Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    دنیا بھر میں مقبولیت کا نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کرنے والی یہ ویب سیریز شوگن ہمیں سترہویں صدی کے جاپان میں لے جاتی ہے جہاں حکمرانی اور اثر و رسوخ کے لیے طاقت کا استعمال دکھایا گیا ہے اور کرداروں کے ذریعے کہانی آگے بڑھتے ہوئے آپ کی توجہ اور دل چسپی سمیٹ لیتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت یہ ویب سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسی کہانی پر ایک مختصر ڈراما سیریز بنی تھی، جس کو پاکستان ٹیلی وژن پر بھی قسط وار دکھایا گیا تھا۔ سترہویں صدی کے جاپان پر مبنی امریکی ویب سیریز کا اردو میں یہ واحد مفصل تجزیہ اور باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    شوگن کیا ہے؟

    جاپانی تاریخ میں شوگن کی اصطلاح، فوجی سربراہ کے لیے بطور لقب استعمال ہوتی تھی اور یہی ملک کا حقیقی حکمران ہوا کرتا تھا۔ یہ لقب سب سے پہلے ہئین دور میں استعمال ہوا، جو کسی کامیاب جنگی مہم کے بعد متعلقہ جنرل کو دیا گیا۔ جب 1185ء میں میناموتویوری تومو نے جاپان پر فوجی کنٹرول حاصل کیا، تو اقتدار سنبھالنے کے سات سال بعد انہوں نے شوگن کا لقب اختیار کیا۔ جاپان کی قدیم تاریخ میں شوگن سے مراد ملک کا سربراہ اور دھرتی کا سب سے طاقتور فرد ہوا کرتا تھا۔ جاپان میں 1867ء کو سیاسی انقلاب برپا ہونے اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے تک، یہ لقب اور اس سے جڑے افراد، جاپانی تاریخ کے اصل حکمران اور فوجی طاقت کا محور ہوئے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی میں ایسی ہی چند طاقت ور شخصیات کی اس اہم ترین عہدے کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے لڑائیاں اور تصادم دکھایا گیا ہے۔

    پرانی ڈراما سیریز شوگن اور نئی ویب سیریز شوگن کا موازنہ

    یہ ذہن نشین رہے کہ پروڈکشن کے شعبے میں ڈراما سیریز کے لیے اب نئی اصطلاح، ویب سیریز ہے۔ اس میں فرق اتنا ہے کہ پہلے کسی بھی کہانی کو اقساط کی صورت میں ٹیلی وژن کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور اب اس کو کسی اسٹریمنگ پورٹل کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کی شوگن اور عہدِ حاضر میں بنائی گئی شوگن میں بڑا فرق کہانی کی طوالت کا ہے۔

    پرانی شوگن محدود اقساط پر مبنی ڈراما سیریز تھی، جب کہ موجودہ شوگن کے تین سیزن تیار کیے جائیں گے۔ ابھی پہلا سیزن بعنوان شوگن ہولو اسٹریمنگ پورٹل پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اس مساوی کہانی کے دو مختلف پروڈکشن میں 64 ایسے نکات ہیں، جن کو تبدیل کیا گیا ہے، اس فرق کو سمجھانے کے لیے ہم نیچے ایک لنک دے رہے ہیں جس پر کلک کر کے آپ یہ فرق آسانی سے سمجھ سکیں گے۔

    پروڈکشن اور دیگر اہم تفصیلات

    امریکی پروڈکشن ادارے ایف ایکس نے پرانی کہانی پر ہی دوبارہ شوگن بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس ویب سیریز کی مکمل پروڈکشن چار بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کے نام بالترتیب ڈی این اے فلمز، ایف ایکس پروڈکشنز، گیٹ تھرٹی فور پروڈکشنز اور مچل ڈے لوسا ہیں۔ اس کے لیے دس سے زائد پروڈیوسروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن میں مذکورہ ویب سیریز میں مرکزی کردار نبھانے والے جاپانی فلمی ستارے ہیروکی سنادا بھی شامل ہیں۔ اس ویب سیریز کی پروڈکشن ٹیم کا بڑا حصہ امریکی اور جاپانی فلم سازوں کے بعد اسکاٹش اور آئرش فلم سازوں پر مشتمل ہے، جو دل چسپ بات ہے۔ اس ویب سیریز کو جاپان اور کینیڈا میں پونے دو سال کے عرصہ میں فلمایا گیا ہے۔ شوگن، امریکی پروڈکشن ہاؤس ایف ایکس کی تاریخ کی سب سے مہنگی پروڈکشن ہے، اور اسے امریکی ٹیلی وژن ایف ایکس کے ساتھ ساتھ اسٹریمنگ پورٹلز اسٹار پلس، ڈزنی پلس اور ہولو پر ریلیز کیا گیا ہے۔

    جاپان سمیت پوری دنیا میں اس ویب سیریز کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ اس ویب سیریز کے پروڈیوسرز میں سے ایک جاپانی پروڈیوسر اور عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیروکی سنادا کا کہنا ہے، "ہالی ووڈ میں بیس سال کے بعد، میں ایک پروڈیوسر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کسی بھی وقت۔ میرے پاس پہلی بار ایک ٹیم تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، مجھے خوشی تھی۔” انہوں نے شو کو جاپانی تاریخ کے تناظر میں مستند حالات و واقعات سے مربوط رکھنے پر توجہ دی۔ "اگر کہانی میں کچھ غلط ہے تو لوگ ڈرامے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ وہ اس قسم کا شو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمیں مستند کام کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ نجانے جاپانی ناظرین اسے کس طرح سے دیکھیں گے، لیکن ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ جاپانی ناظرین اسے اتنا پسند کریں گے۔ وہ جاپان میں اس مقبولیت پر بے حد مسرور ہیں۔ اس ویب سیریز کے بنیادی شعبوں میں آرٹسٹوں اور ہنرمندوں نے متاثرکن کام کیا ہے، خاص طورپر موسیقی، ملبوسات، صوتی و بصری تاثرات، تدوین اور چند دیگر شعبہ جات اس میں‌ شامل ہیں۔

    مقبولیت کے نئے پیمانے

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی درجہ بندی دس میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے۔ فلمی ناقدین کی ویب سائٹ روٹین ٹماٹوز پر اسے 100 میں سے 99 فیصد کے غیرمعمولی تناسب سے پسند کیا گیا ہے اور بہت کم فلموں کے لیے یہ شرح تناسب دیکھنے میں آتا ہے۔ فلم افینٹی جو امریکی و برطانوی فلمی ویب سائٹ ہے، اس نے درجہ بندی میں اس ویب سیریز کو 10 میں سے 7.6 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ گوگل کے صارفین کی بات کریں تو وہاں ویب سیریز کی شرحِ پسندیدگی کا تناسب سو میں سے پچانوے فیصد ہے اور ویب سیریز کی یہ ستائش اور پذیرائی بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور تادمِ تحریر یہ ویب سیریز مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں کی طرف ہی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبولیت کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ ویب سیریز کے ناظرین کی پسندیدگی تو ایک طرف، دنیا بھر کے فلمی ناقدین بھی اس ویب سیریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

    ڈائریکشن اور اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر امریکی فلم ساز ٹم وین پیٹن ہیں، جن کے کریڈٹ پر گیمز آف تھرونز اور سیکس اینڈ سٹی جیسے تخلیقی شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی وائر اور بلیک مرر جیسی ویب سیریز کے بھی ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ریچل کوندو اور جسٹن مارکس کے تخلیق کردہ اس شاہکار کو اپنی ہدایت کاری سے انہوں نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔

    ویب سیریز کی کہانی کا مرکزی خیال 1975ء میں شائع ہونے والے ناول شوگن سے لیا گیا، جس کے مصنف جیمز کلیویل ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں، برطانیہ کی طرف سے سنگاپور میں جاپانیوں سے لڑے اور وہاں جنگی قیدی بھی بنے۔ شاید یہی ان کی زندگی کا موقع تھا، جس کی وجہ سے انہیں جاپانی تاریخ سے دل چسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے جاپان کے تناظر میں چھ ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جن میں سے ایک ناول شوگن کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول پر ویب سیریز کا اسکرپٹ لکھنے والوں میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اسکرپٹ رائٹر رونن بینٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مرکزی خیال و کہانی

    اس ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سنہ 1600ء کے جاپان سے ہوتا ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ فلم ساز ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اس کے مزید دو سیزن بنیں گے، تو میرا یہ اندازہ ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی کو جاپان میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے تک فلمایا جائے گا۔

    پہلے سیزن میں اُس دور کی ابتدا کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت کے جاپان کے مرکزی رہنما کی رحلت کے بعد سیاسی طاقت پانچ ایسے نگرانوں‌ میں مساوی تقسیم ہو جاتی ہے، جن کو ریجنٹس کہا گیا ہے، کیونکہ وہ پانچوں اس مرکزی حکمران کے بچے کی حفاظت پر مامور ہیں، جو اوساکا کے شاہی قلعہ میں پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بالغ ہونے تک یہ طاقت ان پانچ نگرانوں کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

    اس منظر نامے میں ایک انگریز ملاح بھی اس وقت شامل ہو جاتا ہے، جب اس کا ولندیزی جہاز، ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں بھٹک کر جاپان کے ساحل کی طرف آ نکلتا ہے۔ یہ کردار انگریز جہاز راں ولیم ایڈمز سے منعکس ہے۔ دکھایا گیا ہے کہ اس برطانوی جہاز راں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وہ جاپان کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین شخصیت اور پانچ نگراں حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی بعض خوبیوں اور بالخصوص عسکری مہارتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس حکمران کی قربت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے یہ وہ نگران حکمران ہے جس کا تعلق ایدو (ٹوکیو کا قدیم نام) سے ہے، اور دوسرے نگراں حکمران اس کے بڑے سخت مخالف ہیں، اور یہ اُن سے نبرد آزما ہے۔ ایدو سے تعلق رکھنے والے اس حکمران کی سپاہ میں بھی جہاز راں کی عسکری مہارتوں کا چرچا ہوتا ہے اور وہ ان کی نظر میں بھی مقام حآصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ اسے ایک اعلٰی عسکری عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ان کے ساتھ مل کر جنگی مہمات کا حصہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک غیر جاپانی کو سمورائی کا درجہ مل جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایدو سے تعلق رکھنے والا یہ پہلا شوگن ہے، جس کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پہلے سیزن کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔


    اس طرح کہانی میں آگے چل کر یہ پانچوں نگراں و مساوی حکمراں، انگریز جہاز راں، پرتگالی تاجر، کیتھولک چرچ کے نمائندے، سیاسی اشرافیہ سے وابستہ دیگر ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر ایک جاپانی خاتون کا کردار جو لیڈی تودا مریکو کہلاتی ہے، بھی اس کہانی میں نمایاں ہے اور یہ کردار ناظرین کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتا ہے کہ دس اقساط کب تمام ہوئیں، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حکمرانوں کی کہانی میں جو روانی اور ربط ہے، اس پر اگر اس ویب سیریز کے لکھاری قابل ستائش ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ وہ ناول نگار قابلِ تعریف ہے، جس نے جاپان کی تاریخ میں اتر کر، کہانی کو اس کی بنیاد سے اٹھایا۔ کہنے کو تو یہ خیالی کہانی (فکشن) ہے، مگر اس کے بہت سارے کردار اور واقعات جاپانی تاریخ سے لیے گئے ہیں اور وہ مستند اور حقیقی ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں مرکزی کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تعداد میں درجن بھر ہیں۔ ان میں سے جن فن کاروں نے بے مثال کام کیا، ان میں ہیروکی سنادا (لارڈ یوشی توراناگاوا)، کوسمو جارویس (جان بلیک تھرون)، اننا ساوائی (لیڈی تودامریکو)، تادانوبو (کاشی گی یابوشیگے) تاکے ہیرو ہیرا (اشیدوکازوناری) اور دیگر شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں دو درجن کردار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی اداکاری سے اس تاریخی ویب سیریز میں انفرادیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔برطانوی اداکار کوسمو جارویس اور جاپانی اداکارہ اننا ساوائی کو اس کہانی کا ہیرو ہیروئن مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دل چسپی برقرار رہتی ہے جب کہ ہیروکی سنادا اور تادانوبو نے بھی ناظرین کو اپنی شان دار اداکاری کی بدولت جکڑے رکھا۔ دو مزید جاپانی اداکاراؤں موئیکا ہوشی اور یوکاکووری نے بھی متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کو داد نہ دینا بڑی ناانصافی کی بات ہو گی۔ مجموعی طور پر اس ویب سیریز میں سیکڑوں فن کاروں نے حصہ لیا، جن میں اکثریت جاپانی اداکاروں کی ہے۔ سب نے بلاشبہ اپنے کرداروں سے انصاف کیا، یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز نے ناظرین کے دل میں گھر کر لیا۔

    حرف آخر

    قارئین، اگر آپ عالمی سینما اور خاص طور پر کلاسیکی سینما کے پسند کرنے والے ہیں اور اس پر مستزاد آپ کو جاپان کی کلاسیکی ثقافت میں بھی دل چسپی ہے تو پھر یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے آپ جاپان کی قدیم معاشرت، سیاست، ثقافت اور تہذیب کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت جاپان کے ساتھ اس ویب سیریز میں آپ جاپانی عورتوں کا حسن و جمال اور خوب صورتی بھی دیکھیں گے۔ ویب سیریز کے اس تعارف اور تفصیلی تبصرے کو میری طرف سے اس عید پر ایک تحفہ سمجھیے۔ اسے ضرور دیکھیے، آپ کی عید کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔

  • تم بھی حیوان ہو!

    تم بھی حیوان ہو!

    عیدالضحیٰ کے موقع پر خاص طور پر بچّے اور نوجوان گلی محلّے میں قربانی کے جانور ٹہلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ شغل ہے جس میں بکرے یا گائے کو ہونے والی تکلیف کی پروا اور بھوک پیاس کا خیال کیے بغیر اکثر منچلے انھیں دوڑنے پر مجبور کرتے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان بے زبانوں کو طرح طرح‌ سے تنگ کیا جاتا ہے۔ اور یہ سب ناسمجھ بچّے ہی نہیں کرتے بلکہ اکثر بڑے اور بظاہر سمجھ دار لوگ بھی جانوروں سے نامناسب سلوک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    قربانی کے جانور ہوں‌ یا پالتو چوپائے اور پرند، مال مویشی یا پھر آوارہ کتّے اور بلیاں، بدقسمتی سے ہم ان کے ساتھ اکثر تکلیف دہ اور نامناسب رویہ اپناتے ہیں اور بعض واقعات ایسے ہیں‌ جن میں‌ انسانوں کی جانب سے ان بے زبانوں‌ پر ظلم اور زیادتی کی انتہا ہوگئی۔ اس وقت سوشل میڈیا پر ایک اونٹ کی ٹانگ قطع کر دینے کے واقعے کا چرچا ہو رہا ہے۔ یہ واقعہ سانگھڑ کے ایک علاقہ میں پیش آیا جس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عوامی ردعمل پر پولیس مقدمہ درج کرنے پر مجبور ہوئی۔ یہ مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بے زبان پر یہ ظلم ایک مقامی وڈیرے نے کیا ہے۔ مقامی لوگوں کا مؤقف جاننے کے بعد بعض میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا کہ 13 جون کو ’منگلی پولیس تھانے کی حدود میں ایک وڈیرے نے کھیت میں کھڑی فصل کھانے پر اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی جس کے بعد اونٹ کے مالک نے کٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ ویڈیو بنوائی اور اس ظلم کی طرف سب کو متوجہ کیا، وائرل ہوگئی اور ایس ایس پی سانگھڑ اعجاز احمد شیخ نے واقعے کا نوٹس لیا۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد پولیس تفتیش کررہی ہے جب کہ صوبائی حکومت نے اونٹ کی دیکھ بھال اور مصنوعی ٹانگ لگوانے کا اعلان کیا ہے۔

    صرف دو دہائیوں کی بات کریں تو پاکستان میں یہ پہلا دردناک واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی معمولی رنجش، لڑائی جھگڑے کا بدلہ چکانے، یا کھیت میں گھس کر فصل کو نقصان پہنچانے پر اشتعال میں آکر دوسرے کے مال مویشیوں، پالتو جانوروں پر تشدد ہی نہیں کیا گیا بلکہ انھیں مار دیا گیا اور یہ معاملہ تھانے تک بھی پہنچا۔ اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کے واقعے کو چند ہی روز گزرے تھے کہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں گدھے پر تشدد کا واقعہ سامنے آگیا جس کے نتیجے میں بار برداری کے کام آنے والے اس بے زبان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم گدھا گاڑی چلاتا ہے جس کے گدھے کی دوسری گاڑی میں جتے ہوئے گدھے سے لڑائی ہوگئی اور مالک نے دوسری گاڑی کے گدھے پر ڈنڈے برسا دیے جس سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔

    بے زبانوں پر ظلم ڈھانے کے انہی واقعات کے بعد وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے سرکاری اور نجی پرائمری اسکولوں میں جانوروں کی اہمیت، اور ان کی فلاح سے متعلق نصاب میں مضمون متعارف کروایا تھا تاکہ ابتدائی عمر ہی سے بچّوں میں ان بے زبانوں سے اچھے سلوک کا شعور پیدا کیا جاسکے۔ نصاب کے ذریعے اس حوالے سے ذہن سازی کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جب کہ عید قرباں پر والدین خاص طور پر اپنے بچّوں میں جانوروں سے اچھا سلوک کرنے کا شعور اجاگر کر سکتے ہیں اور انھیں یہ سمجھا سکتے ہیں کہ ان بے زبانوں کی بھوک پیاس یا تکلیف اور درد کا خیال اسی طرح‌ رکھنا چاہیے جیسا کہ ہم ایک دوسرے کا رکھتے ہیں۔

    پاکستان میں جانوروں سے متعلق قوانین کی بات کی جائے تو آج بھی یہاں نو آبادیاتی دور کے قوانین رائج ہیں جنھیں پریوینشن آف کروئلٹی ٹو اینیملز ایکٹ 1890ء کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جانوروں کے ساتھ سلوک اور ان کے تحفظ کے لیے عالمی انڈیکس میں پاکستان درجہ بندی کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے۔

    یہاں ہم جمشید نسروانجی سے جڑا ہوا ایک واقعہ آپ کو سناتے چلیں‌ جنھیں بابائے کراچی کہا جاتا تھا۔ وہ ایک ایسے باشعور اور رحم دل انسان بھی تھے جنھوں نے کراچی کے شہریوں‌ کے لیے ہی نہیں‌ بلکہ جانوروں کے تحفظ اور فلاح کے کام بھی انجام دیے۔ یہ واقعہ معروف ادیب علی محمد راشدی نے اپنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 1930 کے آس پاس مَیں بندر روڈ سے گزر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتا پیدل ایک زخمی گدھے کو لے کر اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر، ان کا ڈرائیور پیچھے پیچھے چلاتا آ رہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔

    جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹّی کرائی اور ڈاکٹر سے بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کرے تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے، اور دانے گھاس کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔

    دوسری طرف گدھے کے مالک سے بھی کہا کہ جب تک گدھے کا علاج پورا نہ ہو جائے اور وہ کام کرنے کے قابل نہ ہو جائے، تب تک وہ اپنی مزدوری کا حساب اُن سے لے لیا کرے، اور یہ کہتے ہوے کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔

    یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ ان کی نظر میں انسان ہی نہیں جانور بھی جو ہمارے کام آتے ہیں اور بہت مددگار ہیں، ان کے بھی کچھ حقوق ہیں اور ان کے ساتھ ہم دردی اور انصاف سے پیش آنا چاہیے۔

    کچھ عرصہ قبل کراچی کی ایک عدالت نے بلّی کی ہلاکت میں ملوث ایک خاتون کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا جسے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے حکومت سے اس پر جامع قانون سازی کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ واقعہ کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 8 میں پیش آیا تھا جب سڑک پار کرنے والی ایک بلّی کار کی ٹکر سے شدید زخمی ہو گئی تھی، اور خاتون ڈرائیور نے موقع پر موجود شہری کی جانب سے بلّی کا علاج کرانے کے مطالبہ کو فضول تصور کرتے ہوئے انکار کردیا تھا۔ زخمی بلّی کچھ دیر بعد ہلاک ہوگئی تھی اور پولیس کے مقدمہ درج نہ کرنے پر شہری فائق احمد جاگیرانی عدالت پہنچ گئے تھے۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات کے تحت کسی بھی جانور کو نقصان پہنچانے والے کے خلاف جرمانے اور قید کی سزائیں مقرر ہیں۔ فائق احمد جاگیرانی کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ خاتون ڈرائیور سے اگر کوئی قابلِ تعزیر جرم سرزد ہوا ہے تو اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

    ہمارے معاشرے میں جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک ایک عام بات ہے اور ان پڑھ شہری ہی نہیں‌ پڑھے لکھے اور اعلیٰ‌ تعلیم یافتہ لوگ بھی راہ چلتے ہوئے کسی آوارہ یا پالتو جانور کو تنگ کرنے، پتھر مارنے یا انسانی خطا اور زیادتی کے نتیجے میں اس کے زخمی ہوجانے یا ہلاکت کو اہمیت نہیں دیتے۔ باربرداری کے جانوروں سے بدسلوکی تو شاید ہم روز ہی دیکھتے ہیں، لیکن اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر بچّوں کو کم عمری ہی میں یہ بتایا اور سکھایا جائے کہ ہر بے زبان چوپائے اور پرند وغیرہ خواہ وہ آپ کے گھر میں ہوں یا وہ آوارہ جو گلی محلّوں میں پھرتے ہیں، ہماری طرح جان دار ہیں‌ اور درد یا تکلیف محسوس کرتے ہیں تو بچّوں میں ان سے انس اور لگاؤ بھی پیدا ہوگا اور قوی امکان ہے کہ وہ بڑے ہو کر کسی بھی موقع پر جانوروں کو تنگ کرنے یا تکلیف دینے سے گریز کریں‌ گے اور دوسروں کو بھی اس کا شعور دیں گے۔

    جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کے تحفظ کے لیے کوششوں کرنے والی تنظیموں اور باشعور افراد کا کہنا ہے کہ بے زبانوں سے متعلق واضح قوانین کے ساتھ ساتھ لوگوں میں یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ہماری طرح تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں اور مار‌ پیٹ یا کسی بھی قسم کے تشدد پر وہی تڑپ اور اذیت محسوس کرتے ہیں جیسا کہ انسانوں کو ہوتی ہے۔ باشعور شہری سمجھتے ہیں کہ جانوروں کو غلطی سے یا جان بوجھ کر مارنے یا تکلیف پہنچانے پر بھی سخت جرمانہ یا کوئی اور سزا مقرر کی جائے تو ایسے واقعات میں بڑی حد تک کمی ہوگی۔

    اسلام میں بھی جانوروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ دینی تعلیمات پر نظر ڈالیں‌ تو جانوروں کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ ان کے چارے، دانے، غذا اور پانی کا خیال رکھا جائے۔ یہ مال مویشی ہوں یا پالتو جانور اور پرندے ان کی خوراک کے ساتھ انھیں موسموں کی سختی سے بچانے کا انتظام کیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، جہاں ایک اونٹ بندھا ہوا تھا۔ اونٹ نے نے بلبلاتے ہوئے ایک کرب ناک آواز نکالی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تو رسولِ خدا اس کے قریب تشریف لے گئے اور شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ پھر آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری آگے آیا اور بولا۔ ’’یہ میرا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا، ’’اس بے زبان جانور کے بارے میں اللہ سے ڈر، جسے اللہ نے تیرے اختیار میں دے رکھا ہے، یہ اونٹ اپنے آنسوؤں اور اپنی آواز کے ذریعے مجھ سے تیری شکایت کر رہا ہے۔‘‘ حضرت ابن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ’’ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ اس نے ایک بلّی کو قید کر کے رکھا ہوا تھا، وہ اسے غذا دیتی اور نہ اس کو آزاد کرتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی۔‘‘(بخاری)

  • تو پھر ایک سیلفی ہو جائے!

    تو پھر ایک سیلفی ہو جائے!

    ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت ایک طرف تو دنیا میں بڑی تبدیلی اور ترقی ممکن ہوئی ہے اور انسان کے کئی کام آسان ہوگئے ہیں، مگر اسی ڈیجیٹل میڈیا نے انسان کو ایک خبط میں بھی مبتلا کر دیا ہے اور اسے تنہائی اور اپنے ماحول سے بیزاری کا تحفہ بھی دیا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بات کریں تو یہ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور معاشروں کو قریب لاتے ہوئے انھیں اجتماعی اور انفرادی مسائل پر تبادلۂ خیال کا موقع دے رہی ہیں، لیکن سوشل میڈیا نے لوگوں میں حسد اور رقابت جیسے جذبات بھی پیدا کیے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خود نمائی بھی اسی ٹیکنالوجی کی دین ہے۔

    ہم کہیں سیر پر جانے کا منصوبہ بنا رہے ہوں یا کسی تقریب میں جانے کا ارادہ ہو وہاں اپنوں کے ساتھ، دوستوں اور دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے سے زیادہ سیلفی لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہماری گفتگو بھی بار بار سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کی طرف نکل جاتی ہے، یا سوشل میڈیا پر وائرل موضوع پر بحث ہونے لگتی ہے۔ سیلفی لینے کا رحجان تو خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈیلی ٹیلیگراف نے لکھا کہ 2015ء میں سیلفی کی وجہ سے اتنی اموات ہوئیں جتنی شاید شارک کے حملوں میں بھی نہ ہوتیں۔ امریکا اور بھارتی انسٹیٹیوٹ کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مارچ 2014ء سے 2016ء تک پوری دنیا میں سیلفی کی وجہ سے ہونے والی اموات ایک سو ستائیس تھیں جن میں صرف بھارت میں چھہتر اموات ہوئیں۔ گویا سیفلی لینے کے دوران اموات میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔

    پہلی سیلفی کس نے بنائی یہ کہنا تو بہت مشکل ہے لیکن 2013ء تک لفظ سیلفی اتنا عام ہو گیا تھا کہ آکسفورڈ ڈکشنری نے اس لفظ کو سال کا مشہور ترین لفظ قرار دے دیا۔ اب تو سیلفی فون بھی عام مل رہے ہیں جن میں ایک کیمرے کی جگہ دو دو، تین تین کیمرے موجود ہیں تاکہ آپ شان دار تصویریں بنا سکیں۔

    سلیفی کا شوق نوجوانوں سے لے کر ادھیڑ عمر کے لوگوں کو بھی ہے۔ بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے لوگوں، حتیٰ کہ جنازوں پر بھی لوگ سیلفی لینے سے باز نہیں آتے۔ سیلفی لیتے ہوئے یہ دھیان نہیں رکھا جاتا کہ ذرا سی غفلت، کوتاہی اور گرد و پیش سے پَل بھر کو بے خبر ہونا زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کبھی ریل کی پٹری، کبھی نہر کے کنارے، کبھی کسی پُل کے اوپر غرض کسی بھی جگہ سیلفی کے شوقین افراد اپنا کام کرجاتے ہیں۔ تفریحی اور عام مقامات تو ایک طرف لوگ مقدس مقامات پر بھی نہیں باز آتے اور دورانِ زیارت و عبادت سفیلیاں کھینچ کر دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

    موبائل کے کیمرے سے تصویر بنانا آسان تو ہے، لیکن سیلفی کا یہ جنون مشہور و معروف شخصیات کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔ لوگ کسی مشہور شخصیت کے ساتھ سیلفی بنوائے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔ اب چاہے یہ شخصیات اپنے اُن پرستاروں یا چاہنے والوں کو کتنا ہی ٹالنے کی کوشش کریں اور منع بھی کر لیں، مگر وہ ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ ایک طرف ہم بڑے بڑے شاپنگ مالز، مہنگے ریستوراں اور تفریحی مقامات پر اپنی سیلفیاں لینے کے خبط میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اکثر اس سے خود نمائی مقصود ہوتی ہے جب کہ دوسری طرف ہم لوگ مشہور شخصیات کے ساتھ تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور دوسروں‌ کو مرعوب کرنے کی کوشش کی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اپنی زندگی کے مختلف لمحات کو محفوظ کرنا اور یادگار بنانا برا نہیں اور یہ اب ایک عام بات ہے، مگر یہاں ہم بات اس رویے اور طرزِ‌فکر کی کررہے ہیں جس میں ایک طرف تو اکثر سلیفی کے شوقین اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ سب محض نمائش، دکھاوا اور اکثر دوسروں پر اپنا رعب جمانے یا اپنی برتری جتانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

    چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑے سے بڑے کارنامے کی سیلفی بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا لوگوں کا معمول بن گیا ہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ اس ٹیکنالوجی کے کتنے ہی فائدے ہیں اور یہ یقیناً ہمارے لیے بہت سے کاموں کو آسان اور سہل بنا رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے شعور اور آگاہی کا فقدان، کج فہمی اور ہماری ناسمجھی اس ٹیکنالوجی کو ہمارے لیے وبال بنارہی ہے بلکہ معاشرہ صبر، برداشت، قناعت سے محروم اور حسد و رقابت کے جذبات سے بھرتا جا رہا ہے۔ کئی مواقع ایسے بھی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے سیلفی یا ویڈیو بنانے کی وجہ سے ہماری پرائیویسی بھی متاثر ہورہی ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ خوبصورتی کیمرے کی آنکھ میں ہوتی تھی، فوٹو گرافر کے ایک کلک کی مہارت میں ہوتی تھی اور ہم اپنے بچپن میں کسی سیر گاہ میں جاتے ہوئے کیمرے میں ریل ڈلوانے کی جو خوشی محسوس کرتے تھے، اس کا مقابلہ یہ سیلفی نہیں کرسکتی۔ وہ خوشی ہی الگ ہوتی تھی کہ ہم خوب پوز بنائیں گے، پکنک انجوائے کریں گے۔ وہ خوشی اب ماضی بن گئی ہے اور اب سیلفی کی نمائش کے چکر میں ہم اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ نہ ہمیں اپنی جان کی فکر ہے اور نہ ہی امیج کی۔ حالانکہ یہی دونوں چیزیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں اور ان کی قدر کی جانی چاہیے۔

    کبھی موقع ملے تو اس مصنوعی دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل کر زندگی کا حقیقی معنوں میں ضرور لطف اٹھائیے گا۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات اور مشاہدے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • انسانی اسمگلنگ اور ہیومن ٹریفکنگ میں کیا فرق ہے؟

    انسانی اسمگلنگ اور ہیومن ٹریفکنگ میں کیا فرق ہے؟

    اکثر اوقات لوگ انسانی اسمگلنگ اور انسانی ٹریفکنگ میں الجھ جاتے ہیں، اور ان دونوں میں فرق نہیں کر پاتے۔

    امریکی ادارے آئی سی ای کے مطابق ہیومن اسمگلنگ اور ہیومن ٹریفکنگ دو ایسے جرائم ہیں جو بہت مختلف ہیں، اور ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔

    ہیومن ٹریفکنگ استحصال کی وہ شکل ہے جس میں مردوں، عورتوں یا بچوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے، یا تجارتی سطح پر جنسی کاروبار میں ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    ہیومن اسمگلنگ وہ جرم ہے جس میں ایک ایسے شخص کو سروس فراہم کی جاتی ہے، جو رضاکارانہ طور پر کسی غیر ملک میں غیر قانونی داخلہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اس سروس میں عام طور پر ٹرانسپورٹیشن (نقل و حمل) یا جعلی دستاویزات شامل ہوتی ہیں۔

    یہ ممکن ہے کہ جرم تو انسانی اسمگلنگ سے شروع ہو، لیکن جلد ہی یہ انسانی ٹریفکنگ میں بدل جائے۔ امریکی ادارے کے مطابق انسانی ٹریفکنگ جن کاروباری مراکز سے کی جاتی ہے عام طور سے ان میں ماڈلنگ اور ٹریول ایجنسیاں، روزگار دلانے والی کمپنیاں، بچوں کی دیکھ بھال اور بین الاقوامی میچ میکنگ سروسز اور مساج پارلر شامل ہیں۔

    اس میں ملازمتیں فراہم کرنے والی یا طلبہ کی وہ ریکروٹمنٹ ایجنسیاں بھی شامل ہیں جن کے پاس لائسنس نہیں ہوتا، جو رجسٹرڈ نہیں ہوتیں، یا وہ لیبر قوانین کی خلاف ورزیاں کرتی ہیں۔

    ٹریفکنگ میں ملوث گروہ کا لین دین ہمیشہ مشکوک انداز میں ہوا کرتا ہے، یہ تھرڈ پارٹی کے ذریعے بیرون ملک رقوم کی منتقلی کرتے ہیں، یہ ٹرانزکشن تواتر کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے کاروبار کا پتا نہیں چل رہا ہوتا۔

    ان ٹرانزیکشنز میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی کاروباری کسٹمر ہے جو انفرادی طور پر کسی کو رہائش/قیام فراہم کرنے، گاڑیوں کے کرائے باقاعدگی سے بھرنے، بڑی مقدار میں کھانے پینے کی اشیا خریدنے، اور ٹریفکنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے فارمیسیوں سے ادویات وغیرہ کی خریداری پر رقوم خرچ کر رہا ہے، ادارے اسی قسم کی مشکوک ٹرانزکشنز کے ذریعے ایسے گروہوں کو پکڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

    ہیومن ٹریفکنگ میں ایسے کاروباری مالکان بھی ملوث ہو سکتے ہیں جو تنخواہوں سے جڑے اخراجات کا ریکارڈ نہیں بناتے جیسا کہ تنخواہ، پیرول ٹیکس، سوشل سیکیورٹی وغیرہ۔ دیکھا جائے تو ان کا کاروباری ماڈل، بیان کردہ آپریشنز اور افرادی قوت کا سائز جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں ان کے اخراجات بہت کم ہوتے ہیں۔

    ایسے ممالک انسانی ٹریفکنگ کے خطرے سے زیادہ دو چار ہوتے ہیں جہاں سے باقاعدگی کے ساتھ دوسرے ملک وائر ٹرانسفر (بینک اکاؤنٹ سے الیکٹرانکلی رقوم کی منتقلی) جاری رہتا ہے اور یہ پتا نہیں چلتا کہ کاروبار کیا ہے، یا یہ کہ قانونی مقصد کیا ہے۔ یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ دونوں اکاؤنٹس میں رشتہ کیا ہے۔

    جہاں تارکین وطن کی آبادیاں زیادہ ہوں، ایسے ممالک سے ایسی رقوم کی آمد جو ترسیلات زیر (remittance) کے عام انداز سے مطابقت نہیں رکھتی، جیسا کہ جب ترسیلات زر بھیجی جاتی ہیں تو رقم وصول کرنے والوں کی لوکیشن کا پتا ہوتا ہے۔

  • رائے: جنوبی ایشیا کو کرائیوسفیئر کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لئے متحد ہونا ہوگا

    رائے: جنوبی ایشیا کو کرائیوسفیئر کے تحفظ اور علاقائی استحکام کے لئے متحد ہونا ہوگا

    اس سال ماحولیات کا عالمی دن ایسے وقت میں منایا جا رہا ہے جب گزشتہ چھ ماہ کے دوران جنوبی ایشیا میں قومی انتخابات اس خطے کے تین اہم ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں ہوئے۔

    قیادت کی گرما گرمی اور الیکشن مہم کی بیان بازی میں جنوبی ایشیا کی مشترکہ تاریخ، ثقافت اور ماحولیات کو نظر انداز کیا گیا۔ خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی کمی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے- یہ سادہ سی حقیقت اس قدر اہم ہے کہ اگر ہم نے مل کر کام نہ کیا تو اس خطے میں رہنے والے تمام لوگوں کا مستقبل آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات کی وجہ سے خطرے میں پڑ جائے گا۔

    عائشہ خان لکھتی ہیں کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی کے مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود یہ دنیا کا سب سے کم باہمی تعلق والا خطہ ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے اِن ممالک کو زیادہ مؤثر طریقے سے مل کر تعاون کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی قومی حدود سے قطع نظر عالمی سطح پر ہر کسی کو متاثر کرتی ہے۔ جب ایک مسئلہ دوسرے کی طرف لے جاتا ہے اور صورت حال کو مزید خراب کرتا ہے۔ اور یہ کیفیت ڈومینو اثر کو پیدا کرتی ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی کے نتائج مزید سنگین ہو جاتے ہیں۔

    جنوبی ایشیا میں خطرات کا سلسلہ پہاڑوں سے شروع ہوتا ہے اور سمندر کی طرف جاتا ہے، جس کے درمیان کی ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ یہ خطہ اچانک رونما ہونے والے جغرافیائی تغیرات، مختلف آب و ہوا کے علاقوں اور ماحولیاتی نظام کی ایک متنوع رینج سے بھی نشان زد ہے، جو مل کر برصغیر کی پیچیدہ جیوفزیکل اکائی تشکیل دیتے ہیں۔

    شمالی اور جنوبی قطبوں کے بعد تیسرا قطب منجمد پانی کے سب سے زیادہ ذخائر رکھتا ہے۔ یہ نو ممالک میں 4.2 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور تبتی سطح مرتفع، ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش، پامیر اور تیان شان پہاڑوں کو گھیرے ہوئے ہے۔ یہاں جو کچھ ہوتا ہے وہ اس علاقے تک محدود نہیں رہے گا۔ اِن موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا یہ سلسلہ مقامی اور عالمی موسمیاتی نظام کو متاثر کرے گا۔ انسانی ٹائم اسکیل پر وہ لمحہ جب کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے) نمایاں طور پر تبدیل ہوتا ہے (ٹپنگ پوائنٹ) آہستہ آہستہ ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن ایک بار جب یہ ایک خاص حد کو عبور کر لیتا ہے تو اس کے اثرات رک نہیں سکتے اور یہ زمین کے نظام میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ وقت کے ساتھ پھیلنے والی ایسی تبدیلیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر معدومیت ہوسکتی ہے۔آج کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ کرہ ارض اپنی چھٹی معدومیت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

    جنوبی ایشیا بار بار آنے والی ان شدید آفات سے نمٹنے کے لئے کس حد تک تیار ہے؟ کیا معمول کے مطابق کام کرنا اب بھی ایک قابل عمل آپشن ہے؟ یہ کچھ سوالات ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ کوئی بھی مکالمہ شروع کیا جائے تاکہ تعاون پر بات چیت کے لئے راہ نکالی جا سکے۔ اب سے پہلے ماضی میں صورتحال کو برقرار رکھنا ممکن تھا کیونکہ علاقائی ممالک، اگرچہ بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود، ماحولیاتی خدمات میں خلل اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے مسائل کو سنبھالنے کے قابل تھے۔ لیکن اب صورتِ حال واضح نہیں ہے کہ آیا وہ یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

    تاہم، موجودہ عالمی اخراج اور ضروری تخفیف کی کوششوں کے درمیان بڑھتا ہوا گیپ جو کہ کرہ زمین کو 1.5 سینٹی گریڈ کی محفوظ حد کے اندر رہنے کے لئےچاہیے وہ پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ خطے میں صورتحال غیر یقینی ہے اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ دو ارب آبادی والے اِس خطے میں عدم استحکام کے دنیا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ انفرادی ممالک کی اِس خطرے سے نمٹنے کی صلاحیتیں ناکافی معلوم ہوتی ہیں۔

    زمین کی غیر خطی آب و ہوا کے رد عمل کی تاریخ غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کرتی ہے، جس سے معمول کے مطابق موسمیاتی اِقدامات کے بجائے نئے حل تلاش کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو خطرات کو کم کرتے ہیں۔

    نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ گلوبل وارمنگ نے جنوبی ایشیا کے بلند و بالا پہاڑوں میں برف کے پگھلنے کی شرح کو تیز کردیا ہے۔ اگر ہم زمین کے درجہ حرارت کو تبدیل کرتے رہیں (جیسے تھرموسٹیٹ کے درجہ حرارت کو اوپر نیچے کرتے رہنا) تو یہ بالآخر بہت تیزی سے بہت زیادہ برف پگھلنے کا سبب بنے گا۔ اس سے سمندر کی سطح میں ایک بڑا اضافہ ہوسکتا ہے جسے ہم روکنے یا پلٹنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

    لہذا، جغرافیائی سیاسی فالٹ لائنوں کے باوجود، پانی تعاون کے لئے ایک زبردست کیس فراہم کرتا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے پہاڑوں (ایچ کے ایچ) کی برف اور گلیشیئرز زندگی کے وسیلے کے طور پر کام کرتے ہیں جو 10 دریاؤں کے بیسن کو برقرار رکھتے ہیں اور 1.9 ارب لوگوں کو سہارا دیتے ہیں۔ ایک مربوط نقطہ نظر کی عدم موجودگی خطے کو اُن خطرات کا سامنا کرنے کے لئے ہوشیار اور تیار نہیں کرتی ہے جو مستقبل میں آہستہ ، اچانک اور انتہائی موسمیاتی واقعات سے جنم لے سکتے ہیں۔

    انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کی حالیہ رپورٹ، ایلیوٹنگ ریور بیسن گورننس اینڈ کوآپریشن ان ایچ کے ایچ ریجن، مشکلات کے ساتھ ساتھ بیسن کے حوالے سے تعاون کو مضبوط کرنے کے لئے درکار اقدامات کی یاد دہانی ہے۔ یہ کامیاب پالیسیاں بنانے اور اس کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لئے حکومتی کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ رپورٹ کے کچھ کلیدی مسائل واٹر گورننس فریم ورک تیار کرنے، خواتین واٹر پروفیشنلز کے لئے مواقع پیدا کرنے، موجودہ علم کو دستاویزی شکل دینے، مشترکہ نقطہ نظر اور اوزاروں کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنے اور عوام پر مرکوز نقطہ نظر کی حمایت کرنے سے متعلق ہیں جو جامع اور وسیع بنیاد ہوں۔

    پہاڑی ماحولیاتی نظام اور برادریوں کے بغیر منجمد پانی اور برف کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں ہوسکتی ہے۔ تبدیلیوں، مشکلات اور آفتوں کے محاذ پر زندگی بسر کرنے والی پہاڑی برادریوں میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جو سرحدوں کو کاٹتی ہیں اور مشترکہ مشکلات پیش کرتی ہیں۔ زراعت کے لئے پگھلے ہوئے پانی پر زیادہ انحصار برادریوں کو زیادہ غیر محفوظ بنادیتا ہے۔ زیادہ اونچائی اور فصلوں کا مختصر موسم زراعت کے لئے استعمال ہونے والے پگھلے ہوئے پانی کے وقت اور مقدار میں تغیر کو جذب کرنے کے لئے بہت کم گنجائش چھوڑتا ہے۔ ہائیڈرولوجی پیٹرن میں تبدیلیوں کے پہاڑی برادریوں کی زندگیوں پر بے شمار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غذائی قلت، نقل مکانی، قابل کاشت زمین کا نقصان اور غربت میں اضافہ پانی کے بہاؤ کے انداز میں تبدیلی سے جڑے کچھ موروثی خطرات ہیں۔

    علاقے کی زیادہ تر آبادی پیشہ کے اعتبار سے زراعت، مویشیوں اور ماہی گیری پر انحصار کرتی ہے۔ کسی بھی طرح کی اچانک موسمی رکاوٹیں کمیونٹیز کو چاہے وہ اوپری طرف رہتی ہوں یا نیچے کی طرف دونوں کو متاثر کرتی ہیں جس سے ایک رد عمل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سماجی توازن کو بگاڑتا ہے، مفاد پرست گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتا ہے اور اختلافات اور تصادم کا باعث بنتا ہے۔

    جنوبی ایشیا میں اوسطاً 25 سالہ نوجوان ایک اہم ڈیموگرافک (مطالعہ جمہور)کا حصہ ہے جو معاشرے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِن نوجوانوں کے نئے نقطہ نظر اور عزائم سماجی ترقی کو بہت فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم، اگر دولت کی غیر مساوی تقسیم اور وسائل اور مواقع تک محدود رسائی جیسے اِن کے خدشات پر توجہ نہیں دی گئی تو بدامنی کا خطرہ بھی ہے۔

    اس سے پہلے کہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، جنوبی ایشیا کے لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ اپنے ماضی پر نظرثانی کرے، حال کا تجزیہ کرے اور محفوظ مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرے۔

    جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی حرکیات ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، لیکن اپنی سماجی و ثقافتی مماثلتوں کے باوجود باہمی تعاون کے فقدان کے باعث یہ دنیا کا سب سے کم مربوط خطہ ہے، جو اپنے لوگوں کو بڑھتے ہوئے خطرات سے دوچار کرتا ہے۔

    سماجی اصول اس بات کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کہ لوگ مشکل وقت کا کیسے سامنا کریں گے۔خوراک کی بڑھتی ہوئی قلّت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، جنوبی ایشیا کے لئے ہمدردی، افہام و تفہیم اور احترام کی ثقافت کو فروغ دینا ضروری ہے جو اس کی مشترکہ تاریخ کے ثقافتی اقدار کی علامت ہو۔

    نومبر میں آذربائیجان میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس جنوبی ایشیا کو عالمی ماحولیاتی تشخیص میں کرائیوسفیئر (زمین کے وہ حصے جہاں پانی منجمد ہے) کی شمولیت کی وکالت کرنے کے لئے متحد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہماری پہاڑی برف کی حفاظت کے لئے تعاون کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ خطے کی ماحولیاتی سالمیت کے تحفظ کے لئے سول سوسائٹی کو اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ اگر تیسرا قطب بربادی کا شکار ہوتا ہے تو یہ پورے خطے کے لئے تباہی کا باعث بنے گا۔

    (عائشہ خان کی یہ تحریر ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • ہیرا منڈی: ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا!

    ہیرا منڈی: ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا!

    ہندوستان کے معروف فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے نیٹ فلیکس کے لیے اپنے فلمی کیریئر کی پہلی ویب سیریز "ہیرا منڈی” بنائی ہے، جس کا ان دنوں پاکستان اور بھارت میں بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس ویب سیریز پر فلم بینوں کے مثبت اور منفی تبصروں کے ساتھ فلمی ناقدین کی جانب سے تنقید بھی ہوئی ہے۔

    یہ تحریر آپ کو فیصلہ کرنے میں مدد دے گی کہ اس ویب سیریز کو کس نگاہ سے دیکھیں۔ اردو میں اس ویب سیریز پر پہلا مفصل تبصرہ اور تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

    پس منظر

    برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بعض شہر اور مقامات ایسے ہیں جن کو ثقافتی حوالے سے بڑی اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی، ان میں سے ایک پاکستان کے شہر لاہور کی "ہیرا منڈی” ہے۔ سولہویں صدی میں مغل دور میں، جب جلال الدین اکبر ہندوستان میں تخت پر براجمان تھا، تب اس کی بنیاد پڑی، کیوں کہ افغانستان، ازبکستان اور دیگر ایشیائی ممالک اور ہندوستان بھر سے رقاصاؤں نے یہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے پڑوس ہی میں دربار سے وابستہ ملازمین کی رہائش گاہیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ یہ رقاصائیں دربار کی خدمت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ راجوں مہاراجوں کی دل جوئی کا سامان بھی تھیں۔ کچھ وقت گزرا تو یہ علاقہ غذائی اجناس کی تجارت کے لیے بھی پہچانا جانے لگا۔

    بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی کے دور میں ان طوائفوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور دل بہلانے کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم و ستم بھی کیا گیا جس کا اختتام سکھوں کے دور میں ہوا۔ تاہم انگریزوں نے اپنے دور میں پھر ان عورتوں پر ظلم اور انھیں طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیا۔ تجارت اور ثقافت کے اس سنگم کو سکھ دور میں اس وقت بامِ عروج پر دیکھا گیا جب رنجیت سنگھ ہندوستان کا حکم راں تھا۔ اس علاقے کو سکھ دور میں ہیرا سنگھ دی منڈی پکارا جاتا تھا، جو اُس دور کے سکھ وزیراعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ سے منسوب تھی۔

    اس طرح برٹش راج تک آتے آتے ہیرا منڈی ثقافتی تربیت کا مرکز بننے کے بعد، رقص و موسیقی کا مرکز بنی اور پھر شاہی محلّے میں تبدیل ہونے کے بعد ایک کوٹھے میں تبدیل ہوگئی۔ ان بدلتے ادوار کی تاریخ میں اس خطّے کی پیشہ ور عورت کے کئی نسوانی روپ دکھائی دیں گے، جس کا اختتام ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان پر ہوا۔ لاہور میں واقع آج کی ہیرا منڈی صرف اس تاریخ کے کھنڈر ہیں، جسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔

    سینما میں بطور موضوع

    ہیرا منڈی ایک ایسی جگہ ہے، جس میں تخلیق کاروں کو بطور موضوع ہمیشہ کشش محسوس ہوئی ہے۔ اردو اور ہندی ادب سے لے کر، سینما تک سب نے اپنے اپنے انداز میں اس علاقے، یہاں کی روایات اور ثقافت کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ سنجے لیلا بھنسالی نے بھی مذکورہ ویب سیریز کو اپنے تخیل میں تراشا۔ یہ خالصتاً ان کے دماغ کی اختراع ہے۔ حقیقت میں ہیرا منڈی میں کبھی ایسا دور نہیں گزرا۔ اس فلم ساز کے ذہن میں جو ہیرا منڈی تھی، وہ ترقی یافتہ لکھنؤ کی ہیرا منڈی ہے، مگر مجھے یہ کہنا پڑ رہا کہ فلم ساز اِس ہیرا منڈی کو اپنے اسکرپٹ میں بھی ڈھنگ سے پیش نہیں کرسکے، جو ان کے تخیل میں تھی۔

    یہ سنجے لیلا بھنسالی کا مرغوب موضوع ہے، جس پر وہ مختلف انداز سے طبع آزمائی کرچکے ہیں اور جن میں ان کی فلمیں‌‌، ہم دل دے چکے صنم، دیو داس، باجی راؤ مستانی، پدما وت اور گنگو بائی کاٹھیاواڑی شامل ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کسی آن لائن اسٹریمنگ پورٹل کے لیے یہ کام کیا ہے اور یہ ان کی اوّلین ویب سیریز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی طوالت کو فلم ساز سنبھال نہیں پائے اور ایک اچھی ویب سیریز بنانے کے باوجود ان سے کئی سنگین غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اس کی توقع اُن سے نہ تھی۔ ان غلطیوں کی بنیادی وجہ ویب سیریز کا ناقص اسکرپٹ ہے، جسے ایک اچھے مرکزی خیال پر لکھا گیا ہے۔

    اسی موضوع پر ہندوستانی اور پاکستانی سینما میں چند اچھی فلمیں بھی تخلیق کی جا چکی ہیں، جنہوں نے طوائف کے موضوع سے انصاف کیا۔ معروف فلمی محقق ذوالفقار علی زلفی کے بقول "اس موضوع پر پہلی فلم 1928ء کی خاموش فلم ‘وشو موہنی’ ہے۔” انہوں نے اس کے بعد بننے والی فلموں کو بالتّرتیب بیان کیا ہے جن میں 1939ء کی فلم ‘آدمی’ بھی شامل ہے جس کے ہدایت کار وی شانتا رام تھے۔

    1944ء میں سہراب مودی کی فلم ‘پرکھ’ خواجہ احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ گرودت کی فلم ‘پیاسا’ اور 1958ء میں ریلیز ہونے والی فلمیں ‘سادھنا’ اور ‘چاندنی چوک’ کے ہدایت کار بی آر چوپڑا تھے۔ اس کے بعد کی چند مشہور فلموں میں آستھا، چاندنی بار، چنبیلی سمیت دوسری فلموں میں مرزا غالب، مہندی، بے نظیر، میرے حضور، شرافت، آنسو اور مسکان، امراؤ جان ادا، شطرنج کے کھلاڑی، بیگم جان اور دیگر شامل ہیں۔ وکرم سیٹھ کے ناول پر بنی بی بی سی کی ویب سیریز ‘اے سوٹ ایبل بوائے’ بھی قابلِ ذکر تخلیق ہے، جس کی ہدایت کار میرا نائر تھیں۔

    ‘پاکیزہ’، ‘منڈی’ بھی دو ایسی ہیں فلمیں ہیں، جن کو اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو ہدایت کار کے آصف کی فلم ‘مغلِ اعظم’ کو بھی اسی آنکھ سے دیکھتے ہیں جو بہرحال اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف فلم ہے۔ اسی موضوع کے تناظر میں کچھ اور فلمیں بھی بنیں۔ ان میں طوائف (1985ء) طوائف کی بیٹی (1989ء) پتی پتنی اور طوائف (1990ء) کلنک (2019ء) شامل ہیں۔ پاکستانی سینما میں عطاءُ اللہ ہاشمی کی 1961 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘غالب’ اور دیگر فلموں میں انجمن (1970ء) امراؤ جان ادا (1972ء) پاکیزہ (1979ء) ثریا بھوپالی (1976ء) بازارِ حسن (1988ء) صاحب بی بی اور طوائف (1998ء) ماہ میر (2016ء) اور ٹکسالی گیٹ (2024ء) شامل ہیں۔

    سنجے لیلا بھنسالی کی ‘ہیرا منڈی’

    کہانی۔ اسکرپٹ

    اس کہانی کا مرکزی خیال معین بیگ کی تخلیق ہے، جس پر سنجے لیلا بھنسالی نے اسکرپٹ لکھا اور دیویاندہی اور ویبو پوری نے مکالمے۔ جب کہ اس کہانی کے تخلیقی تسلسل اور اسکرپٹ سے متعلق دیگر شخصیات میں پرشانت کشور جوشی، موہن روات، ویبہو ڈکشٹ بھی شامل ہیں۔ مرکزی خیال کے پیش کار معین بیگ ہندوستان کی ایک ادبی شخصیت ہیں اور ان کی سنجے لیلا بھنسالی سے پرانی راہ و رسم ہے۔ انہوں نے 14 برس پہلے سنجے لیلا بھنسالی کو لاہور کی ہیرا منڈی کے تناظر میں ایک کہانی کا مرکزی خیال سنایا تھا جس پر فلم ساز نے پہلے فلم بنانے کا سوچا، لیکن موضوع کی گہرائی اور کہانی کی انفرادیت نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اسے وقت دیں اور اس پر جم کر کام کیا جائے۔ اس طرح انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی ویب سیریز لکھتے ہوئے اس کی ہدایات دیں اور اس کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    سنجے لیلا بھنسالی کے اس اسکرپٹ کا پلاٹ تو بہت مضبوط ہے، جو مرکزی خیال سے پیوست ہے۔ طوائفوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہوئے، ان کے آزادی کی جنگ سے جڑ جانے کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ بس، بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کہانی لکھنؤ کے پس منظر میں سوچی گئی اور ہندوستانی جذبات کے ساتھ فلمائی گئی اور اس کے ماتھے پر زبردستی ‘ہیرا منڈی’ کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔

    یہ ہندوستان کے کسی بھی ایسے علاقے کی کہانی ہوسکتی تھی، جہاں طوائفیں رہتی تھیں۔ اس کہانی میں نہ تو کہیں لاہور آیا، نہ کہیں اس علاقے کا کلچر، حتیٰ کہ پنجابی زبان، جو اس شاہی محلّے کا خاصّہ تھی، اس کا سفاکی سے قلع قمع کیا گیا۔ اس کہانی کو تحریر کرتے ہوئے کئی سنگین غلطیاں کی گئیں، جس طرح ہیرا منڈی کا تاریخی اور درست نام ‘شاہی محلّہ’ ہے، لیکن ویب سیریز کے اس اسکرپٹ میں اسے ‘شاہی محل’ لکھا اور بولا گیا۔ کوٹھے کی مالکن اور طوائفوں کی برادری کی سربراہ کے لیے لفظ ‘نائیکہ’ مستعمل ہے، جب کہ اس کہانی میں اس عورت کے نام کے ساتھ حضور، حضور کی تکرار کی گئی، جس کا نہ کوئی معنوی تعلق اس کہانی سے بنتا ہے اور نہ ہی تخلیقی۔ یہ ایک مہمل لفظ تھا، جن جن جگہوں پر بھی یہ استعمال ہوا۔

    ویب سیریز اور اس کے اسکرپٹ میں لکھی گئی اردو انتہائی ناقص اور غلط العام ہے۔ یہاں تک کہ اردو کا ایک اخبار دکھایا گیا، جس کو ایک معروف طوائف پڑھ رہی ہے، اس اخبار میں کئی جگہ غلط اردو دکھائی دی۔ سڑکوں پر آویزاں پوسٹرز اور احتجاجی جلوس میں شرکا کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بینرز پر درج عبارتوں میں کئی غلط الفاظ اور ہندی رسم الخط دکھائی دیا جو کہانی کے مقام اور علاقے سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا تھا۔ کہانی اور کرداروں کی ترتیب، بُنت اور کلائمکس اچھے تھے، جس کی وجہ سے آٹھ اقساط کی اس سیریز میں دل لگتا ہے۔

    اس کہانی میں سوائے قدسیہ بیگم نامی کردار کے، جس کو معروف ہندوستانی اداکارہ فریدہ جلال نے ادا کیا، کسی نے اردو زبان کے تلفظ اور ادائی کا خیال نہیں رکھا۔ فریدہ جلال کے اردو بولنے کا ڈھنگ اور درست تلفظ کی تربیت شاید اس زمانہ میں ہوئی ہو جب وہ دور درشن ٹیلی وژن پر کام کرتی تھیں جہاں درست زبان بولنے پر ایسے ہی زور دیا جاتا ہے، جیسے کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر ہوتا تھا۔ کرداروں کے غلط تلفظ نے اس کہانی کو جا بجا مجروح کیا، البتہ ایک کہانی میں کئی کہانیاں پیش کرنے کی کوشش کامیاب رہی، جن کا مونتاج بنانے میں سنجے لیلا بھنسالی بطور اسکرپٹ رائٹر کامیاب رہے، لیکن اگر انہوں نے طوائف کے موضوع پر اتنی تفصیل میں ہی جانا تھا تو سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا ہی مطالعہ کر لیتے اور کہانی کی نفسیات، تکنیک، کرداروں کی مزید بنت اور زبان و بیان برتنے کا سلیقہ سیکھ سکتے تھے۔ اب بھی وقت ہے، اگر وہ چاہیں تو اس ویب سیریز کا دوسرا سیزن بنانے سے پہلے منٹو سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

    ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز ایک ہدایت کار کے طورپر کامیاب پروجیکٹ ہے۔ اس کے پروڈکشن ڈیزائن سے لے کر تمام شعبہ ہائے تخلیق میں سنجے لیلا بھنسالی کا کام متاثر کن ہے۔ اگر ان کو اچھا اسکرپٹ ملتا تو ڈائریکشن کے تناظر میں جو معمولی غلطیاں ہوئیں، وہ نہ ہوتیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ ڈائریکشن ہے، جس میں خاص طور پر اینی میشن، گرافکس، ویژول ایفکٹس، سیٹ ڈیزائننگ، کاسٹیومز، جیولری، میک اپ، لائٹنگ، ساؤنڈ، فریمز، سینماٹو گرافی اور سب کچھ دلکش ہے۔ ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے اکثر یہ بصری دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم ایک کے بعد ایک مغلیہ پینٹنگز دیکھ رہے ہیں۔ ہر فریم عمدہ اور نگار و نقش پُرسوز اور شان دار ہے۔ اس لیے اگر اسکرپٹ کی تکنیکی غلطیوں کو جن میں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں، نظر انداز کر کے ویب سیریز کو دیکھا جائے تو یہ آپ کو ضرور ایک مختلف دنیا میں لے جائے گی، جہاں ہر چیز گویا محوِ رقص ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کے جن چھے کرداروں کے لیے اداکاراؤں کا انتخاب کیا گیا، ان میں سے تین کو درست انتخاب کہا جاسکتا ہے، جن میں منیشا کوئرالہ (ملکہ جان) سوناکشی سنہا (فریدن، ریحانہ) اور شرمین سہگل (عالم زیب) شامل ہیں۔ ان تینوں نے پوری ویب سیریز کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور خاص طور پر ان میں سب سے جونیئر اداکارہ شرمین سہگل نے اپنی اداکاری، چہرے کے تاثرات، بدن کی حرکات و سکنات اور شخصیت کی رعنائی سے بے حد متاثر کیا۔ انہوں نے کردار کو درکار نرماہٹ کا پورا پورا احساس دلایا۔ منیشا کوئرالہ اور سوناکشی سنہا نے حیران کر دیا۔ ان سے اتنے اچھے اور پختہ کام کی توقع کم ہی تھی۔

    ہیرا منڈی

    ہیرا منڈی

    باقی تین اداکارائیں ‘مِس کاسٹنگ’ ہیں، جس کی ذمہ دار ظاہر ہے کاسٹنگ ڈائریکٹر شرتی مہاجن ہیں۔ ان کی جگہ دوسری بہتر اداکاراؤں کو موقع دیا جا سکتا تھا۔ اس معاملے میں سنجے لیلا بھنسالی نے وہی غلطی دہرائی، جو انہوں نے "گنگو بائی کاٹھیاواڑی” میں عالیہ بھٹ کو کاسٹ کر کے اور ہما قریشی کو مختصر کردار میں ضائع کر کے کی تھی۔ میری نظر میں ویب سیریز میں تبو، مادھوری ڈکشٹ اور ہما قریشی جیسی مجسم طوائف کا سراپا رکھنے والی اداکاراؤں کو شامل نہ کرنا ان کے فن کی عظمت سے انکار ہے۔ ہما قریشی ہوتی تو پتہ چلتا کہ سوناکشی سنہا کتنی دیر اسکرین پر ڈٹ کر کھڑی رہ سکتی تھی۔ بہرحال ایک حسین امتزاج بن سکتا تھا، جس کی طرف فلم ساز نے توجہ نہیں دی۔

    ویب سیریز کے دوسرے کرداروں میں قدسیہ بیگم (زبیدہ جلال) استاد (اندریش ملک) صائمہ (شرتی شرما) شمع (پراتی بھا رنتا) اور جیسن شاہ (السٹائرکارائٹ) شامل ہیں۔ بالخصوص اندریش ملک ویب سیریز کے کئی سیزنز میں ساتھی اداکاراؤں پر حاوی نظر آیا۔ باقی کرداروں میں چند نے مناسب اور زیادہ تر نے غیر معیاری اداکاری کی، جس کی بنیادی وجہ اسکرپٹ کی وہ غلطیاں ہیں، جن کا ہم اوپر بیان کرچکے۔

    موسیقی

    اس شعبے میں سنجے لیلا بھنسالی ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ بطور موسیقار اس بار بھی وہ سرخرو ہوئے۔ اس ویب سیریز میں مرکزی نغمات کی تعداد نو ہے، جس کی طوالت 32 منٹ 48 سیکنڈز بنتی ہے۔ یہ گیت بالتّرتیب طلسمی بیھین، سکل بن، آزادی، چودہویں صاحب، معصوم دل ہے میرا، پھول گیندوانہ مارو، سیاں ہٹو جاؤ، ایک بار دیکھ لیجیے اور نظر ای کی ماری ہیں۔ ان گیتوں کو جن گلوکاروں نے گایا ہے، اسی ترتیب سے ان کے نام شرمیستھا چترجی، راجا حسن، آرچاناگوری، پراگیتی جوشی، پریتی پرابہو دیسائی، آروہوئی، ادیتی پاؤل، ترنم ملک جین، دیپیتی راگے، شیریا گھوشل، شیکا جوشی، برنالی چتوپادھیوئے، کلپنا گندھوارا اور مدھوبنتی باگچی ہیں۔

    ہیرا منڈی

    اس ویب سیریز کا بیک گراؤنڈ میوزک برطانوی موسیقار بینڈیکٹ ٹیلر نے دیا ہے اور بہت شاندار اور مدھر انسٹرومنٹل میوزک ہے، جسے سن کر وجد طاری ہو جائے۔ وہ کئی انڈین فلموں کے لیے موسیقی مرتب کر چکے ہیں، لیکن ہیرا منڈی میں ان کے فن کا جادو سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔

    اس ویب سیریز میں مقبول ترین اور سب سے مشکل دھن، مشہورِ زمانہ امیر خسرو کی "سکل بن” ہے، جس کو راجا حسن سے گوایا گیا اور ہزاروں بار گائی ہوئی اس دھن کو انہوں نے اپنی آواز اور اندازِ گائیکی سے منفرد بنا دیا۔

    اس کی ویڈیو نے دھن کی جمالیاتی ساخت کو مزید پختہ کیا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی اپنی آواز کا کرشمہ دکھا پایا ہے تو وہ شرمیستھا چترجی، شیریا گھوشل اور برنالی چتوپادھیوئے ہیں جنہوں نے اس ویب سیریز میں دل کے تاروں کو اپنے سروں سے چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔

    قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ شرمیستھا چترجی جنہوں نے اس ویب سیریز کا پہلا گیت طلسمی بیھین گایا ہے، وہ شیریا گھوشل کی طرح بنگالی زبان کا پس منظر رکھتی ہیں اور بے انتہا سریلی گلوکارہ ہیں۔ یہ ان کے فلمی کیریئر کا ابتدائی نغمہ ہے، اس سے پہلے وہ انفرادی طور پر کلاسیکی موسیقی کو گاتی رہی ہیں اور پاکستان سے ان کا ایک تعلق اس طرح بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے کلاسیکی ماڈرن میوزک کے لیے مشہور "میکال حسن بینڈ” کی لیڈ سنگر بھی رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک البم بھی پاکستان میں ریکارڈ کروایا، جس کا نام "اندولن” ہے اور یہ 2014 میں ریلیز ہوا تھا۔ وہ پاکستان کے کوک اسٹوڈیو میں بھی اپنی آواز کا جادو جگا چکی ہیں۔

    مقبولیت کے نشیب و فراز

    پاکستان اور انڈیا کے میڈیا میں اس ویب سیریز کو بہت زیادہ توجہ ملی اور یہ زیرِ بحث رہی اور اب بھی اس پر بات کی جارہی ہے۔ دونوں طرف کے فن کاروں نے بھی اس پر اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے مابین اگر حالات معمول پر ہوتے تو قوی امید تھی کہ پاکستان سے بھی کچھ فن کاروں کو اس ویب سیریز میں شامل کیا جاتا۔ یہ تو نہیں ہوسکا، لیکن دونوں طرف سے اس پر لفظوں‌ کے نشتر ضرور چلائے گئے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ ویب سیریز گویا زیرِ عتاب رہی۔ اس تمام مخالفت کے باوجود یہ ویب سیریز نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے کے بعد مسلسل مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ فلم ساز نے واضح طور پر کہا کہ "میں نے ہیرا منڈی کی حقیقی تاریخ نہیں بیان کی، بلکہ میں نے اپنے ذہن اور تخیل میں موجود ہیرا منڈی کو فلمایا ہے۔” اس کے بعد بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ اس ویب سیریز میں جو واقعات اور حالات دکھائے گئے ہیں وہ حقائق کے منافی ہیں۔

    سینما کی معروف ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر ہیرا منڈی کی ریٹنگ 10 میں سے چھ اعشاریہ پانچ ہے۔ فلمی تبصروں کی معروف ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کا تناسب 50 فیصد ہے۔ گوگل کی ریٹنگ میں 5 میں سے 4 ستارے ہیں۔ ہندوستانی 200 کروڑ کے بجٹ سے تیار ہونے والی یہ ویب سیریز اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کے نصف تک پہنچ سکی ہے۔ امید ہے اگر دوسرا سیزن تنقید اور تجاویز کے تناظر میں، غلطیوں سے سیکھنے کے بعد بنایا گیا تو یہ پہلے سیزن کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔

    آخری بات

    اس ویب سیریز کی جمالیاتی تشکیل بہت عمدہ ہے۔ تکنیکی غلطیوں کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے، تو یہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس ویب سیریز میں لاہور کے ساتھ ساتھ کراچی کا ذکر بھی آیا ہے اور دیگر کئی مشہور ہندوستانی شہروں کا بھی۔ حقیقی ہیرا منڈی کو نظرانداز کر کے سنجے لیلا بھنسالی کی ہیرا منڈی، جو لکھنؤ سے متاثر ہے، اسے ضرور دیکھیے، آپ اس سے لطف اندوز ہوں گے۔

    ویب سیریز جو کہ آٹھ اقساط پر مشتمل ہے، اسے دیکھنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے، شروع کی ایک آدھ قسط دھیمی رفتار سے آگے بڑھتی ہے لیکن اس کے بعد کہانی کئی کلائمکس میں تقسیم اور کردار ایک دوسرے سے بندھے ہوئے دکھائی دیں گے، جس سے آپ حظ اٹھائیں گے اور فائنل کلائمکس پر دل خون کے آنسو روئے گا۔ اس ویب سیریز کے آخری منظر میں ان طوائفوں کے سارے گناہوں کی کالک دھل جاتی ہے اور آزادی کے پرچم کی سفیدی، ان کے تاریک ماضی پر غالب آجاتی ہے۔

    ہیرا منڈی

    اس پسے ہوئے طبقے کو جنہیں کبھی طوائف کہا جاتا تھا، یہ ویب سیریز خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک ایسی کوشش بھی ہے جس کی داد نہ دینا ناانصافی ہو گی۔ اس ویب سیریز ہیرا منڈی کی دنیا میں، آزادی کی جنگ لڑنے والی طوائفوں کے لیے میر تقی میر کی ایک غزل پڑھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ اس میں ان طوائفوں کا ہی دکھ بیان کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کہانی کو اگر ایک غزل کی صورت میں بیان کیا جائے، تو ان چند اشعار میں اس ویب سیریز کی پوری کہانی منعکس ہو رہی ہے، جسے آپ بھی محسوس کرسکتے ہیں۔

    دل جو زیرِ غبار اکثر تھا

    کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا

    اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن

    رات دن ہم تھے اور بستر تھا

    کیوں نہ ابرِ سیہ سفید ہوا

    جب تلک عہدِ دیدۂ تر تھا

    سرسری تم جہاں سے گزرے

    ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

    یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

  • فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    فلسطین:‌ انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

    مومنہ طارق

    ہم آزاد تھے، آزاد فضا میں سانس لیتے اور رکوع و سجود کرتے تھے۔ ہمارے بچّے بے خوف ہو کر گلیوں میں کھیلتے تھے اور ہماری ماؤں، بہنوں کی عزت محفوظ تھی۔ ہمارے جوان آنکھوں میں خواب سجاتے تھے۔ اچانک 1948 میں ہم تقریباً ساڑھے سات لاکھ باسیوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا اور دنیا ہماری بے بسی کا تماشا دیکھتی رہی۔ آج 76 سال ہوگئے دنیا خاموش ہے۔ سانحہ تو یہ کہ اپنوں نے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں بلکہ ہمیں سہارا دینے کے بجائے ہمارے گھروں کو گرانے والوں کے پیچھے چھپ گئے ہیں۔ ہم اپنی زمین پر بے گھر اور مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ہمارے پاس مسکرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہماری فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے۔

    پچھلے سال 7 اکتوبر کا سورج طلوع ہوا تو جس ظلم و ستم اور بربادی کا آغاز کیا گیا، لگتا تھا کہ اب روئے زمین پر فلسطینیوں کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا اور اس مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے اسرائیل کو 243 دن ہوگئے ہیں۔ کانوں میں گولیوں اور بموں کی آواز گونجتی ہے، فضا میں بارود کی بُو اس قدر ہے کہ سانس لینا محال ہے۔ ہر طرف خون اور چیخ و پکار، آہ و فغاں سنائی دے رہی ہے۔ ارضِ فلسطین اب تک 37 ہزار سے زائد لاشیں سمیٹ چکی ہے۔ 90 ہزار سے زائد زخمی ان اسپتالوں میں پڑے ہیں جہاں ان کے جسم سے رستے ہوئے خون کو روکنے، زخموں کو سینے اور ان کی مرہم پٹی کرنے کے انتظامات نہیں ہیں، ان کو بچانے کی کوشش کرنے والے ڈاکٹر نہیں ہیں۔ اسپتال میں نہ تو طبّی آلات ہیں اور نہ ہی بجلی۔ زندگی گزارنے کے لیے کھانا تو دور کی بات بچّوں کو دو گھونٹ پانی تک میسر نہیں ہے اور وہ بھوک پیاس سے دم توڑ رہے ہیں۔ مگر مہذب معاشرے، انصاف کے پرچارک اور انسانی حقوق کے علم برداروں نے شاید اسی طرح اپنے ضمیر کو کہیں دفنا دیا ہے، جس طرح آج فلسطین کی مٹی میں لوگ اپنے پیاروں کو دفنا رہے ہیں۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دینا ہو گا، مگر دنیا میں قیامِ امن کو یقینی بنانے اور انسانیت کا پرچم بلند رکھنے والے اس سب سے بڑے ادارے کو شاید خود بھی انصاف چاہیے کہ اس کے فیصلوں اور احکامات کو کم از کم سنا تو جائے۔ صرف 1967 سے 1988 تک 131 قرارداد فلسطین کے حق میں منظور ہوچکی ہیں مگر آج بھی غزہ اور رفاہ میں لاشیں بچھی ہوئی ہیں۔ دنیا تو ایک طرف مسلم ممالک بھی اس بدترین ظلم اور معصوم فلسطینیوں کے قتل پر خاموش ہے اور ‘الاقصی’ کی محبّت بھی انھیں فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے پر مجبور نہیں کرسکی ہے۔

    غزہ میں صیہونی دہشت گردی کے خلاف پہلی اٹھنے والی آواز کولمبیا یونیورسٹی کے طالبِ علموں کی تھی۔ یہ اسی سپر پاور امریکا کی ایک یونیورسٹی ہے جو کھل کر غزہ میں صیہونی فوج کے قتلِ عام کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاج شروع ہوا اور پاکستان کے طالبِ علم بھی جاگے۔ آج اسلام آباد کے ڈی چوک پر ان کے دھرنے کو 25 دن ہوچکے ہیں اور ان کا اپنی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فلسطین کے حق میں عالمی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر کردہ غزہ درخواست میں فریق بنے، مگر حکومت ان پُرامن مظاہرین کی بات نہیں سن رہی۔ یہی نہیں بلکہ سابق سینیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ جو پاکستان میں ”غزہ بچاؤ“ مہم کی قیادت کر رہے ہیں، ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہیں۔ جب کہ جامعات کے چند طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کو معطل کر دیا گیا ہے کیوں کہ وہ اس دھرنے میں شریک ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم متعدد بار اپنی جامعات کی انتظامیہ سے تحریری طور پر درخواست کر چکے ہیں کہ ہمیں اس مہم کا حصّہ بننے کی اجازت دی جائے اور جامعات اپنی حدود میں طلبہ پر اسرائیلی مصنوعات کے استعمال پر پابندی عائد کرے، مگر کوئی مثبت جواب نہیں دیا جا رہا۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا درد رکھنے والے لاکھوں پاکستانیوں نے اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر کے صیہونی ریاست کے ظلم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے جس کے اثرات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔

    داستانِ ارضِ فلسطین جب لکھی جائے گی تو بلاشبہ جہاں کولمبیا، ہاروڈ جیسی جامعات کا نام لیا جائے گا وہیں پاکستان کے غیرت مند اور باشعور عوام اور بالخصوص طلبہ میں غزہ کا درد جگانے والی قیادت کا نام بھی سرفہرست ہو گا۔ لیکن اس وقت تو سوال یہ ہے کہ انسانیت اور حق و انصاف کا نعرہ بلند کرنے والے ممالک کی حکومتیں اور بالخصوص امّتِ مسلمہ کب جاگے گی؟ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر ہزاروں اسرائیلیوں نے فلیگ مارچ کے نام پر حملہ کیا، مگر کسی مسلم ملک کے حکم راں نے اس کے خلاف بیان نہیں دیا۔

    اسرائیل اتنا طاقت ور تو کبھی نہیں تھا کہ جسے امریکا جنگ بندی کا اعلان کرنے کو کہے تو نیتن یاہو صاف انکار کر دے اور اتنے دھڑلے سے پوری دنیا کے سامنے کہے کہ حماس سے مذاکرات میدانِ جنگ ہی میں ہوں گے۔ آج کا مؤرخ یہ سب دیکھ رہا ہے اور کل جب داستانِ خونچکاں رقم ہوگی تو مؤرخ کا قلم کئی ناموں کو تاریک و باعثِ ننگ تحریر کرے گا۔

  • موسمیاتی تبدیلی اور غلط پالیسیاں پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کی طرف دھکیل رہی ہیں

    موسمیاتی تبدیلی اور غلط پالیسیاں پاکستان کو غذائی عدم تحفظ کی طرف دھکیل رہی ہیں

    حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری کے کوٹے میں کمی کے بعد پاکستان میں کسان گزشتہ چند ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں۔ صوبہ سندھ، اپنی فصل کی ابتدائی پیداوار کے ساتھ، مظاہروں کا مرکز رہا ہے، لیکن تعطل موجودہ سال وہاں گندم کی کٹائی مکمل ہونے کے دو ماہ بعد بھی برقرار ہے۔

    سندھ میں قائم ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر اکرم خاصخیلی نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “حکومت نے گندم کی خریداری کا ریٹ طے کیا تھا اور اسے گندم کے تھیلے براہ راست کسانوں کو جاری کرنے تھے، لیکن محکمہ خوراک کے کچھ اہلکار مبینہ طور پر یہ تھیلے کک بیکس کے عوض چھوٹے درجے کے تاجروں (پیڑھی) کو فروخت کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، پیڑھی والے کاشتکاروں سے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ 100,000 روپے (360 امریکی ڈالر) فی 100 کلو گرام کے نرخ سے کم نرخوں پر گندم خرید رہے ہیں،” سرکاری خریداری مراکز کو گندم کی پیکنگ اور فروخت کے لئے گندم کے تھیلے جاری کئے جاتے ہیں۔

    حکومتی ناکامیوں اور پہلے سے زیادہ غیر متوقع موسم کے امتزاج سے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے

    خاصخیلی نے مزید کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے صورتحال پر بدانتظامی جاری رہی تو اس سے قیمتی فصلوں کو نقصان پہنچے گا، گندم کی دستیابی کے باوجود غذائی عدم تحفظ مزید بڑھے گا۔

    عام طور پر، حکومت کی طرف سے کم سے کم امدادی قیمت پر پیداوار کے تقریباً 20 فیصد، یا 5.6 ​​ملین ٹن گندم کی بڑی خریداری، خریدار کو کچھ پیداوار کا یقین دلاتی ہے اور مارکیٹ ریٹ مقرر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن موجودہ مسئلہ میں موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہے اور کس طرح یہ پاکستان کے زرعی شعبے کو بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔

    2022 کے سیلاب کے بعد زرعی بحران کے دو سال
    موجودہ بحران جولائی تا ستمبر 2022 کے اونچے درجے کےسیلاب سے جڑا ہے جس میں ملک کے ایک تہائی اضلاع ڈوب گئے۔ بتدریج گرم ہوتے سمندر سمیت بہت سے موسمی عوامل، کی وجہ سے شدید بارشیں ہوئیں، جس نے پاکستان کی 15 فیصد زرعی زمین کو معتدل یا شدید طور پر متاثر کیا۔

    صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں جوہی جیسے علاقوں میں اس کا اثر کئی موسموں تک رہا۔ ابتدائی تباہی کے چھ ماہ بعد تک پانی بڑی مقدار میں ٹھہرا رہا۔ ایک بیراج بھی ڈھے گیا تھا، اور دو سال تک فعال نہ ہو سکا۔

    44 سالہ طالب گدیہی اور ان کے بھائیوں، جو اس علاقے میں مل کر 350 ایکڑ (141 ہیکٹر) زرعی اراضی کے مالک ہیں، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ ان میں سے اکثر نے دو سالوں میں لگاتار چار موسموں تک اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے جدوجہد کی۔

    گدیہی نے کہا کہ بیراج کے تباہ ہونے سے اندازاً 100,000 ایکڑ (40,469 ہیکٹر) متاثر ہوا، اور قابل کاشت زمین بنجر ہو گئی ہے۔ “اس صورتحال کے نتیجے میں علاقے سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے،” انہوں نے مزید کہا۔

    بڑھتی ہوئی مہنگائی سے درآمدات بڑھ گئی ہیں
    پاکستان بھر میں اس طرح کے اثرات نے ملک کو 2022 میں گلوبل ہنگر انڈیکس میں 99 ویں نمبر سے 2023 میں 102 ویں نمبر پر لانے میں کردار ادا کیا۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے جنوری 2024 کے تجزیے کے مطابق، غربت کی شرح 2022 میں 34 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 39 فیصد ہو گئی، جس کی بڑی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس سے غریب گھرانوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی کے مطابق، 10 ملین سے زیادہ لوگ “اپریل سے اکتوبر 2023 کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلی سطح کا سامنا کر رہے تھے”۔

    گندم ملک کی بنیادی خوراک کا 72 فیصد بنتی ہے، اور غذائی تحفظ اور مہنگائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نگران حکومت نے 2024 کے قومی انتخابات سے قبل 2023 کے آخر میں گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اس وقت تک زرعی شعبہ ٹھیک ہو چکا تھا، اور کسانوں کو معمول سے زیادہ پیداوار کی توقع تھی۔ تاہم، چونکہ حکومت پہلے ہی گندم درآمد کر چکی تھی، اس لئے اب وہ کسانوں سے کم خریدنا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے احتجاج شروع ہورہے ہیں۔”

    اسلام آباد میں گلوبل کلائمیٹ چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی) میں زراعت، جنگلات اور زمین کے استعمال کے سیکشن کے سربراہ محمد عارف گوہیر نے مارچ میں احتجاج سے قبل، ڈائیلاگ ارتھ کو گندم درآمد کرنے کے فیصلے کی وضاحت دی کہ یہ استطاعت کا مسئلہ ہے۔ اناج کی درآمد سے گندم کی قیمت میں گراوٹ آئی، ڈان کے مطابق، “3,000 روپے اور 3,100 روپے فی 40 کلوگرام کے درمیان جو کہ 2024-2025 کے سیزن کے لئے مقرر کردہ 3,900 روپے فی 40 کلو گرام کم سے کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) سے نمایاں طور پر کم ہے۔” لیکن اس کی وجہ سے دو سال کی سختی کے بعد اچھی کمائی کی امید رکھنے والے کسانوں کی طرف سے احتجاج شروع ہو گیا ہے۔

    گوہیر نے کہا، “خوراک کی افراط زر اور تحفظ سے نمٹنے کا حتمی حل درست زراعت کو اپنانے اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے استعمال میں مضمر ہے۔”

    لیکن ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے خاصخیلی نے بتایا کہ کسانوں کو اس سلسلے میں بہت کم یا کوئی اعانت نہیں ملتی۔ “شروع سے آخر تک، کاشتکار بے بس ہیں،” انہوں نے کہا۔ “کاشتکاروں کو معیاری بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنی فصلیں کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے فصل کی پیداوار اور غذائی تحفظ متاثر ہوتے ہیں۔”

    بدانتظامی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے غذائی تحفظ کو خطرہ
    مظاہرے اور گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کی غیر معمولی درجہ بندی دونوں اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ پاکستان کی غذائی تحفظ اور سماجی استحکام کے لئے زرعی پالیسیاں کتنی اہم ہیں۔ بنیادی میٹرکس کے لحاظ سے، ملک نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 1947-48 میں، گندم 3,953 ہیکٹر پر بوئی گئی تھی، جس سے 0.848 ٹن فی ہیکٹر پیداوار پر 3,354 ٹن گندم پیدا ہوا تھا۔ 2022-23 تک پاکستان میں 9,043 ہیکٹر پر گندم کی بوائی گئی، جس کی پیداوار 27,634 ٹن تھی جس کی اوسط پیداوار 3.056 ٹن فی ہیکٹر تھی۔

    لیکن اگرچہ پاکستان اب دنیا میں گندم پیدا کرنے والا 7 واں بڑا ملک ہے، لیکن یہ انڈیکس منڈی کے مطابق گندم کی اوسط پیداوار کے لحاظ سے صرف 38 ویں نمبر پر ہے، جس کی اوسط پیداوار 3 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ نیوزی لینڈ اس وقت 10 میٹرک ٹن فی ہیکٹر کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ گندم کی اوسط پیداوار رکھتا ہے۔

    فیڈرل منسٹری فار نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کے تحت کلائمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورس انسٹی ٹیوٹ (سی ای ڈبلیو آر آئی) کے ڈائریکٹر بشیر احمد کے مطابق، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے میں ایک بڑھتا ہوا چیلنج موسمیاتی تبدیلی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا زرعی شعبہ آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کا 60-70 فیصد برف پگھلنے اور گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے۔

    ستمبر 2022 میں، ایک کسان پاکستان کے کوئٹہ کے قریب سیلاب سے تباہ شدہ باغ میں سڑے ہوئے سیب جمع کر رہا ہے۔ گرمی کی لہروں اور سیلاب سے بارشوں بدلتے پیٹرن اور برفانی تودوں کے غیر متوقع پگھلنے تک، موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیائی ملک میں کسانوں کے لیے زندگی مشکل بنا رہی ہیں (تصویر بشکریہ ارشد بٹ/الامی)

    احمد نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ اس کے علاوہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے پانی کی دستیابی اور ذخیرہ کو متاثر کیا ہے، شدید اور مختصر دورانیے کی بارشیں مٹی کے کٹاؤ کا باعث بنتی ہیں۔ اس نے پوٹھوہار کے علاقے اور ملک کے شمالی حصوں میں بارش پر منحصر زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

    “مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن کے نتیجے میں مختلف فصلوں پر 6-15 فیصد اثر پڑا ہے، خاص طور پر بارش سے چلنے والی فصلیں جیسے گندم، جس میں 15 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کمی کا تعلق گرمی کی لہروں اور سیلاب کے اثرات سے نہیں ہے،” احمد نے مزید کہا۔

    احمد نے کہا کہ گلگت بلتستان جیسے سرد علاقوں میں، نارنگی جیسے پھل ٹھنڈ کے ناکافی اوقات کی وجہ سے جلدی تیار ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، آبپاشی کے لئے پانی کی سپلائی میں کمی نے پنجاب میں زیر زمین پانی پر انحصار بڑھا دیا ہے، جس سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے۔

    حل موجود ہیں، لیکن سوال حکومت کی سپورٹ کا ہے
    ویٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سکرنڈ، سندھ میں زرعی سائنس کے ڈائریکٹر اور ایگریکلچرل سائنٹسٹ ظفر علی کھوکھر تجویز کرتے ہیں کہ مقامی بیج کی اقسام اپنی موجودہ پیداواری صلاحیت کو دوگنا کر سکتی ہیں۔ تاہم، معیاری بیج کی تیاری میں طلب اور رسد کے مسائل برقرار ہیں۔

    کھوکھر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ، “ہمارے ادارے نے 80 من گندم فی ایکڑ (7.43 ٹن فی ہیکٹر) پیدا کرنے والی اقسام تیار کی ہیں، جو مسلسل استعمال سے ثابت ہیں۔ بیج کی ضروری فراہمی کو یقینی بنانا ذمہ دار مینوفیکچررز کے ہاتھوں میں ہے۔ فی الحال، بیج کی کل طلب کا صرف 30 فیصد اعلی پیداوار والے گندم کے بیجوں پر مشتمل ہے، جو حکومتی یا نجی کمپنیاں فراہم کرتے ہیں۔

    عامر حیات بھنڈارا، جنہوں نے 2023 میں زراعت کی پیداوار میں بہتری کے لیے وزیر اعظم کی کمیٹی کے رکن کے طور پر کام کیا، نے اس بات پر زور دیا کہ اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ “اگر ماضی کی حکومتیں زراعت کے شعبے میں انتہائی اہمیت کے باوجود جدید تکنیک، ٹیکنالوجی اور انکی کسانوں تک رسائی پر توجہ دینے کو ترجیح نہیں دے سکیں، تو اب وقت آگیا ہے کہ اس پر توجہ دی جائے۔”

    ذوالفقار کنبھر کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوئی تھی جسے یہاں پڑھا جاسکتا ہے

  • شرم الشیخ کی سیر

    شرم الشیخ کی سیر

    مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں پاکستانیوں کے لئے ” آن ارائیول ویزا” ۔۔ یعنی آمد پر ویزا کی سہولت موجود ہے ۔

    یہ ایک پرسکون مقام ہے جو کہ اس کی وجہ شہرت بھی ہے ۔ شرم الشیخ کے لفظی معنی شیخ کی خلیج کے ہیں ۔۔ اس شہر کو دنیا کا پرامن شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ اسی لیے یہاں متعدد پیس کانفرنسز منعقد کی جا چکی ہیں ، جبکہ دو ہزار بائیس میں شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا ۔ شرم الشیخ بحیرہ احمر، ریڈ سی کے ساحل پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہاں کی آبادی صرف پچھتر ہزار ہے ، قاہرہ سے شرم الشیخ کا براستہ سڑک سفر آٹھ سے دس گھنٹے کا ہے ۔ تمام راستہ ویران اور سنسان ہے ، مٹی کے ٹیلے ، خاموش پہاڑی سلسلے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ قاہرہ سے شہر میں داخل ہوتے ہوئے کئی چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ویران سڑکوں پر بسوں کو خالی کرایا جاتا ہے ، مسافروں اور سامان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے ۔ سفر کی تھکن اور سخت چیکنگ میں مسافر خود کو دہشتگرد تصور کرنے لگتے ہیں ، بدگمان سیکیورٹی اہلکاروں کی تلاشی کی رہی سہی کسر سراغ رساں کتے سامان سونگھ کر پوری کرتے ہیں ۔ شرم الشیخ اپنے محل وقوع کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ سخت سیکیورٹی کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ مصراسرائیل چھ روزہ جنگ کے دوران تل ابیب نے شرم الشیخ پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جسے بعد میں امن معاہدے کے تحت واپس مصر کو سونپا گیا

    شرم الشیخ میں دو ہزار سے زیادہ ریزورٹس ہیں ۔ بیشتر ساحل کے قریب ہیں ، جہاں پہنچ کر سفر کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔ واٹر اسپورٹس اس شہر کا خاصہ ہے ۔ دو روز کے لئے ہمارا قیام پیرامیسا نامی ریزورٹ میں ہوا ۔۔ یہ شارکس بے کے قریب ہے ۔ اس ریزوٹ کا ایک بڑا حصہ زیرتعمیر تھا ۔۔ لیکن جتنا رقبہ آپریشنل ہے اسکی سیر کے لئے بھی کم از کم ہفتہ درکار تھا ۔ یہاں کشادہ ڈائننگ ایریا ۔۔ کئی ریستوران ۔۔ اسنیک بار ۔ متعدد سوئمنگ پولز ۔۔ کڈز پلے ایریا ۔ بال روم ۔ جمنازیم ، اسپا ، جیکوزی اور اسپورٹ ایرینا سمیت کئی سیر و تفریح کے مقامات ہیں ۔ ہمیں چھ ہزار والے بلاک میں روم دستیاب تھا ، جہاں سے سمندر کا راستہ نزدیک اور دلکش ہے ۔ ساحل کے قریب ٹیلوں پر چھتریوں کا سایہ ہے ۔ ٹھنڈے ٹھار مشروبات کے ساتھ لہروں کے دیدار کے لئے بہترین آرم گاہ بنائی گئی ہے ۔ سن باتھ کے لئے یورپی بلخصوص روسی مہمانوں کا تانتا تھا ۔ پاکستانیوں کے لئے سورج کی سکائی زیادہ پرکشش نہیں ۔ اسکی بڑی وجہ ہماری رنگت بھی ہے جو جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے ۔

    شرم الشیخ میں دو روزہ قیام کسی رولر کوسٹر رائیڈ سے کم نہ تھا ۔ دو روز میں ریزورٹ اور بحیراحمر کی سیر ناممکن ٹاسک تھا ، جسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اس دوران پیراسیلنگ ، اسپیڈ بوٹنگ ، اسنارکلنگ ، اور سی ٹوور سے لطف اندوز ہوئے ۔ میری چیک لسٹ میں سمندر کنارے سورج طلوع ہونے کا نظارہ دیکھنا ، خاموش ساحل پر چند لمحوں کے لئے خواب خرگوش کے مزے لینا بھی شامل تھا ، جسے میں انجام دینے میں کامیاب رہی ۔ بحیرہ احمر میں لہریں کم اور پانی بے حد شفاف ہے ۔ مچھلیاں تیرتی دکھائی دیتی ہیں ، لیکن سمندر اس قدر نمکین ہے کہ پانی میں ڈبکی لگانے والے بلبلا اٹھتے ہیں ۔ یہ سمندر کئی رنگ بدلتا ہے ، کسی مقام پر یہ ہلکا تو کہیں گہرا نیلا ہے ۔ بلیو لگونا پر ریف دیکھنے کے لئے لے جایا جاتا ہے ، جہاں سمندر آسمانی رنگ کا ہے اور پانی قدرے کم نمکین ہے ۔ بلیو لگونا کے سامنے آپ کو ایک جزیرہ دکھائی دے گا ، جسے Tiran island کہتے ہیں ۔ یہ جزیرہ اب سعودی عرب کی ملکیت ہے ۔۔

    شرم الشیخ کے ڈاؤن ٹاؤن میں قائم شاپنگ سینٹرز بھی پرکشش مقام ہے ۔۔ جگہ جگہ سینڈ آرٹسٹ دکھائی دیں گے ، بڑے برانڈز کے ساتھ مقامی اشیا کے اسٹورز کی بھی بھرمار ہے۔ شاپنگ کے شوقین افراد اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ مصر میں وہی خریدار کامیاب ہے جو سودے بازی جانتا ہے ، پانچ ہزار مصری پونڈز سے شروع ہونے والی چیز سو مصری پونڈز میں بھی مل جاتی ہے ۔۔

    سودے بازی کا فارمولا سروسز پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔۔ شوہر نامدار نے واٹر رائڈز میں اس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا ۔۔ ریزورٹ میں ہماری ملاقات انتظامیہ کی ایک خاتون سے ہوئی ۔ جس کا نام وکٹوریہ تھا ۔ خاتون نے چیک آوٹ کے بعد وین کے انتظار میں ہمارے لئے نماز کی جگہ کا انتظام کیا تھا ۔ یوکرائن سے تعلق رکھنے والی خاتون نے بتایا کہ وہ اسلام سے متعلق تعلیم لے رہی ہے ۔ وہ اسلام قبول کرنے جارہی ہے ۔ اور چاہتی ہے اسکے خاندان والے بھی اسکی پیروی کریں ۔

    شرم الشیخ کی مقامی زبان عربی ہے ۔ لیکن یہاں روسی ، جرمن اور فرانسیسی زبانیں بھی مقبول ہیں ۔ پرسکون مقام کے متلاشی کے لئے یہ ایک بہترین شہر ہے جو کہ زیادہ جیب پر بھاری نہیں پڑتا ۔ یہاں زیادہ سے زیادہ تو من بھاتا قیام کیا جاسکتا ہے لیکن بھرپور لطف اٹھانے کے لئے کم از کم بھی ہفتہ درکار ہے ، ورنہ ہماری طرح دو روز کی زیارت کر کے شرم الشیخ سے واپسی پر بڑی شرم آئے گی ۔۔

  • فلم ریویو:  بلڈ اینڈ گولڈ

    فلم ریویو: بلڈ اینڈ گولڈ

    عالمی سینما میں "جنگ” ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ہزاروں فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ان فلموں میں جنگِ عظیم اوّل اور دوم پر بننے والی فلموں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ اس تناظر میں جب کوئی فلم ساز ایسے مقبول موضوع پر فلم بنائے تو اس کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے کوئی نیا اور اچھوتا پن اس میں ڈالے اور ایک نئی کہانی تشکیل دے سکے۔ اس مرحلے سے "بلڈ اینڈ گولڈ” کے فلم ساز کو بھی گزرنا پڑا، لیکن وہ اس موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے ہر مرحلے پر کام یاب ہوئے۔

    "بلڈ اینڈ گولڈ” سے متعلق ہماری بنیادی رائے جاننے کے بعد اس کہانی پر ہمارا تبصرہ پیشِ‌ خدمت ہے اور ہمیں‌ امید ہے کہ تبصرہ پڑھ کر آپ  اس دل چسپ فلم کو دیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالیں گے۔

    اسکرین پلے/ کہانی

    یہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتامی دنوں کی کہانی ہے، جب موسمِ بہار میں اتحادی فوجوں نے نازی جرمنی پر حملہ کیا تھا۔ نازی فوج کے ایک سفاک اور تجربہ کار لیفٹیننٹ کرنل "وان اسٹینفرڈ” کی قیادت میں ایک فوجی دستہ ایک انوکھے مشن پر روانہ ہوتا ہے۔ اس دوران اس دستے کا ایک فوجی "ہینرک” اپنے مشن سے منحرف ہو کر اس دستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ یہ اس کا ناقابلِ معافی جرم تھا۔ نازی بڑی سرگرمی سے فرار ہو جانے والے اس سپاہی کو تلاش کرتے ہیں اور بالآخر اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔ اسے پھانسی دے دی جاتی ہے۔ نازی اسے پھندے پر لٹکتا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن وہاں کی ایک مقامی عورت "ایلسا” اسے بچا لیتی ہے اور اپنے گھر لے آتی ہے۔ نازی فوجی اور بالخصوص وہی فوجی دستہ ایک قریبی گاؤں میں اُس تباہ شدہ گھر کی کھوج میں نکلتے ہے جہاں پہلے یہودی رہتے تھے اور انہوں نے بہت سارا سونا اس گھر میں چھپا رکھا تھا۔ یہ فوجی دستہ اسی سونے کو حاصل کرنے کے مشن پر ہوتا ہے اور یہاں پہنچتا ہے۔

    کہانی کا ایک منظر ہے کہ یہ فوجی دستہ، جو ایس ایس سپاہیوں کا دستہ کہلاتا ہے، ایلسا کے فارم ہاؤس پر آتے ہوئے ایک گاؤں کو لوٹ رہا ہے، اور وہیں ہینرک چھپا ہوا ہے۔

    اس دستے کے فوجیوں کا ایلسا کے بھائی پاول سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے، وہ اس کو گالی دیتے ہیں۔ یہ لڑکا "ڈاؤن سنڈروم” نامی بیماری کا شکار ہے۔ پھر وہ ایلسا پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی وہ موقع تھا جب ہینرک سے رہا نہیں جاتا اور وہ سامنے آجاتا ہے، ان کو بچانے کے لیے۔ اس جھڑپ میں نازی دستے کے فوجیوں کی اکثریت ماری جاتی ہے اور باقی سپاہیوں کو وہاں سے بھاگنا پڑتا ہے۔

    ایلسا کا بھائی فوجی دستے کے کرنل کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔ وہ اس کو گاؤں کے چرچ کے سامنے لاتے ہیں تاکہ اس کو موت کو مقامی لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا جائے۔ اس غرض سے اسے چرچ کی چوٹی پر لے جایا جاتا ہے، جب دو سپاہی اسے پھانسی دینے کی تیاری کرتے ہیں۔ تاہم، موقع پاکر پاول ایک کو ٹاور سے دھکیلنے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے اور دوسرے کو گولی مار دیتا ہے۔

    اس کے بعد منحرف سپاہی ہینرک، اسے موت کے منہ سے نکال لانے والی ایلسا اور نازی دستے کے کرنل اور فوجیوں کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوجاتی ہے۔

    ادھر گاؤں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر اس سونے پر ہے، جسے یہ سب تلاش کر رہے ہیں۔ گاؤں کا سرکاری سربراہ مقامی لوگوں اور فوجی دستے کے درمیان رابطے کا کام کر رہا ہوتا ہے اور اس تشویش میں مبتلا ہوتا ہے کہ کس طرح حالات پر قابو پائے۔ ہینرک اور ایلسا، آخرکار چھپائے گئے خزانے تک پہنچ جاتے ہیں اور سونا حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

    دوسری طرف فوجی ایلسا کو پکڑ لیتے ہیں۔ تب، ہینرک سونے کے بدلے ان سے ایلسا کی واپسی چاہتا ہے۔ پھر کس طرح ڈرامائی طور پر حالات بدلتے ہیں اور اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو فلم دیکھنا ہوگی۔

    بعد میں ہینرک اور ایلسا کو ہیگن شہر پہنچتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، جہاں ہینرک کا اپنی بیٹی کے ساتھ جذباتی ملاپ ہوتا ہے۔ فلم کے اس موڑ پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک باپ، جس کا خاندان جنگ کا شکار ہو چکا ہے، اور صرف ایک چھوٹی بیٹی زندہ بچی ہے، وہ اس تک پہنچنے کے لیے موت کو کئی بار چکما دیتا ہے۔ فلم کے اسکرین رائٹر اسٹیفن بارتھ ہیں، جو جرمن سینما میں بطور کہانی نویس اور فلم ساز بھی شہرت رکھتے ہیں۔

    پروڈکشن ڈیزائن/ ہدایت کاری

    بلڈ اینڈ گولڈ میں ان تمام باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہے، جو کہانی کو حقیقت سے قریب تر بنانے کے لیے ضروری تھیں۔ یہ فلم جرمنی کی پروڈکشن ہے، جو چار مختلف جرمن پروڈیوسروں نے مل کر بنائی ہے، جن میں کرسٹین بیکر جیسے معروف فلم ساز بھی شامل ہیں۔

    اس فلم کو نیٹ فلیکس کے ذریعے دنیا بھر میں‌ اسٹریم کیا گیا ہے، اور اسی لیے ڈسٹری بیوشن کے حقوق نیٹ فلیکس کے پاس ہیں۔ یہ فلم سو(100) منٹس کے دورانیے پر مشتمل ہے اور اسے جرمنی میں اپریل کے مہینے میں جب کہ نیٹ فلیکس پر مئی کے آخری دنوں میں ریلیز کیا گیا ہے۔ اس وقت یہ فلم پاکستان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ 10 چارٹ میں اوپر نظر آرہی ہے۔ تادمِ تحریر یہ پانچویں نمبر پر تھی۔ فلم کی موسیقی، لوکیشنز، ملبوسات، لائٹنگ، تدوین، سینماٹوگرافی، میک اپ، گرافکس اور دیگر تمام شعبہ جات میں بلاشبہ ہر آرٹسٹ نے بہترین کام کیا ہے اور کسی بھی طرح سے ہالی وڈ سے کم نہیں رہے۔

    یہ فلم بہت عمدہ اور جامع پروڈکشن ڈیزائن کا نمونہ ہے۔ فلم کے ہدایت کار "پیٹر تھورورتھ” نے بھی اپنی فنی مہارت کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔

    اداکاری

    اس فلم کے مرکزی کردار "ہینرک ” کو "رابرٹ میسر” نے انتہائی عمدگی سے نبھایا ہے۔ وہ ایک ایسے جرمن اداکار ہیں، جنہوں نے کئی بین الاقوامی فلموں میں کام کیا ہے اور ہالی وڈ سے لے کر انڈین فلموں تک وہ اپنی اداکاری کے جوہر دکھاچکے ہیں، جن میں ٹام کروز کی "مشن امپاسبل، روگ نیشن” اور اجے دیوگن کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم "شیوائے” سمیت دوسری مشہور فلمیں شامل ہیں۔ اس فلم میں دوسرا مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ "مری ہیک” بھی عالمی شہرت یافتہ اداکارہ ہیں، اس فلم میں بھی ان کی پرفارمنس متأثر کن ہے۔

    فلم کا تیسرا مرکزی کردار ایک لیفٹیننٹ کرنل کا ہے جسے نبھانے والے اداکار کا نام "الیگزینڈر شیئر” ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری سے فلم میں جان ڈال دی اور ایک منفی کردار نبھانے کے باوجود آخر تک چھائے رہے۔ یہ بھی ایک جرمن اداکار اور موسیقار ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے اداکاروں نے بھی اپنے اپنے کرداروں کو اچھی طرح نبھایا ہے۔ ان اداکاروں میں جوڈیز ٹرابیل، کونرلونگ، رائے میکری، سائمن رُپ، اسٹیفن گروسمن اور دیگر شامل ہیں۔

    حرفِ آخر

    رواں برس اس فلم کو، جنگ کے موضوع پر اب تک سب سے بہترین فلم کہا جاسکتا ہے، اور توقع ہے کہ یہ کئی اعزازات بھی اپنے نام کرسکے گی اور کچھ بعید نہیں کہ یہ آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد کی جائے۔ نیٹ فلیکس پر مقبولیت کے علاوہ بھی یہ فلم مختلف فورمز پر شائقین کی توجہ اور پسندیدگی سمیٹ رہی ہے۔ فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی مقبولیت 10 میں سے ساڑھے چھے ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی مقبول ترین فلمی ویب سائٹ "فلم ایفینٹی” پر 10 میں سے پانچ اعشاریہ آٹھ ہے۔ ایک اور معروف ویب سائٹ "روٹن ٹماٹوز” کے مطابق اس کی مقبولیت کا تناسب 100 میں 80 فیصد ہے۔

    آپ اگر وار سینما دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ معیاری فلم یقیناً آپ کے لیے ہے اور اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اسے ہالی وڈ نہیں‌ بلکہ جرمن فلم سازوں نے بنایا ہے اور یہ ان کی اپنے ملک پر بنائی ہوئی فلم ہے، اور نظریاتی طور پر بھی اہمیت رکھتی ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے آپ یہ فرق واضح طور پر محسوس کریں گے۔