Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • آئی ایم ایف کا نیا پروگرام، غریب تو ’’وڑ‘‘ گیا!

    آئی ایم ایف کا نیا پروگرام، غریب تو ’’وڑ‘‘ گیا!

    سال 25-2024 کا بجٹ، جس کا نفاذ یکم جولائی سے ہوچکا ہے۔ غربت سے سسکتی عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کے باعث ماہرین معاشیات اسے بجٹ کے بجائے غریبوں کے لیے موت کا پروانہ قرار دے رہے ہیں کہ جس میں حکمرانوں نے امرا اور اشرافیہ کو مراعات دیتے ہوئے ایک بار پھر کسمپرسی میں زندگی گزارتے غریب عوام کو ہی قربانی کا بکرا بنا دیا ہے۔ اس بجٹ کے نفاذ کے 20 دن کے دوران عوام کو بیسیوں بجٹ آفٹر شاکس کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس غریب مٹاؤ بجٹ کا صلہ حکومت پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب 7 ارب کے نئے قرض پروگرام پر معاہدے کی صورت میں ملا ہے۔

    یوں تو ہر سال بجٹ غریبوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لاتا، لیکن یہ بجٹ تو غریب کے جسم میں بچا کھچا خون بھی نچوڑ لے گا۔ اس بجٹ میں ٹیکس در ٹیکس دیتے تنخواہ دار طبقے کو مزید دبا دیا گیا، جب کہ حکمراں اشرافیہ اور مقتدر و مالدار طبقات کو وہ چھوٹ دی گئی کہ قسمت بھی اپنی قسمت پر نازاں ہوگی کہ وہ کس کی قسمت بنی ہے، لیکن یہ طرز عمل ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ظاہر کرتا ہے۔ یہ بجٹ عوام پر کتنا بھاری ہے اس کا ادراک حکومت کو بھی ہے اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی، لیکن جہاں بے حسی غالب ہو وہاں انسانی ہمدردی مفقود ہو جاتی ہے۔

    اس ملک سے متوسط طبقہ تو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس کر ختم ہوچکا ہے اور صرف دو طبقے بچے ہیں جن میں ایک غریب اور دوسرا امیر اور ان دونوں طبقوں کا ایک دوسرے کی مخالف سمتوں میں سفر جاری ہے۔ اس بجٹ کے نتیجے میں یہ سفر اتنی تیز رفتاری پکڑے گا کہ معاشی ماہرین کے مطابق مزید ڈیڑھ کروڑ عوام خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔

    اس بجٹ میں کیا چیز مہنگی نہیں ہوئی۔ بجٹ کے نفاذ سے قبل ہی بجلی، گیس مہنگی کر دی گئی تھی لیکن جیسا کہ ہمارے وزیراعظم کہہ چکے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کا ہے، تو آئی ایم ایف نے بجٹ کی منظوری کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا ڈومور مطالبہ دہرایا، جس پر یکم جولائی سے قبل عمل درآمد بھی کر دیا گیا اور اس کے بعد بعد بھی مختلف ناموں سے اس پر مہنگائی کی پرت در پرت چڑھائی جا رہی ہے۔ پٹرول دو بار مہنگا ہوچکا اور یہ مہنگائی کا وہ استعارہ ہے جس کے بلند ہوتے ہی سب چیزوں کی قیمتوں کی پرواز بلند ہوجاتی ہے۔

    آٹا، دالیں، چاول، گوشت، سبزی مہنگے ہونے، ڈبل روٹی، شیرمال پر ٹیکس لگا کر لوگوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ تو چھیننے کی کوشش کی گئی۔ ساتھ ہی شیر خوار بچوں کے ڈبہ بند دودھ سمیت عام پیکٹ پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ کر کے بچوں کی خوراک پر بھی سرکاری ڈاکا مارا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ غریب سے جینے کا حق چھینتے ہوئے ادویات پر بھی 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا گیا اور اسٹیشنری پر بھی 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا جس سے غریب کے لیے تعلیم کا حصول نا ممکن ہو جائے گا اور ہم جو شرح خواندگی نے نچلے نمبروں پر ہیں مزید پستی میں چلے جائیں گے۔

    بات پرانی ہوگئی، لیکن ہمیشہ کی طرح وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ پیش کرتے ہوئے غریب عوام کو ملک کی بہتری کے لیے مہنگائی کا کڑوا گھونٹ پینے کا درس دیا۔ عوام کو کئی دہائیوں سے یہ گھونٹ پی رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بیرون ملک سے پاکستان کی معیشت اور تقدیر سنبھالنے کا مشن لے کر آنے والے وزیر خزانہ امرا اور اشرافیہ پر بھی کچھ بوجھ ڈال دیتے۔ بجائے بوجھ ڈالنے کے انہیں الٹا نوازا گیا جہاں عوام کے لیے سانس لینا مشکل کر دیا گیا وہیں حکومتی اخراجات میں 24 فیصد اضافہ بھی کر دیا گیا۔ ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس، وزرائے اعلیٰ اور گورنر ہاؤسز کے اخراجات بڑھ گئے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کم از کم ماہانہ اجرت 32 سے بڑھا کر 37 ہزار کر دی، لیکن ملک کا بجٹ بنانے والے آج کی مہگائی میں 37 ہزار روپے میں چار افراد کی فیملی تو کیا، صرف تنہا غریب آدمی کا ماہانہ بجٹ بنا دیں تو بڑا احسان ہوگا۔

    یہ بجٹ پیش کرنے والے وہی سیاستدان ہیں جو حکومت میں آنے سے قبل عوام کے سچے ہمدرد بننے کے دعوے دار مہنگائی مارچ کرتے تھے۔ پنجاب کی موجودہ وزیراعلیٰ اس وقت کہتی تھیں کہ جب پٹرول اور بجلی مہنگی ہوتی ہے تو اس ملک کا وزیراعظم چور ہوتا ہے تو آج ان کی بجلی اور پٹرول کی مسلسل بڑھتی قیمتوں پر بھی یہی رائے ہے یا بدل چکی ہے؟ یہ ایسا بجٹ ہے کہ جس کو سوائے حکمراں اور اس سے مستفید ہونے والے ایلیٹ اور مقتدر طبقوں کے علاوہ تاجر، صنعتکار، ایکسپورٹرز، سب ہی مسترد کر چکے اور مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن غریبوں کا درد رکھنے والے حکمرانوں کی آنکھیں، کان بند اور لب سل چکے ہیں۔

    وفاقی حکومت کی بڑی اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بجٹ اجلاس میں کھل کر تنقید کی اور اسے عوام دشمن بجٹ قرار دیا لیکن جب منظوری کا وقت آیا تو نہ جانے کیوں اچھے اور فرماں بردار بچوں کی طرح بجٹ کی منظوری دے دی اور عوام کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ لگا کر ہمیشہ اقتدار میں آنے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت آصف علی زرداری نے بجٹ دستاویز کے نام پر غریب عوام کے موت کے پروانے پر دستخط کر کے مہر تصدیق ثبت کی۔

    بجٹ پیش کرنے سے قبل یہ حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ ٹیکس صرف ان پر لگے گا جو ٹیکس ادا نہیں کرتے، لیکن بد قسمتی سے تنخواہ دار اسی طبقے پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا جو پہلے سے ہی سب سے زیادہ ٹیکس کی ادائیگی کر رہا ہے۔ یعنی ملازمت پیشہ افراد کی کمر پر اپنی عیاشیوں کا مزید بوجھ ڈال دیا کیونکہ حکومت، مقتدر حلقوں، پارلیمنٹرینز کے علاوہ بیورو کریٹس، جن کی تنخواہیں اور مراعات پہلے ہی لاکھوں میں اور تقریباً سب کچھ مفت ہے لیکن شاید یہ سب کچھ ان کے لیے کم تھا اس لیے اراکین پارلیمنٹ کا سفری الاؤنس 10 روپے فی کلومیٹر سے بڑھا کر 25 روپے کر دیا۔ سالانہ فضائی ٹکٹس بھی 25 سے بڑھا کر 30 کر دیے اور یہ سہولت بھی دے دی کہ جو ٹکٹس بچ جائیں گے وہ منسوخ ہونے کے بجائے آئندہ سال قابل استعمال ہوں گے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ ملازمین بنیادی تنخواہ کا %100 پارلیمنٹ ہاوس الاؤنس اور %65 فیول سبسڈی الاؤنس بڑھا دیا گیا اور کمال کی بات ہے کہ اس سے خزانے پہ کوئی بوجھ پڑا اور نہ IMF کو کوئی اعتراض ہوا۔

    ملک کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ غریب کے گھر بجلی آئے یا نہ آئے، گیس سے چولہا جلے یا نہیں، نلکوں سے پانی کے بجائے صرف ہوا آئے یا پھر گندا پانی لیکن انہیں ہر چیز کا بل دینا ہے اور صرف اپنا نہیں بلکہ اشرافیہ کا بھی جنہیں بجلی، پانی، گیس کے ساتھ بیرون ملک علاج، سفر، بچوں کی تعلیم تک مفت یا اسپانسرڈ ہوتی ہے۔ ہم وزیر خزانہ کی کیا بات کریں، جو غیر ملکی شہریت چھوڑ کر پاکستان کی تقدیر سنوارنے آئے، یہاں تو ایسے وزیراعظم بھی آئے کہ جب اس عہدے کے لیے نامزد ہوئے تو ان کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ نہیں تھا، وہ ملک کو کون سا خوشحال کر گئے جو اب ہم کوئی سنہرے خواب دیکھیں۔

    آج حالت یہ ہے کہ غریب کے آنسو بھی خشک ہو چکے ہیں۔ کئی واقعات بھی سامنے آئے ہیں‌ کہ کنبے کے سربراہ نے بیوی بچوں سمیت زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ عوام کو جو اس اجتماعی خودکشی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے، اس کا ذمے دار کون ہے؟ حکمران کچھ زیادہ نہیں کر سکتے تو کم از کم عوام کو جینے اور سانس لینے کے قابل تو چھوڑیں۔

  • ہیرارکی: نوجوان نسل میں مقبول ہوتی جنوبی کوریا کی ویب سیریز

    ہیرارکی: نوجوان نسل میں مقبول ہوتی جنوبی کوریا کی ویب سیریز

    دنیا بھر میں جنوبی کوریا کی فلمیں اور ویب سیریز بے حد پسند کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، نیٹ فلیکس سمیت کئی بڑے اسٹریمنگ پورٹلز نے اس ملک کی کہانیوں کو اہمیت دیتے ہوئے، ان کی پروڈکشن شروع کی ہے۔ ہمیں اب تواتر کے ساتھ جنوبی کوریا کی ہر موضوع پر، ہر قسم کی فلمیں اور ویب سیریز دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ رواں برس ابھی تک جن کورین ویب سیریز کو بہت توجہ ملی، ان میں سے ایک یہ ویب سیریز "ہیرارکی” ہے، جس کی کہانی نئی نسل کے چند لاابالی نوجوانوں کے جذبات و احساسات کے گرد گھومتی ہے۔

    طبقۂ اشرافیہ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اسکول کے طالبِ علم آپس میں بھڑ جاتے ہیں، یہ ویب سیریز ان کی کہانی کو بہت دھیمے لیکن عمدہ انداز میں پیش کرتی ہے۔ اردو زبان میں اس ویب سیریز کا مفصل تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے نام سے ہی اس کے موضوع اور کہانی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ "ہیرارکی” انگریزی کا لفظ ہے، جس سے مراد وہ درجہ بندی یا تقسیم کا عمل ہے جو طاقت اور حیثیت کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی جنوبی کوریا کے ایک ایسے فرضی اسکول "جوشین ہائی اسکول "سے متعلق ہے، جہاں پورے ملک سے صرف ایک فیصد طلبا کو داخلہ ملتا ہے اور ان سب کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے۔ ان میں سے معدودے چند کو اسکالر شپ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا ہے۔ اسکول میں امیر اور غریب کی تقسیم واضح ہے، جسے اسکول انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اب ایسے ماحول میں یہ رئیس زادے اور بڑے کاروباری خاندانوں کے بچّے اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے اور کوئی درجن بھر امیر ترین طلبا کیسے تعلیمی ادارے میں اقدار کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں، اس کہانی میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
    لیکن کہانی میں سنسنی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب یہاں اسکالر شپ پر آئے ہوئے ایک طالب علم کا قتل ہو جاتا ہے۔ اس مقتول طالبِ علم کے بھائی کو اسی اسکول میں اسکالر شپ مل جاتی ہے اور یہاں پہنچ کر وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کی تلاش شروع کرتا ہے۔ اس دوران وہ محبت جیسے جذبے سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ محبت کا یہی جذبہ اسکول کے چند امیر طلبا کی زندگیوں میں بھی احساسات اور کیفیات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ موجزن ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ان مخصوص طلبا کے ساتھ چند اساتذہ اور اسکول کی پرنسپل کو بھی شریکِ عمل دکھایا گیا ہے۔ کاروباری شخصیات اور امرا کے یہ بچّے زندگی کو کیسے اپنے انداز سے گزارتے ہیں، اور ایک غریب کا بچّہ کس طرح اپنی منزل تک پہنچتا ہے، یہ کہانی اسی کو عمدہ طریقے سے بیان کرتی ہے۔ اسکول میں ہی ان نوجوانوں میں دوستی، محبّت اور انتقام جیسے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور وہ ان کا اظہار کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

    مجموعی طور پر کہانی اچھی ہے، جس کو سات اقساط میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلا سیزن ہے اور امید ہے کہ اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا۔ ابتدائی طور پر کہانی سست روی کا شکار نظر آتی ہے، لیکن اگلی اقساط میں کہانی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ نئی نسل کے لحاظ سے اس کو روایتی انداز میں ہی فلمایا گیا ہے۔ یہ پیشکش بہت اچھوتی تو نہیں، لیکن دیکھنے والوں کو کسی حد تک متاثر ضرور کرے گی۔ اسے چوہائے می نو نے لکھا ہے۔

    پروڈکشن/ ڈائریکشن

    اس ویب سیریز کا پروڈکشن ڈیزائن بہت خوب ہے۔ اسے جنوبی کوریا کے دس شہروں میں فلمایا گیا ہے اور سینماٹوگرافی بہت کمال ہے۔ ملبوسات، لائٹنگ، ایڈیٹنگ اور دیگر تکنیکی امور بخوبی انجام دیے گئے ہیں، البتہ میک اپ کے شعبے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورین فلم ساز لڑکے لڑکی کا فرق مٹانا چاہتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں ان کا میک اپ اتنا اچھا نہیں ہوتا، خاص طور پر اس سیریز میں مرکزی کرداروں کا میک اپ اضافی معلوم ہوگا۔ اس سے کہانی میں تصنع کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ پس منظر میں موسیقی اور دیگر ضروری باتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ ویب سیریز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہدایت کاری کے فرائض بھی بے ہیوجن نے بخوبی انجام دیے ہیں۔ اس کے موسیقار کم تائی سنگ ہیں۔ ان کی موسیقی نے کہانی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

    اداکاری و دیگر پہلو

    کہانی کچھ سست اور طویل محسوس ہوتی ہے۔ مکالمے بھی زیادہ جاندار نہیں، جس کی وجہ سے اداکاری پر فرق پڑا۔ خاص طور پر مرکزی کردار یعنی ہیرو اور ہیروئن، جن کے نام جونگ جے ای اور کم ری آن ہیں، ان کی اداکاری بہت یکسانیت کا شکار دکھائی دی۔ البتہ اس ویب سیریز کے معاون اداکاروں نے بھرپور طریقے سے اپنے کردار نبھائے، اور انہی کی وجہ سے مجموعی طور پر ویب سیریز دل چسپ ہوگئی، ورنہ ہیرو ہیروئن کی جذبات سے عاری اداکاری اس ویب سیریز کو لے ڈوبتی۔ کانگ ہا اس ویب سیریز کا وہ کردار ہے جس نے سب سے عمدہ اداکاری کی۔ یہ اسکول میں اسکالر شپ پر آنے والا طالبِ علم ہے جس کی وجہ سے ویب سیریز دل چسپ ہوگئی۔

    کہا جارہا ہے اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا، جب کہ اس ویب سیریز کو دیکھنے کے بعد بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ دوسرے سیزن کی ضرورت ہے، لیکن کچھ عرصے سے جنوبی کوریا میں ویب سیریز کے نئے سیزن کا رجحان بڑھ گیا ہے اور چند ویب سیریز ایسی ہیں جن کے نئے سیزنز کا حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے۔ ان میں سویٹ ہوم، ہاسپٹل پلے لسٹ، اور یومی کوریائی ڈراموں کی وہ مثالیں ہیں جو متعدد سیزنز پر مشتمل ہیں اور اسکویڈ گیم جیسی مقبول ویب سیریز کا بھی اس سال کے آخر میں دوسرا سیزن پیش کیا جائے گا۔

    ویب سیریز ہیرارکی کو 51 ممالک میں دیکھا گیا۔ یہ نیٹ فلیکس پر ٹاپ ٹین میں شامل رہی۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں بھی اسے بہت توجہ ملی، یہ کئی ہفتے ٹاپ ویب سیریز کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر رہی اور منفی تبصروں کے باوجود اس نے نئی نسل کو اپنی طرف کھینچا اور لاکھوں ناظرین نے اس ویب سیریز کو دیکھا۔

    حرفِ آخر

    قارئین! اگر آپ رومان، تجسس اور تصورات کی دنیا میں جانا پسند کرتے ہیں اور کسی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے اثرات اور نئی نسل کے خیالات، ان کے جذبات کو جاننا چاہتے ہیں تو پھر یہ ویب سیریز آپ ہی کے لیے ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ کہانی شروع میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے یہ آپ کو اپنی جانب کھینچ لے گی اور آپ اسے آخر تک دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ نیٹ فلیکس پر یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں آپ کی منتظر ہے۔

  • پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ، حکومت بوکھلاہٹ کا شکار

    ملک میں پہلے ہی سیاسی خلفشار کم نہیں تھا کہ موجودہ حکومت کے وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ کا یہ دھماکا خیز اعلان سامنے آگیا کہ وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور اس جماعت کے بانی عمران خان سمیت سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل 6 لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کو یہ مشورہ نجانے کس نے دیا ہے۔

    شہباز حکومت یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے اکثریتی رائے سے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے ماقبل فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی یہ رولنگ بھی دی کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت اور حقیقت ہے جس کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔

    اس فیصلے کے اگلے ہی روز اسلام آباد کی سیشن عدالت نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو باعزت بری کر دیا جب کہ اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ دونوں کی سائفر کیس میں سزا معطل کر کے انہیں رہا کرنے اور سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی سمیت شاہ محمود قریشی کو بری کر چکی ہے۔ عدالت سے مختلف کیسوں میں بانی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلوں سے حکومت کے پہلے ہی ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے جس کا اظہار حکومتی نمائندے اپنے بیانات اور پریس کانفرنسوں میں کر رہے تھے، لیکن مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے عدالتی فیصلے سے حکومت دو تہائی اکثریت سے محروم اور اپنے اتحادیوں کی حمایت سے ہر قانون اور بل کو کثرت رائے سے منظور کرانے کی طاقت سے محروم ہوگئی ہے، اس تناظر میں حکومت کا یہ اعلان اہمیت رکھتا ہے۔

    مذکورہ یہی تین بڑے کیسز تھے جن میں عمران خان کو سزائیں ہوئی تھیں اور ان ہی عدالتی فیصلوں کے پیچھے حکومت چھپتی آ رہی تھی۔ اب جب ان تینوں کیسز کے فیصلوں کے ساتھ مخصوص نشستوں پر بھی پی ٹی آئی کو ایسا ریلیف ملا جو شاید اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا تو حکومت جو پہلے ہی فارم 45 اور 47 کی پکار، امریکی کانگریس میں انتخابات میں بدعنوانیوں سے متعلق منظور قرارداد اور عالمی سطح پر انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھائے جانے والے سوالات کے باعث پہلے ہی عدم تحفظ کا شکار ہے، اس کا بوکھلاہٹ کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ تاہم عدالتی فیصلوں کے جواب میں اگر حکومت نے یہ سوچ کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور اس کے بانی سمیت دیگر پر آرٹیکل 6 (دوسرے لفظوں میں غداری) کے مقدمات درج کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، کہیں وہ اس سے قبل اسی حکومت کے کیے گئے فیصلوں کی طرح ان پر ہی الٹ نہ پڑ جائیں کیونکہ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم پی ڈی ایم (ون) حکومت اور موجودہ حکومت نے اپنے تئیں اب تک پی ٹی آئی اور عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے جو بھی فیصلے کیے اس کے نتائج ان کی توقعات اور امیدوں کے برعکس نکلے۔ بجائے بانی پی ٹی آئی اور ان کی پارٹی کو نقصان ہونے کے، ان کی عوامی مقبولیت بڑھی جب کہ حکومت بالخصوص ن لیگ کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلی سطح تک جا پہنچا۔

    پی ٹی آئی رہنما کئی ہفتوں سے برملا اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کی جماعت پر پابندی لگائی جاسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں بلکہ کہیں نہ کہیں طے شدہ اور بی پلان کے طور پر موجود تھا۔ تاہم عطا تارڑ کی پریس کانفرنس کے بعد جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، عوامی نیشنل پارٹی، انسانی حقوق کونسل نے کھل کر اس حکومتی فیصلے کی مذمت اور اسے خلاف آئین و قانون قرار دیا ہے جب کہ امریکا بھی اس پر تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔ تاہم اس بحث سے قطع نظر نجانے کس نے حکومت کو یہ ’’دانشمندانہ‘‘ مشورہ دیا، لیکن یہ ایسا نادر مشورہ ہے کہ مخالف سیاسی جماعتیں تو الگ خود حکومتی جماعت ن لیگ میں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ جاوید لطیف، خرم دستگیر سمیت کئی آزادانہ رائے دینے والے پارٹی رہنما اس سے اختلاف کر رہے ہیں۔ حکومت کی بڑی اتحادی جماعت پی پی نے یہ کہہ کر دامن بچا لیا کہ ہمیں اس حوالے سے ن لیگ نے اعتماد میں نہیں لیا جب کہ دیگر اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم، ق لیگ ودیگر نے چپ سادھ لی یا وہ گومگوں کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اس صورتحال کے بعد یہ اعلان کرنے والے عطا تارڑ تو ٹی وی اسکرین سے غائب ہیں لیکن ان کی جگہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، خواجہ آصف اب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر عمل اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کریں گے۔

    پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی نئی بات نہیں ہے بلکہ مرکزی دھارے کے علاوہ صوبائی دھارے، قوم پرست اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی درجنوں جماعتوں پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔

    اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جس طرح ابتدائی عشرے میں جمہوریت نہیں پنپ پائی تھی اور حکومتوں کا آنا جانا لگا تھا اسی طرح سیاست کو بھی پابند سلاسل کرنے کا سلسلہ اسی دور سے شروع ہوا جب 1954 میں اس وقت ’’سیاسی و جمہوری‘‘ کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی۔ تاہم کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی، لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔ ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر اس پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا، تاہم یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی۔

    پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971 میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی جو حرف تہجی کی الٹ پلٹ اور ان ہی پرانے سیاسی چہروں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے روپ میں ملک کے سیاسی افق پر موجود اور کئی حکومتوں کا حصہ رہ چکی ہے۔ مشرف دور میں پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن لڑنا مشکل ہوا تو وہ پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام سے سامنے آئی جب کہ 2016 میں جب ایم کیو ایم کا زوال آیا تو وہ ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے کام کرنے لگی۔ آج پابندی کا شکار بننے کو تیار پی ٹی آئی نے اپنے دور میں تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا لیکن کچھ عرصے بعد یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔

    حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے فیصلے کا اعلان تو کرچکی اور آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت وفاقی حکومت کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اختیار رکھتی بھی ہے، مگر حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو کرنا ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان کی خود مختاری یا سالمیت کے خلاف کام کرنے والی کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا اعلان کر کے پندرہ دنوں کے اندر معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجے گی جس پر حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا۔ تو جب یہ گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں جب جائے گی تو حکومت کو وہ تمام شواہد دینے ہوں گے جو ایک سیاسی جماعت کو کالعدم قرار دلواتے ہیں اور قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس میدان میں حکومت کو سبکی ہوگی۔

    اگر ن لیگ اپنے اعلان پر عمل کرتی ہے تو اس سے ایسا سیاسی و آئینی بحران اور ہیجانی کیفیت پیدا ہوگی جس کی لپیٹ میں خود ن لیگ کی حکومت اور اس کی بچھی کھچی سیاست آ جائے گی۔ ن لیگ اتحادیوں کی بے ساکھیوں پر وفاق میں کھڑی ہے لیکن خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ پابندی کی صورت میں جمہوری وفاقی حکومت وہاں کیا گورنر راج لگائے گی؟ اگر پی پی کھل کر اس کی مخالفت نہیں کرتی یا دیگر جماعتیں بھی اقتدار یا کسی ان دیکھے دباؤ کے تحت خاموش رہتی ہیں تو یہ درپردہ حمایت تعبیر کی جائے گی اور اس سے وہ راستے کھلیں گے کہ آنے والے وقت میں کوئی سیاسی جماعت اس سے محفوظ نہیں رہے گی اور ہر جماعت کو آج خاموش حمایت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔

    ماضی میں کی جانے والی غلطیاں ایک سبق ہوتی ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں مست صاحب اختیار لوگ ماضی سے سبق نہیں سیکھتے اور مسند اقتدار پر آنے کے بعد وہ خود کو عقل کُل اور ہر مسئلے کے حل کی کنجی سمجھتے ہوئے اپنے تئیں نئی تاریخ بنانے والے فیصلے کرتے ہیں جو حقیقت میں مستقبل کے مورخ کے لیے ایک اور تاریک باب اور آنے والوں کے لیے نیا سبق دینے کی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔

    ہماری روایت ہے کہ نظریاتی اختلاف کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اب سیاسی جماعت پر پابندی کے ساتھ سیاستدانوں پر آرٹیکل 6 لگا کر تو ایک قدم آگے بڑھا جا رہا ہے۔ پاکستانی سیاست میں وقت کا پہیہ گھومتے اور ہوا کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ن لیگ کا وتیرہ رہا ہے کہ اس نے ماضی میں جو گڑھے مخالفین کے لیے کھودے وہ خود ہی اس میں جا گری۔ اگر آج وہ اگر آرٹیکل 6 کا شکنجہ مخالف سیاستدانوں کے گرد کستی ہے تو آئین کی کئی خلاف ورزیاں جان بوجھ کر شہباز شریف کی پہلی وفاقی حکومت، نگراں حکومت کرچکی ہے۔ اس لیے یہ راستہ کانٹوں بھرا ہے اور دامن سب کے ہی تار تار ہوسکتے ہیں۔

    (یہ تحریر مصنّف کے ذاتی خیالات، اس کی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزاپور کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’سیکرڈ گیمز‘‘ کے بعد، آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر یہ دوسری ایسی انڈین ویب سیریز ہے، جس کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔ 

    ’’مرزا پور‘‘ کے اب تک تین سیزن آچکے ہیں۔ یہ تیسرا سیزن 5 جولائی 2024 کو ایمازون پرائم ویڈیو پر 10 اقساط کی صورت میں اسٹریم لائن کیا گیا ہے۔ اس تیسرے سیزن کا تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کیا مرزا پور حقیقتاً انڈیا کا کوئی شہر ہے؟

    جی ہاں، بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک شہر کا نام ’’مرزا پور‘‘ ہے، جو قالین اور پیتل کی صنعتوں کے لیے مشہور ہے، جب کہ یہاں کی لوک موسیقی "کجاری” اور "برہا” بھی اس علاقہ کی ایک شناخت ہے۔ اس ویب سیریز میں قالین بنانے کی صنعت کا ذکر تو ملتا ہے، مگر اس کے علاوہ جو کچھ دکھایا گیا ہے، ان سب کا اس علاقے سے کوئی تعلق نہیں۔

    مرزا پور

    جن چیزوں سے تعلق بنتا تھا، خاص طور پر موسیقی، اس کا ذکر ویب سیریز میں دور دور تک نہیں ملتا۔ ہندی، اردو اور بھوجپوری زبانیں بولنے والے اس شہر کی اصل پہچان اور حوالہ ہیں جب کہ ناہید عابدی، امر گوسوامی اور لکشمی راج شرما جیسے ادیب اسی شہر سے ہیں، اور ہندوستانی ادب میں انہوں نے بہت نام کمایا ہے۔ فرضی واقعات پر مبنی ویب سیریز کے ذریعے ایسے شہر پر غنڈہ گردی کی چھاپ لگا دینا بہرحال غلط ہے، جس پر مرزا پور کے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ضرور رنجیدہ ہوں گے۔

    گزشتہ دو سیزنز کا خلاصہ اور تیسرا سیزن

    مار دھاڑ سے بھرپور اس کہانی میں ہندوستان کے شہر مرزا پور کو لاقانونیت کا گڑھ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ طاقت، جرم اور انتقام کے پس منظر میں ایک گدی کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جو اس پر بیٹھتا ہے، وہ راج کرتا ہے۔ کالا دھن کماتا ہے اور طاقت کے مرکز پر بھی اسی کا حکم چلتا ہے۔ سیریز کی ابتدا ہی سے علی فضل، دیویندو، پنکج ترپاٹھی، وکرانت میسی، رسیکا دوگل، شریا پیلگونکر، اور شویتا ترپاٹھی جیسے مشہور اداکاروں نے اپنی شان دار پرفارمنس پر خوب ستائش سمیٹی اور یہ سلسلہ دوسرے سیزن میں بھی جاری رہا۔ ان دنوں اس ویب سیریز کا تیسرا سیزن دیکھا جا رہا ہے، لیکن گزشتہ دو سیزنز میں کیا ہوا، ہم اس کا خلاصہ یہاں پیش کر رہے ہیں۔

    پہلا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا پہلا سیزن 2018 میں ریلیز ہوا تھا۔ اس میں ناظرین کو جرم کے باشاہ قالین بھیا (پنکج ترپاٹھی) کی سفاک دنیا دکھائی گئی ہے، جو بندوق کی بڑھتی ہوئی غیر قانونی تجارت کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ گڈو پنڈت اور ببلو پنڈت (بالترتیب علی فضل اور وکرانت میسی) کو اپنے گروہ میں شامل کرتا ہے، اور وہ قالین بھیا کے آپریشنز میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ قالین بھیا کا پرجوش بیٹا منا بھیا (دیوینندو) ان کو اپنی امنگوں اور مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ بیانیہ طاقت کی بڑھتی ہوئی کشمکش اور بے رحم دشمنیوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ گڈو اور ببلو زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور منا جیسے دشمنوں کا غصہ دوسروں پر نکالتے ہیں۔ اس سیزن میں ایک کردار سویٹی گپتا (شریا پِلگاونکر) کا ہے جو گڈو کے لیے آتی ہے، اور دشمنی کو مزید ہوا دیتی ہے، خاص طور پر منّا سے، جو اس کے لیے نرم جذبات رکھتا ہے۔ سیزن کا اختتام ایک شادی کے موقع پر چونکا دینے والے انداز سے ہوتا ہے، جہاں غصے اور انتقام کی آگے میں جلتا ہوا منّا ایک پرتشدد حملے کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک دل دہلا دینے والے موڑ وہ آتا ہے، جب منّا سویٹی اور ببلو کو مار ڈالتا ہے اور گڈو شدید زخمی ہو جاتا ہے۔ گڈو، گولو (شویتا ترپاٹھی) سویٹی کی بہن کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو الم ناک واقعات کی گواہ بھی ہے۔ سیزن کا اختتام قالین بھیا کے ایک پولیس اہلکار کو ختم کر کے اپنے دشمنوں پر غلبہ پانے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔

    دوسرا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا دوسرا سیزن 2020 میں ریلیز ہوا تھا۔ کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے چھوڑا گیا تھا۔ دوسرے سیزن میں دکھایا ہے کہ شادی میں وحشیانہ قتل کے بعد علاقہ میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور قتل و غارت بڑھ گئی ہے۔ مختلف کرداروں کو انتقام اور طاقت کی تلاش میں سرگرداں دکھایا گیا ہے، جو دوسروں کی قسمت کے فیصلے کررہے ہیں۔ منا، اپنے زخم مندمل ہونے کے بعد نئی سیاسی دوستیاں اور بااثر شخصیات سے تعلقات بنا رہا ہے، جن میں وزیر اعلیٰ کی بیٹی مادھوری (ایشا تلوار) کے ساتھ پیچیدہ تعلقات بھی شامل ہیں۔ منا کے اپنے والد، قالین بھیا کو ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ اور مختلف حربے، ترپاٹھی خاندان کے اندر پہلے سے ہی موجود پیچیدہ معاملات اور طاقت کے حصول کے راستے میں مشکلات بڑھا دیتے ہیں۔

    دریں اثنا گڈو، جو اپنے بھائی ببلو کی موت کا بدلہ لینے کا عزم کیے ہوئے ہے، اسی بنیاد پر گولو کے ساتھ اتحاد کرلیتا ہے، جو خود بھی اپنوں کو کھو چکا ہے اور انصاف اور بدلہ لینے کے لیے پرجوش ہے۔ وہ دونوں اپنے بہن بھائیوں کو کھو چکے ہیں۔ اس کی اذیت اور دکھ ان کو انتقام کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس سیزن کا اختتام آپس میں ایک جھڑپ پر ہوتا ہے، جب گڈو اور گولو اپنے دشمن منّا اور قالین بھیا کو زیر کرنے اور ان پر غلبہ پانے کے لیے ان سے زبردست لڑائی کرتے ہیں۔ گڈو، منّا کو قتل کر کے اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے جب کہ قالین بھیا کو شدید زخمی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شرد شکلا (انجم شرما) زخمی قالین بھیا کو بچاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور اس سیزن کا اختتام ایک ایسے نوٹ پر ہوتا ہے، جس سے سیریز میں ایک بے تابی سے متوقع تسلسل کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ تیسرا سیزن یہیں سے شروع ہوتا ہے اور اب ہم تیسرے سیزن کی طرف چلتے ہیں۔

    پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    اب ویب سیریز کی کہانی جہاں پہنچ چکی ہے، وہاں بڑے چھوٹے بہت سارے کردار بھی اکٹھا ہوگئے ہیں۔ کچھ کردار اس کہانی سے باہر ہو گئے تھے اور کچھ نئے کردار سامنے آئے ہیں۔ مجموعی طور پر کرداروں کو کہانی کی تشکیل کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ مرزا پور کی گدی پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے پانچ خاندانوں کے درمیان کشمکش جاری ہے، جو اس مقصد کے حصول میں مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ اس بنیاد پر دے رہے ہیں کہ کسی طرح مرزا پور کی گدی پر ان کا قبضہ ہو جائے، جو ناجائز اسلحے سے کمائی کے لیے سونے کی کان جیسی ہے۔ یہ بظاہر قالین بیچنے کا کاروبار دکھائی دیتا ہے جس کے کئی دروازے ملکی سیاست اور اقتدار کی راہدریوں میں بھی کھلتے ہیں۔

    مرزا پور

    یہ پانچ خاندان ترپاٹھی، پنڈت، گپتا، تیاگی، شکلا اور یادیو ہیں۔ بالترتیب پہلا خاندان گدی نشین ہے اور پہلے سیزن پر یہی چھایا ہوا ہے۔ دوسرا خاندان دوسرے سیزن کے اختتام تک اس گدی کو حاصل کر لیتا ہے اور تیسرے سیزن تک اس خاندان کا گدی پر قبضہ برقرار دکھایا گیا ہے، لیکن تیسرے سیزن کے اختتام پر یہ طاقت اور راج پھر تھرپاٹی خاندان کو منتقل ہوجاتا ہے۔ چوتھے سیزن میں کون اس گدی پر بیٹھے گا، یہ دیکھنا ہوگا۔ ان دونوں خاندانوں سے کئی کردار جڑے ہوئے ہیں، جو اس کی گدی کے لیے جنگ میں ان کی معاونت کرتے ہیں۔

    مرزا پور

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز امریکی اسٹریمنگ پورٹل ایمازون پرائم ویڈیو کی ہے، اور اسے انڈیا میں ایکسل انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کیا ہے۔ اس کے پروڈیوسرز معروف اداکار فرحان اختر اور رتیش سدھوانی ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی میڈیا انڈسٹری کے لیے زبردست کام کرچکے ہیں، جن میں سرفہرست ان کی فلم ’’دل چاہتا ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ ویب سیریز کی مرکزی اسکرپٹ نویس کرن انشومن اور پونیت کرشنا ہیں۔

    ہدایت کاری کی بات کی جائے تو چار نام سامنے آتے ہیں اور یہ کرن انشومن، گورمیت سنگھ، میہار ڈیسائی اور آنند لیر ہیں۔ اس ویب سیریز کو فلمانے کے لیے بھارتی ریاست اتر پردیش کے کئی شہروں کا انتخاب کیا گیا، جن میں مرزا پور کے علاوہ جون پور، اعظم گڑھ، غازی پور، لکھنؤ، گورکھ پور اور دیگر شامل ہیں۔ اس سیزن میں تشدد پر مبنی مناظر کم دکھائے گئے اور یہ اس تیسرے سیزن کی سب سے اہم بات تھی جب کہ کہانی میں کلائمکس کمزور رہے، جس کا اس ویب سیریز کی شہرت پر منفی اثر پڑا اور اب اس پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ یقینا اسے ہدایت کاری کا نقص شمار کیا جائے گا۔

    کہانی/ اداکاری

    اس ویب سیریز کی کہانی کا تذکرہ تو کافی ہوچکا ہے کہ یہ ایسا شہر ہے جو جرائم پیشہ افراد کے لیے گویا جنت ہے اور ہر کوئی بے پناہ طاقت، دولت اور اقتدار کے لیے ایک گدی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لیے کھینچا تانی کو ان تینوں سیزنز میں دکھایا گیا ہے۔ پہلے اور دوسرے سیزن میں کہانی کی رفتار تیز تھی، جو تیسرے سیزن تک آتے آتے مدھم پڑھ گئی۔ کلائمکس بھی کم ہوتے چلے گئے، نتیجتا کہانی سست روی کا شکار ہوئی اور غیر دل چسپ ہوتی چلی گئی۔ ہر چند کہ اختتامی دو اقساط میں کہانی نے پھر رفتار پکڑی اور اختتام تک آتے آتے پھر تجسس قائم کر دیا۔ مگر مجموعی طور پر تیسرے سیزن کی کہانی کمزور رہی بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سست روی کی نذر ہوگئی۔

    اداکاری میں علی فضل تیسرے سیزن میں بھی چھائے رہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تیسرا سیزن علی فضل اور انجم شرما کا تھا۔ پنکج ترپاٹھی کا کردار مختصر رہا، البتہ سویٹا ترپاٹھی نے اپنی اداکاری سے خوب متاثر کیا۔ وجے ورما جیسے اداکار کو اس ویب سیریز میں ضائع کیا گیا۔ میگھنا ملک، راجیش تلنگ، شیر نواز جیجینا نے ذیلی کرداروں میں اپنے کام سے بخوبی انصاف کیا۔ طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اداکاری کا تناسب درست رہا۔ البتہ کہانی کمزور ہونے کی وجہ سے ناظرین کو کہیں کہیں اکتاہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر گڈو بھیا کی یک دم گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، انہوں نے ہنستے کھیلتے گرفتاری دے دی۔ پھر اچانک جیل سے باہر بھی نکل آئے۔ ایسے بے ربط مناظر ویب سیریز میں کئی جگہ دیکھنے کو ملیں گے، جن کا کہانی اور اداکاری دونوں پر منفی اثر نظر آتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر تبصرے

    فلموں اور ویب سیریز کے حوالے سے متعلقہ ویب سائٹوں پر ’’مرزا پور۔ سیزن تھری‘‘ کی پسندیدگی کا تناسب بڑھ رہا ہے، مگر یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ تیسرے سیزن سے جو توقع تھی، وہ اس پر پورا نہیں اترا۔ سوشل میڈیا پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کی ایک وجہ فحش زبان اور تھوک کے حساب سے گالیوں کا استعمال بھی تھا، جو اس سے پہلے کبھی ویب سیریز میں نہیں ہوا تھا۔ اس پر مزید ستم قتل و غارت کے مناظر کی بھرمار تھی۔ تیسرے سیزن میں ان دونوں کا تناسب کم کیا گیا، جو کہ اچھی بات ہے، مگر کیا یہی اچھی بات ناظرین کو پسند نہیں آئی اور وہ اس تیسرے سیزن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دو سیزنز میں تیز مسالے والی بریانی کھلانے کے بعد اگر تیسرے سیزن کے نام پر سادہ پلاؤ کھلایا جائے تو شاید یہی ردعمل سامنے آئے گا۔

    آخری بات

    اس ویب سیریز کے تیسرے سیزن کے اختتام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب چوتھا سیزن بھی آئے گا۔ کہانی اور اداکاری کے لحاظ سے یہ ویب سیریز اب تک پھر بھی ٹھیک ہے۔ اگر آپ کو ایکشن، تھرلر سینما دیکھنا ہے تو یہ آپ کے لیے ہی ہے۔ مرزا پور ویب سیریز کے پروڈیوسرز کو چاہیے کہ وہ زبردستی اس کہانی کو نہ گھسیٹیں بلکہ چوتھے سیزن پر اس کا زبردست اور یادگار انجام دکھائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انڈین اسٹریمنگ پورٹل کی تاریخ کی یہ کامیاب ترین ویب سیریز ناکامی کا منہ دیکھے گی، جس کی جھلک تیسرے سیزن میں کسی حد تک نظر آگئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مار دھاڑ سے بھرپور، دنگا فساد پر مبنی کہانی کو جس طرح اصل لوکیشنز پر فلمایا گیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔

  • مارکیز کا آخری ناول اور انعام ندیم کا ترجمہ

    مارکیز کا آخری ناول اور انعام ندیم کا ترجمہ

    اردو میں غیر ملکی ادب کے تراجم کا سلسلہ کم و بیش اردو فکشن جتنا پرانا ہے۔ آپ میر امن دہلوی تک جائیں یا ان سے بھی قبل ملا وجہی تک، اردو ترجمہ اور فکشن کا ساتھ بہت پرانا اور ابتدائی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے تراجم کے سلسلے میں ایک نمایاں جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے، شاید اشاعتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں ایک مثبت اشارہ پایا جاتا ہے، اگرچہ یہ مترجِمین کے لیے اب بھی کوئی منافع بخش عمل نہیں ہے۔ شاید کوئی پبلشر آپ سے آپ کا ناول اتنے اطمینان کے ساتھ قبول نہ کرے جتنے اطمینان کے ساتھ کوئی ترجمہ قبول کرے۔

    تراجم کے بارے میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن اس سلسلے میں جو سب سے اہم بات ہے، وہ یہ ہے کہ، تراجم کے ذریعے ثقافتی ڈسکورس کی منتقلی ممکن ہو جاتی ہے۔ کسی زبان میں ڈسکورس کی تشکیل کے عمل کو اس زبان کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا، لیکن ادب ایک ایسی شے ہے جو اپنے ترجمے کی صورت میں ایک اجنبی اور غیر متعلقہ ڈسکورس کو بھی مانوس اور متعلقہ محسوس کرا دیتا ہے۔ اگر کوئی اس امر سے واقف ہے کہ ہماری زبان اور ہماری زندگی میں ڈسکورسز کا کتنا عمل دخل اور اثر ہے، وہ تراجم کی اس اہمیت کو بھی بہ خوبی سمجھ سکتا ہے۔ چناں چہ ہمارے درمیان اگر کوئی اچھا مترجم موجود ہے تو اسے مختلف ثقافتوں کے درمیان  ایک مذاکرات کار کا درجہ حاصل ہے۔ جو دو زبانوں اور دو ثقافتوں کے درمیان معاملہ کررہا ہے۔

    ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“

    اسی طرح مترجمین کے بارے میں بھی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ لفظ کی بجائے معنی کے فہم تک رسائی کرے؟ مصنف نے اگر کسی لفظ کو ڈسکورس بنا کر پیش کیا ہے تو محض اس کا قاموسی معنیٰ ترجمے کے عمل کی تکمیل نہیں کر سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے تراجم اسی لیے ہمیں بے مزہ محسوس ہوتے ہیں اور لگا کرتا ہے جیسے مصنف نے ادب لکھتے ہوئے بھی اس کی زبان کو اُسی کے محاسن سے پاک رکھا ہے۔

    ایک جملہ ایسا ہے جو ثقافتی ہی نہیں بلکہ ہمارے سماجی، سیاسی اور معاشی مظاہر میں بھی کلیشے کی مانند دہرایا جاتا ہے۔ وہ جملہ ہے: ”یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔“ یا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیں ہر کام آسان چاہیے، یا یہ کہ جتنا لکھا ہے، اُسے کافی سمجھا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ناول لکھ رہا ہے تو یہ اس کے تخلیقی جذبے کی سنجیدگی کا غماز عمل ہے۔ لیکن اگر وہ غیر ملکی ادب کا ترجمہ کر رہا ہے تو اس میں تخلیقی جذبہ کارفرما تو ہے ہی، اس میں فکری سنجیدگی کی ایک اعلیٰ سطح بھی کارفرما ہے۔ اس کے بغیر ترجمے کا سارا عمل ہی بے معنی اور مہمل ہو جاتا ہے۔ تو یہاں سنجیدگی کا اتنا بار ہے، ایسے میں ترجمے کے عمل کے سلسلے میں یہ جملہ بولنا یا لکھنا کہ ”یہ کوئی آسان کام نہیں“ خود ایک مہمل بات ہے۔ ترجمہ کتنا ہی مشکل کام کیوں نہ ہو، مترجم کا بے پناہ جذبہ اسے اس کے لیے ممکن بنا دیتا ہے۔

    ترجمہ خود میری پروفیشنل لائف کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ میں ٹائم اور نیوز ویک کی ٹائٹل اسٹوریز ترجمہ کرتا رہا ہوں۔ آرٹ بک والڈ کے کالم ترجمہ کرتے ہوئے کئی بار مجھے دانتوں تلے پسینہ آیا۔ نوبیل انعام یافتہ شیمس ہینی کی نظمیں ترجمہ کرتے ہوئے اس عمل میں مستور بے پناہ سنجیدگی کی ضرورت کو میں نے گہرائی سے محسوس کیا۔ اور حال ہی میں ژاک دریدا کے ایک مضمون کا ترجمہ کرتے ہوئے میں نے اس اضطراب کو محسوس کیا جو کسی اور زبان کے متن کے زیادہ سے زیادہ درست مفہوم تک رسائی کے لیے بار بار ایڈیٹنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔

    میڈیا سے وابستگی نے ترجمے کے عمل کی کچھ باریکیوں سے بھی روشناس کرایا۔ ان میں ایک یہ بھی شامل ہے جس کی مثال میں نے اس کتاب میں مارکیز کے تعارف والے صفحے پر پائی۔ لکھا ہے کہ مارکیز کی دیگر تصانیف میں ”وبا کے دنوں میں محبت“ ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“ وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ مارکیز نے ان عنوانات سے کوئی ناول نہیں لکھے۔ ہم سمیت پوری دنیا تک یہ ناول انگریزی زبان میں پہنچے ہیں۔ کسی بھی ناول کا ترجمہ کرتے ہوئے کتاب پر عنوان کا بھی ترجمہ کیا جاتا ہے اور کیا جانا چاہیے، لیکن مصنف کے ناولوں کی فہرست اگر مذکور کرنی ہو تو پھر ان عنوانات کا ترجمہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ انٹرنیٹ پر ہم انگریزی عنوان ہی لکھ کر اس کے بارے میں دستیاب تمام معلومات تک رسائی کر سکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ انعام ندیم کے تعارف میں کتابوں کے عنوانات میں یہ غلطی نہیں دہرائی گئی ہے۔

    ترجمہ کرتے ہوئے ایک بہت عام غلطی بار بار دہرائی جاتی ہے، لفظ کا ترجمہ ہو جاتا ہے لیکن احساس کی ترجمانی رہ جاتی ہے۔ مترجم کو متن کی قرات کے دوران الفاظ اور جملوں کے قاموسی مفہوم پر پوری توجہ مرکوز کرنی پڑتی ہے لیکن اچھا مترجم ہمیشہ یہ دیکھتا ہے کہ کوئی لفظ یا جملہ پڑھ کر جو مفہوم اس کے ذہن میں آ رہا ہے، وہ تو ایک طرف، لیکن اسے پڑھ کر اسے محسوس کیا ہوا ہے، یہ اس کے لیے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ کیوں کہ ادبی تراجم تب تک مکمل نہیں ہو پاتے جب تک متن کے پیدا کردہ احساس تک رسائی نہیں کی جاتی۔ ہم ایسے بھی تراجم دیکھتے ہیں جو نہ تو ہمارے اندر کوئی قابل قدر احساس پیدا کرتے ہیں، نہ ان سے مصنف کے فن کے بارے میں کوئی قابل قدر خیال جنم لیتا ہے۔ مجھے انعام ندیم کا یہ ترجمہ پڑھتے ہوئے خوشی ہوئی کہ انھوں نے مارکیز کے احساس کو منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔

    ابھی جب میں ثقافتی ڈسکورس کی بات کر رہا تھا، تو شاید کسی کے ذہن میں اس کے شناخت کیے جانے کا سوال اٹھا ہو۔ یعنی یہ کسی بھی چیز کے مفہوم پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ ایک جگہ تو یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ آپ اسے بالکل ٹھیک ٹرانسلیٹ کر لیں، اور ایک جگہ آپ کو اس سے بچنا ہوتا ہے کہ کہیں کسی لفظ کا ترجمہ کرتے ہوئے اضافی ڈسکورس شامل نہ ہو جائے۔ میں اس کی مثال اس کتاب سے دینا چاہتا ہوں۔ اردو ترجمے میں اینا مگدالینا جب سفر سے گھر لوٹتی ہے تو شوہر سے بات کرتے ہوئے دو بار لفظ ’’طہارت‘‘ ادا کرتی ہے۔ یہ لفظ پڑھتے ہوئے ذہن کو جھٹکا لگتا ہے کہ کیا وہ شریعت محمدی پر عمل پیرا تھی! طہارت اور پاکیزگی ایسی اصطلاحات ہیں جو جسم کی صفائی سے کہیں بڑھ کر مفہوم کی حامل ہیں۔ اگر اینا مگدالینا کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ اس کے جسم سے پسینے کی وجہ سے بو آ رہی ہے، تو اس کے لیے زبان کسی اور لفظ کا تقاضا کرتا ہے، جو اضافی مفاہیم سے Loaded نہ ہو۔

    انعام ندیم نے چھ ناول ترجمہ کیے ہیں، اور ان کا یہ پہلا ترجمہ ہے جو میں پڑھ سکا ہوں۔ انھوں نے انگریزی جملے کی ساخت کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اردو ترجمہ کیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ مارکیز نے کس قسم کے جملوں کی مدد سے کہانی سناتے ہوئے جذبات سے بھری ہوئی سچویشنز تخلیق کی ہیں۔ مارکیز کی داستان گوئی ہمارے اس دور کی ایک مثالی داستان گوئی ہے۔ یہ بات میں نہ صرف دوسروں کی تقلید میں کہہ رہا ہوں بلکہ خود میری بھی اس وجہ سے یہی رائے ہے کہ ان کے ناول پڑھتے ہوئے میں ان میں پوری طرح خود کو کھو دیتا ہوں۔ مارکیز کا یہ فن اس ناولٹ میں بہت ہی سکڑی ہوئی حالت میں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مارکیز نے بے حد اختصار سے کام لیا ہے، جس کی وجہ سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انھوں نے ایک طویل داستان کی تلخیص پیش کی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک تلخیص میں تمام داستانوی رنگوں کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے، ایسے میں انگریزی کے مقابل اردو جیسی چھوٹی زبان میں اس کی منتقلی کسی چیلنج سے کم امر نہیں۔ انعام ندیم نے اس چیلنج کو قبول کیا، اور مارکیز کے ناول کا انگریزی ترجمہ Until August کے عنوان سے مارکیٹ میں آتے ہی ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر اس کا اردو ترجمہ ’’ملتے ہیں اگست میں‘‘ کے عنوان سے پیش کر دیا۔

    مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔

    یہ ناول ایک خاتون کی جنسی سرگرمیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس کا بنیادی سرا ایک پُراسرار معاملے سے جڑا ہے۔ یہ مارکیز کا دستخطی اسٹائل ہے، وہ اپنے ناولوں میں جادوئی حقیقت نگاری کا عنصر اسی طرح لے کر آتے ہیں۔ مارکیز جس طرح جنسی سرگرمیوں کو بے باکی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ اردو مترجم کے لیے سچ مچ کے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ مترجم کو کہیں کچھ چھپانا پڑتا ہے اور کہیں مدھم کرنا۔ انعام ندیم نے ایسے حصوں سے گزرتے ہوئے پوری طرح اپنے ہنر کا اظہار کیا ہے اور بعض مقامات کو رواں اور خوب صورت نثر میں منتقل کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک اچھا اور دل پذیر ترجمہ ہے، اور اسے بک کارنر نے بہت خوب صورتی سے چھاپا ہے۔ اس کتاب کی ایک منفرد خصوصیت یہ بھی ہے کہ انعام ندیم نے صرف ناول ہی نہیں، بلکہ وہ مسودہ جسے مارکیز نے خود ایڈٹ کیا تھا، وہ بھی اس کتاب کا حصہ بنا دیا ہے۔

  • ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز ڈارک میٹر اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔

    کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔

    سائنس کی دنیا میں "ڈارک میٹر” کیا ہے ؟

    ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔

    کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول "ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔

    ڈارک میٹراب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔

    ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔

    ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔

    اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری

    اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔

    اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔

    حرفِ آخر

    یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:

    اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
    اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!

  • غزہ جنگ: اسرائیل آخر چاہتا کیا ہے؟

    غزہ جنگ: اسرائیل آخر چاہتا کیا ہے؟

    شریکی سنگھ سندھو

    چند روز قبل ایک تصویر نظر سے گزری جس میں ایک باپ اپنے بیٹے کو منہدم غسل خانے میں صابن لگا کر نہلا رہا ہے۔ دیار اجڑ گیا لیکن دیارِ دل اب بھی روشن ہے۔

    ایسی کئی تصویریں اور ویڈیوز ہر روز انٹرنیٹ پر نظر آتی ہیں۔ سہمے ہوئے بچے، ماتم کناں مائیں۔ جہاں تک نظر جاتی ہے تباہی، ویرانی، کنکریٹ کی عمارتوں کے کھنڈر۔ ساحر لدھیانوی نے خوب کہا تھا کہ میرے بربط کے سینے میں نغموں کا دم گھٹ گیا ہے، تانیں چیخوں کے انبار میں دب گئی ہیں، اور گیتوں کے سَر ہچکیاں بن گئے ہیں۔ اور آج کا غزہ ان الفاظ کی عکاسی کر رہا ہے۔

    اسرائیلی بم برسا رہے ہیں اور شہریوں کو مار رہے ہیں۔ فلسطینی اپنے گھروں کو چھوڑ رہے ہیں اور عارضی پناہ گاہوں سے بھی بھاگنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اور اب بھی تقریباً 7 ماہ پر محیط غزہ میں اسرائیل کی جنگ ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ راقم سمیت یہ سوال کتنے ہی ذہنوں‌ میں اٹھ رہا ہے کہ آخر اسرائیل چاہتا کیا ہے؟ کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا؟

    اسرائیل کے حکومتی بیانیے کے لحاظ سے اس خون خرابے کے درج ذیل مقاصد ہیں۔

    1- غزہ سے یرغمالیوں کی واپسی
    2- حماس کی فوج اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنا
    3- اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ اسرائیل کے خلاف دوبارہ کبھی خطرہ نہیں بنے گا

    غزہ میں برپا اس جنگ کے تاریخی پس منظر اور حماس کی کارروائی کے تناظر میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جس سے ایک کہانی یاد آتی ہے۔ جب بھیڑیے نے میمنے پر ایک الزام لگا کر کہ تم میرا پانی جھوٹھا کر رہے ہو، چیر پھاڑ دیا، جب کہ بھیڑیا بلندی پر تھا اور میمنا نیچے گھاٹی میں۔

    بعض ماہرین کے نزدیک یہ تباہی اور ہلاکتیں ہی تو اس جنگ کا مقصد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں رہنے کے لیے اس جنگ کو طول دے رہے ہیں۔ اس جنگ کے پسِ پردہ عزائم صرف فلسطینیوں‌ کو مٹانا اور بے دخل کرنا ہے۔

    دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ فوج غزہ میں حماس کو "ختم کرنے کے مرحلے” کے قریب ہے۔ ہم حماس کی دہشت گرد فوج کو جڑ سے ختم کر دیں گے اور اس کی باقیات پر حملے جاری رکھیں گے یہاں تک کہ اسرائیل حماس کے خلاف اپنی جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔

    پھر وہی بات کہ تم نے مجھے پچھلے سال گالی دی تھی۔ تم نے میرا پانی گدلا کیا۔

    کچھ سنا سنا لگتا ہے کہ ہم تو مشرق وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں، ہم عراق میں جمہوریت قائم کر کے واپس جائیں گے، ہم افغانستان کو طالبان کے استبداد سے نجات دلوا کر یہاں عوام دوست حکومت تشکیل دے کر جلد لوٹ جائیں گے۔ بعید نہیں کہ آئندہ سالوں میں سننا پڑے کہ ہم تو بس نیوکلیئر اثاثوں کی محفوظ امریکی مقامات پر منتقلی چاہتے ہیں۔ ورنہ پاکستان کی خود مختاری میں دخل اندازی ہمارا مقصد نہیں۔

    بہرحال مجھے کیا ، میرا تو بجلی کا بل ہی مجھے خون رلانے کو کافی ہے۔

    (یہ بلاگ/ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)
  • متنازع ٹی 20 ورلڈ کپ اور بھارت کی فتح

    متنازع ٹی 20 ورلڈ کپ اور بھارت کی فتح

    کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار آئی سی سی ایونٹ نے امریکا کا سفر کیا اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں ٹی 20 ورلڈ کپ منعقد ہوا، جس میں بھارت کو فتح حاصل ہوئی، لیکن لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والا یہ ٹورنامنٹ ٹی 20 عالمی کپ کی 17 سالہ تاریخ کا متنازع ترین ورلڈ کپ ثابت ہوا۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل، اس میں پہلی بار 20 ٹیموں کی شمولیت، ویسٹ انڈیز کے ساتھ امریکا میں انعقاد کو خوش آئند اور شائقین کرکٹ اس کے سنسنی خیز ہونے کی توقع کر رہے تھے لیکن یہ ایونٹ اپنے آغاز سے پہلے ہی کئی تنازعات کا ایسا شکار ہوا کہ پھر پورے ایونٹ میں یہ سر اٹھاتے رہے اور لوگوں کو بھی انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کرتے رہے۔ بات یہاں تک پہنچی کہ کرکٹ کے کئی سابق بڑے ناموں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل پر جانبداری کا الزام لگاتے ہوئے بھارت کو آئی سی سی کا ’’لاڈلا‘‘ تک قرار دے ڈالا گوکہ آئی سی سی پر یہ الزام نیا نہیں بلکہ ماضی میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے اسی رویے پر آئی سی سی کو انڈین کرکٹ کونسل تک کہا گیا لیکن اس بار تو جانبداری اور مبینہ فائدہ پہنچانے کی تمام حدوں کو ہی پار کر لیا گیا۔

    یہ میگا ایونٹ کو مایوس کن پچز، ناقص سفری سہولیات، موسم کی مداخلت، پاکستان ٹیم کی بدترین کارکردگی، حیران کن طور پر سابق عالمی چیمپئنز پاکستان، سری لنکا سمیت نیوزی لینڈ کے پہلے مرحلے میں ہی ورلڈ کپ سے باہر ہو جانے کے علاوہ آئی سی سی کی جانب سے بھارت کی بے جا طرفداری اور دیگر ٹیموں پر ترجیح اور فیور دینے کے حوالے سے شائقین کرکٹ کے دلوں میں چبھتی ہوئی ایک تلخ یاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور یہی بات اس ورلڈ کپ کو ٹی 20 ورلڈ کپ کی 17 سالہ تاریخ کا متنازع ترین ٹورنامنٹ بھی بناتی ہے۔

    پاکستان، نیوزی لینڈ اور سری لنکا پہلے راؤنڈ میں باہر ہوئے تو ہوئے، لیکن میزبان ویسٹ انڈیز باہر ہوا تو مقامی افراد کے لیے یہ ورلڈ کپ تو بیگانی شادی بن گیا۔ بات کریں انتطامات کی تو ٹیموں کو ایئرپورٹ پر انتظار کرنا پڑا۔ ناقص سفری سہولیات کے باعث ہوائی اڈے ہی سری لنکا، آئرلینڈ اور جنوبی افریقہ کے لیے ہوٹل بن گئے۔

    اس ورلڈ کپ میں مجموعی طور پر 55 میچز کھیلے گئے، جن میں سے کئی بارش سے متاثر جب کہ ایک میچ بے نتیجہ اور تین میچز میں تو ٹاس تک نہ ہوسکا۔ جس نے ٹورنامنٹ پر بھی اثر ڈالا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ پاکستان کی کارکردگی اس میگا ایونٹ میں انتہائی بدترین رہی لیکن امریکا اور آئرلینڈ کا میچ میچ بارش کی نذر ہونے کے باعث بھی گرین شرٹس سپر ایٹ میں پہنچنے کا موقع گنوا بیٹھے، پاکستان سمیت نیوزی لینڈ، سری لنکا جیسی ٹیمیں پہلے مرحلے میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر اور چھوٹی ٹیمیں سپر ایٹ میں پہنچیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیمی فائنل اور فائنل میچ میں شائقین کرکٹ کی دلچسپی ختم ہوگئی جس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں سیمی فائنلز سمیت فائنل میچ کے ٹکٹ بھی 100 فیصد فروخت نہ ہوسکے اور شاید یہ میگا ایونٹ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ناک آؤٹ مرحلے میں اسٹیڈیم مکمل طور پر بھرے ہوئے نہ تھے۔

    امریکا میں ورلڈ کپ کا تجربہ ناکام رہا۔ دنیا کے ایک سپر پاور ملک میں پاور فل کرکٹ نہ ہو سکی بلکہ نیویارک کی پچز تو بلے بازوں کا قبرستان ثابت ہوئیں جہاں کوئی بھی ٹیم 150 کے اسکور کے ہندسے تک نہ پہنچ سکی جب کہ دوسری اننگ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیموں کے لیے تو137، 120 اور 113 جیسے کمترین ہدف کا تعاقب کرنا ناممکن ہوگیا اور ایسا شائقین کرکٹ نے بھارت اور پاکستان کے میچ بھی دیکھا۔ آئی سی سی اور مقامی منتظمین نے بھی میچز شیڈول کرتے ہوئے موسمی صورتحال کو مدنظر نہ رکھا جس کا نتیجہ ورلڈ کپ میں نظر آیا اور فلوریڈا میں بارش نے ٹیموں کی امیدوں پر پانی پھیرا۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ بنیادی طور پر چوکوں، چھکوں کا کھیل ہے۔ شائقین کرکٹ جارحانہ بلے بازی دیکھنے کے لیے آتے ہیں لیکن اس ورلڈ کپ میں سب کچھ الٹ ہوا۔ اس میگا ایونٹ میں بولرز کی کارکردگی اور ریکارڈز ہی نمایاں رہے جیسا کہ آسٹریلیا کے پیٹ کمنز نے کسی بھی میگا ایونٹ میں بیک ٹو بیک ہیٹ ٹرک کرنے والے پہلے بولر بنے جب کہ اسی ورلڈ کپ میں ایک ہی روز میں دو ہیٹ ٹرک بننے کا ریکارڈ بھی قائم ہوا۔ جس روز پیٹ کمنز نے افغانستان کے خلاف ہیٹ ٹرک کی، اسی روز ورلڈ کپ کے دوسرے میچ میں انگلینڈ کے کرس جارڈن نے امریکا کے خلاف یہ کارنامہ انجام دیا اور یوں ایک ہی ٹورنامنٹ میں تین ہیٹ ٹرکس بنیں۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار کسی بولر نے اپنے کوٹے کے چاروں اوورز میڈن کرائے۔ نیوزی لینڈ کے لوکی فرگوسن نے پاپوا نیوگنی کے خلاف 24 کی 24 ڈاٹ بالز کرائیں اور ایک بھی رن نہ دینے کے ساتھ تین بلے بازوں کو بھی آؤٹ کیا۔

    تاہم ہم جب بیٹنگ کے شعبے کی جانب دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سب سے لو اسکورنگ میچز اور یکطرفہ میچز بھی اسی ٹورنامنٹ میں ہوئے۔ 55 میچز میں سے تین میچز تو مکمل طور پر بارش کی نذر ہوئے ایک میچ ادھورا رہا جب کہ کئی فیصلے ڈی ایل ایس قانون کے تحت ہوئے۔

    نواں ورلڈ کپ آئی سی سی کے لیے ایسا درد سر بنا کہ کئی منفی ریکارڈز ہی ریکارڈ بک کی زینت بن گئے جس میں ورلڈ کپ کی تاریخ کے مختصر ترین راؤنڈ میچ اور مختصر ترین سیمی فائنل بھی شامل ہوگئے۔

    ٹورنامنٹ میں کھیلے جانے والے مجموعی 52 میچز میں 100 سے زائد اننگز کھیلی گئیں لیکن ایک بھی بلے باز سنچری نہ بنا سکا اورکئی سالوں بعد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بغیر انفرادی سنچری کے اختتام پذیر ہوا۔ ٹورنامنٹ میں سب سے بڑا انفرادی اسکور 98 رہا جو میزبان ویسٹ انڈیز کے نکولس پورن نے افغانستان کے خلاف بنایا، جب کہ بلے باز ٹورنامنٹ کے میچز کی مجموعی تعداد کے برابر بھی نصف سنچریاں اسکور نہ کر سکے، صرف 45 نصف سنچریاں ہی بن سکیں۔ ورلڈ کپ کے 55 میچز میں سے صرف 4 میچز میں ہی 200 پلس اسکور بن سکا۔ 9 میچز میں ٹیمیں 100 کا ہندسہ بھی پار نہ کر سکیں جب کہ سوائے چند میچز کے بیشتر میچز یکطرفہ ثابت ہوئے جس نے ٹی ٹوئنٹی کی روایتی مقبولیت کو گہنایا۔

    اس میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ چھکوں کا ریکارڈ تو بن گیا اور پہلی بار کسی میگا ایونٹ میں مجموعی طور پر 500 سے زائد (517) چھکے لگائے گئے تاہم اس میں بلے بازوں کی جارحانہ بیٹنگ سے زیادہ میچز کی تعداد کثیر ہونے کی وجہ سے یہ سنگ میل عبور ہوا کیونکہ آج تک کسی میگا ایونٹ میں 55 میچز نہیں کھیلے گئے۔

    جس طرح کے آئی سی سی نے ٹیموں کے لیے انتظامات کیے اس سے شروع میں ہی اس پر جانبداری برتنے کے الزامات لگے اور کرکٹ سے وابستہ ماہرین سمیت شائقین کرکٹ کو بھی یہ کہنے پر مجبور کیا گیا کہ بھارت آئی سی سی کا لاڈلہ ہے جس کو ورلڈ کپ چیمپئن بنوانے کے لیے شروع سے ہی ماحول تیار کیا گیا۔ بھارت کو زیادہ سے زیادہ میچز ایک ہی گراؤنڈ میں دیے گئے تاکہ سفر کی تکان سے بچ سکیں، ہوٹلز اسٹیڈیم کے قریب دیے گئے جب کہ سری لنکا اور دیگر ٹیمیں اس حوالے سے شکایات ہی کرتی رہیں کہ ان کے ہوٹلز اسٹیڈیم سے کافی دور رکھے گئے ہیں۔ میچز کے اوقات کار بھی بھارت کی سہولت کے مطابق رکھے گئے۔ نیویارک میں ورلڈ کپ کا سب سے بڑا مقابلہ پاک بھارت ٹاکرا ہوا۔ جہاں دونوں ٹیمیں پہلی بار کھیل رہی تھیں اور پچز ایڈیلیڈ آسٹریلیا سے درآمد کی گئی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی سی سی اس بڑے مقابلے سے قبل دونوں روایتی حریف ٹیموں کو پچ جاننے اور ہم آہنگ ہونے کے لیے ایک ایک میچ کھیلنے کا موقع فراہم کرتا تاہم اس کے برعکس بھارت کو تو پاکستان سے مقابلے سے قبل آئرلینڈ کے ساتھ میچ دے دیا گیا جب کہ گرین شرٹس کو پہلی بار انڈیا کے خلاف ہی میدان میں اترنا پڑا۔
    آئی سی سی کی جانب سے ٹیم انڈیا کو سپورٹ کیے جانے کے لیے حد سے گزر جانے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل ہی بلیو شرٹس کو معلوم تھا کہ اگر وہ سیمی فائنل میں پہنچے تو وہ کس میدان میں اتریں گے۔ گروپ میں ٹاپ ہونے کی وجہ سے بھارت کے سیمی فائنل کے لیے ریزرو ڈے بھی نہ رکھا گیا تاکہ اگر بارش سے میچ واش آؤٹ ہو تو ’’لاڈلہ‘‘ بغیر کھیلے فائنل میں پہنچ جائے۔

    بھارت کو آؤٹ آف وے جا کر سہولتیں دینے اور دیگر ٹیموں پر ترجیح دینے کی باتیں جہاں سابق انگلش کپتان مائیکل وان، انضمام الحق سمیت دیگر نے کیں وہیں سابق بھارتی کھلاڑی سنجے منجریکر بھی خاموش نہ رہے اور آئی سی سی کی جانبداری پر بول اٹھے، لیکن بھارت چونکہ سب سے امیر اور کماؤ پوت بورڈ ہے اس لیے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کہاوت مشہور ہے کہ دودھ دینے والی گائے کی لات بھی برداشت کرنی پڑی ہے اور یہ لات ہر ٹورنامنٹ میں دیگر ٹیموں کو نقصان پہنچاتی آ رہی ہے۔

    (یہ مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی بلاگ/ تحریر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں‌)

  • The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں، جہاں اُن کے سیاسی نظام میں اعلانیہ طورپر آمریت موجود ہے اور کہیں یہ ڈھکے چھپے انداز میں اقتدار سے چمٹی ہوتی ہے۔ اب ایسے ماحول میں تصور کریں، آمریت نافذ کرنے والی ایک بد دماغ عورت ہو تو کیا منظر نامہ بنے گا۔ مذکورہ ویب سیریز "دی رجیم” میں یہی صورتِ حال پیشِ نظر ہے۔

    یورپ کے وسط میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی ہے، جہاں اس حکمران عورت نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اس فرضی کہانی پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے اور ہمیں چند ممالک کا واضح عکس اس کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔ آخر کار فکشن بھی ایک طرح سے سچ کی تلخی کو شیرینی میں ڈبو کر ہی پیش کرتا ہے۔ اس دل چسپ مگر مختصر امریکی ویب سیریز کا تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی /اسکرپٹ

    دی رجیم کا مرکزی خیال ایک فرضی ریاست میں نافذ نسائی آمریت ہے۔ یہ سیاسی تمثیلی کہانی ہے، جو بتاتی ہے کہ جبر کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کو اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ریاست پر قابض خاتون آمر”چانسلر ایلینا ورنہم” اپنے عالیشان محل میں براجمان دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ اپنی من مانی کرتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے علاوہ، ذاتی مراسم اور رشتے داروں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ایک حکمران اور ایک عورت، ان دونوں کا واضح فرق مرکزی کردار میں رکھا گیا ہے۔

    دی ریجیم

    اس خاتون آمر کی حکم رانی کا آخری سال دکھایا گیا ہے، جب اس کی زندگی میں ایک عسکری شخصیت، اس کی حفاظت کے لیے شامل ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے ایک آمریت پر دوسری آمریت غالب آجاتی ہے۔ چانسلر اپنے سیکورٹی سیکشن کے سربراہ کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے اور اس کی منشا کے مطابق سیاسی فیصلے کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پہلے شاہی محل میں اور بعد میں پورے ملک میں ایک انتشار پھیلتا ہے، جو آخرکار اس کی آمریت کو نگل لیتا ہے۔

    دی ریجیماس کہانی کے خالق امریکی اسکرپٹ رائٹر "ول ٹریسی” ہیں، جن کا لکھنے کا کیریئر ہی ویب سیریز پر مبنی ہے۔ وہ اس سے پہلے کئی عمدہ کہانیاں لکھ کر بے پناہ ستائش اور کئی ایوارڈز وصول کر چکے ہیں۔ ان میں دی مینیو، سکسیشن اور لاسٹ ویک ٹو نائٹ وِد جان الیور شامل ہیں۔اس مختصر امریکی ویب سیریز دی رجیم کی کل چھ اقساط ہیں، جن کو وہ چابک دستی سے قلم بند کرچکے ہیں۔ پوری کہانی مرکزی اور ذیلی کرداروں سے اچھی طرح پیوستہ ہے۔ اس لیے کہیں بھی ناظرین کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے فرضی ریاست کے نام پر کہانی میں جس ملک کے ڈھانچے کو پیش کیا ہے، وہ برطانیہ کا ہے۔ کہانی میں آمریت کو بیان کرتے کرتے موجودہ دور کے کئی سیاسی مسائل، اختلافات اور دنیا کے تحفظات کو بھی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ خاص طور پر عالمی برادری میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور امریکا کی دیگر ممالک میں سیاسی مداخلت سمیت متعدد اہم معاملات کو کہانی میں مہارت سے بیان کیا ہے۔

    اداکاری

    یہ کہنا بجا ہے کہ برطانوی اداکارہ "کیٹ ونسلیٹ” نے اپنی اداکاری سے دی رجیم میں اپنے کردار کو زندۂ جاوید کر دیا۔ اداکارہ نے اپنے کردار کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مدمقابل بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت یورپی اداکار "میتھیاس شوناٹس” ہیں، جنہوں نے ایک فوجی سربراہ کا کردار نبھایا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اداکار "گیلیوم گیلیان” برطانوی اداکارہ "اینڈریا رائزبورو” اور دیگر فن کاروں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ امریکی اداکارہ "مارتھا پلمٹن” نے اپنی مختصر لیکن بہت مضبوط اداکاری سے اسکرین پر "کیٹ ونسلیٹ ” کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ مجموعی طور پر یہ کہانی نرگسیت کا شکار ایک آمر خاتون کی عکاسی کرتی ہے، جس کو کیٹ ونسلیٹ نے اپنی فنی صلاحیتوں سے امر کر دیا۔

    ہدایت کاری اور پروڈکشن

    اس مختصر ویب سیریز کو دو ہدایت کاروں نے مل کر تخلیق کیا ہے۔ ان میں پہلے برطانوی فلم ساز "اسٹیفن فیریس” جب کہ دوسری نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی فلم ساز "جیسیکا ہوبز” ہیں۔ دونوں نے مشترکہ طور پر تین تین اقساط کو اپنی ہدایت کاری سے مزین کیا، دونوں اپنے اپنے شعبوں میں جانے پہچانے نام ہیں۔ تکنیکی طورپر بہت کامیابی سے بنائی گئی ویب سیریز دی رجیم کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ ناظرین اس فرضی ریاست کو بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ اس پر کس ملک کی چھاپ نظر آرہی ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ اس کو مزید استعارات اور تمثیلوں کے ساتھ دل چسپ بناتے، مگر ایک بہت اچھی کہانی کی وجہ سے اس واحد خامی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

    معروف امریکی فلم ساز ادارے "ایچ بی او” (HBO) نے اس ویب سیریز کو پروڈیوس کیا ہے۔ ان کی ٹیم میں اس ویب سیریز کے لکھاری کے علاوہ بھی ایک پوری ٹیم مستند پروڈیوسرز پر مشتمل ہے، جس میں کیٹ ونسلیٹ بھی شامل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سینماٹو گرافر "ایلون ایچ کچلر” نے کمال مہارت سے اس کو عکس بند کیا ہے۔ ویب سیریز کی تدوین، اقساط کا ردھم اور عنوانات، لائٹنگ، میوزک، کاسٹیومز اور دیگر لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔

    اس میں جس عمارت کو بطور شاہی محل دکھایا گیا ہے، وہ یورپی ملک آسٹریا کے شہر ویانا کا ایک میوزیم اور اس سے ملحقہ عمارت "شون برون پیلس” ہے۔ اس کا کچھ حصہ برطانیہ میں شوٹ کیا گیا ہے، البتہ مجموعی طور پر پروڈکشن ڈیزائن اچھا ہے۔ بہت تھام جھام نہیں ہے، بس ضروری انتظامات کیے ہیں اور اس ویب سیریز کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے برطانوی پس منظر کی وجہ سے متعلقہ تکنیکی و فنی ہنر مند ہی اس کی تشکیل میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی لیے امریکی ویب سیریز ہونے کے باوجود اس پر یورپی سینما کی گہری چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔

    مقبولیت کے نئے زاویے

    مارچ میں اس ویب سیریز کی پہلی قسط اسٹریمنگ پورٹل پر جاری کر دی گئی تھی۔ پھر بالترتیب چھ اقساط ریلیز ہوئیں۔ ناظرین اور ناقدین کی طرف سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کے تبصروں کے لیے جانی پہچانی ویب سائٹ "روٹین ٹماٹوز” پر اس کی مقبولیت کا تناسب ستاون فیصد ہے جب کہ میٹرکٹ ویب سائٹ پر بھی یہی تناسب دیکھا گیا ہے۔ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 6 اعشاریہ ایک فیصد پسندیدگی کا تناسب ہے اور یہ گزرتے دنوں کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔ گوگل کے قارئین کی طرف سے پانچ میں سے تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100 میں سے اس ویب سیریز نے 50 کا ہندسہ عبور کرتے ہوئے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ناقدین کو بھی متاثرکرنے میں کامیاب رہی ہے۔

    آخری بات

    آمریت جیسے روایتی موضوع پر ویب سیریز یا فلم بنانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، مگر اس ویب سیریز میں جس طرح ایک آمریت اور عورت کو تمثیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس کے تناظر میں یہ عالمی سیاست میں خواتین کے نرگسیت زدہ کرداروں کی عکاسی کی کوشش ہے۔ اس میں آپ کو اپنی مقامی سیاست کے کسی کردار کی جھلک بھی دکھائی دے سکتی ہے اور کئی عالمی شہرت یافتہ سیاسی اور نیم سیاسی نسائی کرداروں کی چاپ بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ اگر آپ عالمی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں تو یہ ویب سیریز دیکھتے ہوئے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ ایچ بی او کے آن لائن اسٹریمنگ پورٹل پر یہ ویب سیریز آپ کی توجہ کی منتظر ہے۔

  • ورلڈ کپ: نام کے ان شاہینوں سے قوم امید لگاتی ہی کیوں ہے؟

    ورلڈ کپ: نام کے ان شاہینوں سے قوم امید لگاتی ہی کیوں ہے؟

    وہی ہوا جس کا ڈر نہیں بلکہ یقین تھا اور جس خطرے کا تجزیہ کار عرصے سے شور کر رہے تھے، وہ پاکستان ٹیم کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلے ہی راؤنڈ کے تمام ہونے پر بھیانک تعبیر کی صورت سامنے آ گیا۔ یوں بڑے دعوؤں کے ساتھ امریکا جانے والی گرین شرٹس کی امریکا یاترا صرف 10 دن میں ہی ختم ہوگئی جس کے بعد ہمارے ’’سپر اسٹار‘‘ خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا شروع ہوگئے ہیں جب کہ کپتان سمیت چند کھلاڑیوں نے اپنا قیام امریکا میں طویل کر دیا ہے۔

    جس چیز کا آغاز اچھا نہ ہو اس کا انجام بھی اچھا نہیں ہوتا اور یہی ہوا ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ، پاکستان ٹیم جس کو شاہین اور گرین شرٹس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یوں تو شکست کی دلدل میں گزشتہ 7 ماہ سے پھنسی ہوئی ہے لیکن جو حال آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اس کا ہوا۔ ہمارے شاہین بڑے دعوؤں کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں شریک ہوئے تھے لیکن صرف نام کے شاہین ثابت ہوئے اور ان کی کارکردگی دیکھنے کے بعد قوم یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان کی مثال اس کرگس جیسی ہے جس کا جہاں ہی اور ہے اور جو ہمیشہ دوسروں کے شکار اور مردار پر نظریں رکھتا ہے۔

    ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال جن کے اشعار میں ہمّتِ مرداں، مددِ خدا کا پیغام پنہاں ہوتا ہے اور انہوں نے ہمیں ہمت، جذبے اور اونچی اڑان کی ترغیب دینے کے لیے اپنے اکثر اشعار میں شاہین کی صفات کو اجاگر کیا ہے۔ اسی حوالے سے شاعر مشرق کا ایک شعر بہت مشہور ہے:

    پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
    کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور

    افسوس ہماری ٹیم جس کو شاہین ہونا چاہیے تھا، اب قوم کی نظر میں ایک کرگس کی طرح ہے۔ کرگس کو عام زبان میں گدھ کہا جاتا ہے اور شاہین و گدھ اپنی صفات میں ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہیں۔ شاہین اپنے زور بازو پر یقین کرتا، ہمیشہ بلند پرواز رکھتا اور اپنا شکار خود کرتا ہے جب کہ کرگس (گِدھ) کی فطرت ہمیشہ دوسرے کے چھوڑے ہوئے شکار اور مُردار پر ہوتی ہے اور ہماری آج کی کرکٹ ٹیم کی حالت کچھ ایسی ہی ہے۔ یہ اس لیے کہا جارہا ہے کہ ہماری ٹیم ہر بڑے ایونٹ میں آگے بڑھنے کے دیگر ٹیموں پر انحصار کرتی ہے اور کرکٹ کی محبت میں ہمیشہ بے وقوف بننے والے شائقین کرکٹ بھی یہ جیت جائے، وہ ہار جائے، بارش ہو جائے، بارش نہ ہو جیسی دعاؤں اور فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔

    یوں تو پاکستان کرکٹ ٹیم ون ڈے کی عالمی چیمپئن ہونے کے ساتھ ساتھ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فاتح اور چیمپئنز ٹرافی بھی جیتی ہوئی ہے اور اس کا شمار آج بھی دنیائے کرکٹ کی بڑی ٹیموں میں کیا جاتا ہے، لیکن جس شرمناک طریقے سے یہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہوئی ایسا اس میگا ایونٹ کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ 2009 کی عالمی چیمپئن، تین بار فائنل اور چھ بار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پانے والی اس ٹیم کی حالت یہ ہوگئی کہ رواں ورلڈ کپ میں امریکا جیسی نو آموز ٹیم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، بھارت سے جیتا ہوا میچ اس کو فتح کی طشتری میں سجا کر پیش کر دیا یوں وہ پہلی بار ورلڈ کپ کے ابتدائی راؤنڈ میں ہی میگا ایونٹ سے باہر ہوئی لیکن آخری میچ جو آئرلینڈ سے ساکھ بچانے کے لیے کھیلنا تھا وہ بھی بڑی مشکل سے گرتے پڑتے جیتا۔

    ٹیم میں اندرون خانہ کیا کچھڑی پک رہی ہے یہ تو شائقین کرکٹ کو ورلڈ کپ سے کئی ماہ قبل ہی معلوم ہوگیا تھا جب ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی خراب پرفارمنس کے بعد پس پردہ دباؤ میں آکر بابر اعظم نے قیادت سے استعفیٰ دیا تو شاہین شاہ کو جھٹ پٹ ٹی ٹوئنٹی کا کپتان بنا دیا گیا اور مدت ورلڈ کپ تک رکھی گئی لیکن پھر اچانک صرف ایک دورہ نیوزی لینڈ میں ناکامی کو جواز بناتے ہوئے قیادت ان سے چھین کر دوبارہ بابر اعظم کے سپرد کر دی گئی جب کہ اس دوران محمد رضوان کا نام بھی کپتانی کے لیے گردش کرتا رہا۔ یوں گزشتہ سال جس ٹیم میں بابر اعظم کو آرام دے کر شاداب خان کو افغانستان کے خلاف سیریز کے لیے قیادت سونپی گئی تھی اور پھر ٹیم کے کھلاڑیوں کی جانب سے ’’سوچنا بھی مت‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ بابر اعظم سے اظہار یکجہتی کی گئی تھی۔ اس ٹیم پر ایسا زوال آیا کہ ایک دوسرے سے دوستی کا دم بھرنے والے ٹورنامنٹ میں ایک دوسرے سے بات کرنے کے روادار بھی نہ رہے اور جب ٹیم میں ایک ساتھ تین چار کپتان آجائیں تو انا کا وارد ہوجانا فطری امر ہے۔

    ٹیم میں گروپ بندی کا سابق چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف بھی اپنے دور میں واضح طور پر اظہار اور ٹیم کو گروہ بندی ختم کرنے کا سخت حکم دے چکے تھے۔ نجم سیٹھی نے بھی ورلڈ کپ سے قبل اس بارے لب کشائی کی اور کہا کہ ٹیم میں اس وقت تین گروپ موجود ہیں، اس کے بعد سابق کپتان شاہد آفریدی سمیت کئی دیگر کھلاڑیوں کی جانب سے بھی ٹیم میں گروپ بندی کی باتیں سامنے آتی رہیں اور یہاں تک بات کی گئی کہ ٹیم اس وقت تین ٹکڑوں میں تقسیم ہے جو ایک دوسرے سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور اس کا مظاہرہ میچ کے دوران گراؤنڈ میں بھی اس وقت نظر آیا جب گروپ اسٹیج کے میچ میں کپتان بابر اعظم نے دو بار کاٹ بی ہائینڈ کی اپیل کے لیے وکٹ کیپر رضوان سے پوچھنا چاہا لیکن رضوان نے کوئی جواب دینے کی زحمت نہ کی اور یوں وقت گزر گیا جس پر کمنٹری باکس میں موجود کمنٹیٹر نے یہ تک کہہ دیا کہ یہ کیسی ٹیم ہے جس کے کھلاڑیوں میں ہی رابطے کا فقدان ہے اور یہ ٹورنامنٹ جیتنے آئی ہے؟

    ٹیم میں گروپ بندی کا اثر اجتماعی ہی نہیں کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی پر بھی پڑا اور ابتدائی راؤنڈ کے ٹاپ فائیو بیٹر اور بولرز میں ایک بھی پاکستانی کھلاڑی کا نام موجود نہیں تھا جب کہ کپتان ہونے کے ناطے سب سے زیادہ تنقید کی زد میں بابر اعظم ہی رہے جو چار میچوں میں ایک نصف سنچری تک نہ بنا سکے۔ انہوں نے مجموعی طور پر 119 رنز بنائے اور زیادہ سے زیادہ اسکور امریکا کے خلاف 44 رنز رہا۔ محمد رضوان واحد بلے باز تھے پاکستان کی جانب سے جنہوں نے کینیڈا کے خلاف نصف سنچری بنائی اور چار میچوں میں مجموعی طور پر 110 رنز بنائے۔ بابر اعظم کا اسٹرائیک ریٹ پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں کیونکہ انہوں نے گزشتہ کچھ عرصے میں ٹی ٹوئنٹی کے پاور پاور پلے میں 200 سے زائد بالیں کھیلیں مگر ایک چھکا بھی نہ لگا سکے۔ فخر زمان ناکام ترین ثابت ہوئے جو چار میچوں میں 33 رنز ہی بنا سکے۔ افتخار احمد، صائم ایوب، اعظم خان، شاداب خان کوئی بھی امیدوں پر پورا نہ اتر سکا کہ جب بیک وقت چار چار اوپنرز کو ایک ساتھ ٹیم میں کھلایا جائے اور من پسند نمبروں پر کھیلنے کے لیے بلے بازوں کے نمبر اوپر نیچے کیے جائیں تو پھر ایسے بدترین نتائج کے لیے تو تیار رہنا ہی چاہیے۔

    ورلڈ کپ کے لیے تجربہ کار عماد وسیم اور محمد عامر کو ٹیم میں شامل کیا گیا لیکن وہ ٹیم کا بوجھ اٹھانے کے بجائے خود بوجھ بنے رہے۔ عماد وسیم جو خود کو بہترین آل راؤنڈر کہتے ہیں ان کا بلا بھی پورے ایونٹ میں خاموش رہا جب کہ بولنگ میں بھی کوئی کمال نہ دکھا سکے۔ محمد عامر نے گوکہ چار میچز میں سات وکٹیں لیں لیکن ٹیم کے کسی کام نہ آسکیں۔ شاہین شاہ 6 اور نسیم شاہ تین میچوں میں پانچ وکٹیں لے سکے۔ حارث رؤف بھی میدان سے زیادہ میدان سے باہر سرگرمیوں کی وجہ سے خبروں میں رہے۔

    ورلڈ کپ میں اگر بابر اعظم پر شاداب خان کی سپورٹ کا الزام ہے تو کچھ یہی الزام وہاب ریاض کے حوالے سے چیئرمین پی سی بی پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جب سے محسن نقوی اقتدار کے دائرے میں داخل ہوئے، تب سے وہاب کی لاٹری کھل گئی حالانکہ ان کے ریکارڈ پر 2015 کے ورلڈ کپ میں شین واٹس کو پریشان کرنے والے اوور اور 2011 کے سیمی فائنل میں 5 وکٹوں کے علاوہ کوئی اور کارکردگی نہیں ہے، لیکن دونوں میچ ہی پاکستان نہیں جیت سکا تھا۔

    ورلڈ کپ میں تاریخ کی بدترین ناکامی کے بعد ایک بار پھر ٹیم میں بڑے آپریشن، اکھاڑ پچھاڑ کی باتیں، کپتان کو ہٹانے اور نئے کو لائے جانے کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف آئندہ ماہ دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ کو آرام دینے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ درست کہ ٹیم کی اس وقت جو حالت ہے وہ فوری طور پر توجہ طلب ہے اور ہنگامی بنیادوں پر موثر اور بولڈ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاہم پی سی بی حکام کو یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان نے آئندہ سال فروری میں چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے جس کے انعقاد میں اب صرف آدھا سال ہی باقی رہ گیا ہے اور پاکستان اس ایونٹ میں میزبان ہونے کے ساتھ دفاعی چیمپئن بھی ہے۔

    پاکستان ٹیم پی سی بی کی ناقص پالیسیوں، سیاسی مداخلت اور ہر چند ماہ بعد انتظامی تبدیلیوں اور فیصلوں کے ردوبدل نے قومی ٹیم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ صرف 8 ماہ کے اندر ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بدترین ناکامی کے ساتھ نیوزی لینڈ سے اس کی سر زمین پر ٹی ٹوئنٹی سیریز چار ایک سے ہارنے، ہوم سیریز میں نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کو بھی زیر نہ کر پانے اور آئرلینڈ جیسی ٹیم گرتے پڑے سیریز جیتنے جیسے نتائج پی سی بی کے کرتا دھرتاؤں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہییں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ایک بہتر ٹیم کے روپ میں سامنے آئے تو ذاتی مفاد، پسند نا پسند اور انا سے بالاتر ہوکر قومی ٹیم کے مفاد میں عارضی نہیں مستقل بنیادوں پر فیصلے کریں تاکہ پاکستان ٹیم شکستوں کی دلدل سے نکل سکے۔