Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • بارش اور پاکستان کے دو بڑے شہروں کی کہانی

    بارش اور پاکستان کے دو بڑے شہروں کی کہانی

    کراچی شہر ملک کی ترقی کا انجن ہے اور اسے ملک کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی مرکز ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ دنیا میں جو شہر ایسی اہمیت اور حییثت رکھتے ہیں وہاں کی حکومتیں ان کے انفرااسٹرکچر پر خاص توجہ دیتی ہیں اور ان کی تعمیر کی جاتی ہے۔ مگر کراچی کیا ہے اس کا اندازہ آپ 19 اگست کی برسات سے لگا سکتے ہیں۔

    اس دن میں معمول کے مطابق دفتر پہنچا اور کام میں مشغول ہوگیا۔ ہمارے دفتر کی ایک ساتھی نے جب بلانئنڈز ہٹائے تو شیشے کے پیچھے سے گہرے کالے رنگ کے بادل ہمیں گھور رہے تھے۔ آن کی آن میں ان بادلوں نے برسنا بھی شروع کر دیا۔ اس قدر جم کر برسے کہ چند ہی منٹ میں جل اور تھل ایک ہوگیا۔ انتظامیہ نے دفتر کو بند کرنے اور تمام ملازمین کو گھرجانے کی اجازت دے دی۔ ابھی بارش جاری تھی کہ میں نے گھر کی راہ لی کیونکہ خدشہ تھا کہ جس قدر تیز بارش ہوئی ہے اس کے بعد شہر کی سب سے بڑی سڑک، شارع فیصل سے گزرنا محال ہوجائے گا۔ جیسے تیسے بلوچ کالونی کے راستے شارع فیصل پر داخل ہوا تو ٹریفک سست روی کا شکار تھا۔ کارساز پر آکر دیکھا تو میرے اوسان ہی خطا ہوگئے۔ سر شاہ سلمان روڈ سے پانی ریلے کی صورت میں شارع فیصل پر آرہا ہے۔ اور پانی اس قدر تیزی سے آرہا ہے کہ چھوٹی اور کم وزنی گاڑیاں تو بہنے لگی ہیں۔

    اس صورتحال میں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر تو سفر کرنا ناممکن تھا۔ موٹر سائیکل بند کی۔ اور پانی میں اپنا سفر شروع کر دیا۔ اس دن اندازہ ہوا کہ گھٹنوں گھٹنوں پانی میں 150 سی سی موٹر سائیکل کو گھسیٹنا کتنا مشکل کام ہے۔ پانی کی وجہ سے گاڑیاں بند ہو رہی تھیں جن میں خواتین، بچے، مرد، بوڑھے سب ہی بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ اسکول کے بچوں کی وینز بھی پانی میں پھنسی تھیں۔ مگر وہ پریشان ہونے کے بجائے اس صورتحال کا خوب لطف لے رہے تھے۔ بہرحال موٹر سائیکل کو گھسیٹتے گھسیٹتے بڑھتا رہا اور جہاں پانی کم دیکھا وہاں اسے اسٹارٹ کر کے سوار ہوجاتا۔ مگر کارساز پر تو سیلاب کا صرف ایک ریلا تھا۔ اصل سیلاب تو ڈرگ روڈ جنکشن پر منتظر تھا۔ جہاں پہنچ کر موٹر سائیکل احیتاطاً بند کر دی اور اسے گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔

    اس بارش اور سیلابی صورت حال میں وہ لوگ جن کے پاس ڈبل کیبن یا ایس یو وی گاڑیاں تھیں مزے سے پانی میں گاڑیاں چلا رہے تھے۔ ان گزرتی گاڑیوں سے اس سیل رواں میں مزید لہریں پیدا ہوتیں اور ہم جیسے سڑک چھاپوں کی مشکل بڑھ جاتی۔ ایک موقع پر تو لہر اس قدر تیزی سے آئی کہ ہاتھ سے بائیک چھوٹ کر پانی میں ڈوب گئی۔ ایک لڑکے نے نہ صرف موٹر سائیکل کو اٹھانے میں مدد کی بلکہ کچھ دور دھکیل کر کسی قدر راحت بھی پہنچائی۔ پیدل چلتے چلتے کالونی گیٹ پہنچے جہاں ہمارے ایک جاننے والے کی دکان تھی۔ ان سے درخواست کی اور موٹر سائیکل کو وہیں کھڑا کر دیا اور ریلوے لائن پر چڑھ کر گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ اس ریلوے لائن پر سیکڑوں‌ لوگ اپنی منزل کی جانب رواں دواں‌ تھے۔ان میں خواتین بھی شامل تھیں جو پیدل سامان اٹھائے اور کچھ بچے سنبھالے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھیں۔

    ریلوے لائن پر چلتے چلتے جب میں گھر کے قریب پہنچا تو اندازہ ہوا کہ ابھی مشکل ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایئر پورٹ کی طرف سے آنے والا بارش کے پانی کا ریلا گھر کے اندر بھی داخل ہوچکا ہے۔ اور گراؤنڈ فلور پر کئی کئی فٹ پانی کھڑا تھا۔ مگر اس صورت حال کے باوجود میں نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ میں گھر پہنچ گیا تھا۔ جب کہ میرے دفتر کے چند ساتھی رات گئے تک سڑکوں پر برے حال میں پھسنے رہے اور بہت تکلیف اٹھا کر کسی وقت گھر پہنچ سکے۔

    شہر میں ہونے والی تیز بارش کے بعد شارع فیصل مکمل طور پر بند ہوگئی تھی اور ایئر پورٹ، اور دونوں بندرگاہوں کا راستہ گویا منقطع ہو گیا تھا۔ کئی پروازیں عملے اور مسافروں کے نہ پہنچنے کی وجہ سے منسوخ کر دی گئی تھیں۔ کم و بیش یہی صورت حال شہر کے دیگر علاقوں کی سڑکوں کی تھی۔

    گھر کا کیا حال سنائیں رات گئے جیسے ہی پانی اترا تو وہ اپنے پیچھے ڈھیروں مٹی اور کیچڑ چھوڑ گیا جس کو صاف کرنے میں چند دن لگے۔ فرنیچر اور دیگر اشیاء کا نقصان الگ ہوا۔ نقصان جتنا بھی ہو اور مشکلات جیسی بھی ہوں زندگی رکتی نہیں ہے۔ اس بارش اور اس تکلیف دہ صورت حال کے چند روز بعد اسلام آباد اور لاہور کا سفر کرنا تھا۔ اسلام آباد کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر معلوم چلا کہ بادل تو وہاں بھی برسا ہے اور خوب جم کر برسا ہے۔ مگر کوئی سڑک زیر آب نہیں آئی، کہیں گڑھے میں کوئی گاڑی پھنسی نہیں تھی۔ دل نے کہا یہ تو اسلام آباد ہے اصل مشکل کا سامنا تو لاہور میں ہوگا۔

    جب لاہور کے لیے سفر شروع ہوا راستے میں اطلاع ملی کہ راوی بپھر گیا ہے۔ اور جو لوگ اس کو دریا کے بجائے گندا نالہ کہہ رہے تھے۔ راوی انہیں اپنی بپھری ہوئی موجوں سے بتا رہا تھا کہ وہ راوی ہے جس کے کنارے پر لاہوریوں کی تہذیب اور تمدن نے جنم لیا ہے۔

    لاہور میں سیلاب کا سن کر ہمارے دل پر ایک خوف چھا گیا کہ کہیں کراچی جیسا حشر نہ ہو۔ مگر لاہور میں جیسے ہی داخل ہوئے تو کہیں بھی سیلاب کا شائبہ تک نہ تھا۔ ٹی وی لگایا تو خبریں یہی چل رہی تھیں کہ لاہور ڈوب گیا ہے۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہم جہاں ٹھرے ہیں وہاں سیلاب نہ ہو۔ مگر اگلے دن لاہور کے مخلتف علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کہیں ایسی سیلابی صورت حال نہ تھی۔ نشیبی اور اولڈ ایریاز خواہ کراچی کے ہوں یا لاہور کے تیز بارش سے ضرور متاثر ہوتے ہیں، مگر جب ہم بات کرتے ہیں مرکزی شاہ راہوں اور سڑکوں کی تو ان شہروں میں صورت حال بالکل مختلف دیکھی گئی۔ لاہور میں سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھا۔ سیلاب صرف راوی دریا کے پاٹ کے اندر قبضہ کر لینے والوں کے لیے تھا، چاہے وہ شاہدرہ کا علاقہ ہو یا پھر نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز، یہ سب پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ راوی کا موجیں مارتا دریا ان لوگوں کو منہ چڑا رہا تھا جو کہتے تھے کہ راوی ایک گندا نالہ بن گیا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کے پاٹ میں زراعت اور مویشی پروری کرنے والوں کو بے دخل کر کے وہاں ہاؤسنگ سوسائیٹیز بنائی جائیں۔

    دوسرے دن کراچی کی طرح بادل جم کر برسنے لگے تو سوچا کہ اب تو آج کی تمام میٹنگز منسوخ کر کے جیم خانہ کے کمرے میں ہی دن گزارنا ہوگا۔ مگر بارش کے باوجود سڑک پر پانی نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب کہ ٹریفک تقریباً معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ ڈرائیور بھی سڑک پر گڑھا ہونے کے خوف کے بغیر گاڑی کو چلا رہا تھا۔ یہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لاہور لاہور ہے۔ اس پر گزشتہ 30 سال میں جو سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ اس نے ایک دیہی شہر کو ایک ایسے قابل رہائش شہر میں تبدیل کر دیا ہے جہاں بارش سے خوف زدہ ہونے کے بجائے لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔

    اسلام آباد اور لاہور میں مصروفیات ختم ہوئیں‌ تو اپنے شہر کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ گھر کے راستے میں ٹریفک جام پایا۔ دریافت کرنے پر انکشاف ہوا کہ بارش کو ہوئے دوسرا ہفتہ ہے مگر شارع فیصل کو ملیر ہالٹ کے مقام سے موٹر وے سے ملانے والی سڑک کچھ جگہ سے بیٹھ گئی ہے۔ سڑک پر گڑھے پڑے ہیں جن میں بارش اور بارش کی وجہ سے ابلنے والے گٹروں کا پانی موجود ہے جس کی وجہ سے گھنٹوں ٹریفک جام رہنے لگا ہے۔

    یہ حال ملک کے دو شہروں کا ہے، ایک میں اگر بارش ہوجائے تو زندگی مفلوج ہوجاتی ہے۔ دوسرے میں شہر میں مرکزی راستے اور سڑکوں پر زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ لاہور والوں نے راوی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا، اس کا بدلہ راوی نے اس مرتبہ لے لیا ہے۔ ادھر کراچی کے شہری اپنے شہر کے ساتھ جو کچھ کرتے رہے ہیں، اس کا بدلہ شہر میں ہونے والی ہر بارش لیتی ہے۔

  • فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    بہ ظاہر فخر (Pride) ایک سیدھا سادہ لفظ دکھائی دیتا ہے، عام طور سے اس کا استعمال بھی معصومانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے پہلو (جن کی نظر میں پہلا پہلو منفی ہے) پر نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ذاتی محنت، مشترکہ انسانی اقدار اور ثقافتی حسن پر فخر جائز ہے۔ وہ دراصل فخر کو بغیر سمجھے اپنانے میں مسئلے کو دیکھتے ہیں، کیوں کہ یہ انسان کو قبائلی تعصب، قوم پرستی اور عدم برداشت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس لیے اس ناسمجھی کے مقابل وہ فخر کو مثبت شعور کے ساتھ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بات نہیں بنتی۔

    خواہ ذاتی محنت ہو یا مشترکہ انسانی اقدار، فخر کا احساس آدمی یا نسل یا قوم یا ثقافت کو بہ ہر صورت مرکز میں لے کر آتا ہے اور ساتھ ہی دوسرے کو کنارے پر دھکیل دیتا ہے۔ لوگ اپنی بقا اور ترقی کے لیے محنت کرتے ہیں، کسی کو کم کسی کو زیادہ کامیابی ملتی ہے۔ کامیاب آدمی اپنی محنت پر فخر کرتا ہے، لیکن ناکام آدمی کیوں اپنی محنت پر فخر نہیں کرتا؟ کیا فخر کا یہ احساس محنت سے جڑا ہے یا کامیابی سے؟ اس سوال کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ کامیاب آدمی کا فخر محنت کو استحقاق (خود کو Privileged سمجھنا) کا معاملہ بنا دیتا ہے۔ یہی معاملہ مشترکہ انسانی اقدار کا ہے۔ بہ ظاہر یہ تو بہت زیادہ مثبت لگتا ہے اور اس میں کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا، یقیناً یہ جائز ہے۔ ضرور جائز ہے لیکن ’انسانی‘ اقدار سے محبت جائز ہے کیوں کہ اس محبت کے تقاضے پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہم ان ’انسانی‘ اقدار پر فخر کرنے لگتے ہیں، زمین کی دیگر حیات خود بہ خود دیوار سے لگ جاتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ انسانی اقدار پر دیگر حیات کے تناظر میں سوال اٹھانا ہماری غیر شدت پسند سوچ کے لیے بھی سخت مشکل امر ہے، اور تقریباً ناقابل قبول ٹھہرتا ہے۔ لیکن استحقاق پر مبنی ہمارے پہلے سے فِکسڈ تصورات خواہ کتنے ہی قابل قبول اور ناگزیر کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں، زمین کی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ انسان کو زمین پر جتنا بھی ’استحقاق‘ حاصل ہے وہ اس کی اپنی تشکیل کردہ ہے۔ انسانی اقدار پر فخر نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ غیر انسانی مخلوق کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔

    فخر کو محسوس کرنے کے نازک لمحے میں اگر آپ اپنے سامنے شعوری طور پر یہ سوال بھی رکھتے ہیں کہ کیا یہ فخر تنوع اور دوسروں کی شناخت کو تسلیم کرتا ہے؟ تب بھی یہ مقابلے کے رجحان کو کم نہیں کرتا۔ جیسے ہی آپ ’دوسرے/غیر‘ کو سوچتے ہیں فخر کا لمحہ غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کو ادراک ہو جاتا ہے کہ آپ خود بھی ’دی آدر‘ ہیں۔ فخر کا لمحہ سیلف/ذات کو ’غیر‘ سے کاٹ دیتا ہے۔ دوسرے اور غیر کو اپنے آپ کے برابر تسلیم کرنے سے اپنی ذات (قومی/ثقافتی) کی استحقاق پر مبنی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ فخر کا احساس Privileged احساس ہے۔ اگر یہ احساس خاص نہیں ہے اور ہر ایک کے لیے عام ہے، تو پھر یہ بے معنی ہے۔

    فخر کے اظہار کو معصومانہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اکثر ’’فخر‘‘ کا اظہار دراصل برتری کے ایک غیر اعلانیہ دعوے میں بدل جاتا ہے۔ جیسے کہ ’’ہم غیرت مند ہیں‘‘ ، ’’ہم بڑے دل والے ہیں‘‘ ، ’’ہم مہمان نواز ہیں‘‘ ! ان جملوں میں اکثر ’ہم‘ کی جگہ اپنی قوم کا نام داخل کیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر ان جملوں میں بھی ’اپنی خصوصیت‘ کا سادہ اظہار ہے، لیکن یہ زبان مکمل طور پر بائنری اپوزیشن پر تعمیر شدہ ہے۔ اس لیے جب انھیں دہرایا جاتا ہے تو دوسروں کو کم تر سمجھنے کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہاں فخر محبت کا اظہار نہیں بلکہ ’’ہم اور تم‘‘ کے مقابلے کا بیان بنا ہوا ہے۔

    کبھی کبھی یہ احساس محرومی کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ انسانی گروہ، انسانی طبقات اور حتیٰ کہ انسان صنفی طور پر بھی ہمیشہ ایک دوسرے کو زیرِ دست لانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ جسے دبایا جاتا ہے، جس کا استحصال کیا جاتا ہے اس کے اندر فخر کا احساس ایک مزاحمتی عمل کے طور پر ابھرتا ہے۔ وہ خود کو جوڑنے اور اپنے آپ کو مجتمع کرنے کے لیے اپنی شناخت پر فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ قابض اور غاصب جس شناخت کو اس کے لیے قابل نفرین بناتا ہے، وہ اسی شناخت کو فخر کے لمحے میں بدل دیتے ہیں تاکہ وہ کم تری کے احساس سے مکمل مغلوب ہو کر ختم نہ ہو جائیں اور غلام نہ بن جائیں۔

    محبت اور فخر میں یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ فخر تکبر کے بغیر نہیں ہے۔ کسی خوش نما اور پُر فضا علاقے میں پیدائش اور پرورش ایک خوش نصیبی ہے۔ لیکن جو لوگ سخت اور سنگلاخ زمینوں پر پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اپنے علاقے کی آب و ہوا اور سخت زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دل جتنا پُر فضا علاقے کے لوگوں کا خوشی اور محبت سے دھڑکتا ہے، اتنا ہی سخت علاقے کے لوگوں کا بھی۔ یہ حیاتیاتی تنوع ہے۔ خوش رنگ رسمیں ہر علاقے کے لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ یہ انسانی ثقافت کی خوبی ہے اور یہ انسانی فطرت بھی ہے کیوں کہ اسے زیادہ جینے کے لیے خوش ہونے کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ تو پُر فضا علاقے کی عادت اور محبت کے اظہار کے لیے ’فخر‘ کا پیمانہ ایسا ہے جیسے مستطیل کو دائرے سے ماپنا۔ اس لیے جب مخصوص علاقے پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ احساس اپنے اندر غیریت کا عنصر لیے ہوئے ہوتا ہے۔ عملی طور پر سنگلاخ علاقے کے آدمی کے چہرے کے سخت نقوش دیکھ کر نرم اور پُر فضا علاقے کے آدمی کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک جو کہانی سنایا کرتی ہے اس کا عنوان تکبر کے علاوہ کچھ اور ممکن ہی نہیں ہے، جسے عام طور پر ’’شکر‘‘ کے عنوان سے چھپا دیا جاتا ہے۔

    یہ بات ہزاروں بار دہرائی جا چکی ہے کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ لیکن شاید بالکل اسی وجہ سے اتنے سارے انسانوں اور قبیلوں اور گروہوں کے درمیان اس کے اندر الگ سے پہچانے جانے کا جذبہ (ذاتی بھی قومی بھی) شدید تر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی نفسیاتی ضرورت بن چکی ہے کہ یا تو وہ خود کو بڑی کہانی بنا دے یا کسی بڑی کہانی کا حصہ بن جائے تاکہ خود کو اپنے آپ کے سامنے اہم محسوس کرا سکے۔ فخر کے احساس کے پیچھے ایسی ہی ایک بڑی کہانی، ایک بڑا بیانیہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس ’’بڑی کہانی‘‘ کو ہم اس کے ثقافتی سرمائے میں بیان ہونے کے عمل سے گزرتے دیکھ سکتے ہیں جو زبان، موسیقی، شاعری، شادی بیاہ کی رسوم اور مجموعی روایات پر مبنی ہے۔ فخر کے احساس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ثقافتی معاملے کو اس کی بالکل ضد یعنی فطرت سے جوڑ کر پیش کرے، تاکہ ایک ’سچ مچ کی‘ بڑی کہانی بنانے میں آسانی ہو۔ فطرت اور ثقافت ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن فخر کا احساس ان دونوں کو بغل گیر کرا دیتا ہے اور ثقافتی مظاہر فطری مظاہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا احساس ہے جو ثقافتی مظاہر (جیسے کہ زبان، لباس، رسوم، رویے) محض اختیاری چیز نہیں بلکہ ’وجودی حقیقت‘ بنا دیتا ہے۔ جب فطرت اور ثقافت کا امتیاز مٹتا ہے تو دوسروں کے بیانیوں کے مقابلے میں اپنا بیانیہ زیادہ جاذب اور مؤثر بن جاتا ہے، یعنی زیادہ پائیدار، زیادہ قدیم، زیادہ خوب صورت۔ مختصر یہ کہ جب محبت اور فخر میں فرق مٹتا ہے تو ثقافت اور فطرت میں بھی فرق دھندلا جاتا ہے۔

    فخر کے بیانیے کو اگر میں بیان کروں تو یہ کہوں گا کہ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو فرد کی شناخت کے ساختیاتی (structural) نظام میں جذب ہو چکا ہے۔ یعنی وہ جس بات پر فخر کر رہا ہے وہ اس کے نزدیک ایک گہری سماجی تشکیل نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت (objective truth) ہے۔ یہ رویہ متبادل امکانات سے محرومی پر منتج ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فخر ایک دھندلا عدسہ ہے، لیکن جب وہ اس سے خود کو اور دنیا کو دیکھتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ عدسہ شفاف ہے۔ فخر کا احساس شعور کی گہرائی میں اترتا ہے اور مزید طاقت ور ہو کر وہیں سے سطح پر نمودار ہوتا ہے، اس لیے شعور میں رچ بس جانے والا بیانیہ آئیڈیالوجی بن جاتا ہے، جس کی خاصیت سے ہم سب واقف ہیں کہ یہ ہمیشہ خود کو برتر بنا کر پیش کرتی ہے اور دوسرے کو اپنا غیر بنا دیتی ہے۔

  • بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    بونیر سیلاب: اے آر وائی کی ٹیم کس طرح مشکل حالات میں متأثرین کی آواز بنی

    یہ جمعہ پندرہ اگست دو ہزار پچیس کی دوپہر کا وقت تھا۔ میں اپنے اے آر وائے نیوز پشاور بیورو میں موجود تھا اور صبح سے خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات کے اضلاع، شانگلہ، سوات، دیر، باجوڑ، بٹ گرام، مانسہرہ، چترال اور بونیر میں شدید بارشوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب کی لمحہ بہ لمحہ تفصیلات آرہی تھیں اور جب کوئی ایسی غیر معمولی صورتحال جنم لیتی ہے تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ابتدائی ویڈیو یا تصاویر موبائل سے بنا کر واٹس ایپ سے شیئر کر دی جائیں اور جہاں ممکن ہو وہاں فوراً لائیو کوریج کے لئے سیٹیلائٹ لنک سے جوڑنے والی گاڑی جس پر ڈش لگی ہوتی ہے اسے روانہ کیا جائے عرف عام میں ہم اس کو ڈائرکٹ سٹیلائیٹ نیوز گیدرنگ ( ڈی ایس این جی ) گاڑی پکارتے ہیں اور اس گاڑی میں بیٹھے ڈرائیور کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کو ایمبولینس کا ہوٹر لگا کر پہنچائے کیونکہ فوراً سے پیشتر پہنچ کر لائیو کوریج شروع کرنے کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔

    یقیناً یہ ایک خطرناک عمل ہوتا ہے لیکن ہر چینل چاہتا ہے کہ وہ اپنے ناظرین تک کیمرے کی آنکھ سے تازہ صورتحال سب سے پہلے بتائے۔ خیر یہ تو لائیو کوریج کی بات ہوگئی تو اسی تناظر میں ہم نے اپنے بیورو میں میٹنگ کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ پہلا خیال تھا کہ باجوڑ جایا جائے لیکن ہمارے ساتھی ظفر اللہ نے بتایا وہاں اب سیلابی صورتحال کنٹرول میں ہے اور دوسرا سیکیورٹی نقطۂ نظر سے یہاں حالات بہتر نہیں کیونکہ سیلاب سے قبل شرپسند عناصر کے خلاف آپریشن چل رہا تھا اور ماموند تحصیل میں کچھ گاؤں سے نقل مکانی بھی ہوئی تھی۔ پھر پتہ چلا کہ بونیر اور سوات میں سیلابی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے تو فیصلہ ہوا کہ اسلام آباد بیورو سے رابطہ کرکے وہاں کی ایک ڈی ایس این جی سوات جہاں ہمارے ساتھی شہزاد عالم اور کیمرہ میں کامران کوریج کررہے تھے انکو بھیجی جائے جبکہ پشاور کی دو ڈی ایس این جیز میں ایک بونیر لے جانا کا فیصلہ ہوا۔ جہاں ہمارے ساتھی شوکت علی بھر پور کوریج کر کے پل پل کی خبر دے رہے تھے۔

    بونیر روانگی

    بونیر جانے والی ڈی ایس این جی میں راقمِ حروف اپنے کیمرہ مین ارشد خان، ڈی ایس این جی آپریٹر لئیق اور ڈرائیور رؤف کے ساتھ روانہ ہوا۔ چونکہ ہنگامی صورتحال تھی تو بیورو میں موجود، اسائنمٹ ایڈیٹر وقار احمد، رپورٹر ظفر اقبال، عدنان طارق، نواب شیر، عثمان علی، شازیہ نثار اور مدیحہ سنبل کو پشاور میں سیلاب کی صورتحال اور حکومتی اقدامات پر نظر رکھنے کی ہدایت دی جبکہ عدنان طارق کو ریسکیو کے ہیڈ کوارٹر بھیج دیا جہاں وزیر اعلیٰ کے پی علی امین کی ہدایت پر آپریشن روم بن چکا تھا۔ ہم نے پشاور میں جو انتطامات کئے تھے اس حوالے سے کراچی ہیڈ آفس میں صدر اے آر وائی نیوز عماد یوسف اور سینئر اسائنمنٹ ایڈیٹر فیاض منگی کو بھی آگاہ کیا۔ اس دوران ہم دن دو بجے پشاور سے نکلے تو کراچی سنٹرل ڈیسک سے فون موصول ہوا کہ چھ بجے آپکا بونیر سے لائیو بیپر ہوگا۔ کیونکہ میں نے انکو بتایا تھا کہ ہم چار گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ جب ہم پشاور سے نکلے تو موسم ابر آلود تھا اور ابھی ہم راستے میں ہی تھے کہ پتہ چلا خیبر پختونخواحکومت نے امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لئے زمینی اور فضائی ٹیمیں روانہ کردی ہیں اور فضائی ریسکیو کے لئے دو ہیلی کاپٹر استعمال میں لائے جا رہے ہیں لیکن ان میں ایک ہیلی کاپٹر لاپتہ ہوگیا ہے اب یہ خبر جب ملی تو مصدقہ نہیں تھی اور میری کوشش تھی کہ اسکی تصدیق ہوسکے جس کے لئے جہاں نے میں پشاور کی ٹیم کو متحرک کیا وہیں باجوڑ میں ظفر اللہ اور مہمند میں اپنے ساتھی فوزی خان سے رابطہ کیا ۔ فوزی خان نے واقعہ کے رونما ہونے کے بارے میں بتایا لیکن تصدیق نہیں کرسکا۔ میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو میں بونیر کے راستے میں تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے موبائیل سگنل بھی نہیں مل رہے تھے اس دوران میرا رابطہ کچھ ذمہ دار حکام سے ہوگیا جنہوں نے پہلے لاپتہ ہونے کی تصدیق کردی تو میں نے فیاض منگی کو بتایا اور انہوں نے خبر اے ار وائے نیوز پر بریک کروا کے میرا بیپر لے لیا اور اس دوران وزیراعلیٰ علی امین کا بیان بھی آگیا کہ ہیلی کاپٹر کریش ہوگیا ہے جس میں پائلٹ سمیت پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس خبر کو کور کرتے کرتے ہم سوات موٹر وے کے راستے کاٹلنگ مردان سے ہوتے ہوئے بونیر پہنچ گئے۔

    بونیر کا ماحول اور ڈگر ہسپتال کی صورتحال

    جب بونیر میں داخل ہوئے تو پہلا گاؤں کنگر گلی تھا لیکن وہاں زندگی معمول پر تھی حالانکہ اس وقت تک صرف بونیر میں سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ادھر سے ہم تیزی سے بونیر کے صدر مقام ڈگر کو روانہ ہوئے جہاں ضلعی ہسپتال تھا۔ وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ اے آر وائے نیوز پہلا چینل ہے جس کی ڈی ایس این جی پہنچی ہے۔ یہاں ایک افراتفری والا ماحول تھا، ایمرجنسی ہوٹر والی گاڑیوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا ۔ وہیں ہم نے ہسپتال کے باہر ڈی ایس این جی سے سٹیلائیٹ رابطہ کرکے ہسپتال کے اندر اور باہر کی فوٹیجز بھیجیں اور ساتھ لائیو تبصرہ بھی دیا ۔ میرے ساتھ ہمارے ساتھی شوکت علی بھی لائیو تھے جنہوں نے بتایا کہ بونیر کے اہم علاقے جو سیلاب سے متاثر ہوئے ان میں پیر بابا بازار، بیشنوئی،قدر نگر اور حصار تنگی ہیں ۔ ابھی ہم لائیو تبصرہ دے رہے تھے کہ اس دوران پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر جو بونیر سے ممبر قومی اسمبلی بھی ہیں پہنچ گئے اور ہمارے ساتھ گفتگو کی جو آن ائیر تھی ۔

    پیر بابا کا سفر اور سیلاب سے متاثرہ خاندان سے ملاقات
    یہاں سے ہم پیر بابا بازار کے لئے روانہ ہوئے تو مجھے ساتھی نے بتایا کہ سیلاب نے بجلی کے نظام کو شدید متاثر کیا ہے ۔ کھمبے زمین سے اکھڑ چکے ہیں ،تاریں سڑکوں پر گری ہوئی ہیں اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے موبائیل فون بھی کام نہیں کررہے ۔ ہم اپنے ساتھ احتیاطاً سٹیلائیٹ فون لے کر گئے تھے لیکن اس کے ذریعے بھی رابطہ مشکل سے ہو رہا تھا اس لئے ہم نے ہیڈ آفس سے ڈی ایس این جی کے لئے فکس پیرامیٹر لئے کہ اگر رابطہ نہ ہو تو ہم چینل کو فوٹیجز اور ریکارڈڈ تبصرہ یا انٹرویو بھیجتے رہیں جو کہ کامیاب تجربہ رہا ۔ کیونکہ جب ڈگر سے پیر بابا کے لئے روانہ ہوئے تو سلطان وس تک موبائل سگنل تھے اس وقت تک رات کی تاریکی شروع ہوچکی تھی اور یہیں میں نے گاڑی روکی تو سیلاب سے تباہ حال ایک غریب مزدور کا مکان نظر آیا جو پہلے ہی کچا تھا میں نے میری وہاں گھر کے چند مرد حضرات سے ملاقات کی جو کیچڑ سے لت پت تھے اور پاوں میں جوتے بھی نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا سیلابی پانی اچانک آیا اور بس انکو اتنا موقع ملا کہ خواتین کو گھر سے نکال سکیں باقی زیادہ تر جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی اور وہ یہاں اس لئے موجود ہیں جو بچ گیا ہے اسکی حفاطت کرسکیں۔

    اس موقع پر میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ صبح سے بھوکے پیاسے ہیں کیونکہ سیلاب نے کنویں اور ہینڈ پمپ کے پانی کو بھی متاثر کیا ہے ۔یہ گھر پیر بابا بازار کے راستے میں آتا تھا اور اس وقت ریسکیو اہلکار ایمبولینس کے ذریعے مردہ و زخمی افراد کو ہسپتال پہنچا رہے تھے ۔ جب میں نے اس شخص کے ساتھ لائیو تبصرہ شروع کیا تو چند مقامی رہنما کیمرے کو دیکھ کر رک گئے تاکہ انٹرویو دے سکیں لیکن میں انکو آن ایئر شرم دلائی کہ آپکے علاقے کا یہ شخص اپنی مدد آپ کے تحت گھر سے سامان نکال رہاہے کم از کم اس کی مدد نہیں کرسکتے تو کھانے یا پانی کا بندوبست کر دیں تو انکا جواب تھا پیر بابا بازار میں بہت تباہی ہوئی ہے آپ وہاں جائیں ۔ اس دوران لائیو شو میں ہمارے چینل نے وزیر اعلیٰ کے ترجمان فراز مغل سے بھی رابطہ کیا اور انکو بتایا کہ ابھی تک حکومتی امداد نہیں پہنچ سکی جبکہ انہوں نے وضاحت دی کہ ریسکیو ۱۱۲۲کے اہلکار اور ایمبولینس پہنچ چکی ہے بلکہ آرمی اور صوبائی حکومت کا ایک ہیلی کاپٹر بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے ۔

    پیر بابا بازار کی رات کا منظر

    خیر ہم وہاں سے جب پیر بابا بازار کی طرف روانہ ہوئے تو آسمان پر اندھیرا چھا چکا تھا اور زمین کی بھی یہی صورتحال تھی کیونکہ ہم نے راستہ میں دیکھا جہاں کھڑی فصلیں ، جنگل تباہی کا منظر پیش کررہے تھے وہیں بڑی تعداد میں درخت، بجلی کی تاریں اور کھمبے گرے ہوئے تھے جسکی وجہ سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے نہ صرف بونیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں بلکہ سواتاور شانگلہ میں بھی بجلی منقطع کردی تھی ۔ بہرحال ہم آگے بڑھے تو پیر بازار جہاں جنرل سٹور، کھانے پینے ، مٹھائی ، کپڑے ، الیکٹرانکس، ورکشاپس۔ پیربابا مزار سے متصل سوغات سے بھری سو سے زائد دکانیں تھیں وہ سامان سمیت تباہی کا منظر پیش کررہی تھیں ۔ راستے بند تھے ہر طرف کیچڑ نظر آرہا تھا ، گھر، دکانیں، گیراج، کاروباری عمارتیں سیلابی پانی اور اس میں آنے والی ریت سے بھر چکی تھیں ۔ جو گاڑی سیلاب سے پہلے زمین پر کھڑی تھی وہ یا تو سیلابی پانی کی نذر ہو گئی یا عمارتوں کی چھتوں پر پہنچ گئی تھیں جو افراد سیلاب سے بچ گئے تھے وہ بے بسی اور صدمے میں ڈوبے ہوئے تھے کیونکہ کسی کا گھر تباہ تھا تو کسی کے پیارے سیلابی پانی کی وجہ سے لاپتہ یا جاں بحق ہوگئے تھے ۔ جس سے بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ سیلاب کی توقع نہیں تھی اور وہ بھی اتنا شدید جسکی ماضی میں کم ہی مثال ملتی ہے ۔ سب کچھ آناً فاناً ہوااور ہر طرف ایک افراتفری کا عالم تھا۔ ہر کوئی اس کوشش میں تھا کہ اپنے آپ اور پیاروں کو بچائے ۔ مقامی افراد کے مطابق چونکہ یہ سب کچھ اچانک ہوا اس لئے امدادی ادارے موجود نہیں تھے اور امدادی سرگرمیاں بھی سیلاب کے کچھ گھنٹوں بعد شروع ہوئیں ۔ چونکہ رات گہری ہوگئی تھی تو ہم نے کوریج کو روکا اور صبح کا انتظار کرنے لگے اور نزدیک درگاہ شلبانڈی شریف تھی تو وہاں قیام کیا وہاں ہماری بہترین مہان نوازی کی گئی ۔

    پیر بابا بازار کا سیلاب کے دوسرے دن صبح کا منظر

    سیلاب کے دوسرے دن صبح ہم ڈگر سے متصل دیہات گئے جہاں ہم نے سیلاب سے منہدم اور بہہ جانے رابطہ پل دیکھے اور جب پیر بابا پہنچے تو سڑک سے کیچڑ ہٹانے کے لئے ضلعی انتظامیہ کی گاڑیاں پہنچ چکی تھیں لیکن بڑی تعداد میں عوام پیدل ، موٹر سائیکل اور گاڑیوں پر جائے وقوعہ کی طرف رواں دواں تھے ان میں اجتماعی نمازہ جنازہ میں شرکت کرنیوالے ،رضاکار ، سرکاری حکومتی ،منتخب ممبران پارلیمنٹ ، سیاسی شخصیات میڈیا سے وابستہ افراد اور عام شہری شامل تھے ۔ کچھ تو ایسے تھے جو تماش بین تھے جس کے باعث روڈ پر جہاں صفائی کا کام جاری تھا گاڑیوں کی آمد سے بلاک ہورہا تھا اور امدادی کاموں اور ایمبولینس کی آمدورفت میں خلل پڑ رہا تھا ۔پیر بابا بازار ہر قدم پر ایک نئی کہانی تھی راستے دریا برد ہوچکے تھے ہم کیچڑ اور سیلابی پانی سے پیدل گزر کر کوریج کررہے تھے اور اس دوران ایک پرائیویٹ سکول پہنچے جہاں اساتذہ نے جب اچانک سیلاب آیا تو مختلف کلاس روم میں موجود پرائمری تا مڈل کے ڈھائی سو بچوں کو بچایا ۔ اسکی ہم نے کوریج کی جو اے آر وائے نیوز پر ایکسلوسیو چلی ہے

    قدر نگر اور بیشنوئی کا منظر

    پیر بابا سے آگے ہم قدر نگر اور بیشنوئی گئے جہاں سب زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا جو اے آر وائے نیوز نے مختلف زاویوں سے کور کیا اور اپنے ناظرین کو بھی اس سے آگاہ کیا، یہ سر سبز جاذب نظر پہاڑی علاقے ہیں اور الم کا پہاڑی علاقہ بھی اس کے قریب ہے جہاں اکثر سیکیورٹی فورسز کلئیرنس آپریشن بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہاں تو پورے کے پورے گاوں زمین بوس ہوچکے تھے ، رابطہ پل ٹوٹ چکے تھے لیکن حکومت نے فوری ایکشن لیتے ہوئے عارضی راستہ بنایا۔ یہاں نقصان کی وجہ یہ بتائی جارہی تھی کہ پہاڑوں پر شراٹے دار بارش کا پانی گرا تو اس نے پہاڑوں کی نرم زمین کو چیرنا شروع کیا تو اس میں سے مٹی ،ریت بھی آبادی کی طرف بہنا شروع ہوگئی جسکی وجہ سے بڑے دیو ہیکل پتھر وہ بھی تیزی سے نیچے لڑکھتے ہوئے آبادی پر گرنا شروع ہوگئے اور چونکہ سر سبز ہونے کے باوجود یہاں درختوں کی انتہائی محدود تعداد تھی تو پانی ریت پتھر اور مٹی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکے۔ اس علاقے کی آبادی کا رہن سہن کا اپنا طریقہ ہے ۔ چونکہ یہاں وسائل کم ہوتے ہیں گزر بسر مقامی کھیتی باڑی ،جنگل سے لکڑی کاٹ کر اسکا ایندھن کے طور پر استعمال ہے اور گھر کشادہ اور منزل بہ منزل ہوتے ہیں تو ایک ایک گھر میں پچیس تا تیس افراد رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تیز سیلابی پانی جو اپنے ساتھ پانی ،بجری، ریت اور پتھر لایا وہ اس آبادی سے ٹکرایا تو جہاں بڑی تعداد میں مکانات زمین بوس ہوئے اور ملبہ کا ڈھیر بن گئے وہیں ان میں موجود آبادی کی بھی بڑی تعداد میں اموات ہوئیں اور پھر ہر گھر کی اپنی کہانی تھی ۔ ان میں کچھ تو ایسے بھی تھے جنکے خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا اور وہ ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے اور کچھ کو سیلابی پانی بہا کر لے گیا پھر ان میں سے جن کی لاشیں ملیں وہ اکثر مسخ شدہ تھیں کہ شناخت بھی مشکل تھی اور جب امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تو وہ سست تھیں کیونکہ حکام کا بتانا تھا کہ وہ ملبے کو فورا ًبھاری مشینری سے ہٹانے سے گریزاں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کوئی زندہ ہو تو بھاری مشین سے اس کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے ۔ تاہم جب یقین ہوگیا کہ یہاں کوئی زندہ نہیں بچا تو پھر بھاری مشین استعمال کی گئی ۔

    عوام کے تاثرات

    ان علاقوں میں جن افراد سے ملاقات ہوئی ان کا ایک لفظ تھا کہ بس قدرتی آفت تھی تاہم زیادہ تر امدادی کاموں سے خوش تھے اور کچھ کی یہ شکایت تھی کہ رضاکار ،خیراتی ادارے و امدادی ادارے بڑی تعداد میں ان علاقوں کی طرف جارہے ہیں جہاں تباہی زیادہ ہوئی ہے اور کم تباہی والوں کو امداد کے حوالے سے کم توجہ مل رہی ہے حالانکہ نقصان انکا بھی ہوا ہے ۔وہ اپنے برباد گھروں کے دوباری اباد کاری پر پریشان نظر ارہے تھے کیونکہ انکی جمع پونجی سب سیلاب کی نظر ہوچکی تھی ۔کچھ ایسے بھی ملے جنکی بچیوں کی شادی ہونے تھی تو زیور اور دیگر سامان بھی نہیں رہا ۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا ایک طرف اتنی زیادہ خوراک تھی کہ ضائع ہورہی تھی اور دوسری طرف لوگ خوراک کے لئے بھاگ رہے ہوتے تھے ۔ جب کبھی ایسی صورتحال ہوتی تو تماش بین بھی بڑی تعداد میں پہنچ جاتے ہیں جسکی وجہ سے روڈ بلاک ہو جاتے ہیں اور امدادی سرگرمیوں میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں ۔ اس واقعے کو سات روز ہوچکے ہیں لیکن اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب بھی ملبہ ہٹایا جارہا ہے ۔ آخری موصولہ اطلاع کے مطابق صوبہ بھر میں 393 افراد جاں بحق، 423 مکان اور 50 سکول مکمل تباہ، 1288 گھر اور 216 سکول جزوی تباہ ہوئے ہیں۔

    خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے ریسکیو کاررائیوں کے بعد اب متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے کام کا آغاز ہوچکا ہے اور متاثرہ افراد کو امدادی چیکس بھی حوالے کر دیے گئے ہیں۔

    اس المناک سانحے اور قدرتی آفت کی لمحہ بہ لمحہ کوریج کرنیوالے سٹاف کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں نے دن رات ایک کرکے ناظرین تک اصل حقائق پہنچائے میں بطور بیوروچیف خیبرپختونخوا تمام سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن میں رپورٹرز ظفر اقبال، شازیہ نثار، نواب شیر،عدنان طارق،مدیہہ سنبل نمائندہ بونیر سید شوکت علی، نمائندہ بونیر ریاض خان، نمائندہ سوات شہزادعالم و کامران ، نمائندہ شانگلہ سرفراز خان، نمائندہ باجوڑ ظفر اللہ بنوری، نمائندہ مانسہرہ طاہر شہزاد، نمائندہ اپردیر جمیل روغانی، نمائندہ لوئر دیر حنیف اللہ، نمائندہ بٹگرام نورالحق ہاشمی، کیمرہ مین ، ارشد خان، حیات خان، ارسلان جنید، واحد خان۔ عدیل اور محمد شکیل، ڈی ایس این جی انجینئرز طائفل نوید ۔روح اللہ ،لئیق علی شاہ، شکور، سجاد۔ ڈرائیورز محمد رؤف، عرفان، عظمت ۔آصف اور ہیلپر ہارون شامل ہیں۔

  • 2025: ماحولیاتی تباہیاں اور پاکستان میں مون سون: عالمی بحران، ایک مقامی حقیقت

    2025: ماحولیاتی تباہیاں اور پاکستان میں مون سون: عالمی بحران، ایک مقامی حقیقت

    سال 2025 دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے نے مختلف خطّوں کو شدید اور غیر معمولی ماحولیاتی آفات کی زد میں ڈال دیا۔ عالمی ادارۂ موسمیات (WMO) کے مطابق، 2025 کے پہلے آٹھ ماہ میں زمین کا اوسط درجۂ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں 1.4 ڈگری سیلسیس زیادہ رہا۔ یہ وہ سنگین حقیقت ہے جس نے دنیا کے کئی خطوں میں قہر برپا کر دیا، اور پاکستان بھی اس کی لپیٹ سے محفوظ نہ رہا۔

    دنیا بھر میں 2025 کی ماحولیاتی تباہیاں

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی رپورٹ کے مطابق، سال 2025 کے دوران یورپ نے اپنی تاریخ کی سب سے طویل گرمی کی لہر دیکھی۔ اٹلی، اسپین اور فرانس میں درجہ حرارت 45 ڈگری سے اوپر جا پہنچا۔ نتیجتاً فصلیں جھلس گئیں، بجلی کا نظام ناکام ہوا اور ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔اسی دوران امریکہ اور کینیڈا میں جنگلاتی آگ نے لاکھوں ہیکٹر رقبہ راکھ کر دیا۔ بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) نے اپنی تازہ رپورٹ میں نشاندہی کی ہے کہ بڑھتا ہوا درجۂ حرارت اور طویل خشک سالی جنگلاتی آگ کے خطرے کو دگنا کر رہا ہے۔

    افریقہ میں ایتھوپیا، صومالیہ اور سوڈان جیسے ممالک شدید خشک سالی اور قحط کی زد میں رہے، جہاں لاکھوں افراد خوراک اور پانی کی کمی کا شکار ہوئے۔ جنوبی ایشیا کے کئی حصوں میں سمندری طوفان اور بارشیں تباہی لائیں، خصوصاً پاکستان، بنگلہ دیش اور فلپائن میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ یہ سب مظاہر ایک ہی سمت اشارہ کر رہے ہیں: دنیا ماحولیاتی بحران کے نازک ترین دوراہے پر کھڑی ہے۔

    پاکستان میں مون سون کی تباہ کن بارشیں

    پاکستان میں 2025 کی مون سون بارشیں اپنی شدت اور پھیلاؤ کے اعتبار سے گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔ کشمیر، گلگت بلتستان،لاہور، پشاور اور اندرونِ سندھ کے کئی علاقے زیرآب آ گئے اور تباہیوں کی نئی داستانیں رقم ہوئیں۔ اقوام متحدہ کے ایک مطالعے کے مطابق، بارشوں کی شدت موسمیاتی تبدیلی کے باعث کم از کم 30 فیصد بڑھ گئی، اور یہ اضافہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا نتیجہ ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین ڈوب گئی۔ کپاس، چاول اور گنے کی فصلیں تباہ ہوئیں، جس سے پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ شہری علاقوں میں نکاسیِ آب کے ناقص نظام نے صورتحال کو مزید خراب کیا۔ گلگت بلتستان اور کے پی کے میں گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے اور انفرا اسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا۔

    گلگت بلتستان اور گلیشیئرز کا خطرہ

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایک اور خاموش مگر مہلک خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے گلیشیئرز دنیا میں سب سے تیزی سے پگھلنے والے گلیشیئرز میں شمار ہوتے ہیں۔ UNEP اور پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، گزشتہ بیس برسوں میں گلیشیئرز کے حجم میں 25 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس پگھلاؤ نے درجنوں گلیشیائی جھیلیں پیدا کر دی ہیں، جن میں سے کئی ہر وقت پھٹنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 2025 کے دوران ضلع غذر اور ہنزہ میں کم از کم تین بار ایسے واقعات پیش آئے جن سے مقامی آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ یہ صورتحال نہ صرف مقامی برادریوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ ملک بھر کی آبی سلامتی کے لیے بھی۔ دریائے سندھ کا زیادہ تر بہاؤ انہی گلیشیئرز پر منحصر ہے۔ اگر یہ تیزی سے پگھلتے رہے تو آنے والے برسوں میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔

    سماجی و معاشی نقصانات

    2025 کی تباہ کاریوں نے پاکستان میں نہ صرف بنیادی ڈھانچے کو متاثر کیا بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں کو براہِ راست بدل دیا۔ دیہی علاقوں میں مکانات منہدم ہوئے، تعلیمی ادارے بند ہوئے اور صحت کی سہولتیں مفلوج ہوئیں۔ متاثرہ علاقوں میں ڈینگی اور ہیضہ جیسے امراض کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ گیا۔ زراعت، جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کے مطابق، صرف مون سون بارشوں اور سیلابوں کے باعث پاکستان کی زرعی پیداوار میں 15 فیصد کمی واقع ہوئی۔

    عالمی تباہیاں اور پاکستان کا ربط

    پاکستان کی صورتحال کو اگر دنیا کے دیگر خطوں میں رونما ہونے والی آفات کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تو یہ ایک ہی کہانی کے مختلف ابواب ہیں۔ یورپ میں گرمی کی لہریں، افریقہ میں خشک سالی، امریکہ و کینیڈا میں جنگلاتی آگ، اور پاکستان میں بارشوں کے طوفان سب ایک ہی سلسلے کا حصہ ہیں۔ IPCC کی چھٹی رپورٹ (AR6) نے خبردار کیا تھا کہ اگر درجہ حرارت 1.5 ڈگری سے اوپر چلا گیا تو دنیا کو شدید اور ناقابلِ واپسی نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 2025 کی صورتحال نے یہ خدشات ایک تلخ حقیقت میں بدل دیے ہیں۔

    پاکستان کو فوری طور سے ہنگامی بنیادوں درج ذیل اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ارلی وارننگ سسٹمز کو دیہی سطح تک مضبوط اور قابلِ عمل بنانے کے ساتھ شہری منصوبہ بندی میں ماحولیاتی لچک کو شامل کرنا ہو گا تاکہ بڑے شہروں میں نکاسی آب اور انفراسٹرکچر مستقبل کے دباؤ کو برداشت کر سکے، زرعی شعبے کو کلائمٹ ریزیلینٹ بیج اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے تاکہ فصلیں غیر معمولی بارشوں یا خشک سالی کو برداشت کر سکیں، گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر ریسرچ اور مانیٹرنگ سسٹم کو جدید بنانا ہو گا تاکہ GLOFs جیسے واقعات سے بروقت نمٹا جا سکے،عالمی سطح پر کلائمٹ فنانس کے حصول کے لیے پاکستان کو زیادہ متحرک سفارت کاری کے ذریعے باور کرانا ہو گا کہ پاکستان موسمیاتی تباہیوں کا مرکز بن چکا ہے تاکہ نقصانات کی تلافی اور لچکدار معیشت کی تعمیر ممکن ہو سکے۔

    2025 کی ماحولیاتی تباہیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ موسمیاتی بحران اب مستقبل کی دھمکی نہیں بلکہ حال کی حقیقت ہے۔ پاکستان کی مون سون بارشیں اور گلگت بلتستان کے پگھلتے گلیشیئرز اس بحران کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والی نسلیں ایک ایسے پاکستان کی وارث ہوں گی جہاں پانی کمیاب، زمین بنجر اور موسم مہلک ہوگا۔ یہ لمحہ موجود ایک انتباہ ہے کہ ہمیں اپنی پالیسیوں، طرزِ زندگی اور ترقیاتی منصوبوں کو فوری طور پر ماحولیاتی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ورنہ، 2025 کی تباہیاں محض آغازہیں اور انجام؟؟

    حوالہ جات:
    عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)، 2025 — عالمی موسم کی صورتحال پر رپورٹ
    اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، 2025 — ماحولیاتی ایمرجنسی پر تازہ رپورٹس
    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC)، چھٹی جامع رپورٹ (AR6)، 2023–2025 کے نتائج
    فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO)، 2025 — جنوبی ایشیا میں زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات
    پاکستان محکمہ موسمیات (PMD)، 2025 — مون سون بلیٹن اور گلیشیئر مانیٹرنگ رپورٹس
    ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB)، 2024–2025 — پاکستان میں موسمیاتی اور قدرتی آفات سے تحفظ کی حکمتِ عملی

  • موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    موسمیاتی تبدیلی: عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ اور نیا عالمی ضمیر

    رواں سال دنیا کے لیے موسمیاتی بحران کی شدت اور عالمی ماحولیاتی انصاف کے مطالبات کے حوالے سے ایک اہم موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ جولائی کے آخر میں عالمی عدالتِ انصاف (ICJ) نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک تاریخی مشاورتی رائے دی ہے، جسے چھوٹی جزیرہ ریاستوں، ماحولیاتی کارکنان اور ترقی پذیر ممالک کی دیرینہ کاوشوں کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔

    یہ فیصلہ ایک طرف بین الاقوامی قوانین میں ماحولیاتی ذمہ داریوں کی وضاحت کرتا ہے، تو دوسری طرف عالمی طاقتوں کو ایک اخلاقی آئینہ دکھاتا ہے۔ دنیا کی اعلی ترین عدالت میں اس کیس کا دورانیہ 6 سال پر محیط تھا۔ یہ آئی سی جے کے سامنے آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ تھا جس میں 91 ملکوں نے تحریری بیانات جمع کرائے جب کہ 97 ملکوں نے زبانی دلائل میں حصہ لیا۔

    عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    یہ سفر 2019 میں اُس وقت شروع ہوا جب موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ بحرالکاہل کی چھوٹی ریاست وانواتو (Vanuatu) نے بین الاقوامی عدالت سے یہ درخواست کی کہ وہ اقوامِ متحدہ کے رکن ممالک کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کی قانونی تشریح کرے۔ وانواتو کے ساتھ ٹووالو، مارشل آئی لینڈز، اور دیگر درجنوں جزیرہ ریاستیں بھی کھڑی ہو گئیں جو سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ طلبہ، سماجی تنظیموں‌ اور سول سوسائٹی کے نیٹ ورکس نے اسے ایک عالمی تحریک میں بدل دیا۔ یہ محض قانونی مشورہ نہیں بلکہ انسانیت کا وہ مقدمہ تھا جس میں مدعا علیہ پوری دنیا تھی۔

    عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات نہ کرنا بین الاقوامی انسانی حقوق اور ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ تمام ریاستیں ماحول کو نقصان سے بچانے کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری رکھتی ہیں، مشترکہ مگر امتیازی ذمہ داری کا اصول ان پر لاگو ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ امیر اور صنعتی ممالک کو زیادہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ کے لیے فوری، مؤثر اور مساوی اقدامات عالمی قانون کے تحت ضروری ہیں۔ انسانی حقوق، بالخصوص زندگی، صحت، اور باعزت رہائش کا حق، موسمیاتی تبدیلی سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔

    یہ رائے اگرچہ باضابطہ ”قانونی طور پر لازم” نہیں، مگر اقوامِ متحدہ، ماحولیاتی ادارے، اور دنیا بھر کی عدالتیں اس کو مستقبل میں حوالہ کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے، جو عالمی آلودگی کے محض 1 فیصد کے ذمہ دار ہیں مگر شدید موسمیاتی آفات (سیلاب، خشک سالی، گلیشیئر پگھلاؤ، ہیٹ ویو اور دیگر) کا سامنا کر رہے ہیں، یہ فیصلہ ایک اخلاقی اور قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے تاکہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے موسمیاتی انصاف کا مطالبہ کر سکیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب، جس نے پاکستان کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا، ماحولیاتی عدم مساوات کی زندہ مثال ہے۔ اب اس عدالتی رائے کی روشنی میں پاکستان نہ صرف اقوام متحدہ میں مضبوط مؤقف اپنا سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے موسمیاتی انصاف پر مبنی فنڈنگ اور امداد کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے۔

    عالمی عدالت کے فیصلے پر بڑے ممالک کا ردعمل دلچسپ مگر مختلف رہا۔ امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ مشاورتی رائے ”مذاکرات کے عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔” ان نمائندوں کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی فورمز زیادہ موزوں پلیٹ فارم ہیں۔ گویا وہ قانونی ذمہ داری کے بجائے رضاکارانہ اقدامات پر زور دیتے ہیں۔ چین نے کہا کہ ترقی پذیر دنیا کو مالی مدد ضرور ملنی چاہیے مگر ہر ملک کی ”قومی خود مختاری” کا احترام بھی لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین بھی قانونی پابندیوں کے بجائے باہمی سمجھوتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ یورپی یونین نے جزوی حمایت کی، اور کہا کہ وہ پہلے ہی Net Zero کے اہداف اور گرین انرجی پر کام کر رہے ہیں، مگر بعض یورپی ملکوں نے فیصلے کے قانونی اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی

    یہ واضح ہے کہ بڑی طاقتیں فیصلے کے سیاسی اور قانونی مضمرات سے باخبر ہیں مگر مکمل قبولیت کے لیے تیار نہیں۔ لیکن عالمی دباؤ اور اخلاقی بوجھ کے باعث وہ اس سے مکمل طور پر انکار بھی نہیں کر سکتیں۔

    عدالتی فیصلے کے فوراً بعد، دنیا بھر میں اس پر مختلف آرا سامنے آئیں۔ چھوٹے ممالک، ترقی پذیر دنیا، اور ماحولیاتی تحریکوں نے اسے ”انصاف کی طرف پہلا عملی قدم” قرار دیا۔ وانواتو کے وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، رالف ریگنوا (Ralph Regenvanu) نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ فیصلہ ہماری توقعات سے بھی زیادہ مضبوط ہے، اب دنیا یہ نہیں کہہ سکتی کہ ماحولیاتی تباہی کے خلاف کارروائی صرف ایک اخلاقی مسئلہ ہے، یہ ایک قانونی ذمہ داری ہے۔“

    تاہم کچھ بڑی طاقتوں، خاص طور پر وہ ممالک جن کی معیشتیں کوئلے، تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہیں، نے اس فیصلے کو نرم الفاظ میں لیا اور خود پر لاگو قانونی نتائج کو نظر انداز کیا۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنسیں (COP) اس فیصلے کی بنیاد پر مزید سخت قانونی معاہدوں کی طرف جا سکتی ہیں۔ ”ماحولیاتی انصاف“ اب صرف ایک سماجی نعرہ نہیں رہا، بلکہ اقوام متحدہ، عالمی عدالتیں، اور بین الاقوامی معاہدے اسے قانونی اور عملی اصول کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں ICJ کا یہ فیصلہ ایک سنگِ میل ہے، جو درج ذیل پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے:

    آلودگی پھیلانے والا ازالہ کرے: جو ملک ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں، انہیں ہی مالیاتی طور پر اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔

    نسل در نسل انصاف: موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ نسلوں کو محفوظ ماحول دے۔

    شہری حقوق اور ماحول: صاف ماحول تک رسائی کو بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔

    پاکستان، جو دنیا کے سب سے کم کاربن خارج کرنے والے ملکوں میں شامل ہے، ہر سال موسمیاتی آفات کا بوجھ سہتا ہے۔ 2022 کے سیلاب میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آگیا۔ 1700 سے زائد افراد جان سے گئے اور 3 کروڑ سے زائد متاثر ہوئے، جب کہ معاشی نقصان 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ 2025 میں بھی غیر متوقع گرمی کی لہر، قحط، اور قبل از وقت مون سون نے ماحولیاتی بحران کی سنگینی کو مزید بڑھایا ہے۔ پاکستان کے لیے ICJ کا فیصلہ اس لیے اہم ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون میں اس کے مقدمے کو تقویت دیتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک پر مالی، تکنیکی اور اخلاقی دباؤ بڑھے گا۔ پاکستان اب Loss & Damage فنڈ، گرین کلائمیٹ فنڈ، اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قانونی بنیاد پر معاوضے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ پاکستانی عدالتیں اور پارلیمان اب ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کو داخلی قانون سازی میں شامل کر سکتی ہیں۔

    عالمی عدالت انصاف کا یہ فیصلہ اگرچہ قانونی طور پر لازم نہیں، مگر اس کا اخلاقی وزن اور سیاسی اثر زبردست ہے۔ یہ انسانی تاریخ کے اس موڑ پر آیا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ بقاء کا مسئلہ بن چکی ہے۔ پاکستان، جو ماحولیاتی عدم مساوات کا زندہ استعارہ ہے، اب ایک مضبوط مقدمہ پیش کر سکتا ہے: ”ہم نے آلودگی نہیں پھیلائی، مگر ہم مر رہے ہیں۔” اب وقت ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، اور قانون، اخلاق، اور انصاف ایک ہی زبان بولیں۔ اب یہ اقوام، سول سوسائٹی، اور پالیسی سازوں پر منحصر ہے کہ وہ اس قانونی رائے کو عملی اقدامات میں کیسے ڈھالتے ہیں۔

  • موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    موسمیاتی تبدیلی اور بارشیں: جب فطرت بغاوت پر اتر آئے

    بارش، جو کبھی خوشحالی اور زرخیزی کی علامت سمجھی جاتی تھی، اب تباہی، سیلاب اور انسانی المیوں کو جنم دے رہی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں معمول سے ہٹ کر ہونے والی شدید بارشیں ایک نئے اور غیر متوقع مظہر کی صورت اختیار کر چکی ہیں، جسے سائنسدان موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بارشوں کے اس بگڑتے ہوئے انداز کا تعلق عالمی درجۂ حرارت میں اضافے سے ہے؟ اور اگر ہاں، تو کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں؟

    ماہرین کے مطابق زمین کا ماحولیاتی نظام نہایت متوازن اور حساس ہے۔ جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار بڑھتی ہے، تو نہ صرف درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ فضائی نمی میں بھی غیر معمولی تبدیلی آتی ہے۔ نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن (NOAA) کے مطابق، ہر ایک ڈگری سیلسیئس درجۂ حرارت کے اضافے کے ساتھ فضا میں 7 فیصد زیادہ نمی جذب ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں شدید بارشوں اور طوفانی موسم کی شدت کو بڑھا سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ (2023) میں خبردار کیا گیا کہ ہر گزرتے عشرے کے ساتھ دنیا میں بارش کے پیٹرن میں شدت، طوالت اور بے ترتیبی بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا، وسطی افریقہ اور لاطینی امریکہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کی 2024 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ عالمی درجۂ حرارت 1.5 ڈگری کے قریب پہنچ چکا ہے، اور اس کی وجہ سے بارش کے سائیکل میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ کہیں طوفانی بارشیں ہیں، تو کہیں مکمل خشک سالی۔

    اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی 2025 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام اور آئی ایم ایف کی 2024 کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ غیر متوقع بارشیں ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو ہر سال اوسطاً 235 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا رہی ہیں، جن میں زراعت، انفراسٹرکچر اور انسانی جان و مال شامل ہے۔

    رواں اور گذشتہ سال کے چند بڑے واقعات کا ذکر کیا جائے تو رواں سال میں برازیل کے جنوبی علاقہ (ریو گراندے دو سل) مئی میں مسلسل دو ہفتے کی طوفانی بارشوں سے 170 افراد ہلاک اور 6000 سے زائد مکانات تباہ ہوئے جب کہ تقریباً 3.4 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ چین کے صوبہ ہنان میں جولائی کے آغاز میں آنے والی صرف 5 دن کی بارش نے 12 اضلاع کو ڈبو دیا۔ نقصان کا اندازہ 2 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا، 200,000 افراد بے گھر ہوئے۔ 2024 میں پاکستان کے صوبے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں شدید بارشیں ہوئیں، مارچ تا جون غیر متوقع بارشوں اور ژالہ باری سے فصلیں تباہ ہوئیں اور معاشی نقصان کا تخمینہ تقریباً 180 ارب روپے (تقریباً 630 ملین ڈالر) لگایا گیا۔ جرمنی اور بیلجیم میں دریائے رائن کے کنارے شدید بارشوں سے صنعتی علاقے متاثر ہوئے۔ نقصان کا اندازہ 1.2 ارب یورو۔

    رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ این ڈی ایم اے اور مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک 279 افراد جاں بحق اور 676 زخمی ہو چکے ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں 151 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جب کہ خیبر پختونخوا میں 64، بلوچستان میں 20، سندھ میں 25، گلگت بلتستان میں 9، اسلام آباد میں 8 اور آزاد کشمیر میں 2 اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔ شدید بارشوں نے نہ صرف انسانی جانیں لیں بلکہ 1,500 سے زائد مکانات کو تباہ کر دیا یا ان کو نقصان پہنچایا، 370 کے قریب مویشی ہلاک ہوئے اور کئی اہم انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پل منہدم ہو گئے۔

    جولائی کے وسط تک ملک میں ہونے والی بارشیں گزشتہ برس کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ریکارڈ کی گئیں، جب کہ پہاڑی علاقوں میں شدید گرمی کے باعث گلیشیئر کے پگھلنے سے بھی فلش فلڈز اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈز (GLOFs) کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ ماہرین کے مطابق ملک کے شمالی علاقوں میں مزید شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے خطرات موجود ہیں، جو آنے والے ہفتوں میں صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔

    ورلڈ میٹررو لوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا براہِ راست تعلق ماحولیاتی تبدیلی سے ہے۔ موجودہ صدی کے وسط تک ایسے واقعات کی شدت دو گنا ہونے کا امکان ہے۔ رواں سال اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو شدید بارشوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اربن فلڈنگ، مٹی کے تودے گرنے اور زرعی تباہی کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہیں۔ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن کے مطابق، 2025 میں صرف پاکستان اور بھارت میں زرعی پیداوار میں 11% کمی کا اندیشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے سیلاب اور بارشوں کے باعث 2024 میں تقریباً 33 ملین افراد نے اندرونِ ملک نقل مکانی کی۔

    یہ صورتِ حال شہری نظام پر مزید دباؤ بڑھا رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر پہلے ہی ماحولیاتی دباؤ، بے ہنگم آبادی، ناقص منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی کا شکار ہیں۔ جب اچانک موسلا دھار بارش ہوتی ہے تو نکاسی آب کا نظام بیٹھ جاتا ہے، کرنٹ لگنے کے حادثات ہوتے ہیں، بجلی، مواصلات اور آمدورفت کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، کچی بستیوں میں مکانات گرنے اور اموات کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔

    بدلتے موسموں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس صورتحال سے نپٹنے کے لیے جو ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن چکی ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو جنگی بنیادوں پر حکمت عملی اپناتے ہوئے اقدامات کرنے ہوں گے جیسے شہری سیلابی نقشے (Urban Flood Maps) بنانا ہوں گے جو ہر بڑے شہر کے لیے خطرے کے زون کی نشاندہی کریں۔ اس کے علاوہ نالوں کی صفائی کے ساتھ ان پر قائم تجاوزات کا خاتمہ، بارش کے پانی کا ذخیرہ، اور مقامی وارننگ سسٹمز کی تنصیب، شجر کاری و سبز انفراسٹرکچر، شہروں میں پارکس، کھلی زمین اور قدرتی نالے کو محفوظ کرنا ہو گا تاکہ پانی جذب ہو سکے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ڈیزاسٹر مینجمنٹ بلز کو نافذ کیا جائے اور اور اس حوالے سے فنڈنگ یقینی بنائی جائے۔

    بارشوں کا تیز اور غیر متوقع انداز موسمیاتی تبدیلی کی زندہ مثال ہے۔ اگرچہ بارش ایک قدرتی عمل ہے، مگر اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ اس کی شدت، وقت، مقام اور اثرات میں جو تبدیلی آ رہی ہے وہ واضح طور پر انسانی سرگرمیوں سے جڑی ہے جس کے نتیجے میں موسمیاتی تبدیلی رونما ہوئی۔ پاکستان جیسے ممالک، جہاں وسائل کم اور خطرات زیادہ ہیں، وہاں مؤثر منصوبہ بندی، سائنسی حکمتِ عملی اور مقامی سطح پر عوام کی شرکت ہی ہمیں ان بارشوں کو ”رحمت” بنائے رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ ورنہ یہ ”عذاب” بن کر ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہیں۔

  • ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    “جب ہماری کشتیاں ساحل پر کھڑی رہتی ہیں، تو ہمارے چولھے بجھ جاتے ہیں۔” لطیفہ ناصر کہتی ہیں۔ “میرے بچے ایک مہینے سے اسکول نہیں گئے، اور ہم اب قرضوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔”

    لطیفہ ناصر اورمارہ کوآپریٹو سوسائٹی کی رکن ہیں ( اور ماہی گیر برادری سے تعلق کی بنا پر مستفید ہونے والوں میں بھی شامل ہیں) یہ سوسائٹی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو ماہی گیروں کی فلاح و بہبود اور معاشی حالات کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔ لطیفہ ناصر کا خاندان بلوچستان کے ضلع گوادر کے ساحلی شہر اورمارہ میں رہتا ہے۔ ان کے شوہر ماہی گیر ہیں، اور علاقے کے بیشتر ماہی گیروں کی طرح ان کا بھی روزگار ایران ،اسرائیل جنگ کے باعث بحران کا شکار ہے۔

    جنوب مغربی پاکستان میں مچھلی اور ایندھن کی ایک اہم تجارت ایران کے ساتھ بند سرحدوں کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

    ایران، اسرائیل تنازع کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی، جس سے ایندھن کی فراہمی اور مچھلی کی برآمد دونوں متاثر ہوئیں۔ یہ دہرا جھٹکا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی اور حد سے زیادہ شکار سے متاثر ماہی گیر برادریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

    بحیرۂ عرب کے کنارے، بلوچستان کا 770 کلومیٹر طویل ساحل ملکی ماہی گیری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    بلوچستان فشریز اور کوسٹل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار علاﺅالدین ککر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ” صوبے کے ماہی گیر ہر سال تقریباً 3 لاکھ 40 ہزار ٹن مچھلی پکڑتے ہیں، جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 19.9 ارب روپے (70.1 ملین ڈالر) ہے۔ اس میں مچھلیوں کی بہت سی قیمتی انواع جیسے ٹونا، اسپینش میکریل، کراکر، انڈین آئل سارڈین اور انڈین میکریل شامل ہیں۔ بلوچستان میں 16,000 رجسٹرڈ اور 6,000 غیر رجسٹرڈ کشتیاں مچھلی کے شکار میں مصروف ہیں، جو ہزاروں خاندانوں کا ذریعۂ معاش ہیں۔“

    علاﺅالدین ککر کے مطابق ”اس گراں قدر معاشی اہمیت کے باوجود یہ شعبہ بدانتظامی، فنڈنگ کی کمی اور بیرونی جھٹکوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ “

    گوادر چیمبر آف کامرس کے چیئرمین شمس الحق کلمتی کے مطابق ”ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دن کی جنگ سے اس شعبے کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ اس سے پہلے ماہی گیر اپنی کشتیاں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سے چلاتے تھے جو غیر قانونی طور پر مگر آسانی سے دستیاب تھا۔ اب سرحدوں کی بندش کے باعث یہ سپلائی چین منہدم ہو گئی ہے۔ اب یہ ایرانی ایندھن یا تو دستیاب نہیں ہے یا پھر خاصا مہنگا ہوچکا ہے مثلا فی لیٹر ایندھن کی قیمت 150 (USD 0.53) روپے سے بڑھ کر 180-200 (USD 0.63-0.70) روپے ہو چکی ہے۔“

    مقامی ذرائع کے مطابق، بلوچستان میں ایرانی ایندھن کی روزانہ درآمد 6 لاکھ بیرل سے گھٹ کر 1 لاکھ 40 ہزار بیرل رہ گئی ہے۔ سرحد بند ہونے سے پہلے گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں 300 سے زائد بڑے آئل ڈپو، 1000 پمپس اور 2000 دکانیں تقریباً مکمل طور پر ایرانی ایندھن فروخت کرتی تھیں، جبکہ پاکستانی پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس صرف دو تھے۔

    تاہم گوادر کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمن کہتے ہیں کہ “صور ت حال اب معمول پر آ چکی ہے اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔”

    ماہی گیری صنعت پر اثرات

    ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سمندری امور کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کا کہنا ہے “یہ بحران صرف معاشی نہیں بلکہ ماحولیاتی بھی ہے۔”

    ان کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اچانک ٹونا جیسی بڑی مچھلیوں کے شکار کا رک جانا سمندری ماحولیاتی توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

    معظم خان کے مطابق موجودہ جغرافیائی کشیدگی نے پاکستان کی ساحلی اور گہرے سمندر کی ماہی گیری کو شدید متاثر کیا ہے، خاص طور پر ٹونا مچھلی کی انواع کو، ہر سال پاکستانی ماہی گیر تقریباً 50 سے 60 ٹن ٹونا اور اس جیسی مچھلیاں پکڑتے ہیں، جن کی زیادہ تر مقدار براہِ راست ایران کو فروخت کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ برآمد غیر قانونی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایندھن کی اسمگلنگ جو اس کے برعکس سمت میں ہوتی ہے، لیکن سرحد پار ان مچھلیوں کے اچھے دام ملتے ہیں۔

    معظم خان کے مطابق بلوچستان کی ٹونا مچھلی عموماً بین الاقوامی منڈیوں کے معیار پر پورا نہیں اترتی، اس لیے ایران ان چند ممالک میں شامل ہے جو اسے اچھے داموں خریدنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایران میں ٹونا کی فی کلو قیمت 300 سے 700 روپے (1.06 سے 2.47 امریکی ڈالر) تک ہے، اور اس برآمدی تجارت کی سالانہ مالیت تقریباً 1.5 کروڑ سے 3.5 کروڑ روپے (52,900 سے 123,300 امریکی ڈالر) کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    معظم خان کہتے ہیں: ”اگر ایرانی مارکیٹ تک رسائی نہ رہی تو پورا ٹونا فشریز سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا، جو ان متاثرہ برادریوں کی آمدنی اور روزگار دونوں کے لیے خطرہ بن جائے گا۔“

    طاہر رشید بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے سی ای او ہیں، جو صوبے کے دیہی غریب اور پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ وہ معظم صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”بلوچستان سے زیادہ تر ٹونا اور دیگر تجارتی مچھلیاں ایران کو بارٹر سسٹم کے تحت بھیجی جاتی ہیں، جہاں ماہی گیر اپنی پکڑی ہوئی مچھلی، بشمول ٹونا، کے بدلے پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرتے ہیں۔“

    یہ بارٹر تجارت عام طور پر ایرانی اسپیڈ بوٹس کے ذریعے کی جاتی ہے، جو ایران اور پاکستان دونوں میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ یہ کشتیاں پاکستانی ماہی گیروں سے مچھلی لینے کے لیے دونوں ممالک کی سمندری سرحد کے قریب اور بلوچستان کے مختلف مقامات جیسے گوادر اور جیوانی تک جاتی ہیں۔

    غریب ماہی گیر، اب غریب تر!

    ٹونا مچھلی کی فروخت کے علاوہ، اس خطے میں پکڑی جانے والی کچھ مچھلیوں کے مختلف حصے (سوئم بلیڈرز) مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منڈیوں میں قیمتی خوراک سمجھے جاتے ہیں مگر سرحد بند ہونے کے باعث ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زمین اور سمندر دونوں کے ذریعے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ نتیجتاً ہزاروں کلوگرام قیمتی تازہ مچھلی فروخت نہیں ہو پا رہی۔

    گوادر کے ماہی گیر نا خدا داد کریم کے مطابق، مقامی منڈی اتنی مضبوط نہیں کہ اضافی مال خرید سکے اور خاص طور پر دور دراز ساحلی قصبوں میں کولڈ اسٹوریج کی سہولتیں بھی نہایت محدود ہیں۔

    مچھلی کو برآمد کے لیے محفوظ کرنے کے طریقوں جیسے کیننگ یا فریزنگ کی کمی یا کہیں کہیں عدم موجودگی کے باعث یہ بحران بلوچستان کی معیشت کے مختلف شعبوں تک پھیل رہا ہے۔

    کلمتی کا کہنا ہے ”باقاعدہ تجارتی راستوں اور مچھلی محفوظ کرنے کے مناسب انتظامات کے بغیر پوری سپلائی چین تباہ ہو رہی ہے۔ برف بنانے والی فیکٹریاں، مچھلی لے جانے والے، پروسیسنگ فیکٹریوں کے مالکان اور کشتیوں کے مکینک ، سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ماہی گیری کا بحران نہیں بلکہ ایک مکمل اقتصادی ایمرجنسی ہے۔”

    اس تمام صورت حال نے ماہی گیروں کی پکڑی ہوئی مچھلی کی قیمتیں مزید گرا دی ہیں۔

    کریم کہتے ہیں ”میں چالیس سال سے سمندر میں جا رہا ہوں، لیکن کبھی اتنے خراب حالات نہیں دیکھے۔ پہلے ہم ایک سفر پر تقریباً 15,000 روپے (53 ڈالر) خرچ کرتے تھے اور اتنی مچھلی پکڑ لاتے کہ تھوڑا بہت منافع ہو جاتا۔ اب تو صرف ایندھن کا خرچ 30,000 روپے (106 ڈالر) سے تجاوز کر گیا ہے، اور ہم اب اپنی پکڑی ہوئی مچھلی بھی اچھی قیمت پر نہیں بیچ سکتے۔ ہر سمندری سفر میں ایسا لگتا ہے جیسے ہم اپنے مستقبل کو داﺅ پر لگا رہے ہوں۔”

    ناخداداد کریم جیسے بہت سے ماہی گیر اب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا، جو ان ہی کی کشتی پر ان کے ساتھ ماہی گیری میں ہاتھ بٹاتا تھا، اب تعمیراتی کام میں مزدوری کا سوچ رہا ہے کیونکہ وہاں مواقع نسبتاً بہتر ہیں۔

    جمایت جانگیر بلوچ گوادر کے ایک ماہی گیر اور ”مول ہولڈر“ ہیں، یعنی وہ سرکاری طور پر تصدیق شدہ مچھلی کے تاجر ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”ہم میں سے کچھ لوگوں نے سمندر میں جانا چھوڑ دیا ہے، نقصان اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے ہم اسپینش میکریل، باراکوڈا، بڑی کراکر مچھلیاں اور ٹونا ایرانی خریداروں کو بیچتے تھے۔ وہ ہمیں نقد اچھے دام دیتے تھے۔ اب کوئی خریدنے والا ہی نہیں، اور مقامی تاجر بھی آدھی قیمت لگا رہے ہیں۔“

    خشکی پر خواتین کے دکھ!

    اگرچہ سمندر میں جا کر مچھلی پکڑنے کا کام زیادہ تر مرد کرتے ہیں، لیکن اس بحران سے خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

    گوادر سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بلوچ کہتی ہیں”یہاں خواتین مچھلی نہیں پکڑتیں، لیکن ہم مچھلیوں کی درجہ بندی کرتے ہیں، انہیں سکھا کر بیچتے ہیں۔ اب جب کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے تو ہماری مزدوری بھی ختم ہو گئی ہے۔“

    ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مچھلی کی برآمدی منڈی کے ختم ہو جانے سے بہت سی کشتیاں سمندر میں جانا بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے ساحلی برادریاں سستی مچھلی سے بھی محروم ہو گئی ہیں جس پر ان کا روزگار اور خوراک دونوں کا انحصار تھا۔

    پاکستان فشر فوک فورم کے طالب کچھی، جو ماہی گیر برادریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رکن ہیں، ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ یہ برادریاں صرف پیسے ہی نہیں بلکہ اپنی خوراک کا ذریعہ بھی کھو رہی ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”جو خواتین آزادانہ طور پر مچھلی فروخت کرکے کچھ پیسے کماتیں اور اپنے خاندان کے لیے خوراک کا انتظام کرلیتی تھیں ، وہ اب پریشان ہیں ، اب وہ سستی ترین مچھلیاں جیسے سارڈین اور انڈین میکریل خریدنے کے قابل بھی نہیں رہیں، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے خوراک تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔”

    فشر فوک کوآپریٹو سوسائٹی گوادر کے جنرل سیکریٹری سمیع گل کا کہنا ہے،”مچھلی پروسیسنگ کرنے والی خواتین کی اجرتوں میں بھی کمی آ رہی ہے، اور چھوٹے دکان داروں کو فروخت کے لیے سستی مچھلی نہیں مل رہی۔“

    وہ مزید کہتے ہیں ”غریب لوگ مرغی یا گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا اگر یہی صورت حال جاری رہی تو یہ ایک سنگین غذائی قلت اور غذائی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔“

    گوادر چیمبر آف کامرس کے کلمتی کا مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری مداخلت کریں، ماہی گیروں کے لیے ایندھن پر زر تلافی کا اعلان کریں اور سرحد کو کھول کر باقاعدہ ضابطے کے تحت تجارت بحال کریں۔

    سرکاری عہدیدار علاﺅالدین ککر بھی اس بحران کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہم نے 38 کروڑ روپے (1.34 ملین امریکی ڈالر) کے اعانتی فنڈ کی تجویز پیش کی ہے، جس کا مقصد ماہی گیری شعبے میں ایمرجنسی بنیادوں پر مہنگے ایندھن کے لیے زر تلافی، فلاحی اسکیمیں اور متاثرہ ماہی گیروں کے لیے معاوضے کی ادائیگی ہے۔

    بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے طاہر رشید کہتے ہیں کہ اگر صوبے میں کولڈ اسٹوریج، کیننگ اور دیگر جدید بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تو ماہی گیری کی صنعت کو ایک منافع بخش برآمدی شعبے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے بارٹر سسٹم پر انحصار کم ہوگا اور معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں ”ہمیں فوری طور پر اقدام کرنا ہوگا۔“

    بلوچستان کی ماہی گیری کی صنعت، جو کبھی ساحلی معیشت کا ستون تھی، اب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات صوبے کی سرحدوں سے کہیں آگے تک محسوس ہوں گے۔

    (شبینہ فراز اور عبدالرحیم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • ماحول کی جنگ: ہم کس طرف کھڑے ہیں؟

    ماحول کی جنگ: ہم کس طرف کھڑے ہیں؟

    دنیا کی نبض تیز ہو چکی ہے، فضا گرم ہو رہی ہے، پانی کم ہوتا جا رہا ہے، اور زمین بے ترتیب سانس لے رہی ہے۔ وہ جو کل محض سائنسی انتباہات تھے، آج ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اپنے حالیہ خطاب میں کہا کہ ”موسمیاتی تبدیلی قابو سے باہر ہے۔ اگر ہم اہم اقدامات میں تاخیر کرتے رہے تو تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔“

    2023 دنیا کے لیے سب سے گرم سال ثابت ہوا، اور 2024 کے ابتدائی چھ ماہ نے اس تسلسل کو جاری رکھا۔ یورپ میں شدید گرمی کی لہریں، امریکہ میں جنگلات کی آگ، افریقہ میں قحط، اور جنوبی ایشیا میں بے وقت بارشیں اور شدید گرمی کی لہریں یہ سب اب اس نئے معمول کا حصہ ہیں۔ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ ماحولیاتی تباہی کے واضح اشارات سے بھرے پڑے ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جو کچھ پیش آیا، وہ اتفاقی نہیں بلکہ ایک منظم عالمی موسمیاتی اور ماحولیاتی بحران کی جھلک ہے۔

    پاکستان اس جنگ کا محاذِ اوّل بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ ہم خطرے میں ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے پاس فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کا وقت کم ہے۔

    رواں سال موسمیاتی بحران کے سبب آنے والی چند سنگین آفات کا ذکر کریں تو جنوری میں میکسیکو سٹی میں پانی کا مرکزی ذخیرہ تقریباً خشک ہو چکا تھا۔ تین ملین افراد پانی کی تلاش میں سڑکوں پر آ گئے۔ مارچ میں البرٹا اور برٹش کولمبیا کے جنگلات میں لگی آگ نے 54 ملین ایکڑ سے زیادہ رقبے کو راکھ کر دیا۔

    NASA کے مطابق، صرف تین ماہ میں 2023 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ زمین جل چکی ہے۔ اپریل میں صومالیہ، ایتھوپیا اور کینیا میں قحط کے حالات پیدا ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اسے ”موسمیاتی قحط” قرار دیا۔ جون میں چین کے تین صوبوں میں صرف 24 گھنٹوں میں 600 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوئی، جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے اور زرعی زمین تباہ ہو گئی۔ مئی میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے متعدد شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر گیا۔ پاکستان میں درجنوں افراد ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوئے جب کہ یورپ کا خطّہ جہنّم کی آگ کا نمونہ پیش کرتا رہا۔

    پاکستان عالمی کاربن کے اخراج میں صرف 0.8 فیصد حصہ ڈالتا ہے، لیکن موسموں کے تباہ کن اثرات میں سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ رواں سال گلگت بلتستان میں گلیشیئر پھٹنے کے کم از کم پانچ واقعات رپورٹ ہوئے، جن سے کئی دیہات خالی کرانے پڑے۔ کراچی، لاہور، جیکب آباد اور دادو میں ”ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ” کے سبب درجۂ حرارت 3 سے 4 ڈگری اضافی محسوس کیا گیا۔ ملک کے بیشتر حصے کو گلیشیر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورتحال کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق، پاکستان میں 2025 کے اختتام تک ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 20 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔

    بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (IPCC) نے رواں سال جون میں کہا کہ ”ہم ناقابلِ واپسی ماحولیاتی نکات کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ مؤثر ماحولیاتی اقدامات کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔“ عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) – کلائمٹ واچ رپورٹ 2025 کے مطابق اس بات کا امکان 98 فیصد ہے کہ 2025 تاریخ کا سب سے گرم سال ہوگا، اور اس سال عالمی درجۂ حرارت عارضی طور پر 1.5 ڈگری سیلسیس کی حد عبور کر جائے گا۔

    اقوامِ متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کی ایمیشنز گیپ رپورٹ 2025 کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی پالیسیوں کے تحت ہم اس راستے پر گامزن ہیں جو ہمیں صدی کے آخر تک 2.8 ڈگری سیلسیس کے خطرناک درجہ حرارت تک لے جائے گا جو چھوٹے جزیروں، بنجر علاقوں اور جنوبی ایشیا کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ جرمن واچ کی عالمی موسمیاتی خطرہ اشاریہ رپورٹ 2025 کہتی ہے کہ پاکستان مسلسل تیسرے سال موسمیاتی خطرات سے متاثرہ دنیا کے دس بدترین ممالک میں شامل رہا ہے۔

    اس حقیقت سے انکار کرنا اب ممکن نہیں رہا ہے کہ صرف موسم نہیں، زندگی بدل رہی ہے۔ پاکستان میں رواں سال گندم اور کپاس کی پیداوار میں 12 فیصد کمی ہوئی۔انڈس بیسن میں پانی کی دستیابی مسلسل گھٹ رہی ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں گرمی کی شدت سے ہزاروں افراد اسپتالوں میں داخل ہوئے۔ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کے لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

     پاکستان میں ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 2030 تک 2 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جنہیں زمین، پانی اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا ہوگا، جس سے شہری نظام مزید دباؤ کا شکار ہوگا۔

    پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس ضمن میں کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے ہیں تاہم، ان اقدامات کو کام یاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی تعلیم کو قومی نصاب میں شامل کیا جائے، پائیدار توانائی کو فروغ دیا جائے، ماحولیاتی بجٹ کو ترجیح بنایا جائے۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تبدیلیاں صرف موسم کی نہیں، زندگی کی نوعیت کو بدل رہی ہیں۔ فصلیں وقت پر نہیں اگتیں، پانی ناپید ہوتا جا رہا ہے، بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے، اور مہاجرین کی ایک نئی لہر ”ماحولیاتی مہاجرین“ جنم لے رہی ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 2030 تک 2 کروڑ تک پہنچنے کا خدشہ ہے، جنہیں زمین، پانی اور روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنا ہوگا، جس سے شہری نظام مزید دباؤ کا شکار ہوگا۔

    ہمیں اس امر کا جلد از جلد ادراک کرنا ہو گا کہ یہ جنگ توپ و تفنگ کی نہیں، زندگی اور بے حسی کے درمیان ہے۔ ایک طرف وہ فطرت ہے جو کروڑوں سال سے ہمیں خوراک، پانی، ہوا اور پناہ دیتی آ رہی ہے، اور دوسری طرف وہ انسان ہے جو ترقی کے نام پر زمین کے سینے کو چیر رہا ہے۔ یہ جنگ سائنس دانوں، کسانوں، ماہی گیروں اور عام شہریوں کی جنگ ہے جن کا مستقبل ان پالیسیوں، رویّوں اور فیصلوں سے جڑا ہے جو ہم آج اختیار کرتے ہیں۔

    سوال صرف یہ نہیں کہ زمین کب تباہ ہو گی، بلکہ یہ ہے کہ ہم تباہی سے پہلے جاگتے ہیں یا بعد میں؟ پاکستان اس جنگ کا محاذِ اوّل بن چکا ہے، نہ صرف اس لیے کہ ہم خطرے میں ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمارے پاس فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کا وقت کم ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کیا ہم اُس صف میں کھڑے ہوں گے جو زمین کو بچانا چاہتی ہے؟ یا اُس طرف، جو خاموشی سے ہر پگھلتے گلیشیئر، ہر مرجھاتی فصل، ہر بیمار بچے اور ہر بے گھر خاندان کو تقدیر کا کھیل سمجھ کر نظر انداز کر دے گی؟

    حوالہ جات
    بین الحکومتی پینل برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC)، چھٹی تشخیصی رپورٹ – جون 2025
    (اقوام متحدہ کا سائنسی ادارہ جو عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کے اسباب، اثرات اور حل پر رپورٹ جاری کرتا ہے)
    عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO)، کلائمیٹ واچ رپورٹ – مئی 2025
    (دنیا بھر کے موسم، درجہ حرارت، اور شدید موسمی واقعات کی نگرانی پر مبنی بین الاقوامی جائزہ رپورٹ)
    اقوام متحدہ ماحولیاتی پروگرام (UNEP)، اخراج کے فرق سے متعلق رپورٹ – اپریل 2025
    (یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا موجودہ رفتار سے گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے میں کتنی پیچھے ہے اور کیا اقدامات درکار ہیں)
    جرمن واچ، عالمی موسمیاتی خطرہ اشاریہ – ایڈیشن 2025
    (جرمن ماحولیاتی تھنک ٹینک کی سالانہ رپورٹ جو ماحولیاتی آفات سے متاثرہ ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے)
    ناسا (NASA)، جنگلاتی آگ کی نگرانی پر مبنی بریفنگ – مارچ 2025
    (ماحولیاتی آلودگی اور جنگلات میں لگنے والی آگ کے عالمی اثرات پر امریکی خلائی ادارے کی تحقیق)
    یو این ڈی پی، پاکستان موسمیاتی خطرات کی پروفائل – مئی 2025
    (پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے مخصوص اثرات، خطرات اور ممکنہ پالیسی اقدامات کی تفصیل)
    دی لینسٹ کاؤنٹ ڈاؤن 2024–25: موسمیاتی تبدیلی اور صحت پر رپورٹ
    (طبی و سائنسی جریدے ”لینسٹ” کی عالمی رپورٹ جو بتاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی صحت پر کیسے اثر ڈال رہی ہے)
    پاکستان محکمہ موسمیات – مئی و جون 2025 کی موسمیاتی رپورٹس
    (پاکستان میں درجہ حرارت، بارش، اور گلیشیئرز سے متعلق قومی سطح کی ماہرانہ موسمیاتی تفصیلات)

  • معرکۂ مئی: بھارت کا اعترافِ شکست اور مفروضے

    معرکۂ مئی: بھارت کا اعترافِ شکست اور مفروضے

    پاکستان سے شکست کے بعد بھارت میں آپریشن سیندور اور اس کے نتائج پر بحث اب بھی جاری ہے اور سوالات ہیں کہ بھارتی حکمرانوں اور مسلح افواج کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے۔

    اب بھارتی حکمرانوں نے بیانات دینے کے بجائے مسلح افواج کے نمائندوں کو آگے کر دیا ہے کہ وہ اپنی قوم کے سامنے پاکستان سے جنگ میں شکست کی وجوہ بیان کریں۔ بھارتی حکمرانوں کی جانب سے یہ حکمت عملی اس لیے اپنائی گئی ہے کہ بھارت میں فوج پر تنقید عموماً نہیں کی جاتی۔ حزبِ اختلاف کے سیاست داں بھی فوج پر تنقید سے گریز کرتے ہیں۔ بھارت جو ابتدا میں کسی بھی قسم کے نقصان سے انکار کررہا تھا۔ اب آہستہ آہستہ اپنی شکست اور ناکامی کا اعتراف کرنے لگا ہے۔ پہلے غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو میں ان کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف انیل چوہان نے بھارتی فضائیہ کے طیاروں کے تباہ ہونے کی تصدیق کی۔ پھر طیارے گرنے کی وجہ پر بیان ملائیشیا سے آیا اور اب شکست کی تفصیل خود بھارتی ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف نے ایک سیمینار کے دوران بیان کی ہے۔

    ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف راہول آر سنگھ نے فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (فکی) میں سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے آپریشن سیندور میں بھارتی فضائیہ، فضائی دفاعی نظام کی کمزوریوں، دفاعی نظام میں آلات کی کمی اور بھارت کی ناکام انٹیلیجنس کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جنگی برتری کا بھی اعتراف کیا ہے۔ فکی کہنے کو تو بھارت میں تاجروں اور صنعت کاروں کا سب سے بڑا نمائندہ ادارہ ہے۔ مگر پاکستان دشمنی میں بہت آگے ہے۔ اس کی جانب سے متعدد مرتبہ ایسی رپورٹیں جاری کی گئی ہیں جن میں بھارتی مسلح افواج اور حکومت کو پاکستان پر حملے کے لیے اکسایا گیا اور پہل گام کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھی فکی نے ایسی ہی رپورٹ جاری کی تھی۔ اسی لیے بھارت کے ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف راہول آر سنگھ نے اس پلیٹ فارم کا انتخاب کیا۔ آپریشن سیندور سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں کس قسم کی جنگی اور دفاعی صلاحیت بھارتی مسلح افواج کے لیے ناگزیر ہے، اس خطاب میں راہول سنگھ نے اس پر بات کی ہے اور بہت سی ایسی باتیں کی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے۔

    بھارتی جرنیل اپنی شکست کا اعتراف تو کررہے ہیں، لیکن اپنی کم زوریوں‌ اور ناکامیوں‌ کو چھپانے کے لیے اور قوم کو مطمئن کرنے کے لیے یہ بیانیہ دماغوں میں‌ گھسانے کی کوشش کررہے ہیں کہ معرکۂ مئی 2025 میں بھارت کا مقابلہ صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس کو چین اور ترکی سے بھی جنگ کا سامنا تھا۔ وہ اسے ایک سرحد اور تین حریف کا نام دیتے ہیں۔ اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے وہ دلیل دیتے ہیں کہ پاکستان کی 81 فیصد دفاعی مصنوعات کا انحصار چین پر ہے۔ جب کہ ترکی نے بھی پاکستان کو ڈرونز فراہم کیے ہیں۔ اس طرح یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ دوںوں ملک بھی بھارت سے جنگ کا حصہ تھے۔

    اگر بھارتی جرنیل کا یہ مفروضہ مان لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت اپنے ہتھیاروں کا 36 فیصد روس سے 46 فیصد امریکا اور فرانس سے جب کہ باقی ماندہ اسرائیل سے خرید رہا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا مقابلہ دنیا کی بڑی فوجی طاقتوں سے تھا۔ اور پاکستان یہ کہہ سکتا ہے کہ ایک سرحد اور چار دشمن جس میں دو سپر پاور اور ایک بے رحم جنگی مجرم تھا اور یوں‌ پاکستان نے ان سے بھی جنگ کی ہے۔

    دنیا کو معلوم ہے کہ یہ جنگ خود بھارت نے شروع کی تھی اور اب وہ یہ کہہ رہا ہے کہ پاک بھارت معرکے میں چین نے اپنے اسلحے کی صلاحیت کو ٹیسٹ کیا ہے۔ مگر وہ یہ بھول گیا ہے کہ جنگ میں اسلحے سے زیادہ اس کو استعمال کرنے والے ہاتھ اہم ہوتے ہیں۔ یعنی بندوق نہیں بندوق کے پیچھے والا شخص اہمیت رکھتا ہے۔ اچھا نشانہ باز ایک عام سے بندوق سے بھی بہترین نشانہ لگا سکتا ہے۔ اور ایک عام نشانہ باز کو جنتا بھی اچھا اور بہترین اسلحہ یا بندوق فراہم کر دی جائے اس کا نشانہ چوک ہی جائے گا۔ اور ایسا ہی پاک بھارت معرکہ میں ہوا۔ بھارت روسی اور فرانسیسی طیاروں اور اسرائیلی ڈرونز کو استعمال کر رہا تھا۔ اور اس کو زعم تھا کہ وہ جدید اسلحے کے ساتھ پاکستان کو مات دے سکے گا۔ مگر اس جنگ کا نتیجہ اس کے برعکس نکلا اور اب بھارتی جرنیلوں‌ اور فوج کے نمائندوں کو بھارتی حکومت نے عوام کے سامنے کردیا ہے جو وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔

    چین کی جنگی حکمت عملی پر ایک جملہ Kill with a borrowed knife
    (یعنی ادھار کی چھری سے قتل کرو) بھی اس حوالے سے سنا جارہا ہے۔ مشہور ہے کہ آج سے تقریباً تین سو سال قبل کسی فلسفی اور دانشور نے جنگ کی حکمتِ عملی طے کرتے ہوئے 36 نکات تحریر کیے تھے جن میں یہ نکتہ بھی شامل تھا۔ راہول سنگھ یہ کہنا چاہتے تھے کہ چین براہ راست بھارت سے لڑنے کے بجائے پاکستان کو استعمال کررہا ہے۔ مگر وہ یہ بتانا بھول گئے کہ جنگ کی ابتدا کس نے کی تھی۔ بھارت ایک علاقائی غنڈہ بن کر پاکستان پر چڑھ دوڑا تھا اور اب جب مار پڑی ہے تو اس کے بڑے اپنی قوم کو مفروضوں‌ پر مبنی جواب دے رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے مقابلے میں فلاں فلاں بھی پاکستان کے ساتھ مل کر لڑا ہے۔

    اسی طرح بھارتی جرنیل چین کی حکمراں جماعت چائنیز کمیونسٹ پارٹی، کی جنگی آلات کی تیاری سے متعلق حکمت عملی کو بھارت میں بھی اپنانے کی بات کرتے ہیں۔ چین نے مسلح افواج کے لیے جنگی آلات اور ہتھیاروں کی تیاری کے لیے سول ملٹری فیوژن کی حکمت عملی کو اپنایا ہے جس میں چین اپنی دفاعی اور سویلین تحقیق اور ٹیکنالوجی کو یکجا کر کے دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اور اب بھارتی جرنیل بھی اسی کو اپنانے کی بات کر رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی بھارتی جرنیل یہ بھی کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر تیار کردہ دفاعی مصنوعات کی کارکردگی دعوؤں اور توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپریشن سندور کے دوران اہم ترین چیز تھی ایئر ڈیفنس اور اس کی کس طرح منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ اچھا اور خراب دونوں تھا۔ ہم مزید بھی بہت کچھ کر سکتے تھے۔ لوکل مصنوعات پر مشتمل نظام میں سے بعض نے اچھی کارکردگی دکھائی اور چند ایک توقع پر پورا نہیں اترے۔ یہ ایک چوہے بلی کا کھیل تھا۔ اس مرتبہ پاکستان نے ہماری شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا، آئندہ ہمیں اس کے لیے بھی تیار رہنا ہوگا۔ ہمیں ایئر ڈیفنس آرٹلری ڈرونز سسٹم تیار کرنا ہوگا اور بہت جلد اس پر کام شروع کرنا ہوگا۔ چین نے خود کو جنگ مین جھونکے بغیر اپنے پڑوسی کو استعمال کرتے ہوئے شمالی سرحد پر اپنے ہتھیاروں کو دیگر ہتھیاروں کے نظام کے خلاف ٹیسٹ کیا ہے جو کہ وہاں چین کو ایک لیبارٹری کی طرح دستیاب تھے۔ اس سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہوگا۔ ترکی نے پاکستان کو بہترین ڈرونز دے کر سپورٹ کیا۔ جنگ کے دوران ترکی کی جانب سے ڈرون آنا شروع ہوگئے تھے۔ ساتھ ہی تربیت یافتہ افرادی قوت بھی موجود تھی۔ اپنے خطاب میں بھارتی جرنیل نے فوجی اصطلاح "فور سی” (4Cs) استعمال کی۔ اور اسی تسلسل میں بات کرتے ہوئے بھارت کے پیچھے رہ جانے کا اعتراف کیا۔ سب بڑا اعترافِ شکست یہ تھا کہ بھارتی مسلح افواج کی نقل و حرکت پر پاکستان کی گہری نظر تھی۔ یعنی بھارت پاکستان کے خلاف جو بھی جنگی تیاری کررہا تھا اس کا علم نہ صرف پاکستان کو پہلے سے تھا بلکہ وہ بھارت کو مسلسل خبردار کررہا تھا کہ وہ کسی قسم کی جارحیت سے باز رہے۔ بھارتی جرنیل نے اپنے خطاب میں اعتراف کیا کہ معرکۂ مئی 2025 سے پہلے اور بعد میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان ہفتہ وار بات چیت میں پاکستان بھارت کو مسلسل آگاہ کر رہا تھا کہ ان کے کون کون سے یونٹس یا شعبے پاکستان پر حملہ کرنے کو تیار ہیں۔ اور پاکستان نے ڈی جی ملٹری آپریشن کی سطح پر بھارت کو جارحیت سے باز رہنے کی تلقین بھی کی۔

    راہول سنگھ یہ بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو یہ صلاحیت چین کے سیٹلائٹ کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی۔ جو ایک غلط تاثر ہے۔ اگر یہ بات مان بھی لیں تو یہ بھی بھارت کی بڑی ناکامی ہے کہ وہ جنگ یا کسی حملے کی تیاری کو اپنے دشمن کی نظروں سے اوجھل نہ رکھ سکا اور اسے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ پاکستان کو بھارت کی جنگی تیاری کا کس قدر علم تھا یہ پاکستان کے ایئر وائس مارشل اورنگزیب نے میڈیا بریفنگ میں بتا دیا تھا کہ جیسے ہی بھارت کے ستّر کے قریب طیارے فضا میں بلند ہوئے پاکستان ایئر فورس نے نہ صرف ان طیاروں کے الیکٹرک سگنلز کو شناخت کرلیا بلکہ ان طیاروں کی نشان دہی کے ساتھ یہ طے ہوگیا کہ کس طیارے کو پاک فضائیہ کا کون سا طیارہ ہدف بنائے گا۔ اور اسی حکمتِ عملی کی وجہ سے اس معرکے کا نتیجہ چھ صفر رہا۔

    یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ دراصل بھارتی مسلح افواج یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ اصل میں اسے پاکستان سے مار پڑی ہے اور شکست کھائی ہے۔ وہ یہ باور کروانے کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان ہمارے سامنے کھڑے ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اگر بھارت نے اسی سوچ کے ساتھ آئندہ بھی جنگ کی تیاری کی تو اس کا انجام بھی سندور جیسا ہی ہوگا۔

  • پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے ختم ہوتے گلیشیئرز: بقا کا برفانی بحران

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع برفانی گلیشئرز نہ صرف قدرتی حسن کا شاہکار ہیں بلکہ ملک کے دریاؤں، زراعت، توانائی اور انسانی زندگی کے لیے ایک بنیادی وسیلۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ موسمیاتی تبدیلی کے مہلک اثرات نے ان برفانی خزانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    پاکستان کے گلیشئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے

    آج پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں گلیشئرز کی پگھلنے کی رفتار خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو خشک، بنجر اور عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کے پاس 7200 سے زائد گلیشئرز موجود ہیں، جو دنیا کے سب سے بڑے غیر قطبی برفانی ذخائر میں شمار ہوتے ہیں۔ بیافو، بالتورو، سیاچن، پسو اور ہسپر جیسے گلیشئرز نہ صرف قدرتی عجوبے ہیں بلکہ پاکستان کے دریاؤں، خاص طور پر دریائے سندھ، کے پانی کی اصل بنیاد بھی ہیں۔

    پاکستان میں اس وقت اندازاً 7200 سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 80 فیصد گلیشئرز تیزی سے پگھلنے کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت میں 1.5 سے 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مئی و جون 2025 میں گلگت اور ہنزہ میں غیر معمولی گرمی کی لہریں آئیں، جنہوں نے گلیشئرز کے غیر موسمی پگھلاؤ کو مزید بڑھا دیا۔

    2024–2025 کے دوران، اقوام متحدہ اور مقامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 33 سے زائد گلیشئرز ایسے زونز میں آ چکے ہیں جہاں گلشیل لیک آؤٹ فلیش فلڈز(GLOFs) کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 2024-25 کے دوران گلگت بلتستان اور چترال میں کم از کم 9 بڑے GLOF واقعات ریکارڈ ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں اب تک 12 ہزار سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں گھروں کی تباہی، زرعی اراضی کا نقصان، اور بنیادی ڈھانچے کی بربادی شامل ہے، جب کہ ہزاروں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) اور پاکستان میٹ ڈیپارٹمنٹ کی حالیہ رپورٹس کے مطابق 2025 تک پاکستان کے 80 فیصد گلیشئرز میں پگھلاؤ کے آثار واضح ہو چکے ہیں جب کہ بیافو، ست پارہ، چوغولنگما جیسے گلیشئرز کی برف میں سالانہ 1.2 میٹر تک کمی نوٹ کی گئی جب کہ کئی گلیشئرز اپنی سطح کا 20 تا 25 فیصد حصہ کھو چکے ہیں۔

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے

    دنیا بھر میں بڑھتا ہوا گرین ہاؤس ایفیکٹ پاکستان کے برفانی علاقوں کو براہِ راست متاثر کر رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ، لکڑی جلانے اور صنعتوں سے اٹھنے والے ذرات گلیشئرز پر جمع ہو کر سورج کی حرارت کو جذب کرتے ہیں اور برف کو تیز رفتاری سے پگھلاتے ہیں جب کہ شمالی علاقوں میں بے قابو ہوتی سیاحتی سرگرمیاں، پلاسٹک ویسٹ اور تعمیرات، ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہیں۔

    گلیشیئرز کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ وقتی طور پر تو ضرور پر بڑھے گا، لیکن آنے والی دہائیوں میں پاکستان میں شدید پانی کی قلت متوقع ہے۔ پاکستان کی زراعت، جو دریائے سندھ پر انحصار کرتی ہے، اس سے تباہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہائیڈرو پاور کا انحصار دریاؤں پر ہے، اور پانی کی کمی کی صورت میں بجلی کی شدید قلت اور لوڈشیڈنگ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ سے پیدا ہونے والے سیلاب دیہاتی علاقوں کو اجاڑ سکتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں سے ماحولیاتی پناہ گزین شہروں کی جانب نقل مکانی کر سکتے ہیں۔

    GLOF-11 پروجیکٹ کے تحت وارننگ سسٹمز کی تنصیب، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021 اور ایڈاپٹیشن پلانز جیسے اقدامات کے ذریعے جہاں گلیشیئر کے پگھلاؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران میں کمی لائی جا سکتی ہے وہیں مقامی کمیونٹیز میں آگاہی کی کمی، محدود تحقیق و ڈیٹا شیئرنگ، پائیدار سیاحت اور فضلہ مینجمنٹ کے فقدان کے چیلنجیز کو حل کرنا بھی ضروری ہو گا۔

    گلیشیئر مانیٹرنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کے ساتھ، شمالی علاقوں میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دیا جائے۔ مقامی افراد کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی تربیت دی جائے، قومی و صوبائی سطح پر ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے، صنعتی آلودگی اور سیاہ کاربن کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں۔

    پاکستان کے گلیشیئرز خاموش مگر زندہ نشانیاں ہیں جو ہمیں خبردار کر رہی ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ اگر ہم نے آج بھی سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو پانی، خوراک، توانائی اور انسانی زندگی کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماحولیاتی جنگ اب برف کے محاذ پر لڑی جا رہی ہے، اور اس میں خاموشی شکست کی علامت ہے۔