Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • الٹی ہوگئی سب تدبیریں، ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کیا کرے گی؟

    الٹی ہوگئی سب تدبیریں، ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کیا کرے گی؟

    دنیائے کرکٹ کے کئی بڑے ناموں اور عالمی ریکارڈ ہولڈرز کھلاڑیوں پر مشتمل پاکستان کی کرکٹ ٹیم شکستوں کے بھنور میں ایسی پھنسی ہے کہ اب انگلینڈ سے شکستوں کا داغ لے کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا مشن سر کرنے کے لیے امریکا پہنچ گئی ہے۔ وہاں ہمارے یہ اسٹار کیا گل کھلاتے ہیں یہ آنے والا وقت بتا دے گا، مگر حالیہ چند ماہ کی کارکردگی جس نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور قوم کی ٹیم سے لگائی گئی امیدیں خوش فہمی میں تبدیل ہو کر اب دم توڑنے لگی ہیں۔

    آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 شروع ہونے میں اب ہفتے اور دن نہیں بلکہ صرف چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ اس میگا ایونٹ میں پہلی بار 20 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں، جس میں کئی ٹیمیں اپنا انٹرنیشنل کرکٹ یا ورلڈ کپ میں ڈیبیو کر رہی ہیں مگر سوائے قومی ٹیم کے سب کی تیاریاں مکمل ہیں جب کہ ہم نے ورلڈ کپ کا کمبینیشن بنانے کے لیے جس آئرلینڈ اور انگلینڈ سیریز پر تکیہ کیا تھا، اس میں سے ہوا کسی غبارے کی طرح نکل گئی۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز پاکستان کی شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، لیکن میگا ایونٹ کے لیے ٹیم کمبینیشن نہ بن سکا۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کرتا دھرتا افراد نے ہر دور میں اپنی من مانی کی، جس سے ہمیشہ قومی ٹیم کو اور اس سے وابستہ قوم کی امیدوں کو نقصان پہنچا۔ 2023 میں ایشیا کپ اور پھر ون ڈے ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کو جواز بنا کر جب بابر اعظم کو قیادت سے ہٹایا گیا تو شاہین شاہ کو نئے مسیحا کے طور پر لایا گیا مگر صرف ایک سیریز میں ناکامی کو جواز بنا کر ہی پی سی بی کی نئی آنے والی انتظامیہ نے انہیں قیادت کے لیے نا اہل جانا اور ایک بار پھر بابر اعظم کو لایا گیا یعنی میر تقی میر کے شعر کے مطابق

    میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
    اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

    کیونکہ اگر بُری قیادت کو جواز بنا کر بابر اعظم کو ہٹایا گیا تھا تو دو ماہ میں ان میں ایسے کیا سُرخاب کے پر لگ گئے کہ دوبارہ اسی مسند پر بٹھا دیا گیا جس نے ٹیم کا مورال بھی ڈاؤن کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے پاکستان اپنے ہی گھر میں نیوزی لینڈ کی سی ٹیم کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز وائٹ واش کرنا تو دور کی بات جیت بھی نہ سکا اور برابر کرنے پر اکتفا کیا۔ پھر ٹیم انتظامیہ نے امیدیں لگائیں آئرلینڈ اور انگلینڈ سیریز سے لیکن ہوا کیا، آئرلینڈ جیسی کم درجہ ٹیم سے پاکستان کی ورلڈ کلاس ٹیم بمشکل دو ایک سے سیریز جیت کر اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوئی جب کہ انگلینڈ نے چار میچوں کی سیریز دو صفر سے مات دے دی۔ دو میچ بارش کے باعث نہ ہوسکے پہلے تو شائقین کرکٹ اس بارش کو زحمت کہتے رہے لیکن قومی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر اب سب اسے رحمت سمجھ رہے ہیں، کیونکہ اگر بارش نہ ہوتی تو گرین شرٹس کو وائٹ واش کا داغ بھی لگ سکتا تھا۔

    پاکستان کرکٹ کے گزشتہ 6 ماہ کے دوران صرف دو بار قیادت ہی تبدیل نہیں کی گئی بلکہ چار سال قبل ریٹائرمنٹ لینے والے محمد عامر اور عماد وسیم کو ٹی 20 ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ بھی بنایا گیا۔ اس سے قبل انہیں نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے ساتھ سیریز بھی کھلائی گئیں، گوکہ اس میں عماد وسیم کو مناسب مواقع نہیں دیے گئے مگر سینیئر فاسٹ بولر محمد عامر بھرپور مواقع ملنے کے باوجود اپنی واپسی کو یادگار نہ بنا سکے۔

    ورلڈ کپ 2023 کے اختتام کے بعد سے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل تک پاکستان ٹیم نے 16 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے اور پی سی بی نے ان میچز کو ورلڈ کپ کی تیاری سے تعبیر کیا، لیکن اس سے ٹیم کی کیا تیاری ہوئی، یہ ہمیں میچ کے نتائج سے پتہ چلتا ہے جس میں سے صرف 5 میچ ہی جیت پائی ہے جب کہ 9 میچوں میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یعنی قیادت کی تبدیلی بھی کچھ کام نہ کر پائی اور نتیجہ وہی دھاک کے تین پات یعنی شکست در شکست ہی رہا۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 کا فارمیٹ ایسا ہے کہ 20 ٹیموں کو پانچ پانچ ٹیموں پر مشتمل چار گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر گروپ کی دو ٹاپ ٹیمیں اگلے مرحلے سپر 8 کے لیے کوالیفائی کریں گے۔

    پاکستان ورلڈ کپ کے گروپ اے میں ہے اور گروپ کو ماہرین کرکٹ قدرے آسان کہہ رہے ہیں، کیونکہ اس گروپ میں پاکستان کے علاوہ بھارت، امریکا، آئرلینڈ اور کینیڈا شامل ہیں، جو آن پیپر تو بہت ہی آسان، بلکہ دوسرے لفظوں میں گروپ کی دو بڑی ٹیموں پاکستان اور بھارت کے لیے حلوہ ہے۔ تاہم آئرلینڈ نے جس طرح حال ہی میں پاکستان کو تین میچوں کی سیریز میں ناکوں چنے چبوا دیے اور امریکا نے بنگلہ دیش کی ٹیم کو چاروں شانے چت کر کے سیریز جیتی ہے، تو اس کو دیکھتے ہوئے گروپ کو آسان نہیں بلکہ پاکستان کے لیے تو ڈیتھ گروپ ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ 2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور آئرلینڈ کے گروپ میں تھا اور تمام ٹیمیں اس وقت کارکردگی میں گرین شرٹس سے پیچھے تھیں اور پھر وہ ہوا تھا جو پاکستانی شائقین کرکٹ شاید کبھی نہ بھول سکیں کہ پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز اور پھر آئرلینڈ نے اپ سیٹ شکست دے کر پاکستان کو پہلے راؤنڈ میں ورلڈ کپ سے رسوا کن انداز میں باہر کر دیا تھا۔

    شکستوں کے بھنور میں گھرنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی نے بھی قوم سے اپیل کر دی ہے کہ قومی ٹیم کو ایک ماہ تک تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ ورلڈ کپ کے دوران پاکستانی ٹیم پر تنقید نہ کی جائے، بلکہ کھلاڑیوں کو سپورٹ کریں، اور انہیں امید ہے کہ پاکستانی ٹیم چار ہفتے بعد فائنل میں ہوگی جب کہ بابر اعظم بھی کہتے ہیں کہ فتح کے لیے اسٹرائیک ریٹ بڑھانا اور ماڈرن کرکٹ کھیلنا ہوگی مگر سوال تو یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا؟ آج جو وہ کہہ رہے ہیں یہ بات تو سابق کرکٹرز کافی عرصے سے کہتے چلے آ رہے ہیں اگر ان کی باتوں، مشوروں اور تنقید کو مثبت لیتے ہوئے اس جانب توجہ دی جاتی تو شاید آج یہ سب لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔

    میگا ایونٹ شروع ہوگا تو ون ڈے ورلڈ کپ کی طرح اس میں بھی انڈیا آئی سی سی کی نمبر ون رینکنگ ٹیم کے طور پر اپنا سفر شروع کرے گا، جب کہ پاکستان کی پوزیشن چھٹی ہے۔ ورلڈ کپ سے قبل نیوزی لینڈ، آئرلینڈ، انگلینڈ کے خلاف کپتان بابر اعظم اور دیگر کھلاڑیوں نے کئی انفرادی عالمی ریکارڈز ضرور قائم کیے ہیں، لیکن انفرادی ریکارڈ اس وقت اہم گردانے جائیں گے، جب اس کا فائدہ مجموعی طور پر ٹیم کو ہو اور ٹیم فتح کی پٹڑی پر چل رہی ہو۔ اگر شکست در شکست ہوتی رہے تو پھر انفرادی ریکارڈز بنانا خودغرضی کے زمرے میں آتا ہے۔

    جب کارکردگی میں تسلسل نہ ہو تو پھر ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کے لیے کیا خاک کمبینیشن بنے گا۔ اب تک تو یہ طے نہیں ہوا کہ بیٹنگ لائن اپ کیسی ہوگی۔ اگر بابر اور رضوان اوپن کریں گے تو کیا عثمان خان ون ڈاؤن آئیں گے، یا پھر فخر کو لایا جائے گا۔ مڈل آرڈر مسلسل ناکام ہے۔ افتخار احمد، اعظم خان، شاداب خان کوئی کارکردگی نہیں دکھا پا رہے اور کوئی بھی ایسا فی الحال نہیں دکھائی دے رہا کہ جو میچ کو فنش کر سکے۔ اس پوزیشن پر کس کو کھلایا جائے یہ بھی کپتان اور ٹیم منیجمنٹ کے لیے ایک درد سر ہے۔ بولنگ میں شاہین شاہ کی کارکردگی بہتر ہے، عباس بھی اچھا بیک اپ دے رہے ہیں، مگر محمد عامر کی واپسی کے بعد کارکردگی خود سوالیہ نشان ہے۔ انجری سے واپسی پر نسیم شاہ بھی اپنے بھرپور رنگ میں دکھائی نہیں دے رہے۔

    قومی ٹیم کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ہی کئی بین الاقوامی کرکٹرز جن میں سنیل گواسکر، برائن لاروا، میتھیو ہیڈن، ایرون فنچ، ٹام موڈی جیسے بڑے نام شامل ہیں وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فائنل فور ٹیموں میں پاکستان کو دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔

    ہم تو یہی دعا کریں گے کہ پی سی بی چیئرمین کی امید پوری ہو اور پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھا کر وطن واپس آئے، کیونکہ یہ صرف ان کی امید ہی نہیں بلکہ کروڑوں پاکستانیوں کی خواہش بھی ہے کہ جن کے خون پسینے کی کمائی سے ان کرکٹرز کو تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں اور یہ کروڑوں روپے کماتے ہیں۔ لیکن خواب جاگتی آنکھوں نہیں دیکھے جاتے بلکہ بند آنکھوں دیکھے جانے والے خواب کو تعبیر دینے کے لیے جس جذبے اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ابھی ٹیم میں نظر نہیں آ رہی۔

  • موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں فضائی انتشار اور ہوا بازی کے لیے خطرات پیدا کر رہی ہے

    اس ہفتے، سنگاپور ایئر لائنز کی ایک پرواز کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث میں فضا میں شدید انتشار کا سامنا کرنا پڑا۔ طیارے میں سوار ایک مسافر جنہیں دل کا عارضہ تھا، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور متعدد دیگر افراد زخمی ہوئے۔ یہ واقعہ فضائی انتشار اور ہوا بازی کو لاحق خطرات کے حوالے سے پے در پے ہونے والے واقعات کے تسلسل میں تازہ ترین تھا جن کے باعث اب دنیا بھر کی توجہ موسمیاتی تبدیلی اور ان کے نتیجے میں فضا میں بڑھنے والے انتشار پر مرکوز ہوگئی ہے۔

    ماہرین بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت، کاربن کے اخراج اور فضا میں بڑھتے ہوئے انتشار کے درمیان موجود روابط کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی اگر شدید ہوتو اس کا نتیجہ طیاروں میں سوار افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

    یکم مئی 2022 کو، ممبئی سے کولکتہ جانے والی اسپائس جیٹ کی پرواز کو بھی فضا میں اسی طرح کا انتشار، ہنگامہ آرائی یا بے ترتیبی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ کئی مہینے بعد اس پرواز میں زخمی ہونے والے ایک مسافر کی موت بھی واقع ہو گئی۔ ہیمل دوشی، جو اس اسپائس جیٹ کی پرواز میں سوار تھیں، نے اپنی زندگی کے اس بھیانک تجربے کو یاد کرتے ہوئے بتایا، “اچانک جھٹکے نے ہم سب کو گھبراہٹ میں ڈال دیا۔ میں نے اپنے ساتھ بیٹھی ایک بزرگ خاتون کو پکڑ لیا تاکہ وہ اپنی سیٹ سے گرنے سے بچ سکیں۔“

    اسی طرح، 11 جون 2022 کو، پاکستان کے تجارتی دارالحکومت کراچی سے پشاور جانے والی ایئر بلیو کی پرواز کو بھی غیر متوقع طور پر ہنگامہ آرائی کا سامنا کرنا پڑا، جہاز کو لگنے والے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ تمام مسافر دہشت زدہ ہو گئے۔ جہاز میں سوار ایک مسافر نسرین پاشا نے بتایا کہ شدید افراتفری کے عالم میں تمام مسافر باآواز بلند تلاوت اور دعا کر رہے تھے اور گرنے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کو پکڑ رکھا تھا۔ نسرین پاشا نے بتایا، “سب کچھ ٹھیک تھا اور ہم ہموار پرواز اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ لیکن اچانک، پرواز ناہموار اور شدید جھٹکوں کا شکار ہوگئی۔”

    فضائی انتشار کی سائنسی توجیہ اور اثرات
    اسلام آباد میں مقیم ایک سائنس داں محمد عمر علوی کے مطابق، غیر محفوظ آسمانوں کا سبب انسانوں کی جانب سے پیدا کیا گیا ماحولیاتی بگاڑ ہے۔ “اوسط درجۂ حرارت میں اضافے اور جنگلات کی کٹائی کے باعث، ملک کے بڑے شہروں میں اور ان کے آس پاس کا ماحول مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ یہ عمل فضا میں حرارت کے غیر متوقع دھاروں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے جس کے نتیجے میں غیر متوقع طور پر فضا میں طیاروں کو ہنگامہ خیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے ہوائی اڈوں کے ارد گر۔” ڈاکٹر عمر علوی نے تفصیل سے بتایا۔

    عالمی سطح پر کیے گئے ایک مطالعے، جس کے نتائج 2019 میں یونیورسٹی آف ریڈنگ کے محکمہ موسمیات کی طرف سے شائع کیے گئے تھے، پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں فضا ئی ٹریفک کو بدترین اثرات کا سامنا ہوسکتا ہے ۔طیاروں کو فضا میں فضائی انتشار یا (clear-air turbulence (CAT) کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے بدترین اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ اس قسم کی شدید فضائی ہنگامہ خیزی بادلوں کے بغیر علاقوں میں واقع ہوتی ہے اور مسافروں کے ساتھ ہوائی جہاز کے ڈھانچے پر بھی بدترین اثرات کا سبب بنتی ہے، لیکن بادلوں کی عدم موجودی کی وجہ سے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ اس مطالعے نے یہ بھی واضح کیا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے فضا میں گرم ہوا کے دھاروں کی شدت بڑھتی ہے، جس سے عالمی سطح پر ہوائی ٹریفک کے لیے بے ترتیبی (clear-air turbulence (CAT)) میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، شمالی بحر اوقیانوس جیسی مصروف فضائی حدود متاثر ہو رہی ہے، جہاں 1979 سے 2020 تک شدید فضائی انتشارمیں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

    پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار سردار سرفراز خان نے کہا، “یہ پیش گوئی (فضائی انتشار) بالائی ماحول یعنی (85 کلومیٹر سے 600 کلومیٹرتک) ہوا کے اعداد و شمار کی بنیاد پر کی جاتی ہے جو ریڈیو سونڈ نامی آلے سے حاصل ہوتے ہیں، جو فضا میں 100 گرام کے غبارے کے ساتھ چھوڑا گیا ہوتا ہے۔

    عام طور پر 30,000 فٹ سے اوپر کی سطح پر بہت تیز ہوا کے ساتھ جیٹ اسٹریم جہازوں کے لیے انتشار کا باعث بنتی ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “یہ فضائی انتشار یا بے ترتیبی دراصل صرف حرکت پذیر ہوا ہوتی ہے۔ اور ہوا ریڈار میں استعمال ہونے والی الٹرا ہائی فریکوئنسی ریڈیو لہروں سے شفاف ہے۔ لہذا ریڈار پر اس ہوا کی کوئی بازگشت یا نشان دہی نہیں ہوسکتی ہے۔”

    موسمیاتی تبدیلی سے گہرا تعلق
    سائنس داں، جیسے کہ رگھو مرتگوڈے، جو IIT بمبئی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نصاب کے پروفیسر اور میری لینڈ یونیورسٹی کے ایمریٹس پروفیسر ہیں، وہ موسمیاتی تبدیلی اورفضا میں بڑھتی ہوئی ہنگامہ خیزی کے درمیان تعلق کو اجاگر رہے ہیں۔ “گلوبل وارمنگ کے ساتھ، عمودی درجۂ حرارت (بڑھتی ہوئی بلندی کے ساتھ درجہ ءحرارت میں کمی) اور ونڈ پروفائلز (مختلف بلند سطح پر ہوا کی رفتار کے درمیان تعلق) کیونکہ زمین اضافی توانائی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہی ہے جو گرین ہاﺅس گیسوں کی وجہ سے زمین پر موجود ہے۔ فضا میں تیز اوپر اور نیچے کی طرف حرکت اور درجۂ حرارت کی سطح میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس سے فضا میں انتشار یا (Clear-air turbulence) تشکیل پاتا ہے۔”

    IIT کھڑگپور کے آب و ہوا کے ایک ماہر اور ماحولیاتی کیمیا دان جے نرائن کٹی پورتھ نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ پوری دنیا میں سطح پرموجود ہوا کے درجۂ حرارت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نتیجتاً، شدید موسمی واقعات بھی متواتر اور تباہ کن طور پر رونما ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ عالمی سطح پر ہوا کے درجۂ حرارت میں ہر فی سینٹی گریڈ اضافے کے ساتھ شمالی نصف کرہ کے موسم بہار اور سرما میں معتدل CAT واقعات میں تقریباً % 9 اور خزاں اور گرما میں % 14 اضافہ ہو جائے گا۔ اگر مستقبل میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، تو CAT واقعات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ابتدائی انتباہی نظام (Early Warning System) کو بہتر بنانے اور ہوائی جہازوں میں ایسے آلات نصب کرنے پر زور دیا جو ایسے واقعات کا اندازہ لگاسکیں ۔ آئی آئی ٹی بمبئی میں ان موضوعات پر تحقیق جاری ہے۔

    ہندوستان کی ارتھ سائنسز کی وزارت کے سابق سکریٹری مادھون نیر راجیون نے کہا کہ مسافروں کو ہوشیار رہنا ہو گا، “فضائی بے ترتیبی میں اضافہ اور اس سے متعلقہ خطرات، جیسے کہ شدید موسمی واقعات وغیرہ، مسافروں کے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔ جب کہ ہوا بازی کے شعبے کا کردار اہم ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کو قبول کیا جاتا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوشش بہت اہم ہے، پروازوں کی منسوخی کی مالی لاگت بھی فضائی سفر پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

    پاکستانی موسمیاتی سائنس داں محمد ایوب خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی فضائی صنعت کو متعدد طریقوں سے متاثر کر رہی ہے۔ “انتہائی گرمی طیاروں کو گراؤنڈ رکھ سکتی ہے، جب کہ بڑھتی ہوئی حرارت جیٹ اسٹریمز میں تبدیلی کرسکتی ہے جس سے فضا میں مزید بے ترتیبی اور انتشار ہو سکتا ہے، اس کے نتیجے میں ہوائی اڈے کے کارکنوں کی صحت کے لیے خطرات اور ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔”

    جنوبی ایشیا میں ہوا بازی کی پھلتی پھولتی صنعت اور خطرات
    یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہوائی سفر کی صنعت خاص طور پر جنوبی ایشیا میں نمایاں طور پر ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کی رپورٹ کے مطابق ہوابازی کی صنعت پاکستان کی قومی جی ڈی پی میں 2 ارب امریکی ڈالرز کا اضافہ کررہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر ملکی سیاحوں کے خرچ سے ملک کے جی ڈی پی میں مزید 1.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے، جو کل 3.3 بلین امریکی ڈالر بنتے ہیں۔

    رپورٹ میں “موجودہ رجحانات” کے منظر نامے کے تحت اگلے 20 سالوں میں پاکستان میں ہوائی نقل و حمل میں 184 فیصد اضافے کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں 2038 تک اضافی 22.8 ملین فضائی مسافروں کی آمد و رفت بڑھے گی۔ اگر بہتر انتظام کے ذریعے اس بڑھتی ہوئی طلب سے فائدہ اٹھایا گیا تو جی ڈی پی میں تقریباً 9.3 بلین امریکی ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ملک کے لیے تقریباً 786,300 ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

    ہندوستان میں، IATA نے اگلے 20 سالوں میں% 262 ترقی کی پیش گوئی کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کے نتیجے میں 2037 تک 370.3 ملین مسافروں کے اضافی سفر ہوں گے۔ اگر اس طلب کو پورا کیا جائے، تو اس بڑھتی ہوئی مانگ سے GDP میں تقریباً 126.7 بلین امریکی ڈالرز کا اضافہ ہوگا اور تقریباً 9.1 ملین ملازمتیں شامل ہوں گی۔

    ماحول دوست ہوا بازی کی صنعت
    ہوا بازی کی صنعت کو برسوں سے اس کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی اثرات، خاص طور پر فضا میں کاربن کا اخراج جو فضا میں حرارت میں اضافہ کرتا ہے، کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لیکن جرمن ایرو اسپیس سینٹر کے ایک محقق، برنڈ کرچر کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوائی جہازوں کا ایک اور ضمنی پروڈکٹ – دھوئیں کی وہ سفید دھاریاں(Contrails) جو وہ آسمان پر پینٹ کرتے ہیں – کی گرمی کا اثر اور بھی شدید ہے، جو 2050 تک تین گنا ہو جائے گا۔

    اس تحقیق میں کہا گیا ہے، “طیارے شفاف، ٹھنڈی ہوا میں اونچے اڑتے ہی اپنے مسحور کن دھاریوں کا اخراج کرتے ہیں جن پر دیکھنے میں خوبصورت بادلوں کا گماں ہوتا ہے ۔ پانی کے بخارات ہوائی جہاز سے اخراج کے بعد ارد گرد ٹھنڈی فضا میں تیزی سے گاڑھے ہونے لگتے ہیں اور ایسے بادلوں کی شکل میں جم جاتے ہیں جن میں برف کے ٹکڑے بھی ہوتے ہیں، جو منٹوں یا گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں۔ یہ اونچے اڑنے والے بادل بہت زیادہ سورج کی روشنی کو منعکس کرنے کے لیے پتلے ہونے کے باعث ناموزوں ہوتے ہیں، لیکن ان کے اندر موجود برف کے کرسٹل گرمی کو ٹریپ کر لیتے ہیں۔ نچلے درجے کے بادلوں کے برعکس جو خالص ٹھنڈک کا اثر رکھتے ہیں، یہ متضاد بادل آب و ہوا کو گرم کرتے ہیں۔

    ہوا بازی کے کچھ ماہرین جہازوں سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سبز ٹیکنالوجی کے شعبے میں تجربہ کر رہے ہیں، اگراس حوالے سے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ فضا میں طیاروں کو لاحق خطرات (CAT) میں کمی کی صورت میں نکل سکتا ہے، جو دراصل کاربن کے اخراج سے وقوع پزیر ہوتے ہیں۔

    سارہ قریشی، ایک پاکستانی پائلٹ اور ایروناٹیکل انجینئر ہیں، جن کا مقصد طیاروں کے پرواز کے دوران خارج ہونے والے سفید دھوئیں (Contrails) کی آلودگی کو کم کرنا اور ہوا بازی کی صنعت کو سر سبز بنانا ہے۔

    سارہ قریشی نے برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی (Canfield University) سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، انہوں نے ہوائی جہاز کے ماحول دوست انجن بنانے کے لیے ایک ایرو انجن کرافٹ کمپنی قائم کی ہے۔یہ انجن ہوائی جہاز سے خارج ہونے والے پانی کے بخارات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اس لیے یہ آبی بخارات خارج ہونے کے بجائے پانی کی شکل میں جہاز میں جمع ہوتے رہیں گے اور ضرورت پڑنے پر اس پانی کو خشک سالی والے علاقوں میں بارش کے طور پر چھڑکا جا سکتا ہے۔

    پاکستان سے ہوا بازی کے ماہر محمد حیدر ہارون کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ، “پائیدار ہوا بازی کے ایندھن کی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہائیڈروجن اور بیٹری/ بجلی سے چلنے والے ہوائی جہاز 2030 کی دہائی کے آخر میں عالمی ہوا بازی کو زیادہ موثر بنا سکتے ہیں۔ ایندھن کی بچت کرنے والے ہوائی جہازوں کو عالمی سطح پر جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ایئر لائنز میں شامل کیا جانا چاہیے۔“ ہارون کے مطابق، اپ گریڈ شدہ انجن، بہتر ایرو ڈائنامکس، ہلکے کمپوزٹ میٹریل اور بائیو بیسڈ پائیدار ایوی ایشن فیول سبز ہوابازی کی صنعت کے حل میں سے ایک ہے اور یہ اقدامات ہوا بازی کی صنعت میں انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔

    سارہ قریشی نے کہا کہ”جب ہم آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں صرف ایک صنعت کام کرتی ہے۔ ہم اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ ہم سے ایک کلومیٹر اوپر فضا میں کیا ہو رہا ہے۔ یہ ہوا بازی کی آلودگی ایک کمبل کی طرح ہے جو آہستہ آہستہ زمین کی سطح کو ڈھانپ رہا ہے، اور گلوبل وارمنگ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔“

    یہ تحقیقی رپورٹنگ پروجیکٹ ایسٹ ویسٹ سینٹر کے زیر اہتمام ”سرحدوں کے آر پار ٹریننگ ورکشاپ“ کا حصہ ہے، جہاں دونوں ممالک کے صحافی سرحد پار موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے مشترکہ مسائل پر کام کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔

    (چندرانی سنہا، شبینہ فراز کی یہ رپورٹ ڈائیلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • مچھلیاں سطح پر کیوں نہیں آتیں؟ ال نینو اور لانینا کے بارے میں جانیں

    مچھلیاں سطح پر کیوں نہیں آتیں؟ ال نینو اور لانینا کے بارے میں جانیں

    تحریر: ملک شعیب

    مچھلیاں سطح پر کیوں نہیں آتیں؟ ال نینو اور لانینا کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟ یہ ہماری زمین کے آب و ہوا کا نظام کیسے بدلتے ہیں؟ کچھ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات یقیناً آپ کو حیران کر دیں گے۔

    ال نینو El Niño اور لا نینا La Niña

    ہماری زمین کا درجہ حرارت مختلف وجوہ سے بڑھتا رہتا ہے، جن میں سر فہرست زمین پر پڑنے والی سورج کی عمودی کرنیں ہیں، جو سیدھی زمین پر پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی اور قدرتی مظہر ال نینو اور لا نینا بھی ہیں۔

    ال نینو اور لا نینا آب و ہوا کے دو ایسے پیٹرنز ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں اور یہ عام حالات میں آب و ہوا کے نظام کو بدل دیتے ہیں۔ سائنس دان ان مظاہر کو El Niño-Southern Oscillation (ENSO) سائیکل کہتے ہیں۔

    سطح پر مچھلیوں کی بہتات

    عام حالات میں مشرقی سمندر کا پانی ٹھنڈا ہوتا ہے اور مغربی سمندر کا پانی گرم۔ بحرالکاہل کے وسط میں پانی گرم ہوتا ہے اور خط استوا کے ساتھ چلنے والی جنوب مشرقی ہوائیں اس گرم پانی کو مغرب کی سمت آسٹریلیا اور اس کے اس پاس کے ممالک کی جانب لے کر جاتی ہیں۔ ان ہواؤں کو جنوب مشرقی ٹریڈ ونڈز یعنی South East trade winds کہتے ہیں۔ یہ ہوائیں اس ریجن میں بادلوں کو بننے میں مدد دیتی ہیں اور پھر آسٹریلیا اور آس پاس کے ممالک میں اچھی خاصی بارش ہو جاتی ہے۔

    لو پریشر سے اٹھنے والی ہوائیں، جنوبی امریکا کے مغربی کنارے پر موجود ہائی پریشر کی جانب سفر کرتی ہیں اور وہاں سمندر کی گہرائیوں سے ٹھنڈا پانی اوپر کی جانب آ جاتا ہے، جسے upwelling کہتے ہیں۔ اپ ویلنگ کی وجہ سے nutrient rich ٹھندا پانی اوپر آ جاتا ہے اور ماہی گیر کافی تعداد میں مچھلیاں پکڑ لیتے ہیں، یہ ’غذائیت‘ دراصل سطح کے پانی کو زرخیز بنا دیتی ہے اور اس میں سمندری حیات تیزی سے نمو پانے لگتی ہے۔

    ال نینو El Niño

    ال نینو ہسپانوی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے چھوٹا لڑکا۔ ال نینو وسیع پیمانے پر واقع ہونے والا ایک ایسا قدرتی مظہر ہے جس کے نتیجے میں بحر الکاہل کے پانی کا بڑا حصہ معمول سے کہیں زیادہ گرم ہو جاتا ہے اور زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بھی بنتا ہے۔

    ال نینو خط استوا پر چلنے والی ٹریڈ ونڈز کو کمزور کرتا ہے، جس کی وجہ سے زیادہ تر سمندری گرم پانی مشرق سے مغرب کی سمت حرکت کرنے لگ جاتا ہے اور جنوبی امریکا کے مغربی کناروں پر اکٹھا ہو کر لو پریشر بنا دیتا ہے۔ لو پریشر کی وجہ سے بارشیں شروع ہو جاتی ہیں اور nutrient rich cold water کی upwelling رک جاتی ہے، جس کی وجہ سے مچھلیاں سطح سمندر پر نہیں آتیں اور ماہی گیروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس آسٹریلیا میں ہائی پریشر بن جاتا ہے اور بارشیں نہ ہونے کے سبب خشک سالی ہو جاتی ہے اور جنگلات میں آگ بھی لگ جاتی ہے۔

    لا نینا La Niña

    لا نینا دراصل ال نینو کا الٹ ہے، جس میں خط استوا پر چلنے والی ٹریڈ ونڈز بہت زیادہ طاقت ور ہو جاتی ہیں اور گرم پانی کی زیادہ مقدار آسٹریلیا کے مشرقی کناروں اور آس پاس کے ممالک میں اکٹھی ہو جاتی ہے۔ آسٹریلیا کے مشرقی کناروں پر لو پریشر بن جاتا ہے اور ریجن میں بارشیں شروع ہو جاتی ہیں۔

    آسٹریلیا میں بننے والا لو پریشر ہواؤں کو جزیرہ مسکرین (Mascarene Island) کی جانب بھیج دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس جزیرے پر ہائی پریشر بہت طاقت ور ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سے چلنے والی تیز ہوائیں بادلوں کو بھارت اور پاکستان میں دھکیل دیتی ہیں، جو مون سون کی بارشوں کا سبب بنتے ہیں۔ لا نینا کی وجہ سے مشرقی ایشیا میں مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں۔

    جاری ال نینو کب ختم ہوگا؟

    ال نینو ہر 2 سے 7 سالوں میں ایک سے دور بار ضرور آتا ہے اور اس بار اس کا آغاز 2023 میں آسٹریلیا سے ہوا۔ اس کا دورانیہ 9 ماہ سے 12 ماہ تک ہو سکتا ہے۔ ماہر موسمیات کا کہنا ہے کے اس سال 2024 میں ال نینو جون کے وسط تک ختم ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، کیوں کہ اس وقت ال نینو کافی کمزور ہو رہا ہے،جب کہ آسٹریلیا کے میٹرولوجسٹ ڈیپارٹمنٹ نے آسٹریلیا میں سے ال نینو ختم ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔

  • قاہرہ کی سیر

    قاہرہ کی سیر

    چند سال قبل آپریشنل ہونے والے اسفنکس ائیرپورٹ پر لینڈنگ ہوئی تو ویرانی دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی۔ رات کے ڈیڑھ بجے لینڈ ہونے والی واحد فلائٹ، چار کاؤنٹرز اور چند افراد پر مشتمل عملہ ہی اس نئے ائیرپورٹ پر دکھائی دیا۔

    امیگریشن کے بعد قاہرہ کا رخ کیا اور تقریبا چار بجے تک ہوٹل گرینڈ پیلس میں پڑاؤ ڈالا۔ وقت ضائع کئے بغیر فوری قاہرہ کی مشہور مسجد جامع الانور جو کہ مسجد حاکم کے نام سے معروف ہے وہاں پہنچے اور فجر کی نماز ادا کی۔ المعزیہ القاہرہ کو "سٹی آف تھاؤزنڈز مینرٹ” یعنی ہزاروں میناروں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک زمانے میں اندازے کے مطابق چھتیس ہزار مساجد تھیں۔ اس وقت بھی قاہرہ میں مساجد کی تعداد ہزاروں میں ہی ہے ۔ اور ان میں سے بیشتر صدیوں قدیم ہیں ۔ سڑک ، محلے ، گلی میں ایک سے زائد مساجد سایہ کئے ہوئے ہے ۔ فاطمی سلطنت میں المعزیہ القاہرہ میں پانچ جامعہ تعمیر ہوئیں ، جبکہ دو جامعہ کو آباد کیا گیا ۔ ان پانچ مسجدوں میں الجامع الازہر، الجامع الانور ، الجامع لؤلؤہ، الجامع الجیوشی ، اور الجامع الاقمر شامل ہیں ، جبکہ الجامع العتیق اور الجامع احمد ابن طلون کو فاطمی دور کے دوران آباد کیا گیا ۔۔ دنیا کی قدیم آبادی کے ساتھ مساجد اس شہر کی پہچان ہے ۔ یہ تہذیب یافتہ معاشرے کی بھی عکاس ہے اور اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ جہاں اتنی مساجد ہوں گی وہاں نمازی بھی ہوں گے ۔ ان مساجد نے مصر کی تاریخ بلخصوص قاہرہ کی تعمیر و ترقی میں ایک ثقافتی مرکز کا کردار ادا کیا ہے ۔۔

    الجامع الازہر کا شمار آج بھی قدیم ترین درس گاہ میں ہوتا ہے ۔ جہاں حصول علم کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے تھے ۔ آج بھی اس مسجد کی رونق برقرار ہے ، طالبعلموں سے یہ مسجد آباد رہتی ہے۔

    اوپن ائیر واکنگ میوزیم

    قاہرہ میں دنیا کا سب سے بڑا اوپن ائیر واکنگ میوزیم بھی موجود ہے ۔ اس مقام کو یونیسکو نے ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے ۔ یہ تاریخی مقام بین الحرمین یعنی دو محلوں کے درمیان کا راستہ ہے ۔ جس کا آغاز جامع الانور کے داخلی دروازے باب الفتوح سے ہوتا ہے اور یہ شاہراہ باب الزویلہ تک جاتی ہے ۔۔ فاطمی دور سلطنت کےدو قصر اور کئی مساجد اس راستے کا حصہ ہیں ۔ فاطمی سلطنت کے بعد آنے والی ایوبی اور مملوک سلطنت نے ان بیش قیمتی آثار کو ملیا میٹ کردیا ۔ سلطنت عثمانیہ میں بین الحرمین میں مزید تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ۔ دور حاضر میں اس مقام پر بازار قائم ہے ۔ ایوبی ، مملوک اور سلطنت عثمانیہ کی مساجد بھی موجود ہیں ۔ جن کی شناخت انکے میناروں کی بناوٹ سے کی جاتی ہے۔

    قاہرہ کی روشن راتیں

    العمزالدین اسٹریٹ ثقافتی ورثہ اور اوپن ایئر میوزیم ہونے کے ساتھ ، قاہرہ کی رونقوں اور حسن کا منبع بھی ہے ۔ یہاں ہر رات میلہ لگتا ہے ۔ دکانوں سے سجی اس اسٹریٹ پر مصر کی سوغاتیں ہیں ۔۔ سیاح اس شاہراہ کا رخ کئے بغیر قاہرہ سے باہر نہیں جاسکتے ۔ کونے کونے پر یہاں ایک فیسٹیول سجا رہتا ہے ۔ کھانے پینے کے مشہور اسٹالز ہیں جہاں گھومنے پھرنے والوں کی بیٹھکیں لگی رہتی ہیں ۔ یہ قاہرہ کے اصل حسن و جمال کا ایک عکس ہے ۔ اس پرکشش اور دلفریب ماحول میں شاہراہ کی سیر کرتے ہوئے کئی بار بین الاحرمین کے قصر کی سیر کرنے کا گمان ہوا ۔ اور دل نے کئی بار اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ منظر محسوس کرنا نصیب ہوا ۔ بیشتر سیاحوں کے لئے یہ ایک تفریحی مقام ہے ، لیکن تاریخ سے واقفیت رکھنے والوں کو یہ شاہراہ شاہانہ ماضی کے دور میں لے جاتی ہے ۔ جس کے احساس کو لفظوں میں پرویا نہیں جاسکتا ۔

    قاہرہ اور کراچی کی یاد

    اولڈ سٹی کی عمارتیں دیکھ کر قاہرہ پر کراچی کا گمان ہوتا تھا ، لیکن پاکستانی سفیر نے ملاقات میں اس سوچ کو غلط ثابت کیا ۔ بتایا کہ ظاہری طور پر خستہ اور بوسیدہ لگنے والی عمارتیں اندر سے بے حد شاندار ہیں ، لوگوں کے گھر کشادہ اور عالی شان ہیں ۔ عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر لگے ہوئے ڈش انٹینا بہت نمایاں ہیں ۔ دن کی روشنی میں اینٹوں کی بوجھل اور افسردہ عمارتیں رات میں سنہری قمقموں سے روشن ہوتی تھیں ۔۔ ان عمارتوں ، مساجدوں کی تزئین کے لئے پیلی روشنی کے بلب کچھ اس انداز میں استعمال کئے گئے ہیں کہ دیکھنے والوں کو لائٹ شو لگتا ہے ۔ کراچی کی طرح قاہرہ میں بے ہنگم ٹریفک اور پارکنگ ایک بڑا مسئلہ ہے ، جگہ جگہ پل تعمیر کئے گئے ہیں ، لیکن پیدل چلنے والوں کے لئے اوور ہیڈ برج کا انتظام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ یہاں موٹر سائیکلوں کا راج ہے اور رکشہ بھی چلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان ملتی جلتی خصوصیات کے باوجود قاہرہ کراچی کو کچرے کے معاملے میں پیچھے چھوڑنے میں ناکام ہے ۔۔ اولڈ سٹی ہو یا نیو ، قاہرہ صاف ستھرا شہر ہے ۔ یہاں گندگی کے ڈھیر نہیں لگے، صفائی کا انتظام رہتا ہے ۔

    قاہرہ کی اہمیت اور سنہری تاریخ کے باعث یہاں قدم قدم پر گوہرنایاب ملتا ہے ، لیکن چار روز کے قلیل عرصے میں ان جواہرات کو جمع کرنا ممکن نہ تھا۔ دریائے نیل ، میوزیم ، اور اہرام مصر کے دیدار کئے بغیر قاہرہ سے واپسی ممکن نہیں لہذا یہ بھی کام انجام دیا گیا ۔ شاپنگ کا فریضہ بھی ادا کیا ۔ یہاں کا پیپر جسے پیپرس کہتے ہیں اور کاٹن مشہور ہیں ۔ مٹھائی اور چاکلیٹ کی مٹھاس کا دنیا میں مقابلہ نہیں ۔ قاہرہ میں کئی مالز اور شاپنگ سینٹر قائم ہیں، ان میں زیادہ مشہور سٹی اسٹارز ہے، جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مال سمجھا جاتا ہے ۔۔ قاہرہ مصر کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ اس کا اہم ثقافتی مرکز ہے ۔۔ اور مصر کی کل آبادی کا پچیس فی صد اس شہر میں آباد ہے ۔۔

  • وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    وہ فن کار جسے پی ٹی وی کا دلیپ کمار کہا گیا!

    طلعت حسین پاکستان کے ان فن کاروں میں سے ایک ہیں جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پاکستانی فلم انڈسٹری پر اپنی گہری چھاپ چھوڑ گئے۔

    طلعت صاحب کی پہچان ان کی آواز اور وہ انداز تھا جس نے سبھی کو اپنا اسیر کر لیا۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کی ادکاری کم درجے کی تھی۔ وہ اداکاری میں بھی کمال مہارت رکھتے تھے مگر قدرت کی ودیعت کردہ آواز نے انھیں کمال درجے کا آرٹسٹ بنا دیا جب کہ ان کے دور عروج میں پی ٹی وی ریڈیو پاکستان یا اسٹیج پر ان کی طرح صدا کاری کے فن میں یکتا آرٹسٹ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا تھا۔

    اکثر اشتہارات میں پس پردہ ان کی آواز گونجتی تھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں اس اشتہار کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ ہمیں بچپن کے ادوار میں تو پتا ہی نہ چلا کہ یہ اس شخص کی آواز ہے جسے ہم اکثر اسکرین پر دیکھتے آئے ہیں بعد میں جب آرٹس کونسل کے چکر لگائے اور وہاں کچھ کورسز کیے تو ہم پر عقدہ کھلا کہ آواز کے یہ جادوگر تو مشہور اداکار طلعت حسین ہیں۔

    آج بھی یاد ہے ریڈیو آر جے بننے کے لیے ہم نے آرٹس کونسل میں ایک کورس جوائن کیا تو ہمارے ٹرینر ہمیں طلعت حسین کی آواز سنایا کرتے تھے کہ یہ شخص جس طرح الفاظ کو پیراہن عطا کرتا ہے، وہ کمال ہے۔

    ایک وقت تھا کہ طلعت حسین پس پردہ آواز کے لیے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے آرٹسٹ شمار ہوتے تھے، اشتہار ساز ادارے انھیں منہ مانگے معاوضے پر سائن کرتے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ نہ صرف طلعت صاحب کی اداکاری کمال تھی بلکہ جب وہ اپنی آواز کی گمبھیرتا اور طلسماتی اثر کے ساتھ مکالمے ادا کرتے تو سننے والے ورطۂ حیرت میں پڑ جاتے تھے۔

    اگر اداکاری کی بات کی جائے تو طلعت حسین کا الفاظ کی ادائیگی کا سلیقہ، قرینہ اور برجستہ ڈائیلاگ ڈلیوری کے سبب انھیں پی ٹی وی کا دلیپ کمارکہا جاتا تھا، ’ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم!‘ اس مصرعے کی جیتی جاگتی تصویر تھے طلعت حسین! کیوں کہ اب ان کے پائے کا کوئی اداکار انڈسٹری میں نظر نہیں آتا۔

    لیجنڈ اداکار کی ڈائیلاگ ڈیلوری کمال تھی، کہاں لفظ پر زور دینا ہے کہاں آہستگی سے بات کرنا ہے اور فن کارانہ بدن بولی انھیں وہ معنویت عطا کرتی تھی جس نے ناظرین کے دلوں کو چھو لیا۔ اسی بنا پر انھیں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’دلیپ کمار‘ کہا گیا۔

    دلیپ کمار نے اداکاری میں جسمانی حرکات اور بدن بولی کو جس نہایت اچھوتے اور منفرد انداز میں کیمرے کے سامنے پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ سین کے دوران چلتے ہوئے، رک کر اور خاص انداز سے ڈائیلاگ بولتے تھے اور دیکھنے والے دیوانے ہوجاتے تھے، یہی ادا طلعت نے بھی اپنائی اور پاکستان میں بالخصوص ٹی وی انڈسٹری پر چھا گئے۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طلعت حسین اچھی طرح سمجھتے تھے کہ ٹی وی، فلم اور ریڈیو کے میڈیم میں اداکاری کی مختلف ڈیمانڈز ہوتی ہیں۔ طلعت حسین کے مطابق ریڈیو میں صرف ڈائیلاگ سے کام چل جائے گا لیکن ٹی وی یا فلم میں جذبات کے اظہار کے لیے باڈی لینگویج یا بدن بولی کافی اہمیت کی حامل ہے۔

    طلعت حسین اداکاری اور تھیٹر کی تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ بھی گئے۔ انھوں نے لالی ووڈ اور بالی ووڈ سمیت برطانوی ٹی وی کیلئے بھی کام کیا، لیجنڈ اداکار کو ستارہ امتیاز، پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازاگیا، پرچھائیاں، بندش، طارق بن زیاد، دیس پردیس، مہرالنسا، ہوائیں، دی کاسل، ایک امید، ٹائپسٹ، انسان اورآدمی اور کشکول ان کے مشہور ڈرامے تھے۔

    لیجنڈ اداکار کی مشہور فلموں میں گمنام، ایک سے بڑھ کر ایک، اشارہ، چراغ جلتا رہا، محبت مر نہیں سکتی، لاج، قربانی، کامیابی، بندش، پروجیکٹ غازی، بانی پاکستان کی زندگی پر بنائی گئی فلم جناح شامل ہیں۔

    اداکار طلعت حسین کے پاس کتابوں کا خزانہ تھا وہ کتابیں پڑھنے کے کافی شوقین تھے۔ انگریزی ادب اور اردو ادب سے خاص لگاؤ تھا، انھیں ایسے افراد میں شمار کیا جاسکتا تھا جن کے ہاتھ میں ہمیشہ کتاب رہتی تھی۔

    لیجنڈ اداکار کے انتقال پر اداکارہ بشریٰ انصاری کا کہنا تھا کہ طلعت حسین باکمال اداکار اور بڑی شخصیت تھے۔ میرے لکھے ڈرامے انھوں نے پڑھے جس پر مجھے فخر ہے۔ وہ انتہائی مہذب شخصیت تھے جنھوں نے کبھی اپنے منہ سے کوئی بے جا لفظ نہیں نکالا۔

    فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار جاوید شیخ نے طلعت حسین کے انتقال کو شوبز انڈسٹری کا بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہت نفیس آدمی تھے، جن سے بہت کچھ سیکھا۔ ان کی بیماری کے دوران ان سے ملنے کے لیے جانے کا ارادہ تھا لیکن افسوسناک اب یہ حسرت ہی رہے گی۔

    عثمان پیرزادہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین میرے خاندان کا حصہ تھے جن کے انتقال پر بہت افسوس ہے لیکن وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ بہروز سبزواری نے کہا کہ طلعت حسین کی پہچان ان کی آواز تھی۔ طلعت حسین اس پائے کے فنکار تھے کہ اب ان کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔

    اداکار سہیل احمد نے کہا کہ طلعت حسین کی وفات سے ہونے والا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان جیسا فنکار آئندہ کبھی ملتا نظر نہیں آ رہا۔

    پی ٹی وی کے جنرل منیجر امجد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ طلعت حسین نے ٹی وی، ریڈیو اور تھیٹر پر بہت کام کیا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ وہ اس مزاج کے تھے کہ چاہے جتنی طبیعت خراب ہو، کام سے منع نہیں کرتے تھے۔

    تقسیم ہند سے قبل 1940 میں بھارت میں پیدا ہونے والے طلعت حسین کی عمر 80 سال سے زائد تھی، وہ کافی عرصے سے علیل تھے انھیں ڈیمنشیا کا مرض لاحق تھا۔ وہ طویل عرصہ علالت کے بعد 26 مئی کو کراچی میں انتقال کرگئے۔ انھیں ڈی ایچ اے فیز 8 کے قبرستان سپرد خاک کیا گیا۔

  • پُرسکون رہنا سیکھیے!

    پُرسکون رہنا سیکھیے!

    دنیا کا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ خوش گوار اور پُرسکون زندگی گزار رہا ہے یا اسے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ امیر ہو یا غریب سب زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں اور انھیں مختلف قسم کی مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔ جب ہم اپنے آپ سے ہی بیزار اور شکوہ کناں رہتے ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسروں کی کچھ عادات اور بعض رویوں سے ہمیں کوئی شکایت نہ ہو۔

    حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو راحت افزا اور پُرسکون بنانے کے لیے ہمیں جتن کرنا پڑتے ہیں اور ہماری کئی مشکلات اور پریشانیاں ایسی ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھی کم نہیں ہوتیں بلکہ ہم ان سے نمٹنے کا طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو یہ سب برداشت کرنے کے قابل بنا لیتے ہیں۔ ہماری تکالیف، مصائب اور دوسروں سے شکایات مختلف نوعیت کی ہوسکتی ہیں، اور بعض صورتوں میں یہ ہمیں مسلسل اضطراب اور بے چینی کیفیت میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ اس حوالے سے چند تدابیر اختیار کر کے ہم اپنی زندگی کو قدرے پُرسکون اور خوش گوار بنا سکتے ہیں۔

    رویوں میں لچک

    جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہمارے خیالات اور نظریات پختہ ہونے لگتے ہیں۔ ہم اپنی باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور بہت کم کسی دوسرے کی سنتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو تو تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن خود اپنی سوچ اور رائے بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہم دوسروں‌ کو اپنے خیالات کے زیرِ‌ اثر اور اپنی مرضی کا تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس رویے سے ہمارے وقار میں کمی آتی ہے۔ زندگی بدلتی رہتی ہے، حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ نئی چیزیں اور نئی مہارتیں سیکھیں اور ساتھ ہی اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں۔

    اچھا سامع ہونا

    ہم ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ معلوم ہے اور لوگوں کو ہماری قابلیت کا لازمی علم ہونا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ علم اور مہارت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے اور ہمیں اس حقیققت کو قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کے علم، ان کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے، ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم اچھے سامع ہوں، لوگوں کی باتوں کو توجہ سے سنیں۔ ہم بہت سی باتیں محض جواب دینے کے لیے سنتے ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے نہیں سنتے۔ ہم اکثر دوسروں کی بات کا فوری جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں یا اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں جس سے دوسروں پر ہمارا کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔

    دوسروں کو جانچنے سے گریز

    یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ ہم دنیا میں طرح طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں جن کی عادات مختلف ہوتی ہیں اور وہ الگ ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں، تعلیم و تربیت کا فرق بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی کی اچھی بات سے متاثر ہو کر اس پر رشک کرنا یا کسی کی صرف ایک غلطی پر اسے ہمیشہ نالائق یا غلط سمجھتے رہنا دانش مندی نہیں۔ جو لوگ دوسروں کو ان کی کچھ باتوں اور فیصلوں کی وجہ سے پرکھنے کے بعد ان سے تعلق استوار کرتے ہیں، کوئی بھی ان کا قدر دان نہیں ہوتا۔ لوگوں کا اعتماد جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ انھیں عزت دیں، زندگی میں سمجھوتے کریں۔ کسی فرد کی کسی معاملے میں اچھی رائے، یا ایک اچھے فیصلے کی وجہ سے عقل کُل نہ مان لیں۔ اسی طرح دوسرے کو اس کی کسی ایک غلطی کی وجہ سے یکسر غلط اور احمق تصور کرلینا بھی درست نہیں‌ ہے۔ اچھی طرح سوچ سمجھ کر اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر لوگوں سے ان کی فطرت اور عادت کے مطابق تعلقات قائم کریں۔

    دل میں میل نہ رکھنا

    ہمیں اپنے ملنے جلنے والوں کے بعض رویے تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ جانے انجانے میں ہم سے برا سلوک، یا ہمارے لیے کی گئی کوئی غلط بات جذبات کو مجروح کر سکتی ہے، لیکن ایسی صورت میں بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرنا اور اسے اپنے لیے روگ بنا لینا ہم پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے بہت سی تکلیف دہ باتوں کو نظر انداز کرنا اور تلخ یادوں کو فراموش کرنا پڑتا ہے تاکہ لوگوں سے میل جول برقرار رہیں اور تعلقات آگے بڑھائے جا سکیں۔دوسروں کو معاف کرنا زندگی کو پُرسکون بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

    دوسروں پر بے جا تنقید

    یہ ایک ایسی خوبی ہے جو آپ کو دوسروں کے درمیان بہت جلد نمایاں کردیتی ہے۔ دنیا کا ہر فرد اپنی یا اپنے کسی کام کی تعریف اور ستائش سننا چاہتا ہے اور تنقید سے ہر کوئی گھبراتا ہے۔ خاص طور پر بے جا تنقید کرنے والے کو کوئی پسند نہیں کرتا لیکن اچھے انداز سے اور دوسرے کی عزّت اور مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے تعمیری تنقید ہمیشہ بہت کام آتی ہے اور لوگ اس کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔

    اپنی غلطی تسلیم کرنا

    دوسروں کو معاف کرنا تو اہم ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ اپنی کسی غلطی پر دوسرے سے معذرت کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک اچھے انسان ہیں۔ تاہم یہ خیال رہے کہ آپ ہر موقع پر دوسروں کے سامنے معذرت خواہانہ انداز نہ اپنائیں اور معافی صرف اپنی غلطی پر ہی مانگیں۔

    دوسروں پر توجہ دینا

    انسان کا ہر رشتہ توجہ اور وقت مانگتا ہے۔ اگر رشتوں کو وقت نہ دیا جائے اور اہمیت کا احساس نہ دلایا جائے تو اچھے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ خود سے وابستہ رشتوں کی قدر کرتے انھیں اہمیت دیتے اور ان کا خیال کرتے ہیں وہ پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔

    اپنی صحت کا خیال رکھنا

    آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرسکون زندگی اور صحت مند جسم کا گہرا تعلق ہے جو شخص اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ سکتا وہ کسی دوسرے شخص کا خیال بھی نہیں رکھ سکتا۔ تندرستی ہزار نعمت ہے لہٰذا اپنی صحت کا ہر ممکن خیال رکھیں۔

    راحت افزا اور پُرسکون زندگی کا تصور ہر کسی کے لیے مختلف ہو سکتا ہے لیکن یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو ایک نسبتاً مطمئن اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔

  • صولت مرزا: تختۂ دارسے آگے کی بات

    صولت مرزا: تختۂ دارسے آگے کی بات

    ‘‘جسٹ فارملیٹی ۔۔ کچھ نہیں ہوگا’’

    تین بار موت کی سزا پانے والے مجرم کے منہ سے نکلے ان الفاظ نے کمرۂ عدالت میں موجود تمام افراد کو ششدر کردیا تھا، قریب کھڑے پولیس اہلکار نے توخوف کی ایک لہر اپنی ہڈیوں میں محسوس بھی کرلی۔

    قلم ٹوٹ چکا تھا صولت مرزا نہیں ٹوٹا تھا، سر جھکائے گہری سوچ میں ڈوبا، صولت علی خان جیل کی گاڑی میں بیٹھا اور جیل روانہ ہو گیا، کرم فرمائوں کی طاقت سے مطمئن صولت شاید یہ بھول گیا تھا کہ ہرعروج کا زوال ہے۔

    یہ کراچی کی سیاست کے بدلتے دن تھے جب80 کی دہائی میں ملک بھرکی طرح کراچی میں بھی مذہبی اور نظریاتی ووٹ بینک ختم ہوکرقوم پرستی کی جانب مبذول ہورہا تھا اوراس کی کوکھ سے فاروق دادا، ریحان کانا، ذکی اللہ اورصولت مرزا جیسے باغی نوجوانوں نے بھی جنم لیا جو حقوق لڑ کر لینے اوراپنی شناخت کے لئے کسی حد تک بھی جانے کے لئے تیار تھے۔ وقت گزرتا گیا لیکن کراچی کی سیاسی تاریخ میں جوتشدد داخل ہوا تو اسے واپسی کا دروازہ نہیں ملا۔ اداروں نے گولیوں اورطاقت کے ذریعے اپنی رٹ کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں نجانے کتنے ہی صولت جعلی یا حقیقی پولیس مقابلوں میں مارے گئے اورکتنے ہی صولت پابندِ سلال ہوئے کچھ تو ایسے ہیں جن کا کسی کومعلوم ہی نہیں کہ کہاں ہیں؟۔

    اوراسی دوران صولت علی خان المعروف صولت مرزا جو کہ جیل میں اپنی اپیلوں کے سبب تختہ دارکی رسی کواپنی گردن سے اتارنے کے لئے بھر پور کوشش کر رہاتھا، کراچی کی سیاست میں موضوعِ بحث بن گیا ہرکوئی اس کی طاقت کے گُن گانے لگا۔ واقفانِ حال تو یہ بھی جانتے ہیں کہ کئی مسائل کے فوری حل کے لئے لوگ اس سے رجوع بھی کرنے لگے تھے۔

    اس قدرطاقتورکہ جب سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پھانسیاں لگنا شروع ہوئیں توکراچی کے شہری یہ سو چتے تھے کہ اگرصولت مرزا کوپھانسی ہوگئی تو کیا ہوگا لیکن ان تمام خدشات کا خاتمہ اس وقت ہوا جب 11 مارچ کی صبح ایم کیوایم کے مرکزنائن زیرو پرچھاپہ پڑا اوراسی دن جب وقاص شاہ کے پراسرارقتل کی باز گشت فضا میں بلند ہورہی تھی تو ٹی وی چینلزصولت مرزا کے بلیک وارنٹ جاری ہونے کی بریکنگ چلا رہے تھے۔

    19مارچ کا بلیک وارنٹ جاری تو ہوا لیکن کچھ نامعلوم افراد کےذریعےصولت کی ایک تہلکہ خیز ویڈیو سامنے آگئی اورپاؤں تلے زمین کھینچے جانے کی مہلت میں اضافہ ہوگیا۔ ویڈٰیو کیا تھی ایک پنڈورا باکس تھا جس میں ناصرف اس نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا بلکہ بہت سےاہم سیاسی شخصیات اورایم کیوایم کوبھی نشانہ بنایا گیا نتیجتاً پھانسی ایک دفعہ نہیں دوددفعہ مؤخرہوئی اس دوران ملزم کی جے آئی ٹی بھی بنی اس کی سفارشات بھی سامنے آئیں اوراس نے کچھ ایسے سوال جنم لئے جن کا جواب ملنا چاہئیے۔

    صولت مرزا نے بغیرکسی ذاتی دشمنی کے قتل کیوں کیےاورکیا ان تمام قتل کا ذمہ داروہ تنہا تھا؟

    وہ کون لوگ تھے جن کی مدد سے صولت کو جیل میں فون سمیت دیگر آسائش حاصل تھیں اورکیا ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟

    صرف صولت کوپھانسی دینامقصود تھی اوردیگرملزمان نہیں پکڑنا تھا توکیا ویڈیوبیان اورجے آئی ٹی کا مقصد صرف کسی کی سیاسی تذلیل تھا؟۔

    یہ یقینا ایک تلخ حقیقت ہوگی کہ آج کے بعد کوئی دہشت گرد اورسیا سی کارکن مرتا مرجائے گا لیکن اسٹیبلشمنٹ اورریاست پراعتبارنہیں کرے گا کیوں کے آگے کھائی پیچھے کنواں۔ صولت ایک ٹیسٹ کیس تھا اوراس مقدمے نے ثابت کردیا کہ مرجاؤ لیکن کبھی اعتبارنہ کرنا۔

    کال کوٹھری میں قید صولت یقینا یہ سوچ رہا ہوگا کہ اس کوبڑا دھوکہ کس نے دیا 17 سال قدم بقدم ساتھ چل کہ چھوڑنے والوں نے یا انھوں نے جو اسے آسرا دے کراس کواوراس کے خاندان کواپنوں اوران افراد سے جو اس سے ہمدردی رکھتے تھے ان میں اجنبی کرگئے؟، اورکیا ریاست اس کے خاندان کو اس غصے سے بچا پائے گی جوا س کے ویڈیو بیان کے بعد جنم لے رہا ہے؟۔

    اب جبکہ صولت ریاست کی طے کردہ سزا سود سمیت بھگت چکا ہے تو مقتولین کے بین اور زخموں کو محسوس کرتے ہوئے بھی یہ سوچنے پرمجبور ہوں کہ ریاست کی وہ کون سی غلطیاں ہیں کہ صولت کومجرم جاننے کے باوجود بھی ایک بڑا طبقہ اس کا گرویدہ تھا، وہ ان کا ہیروتھا۔ دوران طالبِ علمی میں بھی میں ایسے کئی نوجوانوں کوجانتا تھا جواسے چی گواویرا سے کم اہمیت نہیں دیتے تھے۔

    سیاسی، سماجی اورنفسیات کے علوم پرعبوررکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صولت ریاست پاکستان کا نہ پہلا نوجوان تھا اورنہ آخری ہوگا کیوں کہ ہم سوگ منانے والی قوم بن گئے ہیں روگ کا خاتمہ کرنے کی ہم کوشش ہی نہیں کرتے اوروہ جنہیں محبت کے زریعے سدھارا جا سکتا ہے ہم انھیں نفرت سے سدھارنا چاہتے ہیں، اوررکھئیے نفرت مزید نفرت کوجنم دیتی ہے۔

    اے آروائی نیوز کی انتظامیہ اور ادارتی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

  • "تاج”: مغل خاندان اور اکبر بادشاہ کی داستانِ حیات

    "تاج”: مغل خاندان اور اکبر بادشاہ کی داستانِ حیات

    دنیا بھر میں آن لائن تفریحی شوز دیکھنے اور فلم بینی کے شوقین اُن مختلف اسٹریمنگ پورٹلز پر نظر آرہے ہیں، جن کی معیاری پروڈکشن نے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ "زی فائیو” کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

    ہندوستان میں یہ اسٹریمنگ پورٹل بہت مقبول ہے۔ حال ہی میں اس پر مغل دور بالخصوص اکبر بادشاہ کی ذاتی زندگی اور شاہی خاندان کے تناظر میں ویب سیریز "تاج” کے نام سے پیش کی گئی ہے جسے بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود اس خطّے سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت شوق سے دیکھ رہے ہیں۔

    اس ویب سیریز میں برصغیر میں مغلیہ دور کی تاریخ کو خاصی حد تک متوازن اور غیر جانب دار رہ کر دکھایا گیا ہے۔ پروڈکشن ڈیزائن بہت عمدہ ہے، اور دو سیزن پر مشتمل یہ ویب سیریز کچھ کمزوریوں کے باوجود دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

    کہانی/ پلاٹ

    دو حصوں میں‌ پیش کی گئی اس ویب سیریز کی کہانی کے پہلے حصّے کا نام "خون کے ذریعے تقسیم” ہے، جب کہ دوسرے کا عنوان "انتقام کا دور” رکھا گیا ہے۔ اس میں سولہویں صدی کا زمانہ دکھایا گیا ہے، جب اکبرِ اعظم پورے ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ کہانی کا مرکزی خیال باپ بیٹوں کے مابین تاج و تخت کی کشمکش ہے۔

    اکبر بحیثیت باپ اپنے تینوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو بادشاہت سونپنا چاہتا ہے۔ اس کی چار بیویاں، اپنی اپنی اولاد کو مغل سلطنت کا بادشاہ دیکھنا چاہتی ہیں اور ان کی تاج پوشی کی آرزو دل میں دبائے بیٹھی ہیں۔ بادشاہ کے وزرا اور خاص درباری اپنے مفاد میں اور اپنی خواہش کے مطابق ان میں سے کسی ایک شہزادے کو شہنشاہِ ہند دیکھنا چاہتے ہیں۔

    اکبر بادشاہ کے ان تینوں بیٹوں کے نام سلیم، مراد اور دانیال ہیں، جن میں سے کوئی ایک اپنے باپ کا جانشین ہو گا۔ یہ کہانی اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں شہزادوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جن کے جذبات مد و جزر کا شکار ہیں اور جہاں کہانی میں جمالیات، سیاست، رومان، غداری اور خوں ریزی موجود ہے، وہیں مدھم اور سلگتی ہوئی محبتّوں کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ رشتوں میں‌ دراڑ، ٹوٹ پھوٹ، معاشرتی مسائل، سماجی مصائب اور بے بسی کی مختلف کیفیات کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں‌ انتقامی رنگ بھی شامل ہے۔ یہ ایک طرف تو طاقت ور بادشاہ اور اس کے تین بیٹوں کی کہانی ہے، اور دوسری طرف یہ ایک لاچار باپ اور اس کے تین فسادی اور نافرمان بیٹوں کو بھی ہمارے سامنے لاتی ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا وہ پہلو ہے، جسے بلاشبہ اس کہانی میں عمدگی سے برتا گیا ہے۔ فلم کی ضرورت اور کہانی کو نبھانے کے لیے اس میں‌ تاریخی اور حقیقی واقعات کے ساتھ کئی قصّے اور فرضی کردار بھی شامل کیے گئے ہیں۔

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کے لیے کہانی "کرسٹوفر بوٹیرا” نے لکھی ہے، جب کہ معاون "ولیم بورتھیک” اور "سائمن فانٹاوز” ہیں۔ اس کے مکالمے "اجے سنگھ” نے لکھے ہیں، جو فلم کے ہدایت کاروں میں بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ اس ویب سیریز کے تین مزید ہدایت کار ہیں، جن میں مرکزی ہدایت کار کا نام "رون اسکال پیلو” ہے اور دیگر دو ہدایت کاروں‌ کے نام "وبو پوری” اور”پرشانت سنگھ” ہیں۔ دو سیزن کے تحت یہ ویب سیریز کُل 14 اقساط پر مشتمل ہے۔

    پروڈکشن کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ اسے انڈیا کی معروف پروڈکشن کمپنی "کونٹیلو پکچرز” نے تخلیق کیا ہے۔ دو پروڈیوسرز، دوسینماٹوگرافرز اور تین ایڈیٹروں کے علاوہ کئی تکنیکی مہارت رکھنے والوں اور تخلیقی ذہن کے حامل آرٹسٹوں نے اس شان دار ویب سیریز میں اپنے اپنے حصّے کا کام بخوبی انجام دیا ہے۔

    ملبوسات، تدوین، روشنی، برقی تأثرات سمیت وہ مقامات جہاں اس ویب سیریز کو عکس بند کیا گیا، ان سب کا انتخاب بھی دیگر لوازمات کی طرح بہترین ہے۔ ہاں، موسیقی کی کمی اس میں محسوس ہوئی ہے، سنجے لیلا بھنسالی سے مشاورت کر لیتے اور اسماعیل دربار سے بھی تجاویز لے لی جاتیں تو یہ ویب سیریز اپنی منفرد کہانی کی بدولت مزید قیامت ڈھاتی۔ پروڈکشن ڈیزائن کے شاہانہ انداز سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی مغلیہ خاندان کی شاہانہ کہانی بیان کی جارہی ہے۔ مارچ میں اس کا پہلا سیزن پیش کیا گیا تھا اور مئی میں دوسرے سیزن کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت مل رہی ہے۔

    اداکاری

    بہت حیرت کی بات ہے، لیکن کہنا پڑے گا کہ اس ویب سیریز میں اکبر بادشاہ کے روپ میں‌ ہندوستانی فلم انڈسٹری کے شان دار اداکار نصیرالدّین شاہ کی اداکاری بہت کمزور اور بے کیف محسوس ہوئی، اور جس قدر یہ کردار بڑا تھا، وہ اسے سنبھال نہیں پائے۔

    اس وجہ سے کئی جگہ ویب سیریز کے ناظرین کو ان کے کردار سے اکتاہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔ نصیر الدّین شاہ نے اپنا کردار بہت بوجھل اور تھکے تھکے انداز میں نبھایا ہے، جس کی ان سے توقع نہ تھی۔ بہرحال دیگر فن کاروں کی عمدہ اداکاری سے ویب سیریز مجموعی طور پر اپنا رنگ جما گئی۔

    اکبر کے تین بیٹوں میں سے سلیم کا کردار اداکار "آشم گولاٹی” نے نبھایا ہے اور اپنی فطری اور بے ساختہ اداکاری سے دل موہ لیا ہے۔ اکبر کی ایک کنیز جو کہ انارکلی تھی، وہ بھی متاثر کرنے میں زیادہ کام یاب نہیں ہو سکی، البتہ اکبر کی تینوں بیویوں میں سے جودھا اکبر کا کردار نبھانے والی اداکارہ "ساندھیا مریدول” نے بہت زبردست اداکاری کی بلکہ کئی مناظر میں وہ تمام اداکاروں پر حاوی نظر آتی ہیں۔

    اکبر کے بھائی مرزا محمد حکیم کے کردار میں راہول بوس نے بھی مایوس کیا البتہ دیگر مرکزی کرداروں میں ایام مہتا (بدایونی)، پنکج سرسوت (ابوالفضل) دیگمبر پرساد (مان سنگھ)، سبودھ بھاوے (بیربل)، دیبراج رانا (مہا رانا پرتاب)، پون چوپڑا (غیاث بیگ) نے اپنی اداکاری سے ویب سیریز کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

    دھرمیندر بھی (شیخ سلیم چشتی) کے کردار میں بہت بھائے اور متاثر کن اداکاری سے ثابت کیا کہ وہ اب تک اداکاری سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم نے جن سات فن کاروں کا تذکرہ کیا ہے، اگر یہ اچھا کام نہ کرتے تو شاید یہ ویب سیریز پروڈکشن کا سفید ہاتھی ثابت ہوتی اور اس کی لاش پر نصیر الدّین شاہ بیٹھے دکھائی دیتے۔

    حرفِ آخر

    اپنی کچھ کم زوریوں کے باوجود اس ویب سیریز کی مقبولیت کا سفر بہرحال جاری ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کی مقبول ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس کی مقبولیت کا اوسط 10 سے میں 7 فی صد ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے اس پر ملا جلا ردعمل دیا ہے جب کہ مغربی ریٹنگ میڈیا نے اس ویب سیریز کو زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کے باوجود مجھ سے پوچھیں تو میری نظر میں 10 سے 6 اسٹارز کے ساتھ یہ ویب سیریز آپ کو کہیں لطف اندوز ہونے کا موقع بھی دے گی اور کہیں مایوس بھی کرے گی۔ اس ویب سیریز کی ناکامی کی دو وجوہ ہوں گی، ایک نصیر الدّین شاہ کی بوجھل اداکاری اور دوسری وجہ موسیقی کا عنقا ہونا۔ اس لیے زیادہ امید وابستہ کیے بغیر اس ویب سیریز کو دیکھیں گے تو محظوظ ہوسکیں گے، مگر اس کی ضمانت بہرحال نہیں دی جاسکتی۔

  • دی کوینینٹ (فلم ریویو)

    دی کوینینٹ (فلم ریویو)

    فلم دی کوینینٹ امریکا میں سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جسے بعد میں معروف اسٹریمنگ پورٹل "ایمازون پرائم ویڈیو” پرریلیز کیا گیا اور اس امریکی اسٹریمنگ پورٹل کے ذریعے یہ فلم دنیا کے ہر خطّے میں‌ بسنے والے فلم بینوں تک پہنچی۔

    یہ اسٹریمنگ پورٹل چند معروف اور مقبول پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، جس پر دنیا بھر سے فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں فلم بینی کا شوق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نیٹ فلیکس پر اپنی پسند کی فلمیں دیکھتی ہے اور ایمازون پرائم ویڈیو اسی کی ٹکر کا اسٹریمنگ پورٹل ہے جو اب پاکستان میں بھی مقبول ہورہا ہے۔

    فلم دی کوینینٹ، ایک عہد کی وہ کہانی ہے جو افغانستان میں اتحادی فوجیوں، اور اُن افغانوں کے گرد گھومتی ہے جو بطور مترجم ان فوجیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہر چند کہ یہ کہانی اور واقعات فرضی ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد، امریکی افواج کے لیے کام کرنے والے سیکڑوں افغان مترجمین کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ دی کوینینٹ اسی پس منظر میں بنائی گئی فلم ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ افغانستان میں جنگ کے دوران، امریکی فوج کے ماسٹر سارجنٹ جان کنلے اور اس کی یونٹ لشکر گاہ میں معمول کے مطابق گاڑیوں کی چیکنگ میں مصروف ہوتے ہیں کہ طالبان کے حملے میں ان کے ایک مترجم کی جان چلی جاتی ہے۔ اس مترجم کے متبادل کے طور پر جان کنلے کا تعارف احمد عبداللہ سے کرایا جاتا ہے، جو ثابت قدم لیکن ایک ناپسندیدہ ترجمان ہے، اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف اور صرف پیسوں کے لیے کام کرتا ہے۔ ایک خفیہ مشن کے دوران سارجنٹ کنلے کو معلوم ہوا کہ احمد پہلے طالبان سے وابستہ تھا، لیکن تنظیم کے ہاتھوں‌ جب اس کا بیٹا قتل ہوا تو وہ منحرف ہو گیا۔ احمد ایک موقع پر کنلے کی ٹیم کو گھات لگائے ہوئے طالبان سے بھی بچاتا ہے۔

    بگرام ایئر بیس کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (62 میل) شمال میں باغیوں کے ممکنہ ہتھیاروں کے بڑے ذخیرے کی تلاش کے لیے ایک اور چھاپے کے دوران، کنلے کے یونٹ پر طالبان کا حملہ ہوتا ہے، جو اس کے اور احمد کے علاوہ سب کو مار ڈالتے ہیں۔ یہ دونوں پیدل فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس حملے میں کئی طالبان جنگجو بھی مارے جاتے ہیں۔ افغان پہاڑی علاقے سے گزرتے ہوئے ایئربیس پر واپس جانے کی کوشش کرتے ہوئے، وہ ایک بار پھر باغیوں کے حملے کی زد میں آتے ہیں اس بار کنلے زخمی ہوجاتا ہے، حملہ کرنے والے مار پیٹ کے دوران اسے رائفل کے بٹ سے معذور کر دیتے ہیں۔ احمد اس حملے میں ملوث طالبان کو مارنے کے بعد کنلے کو واپس ایئر بیس پر لے جانے کا عزم کرتا ہے۔ کچھ ہمدرد افغانوں کی مدد حاصل کر کے، احمد وہاں سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کئی دن بعد احمد اور کنلے بگرام کے قریب پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہاں طالبان جنگجو ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ احمد جنگجوؤں کو مار ڈالتا ہے، لیکن اس کے فوراً بعد اسے امریکی فوجی پکڑ لیتے ہیں۔

    چار ہفتے بعد کنلے، سانتا کلیریٹا، اپنے گھر کیلیفورنیا میں واپس بھیج دیے جاتے ہیں، لیکن کنلے اس بات سے مکمل طور پر بے خبر ہے کہ اسے کیسے بچایا گیا، وہ سمجھتا ہے کہ اس میں احمد نے کردار ادا کیا ہے۔ بعد میں یہ جان کر کہ احمد اور اس کے خاندان کو ان دونوں کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، کنلے ان کے لیے امریکی ویزا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوتی ہے۔ وہ جذباتی اور ایک اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ احمد کا مقروض ہے اور اس کی وفاداری اور اپنی ٹیم کے لیے خدمات پر اس کا حق ادا نہیں کرسکا اور یہی سوچ اسے بے چین و مضطرب رکھتی ہے اور وہ بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آخر کار کنلے احمد کو اور خود کو بچانے کا عزم کر کے اپنے ایک افسرِ اعلیٰ، لیفٹیننٹ کرنل ووکس کی مدد لیتا ہے تاکہ خفیہ طور پر افغانستان جاسکے اور کسی طرح‌ احمد اور اس کے خاندان کو تلاش کر کے ان کے لیے کچھ کرسکے۔

    اپنے افسرِ اعلیٰ کی مدد سے کنلے افغانستان جانے میں‌ کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے وہ "رون کی” کا نام اپناتا ہے۔ افغانستان واپس جاتے ہوئے، کنلے کی ملاقات پارکر سے ہوتی ہے، جو ایک پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹر ہے، اور پھر کِنلے احمد کے بھائی علی تک پہنچ جاتا ہے جو اسے طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقے تک لے جانے کا انتظام کرتا ہے۔ اس عمل میں، اس کے ہاتھوں‌ سڑک پر قائم ایک چوکی پر دو باغی مارے جاتے ہیں، جس سے طالبان خبردار ہو جاتے ہیں۔ ادھر ووکس، کنلے کو مطلع کرتا کہ ویزا پر کارروائی ہو چکی ہے اور وہ پارکر کے پاس ہیں۔ اور پھر کنلے، احمد کے ٹھکانے پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اسے خاندان سمیت امریکہ جانے کے لیے قائل کرتا ہے۔

    اس دوران، پارکر یہ اندازہ کر لیتا ہے کہ کنلے کی حقیقیت کچھ اور ہے اور اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اب طالبان کے لیے وہ دونوں‌ بڑا خطرہ ہیں، اور اِن کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ گن شپ اور اپاچی ہیلی کاپٹر کا بندوبست کرتا ہے اور حملہ آوروں کا صفایا ہوجاتا ہے۔ پارکر کہتا ہے کہ اگر وہ اپنی شناخت نہ چھپاتا تو وہ دل سے کنلے کے مشن کی حمایت کرتا۔ پھر وہ واپس بگرام لے جائے جاتے ہیں اور پھر اس ہوائی جہاز میں سوار ہو جاتے ہیں جو افغانستان کی فضائی حدود سے پرواز کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

    اس فلم کا مرکزی کردار یعنی کنلے افغانستان میں دو مشن مکمل کرتا ہے۔ پہلے مشن پر وہ اتحادی فوج کے افسر کی حیثیت سے افغانستان بھیجا گیا تھا اور دوسرا اس کا خود ساختہ مشن تھا جس میں وہ جذبات سے مغلوب ہو کر افغانستان پہنچا تھا، یعنی احمد اور اس کے خاندان کو افغانستان سے بحفاظت نکال کر امریکہ لے جانے کا مشن۔ جہاز میں‌ سوار ہونے کے بعد وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر سَر ہلاتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ عہد برقرار رکھا گیا ہے۔یہ اس فلم کے اختتامی لمحات ہیں، لیکن اتحادی افواج، ان کا ساتھ دینے والے افغان باشندوں اور طالبان یا باغیوں‌ کے واقعات کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے میں‌ آپ کی دل چسپی ہر بدلتے منظر کے ساتھ بڑھ جائے گی۔ اگر فلم کو امریکی فوجی کِنلے کے دو مشن کی صورت میں‌ دیکھا جائے تو یہ فلم گولہ بارود برسانے اور لاشیں‌ گرانے کے دل دوز واقعات کے ساتھ اُس مشن کی طرف لے جاتی ہے جس کی بنیاد دلی جذبات پر رکھی گئی ہے۔ فلم میں آپ کی دل چسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ اُس ملک کی کہانی ہے جس کے سیاسی اور سماجی حالات سے ہم بھی واقف ہیں۔

    فلم سازی و ہدایت کاری

    اس فلم کے چار مرکزی پروڈیوسرز ہیں، جن میں فلم کے ہدایت کار بھی شامل ہیں۔ایم جی ایم جیسا عہد ساز ادارہ اس فلم کا تقسیم کار ہے، جس نے اسے امریکی سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کیا، جب کہ اسے اسٹریم کرنے کے لیے ایمازون پرائم ویڈیو کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس فلم کا نام پہلے "دی انٹرپریٹر” تھا، جسے "دی کوینینٹ” سے تبدیل کردیا گیا۔ فلم کے نام کے ساتھ ہدایت کار "گائے رچی” کا نام بھی پیوست ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک پرانی فلم بھی اسی نام سے موجود ہے جس میں تمیز کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

    اس فلم کی عکس بندی اسپین کے مختلف علاقوں میں کی گئی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار "گائے رچی” کا تعلق برطانیہ سے ہے جو مشہور‌ گلوکارہ میڈونا کے سابق شوہر بھی ہیں۔ باکس آفس کی بات کی جائے تو اس فلم کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا گیا اور یہ اپنی لاگت پوری نہیں کر سکی، لیکن پروڈکشن، کہانی اور عنوان کے لحاظ سے یہ ایک بہتر اور معیاری فلم ہے جسے فلمی ناقدین اور فلم بینوں دونوں نے پسند کیا ہے۔

    ایمازون پرائم ویڈیو کے پورٹل پر پسند کیے جانے کے علاوہ فلم کو مختلف پلیٹ فارمز پر سراہا گیا ہے۔ فلم ویب سائٹ "روٹن ٹماٹوز” پر اسے 84 فیصد کی شرح سے پسندیدگی ملی، جب کہ آئی ایم ڈی بی پر یہ فلم دس میں سے 7.5 فیصد اور ایک اور ویب سائٹ "وودو” پر پانچ میں سے 4.7 فیصد کی پسندیدگی حاصل کر پائی ہے۔ گوگل پر اس فلم کے لیے پسندیدگی کا تناسب پانچ میں سے 4.7 فیصد رہا ہے۔

    دی کوینینٹ پر تبصرے مثبت رہے اور مجموعی طور پر فلم کے تمام شعبوں میں فن کاروں‌ اور آرٹسٹوں کی کارکردگی کو تسلی بخش اور اسے ایک معیاری فلم گردانا گیا ہے۔

    اداکاری

    اس فلم کے مرکزی کرداروں میں معروف امریکی اداکار "جیک جیلن ہو” اور "عراقی اداکار "دار سلیم” شامل ہیں۔ ان دونوں کی اداکاری نے فلم کا معیار بلند کیا ہے، خاص طور پر دار سلیم نے اپنے شان دار اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے ناقدین کو بھی متأثر کیا ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بغداد کی ہے، مگر وہ اپنی والدین کے ہمراہ، چھے سال کی عمر میں‌ ہجرت کر کے ڈنمارک آگئے تھے۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کا رجحان فلم سازی اور اداکاری کی طرف ہوا، انہوں نے ٹیلی وژن اور فلموں کے لیے کام شروع کیا اور بطور خاص ہالی وڈ کی فلموں میں شامل کیے گئے۔ دار سلیم کو فلم بینوں‌ نے پسند کیا اور انہیں زیادہ کام ملنے لگا۔ فلم میں ان کے ساتھی فن کاروں نے بھی خوب کام کیا۔ مجموعی طور پر ان سب کی کارکردگی متأثر کن رہی، اور یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں نے بھی اسے پسند کیا ہے۔

    حرفِ آخر

    امریکہ نے دنیا کے مختلف حصّوں میں کئی جنگیں لڑی ہیں جن پر بنائی گئی فلمیں‌ دیکھ کر اُن جنگوں کے اسباب اور اُن حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو کسی ملک کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ افغانستان سے اںخلا کے وقت، وہاں‌ کا ماحول کیا تھا، امریکی فوج اور اتحادیوں کو کن حالات کا سامنا تھا اور ان کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں کی زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی اور کیسے وہ ان حالات میں خود کو اپنے کنبے کو بچا پائے، یہ فلم اِس عکاسی کرتی ہے۔

  • کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ یا شارٹ ٹرم کڈنیپنگ فورس؟ ایک شرمناک کہانی جس نے ڈپارٹمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا

    کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ یا شارٹ ٹرم کڈنیپنگ فورس؟ ایک شرمناک کہانی جس نے ڈپارٹمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا

    ٹکے پر بکنے والی کالی بھیڑوں نے سندھ پولیس کی شان سی ٹی ڈی کی عزت داؤ پر لگا دی ہے، صرف ایک لاکھ روپے کے عوض 3 افسران معطل ہو گئے، اور 3 گرفتاریاں ہوئیں جب کہ ایک فرار ہو گیا، اور رینجرز لانس نائیک نے سی ٹی ڈی میں ہی سی ٹی ڈی افسران و اہلکاروں کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کروا دیا ہے، جس پر محکمے کی ساکھ بنانے کے لیے دن رات ایک کرنے والے افسران سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔

    ملک دشمن عناصر کے لیے دہشت کی علامت

    ایک زمانہ تھا جب سی ٹی ڈی کا نام دہشت گردوں، ملک دشمن عناصر اور سنگین جرائم میں ملوث اور مطلوب عناصر کے لیے دہشت بنا ہوا تھا، سی ٹی ڈی میں کارکردگی کی بنیاد پر اپنا اور محکمے کا نام بنانے میں کئی افسران و اہلکار شامل ہیں، جن میں کئی اس دنیا میں موجود ہیں تو کئی اس دنیا سے جا چکے ہیں، لیکن ایسی صورت حال کبھی ماضی میں پیش نہیں آئی کہ ایک لاکھ روپے کے لیے ایک ایس پی، ایک ڈی ایس پی، ایک ایس ایچ او کو معطل کیا گیا ہو، اور تین اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہو۔

    شارٹ ٹرم کڈنیپنگ

    ماضی میں بھی کئی مرتبہ لوکل پولیس ہو، سی ٹی ڈی ہو، یا اسپیشلائزڈ یونٹس؛ مختلف وقتوں میں شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کے کیسز بھی سامنے آتے رہے ہیں، حتیٰ کہ ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے اپنی ریکوری کے لیے تاجر کو گھر تک سے اٹھوالیا۔ سی ٹی ڈی میں رفاقت شاہ جیسے نام بھی سامنے آئے اور طاہر جیسے عناصر بھی محکمے کی آڑ میں کالے کام کرتے رہے، سی ٹی ڈی میں معطل ہونا، برطرف ہونا اور پھر واپس آ جانا بھی ایک معمول سا بن چکا ہے۔

    درخشاں کارکردگی والے پولیس افسر

    آئی جی سی ٹی ڈی آصف اعجاز شیخ کو سندھ سیف سٹی منصوبے پر اہم ٹاسک بھی سونپا گیا، جس پر وہ کام کرتے نظر آتے ہیں جب کہ سی ٹی ڈی میں کام کرتے ہوئے قومی اعزازات حاصل کرنے والے افسر راجہ عمر خطاب کو بھی ہمیشہ ملکی مفاد میں اور اچھے بڑے کیسز پر کام کرتے دیکھا۔

    سانحہ صفورا ہو یا انصارالشریعہ جیسے مشکل کیس، راجہ عمر خطاب نے یہ بات ثابت کی کہ وہ تحقیقاتی ادارے کے ایک ماہر افسر ہیں، جو ایک چھوٹے سے سراغ کے ذریعے بڑے سے بڑا کیس حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر کالی بھیڑوں نے بڑے گیم کے چکر میں بڑا بلنڈر کر دیا ہے۔

    کالی بھیڑوں کا بڑا بلنڈر

    سی ٹی ڈی سول لائنز پر سندھ رینجرز کی جانب سے چھاپے کے بعد رینجرز لانس نائیک وحید کی مدعیت میں سی ٹی ڈی میں ہی سی ٹی ڈی افسران و اہلکاروں اور پرائیویٹ شخص پر اغوا برائے تاوان کی دفعہ 365 اے کے تحت درج کر لیا گیا ہے۔

    ایس پی آپریشن ون سی ٹی ڈی عمران شوکت کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے

    مدعی وحید کے مطابق اس کا بھانجا علیان 19 مئی کو عراق سے کراچی پہنچا تھا، جو دوپہر 2 بجے پنجاب جانے کے لیے سہراب گوٹھ اڈے پر جا رہا تھا، کہ شاہراہ فیصل پر وائرلیس گیٹ پر سرکاری موبائل اور ڈبل کیبن میں سادہ لباس مسلح افراد نے روکا اور بھانجے کو قیمتی سامان سمیت اتار کر سرکاری موبائل میں سوار کیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔

    معطل ہونے والے ایس ایچ او امداد خواجہ، اور ڈی ایس پی سہیل سلہری

    مدعی کے مطابق بھانجے سے رابطہ نہ ہونے پر تلاش شروع کی گئی تو اس دوران 21 تاریخ کو بھانجے کے موبائل ہی سے نامعلوم شخص نے فون کیا اور کہا کہ تمھارا بھانجا علیان سی ٹی ڈی کی حراست میں ہے اور چھڑانا چاہتے ہو تو 15 لاکھ تاوان دو، تاہم منت سماجت کے بعد فون کرنے والا آخر 1 لاکھ روپے پر راضی ہو گیا۔

    رینجرز پارٹی سی ٹی ڈی میں داخل

    وحید کے مطابق اس نے اپنے ڈپارٹمنٹ کے افسران کو اطلاع دی اور رقم لے کر شام 4 بجے سی ٹی ڈی سول لائنز کراچی کے قریب پہنچا، جہاں موجود شخص نے رقم طلب کی اور موبائل فون پر بھانجے کو سامان سمیت باہر لانے کا کہا، جسے 3 افراد سامان سمیت لائے۔ مدعی سے ایک لاکھ روپے لے کر اس کے بھانجے کو سامان سمیت حوالے کر دیا گیا، اسی دوران رینجرز پارٹی سی ٹی ڈی کے اندر داخل ہو گئی۔

    آئی جی سندھ کو نوٹس لینا پڑا

    اغوا میں ملوث پولیس اہلکاروں میں سب انسپکٹر طاہر تنویر، اے ایس آئی شاہد حسین، پولیس کانسٹیبل عمر خان اور پرائیوٹ شخص اسامہ شامل تھے، لیکن کارروائی کے دوران پرائیوٹ شخص اسامہ موقع سے بھاگ گیا، واقعے کے بعد آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی جو کہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی بھی ہیں، ان کی جانب سے سخت نوٹس لیا گیا۔

    آئی جی کے حکم پر ایس پی سی ٹی ڈی آپریشن ون عمران شوکت کو سی پی او رپورٹ کرنے، جب کہ ڈی ایس پی سہیل اختر سہلری کو معطل کر دیا گیا، مبینہ طور پر ایس ایچ او سی ٹی ڈی امداد خواجہ کو بچانے کے لیے انھیں صرف معطل کیا گیا۔

    شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کے اس واقعے کا نتیجہ؟

    مدعی وحید کے بیان کے مطابق یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس بھونڈے طریقے سے شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کی یہ واردات کی گئی، تاوان طلب کیا گیا اور اپنے دفتر کے دروازے ہی پر رقم اور مغوی کا لین دین کیا گیا۔ اگر یہ کارروائی کامیاب بھی رہتی تو شاید فی شخص 25 ہزار روپے تقسیم ہونے تھے۔

    چناں چہ، اس سارے عمل اور اس کے بعد ہونے والے ایکشن کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ سی ٹی ڈی کو عمر شاہد حامد جیسے افسران کی سخت ضرورت ہے، ملک میں جس طرح کی صورت حال ہے ایسے محکموں میں اندرونی طور پر چیک اینڈ بیلنس کا فوری سسٹم نافذ کرنا پڑے گا، تاکہ بعد میں ہونے والی رسوائی سے بچنے کے لیے اندرونی طور پر ہی ایسے عناصر کی پہلے ہی سے سرکوبی کی جائے۔