اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
پنجاب کے مرکزی اضلاع سیالکوٹ، گجرات، گوجرانولہ اور جہلم کے نوجوانوں میں آج کل پنجابی کا ایک جملہ ’بیچو مکان تے چلو یونان ‘(مکان فروخت کرو اور یونان چلو) ایک رائج الوقت محاورے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے‘ اس جملے کے اس قدر زبان زد عام ہونے سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ یورپ جانے کی خواہش ایک وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے اور یہ نوجوان اپنی ہر چیز داؤپر لگا کر یورپ چلے جانا چاہتے ہیں۔
اس معاملے کی وجوہات میں اگر جائیں تو اولاً بے روزگاری اور دوئم معاشرتی عدم توازن ، راتوں رات امیر بننے کا خواب نوجونوں کو اس مہم جوئی پر اکساتا ہے اور وہ کسی ایسے ایجنٹ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ‘ جو ان کو سمندر پار کی دنیا میں پہنچا دےیہ جانے بغیر کہ کیا وہ وہاں پہنچ بھی سکیں گے یا راستے میں ہی اپنی زندگی کی بازی ہار جائیں گے۔ ایجنٹ کے لئے بھی انہیں کوئی دفتر تلاش کرنا نہیں پڑتا بلکہ گلی کی نکڑ پر واقع چائے کے کھوکھے پر اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار یا دوست پہلی دفعہ یہ ملاقات کروا دیتا ہے اوراس کے بعد ایک ٹیلفون نمبر ان کے درمیان تمام رابطوں کا ذریعہ بنتا ہے۔
نہ کسی پاسپورٹ کی ضرورت‘ نہ سفری دستاویزات کی ۔۔۔ بس ایک بیگ اور چند سو ڈالر لے کر یہ نوجوان گھر سے نکلتے ہیں ، اس کے بعد ان کو ہر ہدایت ایجنٹ کے موبائل سے ملتی ہے کہ اسے کہاں پہنچنا ہے؟۔بلوچستان میں داخل ہوتے ہی انسانوں کی اس کھیپ کو بھیڑ بکریوں کی طرح پچھلا ایجنٹ انہیں اگلے ایجنٹ کے حوالے کردیتا ہے۔ انسانی سمگلروں کا یہ ایک پورا مافیا ہے جس کا نیٹ ورک اس گلی کے نکر پر ملے ایجنٹ سے لے کرایران‘ ترکی اور یونان کی سرحدوں تک پھیلا ہوتا ہے۔وطن چھوڑنے والے دراصل ایک طرح ان کے یرغمالی ہوتے ہیں جن کے ایجنٹ بدلتے رہتے ہیں۔ ہر ایجینٹ کی اگلے ایجنٹ کے ساتھ ایک ڈیل ہوتی ہےجس کے تحت یہ ادلا بدلی ہوتی ہے۔
خشکی کے راستے یورپ جانے والے یہ نوجوان پاکستان سے ایران ‘ اور پھر ایران سے ترکی اور پھر وہاں سے ترکی کا بارڈر کراس کرکے یونان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔بظاہر ایک جملے میں لکھا جانے والا سفر بہت آسان لگتا ہےلیکن ان تمام داستانوں کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے‘ جس میں کسی کے فرار ہونے کے واقعے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ ان ناولوں ‘ کہانیوں اور آپ بیتیوں میں ان کے کرداروں نے کیسی کیسی مصیبتیں تکالیف برداشت کیں‘ کن مشکلات اور دکھ درد کا ان کو سامنا کرنا پڑا ، لیکن آپ یقین کریں کہ اس کے مقابلے میں اگر آپ ان تارکینِ وطن کی صعوبتیں اور تکالیف سنیں تو آپ کو لگے گا کہ وہ تمام کہانیاں ان واقعات کے سامنے بالکل ہیچ ہیں۔
یہ تارکین وطن اپنی جان کی بازی لگا کر یونان پہنچتے ہیں‘ حالات کس قدر خوفناک ہوں گے خود ان کو بھی اندازہ نہیں ہوتا۔ وادی مرگ کا یہ سفر بلوچستان کے صدر مقام کوئٹہ سےنکلتے ہی شروع ہوجاتا ہے جہاں سے ان کی واپسی کا راستہ تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی واپس آنا چاہئے تو یہ ایجنٹ اس کو جان سے مار دیتے ہیں‘ ان ایجنٹوں کو واپس جانے والوں سے دو خطرے ہوتے ہیں ‘ ایک تو یہ کہ واپس جانے والاپنجاب والے ایجنٹ کو پکڑوا نہ دے ‘ دوسرا جو پوری رقم انہوں نے ایڈوانس میں لی ہوتی ہے ‘ وہ واپس نہ کرنی پڑ جائے چناچہ وہ ایسے افراد کو باقی لوگوں کے سامنے کسی پہاڑ سےدھکا دے دیتے ہیں یا گولی مار دیتے ہیں کہ دوسرے اس سے عبرت پکڑیں اور واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں۔
ان ایجنٹوں کےعلاوہ علیحدگی پسند تنظیموں اور فرقہ پرست دہشت گرد وں کی جانب سے دوسرے فرقے کے لوگوں کو ڈھونڈ کر مار دینے کا خطرہ علیحدہ اپنی جگہ موجود ہوتا ہے ‘ علاوہ ازیں پنجاب سے جانے والوں کو قطعی وہاں کے جغرافیائی حالات کا علم نہیں ہوتا لہذا میدانوں کے رہنے والے یہ نوجوان جب خطرناک پہاڑی سلسلوں‘ صحراؤں ‘ ندی نالوں اور جنگلوں میں میلوں پیدل چلتے ہیں تو ان میں کئی کسی حادثہ کا شکار ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور جو زخمی ہوجائے ‘ اسے بھی یہ ایجنٹ خود مار دیتے ہیں کیونکہ وہ اس سفر کے دشوار گزار راستوں کو عبور کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ پیچھے ان کو چھوڑا نہیں جاسکتا اور یہ ایجنٹ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ان کا کام ایک انسانی کھیپ کو ایران کی سرحد پر پہنچانا اور پھر دوسری آنے والی کھیپ کے درمیان وقفہ قائم رکھنا ہے۔
اس سفر میں یہ تارکین وطن ہر جانب دم موت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں ‘ ابھی حال میں ہی تربت سے ملنے والی پندرہ لاشوں کی خبر تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ کیسے ان کو ایک علیحدگی پسند تنظیم کے لوگوں نےگولیوں سے بھون ڈالا ان میں سے بچ جانے والے ایک سترہ سالہ لڑکے نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایجنٹوں سے یونان جانے کے ایک لاکھ پینتس ہزار طے کئے تھے گویا وہ اپنی جان کا سودا ایک لاکھ پینتس ہزار میں کررہاتھا۔
یہ ایجنٹ جانے والے نوجوانوں کے ساتھ سودا طے کرتے ہوئے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ وہ کتنا افورڈ کرسکتا ہے اور اسی حساب سےپیسے طے کرتے ہیں‘ عام طور پر سوالاکھ سے لے کر ساڑے تین لاکھ تک میں سودا طے پاتا ہے‘ کچھ پیسے پہلے لے لیتے ہیں۔۔ بقایا یونان پہنچ پر کمائی کرکے دینے کے وعدہ پر لے جاتے ہیں۔لیکن کمائی کرکے پیسے واپس کرنے والی بات بالکل جھوٹ ہوتی ہے اس سے پہلے ہی یہ ایجنٹ مختلف بہانوں سے اصل کا تین گنا وصول کر لیتے ہیں ۔
یہاں ان نوجوانوں کے گھر والوں کا رد عمل بھی زیر بحث نہ لایا جائے تو موضوع مکمل نہ ہوگا‘ ان نوجوانوں کے پچانوے فیصد خاندانوں کے افراد کی ناصرف اس میں رضامندی شامل ہوتی ہےبلکہ خاندان کا ہر فرد اپنی اپنی بساط کے مطابق جتنی بھی مالی مدد ہوسکےوہ کرتا ہے ۔ پونڈ اور ڈالر کا خمار کچھ ایسا چڑھتا ہےکہ اگر کسی کو ان خطرات کا علم بھی ہو تو وہ چُپ سادھے رہتا ہے کہ کہیں لڑکا ڈر کر اپنا ارادہ ملتوی ہی نہ کردے۔
موت اور زندگی کےاس کھیل میں ان تارکینِ وطن کے سامنے تین ملکوں کی بارڈر سیکورٹی فورسز ہوتی ہیں جن کو چکما دے کر انہیں ایران‘ ترکی اور پھر یونان مین داخل ہونا ہوتا ہے۔ یہ فورسز کوئی عام لوگ نہیں بلکہ تربیت یافتہ فوجی ہوتے ہیں جن کا روزانہ ان جیسےتارکین وطن سے واسطہ پڑتا رہتا ہے ‘ ان نوجوانوں میں سے بہت سارے بارڈر کو کراس کرتے ہوئے ان فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ایران اور ترکی میں غیر قانونی طور سفر کرتے ہوئےان افراد کا واسطہ ایسے قبائل سے بھی پڑتا ہےجو کہ ذرا سی بات پر ان کو مار ڈالتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر ترکی‘ ایران اور عراق میںموجو کرد قبائل ہیں جو کہ خود علیحدگی چاہتے ہیں۔ یہ کسی اجنبی کو اپنے علاقے میں برداشت نہیں کرتے۔ اور ان تارکین وطن کو ان کے علاقوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے‘ ایران اور ترکی کے اندر یہ لوگ کس طرح اپنا سفر جاری رکھتے ہیں کس طرح انہیں کسی جانوروں کی مانند گاڑیوں میں ٹھونس کر کنٹینروں میں بند کرکےلے جایا جاتا ہےاور کس طرح تہہ خانوں میں کئی کئی دن بند رکھا جاتا ہے‘ ان میں سے جو پکڑے جاتے ہیں ان کے ساتھ کیا ہوتا یہ ایک علیحدہ داستان ہےجس کی تفصیل میں جائیں تو ایک کتاب بھی لکھنا کم پڑسکتا ہے۔
مختصراً یہ کہ یہ لوگ محض چند مقامات پر خطروں کے مسافر نہیں ہوتے بلکہ وادیٔ موت کےچوبیس گھنٹوں کے راہی ہوتے ہیں۔ بلوچستان ‘ ایران اور ترکی کے سفر کے دوران جو لوگ مرجاتے ہیں ان کو کفن تو کیا قبر بھی نصیب نہیں ہوتی۔ انسانی جانوں کی جو بے توقیری ان ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔لیکن ترکی اور یونان کی سرحد پر ایسے قبرستان ہیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں ان تارکین وطن کی قبریں ہیں۔ لیکن ان بے نام قبروں پر کوئی کتبہ نہیں۔ حسب نسب اوروالدین کا پتہ نہیں۔وہ مسلم ‘ عیسائی‘ ہندو ہیں یا سکھ‘ کوئی تمیز نہیں ۔بس جس کی لاش ملی اسے دفن کردیا گیا نہ ان کی نماز جنازہ کسی نے پڑھائی نہ کسی چرچ میں آخری رسوم ہوئیں اور نہ مرنے والے کی آتما کی مکتی کے لئے کسی پنڈت نےگیتا کا پاٹھ کیا۔خدا ہی جانتا ہے کہ ماں باپ اور بھائی بہن کیسے گمنام لاوارث مرنے کے لئے اپنے جگر گوشوں کو اس سفر پر بھیج دیتے ہیں۔
انتہائی مفلس اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ کسی نہ کسی طرح بی ایس سی اور بی ایڈ کرکے وزیرآباد کےقریب علاقہ نظام آباد کے گورنمنٹ ہائی سکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہو گیا۔ 2004ء میں اس نے نوکری چھوڑ دی اور دبئی چلا گیا،وہ چھ ماہ دوبئی رہا پھر واپس آیا اور ایک ایسا کام شروع کیا کہ جس نے اسے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی مشہور کردیا۔اس نے اپنے ایک جاننے والے شخص سے جو کہ ماربل کا کام کرتا تھا، کچھ رقم مانگی اور یہ رقم پندرہ دن میں دوگنی کر کے اُسے واپس کردی ۔
محلے کے مزید دو لوگ اس کے اگلے گاہک بنے‘یہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہو گئے‘یہ دو گاہک اس کے پاس پندرہ گاہک لے آئے،اور پھریہ پندرہ گاہک مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہو گئے۔ پھر تولوگوں کی لائن لگ گئی محلہ سے شروع اس کام کی بھنک جس جس کے کان میں پہنچی لالچ اور طمع اسے اس شخص کے پاس لے آئی اور رقم دو گنا کروانے کا یہ لالچ وزیرآباد‘ سیالکوٹ گجرات اور گوجرانوالہ تک پھیل گیا.اور چند ہزار روپے تنخواہ لینے والا معمولی سکول ماسٹر چند ماہ کے اندر ارب پتی ہو گیا۔اس کا یہ کاروبار 18 ماہ جاری رہا۔اس شخص نے ان 18 مہینوں میں 48 ہزار لوگوں سے سات ارب روپے جمع کر لئے،جب کاروبار پھیل گیا تو اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا۔
یہ رشتے دار پورے گوجرانوالہ ڈویژن سے رقم جمع کرتے تھے, پانچ فیصد اپنے پاس رکھتے تھے اور باقی رقم اسے دے دیتے.وہ شروع میں پندرہ دنوں میں رقم ڈبل کرتا تھا.یہ مدت بعدازاں ایک مہینہ ہوئی.پھر دو مہینے.اور آخر میں 70 دن ہو گئی.یہ سلسلہ چلتا رہا،درصل وہ شخص’پونزی سکیم‘چلا رہا تھا۔پونزی مالیاتی فراڈ کی ایک قسم ہوتی ہے جس میں رقم دینے والا گاہکوں کو ان کی اصل رقم سے منافع لوٹاتا رہتا ہے۔شروع کے گاہکوں کو دوگنی رقم مل جاتی ہےلیکن آخری گاہک سارے سرمائےسے محروم ہو جاتے ہیں۔اس کا نام سید سبط الحسن تھا لیکن وہ ڈبل شاہ کے نام سے مشہور ہوا اور ہمیشہ کیلئے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کے طور پر اپنا نام رقم کرگیا اس نے صرف ڈیڑھ سال میں تین اضلاع سے سات ارب روپے جمع کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔آپ اب اس شخص کی چالاکی ملاحظہ کیجئے،یہ 2007ءمیں نیب کے شکنجے میں آ گیا۔نیب نے اس کی جائیداد‘ زمینیں‘ اکاؤنٹس اور سیف پکڑ لئے‘یہ رقم تین ارب روپے بنی،اور اس نے یہ تین ارب روپےچپ چاپ اور بخوشی نیب کے حوالے کر دیئے۔
ڈبل شاہ کا کیس چلا اسے یکم جولائی 2012ءکو 14 سال قید کی سزا ہو ئی جیل کا دن 12 گھنٹے کا ہوتا ہے چنانچہ ڈبل شاہ کے 14 سال عملاً 7 سال تھے۔عدالتیں پولیس حراست‘ حوالات اور مقدمے کے دوران گرفتاری کو بھی سزا سمجھتی ہیں۔ڈبل شاہ13 اپریل 2007ءکو گرفتار ہوا تھا‘وہ عدالت کے فیصلے تک پانچ سال قید کاٹ چکا تھا‘یہ پانچ سال بھی اس کی مجموعی سزا سے نفی ہو گئے‘پیچھے رہ گئے دو سال‘ ڈبل شاہ نے محسوس کیاچار ارب روپے کے عوض دو سال قید مہنگا سودا نہیں،چنانچہ اس نے بارگین کی بجائے سزا قبول کر لی۔جیل میں اچھے چال چلن‘ عید‘ شب برات اور خون دینے کی وجہ سے بھی قیدیوں کو سزا میں چھوٹ مل جاتی ہے۔ڈبل شاہ کو یہ چھوٹ بھی مل گئی.چنانچہ وہ عدالتی فیصلے کے 2ماہ بعدجیل سے رہا ہوگیا۔ڈبل شاہ 15مئی 2014ءکوکوٹ لکھپت جیل سے رہا ہوا،تو ساتھیوں نے گیٹ پر اس کا استقبال کیا۔یہ لوگ اسے جلوس کی شکل میں وزیر آباد لے آئے۔وزیر آباد میں ڈبل شاہ کی آمد پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا۔پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کو ہار پہنائے گئے۔اس پر پھولوں کی منوں پتیاں برسائی گئیں،اور اسے مسجدوں کے لاؤڈ سپیکروں کے ذریعے مبارک باد پیش کی گئی۔ حیرت یہ ہے کہ وزیرآباد میں آج تک کبھی کسی سیاسی مذہبی اور کھلاڑی کو اتنی پزیرائی نہیں ملی تھی جتنی اس شخص کو ملی ،آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں ہمارا معاشرہ اندر سے کتنا کھوکھلا ہے ہماری اقتدار جو کسی دور میں ایک رشوت لینے والے شخص کو بھی دھتکار دیتی تھیں ایک ایسے شخص کے رہا ہونے کا خیر مقدم کررہی تھیں
جس کا کیا ہوا کام نہ قانونی تھا نہ اخلاقی اور نہ ہی مذہب ہی اس کی اجازت دیتا تھا وہ سرے عام لوگوں کو لوٹ رہا تھا اور ہر شخص یہ بھی جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ گیم ختم ہوجانی ہے لیکن ہر کوئی یہی چاہ رہا تھا کہ ڈبل شاہ اپنا کاروبار دوبارہ سے شروع کردے۔ جیل سے رہا ہونے کے بعداس نے قانونی طورپر اب کسی کو کچھ ادا نہ کرنا تھا،اور نہ ہی پولیس اور نیب اسے تنگ کر سکتی تھی۔یہ چار ارب روپے اب اس کے تھے۔یہ اس رقم کا بلا شرکت غیرے مالک تھاایک سابق سکول ٹیچر کےلئے چار ارب روپے کی رقم قارون کے خزانے سے کم نہیں تھی.وہ وزیرآباد سے لاہور شفٹ ہوا،اور دنیا بھر کی سہولیات کے ساتھ شاندار زندگی گزارنے لگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈبل شاہ کے آگے پوری ضلعی انتظامیہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نیب اور احتساب کے ادارے بے بس کیوں ہوگئے تھے وہ کیوں اس سرعام یوں عوام کو لوٹتا رہا اس کئی وجوہات تھیں جن مین ایک تو یہ کہ بڑے بڑے بیورو کریٹس یہاں تک کہ پولیس کے اعلی افسران بھی اس کے کلائنٹ تھے جو انہیں پیسے ڈبل کرکے دے رہا تھا گجرات کی ایک سیاسی فیملی بھی اس کے پیچھے تھی جس کے ایک فرد کو مبینہ طورڈبل شاہ ماہانہ علیحدہ دیتا تھا اورکوئی چانس نہیں تھا کہ کوئی اس پر ہاتھ ڈالے۔ لیکن آپ کےعلم میں ہوگا کہ یہ سیاسی حلقہ وزیرآباد کے ایک مشہورمسلم لیگی خاندان کا ہےاور یہ ان کی آبائی سیٹ سمجھی جاتی ہے ڈبل شاہ تحصیل میں اس قدر اپنا اثر ورسوخ بنا چکا تھا کہ گاؤں کے گاؤں اس کے گرویدہ ہوچکے تھے اور اس کیلئے لڑنے مرنے کو تیار تھے اودھر کچھ لوگوں نے اسے سیاست میں حصہ لینے کا مشورہ دینا شروع کردیا ، تاہم جیل کے چکر کے سبب وہ سلسلہ دراز نہ ہوسکا۔
ایک دلچسپ بات آپ سے شیئر کرتا چلوں کیونکہ میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے اس لئے میں اس کے کئی متاثرین کو بھی جانتا ہوں جن کے لاکھوں ڈوب گئے اور کئی ایسے بھی ہیں جو اس کی وجہ سے آج کروڑوں پتی ہیں ہمارے لوگ لالچی اور منافق ہیں اُس دور میں ضلع گوجرانوالہ کی ہر محفل میں ڈبل شاہ زیر بحث ضرور ہوتا تھا اور ان میں اگرکوئی بڑے احترام سے اسے شاہ صاحب کہہ کر پکارتا تو یہ اس بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی تھی ان صاحب نے پیسے دوگنے کرانے کیلئے دیئے ہوئے ہیں اورجو شخص ڈبل شاہ کہتا بس سمجھ جاتے کہ موصوف ابھی تک بچے ہوئے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھاگ جانے کیلئے تیار تھا لیکن الیکشن میں حصہ لینے اور ایم این اے بننے کے چکر میں نہ بھاگا اور نیب کے ہتھے چڑھ گیا۔
عین ممکن ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ممبر پارلیمنٹ بن کروہ خود بااثرہوجائے گا اور پھر کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکے گا ان سیاسی اور انتظامی افسران کی بلیک میلنگ سے بھی بچ جائے گا لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
آئیں! ذرا اب اس وقت وزیرآباد کے مالیاتی اداروں میں کیا ہورہا تھا اس کا بھی ذکر کرتے جائیں کہتے ہیں کہ وزیرآباد کے اس وقت کے جتنے بینک تھے ان کے پاس سوائے بل جمع کرنے کےاور کوئی کام باقی نہ رہا فیکڑی مالکان سے لے کر معمولی دوکاندارتک بینک میں پیسے رکھنے کی بجائے ڈبل شاہ کے پاس جمع کرانے کو ترجیح دیتے، یہاں تک کہ بینک مینجر بھی اپنے پیسے نکال کر اسے دے رہے تھے بینکوں کے مینجروں کو ان کے ہیڈ آفس سے شوکاز نوٹس جاری ہورہے تھے کہ ان کی برانچوں میں کوئی پیسہ کیوں نہیں آرہا، نیز یہ کہ کئی بینک تو اس پے بھی غور کررہے تھے کہ جب تک یہ مسئلہ ہے اپنی برانچوں کو عارضی طور پر بند کردیا جائے۔
اب ذرا پراپرٹی کی طرف آتے ہیں تو اس پینزی گیم نے لوگوں کو اپنی املاک سے بھی محروم کردیا گوجرانوالہ کی تاریخ میں اتنی سستی جائدادیں کبھی نہیں ہوئی ہوں گی جتنی ان دنوں میں ہوگئی تھیں ۔لوگ جائیدادیں اونے پونے بیچ کر ڈبل شاہ کو پیسے دے رہے تھے گوجرانوالہ میں کئی پرائیویٹ رہائشی سکیمیں صرف اسی وجہ سے فلاپ ہورہی تھیں لوگ اپنے پلاٹ بیچ رہے تھے اور خریدنے والا کوئی نہ تھا وزیر آباد اور اس کے گرد نواح میں پراپرٹی کا اس سے بھی برا حال تھا ۔دکانیں مکان پلاٹوں کی قیمتیں آدھی سے بھی کم رہ گئیں تھیں لیکن ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ جب اس بات کا چرچا دوسرے علاقوں تک پہنچا تو سمجھ دار پراپرٹی اینوسٹر جو کہ جانتے تھے کہ اس ڈرامہ کا فلاپ سین ہو ہی جانا ہے وہ وزیرآباد آکر جائیدادیں خرید کرنے لگے۔
وزیر آباد کے دیہاتوں میں اس سے بھی برا حال تھا کہ لوگوں نے زیور, مویشی گاڑیاں ٹریکٹر غرض جو چیز ہاتھ لگی بیچ ڈالی اور ڈبل شاہ کے پاس جمع کروادی رقم کی بھی کوئی حد نہ تھی پانچ ہزار سے لیکر پچاس لاکھ تک جو جتنا کرسکتا تھا لے آیا۔ جس کی جتنی بساط تھی اس نے اسی حساب سے پیسے جمع کروادئے ۔اس کے دفتر میں بیٹھے اس کے کارندے ہر آنے والے سے پیسے لیتے گنتی کرتے اور ایک سادہ کاغذ پر رسید لکھ کر دے دیتے، اسی دور میں وہاں کے ایک ایم پی اے نے اس کےساتھ عجیب ڈرامہ کیا اس نے کوئی پچیس لاکھ کے قریب پیسے ڈبل شاہ کو دئے اور اپنے دو گارڈ اس کے پاس چھوڑ دیے اس وقت وہ رقم دوگنی کرنے میں ایک ماہ لگاتا تھا یہ گارڈ اس عرصہ میں اس کے ساتھ رہے اور انہوں نے ایک منٹ کیلئے بھی ڈبل شاہ کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیا اور ہر وقت پیچھے ان ایم پی اے صاحب کو بھی اطلاع کرتے رہے یہاں تک ایک ماہ بعد رقم ڈبل کرواکر وہ ایم پی اے اپنے پچاس لاکھ کے ساتھ اپنے گارڈوں کو بھی واپس لے گے پیسے دوبارہ جمع کروانے کے متعلق اسے پتہ تھا کہ اب یہ گیم زیادہ دن نہیں چلے گی۔
ایک اور صاحب تو اس سے بھی بڑا ہاتھ ڈبل شاہ کے ساتھ کرگیا یہ بھی ایک سیاسی پارٹی کے عہدےدارتھےایک دن ایک بوڑھا شخص ڈبل شاہ کے پاس آیا اور اسے پرچی دکھائی جس کے تحت اُسے اب ڈبل شاہ نے بیس لاکھ کی رقم ادا کرنی تھی لیکن اس کے کارندوں نے اس پرچی کو جعلی قرار دے دیا جس پر وہ بوڑھا شخص اس سیاسی شخصیت کو اپنے ساتھ لے کر ڈبل شاہ کے پاس آیا اُس سیاسی شخصیت نے ڈبل شاہ کو کہا کہ تم اس غریب کے ساتھ زیادتی کررہے ہو جس پر ڈبل شاہ نے کہا کہ اگر یہ سچا ہے تو آپ اس کی قسم دے دیں میں پیسے دے دوں گا ، ڈبل شاہ کا خیال تھا کہ وہ کبھی اس کی قسم نہیں دے گا لیکن وہ اس وقت حیران رہ گیا جب اس اچھے کھاتے پیتے معزز گھرانہ کے فرد نے اس بوڑھے شخص کی قسم دے دی مجبوراً ڈبل شاہ کو رقم دینی پڑی بعد ازاں پتہ چلا کہ یہ نوسربازی اُس سیاسی شخصیت کےاپنے ذہن کی پیدوار تھی اس نے اس غریب بابا جی کو بھی ایک یا دولاکھ دئے اور خود مفت میں اٹھارہ لاکھ کا چونا ڈبل شاہ کو لگا گیا لیکن ڈبل شاہ بہت بڑا فراڈیا چور نوسرباز تھا اس لئے اسے ان بیس لاکھ سے کیا فرق پڑنے والا تھا۔
بہت کم لوگ ایسے تھے جو اپنے پیسے جمع کرواتے اور مقررہ قوت پر واپس لے لیتےزیادہ تر مقررہ وقت پر اپنی رقم واپس لینے کی بجائے ڈبل کئی گئی رقم واپس اس کے پاس جمع کرواجاتے جبکہ کچھ ایسے بھی تھے جو اصل رقم واپس لے جاتے اور دوگنی ہوئی رقم دوبارہ سے جمع کرواجاتے یعنی یہ سمجھ لیں کہ اسی فیصد لوگ پیسہ واپس ہی نہیں لے رہے تھے بلکہ دوبارہ سے ڈبل کرنے کیلئے جمع کروا دیتے تھے۔
آئیں !ایک اور دلچسپی کی بات بھی بتاتا چلوں ان دنوں میں ایک افواہ پھیلی کہ موبائل کے اندر ایک ایسا وائرس آیا ہوا ہے کہ جب کوئی موبائل سننے کیلئے ان کرتا ہے تو اس کا دل بھی بند ہوجاتا ہے اور موت واقع ہوجاتی ہے یہ افواہ تو خیر پورے ملک میں تھی لیکن اس قسم کا اگر کوئی واقع ہوا تھا تو اس کا تعلق ڈبل شاہ سے تھا ہوا یوں تھا کہ جب ڈبل شاہ پکڑا گیا تو جن لوگوں نے پیسے اس کے پاس جمع کروائے تھے ان میں سے کچھ لوگوں کو جب یہ خبر موبائل پر بتائی جاتی تو وہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہوگئے ان میں ایسے بھی ہوں گے جن کے اپنے قریبی رشتے داروں کو بھی پتہ نہیں ہوگا کہ اس نے پیسہ دیئے ہوئے تھے لہذا انہوں نے اوپر نیچے ہوئی اموات کو وائرس یا کچھ نے تو جنوں کی کارستانی بھی بتایا۔ اگر آپ اس دور کے اخبارات دیکھیں تو آپ کو ایسی کئی خبریں ملے گئیں کہ کوئی موبائل سنتے سنتے اللہ کو پیارا ہوگیا۔
جن دنوں میں ڈبل شاہ کا یہ کام عروج پر تھا تو اس کے ڈیرہ پر عجیب منظر ہوتا تھا پیسے جمع کروانے والوں لینے والوں یا اپنا کھاتہ دیکھنے والوں کی لائنیں لگی ہوتی تھیں اس کے بے شمار کارندے بیٹھے نوٹ گن رہے ہوتے پرچیاں لکھنے والے اور چیک کرکے ڈبل شاہ سے سائن کروانے والے علیحدہ تھے ارد گرد بوریوں تھیلوں الماریوں ٹیچی کیسوں میں پیسے سرے عام کھلے پڑے ہوتے تھے شروع میں تو وہ اکیلا ہی تھا لیکن جیسے جیسے پیسے آنے شروع ہوئے اس نے ملازم اور گارڈ بھی رکھ لئے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کسی نے اسے لوٹنے کی کوشش نہیں کی۔ رقم جمع کروانے والے اور نکلوانے والے کو بھی کوئی پرٹوکول نہیں دیا جاتا تھا بس اس سے پرچی لی جاتی اور رقم ادا کردی جاتی یا پیسے گن کر پرچی گاہک کے حوالے کردی جاتی۔ چائے تو دور کی بات کسی کو پانی بھی نہیں پوچھا جاتا تھا۔
لیکن اب اللہ کا نظام بھی ملاحظہ کیجئےسید سبط الحسن شاہ عرف ڈبل شاہ کو رہائی کے 16 ماہ بعداکتوبر 2015ءمیں لاہور میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ اسے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا‘ اس کی طبیعت تھوڑی سی بحال ہوئی‘یہ گھر آیا،لیکن پھر یہ شخص اکتوبر 2015ءکو انتقال کر گیا۔یہ شخص چار ارب روپے کا مالک ہونے کے باوجود دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو گیا۔ آخر میں ایک اور دلچسپ بات آپ کو بتاتا چلوں کہ کسی صحافی نے امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا تھا کہ فرض کریں کہ آپ اپنی تمام دولت دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو آپ کون سا کاروبار کرنا چاہئے گے تو دنیا کے اس طاقت ور انسان نے جواب دیا کہ وہ پونزی کا کروبار کرنا پسند کرے گا۔
میرا تجربہ ہے کہ محض ماں ہی نہیں بیٹی بھی ماں کی بہت اچھی سہیلی ہوتی ہے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ نہایت کمسنی میں میری پہلی دوستی اپنی امی سے ہوئی تھی امی کی سہیلی بننے کا اپنا لطف اور بڑا انوکھا تجربہ تھا۔ امی کی سہیلی بنی تو امی نے غیر محسوس طریقے اور بڑے سلیقے سے اپنے ہنر مجھ میں منتقل کرنے شروع کر دیے۔ ابھی اسکول میں داخلہ بھی نہیں لیا تھا کہ امّی نے تعلیمی تاش کھیلنا سکھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اوّل جماعت کی طالبہ تھی تب نونہال پڑھا کرتی تھی۔ کیرم، لوڈو، کسوٹی بھی امّی نے سکھایا۔کھیل کے دوران امّی کے لحاظ میں اپنی متوقع فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی دو ایک مرتبہ تو امّی نے نظر انداز کر دیا پھر احتجاج کیا کہ اس طرح میں نہیں کھیلوں گی۔
میں نے بہت اچھی کتابیں پڑھی ہیں تم پڑھو گی؟ ایک دن امی نے سوال کیا۔ کیوں نہیں؟ سنتے ہی میں خوشی سے کِھل اٹھی۔ تب امی نے نہ صرف مجھے مولانا راشد الخیری کی صبح زندگی، شام زندگی، شب زندگی پڑھوائیں بلکہ گاہے گاہے اس حوالے سے ہمارے مابین گفتگو بھی رہتی۔ گویاغیر محسوس طریقے سے امی نے تبصرہ نگاری کی تربیت بھی کر دی۔ بیت بازی کے اصول امی سے سیکھے۔ رفتہ رفتہ یہ دل خوش کن احساس ہُوا کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ ہم چاروں بہنیں امی کی بہترین سہیلیاں ہیں۔ امّی ہم بہنوں سے مشورہ بھی لیتیں اور بہت سی باتیں ہم سے بانٹتیں بھی تھیں۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ رفاقت کا یہ سفر خوشگوار ہوتا چلا گیا فرق پڑا تو بس اتنا کہ اب اقتضائے عمر کے تحت امّی حال سے زیادہ اپنے ماضی میں سفر کرتی ہیں اور میں ہر سفر میں اُن کی شریک بن کر کبھی اُن کے زمانۂ طالبِ علمی کے مزے مزے کے واقعات سنتی ہوں، کبھی اُن کی ہم عمر سہیلیوں کی باتیں تو کبھی تحریکِ پاکستان کی یادیں۔ کبھی باتیں کرتے کرتے امی بھول بھی جاتی ہیں، کبھی ایک ہی واقعہ کئی مرتبہ سنا دیتی ہیں لیکن میں ہر بار پہلی مرتبہ والے اشتیاق سے سنتی ہوں کہ امی کی سہیلی جو ہوں لیکن یہاں میں بہت فخرو انبساط سے کہوں گی کہ صرف امی کی بیٹیاں ہی اُن کی بہترین سہلیاں نہیں ہیں۔ اب اُن کی بہوئیں بھی اُن کی سہیلیاں بن گئی ہیں اور پیشانی پر بل لائے بغیر امی سے اُن کے واقعات سنتی ہیں۔
آج ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے سروے رپورٹ کے شرکا سے سوال کیا کہ ”کیا بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے؟“ ان کے جواب پیشِ خدمت ہیں۔
صدف آصف (مصنفہ)
ایک لڑکی جب دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تو اس کے ارد گرد بہت سارے رشتے ناطے موجود ہوتے ہیں،تاہم اس میں سب سے مقدس،قریبی اور محبت سے بھرپور ماں کا رشتہ ہوتا ہے۔ اس میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ دنیا میں ماں کا کوئی دوسرا نعم البدل ہوسکتا ہے۔ ایک طرف ماں بیٹی کی بہترین صلاح کار ہوتی ہے تو دوسری طرف بیٹی کو بھی ماں جیسی دوست کی ضرورت زندگی کے ہر موڑ پر چاہیے ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہر بات، ہر الجھن، ہر مسئلہ صرف اپنی ماں سے شیئر کرنا چاہتی ہے۔ بیٹی اگر باپ کی لاڈلی ہوتی ہے تو وہ اپنی ماں کی بہترین سہیلی بن جاتی ہے،ان دونوں کے مابین یہ رشتہ جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی بیٹی کے لیے مفید ہو گا اور جو لڑکیاں باہر کی مصنوعی چکا چوند سے متاثر ہو کر غیروں پر اعتماد کرنے کی راہ پر چل پڑتی ہیں، پھر دنیا انہیں ٹھوکروں پر رکھ لیتی ہے۔ آج کل بچیوں کے لیے معاشرے میں جتنی برائیاں موجود ہیں، انہیں ماں کا سہارا لینا ضروری ہے۔ ماؤں کو بھی دنیا کے جھمیلوں میں ایک پیاری سی بیٹی کا ساتھ میسر آجائے تو وہ پریشانیوں میں خود کوتنہا نہیں سمجھتی ہے، اپنے تجربے کا نچوڑ بیٹی کی تربیت میں لگا کر وہ اسے دنیا میں کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ ماں بیٹی کے مابین دوستی کا مضبوط بندھن، دونوں کے لیے اطمینان کی وجہ بنتا ہے،ماں بیٹی کی سہیلی بن کر امور خانہ داری سے لے کر زندگی گزارنے کا ہر ہنر سکھاتی چلی جاتی ہے۔ ماں کے کاندھے پر اولاد کی تربیت خصوصا بیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جسے کل کی ماں بننا ہے۔ اگر اس کے مزاج میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے بہت ساری علتوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔
فرناز رئیس (گھریلو خاتون)
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر جو خدا کو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
سو فیصد بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے۔ میرا اور میری بیٹی کا تعلق ایسا ہی ہے۔شروع ہی سے میں نے اپنی بیٹی سے کہا ماں بیٹی کا رشتہ دوستی کا ہوتا ہے اور میری پیاری بیٹی ہر مسئلہ اور ہر بات مجھے بتاتی ہے اور میں اپنی باتیں اس سے کہتی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ ماں بیٹی کی دوستی بیٹیوں کے حق میں بہت اچھی ہوتی ہے کیونکہ باتوں ہی باتوں میں بیٹی کو بہت کچھ سکھادیا جاتا ہے۔ اچھے برے کی پہچان کرا دی جاتی ہے۔ ایسا ہی تعلق میرا اور میری امی کا تھا اور ہے۔ میری امی میری نبض شناس ہیں میرے کہے بنا محض شکل دیکھ کر جان لیتی ہیں کہ میں کس کیفیت سے گزر رہی ہوں۔ امی کا رویہ ہمارے ساتھ ہمیشہ دوستوں جیسا ہی رہا۔کوئی بھی بات ہمیں سختی سے نہیں سمجھاتی تھیں۔ اس لیے ہمیں حوصلہ ملتا تھا امی سے سب باتیں کہہ دیں لیکن اس وقت کا ماحول ایسا تھا کہ کچھ باتیں امی سے کہتے لحاظ آڑے آتا تھا مگر میں نے اپنی بیٹی کو اتنا با اعتماد بنایا اور اس سے کہا ہر اچھی بری بات، کوئی مسئلہ ہو مجھ سے بلا جھجک کہو اور وہ مجھ سے ہر بات کہہ دیتی ہے۔ اس لیے ہمارا دوستی کا رشتہ زیادہ مضبوط ہے۔
اسماء ناصر (خاتونِ خانہ)
بیٹی ماں کی سب سے اچھی سہیلی ہوتی ہے،کیونکہ سب سے زیادہ وہی اپنی ماں کو جان سکتی ہے۔ اُن کی تمام کیفیات سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے۔ جو بیٹیاں اپنی ماں کی بہت اچھی سہیلی ہوتی ہیں جب وہ خود بیٹی کی ماں بنتی ہیں تو اُس کی بہت عمدہ تربیت کرتی ہیں کہ کس موقع پر اور کس حالت میں ایک لڑکی کو کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ جو بیٹیاں ماں کی سہیلیاں ہوتی ہیں وہ اپنے گھر سے بہت اٹیچ رہتی ہیں۔ میں نے بھی یہی کیا اور آج میں اپنی ماں کی بہت اچھی سہیلی ہوں تو میری بیٹیاں بھی میری بہت اچھی سہیلیاں ہیں جن سے میں اپنے دل کی بات کہ سکتی ہوں۔
تسلیم فاطمہ (معلمہ)
بچے تو سارے ہی ماں کو عزیز ہوتے ہیں، لیکن بیٹیاں ماں سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔وہ ماں کی سہیلی ہوتی ہیں۔ میری والدہ میری سب سے اچھی سہیلی ہیں۔ ہماری دوستی کب ہوئی؟ اس کا مجھے کوئی جواب نہیں ملتا۔ ہم گھنٹوں ہرموضوع پرگفتگو کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے اپنی ساری دل کی باتیں کہہ دیتی ہیں اور میں اُن کو اپنے سارے راز بتا دیتی ہوں۔ میں سوتی ہوں تو وہ سوتی ہیں۔ وہ جاگتی ہیں تو میں جاگتی ہوں۔ وہ اپنے بچپن کی ساری باتیں مجھ سے کر چکی ہیں اور میں ہمیشہ ان کی باتیں ایسی سنتی ہوں جس طرح پہلی بار سُن رہی ہوں۔ وہ مجھے میری غلطیوں سے جب آگاہ کرتی ہیں تو مجھے قطعی برا نہیں لگتا اور میں جب بھی اُن کی بات پر عمل کرتی ہوں تو مجھے فائدہ ہوتا ہے۔ میں جب تک پڑھتی ہوں میری والدہ میرے ساتھ جاگتی رہتی ہیں۔ امّی نے مجھے نویں جماعت تک پڑھایا اور ہمیشہ میری رہنمائی کی۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اُ ن کی رہنمائی اور محنت کا نتیجہ ہے۔
میری والدہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، اور وہ میٹرک کرنا چاہتی تھیں، لیکن چھوٹی عمر میں شادی کی وجہ سے خواہش ادھوری رہ گئی۔ جب امّی نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا تو میں نے اُن کے اس خواب کو پورا کرنے کی ٹھان لی۔ امّی کو پرائیوٹ میٹرک کروایا۔ امّی نے دن رات محنت کی اور ایک ہی سال میں نویں دسویں کا امتحان دیا اور اچھے نمبر وں سے کامیاب ہوئیں۔ ماں کی رفاقت نے مجھے دنیا کے سردوگرم سے بھی بچایا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہوتی ہے کہ میں اُن کی سہیلی ہوں اور اُن سے بہت پیار کرتی ہوں۔
ڈاکٹر نمرہ ارشاد
ماں بیٹی آپس میں جتنی زیادہ قریب ہوتی ہیں اُتنا ہی زیادہ دونوں کا رشتہ دوستی کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر ماں کی طرح بیٹی بھی ماں کے دکھ سکھ اُس کے چہرے سے پڑھ لیتی ہے۔ اگر بیٹی اپنی ہر بات ماں سے شیئر کرتی ہے تو وہ اپنی ماں کی ان کہی بات بھی محسوس کر لیتی ہے۔ بیٹی اُسی وقت ماں کی اچھی سہیلی ثابت ہوتی ہے جب وہ ماں کے احساسات و جذبات سے قریب ہو۔ ماں کا دل ایک سمندر کی طرح ہوتا ہے جس میں سب کچھ سما جاتا ہے دوستی کی بنیاد اعتماد اور بھروسہ ہے اور اسی بنیاد پر بیٹی ماں سے دوستی کی عمارت تعمیر کرتی ہے۔
مریم عرفان (معلمہ)
ماں اور بیٹی کا رشتہ دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو ایک دوسرے کے وجود کو مکمل کرتا ہے۔ ماں کے وجود ہی سے بیٹی کا وجود ہے اور بیٹی کے وجود ہی سے ماں کا وجود ہے۔ ماں اور بیٹی ایک دوسرے کی بہترین دوست اس طرح ہو سکتی ہیں کہ ماں بیٹی کے رشتے میں جتنی قربت ہوتی ہے وہ کسی اور رشتے میں نہیں ہوتی۔نظریات اور پسند اور ناپسند کے ہزار اختلاف کے با وجود وہ ایک دوسرے کی ہمراز اور ہم نوا ہوتی ہیں۔ ہر خوشی،غم اور تکلیف میں ایک دوسرے کا سب سے مضبوط سہارا بنتی ہیں شاید اس لیے کہ اس رشتے میں جذبوں کی ترجمانی الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔بیٹی کے دل کا حال ماں بن کہے جان لیتی ہے اور بیٹی کو بھی ماں کی ذات اور اس کی شخصیت پر اسی طرح اعتماد ہوتا ہے جیسا کہ خود پر، لیکن کہیں کہیں صورت حال اس کے برعکس بھی ہو تی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں ماں اور بیٹی کے رشتے میں دوستی کا رشتہ دکھائی نہیں دیتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ماں اپنی پرورش میں سختی۔ تنگ نظری اور قدامت پسندی کو شامل کر کے بیٹی کو کچھ اس قدر خوفزدہ کر دیتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ماں سے اپنے دل کی بات نہیں کہ پاتی اور ان دونوں کے بیچ ایک ایسا خلا آ جاتا ہے کہ ساری زندگی اسے پُر نہیں کیا جا سکتا۔ ماں ہی کو نہیں بیٹی کو بھی ماں کی سہیلی ہونا چاہیے اور اس معاملے میں میں بہت خوش قسمت ہوں۔
رمشا جنید (گھریلو خاتون)
بیشک بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے۔ یہ بات میں اپنے تجربے سے کہ رہی ہوں میں اور امی ایک دوسرے کی بہترین سہیلیاں ہیں۔ میں اُن سے اور وہ مجھ سے اپنی ساری باتیں شیئر کر لیتی ہیں، میں امی کے ساتھ گیمز بھی کھیلتی ہوں۔جتنا میں امی کو جانتی ہوں اور کوئی نہیں جانتا جب ہی تو میں امی کی سب سے اچھی سہیلی شادی سے پہلے بھی تھی اور شادی کے بعد بھی ہوں۔
اُم البنین (ڈینٹسٹ)
جی بالکل ماں کی سب سے بہترین اور قریبی سہیلی اُس کی بیٹی ہوتی ہے کیونکہ بیٹی ماں کی پرچھائیں ہوتی ہے۔ جیسا ماں کا مزاج ویسا ہی بیٹی کا ہوتا ہے تو ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ماں اپنے تجربے سے اپنی بیٹی کی رہنمائی کرتی ہے اور بیٹی موجودہ دور کے حساب سے ماں کے تجربات کی روشنی میں زندگی گزارتی ہے۔ ایک ماں سے بڑھ کر بیٹی کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اور وہ دونوں ایک دوسرے کی ہمراز ہوتی ہیں۔
مہرین بنگش (گھریلو خاتون)
جی بالکل، بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے، کیونکہ وہ ماں کے بہت قریب ہوتی ہے۔ اس لیے ماں کے دکھ سکھ کو بخوبی جان لیتی ہے بیٹی کوخود بھی ہر قدم پر اپنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں سے بڑھ کر شاید ہی کوئی اس دنیا میں اُس کا ہمدرد اور خیر خواہ ہو۔ جب میں اپنی ماں سے اپنا کوئی مسئلہ شیئر کرتی ہوں تو مجھے سکون ملتا ہے اور میں محسوس کرتی ہوں کہ میری ماں کی توجہ اور دعائیں مجھ پر اب پہلے سے بڑھ کر ہے۔ اسی طرح جب یہی صورتحال میری ماں کے ساتھ ہوتی ہے تو اُنہیں بھی ایسا ہی اطمینان ہوتا ہے مجھ سے اپنے دکھ سکھ کہہ کر۔
وجیہہ (طالبہ)
بیٹی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے، رحمت ہے اور نعمت ہے۔بیٹی ماں سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔اپنی حساس طبیعت کی وجہ سے وہ زیادہ محسوس کرتی ہے اور ہر طرح سے ماں کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ ماں کی ان کہی باتیں بھی بیٹی محسوس کر لیتی ہے اور ماں کے دکھ سکھ بانٹ لیتی ہے۔
ماہی (محنت کش)
جب بیٹی ماں کی قدر سمجھ لیتی ہے تو خود بخود اُس کی اچھی سہیلی بن جاتی ہے پھر یہ کہ جب بیٹی بڑی ہو جاتی ہے تو اُس سے پیار کرنے کے ساتھ ساتھ ماں اُسے اپنی سہیلی سمجھ کر اپنی ہر بات کر لیتی ہے اُس سے کوئی بات نہیں چھپاتی بلکہ اُس سے مشورہ بھی لیتی ہے۔ اور وہ اس طرح ماں کی سب سے پیاری سہیلی بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی ہوتا ہے جس طرح دو سہیلیاں آپس میں ناراض ہو جاتی ہیں لڑتی ہیں اسی طرح ماں بیٹی بھی کرتی ہیں اور پھر ایک دوسرے کو منا بھی لیتی ہیں اور پھر سے آپس میں سہیلیاں بن جاتی ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم جس کو دنیائے کرکٹ میں شاہینوں کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ حال ہی میں اپنے کئی شکار ہاتھ سے جانے کے بعد آئرلینڈ اور انگلینڈ کو شکار کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں بابر اعظم کی قیادت میں آئرلینڈ کی سر زمین پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں وہ تین میچوں کی سیریز کے بعد انگلینڈ کا رخ کرے گی۔ برطانیہ میں 4 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز کے بعد پھر شاہینز امریکا اور ویسٹ انڈیز کی طرف اڑان بھریں گے، جہاں وہ 20 ممالک کی ٹیموں سے سجے آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ میں شرکت کریں گے۔
ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 کا آغاز سر پر آن پہنچا ہے اور صرف تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ یکم جون سے ویسٹ انڈیز کے ساتھ پہلی بار کرکٹ کے آئی سی سی ٹورنامنٹ کی میزبانی کرنے والے ملک امریکا میں اس میگا ایونٹ کا آغاز ہوگا۔ ٹورنامنٹ میں پہلی بار ریکارڈ 20 ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں۔ ان میں سے دفاعی چیمپئن انگلینڈ سمیت بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ، افغانستان سمیت 15 ممالک اپنے اسکواڈز کا اعلان کر چکے ہیں، مگر پاکستان کا ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان تو دور کی بات، ابھی تک یہ ہی طے نہیں ہوسکا ہے کہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے کون سے کھلاڑی جائیں گے اور کون گھر میں ٹی وی اسکرینز پر یہ میچز دیکھیں گے۔
کھیل کوئی بھی ہو، ورلڈ کپ سب سے بڑا ایونٹ ہوتا ہے جس میں شرکت کا خواب ہر کھلاڑی دیکھتا ہے، ٹورنامنٹ کو جیتنے اور ٹرافی اٹھانے کی خواہش ہر ٹیم میں ہوتی ہے، جس کے لیے وہ سالوں پہلے سے تیاریاں شروع کر دیتی ہیں، لیکن ہمارے ہاں ہمیشہ اس کا الٹ ہوتا ہے۔ ہر میگا ایونٹ میں ناکامی کے بعد ہمارے کھیلوں کے کرتا دھرتا، اس کو اپنے لیے ایک سبق قرار دیتے ہوئے اگلے ورلڈ کپ کی تیاریوں کے عزم کا اظہار کرتے ہیں اور جب چار سال گزرتے ہیں تو قوم کھیلوں کے اداروں اور ٹیموں کو وہیں کھڑا دیکھتی ہے جہاں وہ چار سال قبل کھڑی ہوتی ہیں اور منیر نیازی کی مشہور نظم کے اس مصرع کی عملی تفسیر پیش کرتی نظر آتی ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں‘‘۔
پاکستان کرکٹ ٹیم جس نے پہلی اور آخری بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا دوسرا ایڈیشن 2009 میں جیتا تھا۔ اس کے بعد گرین شرٹس 5 بار تو سیمی فائنل میں پہنچے لیکن ٹرافی اٹھانے کی جانب پیش قدمی تو درکنار ٹیم فائنل میں بھی نہ پہنچ سکی۔ گزشتہ میگا ایونٹ میں بھی قومی ٹیم کا بابر اعظم کی قیادت میں سفر سیمی فائنل پر ہی تمام ہو گیا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ جس پر ملکی سیاست ہمیشہ سے سایہ فگن رہی ہے۔ اسی لیے جس طرح ہماری سیاست اور اس کی پالیسیوں میں استحکام نہیں ہے، اسی کا عکس پی سی بی اور اس کے فیصلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ ملک میں جہاں سیاسی ہلچل عروج پر پہنچتی ہے تو پی سی بی حکام کو اپنی کرسیاں خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے، اب ایسے میں وہ کرکٹ کی ترقی پر فوکس کرنے کے بجائے اپنی کرسیاں بچانے کے لیے لابنگ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جس کا سراسر نقصان کرکٹ کے کھیل کو ہی ہوتا ہے۔
اس تماشے کو دیکھنے کی عادی قوم گزشتہ ڈیڑھ برس سے پی سی بی کی میوزیکل چیئر بنی کرسی اور اس کے نتیجے میں پاکستان ٹیم کی گرتی کارکردگی کو مسلسل دیکھ رہی ہے۔ ملک میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی کی انتظامی تبدیلی جڑی ہے تو حکومت کے ساتھ یہ تبدیلی بھی ہو کر رہی اور 15 ماہ میں چیئرمین پی سی بی پر چوتھی شخصیت کو تعینات کیا گیا۔ جب ادارے کا سربراہ تبدیل ہو جائے تو پھر منیجمنٹ اور کپتان بھی اسی کی پسند کا ہوتا ہے اور پاکستان ٹیم کی قیادت عرصہ دراز سے اسی کھینچا تانی کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے اور اس خرابی بسیار کھیل میں ہمارے سابق بڑے بڑے لیجنڈ کرکٹرز کے نام بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ اسی روایت کے تحت ٹیم میں ایک بار پھر گروپنگ کی خبروں نے زور پکڑا جس کو ممہیز نیوزی لینڈ کی سی ٹیم جو 10 بڑے ناموں سے محروم تھی سے سیریز برابر کرنے پر مزید پھیلی۔
بابر اعظم جنہیں گزشتہ سال بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد قیادت سے ہٹنا پڑا تھا اور ان کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو ٹی 20 کی قیادت سونپی گئی تھی مگر اسٹار فاسٹ بولر کی قائدانہ صلاحیتوں کو جانچنے کے لیے پی سی بی حکام نے صرف نیوزی لینڈ کے خلاف ان کی سر زمین پر کھیلی گئی سیریز اور پی ایس ایل 9 میں لاہور قلندرز کی ناکامی کو پیمانہ قرار دیا اور کپتانی کا تاج ایک بار پھر بابر اعظم کے سر پر سجا دیا یہ سوچے بغیر کہ شاہین شاہ مسلسل دو سال تک لاہور قلندرز کو پی ایس ایل چیمپئن بنوا چکے ہیں۔
پاکستان ٹیم ڈھائی سال سے اپنی سر زمین پر کوئی بھی سیریز جیتنے میں ناکام رہی ہے۔ جب نو آموز نیوزی لینڈ ٹیم آئی تو شائقین کو وائٹ واش کے ساتھ امید تھی کہ گرین شرٹس اپنی سر زمین پر ڈھائی سال بعد کوئی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوگی، مگر ہمارے سپر اسٹار کھلاڑیوں سے سجی ٹیم کو کیویز کی سی کلاس ٹیم کے بچوں نے ناکوں چنے چبوا دیے اور گرین شرٹس پہنے نامور کھلاڑیوں کی ڈفر پرفارمنس نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔ پاکستان ٹیم ڈھائی سال میں دو بار نیوزی لینڈ کی سی کلاس ٹیم سے بھی سیریز نہ جیت سکی۔ انگلش ٹیم شکست کی دھول چٹا کر گئی۔ کینگروز نے بھی شاہینوں کے پر کاٹ دیے۔
نیوزی لینڈ سیریز کو ورلڈ کپ کی تیاریوں کا آغاز کہا جا رہا تھا لیکن جس بری طرح سے یہ آغاز ہوا ہے، آگے کی کہانی واضح نظر آتی ہے۔ بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ میں کئی خامیاں سامنے آئیں۔ پانچ میں سے چار میچز کھیلے گئے اور صرف دو نصف سنچریاں ایک بابر اعظم اور ایک فخر زمان نے بنائیں۔ محمد عامر چار سال بعد اپنی ٹیم میں واپسی کو یادگار نہ بنا سکے اور تین میچز میں صرف تین وکٹیں ہی لے پائے۔ اس کارکردگی کے بعد اب پی سی بی انتظامیہ نے اپنا راگ بدلتے ہوئے آئرلینڈ اور انگلینڈ دوروں کو ورلڈ کپ کی تیاری سے نتھی کر دیا ہے جس پر کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے صرف طنزیہ مسکرا ہی سکتے ہیں کیونکہ میگا ایونٹ سے 10 یا 15 دن قبل کیسی تیاری اور کمبینیشن بنایا جا سکتا ہے۔
سب سے بڑی خامی جو سامنے آئی ہے وہ قومی ٹیم کا کمزور ترین مڈل آرڈر ہے۔ دنیا کی 10 بڑی کرکٹ ٹیموں میں ہمارا مڈل آرڈر نویں نمبر پر اور صرف افغانستان سے اوپر ہے۔ قومی ٹیم کا مڈل آرڈر ٹی 20 کرکٹ میں 7 سے 15 اوورز کے درمیان محض 7.30 رنز سے اسکور کررہا ہے جو آئرلینڈ اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں سے بھی کم ہے اور صرف افغانستان سے بہتر ہے اور یہ اعداد وشمار لمحہ فکریہ اور پی سی بی حکام کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔
نیوزی لینڈ سے سیریز برابر ہونے کے بعد سلیکشن کمیٹی نے دورہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے لیے ٹیم کا اعلان کیا جس میں گزشتہ ورلڈ کپ میں اوسط درجے سے بھی کم کارکردگی دکھانے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رہنے کے باوجود سینیئر فاسٹ بولر حسن علی کی واپسی نے ان کی سلیکشن پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ ٹیم کی سلیکشن میں ایک بار پھر دوستی یاری کو ترجیح دی گئی ہے جس کا خمیازہ ہم ون ڈے ورلڈ کپ 2023 میں پہلے ہی راؤنڈر میں باہر ہو کر بھگت چکے ہیں۔
پی سی بی سلیکشن کمیٹی نے آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دوروں کے لیے ٹیم کے اعلان کے ساتھ ہی ورلڈ کپ کے لیے اسکواڈ کا اعلان کرنے کے لیے 22 مئی تاریخ دی اور ساتھ ہی یہ لطیفہ بھی سنا ڈالا کہ ’’پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ ٹیم کے اعلان میں مشکل پیش آ رہی ہے۔‘‘ اگر اس ٹیلنٹ کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ کر دوسرے پلڑے میں قومی ٹیم کی حالیہ کچھ ماہ کی کارکردگی رکھی جائے تو حقیقت سب پر عیاں ہو جائے گی۔
اب ٹیم آئرلینڈ پہنچ چکی ہے لیکن گرین شرٹس یاد رکھیں کہ آئرش ٹیم اپ سیٹ کرنے میں ماہر ہے۔ پاکستان کے پاس ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے صرف 7 میچز ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہمارے شاہین اس میں کیا تیر مارتے ہیں۔ ٹیم کی حالت دیکھ کر ہم تو قوم کو یہی مشورہ دیں گے کہ حسب سابق سہانے خواب دیکھے مگر جاگتی آنکھوں کے ساتھ مصلّٰی و تسبیح بھی ساتھ رکھے کہ ٹیم کو اگلے ماہ پھر قوم کی دعاؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور ہم تو ہر میگا ایونٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی گاڑی کو دعاؤں سے ہی آگے دھکیلنے کی کوشش کرنے میں ماہر ہو چکے ہیں۔
عموماً جب کسی افسانے یا ناول میں راوی بہ طور غائب متکلم (تھرڈ پرسن نریٹر) اپنے کرداروں کے متعلق لکھتا ہے کہ کردار اول نے ’’یہ کہا۰۰۰ ‘‘ ، ’’کردار دوم چل کر کردار اول تک آیا۰۰۰ دونوں کردار ایک دوسرے کو گھورنے لگے۰۰۰‘‘ تو ہم منظر میں راوی کی موجودگی کو ہمیشہ قبول کرتے ہیں۔ پس منظر اور تناظر کے کسی اختصاص کے بغیر کہ کون کہاں سے بول رہا ہے اور یہ بیان کیسے ممکن ہے، مگر جب راوی کہتا ہے کہ کردار دوم نے اپنی کن پٹی کے اوپر کے سفید بالوں میں انگلیاں پھیریں اور سوچا کہ ’’مجھے اس کو سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے۔‘‘ تو ہمیں دھچکا لگتا ہے کہ راوی کی منظر میں سماعت اور بصارت کی ہر حد تک موجودگی برحق، مگر کردار کے ذہن میں داخل ہو کر اس کی سوچ کو بیان کرنا کس قدر ممکن اور درست ہے؟ اگر یہ درست نہیں ہے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کسی کردار کی سوچ کو عمل سے قبل یا عمل کے بغیر بیان یا ظاہر کرنے کی ضرورت کا کیا کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بیان کا صیغہ واحد متکلم (فرسٹ پرسن نریشن) رکھا جائے اور کردار کے منہ سے اس کی ذہنی حالت بیان کی جائے۔ چناں چہ روﻻک کے بیانیے کے لیے فرسٹ پرسن نریشن کی تکنیک کے انتخاب کا رفاقت حیات کا فیصلہ اس لیے احسن سجھتا ہوں کہ مرکزی کردار قادر بخش کی بیتی دراصل اس کے وجود سے بڑھ کر اس کے ذہن پر بیتی ہے۔
بیانیہ تکنیک کے انتخاب کے اس درست فیصلے نے ناول میں موجود بہت سی خوبیوں کو سہارا دیا ہے، کچھ خوبیاں پیدا کی ہیں اور بہت سی ممکنہ خامیوں کا راستہ روکا ہے۔ گو کہ اس فیصلے کی وجہ سے کچھ کمیاں اور کمزوریاں بھی ناول کا حصہ بنی ہیں؛ جیسا کہ خواتین کرداروں کا کہانی میں ان کی لازمی اور اہم ترین موجودگی کے باوجود بھرپور طور پر نہ ابھر سکنا (یہ خواتین کردار نہ صرف اس ناول کے مرکزی خیال دو رولاک باپ بیٹے کی نفسیاتی اور وجودی کشمکش کی ضرورت تھی، بلکہ بہ ظاہر خواتین کرداروں کی بے جا کثرت بہ غور دیکھنے سے اس کہانی کی پیداوار اور پلاٹ کا ﻻزمہ نظر آتی ہے)۔ مگر یہ وہ کمی ہے جو کوئی بھی طریقہ کار اپناتے ہوئے در آ سکتی ہے، کیوں کہ محض طریقہ کار بدلنے سے کمیاں بھی دوسری شکل میں ظاہر ہو جاتی ہیں، یعنی یہ کمیاں جس بھی طریقہ کار میں ظاہر ہوں، یہ اُسی طریقہ کار کی محدودیت پر دلیل بن جاتی ہیں۔ سو اس واحد متکلم بیانیے کی تکنیک کے انتخاب سے مکمل اتفاق اور اس انتخاب کی وجہ سے در آنے والی مخصوص محدودیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، میں صرف مصنف کے اس بیانیہ تکنیک کے استعمال کے طریقے اور غیر مناسب وسعتِ استعمال کا جائزہ لینا چاہتا ہوں اور اس میں موجود ان خامیوں کو سمجھنا چاہتا ہوں جن کی وجہ سے میرے خیال میں اس ناول کے متن کو بے تحاشا نقصان پہنچا۔
رولاک کے مصنف رفاقت حیات
ناول لکھنا بے شک ’ﻻمحدود کا انتخاب‘ اور ’آزادی‘ ہے۔ اگر کسی کو اس سلسلے میں مجھ سے اتفاق ہے اور اس اتفاق کی وجہ میرا مندرجہ باﻻ جملہ ہے تو میں اس جملے کے پیراڈاکس سے بات آگے بڑھاؤں گا۔ یاد رہے اس جملے کی صحت سے مجھے اتفاق ہے اور میں مصنف کی ’لامحدود انتخاب کی آزادی‘ کا قائل ہوں۔ مگر اس جملے کے دو اہم الفاظ ’ﻻمحدود‘ اور ’آزادی‘ جس معنوی نتیجے پر لے جاتے ہیں، تیسرا اہم لفظ ’انتخاب‘ اس لامحدود کو کسی نہ کسی منتخب حد میں محدود، اور آزاد کو کسی نہ کسی صورت میں پابند کر کے ایک پیراڈاکس تشکیل دیتا ہے – کہ یہ ﻻمحدود سے مصنف کا منتخب استفادہ ہے جو کہ بہر حال محدود ہے۔ یوں، مصنف جب اپنی ﻻمحدود آزادی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آزادیوں کا انتخاب کرتا ہے جیسا کہ مرکزی خیال، کہانی، کردار، زمان و مکان (عصر اور لوکیل)، بیانیہ اور تناظر وغیرہ، تو یہ لامحدود ایک منتخب پلاٹ تک محدود ہو جاتا ہے۔ اس حد کا انتخاب مصنف کی استطاعت، صوابدید بلکہ ضرورت کے سبب ہوتا ہے نہ کہ قاری، ناول کی صنف یا انتقاد کے کسی مدرسہ فکر (اسکول آف تھاٹ) کے سبب۔ یوں مصنف کا یہ انتخاب اس کی آزادی پر حد لگا کر قاری کو آزادی دیتا ہے کہ وہ مصنف کے انتخاب پر سوال اٹھائے۔ مصنف کے منتخب کردہ مافیہا (content) ’’کیا‘‘ جو کہ اس کے تخیل کی پیداوار – مرکزی خیال، کہانی _ ہے اور مصنف کے مخصوص تکنیک کے ذریعے پیدا کردہ ہیئت (form) کے ’’کیسے‘‘ اس تخیل، کہانی، مافیہا کو بیان کیا جا رہا ہے، پر سوالات اٹھانا ہی تنقیدی عمل کے تاریخی تسلسل میں ان گنت تغیرات کے درمیان مرکزی، مستقل، مستند اور آزمودہ (tested) طریقہ کار ہے۔
جب ہم ناول روﻻک میں مافیہا ’’کیا‘‘ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک آوارہ باپ بیٹے کی کہانی ہے جو کہ باپ کی جانب سے آپس میں ملتے جلتے چند جنسی واقعات اور بیٹے کو ان سے دور رکھنے کی کوشش پر مشتمل ہے، اور اس کے بیان کے لیے صیغہ واحد متکلم کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے ایک ہیئت ترتیب دی گئی ہے۔ اب مافیہا ’’کیا‘‘ کے حوالے سے یہ ایک حقیقت پسند content ہے، جس کے کردار، واقعات اور لوکیل وغیرہ سے حقیقت کی عکاسی ہو رہی ہے۔ مگر ایک کمزوری ضرور بہ طور سوال ابھرتی ہے کہ اس کہانی کا مافیہا ناول اور اس قدر ضخیم ناول کے تقاضے پورے کرتا ہے؟ اس کا جواب ہیئت (بیانیہ تکنیک) کی مدد سے دیا گیا ہے اور بھرپور دیا گیا ہے۔ یوں ایک انتہائی سیدھے سادے، واضح اور محدود حقیقت پسند مافیہا (content) کو غیر ضروری طور پر وسیع، پیچیدہ، جادوئی اور قطعی طور پر غیر حقیقت پسند ہیئت (form) میں پیش کیا گیا ہے۔ یعنی مافیہا کی حقیقت پسندی کو ہیئت کی حقیقت نگاری کی جس ٹریٹمنٹ کی ضرورت تھی، اس کے بر خلاف ہیئت ترتیب دی گئی ہے۔ یوں جب یہ متن اس کے بیانیہ تکنیک کی مدد سے تشکیل دی گئی ہیئت کے اکلوتے ستون پر کھڑا ہے، تو اس کا جائزہ بھی ہیئت (بیانیہ تکنیک) کی روشنی میں لیا جائے گا۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ہم یہ جائزہ لیں کیوں کہ اس متن کی حقیقت پسندی اور دیگر خوبیاں اور خامیاں، اس کی ہیئت کی جانچ ہی سے بہتر اور درست طور پر ظاہر ہو سکیں گی۔ مگر اس بیانیہ تکنیک کے سقم (ہیئت) پر گفتگو سے قبل اس طویل متن کو لے کر چند دیگر مسائل پر گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مسئلہ اوّل: ’’ﻻلی‘‘
صفحہ 101 پر راوی کہتا ہے کہ ’’ﻻلی کو ہماری گلی کا رخ کیے دو سے زاٸد ہفتے گزر چکے تھے۔‘‘
صفحہ 102 پر راوی کہتا ہے کہ ’’ﻻلی سے پہلی ملاقات کے بعد بابا پر اگلی تین شامیں بہت بھاری گزری تھیں۔۔۔‘‘
صفحہ 103 پر راوی کہتا ہے کہ ’’چوتھے روز دوپہر کے کھانے کے بعد بابا قیلولہ کرنے کے بجائے گھر سے نکل گئے۔‘‘
صفحہ 104 پر راوی چوتھے روز کی اگلی صبح، دوپہر سے قبل ’’ﻻلی کے دروازے پر دستک‘‘ کی بات کرتا ہے۔ یعنی ﻻلی دو ہفتے سے زائد گلی کا رخ بھی نہیں کرتی اور پانچویں دن کھل کر کھیلنے کے لیے قادر بخش کی گلی بلکہ گھر کے کمرے میں موجود بھی ہے۔ اکثر قارئین اس غلطی کو نظر انداز کرنے میں تحمل نہیں کریں گے، اور میں بھی فکشن میں وقت کے حوالے سے اس طرح کی غلطیوں کی کثرت سے موجودگی کو قبول (Admit) کرتا ہوں۔ مگر جہاں تک رولاک کی بات ہے تو اس متن کو جتنے ماہرین نے دیکھا، اس کے بعد اس طرح کی غلطی کو بدقسمتی سمجھتا ہوں اور خوف زدہ ہوں کہ یہ غلطی تینوں اشاعتوں (امریکا، ہندوستان اور پاکستان) میں آ گئی ہوگی۔
مسئلہ دوم: بے چینی، عدم اطمینان اور نیند
صفحہ 178 پر ایک دن کی طویل تفصیل میں راوی اس روز اپنی بے چینی بڑھتی چلی جانے اور ختم نہ ہو سکنے، خود کو اطمینان دﻻنے کی کوشش میں ناکامی کا ذکر کرنے کے بعد صفحہ 179 پر اُسی روز ’’ایسا خوش گوار دن میری زندگی میں پہلے کبھی نہیں آیا‘‘ کو بیانیہ کا حصہ بنا کر چونکاتا ہے۔ پھر اسی سطر میں ’’جس کا آغاز اس قدر سہانا ہوا۰۰۰ دوپہر تک خوار پھرنا اب میرا مقدر تھا‘‘، کا بیان دے کر قاری کو یہ معنی لینے اور بیانیے سے ہم آہنگ رہنے کی راہ سجھاتا ہے کہ صبح بے شک خوش گوار تھی مگر پھر دن بھر بے چینی اور بے اطمینانی رہی۔ مگر اسی دن اسکول سے واپسی کے وقت گھر پہنچ کر گرم کھانا کھاتے ہی ’’جماہیوں سے میرا منہ پھٹنے لگا اور اپنی چارپائی پر گہری نیند سو گیا۔ اس دن کی آوارگی اور تعاقب نے اتنا مزا دیا کہ میں شام ڈھلنے تک خوابوں میں کھویا رہا۔ اس دوران اماں نے بار بار مجھے جگانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔ مغرب کے تھوڑی دیر بعد جب بابا واپس گھر آئے تو انھوں نے مجھے جگایا۔‘‘ کا بیان پڑھ کر قاری حیران رہ جاتا ہے کہ بے چینی اور عدم اطمینان کہاں گیا۔ 669 صفحات کے طویل متن میں کئی بار سونے جاگنے کا ذکر ہے لیکن کسی کردار کی اس قدر گہری (دن کے وقت) نیند کا ذکر اس قدر تفصیل اور شدت سے ایک بار ہی کیا گیا، اور اس کردار کی اس گہری نیند کے لیے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا گیا جو کہ اس کے لیے بڑھتی چلی جانے اور ختم نہ ہونے والی بے چینی اور عدم اطمینان کا دن تھا۔
مسئلہ سوم: تجسس کا قتل
اس ناول کے بیانیہ تکنیک کو صیغہ واحد متکلم کے درست ٹریک پر ڈالنے اور قارٸین کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کے لیے راوی کی طرف سے پہلے دو صفحات (جو کہ اس ماجرے کا پہلا اور آخری منظر ہے) میں ہی مرکزی کردار قادر بخش کے کہانی کے آخری لمحے تک زندہ رہنے کی نوید، بعد میں باپ بیٹے کی رقابت میں شدت اور قتل کے المیے سے قبل، قادر بخش کی جانب سے باپ کا پیچھا کرنے کے دوران کے تجسس کو بالکل کم کر دیتا ہے۔ سنسنی کے ان لمحات میں مصنف کا زورِ قلم قاری کو معلوم نتیجے (کہ باپ قتل ہوگا یا کم از کم قادر بخش کو کچھ نہیں ہوگا) کے مقابل بہت کمزور محسوس ہوتا ہے۔ اور میں نے ذاتی طور پر محسوس کیا کہ قادر بخش کے زندہ رہنے کے مکمل یقین نے میرے تجسس کو بہت نقصان پہنچایا اور ناول کو بھی تجسس، سنسنی کے حوالے سے بہرحال فرق پڑا۔ میں پھر واضح کر دوں کہ اس بیانیہ تکنیک کے طریقہ استعمال کی کمزوریاں اور خامیاں سمجھنا میرا مقصود ہے اور میں تجسس اور سنسنی کی اس کمی کو خامی نہ سہی ایک کمزوری ضرور سمجھتا ہوں۔ اب یہ اس تکنیک کی لازمی محدودیت ہے جو کہ مصنف کے آڑے آئی ہے یا اس بیانیہ تکنیک کے مصنف کے طریقہ استعمال میں خامی ہے، اس مشکل سوال کا جواب میں قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں؛ کہ میں تو کسی بھی طرح مذکورہ تجسس کی موجودگی کا متمنی ہوں اور اس کی غیر موجودگی سے ناول کی صحت کو پہنچنے والے نقصان پر رنجیدہ ہوں۔
مسئلہ چہارم: حقیقت پسندی
جس حقیقت پسند روش کا ذکر رولاک کی اشاعت سے قبل اور بعد از اشاعت کثرت سے مذکور ہے اور جس کی اس ناول میں موجودگی اور معیاری موجودگی کو محترم محمد سلیم الرحمٰن صاحب نے ’’جدت کے نام پر قلابازیوں‘‘ کے مقابل ’’حقیقت پسندی کے بڑے دم خم‘‘ کے ثبوت کی صورت دریافت کیا ہے، اس سے میں ایک سطح پر اتفاق کرتا ہوں کہ کہانی کے مرکزی خیال، کرداوں، واقعات یعنی مافیہا (content) میں اس کا اہتمام ہے۔ مگر بیانیے (ہیئت/فارم) میں ناول کے لوکیل کی پوری منظر کشی ہو، جزئیات نگاری ہو، قادر بخش کی نفسیاتی حالت کا بیان ہو، اس کا فیمنسٹ اور طبقاتی شعور ہو، ہر جگہ اور کثرت سے غیر حقیقت پسند، فلسفیانہ خیال طرازی ہے۔ بلکہ کہیں کہیں اعلیٰ درجے کا شاعرانہ تخیل متحرک ہے اور اس بیانیے کا بنیادی محرک ہے۔ یعنی یہ بیانیہ (ہیئت) اس کہانی، سچویشنز، قادر بخش کے تجربات و احساسات، نفسیاتی حالت، علم، شخصیت اور دانش کا لازمہ نظر نہیں آتا۔ بلکہ غالب طور پر مصنف کے علم، نقط نظر، افکار، نظریاتی وابستگی اور کہیں کہیں شاعری کے شوق کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ پانچ سالہ بچے کا علم یا تئیس سالہ قیدی کی یادداشت کا قضیہ بھی اس ناول کے حقیقت پسند امیج (دعویٰ) پر بڑا سوال ہے۔
حقیقت پسندی سے ایک سطح اور غالب سطح (بیانیہ/ہیئت) پر اس متن کی دوری یا تضاد پر میری فکر مندی (concern)، حقیقت پسندی سے میرے کسی نظریاتی اتفاق یا اختلاف کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس سلسلے میں میری رائے ہے کہ کیا فکشن کو ’’فکشناٸز‘‘ کیے بغیر کوئی چارہ ہے؟ یا فکشن کو جدت (ارتقا کے تقاضے) کے ’عفریت‘ سے محفوظ رکھنا ممکن ہے؟ اسی طرح حقیقت سے جڑت کی ایک گہری سطح کے بغیر فکشن ممکن ہے یا کم از کم اسے دوام ہے؟ تو صرف حقیقت پسندی اور صرف جدت پر زور کیسا؟ بہرحال میں بیانیے کے مصنف کے طرز یا اسلوب میں جو سقم دیکھ رہا ہوں اور اس کے برے اثرات پورے متن پر محسوس کر رہا ہوں، وہی حقیقت پسندی سے انحراف کا باعث بھی بن رہا ہے۔
میرا اس متن کو حقیقت پسندی سے انحراف کہنا شاید کچھ پڑھنے والوں کو نامناسب لگے اور انھیں اس متن کے چند اجزا میں حقیقت پسندی نظر آئے، تو ان کے لیے عرض ہے کہ مصنف جو کانٹینٹ لے کر آئے ہیں اس سے حقیقت پسندی جھلکتی ہے مگر اس کانٹینٹ کو جس ہیئت میں پیش کیا گیا ہے، جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ طریقہ حقیقت نگاری سے کوئی لگا نہیں کھاتا۔ کسی حقیقت پسند کانٹینٹ کو حقیقت نگاری کے ذریعے پیش کرنے میں مصنف پابند ہوتا ہے کہ مثالیت پسندی، رومانیت، عینیت، موضوعیت اور تعصب سے پرہیز کرے، خیالی باتوں سے گریز کرے اور ذاتی رائے کی آمیزش سے بچتے ہوئے خارجی حقائق کو معروضی صحت کے ساتھ بیان کرے۔ اب رولاک کے بیانیے کا گہرا تجزیہ کریں یا اچٹتی سی نظر ڈالیں، بہر صورت واضح ہوتا ہے کہ مصنف کے تعصب اور مداخلت نے کہانی کے خارجی حقائق کی معروضیت کو موضوعیت، مثالیت اور تصوراتی شاعرانہ لفاظیت کے طویل، غیر حقیقت پسند رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اور راوی قادر بخش اپنی ’’سمجھ بوجھ‘‘، فیمنسٹ، طبقاتی اور نفسیاتی علم اور فلسفیانہ تفکر پر حیران بیٹھا، راوی کی ذمہ داری مکمل طور پر مصنف پر چھوڑ چکا ہے۔ قادر بخش کی بہ طور راوی بس اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ مصنف کے بیان کردہ انتہائی باریک تفاصیل خصوصاً منظر نگاری کی جزئیات کی پانچ سال کی عمر سے شروع ہو کر تئیس سال کی عمر تک اپنے ذہن میں جادوئی صحت کے ساتھ موجودگی کو قبول کرے۔ باقی فیمنزم اور طبقاتی فلسفہ، انسانی نفسیات کا علم اور مشکل جذباتی حالات میں غیر حقیقی حد تک معروضیت کے لیے میں بہ طور قاری، راوی قادر بخش کو ذمہ دار نہیں سمجھتا، کہ یہ تمام اختیارات مصنف نے بہ طور واحد متکلم راوی کو دان ہی نہیں کیے۔ یہی راوی کے اختیارات سے مصنف کا استفادہ اس متن کا جادو، غیر حقیقت پسندی اور بڑی خامی ہے۔ مگر اس خامی کا بھی ایک منبع ہے۔ آئیے دونوں پر نظر ڈالیں۔
بیانیہ کا سقم
اوپر جن چار کمزوریوں کا بہ طور مسال ذکر کیا گیا ہے اور کچھ کی نشان دہی میں یہاں کرنا چاہتا ہوں؛ سب کی جڑیں اس بیانیہ تکنیک کے غلط اور بے جا استعمال میں پیوست ہیں۔ مگر پہلے اس بیانیے کی مرکزی خامی پر نگاہ کرتے ہیں جس کا میں نے اب تک براہ راست ذکر نہیں کیا ہے، اور جو بہ طور معلول پورے متن میں پھیلی ہوئی ہے۔ راوی جیل سے بائیس تئیس سال کی عمر میں یادداشت کی مدد سے ماضی میں پانچ سال کی عمر سے اپنا ماجرا اور اس پر تبصرہ شروع کرتا ہے اور ناول کی تکنیک چھوڑ کر بالکل فلم کی تکنیک میں، ماضی کو حال بنا کر مکمل تفصیل اور جزئیات کے ساتھ واقعات، مناظر دکھاتا اور ان پر تبصرہ کرتا ہے۔ فلم میں چوں کہ اس کی ویژول میڈیم تکنیک (بصری سہولتی طریقہ کار) کی وجہ سے ماضی کی کہانی سنانے کا یہی ممکنہ طریقہ ہے (اس طریقہ کار کی اپنی کمزوریاں اور محدودات ہیں جیسا کہ رولاک یعنی ناول کی طرح طویل بیانیہ اور صورت حال پر تبصرہ ممکن نہیں رہتا) مگر ناول کی تحریری تکنیک میں ایسا کرنے کے لیے راوی کو ﻻمحالہ ماضی میں جانا پڑتا ہے۔ اور جب اس غیر حقیقت پسندانہ بیانی طریقہ کار کے تحت راوی منظر میں تئیس سال کی عمر میں پانچ سالہ کردار کے کندھوں پر سوار ہو جاتا ہے تو یہ دکھانا اور تفصیل سے دکھانا آسان ہو جاتا ہے کہ کسی عام سی گلی کی غیر ضروری (کہانی کے لحاظ سے) بیکری نما دکان کا دروازہ کھلا ہے اور اس کے ساتھ والی دکان کا بند، شاہ کمال کے مزار سے نکلتی سڑک پر کون کون سی گدھا گاڑیاں، سوزوکیاں اور چکڑے سبزی منڈی کے آس پاس کھڑے ہیں اور کون سے ادھر ادھر رواں دواں، زمین پر کتے، بلیاں اور چوہے جب کہ آسمان پر چیلیں اور کوے منڈلا رہے ہیں، ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں ہرے رنگ کی چادر کے اوپر دو رجسٹر، ایک گلوب اور بازو جتنا، گول گول پیلے رنگ کا بید موجود ہے۔ اور منظر میں تئیس سال کی عمر میں موجودگی سے تبصرہ بھی آسان ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں راوی تئیس سال کی عمر میں جیل سے یادداشت کے بل بوتے پر یہ سب تفصیلات بیان کر رہا ہے اور ہیڈ ماسٹر کے کمرے اور گھر سے اسکول تک کے راستے میں پانچ سالہ قادر بخش کے ساتھ تئیس سالہ قادر بخش کی بہ طور راوی موجودگی میرے تخیل کی خُرافت ہے، تو میں اس یادداشت کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور اس بیانیے کو سائنس فکش بیانیہ کہوں گا۔
واضح رہے مصنف بہ ظاہر جیل سے راوی کی یادداشت کے سہارے ہمیں کہانی میں شریک کر رہا ہے مگر اس یاد کرنے کے عمل میں راوی بہ نفس نفیس ماضی کے منظر میں ٹائم مشین کے ذریعے پہنچ کر تئیس سال کی عمر میں ہم سے کہانی بیان کر رہا ہے اور اس پر اپنا میچور تبصرہ فرما رہا ہے۔ تکنیک بالکل فلم والی ہے یوں یہ سب کچھ قطعی غیر حقیقی، جادوئی اور نامناسب ہے۔
اگر بیانیے کا سقم اتنا ہی ہے تو اس تکنیک کو غیر حقیقت پسندانہ تو کہا جاسکتا ہے مگر یہ ان سب خامیوں کا باعث نہیں ہو سکتا جو کہ اس ناول میں موجود ہیں۔ اور کچھ کی طرف میں اشارے کر چکا ہوں۔ تو عرض ہے کہ یہ بیانیے کا سقم اور دیگر مسائل معلول (Effects) ہیں، علت (Cause) دراصل ایک طویل افسانے یا ’’میرواہ کی راتیں‘‘ (مصنف کا پچھلا ناولٹ) جتنے ماجرے کی استطاعت والے مافیہا (content) پر بیانیہ تکنیک کے ہیئتی زور سے ایک ضخیم ناول کی عمارت کھڑی کرنا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ رولاک ایک کردار کی کُل زندگی کا ماجرا ہے اور یہ کہانی اپنے مرکزی خیال میں ناول بننے کی متقاضی ہے تو میں اتفاق کرتا ہوں اور ساتھ ہی عرض رکھتا ہوں کہ ناول کے باب میں ناولٹ کے مختصر ترین متون سے ضخیم ترین ناولوں کی موجودگی اور طوالت کے حوالے سے فرق (Variation) اس بات پر (بلکہ اکثر ایک ہی مصنف کی جانب سے کبھی مختصر اور کبھی طویل ناول کی پیش کش) دلالت ہے کہ ہر کہانی، ماجرے کا باطن (چاہے یہ کہانی، ماجرا ناول لکھنے کے لیے کتنا ہی موزوں کیوں نہ ہو) واقعات، کرداروں کی تعداد، مصنف کے نقطہ نظر اور راوی کے تبصرے کی ایک خاص مقدار ہی کو سہار سکتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس متن میں غیر ضروری کردار اور غیر ضروری واقعات ڈالے گئے ہیں، ایسا بالکل نہیں کیا گیا ہے۔ مگر بیانیہ میں، مصنف کے نقطہ نظر کی پیش کش کی خاطر راوی مضمون بندی کی جتنی اور جیسی جادوگری کیے چلا جا رہا ہے کہانی، مافیہا اسے سہار نہیں پا رہا ہے۔ یہی بات ایک اور طرح سے عرض کرتا ہوں۔
کسی بھی کہانی کے مافیہا (content) کا ایک بنیادی کام معنی خیزی ہے، جب کہ ہیئت (Form) کا ایک بنیادی کام مضمون بندی ہے۔ یوں تخیل اور تکنیک، مافیہا اور ہیئت، معنی اور مضمون، کسی بھی اچھے خیال کی اچھی پیش کش کے لیے باہم ایک خاص توازن کا تقاضا کرتے ہیں۔ کوئی بھی مافیہا معنی خیزی کی ایک خاص گنجائش رکھتا ہے اور یہ گنجائش مصنف کو اس کی تکنیک کی مدد سے خود (معنی خیزی کی گنجائش) میں ایک محدود اور مناسب رد و بدل کی ہی اجازت دیتا ہے اور بدلے میں نقطہ نظر و تبصرے (بیانیہ) کی مضمون بندی کو اس حدِ معنی خیزی سے ہم آہنگ رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یوں مصنف کے تخیل (مافیہا/معنی) اور تکنیک (ہیئت/مضمون) کے درمیاں ایک توازن تشکیل پاتا ہے۔ اب اگر اس توازن کا خیال نہ رکھا جاٸے اور ایک مخصوص مافیہا کے محدود معنی پر مصنف یا راوی کے نقطہ نظر، تبصرے (بیانیہ) کی مضمون بندی کا ﻻمحدود یا معنی سے کئی گنا بوجھ ڈال دیا جائے تو کیا ہوگا؟ یہی کچھ روﻻک کے ساتھ ہوا ہے۔
طوالتِ متن کی پتا نہیں کس ضرورت یا خواہش کے تحت مصنف یا راوی کے نقطہ نظر کو بیانیے میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ جس سے متن میں کمزوریوں کے علاوہ غلطیاں بھی در آئی ہیں جیسا کہ اوپر بیان کی گئی ’’ﻻلی‘‘ کے دو ہفتے کی غلطی، حقیقت پسند نہ رہتے ہوئے شاعرانہ تخیل کے بھرپور تحریک کی غلطی، بے چینی اور عدم اطمینان سے بھرپور دن میں لمبی، گہری اور بھرپور نیند کی غلطی وغیرہ۔
اس طوالتِ متن کی خواہش کو ایک اور زاویے سے دیکھیں۔ صفحہ 467 پر فٹبال کے ذکر میں، راوی ہوٹل میں بیٹھے ہوئے مکرانی نوجوانوں کی طرف سے ارجنٹینا اور برازیل کو فیورٹ قرار دینے کے ساتھ ’’اس بار میراڈونا ارجنٹینا کو چیمپئن بنوا دے گا‘‘ کا ذکر کرتا ہے۔ اس طرح کسی واقعے کا ذکر مرکزی ماجرے کے زمانے کو ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ ہے مگر یہاں چار مرتبہ ورلڈ کپ فائنلز کھیلنے واﻻ میراڈونا دو دفعہ 1986 اور 1990 میں اس حالت میں تھا کہ اپنے ملک کو چیمپئن بنوا سکے۔ اور دونوں دفعہ فائنلز کا فائنل کھیل کر ایک دفعہ چیمپئن بناتا بھی ہے۔ اب مندرجہ باﻻ جملے میں چیمپئن سے قبل، اس دفعہ بھی یا ایک دفعہ پھر کے الفاظ بڑھا کر گفتگو کے زمانے کو 1990 یا 1994 (میراڈونا کی آخری ورلڈ کپ فائنلز کی شرکت) تک بہ آسانی ﻻیا جاسکتا تھا۔ ایسا نہ کرنے سے معاملہ 1982 (میراڈونا کی پہلی ورلڈ کپ فائنلز شرکت) اور 1986 تک محدود ہو جاتا ہے۔ قادر بخش اس فٹبال کے ذکر کے وقت اپنے ماجرے کے اختتام (والد کے قتل) کے بہت قریب ہے اور والد سے اپنی آخری محبت (سومل) کے لیے برسر پیکار ہے۔ اب راوی نے جس زمانے کا تعین ہماری کہانی کو لے کر فٹ بال کے ذکر سے کر دیا ہے، اس کے مطابق قادر بخش کے پانچ سال کی عمر کا زمانہ 70 کی دہائی میں یقیناً جائے گا اور اگر راوی 1982 کے ورلڈ کپ کا ذکر کر رہا ہے تو یہ زمانہ 60 کی دہائی میں چلا جائے گا (میں قادر کے ماجرے کے آغاز کے لیے کم از کم دوسرے شہر کے ساڑھے تین سال اور اسکول کے دس سال ملا کر 14 سال پیچھے جاؤں گا)۔
اب اگر میرا کوئی قاری دوست اس زمانے کے تعین کے حوالے سے اس متن کو جانچے گا تو مسائل دریافت ہوں گے، جیسا کہ قادر بخش کے دانش کی نمو (Intellectual Development) کا مسئلہ۔ میرے خیال میں مختلف علوم اور نظریات کی دانش ورانہ حد تک سجھ بوجھ کا جو وزن مصنف نے بہ طور راوی قادر بخش پر ﻻد دیا ہے (اور اس کے حصول کے لیے پانچ سال سے بیس سال کی عمر تک صرف آوار گردی کو بہ طور دانش کدہ اور طریقہ کار -پراسس- اختیار کیا ہے) اس بوجھ سے نبرد آزما ہونے کے لیے قادر بخش کی زیست کے زمانے کا ماضی میں دور واقع ہونا نقصان دہ (unjustified) ہے۔ اس کے علاوہ بھی متن میں وسیع پیمانے پر ایسے ثبوت (منظر نگاری میں بازاروں کی حالت کا بیان، واقعات نگاری میں تعلیم بہ طور مجموعی اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم، سلاٸی کڑائی کے مراکز، نوجوان لڑکیوں کا رکھ رکھاؤ وغیرہ) موجود ہیں جس سے اس متن کا زمانہ بیسوی صدی کی آخری دہائی یا اکیسویں صدی کے ابتداٸی سال ظاہر ہوتا ہے۔ صرف فٹبال کا غیر ضروری ذکر ہے جو اس ماجرے کی ابتدا کو پیچھے بہت پیچھے شاید سقوطِ ڈھاکا سے قبل کے دور میں دکھیلتا ہے۔
ایک اور دل چسپ اور ناول کے لیے انتہائی نقصان دہ پہلو دیکھیے۔ اس متن کی ہیئت (بیانیہ تکنیک) غیر ضروری طور پر اتنی وسیع، مضبوط اور طاقت ور ہے (اور ایسا بھرپور کوشش سے کیا گیا ہے) کہ مرکزی کردار اور راوی قادر بخش کو کہانی، مافیہا نہیں متن کی ہیئت (بیانیہ تکنیک) قابو کیے ہوئے ہے، وہ بیانیہ جسے خود مافیہا اور خصوصاً راوی قادر بخش کے قابو میں ہونا چاہیے تھا۔ یوں یہ ہیئت (بیانیہ تکنیک) مصنف کے نقطہ نظر کے سوا کچھ نہیں، روای قادر بخش کی تو پورے متن میں بہ طور کردار ایسی کوئی نمو (Development) ہی نہیں ہوٸی جو اسے اس بیانیے کا بوجھ اٹھانے کے قابل کرتی۔
بس بیانیے پر مصنف کے نقطہ نظر کا یہ واضح پُر تعصب قبضہ ناول کی خوبیوں سے لڑتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور میری نظر میں یہ دست درازی اور موشگافی ناول کے کلائمکس حتمی نتیجے کو بھی دو انتہاٸی اہم حوالوں سے بری طرح متاثر (Dictate) کرتی ہے۔ اوّل قادر بخش کا اپنی ماں کے لیے ہمدردی، رغبت اور محبت محسوس نہ کرنا۔ باپ کے قتل اور خود کے جیل میں ہوتے ہوئے اس کمزور عورت پر ان شدید صدموں کے اثر کے بارے میں ایک بار بھی نہ سوچنا حالاں کہ ماں کا یہ کردار تو اس ناول کے محلِ وقوع، زمانے، اور سماج کے تلخ حقائق کا بہترین ترجمان ہے۔ اور مذکورہ سماج اور زمانے کے کسی کم پڑھے لکھے بیٹے کے لیے آئیڈیل، مگر مصنف کے فیمنسٹ کمٹمنٹ کا تعصب کردار قادر سے اس کی ڈیولپمنٹ کے برخلاف رویے کا اظہار کراتا ہے جو کہ انتہائی غیر حقیقی اور نامناسب ہے۔ دوم اسی طرح بہ آسانی اور واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ باپ کا اس قدر بے دردی سے قتل اور خصوصاً عضو تناسل کاٹ کر دور پھینک دینا کہانی کے منطقی تقاضے اور کردار قادر بخش کے جذبات و احساسات کی ترجمانی سے بڑھ کر ہے اور مصنف کی فیمنسٹ فکر سے گہری وابستگی کی ترجمانی ہے۔ یوں یہ، کردار بیٹے کی طرف سے اپنے جذبات کو پہنچنے والی ٹھیس پر باپ کو سزا نہیں، مصنف کی طرف سے قادر بخش کے بابا کو خواتین سے اس کے طویل، مجموعی ہتک آمیز رویے کی سزا ہے اور اردو کے فیمنسٹ فکشن میں ایک سنگ میل۔
(مضمون نگار خالق داد امید پشتو کے شاعر اور نقاد ہیں۔ کسی اردو ناول پر ان کا یہ پہلا باقاعدہ تنقیدی مضمون ہے)
کچھ لوگوں کو اب خبر ملی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے صدر دروازے کے باہر نصب انصاف کی علامت ”ترازو“ کے دونوں پلڑے غائب ہوگئے ہیں، حالاں کہ ہائی کورٹ جانے اور اس سڑک سے گزرنے والوں کے لئے یہ خبر نہ پرانی ہے اور نہ ہی چونکا دینے والی۔
جن لوگوں کا واسطہ عدالتوں سے پڑتا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ صدر دروازے سے انصاف کی ترازو کے پلڑے ہی نہیں، عمارت کے اندر سے انصاف بھی غائب ہوچکا ہے۔ بھلا جس ملک میں عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں وہاں کوئی منصف انصاف کی ترازو کیسے تھام سکتا ہے؟ اور اگر کسی منصف نے اس کی ہمت بھی کی تو اس کے لکھے گئے فیصلے کی روشنائی خشک ہونے سے پہلے ہی اس کے تبادلے، رخصت یا ریٹائرمنٹ کا حکم صادر کر کے گویا خود اس کے ہاتھ قلم کر دیے گئے اور انصاف کی ترازو کے خالی پلڑے ہوا میں جھولتے رہ گئے۔
اگرچہ انصاف کی ترازو کے یہ پلڑے اسی غیر محسوس طریقے سے غائب ہوئے ہیں جس طرح معاشرے سے انصاف، لیکن، مقامِ حیرت ہے کہ انصاف غائب ہونے کی کسی کو خبر نہ ہوئی اور اگر کسی کو ہوئی بھی تو اس نے کوئی واویلا نہیں کیا یا شاید خود میں اتنی ہمت نہ پائی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انجام کو سامنے رکھتے ہوئے چپ سادھ لی ہو۔ اس کے برعکس ترازو کے پلڑے غائب ہونے کی لوگوں کو نہ صرف خبر ہوگئی بلکہ بہت سے لوگ اس فکر میں غلطاں و پیچاں بھی پائے گئے کہ آخر یہ پلڑے کیوں اور کس طرح غائب ہوئے؟ حالاں کہ ذرا سا غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ یعنی جب معاشرے میں انصاف ہی نہیں رہا تو پھر ترازو اور اس کے پلڑوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ کوئی عقل مند انہیں اتار کر لے گیا ہوگیا کہ انصاف نہ سہی ان پلڑوں کی عزت ہی محفوظ رہ جائے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پلڑے، معاشرتی اور سماجی ناانصافیوں کا بوجھ سہار نہ سکنے کے باعث خود ہی کہیں منہ چھپا گئے ہوں یا پھر کوئی ضرورت مند انہیں ”پلیٹیں“ جان کر اتار لے گیا ہو، اس طرح اور کچھ نہیں تو ان میں کھانا تو کھایا ہی جاسکتا ہے۔ گویا یہ پلڑے کسی کو انصاف فراہم نہیں کرسکے تو کیا ہوا کسی کا پیٹ بھرنے کے کام تو آگئے۔ ہر چند موجودہ بے روزگاری، مہنگائی اور کراچی میں آئے دن کی ہڑتالوں کے باعث یہ امر بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک سوال ہے کہ جب بہت سے گھروں میں چولہے ہی نہیں جل پاتے تو ان پلیٹوں میں ڈالنے کے لئے کھانا کہاں سے آتا ہوگا؟ اس صورتِ حال میں یہ بات زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ کوئی سادہ لوح انہیں روٹیاں ہی سمجھ کر لے گیا ہو کہ بھوک میں تو کواڑ بھی پاپڑ لگتے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ضرورت مند نے ان پلڑوں کو بیچ کر اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیا ہواگر ایسا ہے تو کم از کم یہ اطمینان تو حاصل ہوا کہ انصاف کی ترازو کے ان پلڑوں نے کسی کو انصاف بے شک نہ دیا ہو، دو وقت کی روٹی تو مہیا کردی۔ اس دور میں یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔ یوں بھی جس شہر میں لوگ گٹر کے ڈھکن تک چوری کرنے سے دریغ نہ کرتے ہوں وہاں ان پلڑوں کی چوری پر حیرت کرنا کیا معنی؟ عین ممکن ہے کہ ان پلڑوں کو تھالیاں جان کر ایوان میں پہنچا دیا گیا ہو۔ بے شک ان دنوں وہاں لوٹوں کا رواج ہے اور گھوڑوں کی سوداگری ہورہی ہے۔ لیکن، تھالی کے بینگن کی اہمیت و افادیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ کون سا عہد یا دورِ حکومت ہوگا جب تھالی کے بینگن سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو؟ اِدھر کچھ عرصہ سے تھالی کے بینگن کی جگہ لوٹوں نے لے لی ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ یہ بینگن اپنی تھالیوں سے محروم ہوگئے تھے اور بغیر تھالی کے بینگن آپ جانیں انہیں ”بے گُن“ بھی کہا جاتا ہے اور وہ محض ”بھرتا“ بنانے کے کام ہی آسکتے ہیں یا زیادہ عزت افزائی مقصود ہو تو زیادہ مرچ مسالہ لگا کے ”بگھارے بینگن“ کے نام سے حیدرآباد کی شاہی ڈش قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ تھالیوں کے دستیاب ہوتے ہی یہ بینگن اپنی سابقہ حیثیتوں پر بحال ہوجائیں گے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان پلڑوں کو کچھ شریر بچے لے گئے ہوں اور تھالیاں پھینکنے اور پکڑنے والا کھیل کھیل رہے ہوں جسے ایک زمانے میں ٹیلی ویژن نے ”فرزبی“ کے نام سے متعارف کرایا تھا اور جب مائیں اپنے باورچی خانوں میں محض اس لئے تالا لگا کے رکھتی تھیں کہ کہیں ان کے لاڈلے سپوت کھانا کھانے کی رکابیوں سے گلی میں فرزبی کا میچ نہ کھیلنے لگیں۔ اگر یہ خیال درست ہو، اور ان پلڑوں کے غائب کرنے میں بچوں کا ہی ہاتھ ہو تو بھی اس میں بُرا منانے کی چنداں ضرورت نہیں، کیوں کہ جب ہمارے بڑے، ملک میں انصاف کو پنگ پانگ کی گیند یا کوئی اور کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں تو کیا بچوں کا ان پلڑوں پر بھی حق نہیں بنتا جو محض علامتی ترازو کی زینت تھے اور عملی طور پر کسی کام کے نہیں تھے۔ اب کوئی پرچون یا سبزی فروش تو وہاں اپنی دکان جما کر نہیں بیٹھ سکتا تھا کہ ترازو سے کوئی مثبت کام ہی لیا جاسکتا کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے ”توہینِ عدالت“ کا نوٹس مل جاتا اور اس کی بقیہ زندگی اس عمارت کے اندر وہ ”چیز“ تلاش کرتے گزر جاتی جس کا اس میں وجود بھی باقی نہیں رہا۔
قصّہ مختصر یہ کہ ان پلڑوں سے اب جو بھی کام لیا جا رہا ہو وہ ان کے بیکار اور بے مقصد لٹکے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہمیں تو بس یہ حسرت ہے کہ اے کاش! ہم میں ان پلڑوں کو غائب کرنے کی ہمت ہوتی تو آج وہ ہمارے ڈرائنگ روم کی کسی دیوار کی زینت ہوتے۔ ایسے ہی، جس طرح ہماری آپا (بیگم شوکت صدیقی) نے اپنے ڈرائنگ روم میں اپنا ”جہیزی ٹفن کیریئر اور دیگر اینٹیک (Antiques) برتن بھانڈے بطور آرائش ڈال رکھے ہیں اور ہم بھی اپنی آنے والی نسلوں کو وہ ”اینٹیک“ یہ کہہ کر بڑے فخر سے دکھاتے کہ یہ اس زمانے کی یاد گار ہیں جب عدالتوں اور معاشرے میں انصاف کا رواج ہوا کرتا تھا۔
(طنز و مزاح نگار، فیچر رائٹر اور سینئر صحافی حمیرا اطہر کا یہ کالم 1995ء میں کراچی کے ایک روزنامے میں شایع ہوا تھا اور یہ ان کی فکاہیہ تحریروں کے مجموعے ‘بات سے بات’ میں شامل ہے)
سال 2011 کی ایک سرد رات تھی جب پولیس وائرلیس پر خبر چلی کہ ایک شخص کو موقعِ واردات سےفرار ہوتے ہوئے گرفتارکیا گیا ہے۔ اسےنارتھ ناظم آباد پولیس کی اسنیپ چیکنگ پارٹی نے پکڑا تھا۔معلوم ہوا کہ وہ عورتوں کی تازہ میتوں سے زناکرتا ہے اور پاپوش نگر کے قبرستان میں اسی غرض سے آج ایک خاتون کی قبر کھودی تھی ۔ پولیس وائرلیس پر خبر چل جائے تو صحافیوں سے کیسے بچ سکتی ہے۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہوا۔
یہ الیکڑونک میڈیا کے عروج کا دور تھا۔ کراچی میں حالات خراب رہتے تھے اور بدامنی کی خبریں عام تھیں، لیکن ان تمام خبروں میں یہ ایک دل دہلا دینے والی خبر تھی۔ مجھے یاد ہے ان دنوں میں کٹی پہاڑی پر ذمہ داریاں انجام دے رہا تھا جہاں ایم کیو ایم (الطاف گروپ) اور اے این پی کے کارکن اکثر ایک دوسرے الجھتے رہتے تھے۔ گو کہ میں کورٹ رپورٹر تھا، لیکن کیوں کہ الیکٹرونک میڈیا میں نیا تھا، اس لیے ‘رگڑا’ یا اضافی کام بھی ضروری تھا۔ دفتر سے مجھے جو اضافی کام تفویض کیا گیا تھا، وہ کرائم رپورٹنگ تھی۔ خیر اس وقت واٹس ایپ گروپس اس قدر فعال نہیں ہوتے تھے۔ ایک میسج میں کچھ ٹوٹی پھوٹی خبر آئی تو میں نے فوراً نارتھ ناظم آباد میں ایک سورس کو فون کیا، میں اس سے تفصیلات سن رہا تھا اور مجھے اپنی ریڑھ کی ہڈی ایک سرد لہر اترتی محسوس ہورہی تھی۔
واقعہ کچھ یوں تھا کہ پاپوش کے قبرستان میں گورکن کو عورتوں کی میتیں قبر سے باہر مل رہی تھیں یا بعض قبروں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے انھیں کھودا ہے۔ ایک دو سال نہیں، اس کے مطابق سات آٹھ سال سے یہ سلسلہ جاری تھا اور کبھی اس کا شک جادو ٹونے اور عملیات کرنے والوں پر جاتا تو کبھی مردوں کی ہڈیاں نکال کر فروخت کرنے والوں پر۔ مگر جب وہ ایسے کسی مردے کو دیکھتا تو محسوس ہوتا کہ اس حوالے سے جو کچھ وہ سوچ رہا ہے، درست نہیں ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور نہ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ ہوا، نہ ہی اس کے ذمہ دار کبھی قانون کے شکنجے میں آئے، لیکن پھر ایک گناہ گار قانون کی گرفت میں آگیا اور یوں یہ معاملہ کھلا۔
ایک دن گورکن عبد الواحد بلوچ کو کسی تازہ قبر کے قریب کچھ شور اور گڑبڑ کا احساس ہوا۔ اس قبر میں ایک عورت کی تدفین کی گئی تھی۔ وہ فوراً اس قبر کی طرف بڑھا جہاں ایک آدمی گورکن کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اٹھا اور بھاگنے لگا اور اس پر گورکن عبد الواحد بلوچ اور اس کا ساتھی طفیل اسے پکڑنے کے لیے پیچھے بھاگے۔ قبرستان کے باہر روڈ پر نارتھ ناظم آباد تھانے کی موبائل اسنیپ چیکنگ پر تھی۔ اہلکاروں نے اچانک شور سنا اور اسی دوران بدحواسی کے عالم میں ایک شخص کو قبرستان سے باہر نکلتا ہوا دیکھا تو اسے خبردار کیا اور فوراً ہاتھ اوپر اٹھانے کا حکم دیا۔ اس مشکوک آدمی کے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ اسے رکنا پڑا۔
ابتدائی سوالات میں پولیس کو معلوم ہوا کہ اس کا نام محمد ریاض ہے اور ملزم کے مطابق وہ یہاں سے گزر رہا تھا کہ یہ لوگ (گورکن) اس کے پیچھے لگ گئے، لیکن جب پولیس نے سختی سے پوچھا تو اس نے سب اگل دیا۔ وہ تازہ قبر دیکھی گئی تو ثابت ہوگیا کہ محمد ریاض ایک ایسا بدخصلت شخص ہے جو مردہ عورتوں سے اپنی شہوانی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے اور رات کے وقت تازہ قبر کو کھود کر یہ شیطانی فعل انجام دیتا ہے۔
پولیس نے جب ملزم کی تلاشی لی تو اس سے آدھا کلو چرس بھی برآمد ہوئی اور اس کے کپڑوں پر اس کی نجاست بھی تازہ تھی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ تمام نجی چینلوں کے نمائندے اور اینکر پرسن تھانے پہنچ گئے جہاں انھوں نے ملزم سے بھی بات کی۔ اے آر وائی نیوز سمیت دیگر چینل پر ملزم کا انٹرویو بھی آن ایئر ہوا جس میں اس نے اپنے گھناؤںے فعل کی تفصیل بتائی اور اعترافِ جرم کیا۔ ملزم نے تفتیشی افسر کو اور خود میڈیا کو اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ وہ قبرستان کے قریب ہی گھومتا پھرتا رہتا ہے اور جب معلوم ہوتا ہے کہ کسی عورت کی تدفین کی گئی ہے تو اندھیرا چھانے کا انتظار کرتا ہے اور پھر یہ مکروہ فعل انجام دینے کے لیے اس کی قبر پر پہنچ جاتا ہے۔ تفیشی افسر اور میڈیا چینلوں کے نمائندوں کے استفسار پر اس نے بتایا کہ یہ جاننا مشکل نہیں ہوتا کہ میّت کسی عورت کی ہے کیوں کہ خواتین کی تدفین کا طریقۂ کار کچھ مختلف ہوتا ہے، اس کے ورثا تدفین کے وقت قبر پر بڑی سی چادر پھیلا دیتے ہیں اور رات ہو جانے کے بعد میں تازہ قبر کو کھود دیتا تھا۔
تفتیشی افسر کے مطابق ملزم نے قبر کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ 29 نومبر 2011 کو جب وہ ایک قبر میں گھس کر مکروہ فعل انجام دے رہا تو اسے قریب سے باتوں کی آواز آنے لگی، وہ گھبرا گیا اور لمحوں میں قبر سےباہر نکلنے کا فیصلہ کیا، اس بدصفت نے بتایا کہ وہ شلوار اتار کر اپنی شہوانی خواہش کی تکمیل کررہا تھا، تو آوازیں سن کر عجلت میں کفن کے ایک ٹکڑے سے اپنی نجاست صاف کی اور آدھا کلو چرس جسے وہ رات کے وقت قبرستان میں فروخت کرتا تھا، اپنے نیفے میں چھپائی اور شلوار باندھ کر قبر سے نکل کر بھاگا، لیکن گورکن کی وجہ سے پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔ ملزم کو پاپوش نگر کے قبرستان کی دیوار کے قریب پکڑا گیا تھا۔ تفتیشی افسر کے مطابق ملزم سے چرس برآمد کی گئی اور قبر کی مٹی کے علاوہ اس کے کپڑوں پر اسپرم بھی تازہ تھے، جن کا نمونہ اور قبر سے کفن کے چند ٹکڑے بھی لے لیے گئے تاکہ جرم ثابت کیا جاسکے۔
ملزم کی جانب سے ابتدائی تفتیش میں معاونت اور اس کے اعترافی بیان کے بعد اکثریت کا خیال تھا کہ ملزم عدالت میں بھی آسانی سے اپنا جرم قبول کرلے گا اور میڈیا ہائپ اور اس قدر شور کے بعد مکر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن ہر شاطر اور بے ضمیر کی طرح اس کیس میں بھی ملزم نے پینترا بدلا اور پہلے یہ کیس پاکستان کے قانونی نظام میں موجود سقم کی وجہ سے التوا کا شکار رہا اور بعد ازاں ملزم نے اوپن کورٹ میں جرم قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مگر جب گواہوں کے بیانات ہوں یا کیمیکل تجزیاتی رپورٹیں سب ملزم کے خلاف آئیں اور اس کیس کے سب سے اہم گواہ اور عینی شاہد گورکن عبدالواحد بلوچ نے بھی عدالت میں اس ملزم کے خلاف بیان دیا تو ایڈیشنل سیشن جج ذبیحہ خٹک نے اپنی آبزوریشن دی کہ ملزم کا جرم انتہائی سنگین نوعیت کا ہے اور چوں کہ ملزم خوفِ خدا سے بھی عاری ہے تو وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں، ملزم کو سخت سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ دوسروں کے لیے مثال بنے۔ عدالت نے جرم ثابت ہونے پر محمد ریاض کو مجرم قرار دیتے ہوئے دو مرتبہ عمر قید اور پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
پاکستان میں جنسی زیادتیوں کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے 2006 میں ایک ترمیم کی گئی جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر سزائے موت اور کم از کم 25 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں کسی کی تدفین میں مداخلت اور لاش کی بے حرمتی پر 295 کی دفعہ اور اس کے تحت ملزم کو جرمانہ یا ایک سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ عدالتی ریمارکس تو کسی بھی کیس کی حساسیت کو اجاگر کرتے ہی ہیں لیکن سنگین مقدمات میں سزائیں معاشرے کے بد کردار اور بے حس لوگوں کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہیں اور محمد ریاض کے کیس میں بھی فاضل جج کی جانب سے سنائی گئی سزا بہت سے بد کردار لوگوں کے لیے ایک سبق ثابت ہوئی گی۔
عشرت سلطانہ عرف ببّو کسی زمانے میں ساگر فلم کمپنی کی مشہور ہیروئن ہوا کرتی تھی۔ 1914ء میں دلّی میں پیدا ہوئی تھی۔ طبیعت بچپن سے اداکاری، رقص و موسیقی کی جانب مائل تھی اس لیے فلم لائن میں چلی گئی۔ اچھی اداکارہ ہونے کے ساتھ اچھی سنگر بھی ثابت ہوئی۔ ہیروئن اور ویمپ کا کردار یکساں خوبی کے ساتھ نبھایا کرتی تھی۔
اُن دنوں بھی بہت ہنس مکھ تھی، جس محفل میں جاتی اُسے زعفران زار بنا دیا کرتی تھی۔ پہلی بار فلم ’دوپٹہ‘ میں ایک چھوٹا سا رول ملا تھا جو اس نے خوش اسلوبی سے نبھا دیا۔ پھر بڑے کردار ملنے لگے اور فلمیں کامیاب ہوتی چلی گئیں۔ جسم تھوڑا بھاری تھا لیکن اس کی سُریلی آواز نے لوگوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔
’جاگیردار‘ اور ’گرامو فون سنگر‘ فلموں کے باعث بڑی مشہور ہو گئی۔ اس کا یہ گانا بچّے بچّے کی زبان پر تھا ’’پجاری میرے مندر میں آؤ‘‘ ایک اور نغمہ تمھیں نے مجھ کو پریم سکھایا….سوئے ہوئے ہردے کو جگایا، بہت پاپولر ہوا تھا۔
ایک بار اس کی ایک فلم دیکھ کر بمبئی کے گورنر نے اس کی تعریف کی تھی جس کی وجہ سے وہ مغرور ہو گئی اور اس کے نخرے بڑھنے لگے۔ اپنے وفا شعار شوہر کو چھوڑ کر چلتے پھرتے تعلقات پر یقین کرنے لگی۔ بالآخر حسن ڈھلنے کے دن آ گئے اور مٹاپا جسم پر چھا گیا تو سب نے آنکھیں پھیر لیں، کام ملنا بند ہو گیا۔ ملک کا بٹوارہ ہو گیا تو قسمت آزمائی کے لیے لاہور چلی گئی اور وہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مقام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہاں بھی مارکیٹ ختم ہو گئی۔ کام حاصل کرنے کی کوشش میں وہ اسٹوڈیوز کے چکّر کاٹتی رہتی تھی۔ فلم ’مغلِ اعظم‘ میں سنگ تراش کا کردار عمدگی سے نبھانے کے باوجود جب اداکار کمار کو بھی اداکاری کے میدان میں دشواری محسوس ہونے لگی تو وہ بھی پاکستان چلا گیا۔
ایک دن اُس کا کسی اسٹوڈیو میں اپنی پرانی ہیروئن ببّو سے سامنا ہوا تو دونوں گلے ملے۔ کمار بار بار ’’میری ببّو، میری ببّو‘‘ کہہ کر پرانے دنوں کی یاد تازہ کرتا رہا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بمبئی میں تب کیسے اچھے دن تھے اور اب کتنا مایوس کر دینے والا ماحول تھا۔ ببّو کے پاؤں جب فلم انڈسٹری سے اکھڑ گئے اور کوشش بسیار کے باوجود کام نہ ملا تو اُس نے شراب کی ناجائز درآمد اور برآمد کا دھندا شروع کر دیا، پکڑی گئی تو نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ آخر کار گمنام موت نصیب ہوئی۔ اب اُسے یاد کرنے والا کوئی نہیں۔
پاکستان سپر لیگ جو دنیا کی مقبول ترین کرکٹ لیگز میں شامل ہے جس میں دنیائے کرکٹ کے نامور کھلاڑی شریک ہوتے ہیں۔ پی ایس ایل کا 9 واں ایڈیشن اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ لگ بھگ ایک ماہ تک کرکٹ شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھنے کے بعد اسلام آباد کے چیمپئن بننے کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔ ماہ رمضان المبارک کے تقدس میں روایتی رنگا رنگ اختتامی تقریب تو نہ ہو سکی مگر اسلام آباد نے ریکارڈ تیسری بار پی ایس ایل کی حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجایا۔
پی ایس ایل کے اس نتیجے کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ ٹیم میں کپتانی کی بحث نے ایک بار پھر جنم لے لیا ہے۔ میڈیا اور کرکٹ حلقوں میں شاہین شاہ آفریدی کی قائدانہ صلاحیتوں، حالیہ ناکامیوں اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل قیادت کسی اور کھلاڑی کو سونپنے کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔
پی ایس ایل ختم ہونے کے بعد اب پاکستان کرکٹ ٹیم کی نان اسٹاپ انٹرنیشنل مصروفیات شروع ہو رہی ہیں۔ آئندہ ماہ نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی ہوم سیریز کھیلنی ہے، اسکے بعد انگلینڈ اور آئرلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز ہیں جس کے بعد ٹیم کا اصل امتحان جون میں ویسٹ انڈیز اور امریکا کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والا آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ ہے لیکن یہاں حال یہ ہے کہ قومی ٹیم ہیڈ کوچ کے بغیر ہے، کپتان کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے اور ٹیم کا ورلڈ کپ کمبینیشن اب تک نہیں بن سکا ہے تو ٹیم سے اس میگا ایونٹ میں کیا توقعات رکھی جا سکتی ہیں۔
گزشتہ سال ایشیا کپ اور پھر ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص پرفارمنس کے بعد کپتان بابر اعظم نے استعفیٰ دے دیا تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہین شاہ آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں قیادت کے لیے منتخب کیا اور ان کی وجہ انتخاب پی ایس ایل میں لاہور قلندرز کو اپنی قیادت میں مسلسل دوسری بار چیمپئن بنوانا تھا تاہم کپتان بنتے ہی ایسا لگا کہ شاہین شاہ آفریدی کے بُرے دن شروع ہوگئے۔ پہلا امتحان نیوزی لینڈ میں پانچ ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سیریز تھی جس میں پاکستان پہلی بار کیویز سے وائٹ واش ہونے سے بال بال بچی اور آخری میچ میں گرتے پڑتے فتح حاصل کی یوں نیوزی لینڈ نے یہ سیریز چار ایک سے اپنے نام کی۔
دورۂ نیوزی لینڈ کے فوری بعد پی ایس ایل شروع ہو گیا اور یہاں بھی لاہور قلندر کے کپتان کے طور وہ اس سیزن میں مکمل ناکام نظر آئے۔ نہ صرف بطور قائد ان کے کئی فیصلوں پر تنقید ہوئی بلکہ ان کی انفرادی کارکردگی بھی ماضی جیسی نہ تھی جس نے ان پر دباؤ بڑھایا اور اس پر طرہ یہ کہ لاہور کو ورلڈ کلاس افغان اسپنر راشد خان کا ساتھ میسر نہ تھا یوں لاہور قلندرز ایونٹ کے دس میچز میں سے صرف ایک میچ ہی جیت پائی اور خالی ہاتھ گھر واپس آئی۔
دورہ نیوزی لینڈ کی ناکامی کے بعد پی ایس ایل میں شاہین کی ناکامی نے ان کے ناقدین کے ساتھ عام کرکٹ مبصرین کو بھی اس ناکامی کی وجوہات تلاش کرنے پر مجبور کر دیا اور اب لوگ کھل کر اس حوالے سے رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور یہاں دو متضاد رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ شاہین شاہ آفریدی کو قیادت کے لیے ابھی صرف ایک انٹرنیشنل سیریز ملی ہے انہیں وقت دینا چاہیے اور یہ بات معقول بھی لگتی ہے کہ کسی کی قائدانہ صلاحیتوں کا موازنہ صرف ایک سیریز سے نہیں کیا جا سکتا ہے کہ سونے کو کندن بننے میں اور ہیرے کو تراشنے میں وقت تو لگتا ہے۔ لیکن دوسری جانب شاہین شاہ کو قیادت سے ہٹا کر ٹی ٹوئنٹی کی قیادت محمد رضوان کو دینے کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں اور اس کے لیے مضبوط حوالہ رضوان کی قیادت میں ملتان سلطانز کا مسلسل چوتھی بار پی ایس ایل فائنل کھیلنا، ایک بار چیمپئن بننا اور تسلسل سے انفرادی کارکردگی بھی دکھانے کو جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جب کہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے چیمپئن بننے کے بعد شاداب خان کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اس وقت دو مخمصوں کا شکار ہے ایک جانب اسے ٹیم کے لیے ہیڈ کوچ کی تلاش ہے جس کے لیے پی سی بی چیئرمین محسن نقوی غیر ملکی ہیڈ کوچ چاہتے ہیں چاہے اس کا سپورٹنگ اسٹاف ملکی ہو۔ اس کے لیے شین واٹسن، ڈیرن سیمی، اسلام آباد یونائیٹیڈ کو پی ایس ایل کا چیمپئن بنوانے والے مائیک ہیسن سمیت دیگر کئی غیر ملکی سابق کرکٹرز اور موجودہ کوچز سے بات ہوئی مگر تاحال کسی بڑے نام سے قومی ٹیم کو کوچنگ کے لیے گرین سگنل نہیں دیا ہے۔ دوسری جانب پی سی بی پے در پے شکست کی پٹری پر چلتی قومی ٹیم کی گاڑی کو جیت کی ٹریک پر ڈالنے کی خواہاں ہے جس کے لیے چند ماہ قبل کپتان اور منیجمنٹ بھی بدل لی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات رہا۔
پی سی بی نے یوں تو شاہین شاہ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک کے لیے قیادت کی ذمے داری سونپی تھی لیکن یہاں عموماً حالیہ نتائج سابقہ فیصلوں کو تبدیل کرا دیتے ہیں۔ پاکستان ٹی ٹوئنٹی کی ایک مضبوط ٹیم ہے جو کسی بھی ٹیم کو کہیں بھی ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن جب تک ٹیم کو مضبوط اور مستقبل کپتان کا ساتھ میسر نہیں ہوگا ٹیم یونہی افراتفری کا شکار رہے گی اور پھر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی شاید ون ڈے ورلڈ کپ کی کہانی دہرائی جائے گی۔
اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ ابہام ختم کرے۔ ہیڈ کوچ کے جلد تقرر کے ساتھ پی سی بی یا تو واضح طور پر شاہین شاہ کو گرین سگنل دے کہ وہ ورلڈ کپ تک قیادت کریں گے تاکہ نیوزی لینڈ اور پی ایس ایل میں ان کی ٹیم کی حالیہ کارکردگی سے جو ان کا اعتماد متزلزل ہوا ہے وہ واپس آئے یا اگر بورڈ کپتان کی تبدیلی سے متعلق سنجیدگی سے سوچ رہا ہے تو کئی سابق کرکٹرز کا یہی مشورہ ہے کہ وہ پھر ورلڈ کپ کا انتظار نہ کرے اور بولڈ فیصلہ کرتے ہوئے قیادت کو تبدیل کرے کیونکہ ورلڈ کپ میں اب بمشکل تین ساڑھے تین ماہ رہ گئے ہیں۔ اگر درست فیصلے بروقت نہ ہوں تو وہ نتائج بھی درست نہیں لاتے۔
پی ایس ایل کی بات ہو رہی تھی تو چلتے چلتے پی ایس ایل 9 اور گزشتہ سال کھیلے گئے ورلڈ کپ 2023 کی حیران کن مماثلت پر بھی بات کرتے چلیں کہ جس کے آغاز سے اختتام تک کہیں کہیں تو یوں گمان ہوا کہ کہیں پی ایس ایل 9، ورلڈ کپ 2023 کو سیکوئل تو نہیں۔
ورلڈ کپ 2023 میں کرکٹ کے بانی کہلانے والا ملک انگلینڈ ٹائٹل جیتنے کی فیورٹ ٹیموں میں شامل تھا اور دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے ورلڈ کپ میں شرکت کی، لیکن دفاعی چیمپئن کو اس میگا ایونٹ میں ٹرافی کا دفاع تو دور اگلے برس چیمپئنز ٹرافی میں رسائی تک کے لالے پڑ گئے تھے۔ اسی طرح لاہور قلندرز بھی پی ایس ایل 9 میں فیورٹ اور دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے شریک تھی لیکن انگلینڈ کی طرح لاہور قلندرز کی کامیابیوں کو بھی ایسا ریورس گیئر لگا کہ پھر ٹریک پر نہ آسکی۔
ورلڈ کپ میں اگر انگلینڈ نے ٹورنامنٹ کا آغاز ناکامی سے کیا اور صرف آخری میچ ہی جیت سکی تو پی ایس ایل 9 میں بھی لاہور قلندر نے ایونٹ کا آغاز اسلام آباد یونائیٹڈ سے شکست کے ساتھ کیا اور پھر پے در پے شکستیں اس کا مقدر بنی رہیں اور انگلینڈ کی طرح صرف آخری میچ میں ہی فتح نصیب ہو سکی یوں یہ بھی انگلش ٹیم کی طرح بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے کے مترادف خالی ہاتھ واپس لوٹ گئی۔
دوسری مماثلت ورلڈ کپ سے یہ رہی کہ بھارت پورے ورلڈ کپ میں ناقابل شکست اور پوائنٹس ٹیبل پر سر فہرست رہا لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے شکست دے دی۔ پی ایس ایل 9 میں اگرچہ ملتان سلطانز ناقابل شکست نہیں رہی مگر پوائنٹس ٹیبل پر سر فہرست رہی لیکن فائنل میں آکر غبارے سے ایسے ہی ہوا نکل گئی جیسے بھارت کی نکلی تھی۔
تیسری مماثلت یہ رہی کہ ورلڈ کپ 2023 جیتنے والی ٹیم آسٹریلیا نے ٹورنامنٹ کا آغاز دو شکستوں سے کیا اور راؤنڈ میچ میں فائنلسٹ بھارت سے شکست ہوئی تھی لیکن پھر سب کو پچھاڑتی ہوئی آخر میں میزبان کو شکار کر کے آسٹریلیا نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں ریکارڈ چھٹی بار ٹرافی اٹھائی۔ پی ایس ایل 9 کو دیکھیں تو چیمپئن اسلام آباد یونائیٹڈ نے اگرچہ ٹورنامنٹ کا آغاز لاہور قلندرز کو زیر کر کے کیا لیکن پھر پے در پے دو شکستوں سے مورال ڈاؤن ہوا معاملات اوپر نیچے ہونے کے بعد ٹیم نے آسٹریلیا کی طرح دوبارہ دم پکڑا اور اایلیمنیٹرز میں پہلے کوئٹہ اور پھر پشاور کو دھول چٹا کر فائنل میں پہنچی اور حتمی مقابلے میں ملتان سے راؤنڈ میچ کی شکست کا بدلہ ایسا چکایا کہ پھر شاداب خان نے ٹرافی اٹھائی اور یوں پی ایس ایل کی تاریخ میں اسلام آباد یونائیٹڈ کو تیسری بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
صرف میچز کے نتائج ہی نہیں بلکہ ٹورنامنٹ کے بہترین بولر میں بھی یکسانیت رہی۔ ورلڈ کپ میں بہترین بولر فائنل ہارنے والی ٹیم بھارت کے بولر محمد شامی تھے جن کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 24 تھی جب کہ پی ایس ایل 9 کے بہترین بولر بھی فائنل کی رنر اپ ٹیم ملتان سلطانز کے اسامہ میر رہے اور ان کی وکٹوں کی تعداد بھی 24 ہی رہی۔
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے صرف پاکستان اور اداروں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو حیران کیا . جس طرح بے نشان سیاسی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے ماہر کھلاڑیوں کی طرح بغیر بلے کے ہی سنچری بنا ئی اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ادھر گومگوں کی کیفیت کا شکار حلقوں کی جانب سے حسب منشا نتائج کے لیے سر توڑ کوششوں اور کئی ہفتوں کی محنت شاقہ کے بعد مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا بھان متی کا کنبہ ایک بار پھر ’’پی ڈی ایم 2‘‘ کی صورت میں اقتدار کی کشتی میں سوار ہو گیا ہے۔
جمہوری اصولوں کے مطابق تو حکومت سازی کے لیے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا پہلا حق ہوتا ہے، لیکن اس ملک میں اس سے قبل پہلے کس کو ان کے حقوق ملے ہیں جو ہم اس جمہوری حق کی بات کریں۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف جمہوریت کے نام پر ہمیشہ ایک ہائبرڈ نظام لانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے اور حسب روایت اس بار بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔
پولنگ کے اگلے دن ہی جب تمام آزاد ذرائع اور پاکستانی میڈیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سب سے بڑا کامیاب امیدواروں گروپ بتا رہا تھا، ایسے میں پاکستانی عوام کی تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے۔ 6 جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، آئی پی پی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ایک ساتھ بٹھا کر بحران کا شکار پاکستان کی نیا کو پار لگانے کے لیے جیسے تیسے کر کے ایک بار پھر اقتدار کی کشتی میں سوار کرا ہی دیا۔
پاکستان میں عام انتخابات جیسے بھی ہوئے، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کو کیا پذیرائی ملی، دھاندلی کا کتنا شور اٹھا، غیر جانبدار حلقوں اور ممالک نے کن تشویشات کا اظہار کیا۔ فارم 45 سے 47 تک کیا بحث چلی، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جو قومی اسمبلی میں عددی اکثریت میں سب سے بڑا گروپ بن کر سامنے آئے اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل کی چھتری کا بھی سہارا لیا مگر پی ٹی آئی سے مخصوص نشستوں پر باریک بینی سے گیم کھیل کر اسے اس حق سے نہ صرف محروم بلکہ پہلے سے دوسرے نمبر پر بھی کر دیا گیا، لیکن یہ سب باتیں پرانی اور بے سود ہو گئیں کیونکہ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں اس ادھوری سدھوری جمہوریت کے ثمرات نئی حکومتوں کے قیام کی صورت میں مکمل ہو گئے۔
وفاق میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے سر پر ایک بار پھر حکمرانی کا تاج سج گیا تو نواز شریف جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی حسرت پوری نہ کر سکے لیکن اپنی سیاسی وراثت کو اگلی نسل میں منتقل کرتے ہوئے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں کامیاب رہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے کے پی میں جھاڑو پھیر کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ سندھ میں حسب روایت پی پی کا سکہ چل رہا ہے تو بلوچستان میں پی پی کی سربراہی میں مخلوط حکومت ہے۔
عمران خان کی حکومت کے خلاف اپریل 2022 میں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم کی تھی جس نے اپنے اقدامات سے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ پاکستان کے عوام پہلے ہی پی ڈی ایم پارٹ ون کی حکومت کے ذریعے ڈسے ہوئے تھے اور حالیہ الیکشن میں اس کا بدلہ بھی اپنے ووٹ سے لیا لیکن کیا کریں پاکستان کے عوام کی قسمت میں ایک بار پھر اسی بھان متی کے سیاسی کنبے کے حوالے کر دی گئی ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی قائم ہونے والی حکومت بھی ان کی پرانی حکومت کا سیکوئل یعنی ’’پی ڈی ایم پارٹ 2‘‘ ہے مگر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ۔
شہباز شریف بخوشی یا با امر مجبوری وزارت عظمیٰ کا تاج دوبارہ سر پر سجا کر جس کانٹوں بھری کرسی پر براجمان ہوئے ہیں اس کا ان سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو احساس تھا اسی لیے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے تباہ حال پاکستان کی اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کو کوئی دل سے تیار نہیں تھا۔ یوں حکومتی ٹرین کی فرنٹ سیٹ ن لیگ کو دوبارہ دی گئی، لیکن اس کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں لانے والی پیپلز پارٹی حکومتی وزارتوں سے دور رہے گی۔ جس کو سیاسی حلقے ایک زیرک سیاسی چال قرار دے رہے ہیں، کیونکہ شہباز شریف کے لیے صرف معاشی نہیں بلکہ کئی سیاسی بحران بھی سامنے موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو بھاری قرضوں کی واپسی اور ان کی واپسی سمیت ملکی امور چلانے کے لیے مزید قرضوں کا حصول جس کے لیے آئی ایم ایف کو پی ڈی ایم ون کے ذریعے پہلے ہی پاکستانی عوام پر کئی شکنجے کس چکا ہے مزید نئی اور سخت ترین شرائط کے ساتھ سامنے آئے گا جب کہ اتحادی حکومت کی وجہ سے اتحادیوں کے جائز اور ناجائز مطالبات بھی اس حکومت کے لیے ایک درد سر ہی بنے رہیں گے۔ ایسی صورتحال میں پی پی کا یہ فیصلہ ن لیگ کی بحران زدہ سیاسی کشتی کو ڈبونے کے لیے اس کا سوراخ مزید بڑا کرنے کے مترادف ہی کہا جا سکتا ہے اور بہت سے حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی پی نے جس مفاہمت کا نام لے کر ن لیگ کو سہارا دیا ہے وہ دراصل ن لیگ کو گہرے گڑھے میں دھکیلنے اور اگلی ٹرم میں اپی جگہ پکی کرنے کی ایک سیاسی چال ہے۔
بہرحال شہباز شریف حکومت سنبھال چکے ہیں اور سابق صدر آصف زرداری جو ممکنہ طور پر جلد ہی موجودہ صدر بھی ہو جائیں گے نے شہباز شریف کو آئنسٹائن سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ جس طرح آئن اسٹائن مشکل چیلنجز سے نہیں ڈرا اسی طرح شہباز شریف بھی نہیں ڈریں گے اور اہم ان کے پیچھے کھڑے رہیں گے۔ تاہم سیاست بھی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور کی طرح ہے کہ یہاں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر عمل مشکل سے ہی کیا جاتا ہے، تو شہباز شریف جنہیں جہاں معاشی مسائل، بیروزگاری، بدامنی، مہنگائی جیسے بے قابو جنات کو بوتل میں بند کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے وہیں انہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ اب ان کے سامنے راجا ریاض کی صورت فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے جو حکومت کی ہر جائز وناجائز بات ہر سر تسلیم خم کرے گی۔ پی ٹی آئی اراکین تو حکومت کی نیندیں اڑائیں گے ہی، لیکن کسی بھی غلط شاٹ (فیصلے) پر پی پی بھی اس کو نہیں بخشے گی۔ ساتھ ہی ماضی میں نواز شریف کے ہم قدم رہنے والے شعلہ بیان بزرگ سیاستدان محمود خان اچکزئی اور پی ڈی ایم ون حکومت کے پشتی بان مولانا فضل الرحمان کا اختلاف دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے اس لیے اب زرا سنبھل کر کہ ان کے ساتھ اب ن لیگ کی ساکھ اور سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔
دوسری جانب تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جو چوتھی بار وزیراعظم پاکستان کا تاج پہننے کی خواہش لیے ’’چار سالہ طویل علاج‘‘ کے بعد اس وطن عزیز میں قدم رنجہ ہوئے تھے تاہم من پسند نتائج اور سادہ اکثریت نہ ملنے کی بنا پر چار وناچار اپنی خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا تو دیا ہے لیکن اب ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا کیا وہ بغیر حکمرانی کے اسی ملک میں مزید قیام کرنا پسند کریں گے یا پھر ’’کسی خاص وجہ‘‘ کی بنیاد پر واپس بیٹوں کے پاس ان کے دیس چلے جائیں گے یہ بھی جلد عوام کے سامنےآ جائے گا۔