ 1 ہزار 701 بیرل صنعتی الکحل بھی تقریباً صحیح سلامت تھا یہاں تک کہ کھانے پینے کا 6 ماہ کا ذخیرہ بھی موجود تھا مگر اسے استعمال کرنے والا ایک بھی شخص موجود نہیں تھا۔

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عملے کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ پورا عملہ ہی جہاز چھوڑ کر کہیں چلا گیا، یہ بات مزید پراسراریت کو جنم دیتی ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے بھی جہاز پر حملہ نہیں کیا تھا تو وہ 10 لوگ لائف بوٹس لے کر اچانک کہاں غائب ہوگئے حالانکہ اُس جگہ سمندری طوفان آنے کے امکانات بھی نہیں تھے۔

    اگر اس جہاز ’میری سیلسٹ‘ کی ماضی کی بات کی جائے تو یہ اوّل دن سے ہی پراسرار قسم کے معاملات کا شکار رہا، 18 مئی 1861 کو متعارف کیے جانے بعد اسے کئی حادثات پیش آئے۔

    اس کے پہلے سفر میں ہی اس کا کپتان نمونیا کا شکار ہو کر چل بسا تھا اور سب سے بڑا حادثہ اکتوبر 1867 میں ہوا جب یہ کیپ بریٹن آئی لینڈ کی ریت میں پھنس گیا تھا۔

    یہ بحری جہاز ایک اور جہاز سے ایک بار ٹکرا بھی چکا تھا اس طرح کے کئی افسوس ناک واقعات اس بحری جہاز کے ساتھ ہو چکے تھے۔

    بعد ازاں اسے ایک امریکی شخص رچرڈ ڈبلیو ہینس نے خرید لیا اور اس کا نام "میری سیلسٹ” رکھ دیا اور اگلے چند سالوں میں اس میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں اور بالآخر یہ کیپٹن بینجمن سپونر بریگز سمیت ایک گروپ کو فروخت کر دیا گیا تھا۔

    برطانوی بحری جہاز ’دی گراتیا‘ کے عملے نے اسے 800 میل دور جبرالٹر پہنچادیا، جہاں برطانوی حکام نے تحقیقات کیں لیکن انہیں بھی اس حوالے سے کسی قسم کی کوئی واضح وجوہات نہ مل سکیں۔

    بدقسمت” سمجھے جانے کے باوجود ’میری سیلسٹ‘ کئی سال تک زیر استعمال رہا۔ 1885 میں کیپٹن جی سی پارکر نے انشورنس کے حصول کے لیے اسے جان بوجھ کر ایک چٹان سے ٹکرا دیا۔ جب یہ نہ ڈوبا تو وہ سازش بے نقاب ہوگئی مگر جہاز کی حالت اتنی خراب ہوچکی تھی کہ وہ وہیں چھوڑ دیا گیا اور کچھ سالوں کے بعد یہ جہاز پانی میں کہیں غرق ہوگیا۔

    یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو پایا کہ آخر عملے کو کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جہاز سے کہیں چلے گئے یا انہیں زبردستی لے جایا گیا۔

  • خاتون نے اپنی سوتن کی جان بچانے کے لیے بڑی قربانی دے دی

    خاتون نے اپنی سوتن کی جان بچانے کے لیے بڑی قربانی دے دی

    (10 اگست 2025): عورت سوتن برداشت نہیں کرتی مگر ایک خاتون نے اپنی سوتن کی جان بچانے کیلیے بڑی قربانی دے کر مثال قائم کر دی۔

    اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے شوہر کی دوسری بیوی (سوتن) کو برداشت نہیں کرتی اور عورت کو ہی عورت کا دشمن کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے آئے روز مختلف سنسنی خیز اور ہولناک واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں مگر سعودی عرب میں ایک خاتون نے اپنی سوتن کی جان بچا کر مثال قائم کر دی۔

    سعودی گزٹ کے مطابق ایک خاتون نے اپنے شوہر کی دوسری بیوی یعنی اپنی سوتن کی جان بچانے کے لیے اپنے جگر کا 80 فیصد حصہ اس کو عطیہ کر دیا۔

    رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ سعودی شہر طائف میں پیش آیا جہاں ماجد بلدہ الروقی کی پہلی بیوی نورا سالم الشمری نے اپنے شوہر کی دوسری بیوی اور اپنی سوتن تغرید عوض السعدی جو گردے ناکارہ ہونے کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ اس کو اپنے جگر کا 80 فیصد عطیہ کر کے اس کی جان بچا لی۔

    تغرید گردے ناکارہ ہو جانے کے باعث کئی سالوں سے ڈائیلاسز پر تھی۔ خاتون کے شوہر ماجد الروقی نے اپنی بیوی کے علاج کے لیے دنیا کی خاک چھانی اور امریکا تک سفر کیا، لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔

    مایوس ہو کر وطن واپسی پر ماجد نے اپنی دوسری بیوی کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے اپنا ایک گردہ عطیہ کرنے کافیصلہ کیا۔

    ماجد نے بتایا کہ گردہ ٹرانسپلانٹ کی سرجری سے قبل انہوں نے اپنے پانچ بچوں کو اپنی پہلی بیوی نورا کے سپرد کیا اور کہا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو ان کا خیال رکھنا۔

    ماجد کے مطابق میں اس وقت حیرت سے ہکا بکا رہ گیا جب اس نے خود اپنے جگر کا 80 فیصد حصہ تقرید (سوتن) کو عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی اللہ کی رضا کی خاطر۔

    طبی ٹیسٹوں میں ٹشوز میچ ہونے کے بعد ٹرانسپلانٹ کی سرجری کامیاب رہی۔
    صرف خاتون کے شوہر ہی نہیں بلکہ مقامی افراد بھی نورا کی اس قربانی کو سراہتے ہوئے اس کو دنیا کے لیے مثال قرار دے رہے ہیں۔

  • ویڈیو : پائلٹ کی آخری کال، پراسرار آوازیں اور پھر ہمیشہ کے لیے غائب

    ویڈیو : پائلٹ کی آخری کال، پراسرار آوازیں اور پھر ہمیشہ کے لیے غائب

    میلبورن : آج سے تقریباً 46 سال قبل دوران پرواز طیارے سمیت غائب ہونے والے 20 سالہ نوجوان پائلٹ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا، پائلٹ کے آخری میسج نے بہت سارے سوالات کھڑے کردیے۔

    یہ کہانی 20 سالہ آسٹریلوی پائلٹ فریڈرک ویلنٹچ کی ہے جو سال 1978 میں ایک پرواز کے دوران ایسا غائب ہوا کہ آج تک اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

    اس سانحے میں ہونے والے واقعات اور پائلٹ کے ایئر ٹریفک کنٹرول کو کیے گئے آخری پیغام نے (ان آئی ڈینٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹ، یو ایف او) اڑن طشتری اور خلائی مخلوق جیسے بہت سے توہمات اور قیاس آرائیوں اور نظریات کو تقویت فراہم کی۔

     Frederick Valentich
    Frederick Valentich

    ایک رپورٹ کے مطابق 21 اکتوبر 1978 کی شام ایک چھوٹا سیسنا طیارہ 182ایل جنوبی میلبورن کے مورابن ایئرپورٹ سے اڑایا گیا جس کا پائلٹ 20 سالہ فریڈرک ویلنٹچ تھا۔

    اس طیارے کو مقررہ وقت میں کنگ آئی لینڈ تک پہنچنا تھا، جب وہ بیس اسٹریٹ کے اوپر پرواز کر رہا تھا تو اس دوران اس نے ایئر ٹریفک کنٹرول کو ایک حیران کن پیغام بھیجا۔

    Mysterious Disappearance frederick valentich

    پائلٹ نے گھبرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ ایک نامعلوم چیز مسلسل اس کا پیچھا کر رہی ہے، یہ ٹھہری ہوئی ہے لیکن یہ کوئی طیارہ ہرگز نہیں ہے۔

    اس کے بعد ریڈیو پر عجیب دھاتی قسم بھاری سی آوازیں سنائی دیں اور پھر رابطہ منقطع ہوگیا، یہی ویلنٹچ کے آخری الفاظ تھے جو اس نے آخری وقت ادا کیے جس کے بعد لاکھ کوشش کے باوجود آج تک نہ وہ ملا اور نہ ہی اس کا جہاز۔

    Last MSG ائلٹ کے آخری میسج فریڈرک ویلنٹچ

    اس دوران (ان آئی ڈینٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹ، یو ایف او) ماہرین اور محققین کو یقین تھا کہ یہ واقعہ کسی خلائی مخلوق کے اغوا کا نتیجہ ہو سکتا ہے، کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اس دن علاقے میں ایک بڑی اڑن طشتری دیکھی گئی۔

    ایک مقامی شہری نے تیز رفتار روشنی کی تصاویر بھی لیں مگر وہ اتنی دھندلی تھیں کہ تصدیق نہ ہو سکی۔ ایک کسان نے تو یہاں تک کہا کہ اس نے اپنے کھیت کے اوپر 30 میٹر لمبا خلائی جہاز منڈلاتے دیکھا ہے لیکن وہ بھی کوئی ٹھوس ثبوت یا دلیل نہیں دے سکا۔

    ائلٹ کے آخری میسج فریڈرک ویلنٹچ

    ہر کوئی ان اڑن طشتریوں پر یقین نہیں کرتا اس لیے کچھ ماہرین نے دوسرے امکانات پر غور کرنا شروع کیا، کچھ نے کہا کہ شاید ویلنٹچ رات کے وقت اپنے ہی جہاز کی لائٹس دیکھ کر گھبرا گیا ہوگا۔

    ایک نے کہا کہ ممکن ہے کہ اس کا جہاز ایندھن ختم ہونے یا انجن فیل ہونے کی وجہ سے گہرے سمندر میں گر گیا ہو؟ کسی نے کہا کہ اس نے اپنی گمشدگی کا ڈرامہ کیا، مگر اس کا بھی کوئی ثبوت نہ ملا۔

    اس کے علاوہ خودکشی کا امکان بھی ظاہر کیا گیا لیکن اس کے دوستوں اور اہل خانہ نے اس امکان کو فوری طور پر مسترد کردیا۔

    یہ ایک ایسا راز ہے جو وقت کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔ 46 سال گزرنے کے باوجود فریڈرک ویلنٹچ کی گمشدگی معمہ بنی ہوئی ہے، آج تک نہ سمندر سے اس کی کوئی نشانی ملی اور نہ ہی آسمان سے کوئی شواہد ملے۔

  • تیسری جماعت میں میٹرک کی اہلیت، 11 سالہ افغان بچے کی صلاحیتوں سے دنیا حیران

    تیسری جماعت میں میٹرک کی اہلیت، 11 سالہ افغان بچے کی صلاحیتوں سے دنیا حیران

    افغانستان کا نام آتے ہی قدامت پسند معاشرہ پابندیاں دہشتگردی ذہن میں آتی ہے لیکن اب 11 سالہ سمیع اللہ اپنے ملک کی مثبت پہچان بن رہا ہے۔

    چار دہائیوں تک بڑی طاقتوں سے نبرد آزما افغانستان میں جب 2022 میں طالبان نے امریکا کے جانے کے بعد اقتدار سنبھالا تو قدامت پسند حکومت نے ملک میں کئی پابندیاں عائد کر دیں۔ آج افغانستان کی پہچان دہشتگردی کے ساتھ تعلیمی وتفریحی پابندیاں، اظہار رائے پر پابندی اور دیگر منفی حوالے ہیں۔

    تاہم اسی افغانستان کا 11 سالہ سمیع اللہ اب دنیا میں اپنے ملک کی مثبت پہچان بھر کر ابھر رہا ہے اور دنیا کے ماہرین اس کی حیرت انگیز صلاحیتیں دیکھ کر حیران ہے۔

    11 سالہ سمیع اللہ جو تیسری کلاس کا طالب علم ہے، اس کو ریاضی میں وہ غیر معمولی مہارت حاصل ہے کہ میٹرک کیا انٹرمیڈیٹ کی سطح تک کی ریاضی پر مہارت رکھتا ہے اور سوال آسانی سے حل کر لیتا ہے۔

    اس با صلاحیت بچے کی خوبیاں سن کر امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی خود سمیع اللہ سے ملنے صوبہ لوگر میں اس کے گھر پہنچ گئے۔

    وزیر کو بتایا گیا کہ اس بچے کو کم عمری میں ریاضی میں اتنی مہارت حاصل ہے کہ انٹرمیڈیٹ سطح تک کے ریاضی کے سوالات با آسانی حل کر لیتا ہے۔ اس کی ان صلاحیتوں سے اساتذہ بھی حیران ہیں۔

    افغان وزیر سراج الدین نے بچے سے خود گفتگو کی اور خود اس کی صلاحیتیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ اس بچے سے اتنا متاثر ہوئے کہ اس کو کمپیوٹر کا تحفہ اور نقد انعام دیا۔

    سمیع اللہ کی کہانی کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب اس کے والد نے اسے مدرسہ میں تیسری کلاس میں داخل کرایا تو اس نے دسویں جماعت کے ریاضی کے سوال بھی بغیر کسی مدد کے خود حل کر کے سب کو حیران کر دیا۔

  • روایتی لباس پہننے پر خاتون کو ریسٹورنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا

    روایتی لباس پہننے پر خاتون کو ریسٹورنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا

    بھارت میں ریسٹورنٹ منیجر نے روایتی لباس پہننے پر خاتون کو داخلے سے روک دیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں جوڑے نے الزام عائد کیا کہ  ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کیلئے آئے تھے، اس کی بیوی شلوار قمیض میں ملبوس تھی، انہیں اندر جانے نہیں دیا۔

    جوڑے نے کہا کہ منیجر نے ہمارے ساتھ بدسلوکی کی جبکہ دیگر کسٹمرز جو پینٹ شرٹ میں ملبوس تھے انہیں اندر جانے دیا گیا۔

    یہ پڑھیں: کراچی میں شلوار قمیض پہنے شہری کو ریسٹورنٹ سے نکال دیا گیا

    دوسری جانب ریسٹورنٹ کے مالک نے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جوڑے نے ٹیبل بک نہیں کی تھی، اسی لیے انہیں داخلہ نہیں دیا گیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ریسٹورنٹ کی کوئی ڈریس کوڈ پالیسی نہیں ہے یہاں پر تمام گاہکوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

    بعد ازاں بھارتی وزیر کپل مشرا نے  میڈیا کو بتایا کہ ریسٹورنٹ انتظامیہ نے آئندہ لباس کی بنیاد پر کسی پر پابندی نہ لگانے کا وعدہ کیا ہے اور رکشا بندھن کے موقع پر بھارتی لباس پہن کر آنے والی خواتین کو خصوصی رعایت دینے کا اعلان کیا ہے۔

  • گہرے سمندر میں پائی جانے والی خوفناک جاندار کی جھلک، چونکا دینے والی ویڈیو دیکھیں

    گہرے سمندر میں پائی جانے والی خوفناک جاندار کی جھلک، چونکا دینے والی ویڈیو دیکھیں

    حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ قیاس آرائیاں زیرِ گردش رہیں کہ سمندر میں کچھ عجیب ہونے والا ہے اور اسے گہرے پانی کی نایاب مخلوق کے سطح سمندر یا ساحل پر نمودار ہونے سے منسلک کیا جارہا ہے۔

    حال ہی میں ایک انتہائی عجیب و غریب اور خوفناک سمندری جاندار کو دیکھا گیا جس کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے، اس مخلوق کے دانت انتہائی تیز اور راکشس (دیوقامت) جیسے نظر آتے ہیں، جبکہ آنکھیں موتیوں کی طرح چمکدار ہیں۔

    سائنسدانوں نے اس مخلوق کو "ٹیلی اسکوپ فِش” کا نام دیا ہے یہ مچھلی اپنی بڑی بڑی ٹیوب جیسی آنکھوں سے دور فاصلے پر موجود شکار کو بھی پہچان سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی آنکھوں میں بایو لومی نینس (Bioluminescence) یعنی روشنی پیدا کرنے کی خاص صلاحیت ہوتی ہے، جس کی مدد سے یہ گہرے سمندر میں بھی آسانی سے دیکھ سکتی ہے۔

    ٹیلی اسکوپ فِش عام طور پر سمندر کی 500 سے 3000 میٹر گہرائی میں رہتی ہے، جہاں سورج کی روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی ہے، یہ ایک نایاب اور کم دکھائی دینے والا سمندری جاندار ہے، جو انسانوں کی نظروں سے اکثر اوجھل رہتا ہے۔

    ماہرین حیاتیات نے اس دریافت کو نہایت ہی دلچسپ اور اہم قرار دیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیلی اسکوپ فِش جیسے جانداروں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ سمندر کی گہرائیوں میں آج بھی کئی راز چھپے ہوئے ہیں، جن کا انکشاف ہونا باقی ہے۔

    دلچسپ حقائق

    اس کی آنکھیں روشنی کے حساس خلیوں سے بھری ہوتی ہیں، جو کم روشنی میں بھی شکار کو دیکھنے میں مدد دیتی ہیں، اس کا جسم شفاف یا ہلکا ہوتا ہے، جو اسے گہرے پانی میں چھپنے میں مدد دیتا ہے، اس کی ہاضمہ کی صلاحیت غیر معمولی ہے، جو اسے اپنے سائز سے بڑے شکار کو ہضم کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

    ٹیلیسکوپ فش کا نام اس کی آنکھوں کی شکل کی وجہ سے پڑا، جو دوربین (ٹیلیسکوپ) کی طرح لمبی اور ٹیوبلر ہوتی ہیں۔

  • اوور ٹائم نہیں کروں گی، چاہے نوکری سے نکال دیں، لڑکی کی ویڈیو وائرل

    اوور ٹائم نہیں کروں گی، چاہے نوکری سے نکال دیں، لڑکی کی ویڈیو وائرل

    بھارت میں خاتون نے آفس میں اوور ٹائم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ چاہے نوکری چلی جائے اضافی وقت نہیں دوں گی۔

    بھارت میں لڑکی شتاکشی پانڈے نامی خاتون نے انسٹاگرام پر ویڈیو شیئر کی جو وائرل ہوگئی، اس میں انہوں نے آفس میں اوور ٹائم کرنے سے انکار کررہی ہیں چاہے نوکری کیوں نہ چلی جائے۔

    شتاکشی نے بتایا کہ وہ کس طرح اپنے دن کا کام ختم کرنے کے بعد دفتر سے نکل رہی تھی جب منیجر نے انہیں رکنے اور کچھ اور کام مکمل کرنے کو کہا تو انہوں  نے شائستگی سے کہا نہیں، میں نے اپنے کام کے اوقات مکمل کر لیے ہیں اور مجھے گھر جلدی جانا ہے۔

    منیجر نے حالات کا موازنہ کرنا شروع کر دیا یہ کہتے ہوئے کہ اس نے رات بھر کیسے سفر کیا، صبح 7:30 بجے سیدھا دفتر آیا اور ابھی تک کام کر رہا تھا تب ہی جب شتاکشی نے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

    اس نے مزید کہا اضافی کام سے اپنے آپ کو مارنے کا یہ خیال قابل فخر نہیں ہے، مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اگر آپ مجھے برطرف کر دیں، میں اس زہریلے کام کے کلچر کو قبول نہیں کروں گی۔

    شتاکشی کی ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آرہا ہے۔

    ایک صارف نے لکھا کہ ’وقت پر اپنا کام مکمل کریں تو آپ کو کوئی پریشان نہیں کرے گا۔‘ دوسرے صارف نے لکھا کہ ’آپ نے جو کیا وہ ایک فریشر کے طور پر اچھا ہے لیکن سینئر کو رکنا پڑتا ہے ان کے اوپر ذمہ داری ہوتی ہے۔‘

    تیسرے صارف کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کو اوور ٹائم کی ادائیگی نہیں کی جاتی تو میں کہوں گا کہ کمپنی ناکارہ ہے۔‘

  • ترقی یافتہ ممالک کے مضحکہ خیز قوانین! جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں

    ترقی یافتہ ممالک کے مضحکہ خیز قوانین! جان کر آپ بھی حیران رہ جائیں

    دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی مثالی ترقی معاشی استحکام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں مگر ان ہی ممالک میں کچھ مضحکہ خیز قوانین بھی لاگو ہیں۔

    امریکا، برطانیہ، جاپان، اٹلی، آسٹریلیا، سنگاپور سمیت دیگر کئی ممالک کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ ان ممالک کی مثالی ترقی، معاشی استحکام، شہریوں کا معیار زندگی، عوام کو سہولتوں کی فراہمی اور صفائی ستھرائی جیسے اقدام انہیں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔

    تاہم ان ہی ممالک میں کچھ ایسے عجیب وغریب اور مضحکہ خیز قوانین بھی نافذ ہیں جن کو جان کر کوئی بھی حیران رہ جائے گا اور کچھ تو مسکرا اٹھیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض ممالک میں تو ان قوانین کی خلاف ورزی کو ملک سے غداری قرار دیا گیا ہے۔

    آئیے جانتے ہیں کہ کس ترقی یافتہ ملک میں کون سا مضحکہ خیز قانون نافذ ہے۔ تو
    شروعات کرتے ہیں دنیا کے واحد سپر پاور ملک امریکا سے۔

    امریکا:

    امریکی ریاست ایریزونا میں گدھے کو رات کے بعد باتھ ٹب میں بٹھانا غیر قانونی ہے اور اگر کوئی یہ کام کرے گا تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔

    برطانیہ:

    ایک وقت تھا کہ برطانیہ کی راج دہانی میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ یعنی برطانیہ کی حکومت دنیا کے اتنے طول وعرض پر محیط تھی کہ اگر کہیں سورج غروب ہوتا تو اسی راجدھانی میں کہیں اور جگمگا رہا ہوتا تھا۔

    برطانیہ کا دنیا پر راج تو ختم ہو گیا اور اب وہ ایک جمہوری ملک ہے۔ تاہم وہاں رسمی طور پر بادشاہت کا نظام قائم ہے، اور اسی شاہی قانون کے تحت برطانیہ میں ملکہ (اب بادشاہ) کے ڈاکٹ ٹکٹ کو الٹا لگانا غداری کے زمرے میں بھی آ سکتا ہے۔

    جاپان:

    امریکی ایٹمی حملوں کے بعد تیزی سے ترقی کر کے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ملک جاپان میں اگر آپ نے قانون کے دائرے میں رہنا ہے تو اپنی کمر کو مقررہ حد میں رکھنا ہوگا۔

    جی ہاں! جاپان میں مٹاپے کی حد مقرر ہے اور 40 سال سے زائد عمر کے افراد کی کمر کا سائز اگر مخصوص حد سے بڑھ جائے تو کمپنی یا مقامی حکومت اس شخص کے خلاف قانونی کارروائی کر سکتی ہے۔

    اٹلی :

    مسکرانا ایک اچھی عادت ہے اور انسان کی خوش اخلاقی کو ظاہر کرتی ہے۔ مسکراہٹ نفرتیں ختم کرنے اور محبتوں کو کے فروغ کا سبب بھی بنتی ہے۔ مگر کوئی بھی شخص ہر وقت مسکرا نہیں سکتا۔

    لیکن ٹھہریے! اٹلی کے شہر میلان میں ایسا قانون ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص جو عوامی جگہ پر موجود ہو اس کے لیے ہمیشہ مسکرانا قانونی طور پر ضروری ہے۔ مسکراہٹ سے استثنیٰ صرف جنازوں اور اسپتالوں کی حد تک ہے۔

    آسٹریلیا:

    ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی پسند کا لباس پہنے لیکن آسٹریلیا کے شہر وِکٹوریا میں اتوار کے دن گلابی پینٹس پہن کر عوامی مقامات پر جانا اور سیر سپاٹے کرنا خلاف قانون ہے۔ (اطلاعات کے مطابق اب اس پر عمل نہیں ہوتا)۔

    سنگاپور:

    سنگاپور کا شمار دنیا کے خوبصورت ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں چیونگم چبانے پر پابندی ہے۔ حکام اس کی وجہ طبی مقاصد کے علاوہ عوامی مقامات کو گندگی پھیلانے سے روکنے کا اقدام قرار دیتے ہیں۔

    تو جو لوگ چیونگم کھانے کے شوقین ہیں وہ سنگاپور جاتے وقت ہوشیار رہیں کہ کہیں ان کا شوق انہیں قانون شکن نہ بنا دے۔

    روس:

    روس میں گندی یا دھول بھری گاڑی چلانا قابلِ جرمانہ جرم ہے۔ تو اگر آپ روس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اپنی گاڑی کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں ورنہ دھول بھری گاڑی آپ کی جیب کی صفائی کرا سکتی ہے۔

    ڈومینیکن ری پبلک:

    دنیا بھر میں والدین کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کا نام اپنی مرضی کے مطابق رکھیں۔ اکثر والدین تو بچے کی پیدائش سے قبل ہی ان کے رکھے جانے والے نام سوچ لیتے ہیں۔

    تاہم جزیرائی ملک ڈومینیکن ری پبلک میں ایک نام رکھنے پر سرکاری طور پر پابندی ہے۔ آپ اس ملک میں سرکاری طور پر کسی بچے کا نام ’’اسامہ بن لادن‘‘ نہیں رکھ سکتے۔

    کس ملک کا قانون آپ کو سب سے زیادہ مضحکہ خیز لگا، کمنٹ سیکشن میں اپنی رائے دیں۔