Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    ان دنوں پاکستان کی شہرت کا ڈنکا چہار سُو بج رہا ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا پر پاکستان کی خبریں جگہ پا رہی ہیں اور یہ سب کسی کارنامے اور نیک نامی کی وجہ سے نہیں بلکہ ملک میں شدید سیاسی اور آئینی بحران، معاشی ابتری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کرپشن، ایوان اقتدار میں جاری چوہے بلی کے کھیل اور عوامی کی بدحالی کی خبریں ہیں جس سے پاکستان کا منفی تأثر پختہ ہوتا جا رہا ہے۔

    کچھ عرصے سے ہمارے روایتی حریف پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا پر تو پاکستان کے سیاسی اور معاشی حوالے سے تسلسل کے ساتھ منفی خبروں کا سلسلہ جاری تھا لیکن جب بحران پر قابو پانے والوں نے اس سے صرفِ نظر کیا تو یہ معاملہ اتنا پھیلا کہ اب امریکا، برطانیہ، یورپ، ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ غرض دنیا کا کون سا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان کے سنگین حالات کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو ایشین ٹائیگر، ریاست مدینہ، خود مختار اور خودکفیل ملک بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے آج ان ہی کے اعمال اور افکار کے باعث دنیا پاکستان کے حالات کو ایتھوپیا، یوگنڈا، سری لنکا جیسی صورتحال کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔

    اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے باعث سسکتی اور دم توڑتی انسانیت ہے لیکن کسی سیاستدان کو سن لیں‌ یا کسی ٹی وی چینل پر نظر ڈالیں تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ الیکشن مئی میں ہوں گے یا اکتوبر میں۔ سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہماری سیاست دل کے ساتھ دماغی صلاحیتیں بھی کھوچکی ہے۔ سب کا زور الیکشن پر ہے لیکن جس عوام کے ووٹوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کرنے کی یہ ساری تگ و دو ہے ان کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔

    پاکستان یوں تو بانی پاکستان قائداعظم کی وفات کے بعد سے ہی سیاسی محاذ آرائی اور چپقلشوں کا شکار ہو کر حقیقی جمہوریت کی راہ سے دور ہوتا چلا گیا لیکن موجودہ سیاسی صورتحال تو اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ سنجیدہ طبقے کے لیے سیاست ایک گالی بنتی جا رہی ہے۔ جو لوگ 90 کی دہائی کی سیاسی چپقلش اور دشمنی پر مبنی انتقامی کارروائیاں بھول گئے تھے انہیں اب وہ بھی اچھی طریقے سے یاد آگئی ہے۔

    پی ڈی ایم کی درجن بھر جماعتوں پر مشتمل اس حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے جو اپنے ساتھ عوام کی امیدوں، معاشی استحکام، سیاسی برداشت، مساوات اور نہ جانے کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے اور اب تو ہر طرف جمہوریت اور سیاست کے نام پر مخالفین پر رکیک اور شرمناک الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

    ملک کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے مہنگا اور خونیں رمضان گزارا ہے۔ دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ روزے میں بزرگ مرد و خواتین 10 کلو آٹے کے تھیلے کے لیے ہزاروں کی بھیڑ میں اپنی عزت نفس گنواتے اور جانیں لٹاتے رہے۔ اس سال تو زکوٰۃ کی تقسیم جیسا فریضہ بھی خونریز ثابت ہوا اور کراچی میں ایک مل کے گیٹ پر چند ہزار روپوں کے لیے درجن بھر جانیں قربان ہوگئیں۔

    ایک سال میں عوام کا سکھ چین سب ختم ہوگیا لیکن سیاسی خلفشار، عدم اطمینان، بے چینی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ حکومت بدلی لیکن 75 برسوں سے وعدوں پر ٹرخائی جانے والی عوام کی قسمت پھر بھی نہ بدل سکی اور اس کی جھولی میں سوائے وعدوں اور نام نہاد دعوؤں پر مبنی سکوں کے کچھ نہیں گرا۔

    آج صورتحال یہ ہے کہ مہینوں تک ترلے منتیں کرنے اور سخت شرائط مان کر عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر قرض کا معاہدہ نہیں ہو پا رہا ہے اور روز نت نئی شرائط عائد کر رہا ہے۔ دوست ممالک لگتا ہے کہ دہائیوں سے ایک ہی ڈرامے کا ری پلے بار بار دیکھ کر اتنے تنگ آچکے ہیں اور وہ بھی کوئی خاص مدد کے لیے آگے نہیں آرہے ہیں۔

    اگر ہم اپنے چاروں طرف پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ملکوں پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن قرار دیے جانے والا بھارت اپنے سیٹلائٹ خلا میں بھیج رہا ہے اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا ہی حصہ ہوا کرتا تھا آج وہاں ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری معیشت سے کافی آگے نکل چکا ہے، 20 سال امریکی جنگ سے نبرد آزما افغانستان کی معیشت ایک اعتبار سے ہم سے بہتر ہے۔ ایران مسلسل کئی دہائیوں سے امریکی عتاب کا شکار ہے مگر وہاں خاص سطح پر معاشی استحکام نمایاں ہے جب کہ ہمارا قومی کشکول دراز ہوتا جا رہا ہے۔

    اس وقت ملک کی سوئی الیکشن پر اٹکی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے دوسری بار واضح حکم دیا کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہونے ہیں لیکن جنہوں نے اس پر عملدرآمد کرنا ہے وہ اس کو ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ نئی نئی تاویلیں گھڑ کر لائی جاتی رہی ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ میں ملک میں بیک وقت الیکشن کے حوالے سے درخواستیں زیر سماعت ہیں اور عدالت عظمیٰ بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تجویز دے چکی ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کی تین نشستیں کسی تصفیے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئیں جس پر حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہوئے عدالت نے مزید مہلت طلب کی ہے تاہم سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

    اب گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں ہے لیکن یہاں اناؤں کی بلا اتنی حاوی ہے کہ کوئی جھکنے اور ملک و قوم کی خاطر رویوں میں نرمی لانے پر تیار نہیں ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ عوام پر حکمرانی کریں لیکن عوام کو اس کے بدلے میں دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے دلاسوں کے۔

    ہمارے سیاستدان شاید اپنی اپنی اناؤں کو ملکی وقار، سلامتی معاملات اور عوامی مفاد سے افضل سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے باوجود ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور مذاکرات کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس پی ڈی ایم سے اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے مذاکرات ہو رہے ہیں اس کے سربراہ فضل الرحمان ان مذاکرات کے سخت خلاف اور مذاکراتی عمل سے مکمل طور پر باہر ہیں جب کہ حکومت کو لندن سے کنٹرول کرنے والے نواز شریف بھی ان مذاکرات کے لیے رضامند نہیں ہیں۔

    مذاکرات جو اب تک ناکام ہی نظر آتے ہیں اس میں دونوں فریقین کے مطابق قومی اسمبلی توڑنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ بہرحال فریقین بے شک ان مذاکرات کے بارے میں کچھ بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ خدشات، بے یقینی، بدگمانی کے ساتھ جھوٹی اناؤں کا خول بھی ہے جو تمام معاملات پر حاوی ہے۔

    دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی کسی گمبھیر مسئلے پر بات چیت کی جاتی ہے تو کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے فریقین کے درمیان بدگمانی اور بداعتمادی کی فضا دور کی جاتی ہے اور جو صاحب اختیار اور اقتدار ہوتا ہے اس پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ ماحول پیدا کرے لیکن یہاں تو معاملات ہی الٹے رہے۔

    مذاکرات کے لیے دونوں فریقین نے کمیٹیاں بنائیں لیکن مذاکرات شروع ہوئے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف آپریشن اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہوگیا۔ جب سراج الحق عمران خان سے ملاقات کرکے اور انہیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دے کر آئے تھے تو اس کے فوری بعد پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کو گرفتار کیا گیا اور جب مذاکرات کی بات آگے کمیٹیوں تک پہنچی تو علی امین گنڈاپور کو حراست میں لے کر ملک بھر میں گھمایا گیا لیکن سب سے تشویشناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب رات کی تاریکی میں عدالتی حکم کے برخلاف پی ٹی آئی کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی رہائشگاہ پر چھاپہ بلکہ کئی چھاپے مارے گئے جو صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے مزید بگاڑ کی جانب لے گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو خادم اعلیٰ کے ساتھ شہباز اسپیڈ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس کی وجہ ن لیگ کا حلقہ احباب پنجاب میں تیز رفتار ترقیاتی کام بتاتا ہے، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کی اسپیڈ دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ بنانے اور مخالفین پر مقدمات بنانے میں ہی نظر آتی ہے۔ ان کی 83 رکنی کابینہ نے جہاں دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کا اعزاز پایا ہے اسی طرح سابق وزیراعظم پر چند ماہ میں 122 سے زائد مقدمات کا قائم ہونا بھی اپوزیشن رہنما کے خلاف مقدمات کے اندراج کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کردے کیونکہ پی ٹی آئی رہنما خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ حکومت جلد عمران خان کے خلاف مقدمات کی ڈبل سنچری مکمل کرلے گی۔

    ملک میں جاری اس پُتلی تماشے کو عوام 75 سالوں سے دیکھ کر رہی ہے۔ پپٹ یعنی پتلیاں بدل جاتی ہیں لیکن کھیل معمولی رد وبدل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا کیا جمہوریت میں جمہور کے کچھ حقوق نہیں ہوتے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ملک کا ہر شخص صاحب اختیار و اقتدار کے مستقبل میں ان پر حکمرانی کے سہانے خواب دیکھنے والوں سے پوچھ رہا ہے۔ اگر کسی کو اس جمہور کا خیال ہے تو پھر انا کے خول کس لیے؟ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہ کہہ کر رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کر گئے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے مر جائے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا‘‘ دنیا کے مختلف ممالک کا نظام دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے اس طریقہ حکمرانی کو اغیار نے اپنا لیا لیکن آج ان کے نام لیوا کو کیوں اپنی عوام کی پروا نہیں اور کیوں ان کے ملک میں بھوک، غربت اور بیروزگاری کے باعث خودکشیاں بڑھتی جا رہی ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے جو باضمیر لوگوں کو ضرور کچوکے لگائے گا لیکن صاحب اختیار اور بااختیار میں ایسے کتنے ہیں؟

  • گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ  میں  آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ میں آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    رواں ہفتے حکومتی نمائندے اور اراکینِ پارلیمنٹ آئینِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی گولڈن جوبلی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر پارلیمنٹ میں اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے پُرجوش انداز میں تقاریر بھی کیں جس میں آئین پاکستان کے تحفظ کے وعدے اور دعوے کیے گئے۔ لیکن اسی پارلیمنٹ میں اسی آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی جاری تھا جو ان سیاست دانوں کے دہرے معیار کا ثبوت ہے۔

    یوں تو قیام پاکستان کے 9 سال بعد 1956 میں ملک کو پہلا آئین ملا تھا لیکن اس کی عمر صرف دو سال ہی رہی۔ سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کر دیا اور ملک میں پہلے مارشل لا نے جنم لیا۔ جنرل ایوب خان پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد چار سال تک ملک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔ 1962 میں اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں بنایا مملکت کا دوسرا آئین یکم مارچ 1962 کو نافذ ہوا جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلی منعقد ہوئی۔ 8 جون کو راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لا کو حتمی شکل دی گئی۔ اس آئین کے تحت صدارتی نظام لایا گیا اور تمام اختیارات صدر کو حاصل تھے تاہم یہ صدارتی آئین بھی صرف 7 سال تک ہی چل سکا۔

    ملک بھر میں احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو ان کے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا تو انہوں نے اپنے سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیے۔ 25 مارچ 1969 کو پاکستان ایک بار پھر مارشل لا کے قدموں میں دبوچ لیا گیا۔ آئین سے بار بار روگردانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کردیا اور مشرقی پاکستان ایک نئے ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس صدمے نے پوری قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا جس کو 1973 میں تیسری بار لیکن ایک متفقہ آئین دے کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اپنے قیام کی تیسری دہائی میں دو لخت ہونے کے بعد پاکستان کی بکھری قوم کو 50 سال قبل 10 اپریل 1973 کے دن ملک کا پہلا متفقہ آئین ملا۔ اس آئین کی تشکیل میں تمام جمہوری سیاسی قوتوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن کریڈٹ بہرحال ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بکھری اور اضطراب میں مبتلا قوم کو ایک متفقہ آئین دے کر پھر سے اٹھانے اور دنیا کے نقشے پر ایک باوقار ملک بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔

    اس آئین میں ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ انسانی حقوق کے ساتھ ہی ہر مکتب فکر کے معاشرتی، سماجی اور معاشی حقوق، اداروں کی حدود، پارلیمانی اختیارات سمیت ہر شعبۂ زندگی کا اس میں احاطہ کیا گیا اور ہر طبقہ فکر کی ترجمانی کی گئی۔ آئین نافذ ہوا لیکن نفاذ کے صرف چند سال بعد ضیا الحق نے اس آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمایا جو ان کی موت تک لگ بھگ 11 برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد مشرف دور حکومت کے 9 سال بھی آئین کی پامالی میں گزرے۔

    لیکن اگر آئین سے کھلواڑ کا نوحہ صرف آمرانہ دور حکومت تک محدود ہوتا تو شاید اچنبھے کی بات نہ ہوتی کہ آمروں کے لیے تو آئین ہمیشہ ایک کھلونا ہی رہا ہے، لیکن یہ خلاف ورزی آئین کی تشکیل سے لے کر اب تک ہر جمہوری دور میں کم یا زیادہ کی جاتی رہی ہے اور آئین کی محافظت کے دعوے دار ہی اس کے خلاف اقدامات کرتے رہے ہیں۔ یوں تو ہر جمہوری دور میں حکمرانوں نے آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی سمجھا لیکن ہر طرف یہی آوازیں‌ اٹھ رہی ہیں‌ کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں آئین کی خلاف ورزیاں اور دستور کی شقوں سے جو چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے اس کی مثال سابق جمہوری ادوار میں نہیں ملتی۔

    ملک کو متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن کی خلاف کارروائیاں، مقدمات، جیلیں آئین میں دیے گئے انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزیاں ہی تھیں۔ پھر جب ضیا الحق کی آمریت کے بعد 11 سال جمہوریت کا چراغ ٹمٹاتا رہا اس میں بھی اس وقت کی دو بڑی جماعتیں (پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ) میوزیکل چیئر کی طرح اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں تو انہوں نے بھی اقتدار کے حصول کے ساتھ ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے لیے آئین سے کھلواڑ جاری رکھا۔

    1997 کا وہ دور تو سب کو یاد ہوگا جب نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں 1973 کے آئین میں 15 ویں آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تمام اختیارات اپنی ذات کے اندر سمونے کی کوشش کی۔ اسی دوران سپریم کورٹ پر ن لیگی اراکین پارلیمنٹ کے حملے نے پوری دنیا میں پاکستان کے جمہوری امیج کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔

    آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں اٹھارویں ترمیم لا کر صوبوں کو بااختیار بنایا جو کچھ حلقوں کے نزدیک اب بھی متنازع ہے اور وہ اس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ یہ بحث الگ کہ اس کے کیا فوائد یا کیا نقصانات تھے۔ 1973 میں آئین کے نفاذ سے اب تک صرف دو بار جمہوری حکمرانوں نے آئین کو طاقت دی۔ ایک جب صدر کے اسمبلی توڑنے کے 58 ٹو بی کے اختیارات کو نواز شریف دور حکومت میں ختم کیا گیا کیونکہ اس آٹھویں آئینی ترمیم سے نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں ہی نڈھال تھے اور اقتدار سے محرومی کا زخم کھا چکے تھے۔ دوسرا مرتبہ سابق صدر زرداری نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے آئین کو طاقت ور ثابت کیا، لیکن اس کے بعد دیکھا جائے تو ہمیں 50 سالہ تاریخ میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جو آئین کے احترام اور عملدرآمد کے حوالے سے بہت زیادہ مثالی رہی ہو۔ بلکہ ہوتا یہ آیا ہے کہ ہر جمہوری حکمران نے بھی اپنے مفاد میں قانون اور آئین کو موم کی ناک سمجھا اور جہاں مفاد نظر آیا وہیں اس کو موڑ لیا یا اسی تناظر میں اس کی تشریح کر ڈالی اور کروا لی۔

    2023 شروع ہوا تو 1973 کے آئین پاکستان کی وارث کہلانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پورا سال آئین کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور یہ خوش آئند ہے کہ مہذب قومیں اپنے دستور کی پاسداری سے ہی پہچانی جاتی ہیں لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جاتا۔

    پارلیمنٹ میں دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر خارجہ اور 1973 کے آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے جوش ولولے سے آئین کے تحفظ اور پاسداری کے عزم پر مبنی خوش کن تقاریر کیں لیکن اسی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لیے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل منظور کر لیا جس کو آئینی ماہرین آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے جس کی ایک سماعت شروع ہوچکی ہے اور اگلی سماعت عیدکے بعد مقرر ہے۔ اس پر فیصلہ بھی آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے راہ متعین کرے گا۔

    اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ سیاسی معاشی بحران کے ساتھ عدم برداشت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ 90 کی دہائی سیاسی کھلاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ پاکستان میں واپس لوٹ آئی ہے۔ اس وقت ملک کے دو صوبوں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل ہوئے لگ بھگ تین ماہ ہونے کو ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن ہر حال میں ہونے ہیں اور اس سے کوئی فرار ممکن نہیں لیکن لگتا ہے کہ اس وقت پوری حکومتی مشینری اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ ہے۔

    حکومت اور الیکشن کمیشن نے پہلے معاشی ابتری اور امن و امان کی صورتحال کو وجہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم نہیں کی اور ازخود نوٹس لیتے ہوئے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا جس پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی جب کہ گورنر کے پی تو تاریخ دینے کے کچھ دن بعد ہی مُکر گئے۔ پھر اچانک الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو شیڈول الیکشن منسوخ کرتے ہوئے نئی تاریخ 8 اکتوبر دی۔ پی ٹی آئی کے عدالت سے رجوع کرنے پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم اور حکومت کو فنڈز اور سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کے گولڈن جوبلی سال میں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت اور ان کی اتحادی پی پی پی سر تسلیم خم کرتے اور الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کیے جاتے لیکن اس کے برعکس حکومت نے بہانے بنائے۔ قومی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے فنڈز دینے سے انکار کرتے ہوئے بل مسترد کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت اور اتحادیوں نے سپریم کورٹ کے پَر کاٹنے اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس کا اختیار چھیننے یا اس کی افادیت کم کرنے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرایا اور منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا اور جب وہاں سے اعتراض لگ کر واپس آیا تو بجائے اس کے کہ ان اعتراضات کا قانونی طور پر جائزہ لیا جاتا اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے عجلت میں منظور کرا لیا جو 10 روز بعد ازخود قانون بن جائے گا۔

    بہرحال، وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دے دیا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کرے۔ اگر اس پر بھی سپریم کورٹ کے سابقہ احکامات کی طرح عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں جاری آئینی بحران کہیں زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔

  • پی ڈی ایم حکومت کا  ایک سال  سیاسی افراتفری ، ابتری اور عوام  بدحال

    پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال سیاسی افراتفری ، ابتری اور عوام بدحال

    درجن بھر سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سالہ دورِ حکومت پر سرسری نظر ڈالی جائے تو عوام نے سوائے سیاسی دھما چوکڑی، مہنگائی اور بدحالی کے کچھ نہیں پایا اور اتحادی حکومت کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کرسکی ہے۔

    آج سے ایک سال قبل ماہِ رمضان کا پہلا عشرہ ہی تھا جب پاکستان کا سیاسی بحران عروج پر تھا اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کام یاب ہوئی جس کے نتیجے میں عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم نے عنانِ اقتدار سنبھالا اور وزارت عظمیٰ کا تاج شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کی حکومت پر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے، عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غرق کرنے اور اسی نوع کے دیگر الزامات لگانے کے بعد حکومت میں آنے والے اپنے ایک سالہ دور میں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہاتے مگر اپنے اقدامات سے ان کی زندگی قدرے آسان تو بناتے لیکن ہُوا اس کے بالکل برعکس۔ عوام مہنگائی کے پاٹوں میں اس قدر پس گئے کہ اب ان کے لیے دو کیا ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔

    سیاسی بحران، معاشی بحران، آئینی اور عدالتی بحران موجودہ حکومت کے بڑے کارنامے ہیں جس پر بڑے زور و شور سے بات کی جا رہی ہے لیکن اس ملک کے 22 کروڑ عوام جس میں سے 98 فیصد بدقسمت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ ایک سال قبل اگر ملک کا متوسط طبقہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست مشکل سے کر رہا تھا تو اب تو یہ حالات ہوچکے ہیں کہ ان کے لیے ایک وقت پیٹ بھرنے کا سامان کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ملک میں متوسط طبقہ اب صرف کاغذات کی حد تک رہ گیا ہے، عملاً ملک کے طول و عرض سے اس طبقے کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ مفادات کی سیاست کی وجہ سے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں 365 دن میں خوفناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

    موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے آج تک کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب کسی نہ کسی حوالے سے عوام پر مہنگائی کا کوئی بم نہ گرایا گیا ہو۔ اس ایک سال میں آٹا، چینی، دالیں، گوشت، سبزی، پھل، دودھ، تیل، گھی، پٹرول، ادویات غرض ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 30 سے 100 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، کہیں یہ اضافہ سو فیصد سے بھی زائد ہے۔ اس عرصہ میں اگر کوئی شے ارزاں یا تنزلی کا شکار ہوئی ہے تو وہ عوام کا معیارِ زندگی ہے، ان کا رہا سہا سکھ اور اطمینان ہے۔ مستقبل ایک بھیانک عفریت بن کر ان کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے اور ان بے چاروں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ اس ایک سال میں عوام کے لیے زندگی ہی مشکل نہیں ہوئی بلکہ مرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کفن دفن بھی ایک غریب کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں۔ عوام کی حالت اب ابراہیم ذوق کی غزل کے ان اشعار کی صورت ہے کہ
    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
    نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
    ہم جہاں سے روشِ تیرِ نظر جائیں گے

    عوام کی تہی دامنی اور مفلسی کا اندازہ کرنا ہے کراچی کی وہ سڑکیں دیکھ لیں‌ جو ہر سال رمضان المبارک میں افطار کے دستر خوانوں سے سج جاتی تھیں اور ہر خاص و عام وہاں افطار کر سکتا تھا اور یہ سلسلہ قیام پاکستان کے وقت سے جاری تھا مگر شہباز اسپیڈ کے دور میں برق رفتاری سے آسمان کی بلندیوں کو بھی مات دیتی مہنگائی نے یہ رونقیں بھی چھین لی ہیں اور رواں سال یہ سلسلہ بھی متأثر ہوا ہے۔ کیوں کہ جو مخیر افراد اور صاحبِ استطاعت اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے ان میں سے کئی اب مخیر نہیں رہے اور یہ سب پچھلے 365 دنوں پر محیط بے یقینی، سیاسی افراتفری اور سکڑتی ہوئی معاشی سرگرمیوں اور تباہ ہوتے کاروبار کے اثرات ہیں۔ گھروں میں بھی دسترخوان سمٹ چکے ہیں اور لوگ اہتمام کرنے کی سکت کھو بیٹھے ہیں۔

    ایک سال قبل جو آٹا 60 سے 70 روپے کلو مل رہا تھا، اب لوگوں کو اس کے لیے جان دینا پڑ رہی ہے۔ رمضان ریلیف پیکیج کے نام پر پنجاب اور کے پی میں مفت آٹے کی تقسیم کا جو سیاسی کھیل کھیلا گیا اس میں اب تک درجنوں مرد خواتین موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ روٹی کو ترستے ہوئے ایک درجن افراد نے کراچی ایک ہزار روپے کی زکوٰۃ پانے کے لیے اپنی جانیں گنوا دیں تو کہیں بھوک کے ستائے غریب ایک بوتل خون کے عوض راشن کا ایک تھیلا حاصل کررہے ہیں۔ کیا یہ سب مہذب معاشرے میں ہوتا ہے؟ کیا اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کے دعوے دار ملک کے حکمرانوں کا یہ رویہ قابل قبول ہے؟

    یہ تو ملک کے 22 کروڑ عوام میں سے 98 فیصد عوام کی حالت زار ہے۔ اب اگر دیگر معاملات پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی کوئی حوصلہ افزا یا قابل تعریف کام نظر نہیں آتا۔ سیاسی افراتفری، مخالفین پر الزام تراشیاں، عدم برداشت کے رویے اور حکمرانوں کی مسلسل وعدہ خلافیوں نے ملک کے عوام کا اعتماد ہی متزلزل نہیں کیا بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور یہ خبریں تک گردش میں ہیں کہ ماضی میں ہر دم پاکستان کی مدد کے لیے تیار خلیجی عرب اور دوست پڑوسی ممالک بھی اس بار بحرانوں میں پھنسے اور ڈیفالٹ کے دہانے کھڑے پاکستان کی مدد کرنے میں شش و پنج کا شکار ہیں۔

    ملک میں ڈالرز کی قلّت نے اہم درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے جس سے معاشی سرگرمیوں پر چھایا جمود حکمرانوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈالرز کی قلت کے باعث ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو سعودی عرب سے ملنے والا حج کوٹہ مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ کہیں حکومت کو حج کوٹہ ہی سعودیہ کو واپس نہ کرنا پڑے۔

    سیاسی بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت پوری سیاست صرف انتخابات ہوں گے یا نہیں کے گرد گھوم رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دو بار پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے باوجود اب تک کسی کو یقین نہیں ہے کہ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں کیونکہ جن کے پاس اقتدار و اختیار ہے وہاں سے کوئی سنجیدہ بات کے بجائے ایمرجنسی لگانے سمیت دیگر مضحکہ خیز بیانات سامنے آرہے ہیں جب کہ اچھا خاصا سنجیدہ طبقہ بھی اس اہم مسئلے پر شرطیں لگا رہا ہے۔

    حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سیاستدان چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے اپنی اپنی انا اور ضد کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے اقدامات کریں لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ آج ملک کا اکثریتی طبقہ زندگی برقرار رکھنے کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہے اور دوسری جانب دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کی ساری توجہ ذاتی مفادات، اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے یا اقتدار کے حصول کے لیے اخلاقیات کی ہر حدیں پار کرنے پر ہے۔

    پاکستان کے عوام اس وقت صاحبانِ اختیار اور اقتدار کی جس بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہیں وہ ان کے غم و غصے کو بڑھا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک اور قوم کے لیے سوچا جائے اور عوام کو فوری اور حقیقی ریلیف دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ آج کی یہ بے حسی کل کسی بڑے اور سنگین حادثے یا پچھتاوے کو جنم دے سکتی ہے۔

  • کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان المبارک کے دوران غریب عوام میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے اور بظاہر یہ منصوبہ خوش آئند ہے لیکن اسے صرف دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود رکھا گیا ہے جس نے حکومت کے اس غریب پرور منصوبے کو مشکوک بنا دیا ہے۔

    گزشتہ دنوں اجلاس میں وزیراعظم نے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں رمضان پیکیج کے تحت غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں میں مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے ایک لاکھ 85 ہزار مستحق خاندان بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے اور اس اسکیم میں خیبرپختونخوا کے عوام کو بھی شامل کیا گیا۔

    یہ اسکیم صرف دو صوبوں کے لیے ہے جب کہ سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان کے عوام کو مہنگا آٹا ہی خریدنا پڑے گا۔ ہماری نظر میں وفاقی حکومت کی یہ ‘غریب پروری’ ناقابل فہم ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ شہباز شریف پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا کے؟ اس کے ساتھ ہی اس فیصلے میں‌ پوشیدہ سیاسی مفاد بھی اس سارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔

    یوں تو ملک میں غربت اتنی ہے کہ بلا تفریق سب کو ہی مفت آٹے کی یہ سہولت ملنی چاہیے، لیکن سب سے پہلے کون اس کا حق دار ہوتا ہے، اس کے لیے منصوبہ بندی کمیشن کی پاکستان میں غربت سے متعلق یہ رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں جو پورے پاکستان میں غربت کی مجموعی شرح تو 38.8 فیصد بتاتی ہے لیکن اس میں ملک کے صوبوں میں علیحدہ علیحدہ غربت کی شرح بھی بتائی گئی ہے، اس کے مطابق پاکستان کا سب سے غریب صوبہ بلوچستان ہے جہاں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے، خیبرپختونخوا میں یہ تناسب 49.2 فیصد، گلگت بلتستان 43.2، سندھ 43.1 فیصد جب کہ پنجاب میں یہ شرح 31.4 فیصد ہے۔

    غربت کسی بھی صوبے میں ہو غریب پاکستانی ہی ہے، لیکن یہ رپورٹ چشم کشا ہی نہیں یہ بھی بتا رہی ہے کہ اگر غربت کی بنیاد پر کوئی کام کرنا ہے تو کون سا صوبہ سب سے پہلے مفت آٹے کا حق دار ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ اس طرح کے فیصلے صوبوں اور ان کے عوام کے درمیان احساس محرومی بھی پیدا کرتے ہیں اور ایسے اقدامات سے زخم خوردہ عوام کی اشک شوئی نہیں ہوتی بلکہ ان کے زخم رسنے لگتے ہیں۔
    اس وقت پاکستان میں سب سے مہنگا آٹا کراچی کے شہری خرید رہے ہیں اور یہ کوئی سنی سنائی اور بے پَر کی بات نہیں بلکہ شہباز حکومت کے ماتحت وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر قائد کے باسی اس وقت 155 روپے کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں کے بعد بلوچستان کے شہری مہنگا ترین آٹا خرید رہے ہیں لیکن افسوس ان دو صوبوں کے عوام ہی مفت آٹے کی سہولت سے محروم رہ گئے جب کہ اسی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سوائے چند ایک شہر چھوڑ کر باقی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آٹا 60 سے 70 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔

    ملکی اداروں کی ان رپورٹوں نے تو سب کی آنکھیں کھول دی ہیں لیکن شاید حکومت کی آنکھیں بند ہیں یا وہ حقائق سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ روز نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گویا متوسط طبقہ تو ختم ہی کردیا ہے۔ اب اس ملک میں دو ہی طبقے رہ گئے ہیں، ایک وہ جو امیر ترین ہے اور اسے تمام سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں جب کہ دوسرا غریب جو بنیادی ضروریات، بھوک مٹانے کے لیے دو وقت کی روٹی، بیماری میں مناسب علاج سے بھی محروم ہے۔

    سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے بجائے اگر حقیقت کا سامنا کریں تو آج ہر طرف بھوک اور افلاس برہنہ رقص کرتی نظر آئے گی اور اس کے سائے میں کہیں والدین اپنے بچّوں کو بیچتے نظر آئیں گے تو کہیں بنتِ حوا کی چادر میلی کرنے کی کوششں نظر آئے گی۔ اور کہیں تو حالات کا جبر اتنا ہے کہ ماں باپ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کے حوالے کر کے خود بھی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ایسی دل سوختہ خبریں ہم آئے دن مختلف اخبارات اور نیوز چینلوں پر دیکھ رہے ہیں۔

    چلیں، دو صوبوں کے عوام کی خاطر باقی صوبوں کے عوام صبر کر بھی لیں تو حکومت مفت آٹا تقسیم کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی تو بنائے۔ پنجاب میں مفت آٹے کی تقسیم کے ابتدائی تین روز کے دوران بدنظمی اس قدر ہوئی ہے کہ آٹا لینے کے لیے آنے والے زخم لے کر خالی ہاتھ گھروں کو واپس گئے جب کہ تین ضعیف افراد مفت آٹے کی خاطر موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت مفت آٹا اسکیم کو ختم ہی کر رہی ہے۔

    ابھی مفت آٹے کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے غریب عوام کو پٹرول 50 سے 100 روپے لیٹر سستا فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کردیا لیکن اس پر کب سے عمل کیا جائے گا اس کا ہنوز اعلان نہیں کیا ہے۔ لگتا ہے کہ دو صوبوں میں جو الیکشن ہونا تھے، اس سے قبل یہ سب عوام کو رجھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

    ویسے حکومت نے سستا پٹرول اسکیم کے جو خدوخال بتائے ہیں اس سے یہ ریلیف کم اور مذاق زیادہ لگتا ہے۔ وزیر پٹرولیم مصدق ملک کے مطابق موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے فی لیٹر 50 روپے ریلیف دینے کی تجویز ہے جس کے مطابق موٹر سائیکل سوار ماہانہ 21 لیٹر اور رکشا یا چھوٹی گاڑیاں 30 لیٹر تک پٹرول رعایتی قیمت پر حاصل کرسکیں گی۔ اگر اس کو ریلیف دینا کہتے ہیں تو اس کی مثال تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی ہوگی کیونکہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف موٹر سائیکل سوار کا روزمرہ کام کاج نمٹانے میں دو ڈھائی لیٹر پٹرول کم از کم خرچ ہوتا ہے جب کہ رکشا تو ایسی عوامی سواری ہے جس میں شاید یومیہ 30 لیٹر پٹرول کھپتا ہو۔ تو کیا اس کو ریلیف دینا کہا جائے گا یا مذاق؟

    اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ ملک کی لگ بھگ 50 فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو بڑی پبلک ٹرانسپورٹ بسوں، منی بسوں اور کوچز میں سفر کرتی ہے۔ حکومت کے مجوزہ ریلیف پیکیج میں اس ٹرانسپورٹ کو شامل ہی نہیں کیا گیا تو اسے کیسے مکمل عوامی ریلیف قرار دیا جا سکتا ہے۔

    حکومت سے یہی استدعا ہے کہ اگر وہ عوام سے مخلص اور ان کی ہمدرد ہونے کے دعوؤں میں سچی ہے تو ریلیف کے نام پر لیپا پوتی کرکے وقت گزارنے کے بجائے حقیقی معنوں میں ان کی امداد کرے اور ایسا ریلیف دے کہ غربت کے مارے عوام کی داد رسی ہوسکے۔ یہ خود موجودہ حکومت کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ جلد یا بدیر الیکشن تو ہونے ہیں اور یہ معرکہ وہی جیت سکتا ہے جو خود کو عملی طور پر عوام کا ہمدرد اور غم گسار ثابت کرے گا۔

  • توشہ  خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    توشہ خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    ملکی سیاست میں توشہ خانہ کی بازگشت ایک سال سے سنائی دے رہی ہے. اس کے ساتھ ہم ‘گھڑی چور’ کا شور بھی سن رہے تھے، مگر کیا ان شور مچانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں؟ جی نہیں۔

    توشہ خانے کا22 سالہ ریکارڈ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ یہ ریکارڈ پبلک ہوا تو عوام نے جانا کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ توشہ خانہ وہ جگہ ہے جہاں سرکاری شخصیات کو ملنے والے تحائف جمع کرائے جاتے ہیں۔ سربراہانِ وقت، اعلیٰ عہدے داروں اور سرکاری شخصیات کو بیرون ملک یا پاکستان میں جو تحائف دیے جاتے ہیں، وہ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ سرکاری حیثیت میں دیے جاتے ہیں، اس لیے انہیں‌ سرکار کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور توشہ خانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔ اس توشہ خانے کے کچھ اصول، ضابطے اور قوانین ہیں جن کے مطابق کسی بھی تحفے کی اصل مالیت کا کچھ فیصد دے کر تحفہ وصول کرنے والی شخصیت اس کی مالک بن سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس تحفے کو نیلام کرکے اس سے حاصل کردہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان میں توشہ خانے سے تحائف کو نیلام کرنے کی نوبت کم ہی آئی ہے۔ زیادہ تر تحائف کو برسر اقتدار اور بااختیار افراد، جن میں بیورو کریٹس، عوامی نمائندے اور سیاسی شخصیات شامل ہیں ،انھوں نے اپنی ملکیت بنایا، اور اس کے لیے اصل قیمت کا کچھ فیصد ادا کرنے کے قانون کا سہارا لیا. ان میں سے اکثر تو تحائف کو مفت ہی میں اپنے گھر لے گئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کسی بھی تحفے کی اصل قیمت کا تعین کیبنٹ ڈویژن مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں ذاتی فائدے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی اصول اور قاعدے پر مفاد کو ترجیح دی جاتی ہو یہ سب مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی طے پاتا ہے؟ عوام کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال برسرِ اقتدار آنے والی نئی حکومت نے حسبِ روایت سابق حکم رانوں پر کئی الزامات لگائے جن میں‌ شہباز شریف اور اتحادیوں نے زیادہ زور توشہ خانہ پر لگایا اور سب سے زیادہ شور ’’گھڑی چور‘‘ کا مچایا۔ اس معاملے نے اس حد تک طول پکڑا کہ گزشتہ سال ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے نااہل بھی قرار دے دیا جس کو حکومتی اتحاد نے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ جب کہ اسی حوالے سے ایک کیس اسلام آباد کی عدالت میں بھی زیرسماعت ہے اور اسی پس منظر کے ساتھ گزشتہ کئی روز سے لاہور کی فضاؤں میں ہنگامہ برپا ہے۔

    پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی زیرقیادت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے ہی وہ تنقید کی زد میں ہے۔ تاہم اس حکومت نے توشہ خانے کا ریکارڈ پبلک کرنے کا وہ کارنامہ انجام دیا جو اس سے قبل کوئی حکومت انجام نہ دے سکی۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے اور بعض رپورٹوں کے مطابق بھی اس ریکارڈ میں بعض باتیں مخفی اور کچھ مبہم ہیں تاہم اس کا کریڈٹ شہباز حکومت کو ضرور دینا چاہیے۔

    یوں تو گاہے گاہے توشہ خانہ عام کرنے کی آواز مختلف ادوار میں اٹھائی جاتی رہی ہے مگر اس پر شد و مد کے ساتھ آواز گزشتہ سال شہید صحافی ارشد شریف نے اٹھائی تھی. اس کے بعد نوجوان وکیل ابو ذر نیازی ایڈووکیٹ یہ معاملہ عدالت میں لے گئے اور عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کی تفصیلات عام کرنے کاحکم جاری ہوا تو حکومت نے گزشتہ 2 دہائیوں کے تحائف اور ان سے متعلق تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں۔ توشہ خانے کا یہ ریکارڈ 2002 سے 2023 تک کا ہے جو 466 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ریکارڈ کے بعدتو ملکی سیاست میں ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کی گردان ختم سمجھیے کیونکہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔

    اس رپورٹ کے مطابق سابق اور موجودہ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، اراکین پارلیمنٹ، وزرائے اعلیٰ، بیورو کریٹس، حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسران سمیت کون نہیں ہے جو اس سے مستفید نہیں ہوا۔ وہ بھی جو خود کو صادق و امین کہتے نہیں تھکتے اور وہ بھی جو گھڑی چور گھڑی چور کی رٹ لگائے ہوئے ہیں بلکہ گھڑی چور کا شور مچانے والوں نے تو توشہ خانے سے کئی اور بعض نے درجنوں کے حساب سے گھڑیاں حاصل کیں۔

    توشہ خانے کی رپورٹ پر نظر ڈالیں‌ تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے 2022 کے دوران سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف، آصف علی زرداری، ممنون حسین، موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، میر ظفر اللہ جمالی کے علاوہ اسحاق ڈار، خواجہ آصف، شیخ رشید، چوہدری پرویز الہٰی سمیت کئی نام ہیں جنہوں نے سرکاری تحائف کو معمولی رقم کے عوض یا مفت میں ذاتی ملکیت بنایا۔

    ایسے میں سینیٹ اراکین نے توشہ خانہ کے تحائف کی مزید تفصیلات مانگ لی ہیں اور 1988 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت یہ ہمّت کر لیتی ہے تو مزید نام سامنے آجائیں گے۔

    حالیہ فہرست میں کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے ان تحائف سے نہ صرف اپنے گھر بھرے بلکہ اپنی اولادوں کو نوازنے کے ساتھ دریا دلی دکھاتے ہوئے اپنے مہمانوں کو بھی قیمتی تحائف معمولی رقم کی ادائیگی پر دلوائے۔ ایسے نام بھی سامنے آئے جنہوں نے آج تک کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں کیا لیکن وہ بھی ‘مالِ غنیمت’ کے حق دار ٹھہرے۔ ذاتی ملازمین، ذاتی معالج، وزیراعظم کے آفس کے ملازمین کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

    توشہ خانہ سے فیض اٹھانے والوں کے ناموں کی فہرست کے ساتھ اس ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتہائی مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں، قیمتی گھڑیاں، ہیرے جواہرات، طلائی زیورات، انمول اور شاہکار تو ایک طرف توشہ خانہ کو ذاتی خانہ بنانے والوں نے گلدان، سیاہی، پین، بیڈ شیٹ، ڈنر سیٹ، اسکارف، کارپٹ، گلاس سیٹ، گلدان، پینٹنگ، مجسمے، پرس، ہینڈ بیگز، تسبیح، کف لنکس، صراحی، پیالے، خنجر، چاکلیٹ، خشک میوہ جات کے پیکٹ، انناس کے باکس، شہد، خالی جار، کافی اور قہوہ دان، کپڑے، پرفیومز، دسترخوان، بھینس اور اس کے بچّے کو بھی نہیں چھوڑا۔

    توشہ خانہ قوانین کے سیکشن 11 کے مطابق تحفے میں والے نوادر اور شاہکار اشیا یا گاڑی کو کوئی بھی اپنے پاس رکھنے یا لینے کا مجاز نہیں ہے۔ انٹیک آئٹم میوزیم یا سرکاری عمارات میں رکھے جائیں گے اور گاڑیوں کو کیبنٹ ڈویژن کے کار پول میں رکھا جائے گا لیکن ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے دو انتہائی قیمتی گاڑیاں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تین بلٹ پروف مہنگی ترین گاڑیاں اصل قیمت سے کہیں کم قیمت دے کر اپنی ملکیت بنا لیں جب کہ نادر و نایاب فن پاروں کی اکثریت کسی میوزیم یا سرکاری عمارت کے بجائے بڑی شخصیات کے گھروں پر سجائی گئیں۔

    ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ گھڑیوں کے سب ہی شوقین نکلے۔ چند ماہ سے جن شخصیات نے سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کا شور ڈالا ہوا تھا وہی ایک نہیں کئی کئی بلکہ بعض تو درجنوں کے حساب سے توشہ خانہ سے گھڑیاں لینے والے نکلے۔ اب یہ گھڑیاں ان کے پاس ہیں۔ فروخت کیں یا کسی اور کو دے دیں۔مستقبل میں اس حوالے سے سوالات ضرورکھڑے ہوسکتے ہیں.

    گھڑی چور، گھڑی چور کا شور مچانے والوں میں سے جن لوگوں نے خود گھڑیاں حاصل کیں ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور ان کا خاندان، آصف زرداری، مریم اورنگزیب اور ان کی والدہ سابق ایم این اے طاہرہ اورنگزیب، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، موجودہ چیئرمین نیب، خواجہ آصف، کئی دیگر ن لیگی اور پی پی پی راہ نما شامل ہیں جب کہ طویل فہرست میں چند صحافیوں کے نام بھی موجود ہیں۔

    توشہ خانہ کی فہرست جاری ہونے کے بعد تنقید شروع ہوئی تو اس کا زور توڑنے کے لیے وفاقی حکومت نے توشہ خانہ پالیسی 2023 جاری کرکے اس کا فوری نفاذ بھی کر دیا جس کے تحت اب توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی ہوگی اور صدر، وزیراعظم، کابینہ اراکین اور دیگر حکومتی نمائندے سب اس کے پابند ہیں۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف ریاست کی ملکیت ہوں گے اور نیلامِ عام کے ذریعے عوام بھی اسے خرید سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ملکی و غیر ملکی شخصیات سے نقد رقم بطور تحفہ لینے پر بھی پابندی ہو گی۔ اگر تحفے کی صورت میں مجبوراً نقد رقم وصول کرنا پڑے تو یہ فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سونے اور چاندی کے سکّے اسٹیٹ بینک کے حوالے کیے جائیں گے۔ توشہ خانہ پالیسی کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

    یہ پالیسی اعلان خوش کن ہے جس کے مطابق اب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں، زیورات، گھڑیاں و دیگر قیمتی تحائف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے لیکن اس پالیسی میں سوائے 300 ڈالر مالیت کی حد بندی کے علاوہ نیا کیا ہے؟ جو پہلے سے توشہ خانہ قوانین میں موجود نہیں تھا۔ یہاں مسئلہ قانون یا پالیسی بنانے کا نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں قانون تو بنتے رہتے ہیں لیکن اس کا اطلاق برسر اقتدار شخصیات اور بااختیار افراد پر نہیں ہوتا یا کم ہی ہوتا ہے۔ اگر توشہ خانہ کے قوانین پر عملدرآمد ہو رہا ہوتا تو قیمتی بلٹ پروف گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف اپنی ملکیت میں نہ لیتے کیونکہ اس حوالے سے توشہ خانہ قانون کا سیکشن 11 بہت واضح ہے۔ رہی بات توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی تو گاڑیاں لے کر سابق صدر اور سابق وزیراعظم پہلے ہی اس قانون کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں اور کیا موجودہ شہباز حکومت ان کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کرنے کی ہمّت کرے گی۔

    جو لوگ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق مفت یا کم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف ذاتی ملکیت بناتے رہے اور اس پر قوانین کا حوالہ دیتے رہے ہیں ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے مفتیانِ کرام کا جاری کردہ فتویٰ کافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مطابق توشہ خانہ سے کم قیمت پر اشیا خریدنا جائز نہیں کیوں کہ یہ تحائف ملک اور قوم کی امانت ہیں، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ حکومتی ذمے داروں کا ان تحائف کو مفت یا کچھ رقم دے کر اپنی ملکیت میں لینا جائز نہیں۔ علما نے فتویٰ جاری کرنے کے ساتھ حل اور ایک تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگر سربراہان اور عہدے داران ان تحائف کو اپنی ملکیت میں لانا چاہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کی پوری قیمت ادا کی جائے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ ان تحائف کو نیلام کیا جائے اور نیلامی میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہو، اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کروایا جائے کیوں کہ یہ تحائف ریاست کی ملکیت ہیں۔

    آخر میں ہم سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ نقل کررہے ہیں، جو زندگی کا نوحہ ہے، اُس زندگی کا جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جارہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں. اُس زندگی کا نوحہ جسے پاکستان کے کروڑوں بدن دریدہ عوام گھیسٹے چلے جارہے ہیں ۔ اور یہ نوحہ مفادپرستی اور من مانی کی روشنائی کے ساتھ طاقت و اختیار ، شاہانہ کرّوفر اور امارت کے قلم سے لکھا گیا ہے!

    اس پوسٹ کے الفاظ ہیں: ’’کاش ملک کے غریبوں کے لیے بھی کوئی ایسا توشہ خانہ ہوتا جہاں‌ سے وہ 150 روپے کلو والا آٹا 15 روپے کلو، 200 روپے کلو والی پیاز 20 روپے کلو اور 1000 روپے کلو والا گوشت 100 روپے میں خرید سکتا۔‘‘

    اس پوسٹ پر کچھ لوگوں کا تبصرہ تھا کہ یہ الفاظ اربابِ اختیار کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ واقعی، ہم میں سے اکثر لوگ اچھے خاصے خوش گمان ہیں۔ البتہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غالب نے یہ شعر اس بے حس معاشرے کی بے ضمیر اشرافیہ کے لیے ہی کہا تھا،

    کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

  • الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی صفوں میں اضطراب اور پیمرا کی پھرتیاں

    الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی صفوں میں اضطراب اور پیمرا کی پھرتیاں

    پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں الیکشن کرانے کے عدالتی حکم کے بعد لگتا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی ہلچل میں کچھ کمی آئے گی، لیکن اس فیصلے سے جہاں حکومتی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا وہیں حکومتی ایما پر پیمرا کی پھرتیوں کے نتیجے میں پہلے عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی اور پھر اچانک اے آر وائی نیوز کی ‘زباں بندی’ نے حکومت کی بوکھلاہٹ کو عیاں کر دیا ہے۔ گزشتہ سال بھی پیمرا کی جانب سے دو مرتبہ اے آر وائی نیوز کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

    ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود نگراں حکومت کی جانب سے الیکشن شیڈول جاری نہ کرنے اور اس سے متعلق حکومتی حلقوں کے بیانات کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں ایک قسم کی بے چینی نظر آرہی تھی۔ سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور لارجر بینچ بنا کر سماعت کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دیا جس کے بعد الیکشن کمیشن بھی حرکت میں آیا اور صدر مملکت کو مجوزہ تاریخوں پر مبنی خط لکھ ڈالا۔ صدر علوی نے بھی دیر نہ لگائی اور پنجاب میں الیکشن کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دے دی۔

    ان سارے واقعات کے دوران ایوان اقتدار میں براجمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی صفوں میں تھرتھلی مچی رہی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پی ڈی ایم کے بڑوں کی بیٹھک میں پیپلز پارٹی تو نئے الیکشن پر تیار نظر آئی لیکن حسب سابق ن لیگ اور جے یو آئی (ف) ملک کی اس آئینی ضرورت سے ہنوز بھاگنے پر متفق دکھائی دیے۔ یوں کہا جائے کہ پی ڈی ایم میں الیکشن پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کی وجہ بھی سامنے ہے اور وہ ہے پی ڈی ایم کی انتہا کو چھوتی عدم مقبولیت۔ اگر کوئی اسے غیر منطقی بات سمجھتا ہے تو موجودہ حکومت کے بعد ہونے والے 37 قومی اور صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لے جن میں 30 نشستیں پاکستان تحریک انصاف نے 11 جماعتوں کا تن تنہا مقابلہ کرتے ہوئے جیتی ہیں جب کہ ایک کے ضمنی الیکشن پر اس نے بائیکاٹ کیا تھا۔ 

    اُدھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو صرف چند گھنٹوں میں ڈالر راکٹ کی رفتار کی تیزی سے بڑھتی قیمت نے بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا کیونکہ اپوزیشن سمیت کئی حلقوں سے یہ آوازیں مسلسل اٹھ رہی ہیں کہ موجودہ حکومت الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ معاشی ابتری کو جواز بنا کر ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ اور اسی بنیاد پر الیکشن کو مؤخر کرنا چاہتی ہے۔ ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں کچھ کہا تو نہیں جاسکتا لیکن صرف چند گھنٹوں کے اندر 18 روپے سے بڑھتے ہوئے ڈالر کا 285 روپے سے تجاوز کر جانے پر بعض حلقوں نے تعجب کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی آوازیں سنائی دیں کہ الیکشن کا التوا چاہنے والے خفیہ ہاتھ سرگرم ہوگئے ہیں۔

    دوسری جانب صدر سے تاریخ کی منظوری کے بعد ابھی الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کرنا ہی تھا کہ قدرے پُرسکون ہوتے سیاست کے سمندر میں عمران خان کی گرفتاری کا شوشہ چھوڑ کر ایک تلاطم برپا کر دیا گیا۔ اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے لیے زمان پارک لاہور آئی اور یہ معاملہ کئی گھنٹے تک ملکی سیاست کا محور رہا۔ اس دوران آن گراؤنڈ پولیس اور اس کے اعلیٰ حکام کے متضاد بیانات نے بھی عوام کو الجھائے رکھا۔ بعد ازاں سخت عوامی ردعمل کے خدشات کے پیش نظر پولیس سابق وزیراعظم کو گرفتار تو نہ کرسکی تاہم اسی شام پیمرا نے پہلے عمران خان کی تقاریر اور بیانات میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کی اور اس کے کچھ دیر بعد ہی ملک کے سب سے مقبول چینل اے آر وائی نیوز کا لائسنس ایک بار پھر معطل کر دیا گیا اور صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس فیصلے سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ سچ کو سامنے لانے اور عوام کو حقائق بتانے پر دوسروں کے ساتھ بھی یہی ہوسکتا ہے۔

    پیمرا کے اس اقدام کو پاکستان میں جمہوری اور عوام کے سنجیدہ و باشعور حلقوں نے ناپسند کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

    اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آزاد میڈیا ہمارے کسی بھی حکمراں کو کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور ہمارے حکمراں سچ سننے، دیکھنے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہے ہیں۔ جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے صحافت کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟

    یوں تو اس حوالے سے تمام حکمراں ہی اپنا اپنا ماضی رکھتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے کئی فیصلے اور اقدامات ایسے ہیں جن کو سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور باشعور عوام ایک قسم کی انتقامی کارروائی اور اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ 

    اس وقت ملک میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہے۔ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن بار  اقتدار میں آتے ہی انتقامی کارروائی کی روایت دہرانے لگی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت میں میڈیا گروپس اور انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جو کل شب ہوا ہے وہ 11 ماہ کے مختصر عرصے میں مختلف انداز سے کئی بار ہوچکا ہے۔ بالخصوص اے آر وائی نیوز سے ن لیگ کی ناراضی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مریم نواز ایک پریس کانفرنس میں اے آر وائی نیوز کا مائیک ہٹا کر اپنے غیر جمہوری رویے کا اظہار کرچکی ہیں اور ن لیگ کے کئی رہنماؤں کی جانب سے متعدد مواقع پر اے آر وائی نیوز کے رپورٹر نامناسب رویہ کا سامنا کرچکے ہیں۔ اس سے قبل بھی میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں اے آر وائی کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب کہ موجودہ حکومت نے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کے انتہائی اقدام سے اے آر وائی سے وابستہ 4 ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں۔

    حکومت کے اس من مانے اقدام کی صرف ملکی صحافتی اداروں نے ہی نہیں بین الاقوامی صحافتی تنظیموں، ملکی سیاسی جماعتوں، حکومت کے اتحادیوں اور مختلف مکتبِ فکر کے افراد نے بھی مذمت کی ہے۔

    برسر اقتدار آنے کے بعد اتحادی حکومت نے شاید ہی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہو مگر عوام پر مہنگائی کے بم ضرور گرائے ہیں۔ ایک جانب مریم نواز اور ن لیگ کے لیڈران یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے مقبول جماعت اور ہر شخص ن لیگ کے ٹکٹ کا خواہشمند ہے، دوسری طرف مختلف تاویلات گھڑ کر الیکشن سے فرار کی راہیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔

    پاکستان میں ضیا کا دور اقتدار ہو یا مشرف دور صحافت کو پابندیوں اور صحافیوں کو جبر اور جیلوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا اور ن لیگ کی اتحادی حکومت بھی اپنے اقدامات کی وجہ سے صحافتی اداروں اور صحافیوں کو ان کے اظہار رائے کے حق اور آزادی سے محروم کررہی ہے، مگر حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ایسے اقدامات کرنے والے حکمراں تو ایوان اقتدار سے رخصت ہوگئے لیکن وہ ادارے قائم رہے اور ان حکمرانوں کا ہر ایسا فیصلہ تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر رقم ہوا۔ 

  • منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    منی بجٹ بمقابلہ حکومتی بچت پروگرام، کتنی حقیقت اور کیا افسانہ!

    صدرِ مملکت نے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں پر مشتمل منی بجٹ (فنانس سپلیمنٹری بل 2013) کی منظوری دے دی ہے اور اس کے ساتھ ہی پہلے سے مہنگائی کی چکّی میں پستے ہوئے عوام مزید بوجھ تلےدب گئےہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف نے حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کا بچت پروگرام بھی پیش کیا ہے جس میں وفاقی کابینہ کے تنخواہیں اور مراعات نہ لینے سمیت کئی خوش کن اعلانات کیے گئے ہیں، لیکن یہ اعلانات منی بجٹ کے عوام پر پڑنے والے اثرات کو کم کرسکتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔

    وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو 4 سال بیمار رہنے کے بعد بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ اچانک صحت یاب ہو کر وطن واپس آئے تھے، یہاں ان کے اقدامات سے عوام کی نبض ڈوبنے لگی ہے۔ وزیر خزانہ کبھی کبھی ٹی وی پر آتے ہیں اور جب بھی آتے ہیں عوام کے لیے ان کی تقریر اور کوئی اعلان بھیانک خواب ثابت ہوتا ہے۔ ایسا ہی گزشتہ ہفتے بھی ہوا۔ انہوں نے فنانس سپلیمنٹری بل 2023 المعروف منی بجٹ پیش کیا جس کے ذریعے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا راستہ نکالا گیا ہے۔

    غریب اور منہگائی کے ہاتھوں پریشان عوام کی خیر خواہ ہونے کا دعویٰ کرنے والی پی ڈی ایم کی حکومت نے اس بار نئے بوجھ تلے عوام کو یوں دبایا ہے کہ ان میں درد سے کراہنے کی سکت بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس منی بجٹ پر صدر مملکت کے منظوری نے گویا عوام کے زندہ درگور کیے جانے کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔

    دوسری طرف منی بجٹ پیش ہوتے ہی اپوزیشن اور عوامی سطح پر کیا خود حکومتی حلقوں میں ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی اور ن لیگ کے اندر اپنے ہی وزیر خزانہ کو ہٹانے کے مطالبات کی گونج سنائی دینے لگی۔ اسی دوران ملکی اور سوشل میڈیا پر حکمرانوں کی شاہ خرچیوں اور مراعات پر بھی انگلی اٹھائی جانے لگی۔ یہ اس کا اثر تھا یا کچھ اور کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں حکومتی اخراجات میں 200 ارب روپے کی بچت کا پروگرام پیش کیا، لیکن کیا اس پر واقعی عمل بھی کیا جائے گا؟ ماضی میں‌ بھی حکومتیں ایسے اعلانات کرتی رہی ہیں، مگر ان کے ایوانِ اقتدار سے جانے کے بعد عوام کے سامنے آیا کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی اور تمام اعلانات دھوکا اور فریب تھے۔

    گزشتہ ادوار کے ان اعلانات سے قطع نظر شہباز شریف کی حالیہ پریس کانفرنس میں جو بظاہر امید افزا باتیں‌ کی گئی ہیں، ان کے مطابق وفاقی وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے۔ جب کہ بجلی، گیس اور پانی کے بل بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ کابینہ اراکین سے لگژری گاڑیاں واپس لینے اور انہیں نیلام کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزرا کے معاون عملے کو بیرون ملک ساتھ جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ بیرون ملک فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام ممنوع جب کہ اندرون ملک سفر اکانومی کلاس میں کیا جائے گا۔ ناگزیر ہو تو سرکاری افسران بیرون ملک دوروں میں‌ شامل ہوں گے۔ تمام وزارتوں، محکموں اور ذیلی اداروں کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی۔ جون 2024 تک تمام پرتعیش اشیا، ہر قسم کی نئی گاڑیوں کی خریداری اور کابینہ اراکین پر لگژری گاڑی استعمال کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین یا حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں ہوگا، دو سال تک کوئی نیا شعبہ نہیں بنایا جائے گا، سرکاری تقریبات میں سنگل ڈش پر اکتفا کیا جائے گا، تاہم غیر ملکی مہمانوں کی شرکت کی صورت میں یہ پابندی نہیں ہوگی۔

    وزیراعظم نے گرمیوں میں بجلی اور گیس کی بچت کیلیے سرکاری دفاتر صبح ساڑھے 7 بجے کھولنے کا فیصلہ، مارکیٹیں رات ساڑھے 8 بجے تک بند نہ کرنے پر ان کی بجلی منقطع کرنے، بینظر انکم سپورٹ پروگرام میں 25 فیصد اضافے سمیت کئی دیگر اعلانات بھی کیے۔ یہ سب اعلانات قابلِ ذکر ہیں‌ مگر کیا 170 ارب روپے کے بجٹ کی صورت گرائے گئے مہنگائی کے ایٹم بم کے اثرات سے غریب عوام بچ سکیں‌ گے اور انہیں کوئی ریلیف ملے گا؟ اس کا رد تو خود وزیراعظم کے اپنی پریس کانفرنس میں ادا کردہ ان جملوں سے ہورہا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ’’غربت میں یقیناً اضافہ ہوا ہے جب کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے پر یقیناً مہنگائی ہوگی کیونکہ جو شرائط طے کی ہیں ان کو بھی پورا کرنا ہے۔ غریب عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیکسز بڑی کمپنیوں پر لگائے گئے ہیں۔‘‘

    حکومت کا یہی کہنا ہے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا گیا ہے لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جی ایس ٹی جو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے کیا وہ غریب ادا نہیں کرتا؟ وزیراعظم کے غریب پر بوجھ نہ ڈالنے والی بات کے غبارے سے ہوا تو ایف بی آر کی وہ دستاویز ہی نکال دیتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کون کون سی اشیاء ہیں جو مہنگی ہوں گی، بلکہ یوں کہا جائے کہ اس فہرست میں ایسی کیا چیز رہ گئی جو مہنگی نہیں ہوگی۔ ٹیکس کی کوئی بھی شکل ہو اور وہ کسی بھی نام سے ہو اور کسی بھی پر عائد کیا جائے، اس کا بوجھ ہمیشہ عوام ہی پر پڑتا ہے۔

    دستاویز کے مطابق اس منی بجٹ کی منظوری اور اطلاق کے بعد کولڈ ڈرنکس، مشروبات، ڈبہ پیک فروٹ جوسز، شوگر فری جوسز، ڈبہ پیک دیگر اشیا میں خوردنی تیل، بسکٹ، جام، جیلی، نوڈلز، بچوں کے کھلونے، سگریٹ، چاکلیٹ، ٹافیاں، خواتین کے میک اَپ کا سامان، شیمپو، کریم، لوشن، صابن، ٹوتھ پیسٹ، ہیئر کلر، ہیئر جیل، شیونگ فوم، شیونگ جیل، شیونگ کریم اور شیونگ بلیڈز تک کے دام بڑھ جائیں‌ گے۔ کیا یہ سب اشیا ملک کے غریب عوام استعمال نہیں کرتے یا یہ پاکستان کی ایلیٹ کلاس کی ہی ضرورت ہے؟

    شادی ہالز اور ہوٹلوں پر ایڈوانس ٹیکس لگا ہے۔ اس کی وصولی شادی ہال مالکان صارفین سے ہی کریں گے اور ان میں اکثریت متوسط طبقے کی ہو گی۔ موبائل فونز پر ٹیکس بڑھنے سے بھی غریب ہی متاثر ہوں گے۔ اسٹیل کی قیمتوں میں تاریخی اضافے کے بعد ملک میں تعمیراتی صنعت جو پہلے ہی برے حال میں تھی، اس پر مزید برا اثر پڑے گا۔ سیمنٹ پر فی کلو ایکسائز ڈیوٹی میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم کے دعوے کو لمحہ بھر کے لیے درست مانا جائے تو سوال تو اٹھے گا کہ ملک میں کیا صرف امرا کے بنگلے اور کوٹھیاں بنتے ہیں؟ کیا غریب ایک دو کمرے کے گھر اور فلیٹ نہیں بناتے؟

    اس منی بجٹ کے ساتھ ہی گیس کی قیمتوں میں 16 سے 113 فیصد اضافے تک کا نوٹیفیکشن جاری کردیا گیا ہے جب کہ بجلی کی قیمتیں بھی مرحلہ وار بڑھائی جائیں گی۔ یہ تو گرانی کے وہ منفی اثرات ہیں جو عوام مستقل برداشت کریں گے جب کہ آئے روز پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ہر سطح پر ہونے والی مہنگائی، بجلی کے بلوں میں ہر ماہ کبھی فیول تو کبھی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھاری وصولی کا سلسلہ تو جاری ہی رہتا ہے۔ کرے کوئی اور بھرے کوئی کے مصداق حکومتی نااہلی اور کوتاہیوں کا بوجھ عوام برداشت کریں‌ گے۔

    اکثر ماہرینِ معیشت یہ کہتے نظر آرہے ہیں‌ کہ پاکستان اس وقت ڈیفالٹ کے دہانے پر ہے اور اگر وفاقی وزیر دفاع کے بیان پر یقین کیا جائے جو انہوں نے سیالکوٹ میں ایک تقریب کے دوران دیا تو ’’پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔‘‘ اس بیان کی وضاحت وزیر خارجہ کو بیرون ملک یہ کہہ کر کرنی پڑی کہ پاکستان کے دیوالیہ کرجانے کا وزیر دفاع کا بیان سیاسی بیان ہے۔ بہرحال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ جانے والا پاکستان اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ رکھتا ہے جب کہ معاشی طور پر خوشحال اور ہم سے کہیں بڑی آبادی والے ممالک کی کابینہ اراکین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔

    اس وقت ملک میں 87 رکنی وفاقی کابینہ ہے جب کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزار سے زائد اراکین ہیں۔ ان عوامی نمائندوں پر غریب عوام کی جیب سے کتنا خرچ ہوتا ہے یہ جاننے کے لیے ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک دن کا اجلاس عوام کو 5 کروڑ روپے کا پڑتا ہے۔ اجلاس جاری رہنے پر ہر رکن کو روزانہ کنوینس الاؤنس 2000، ڈیلی الاؤنس کی مد میں 4800، ہاؤسنگ الاؤنس کے 2 ہزار جو یومیہ 8800 بنتے ہیں۔ فری ٹریول اس کے علاوہ ہے۔

    ایک رکن قومی اسمبلی عوام کو ماہانہ 2 لاکھ 70 ہزار میں پڑتا ہے جس میں ان ممبران کو بنیادی تنخواہ کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے، اعزازیہ 12700، سنچوری الاؤنس 5000 ، آفس مینٹیننس 8000 روپے، ٹیلیفون الاؤنس 10، ایڈہاک ریلیف کی صورت 15 ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فری ٹریول ہے۔ مفت سفر کے مد تین لاکھ کے سفری واؤچر یا 90 ہزار روپے کیش بھی سالانہ دیا جاتا ہے۔ بزنس کلاس کے ہر سال ریٹرن 25 ٹکٹ بھی ان کے حلقہ انتخاب سے قریبی ایئرپورٹ سے اسلام آباد تک دیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں رہائش، 1300 کار، 300 لیٹر پٹرول ان تمام مراعات کے علاوہ، تخفیف یا والی چیزیں یہ تھیں کیونکہ پارلیمنٹ میں جو لوگ موجود ہیں وہ سب یہ افورڈ کرسکتے ہیں۔

    جب یہ اراکین پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہتے تب بھی گریڈ 22 کے سرکاری افسر کے مساوی میڈیکل سہولیات، خود اور اہلیہ کے لیے بلو پاسپورٹ بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس ملک کے غریب عوام 503 ارب روپے سالانہ اشرافیہ کی پنشن کی مد میں بھی ادا کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم کے تمام خوش رنگ اور امید افزا اعلانات سر آنکھوں پر لیکن اشرافیہ کی مراعات میں‌ تخفیف یا پابندی کے لیے انہوں نے حکومت کی جانب سے کوئی پلان نہیں دیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی وہ شرائط جو غریب کا گلا گھونٹنے کے لیے ہوتی ہیں ہر دور حکومت میں انہیں‌ فوری طور پر اور من وعن تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن یہی آئی ایم ایف جب بیوروکریٹس کے اثاثہ جات پبلک کرنے کا مطالبہ کرتا ہے تو اس پر چپ سادھ لی جاتی ہے۔ جس سے یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ ہمارے ساست داں اور حکومتیں عوام کی خیر خواہ ہونے کا لاکھ دعویٰ کریں لیکن ان کی ساری ہمدردیاں اور مفادات اس ملک کی اشرافیہ کے ساتھ ہوتی ہیں، مگر یہ سسلسلہ آخر کب تک چلے گا؟

  • حکومتی اتحاد انتشاراور ن لیگ اختلافات کا شکار

    حکومتی اتحاد انتشاراور ن لیگ اختلافات کا شکار

    پاکستان کی سیاست میں‌ وقت بدلتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنا ایک روایت بن چکا ہے۔ آج ایک جانب مسلم لیگ ن میں دراڑیں گہری ہو رہی ہیں تو دوسری جانب حکومتی اتحاد پی ڈی ایم میں بھی اتحاد کا فقدان آشکار ہو چکا ہے جو مستقبل قریب میں‌ بڑی سیاسی تبدیلیوں کا سبب بنے گا۔

    پاکستان کی موجودہ سیاست میں ایک جانب تنہا لیکن بھرپور اپوزیشن جماعت عمران خان کی ہے تو دوسری جانب 12 جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ہے اور ن لیگ کے صدر شہباز شریف کی صورت میں ان کی حکم رانی ہے۔ لیکن جب سے یہ حکومت قائم ہوئی ہے تب سے بڑھتی مہنگائی اور سہولیات کی فراہمی میں ناکامی، ذاتی مفاد میں فیصلے اور ریلیف کے حصول کے لیے اقدامات سے اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے جس کا ثبوت بعض غیر جانب دار سروے رپورٹس اور ایک سال کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔

    یوں تو اس وقت پوری پی ڈی ایم ہی عمومی طور پر عوام کی ناراضی کا شکار ہے لیکن سیاسی طور پر اس وقت سب سے نازک صورتحال مسلم لیگ ن کی ہے۔ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود تمام فیصلوں کو بوجھ تنہا ن لیگ ہی اٹھا رہی ہے اور اس کا خمیازہ اسے ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں بڑھتی غیر مقبولیت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔

    گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں جب پی ڈی ایم حکومت بنی تو اس کی بڑی اتحادی جماعتوں نے وہ عہدے اور وزارتیں حاصل کیں جن کا عوامی معاملات بالخصوص روزمرہ کے مسائل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پی پی نے اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ وزات خارجہ، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور دیگر عہدے اور وزارتیں حاصل کیں، جب کہ جے یو آئی نے بھی وزارت مواصلات اور دیگر وزارتوں پر ہاتھ صاف کیا جب کہ ن لیگ خزانہ، داخلہ، ترقی و منصوبہ بندی، تجارت جیسی وزارتیں لے کر سب سے خسارے میں یوں رہی کہ مہنگائی ہو یا دہشتگردی یہ سب ن لیگ کے کھاتے میں جا رہا ہے۔

    حکومت پہلے ہی اپنے ہر اقدام سے ملنے والے بیک باؤنس سے پریشان تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس مشکل صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ اسی پریشان کُن صورتحال میں اب ن لیگ میں اندرونی اختلافات نے اس کی قیادت کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ مسلم لیگ ن میں اب مریم نواز کی قیادت کو چیلنج اور ہوئے ان کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کیا جانے لگا ہے۔

    سیاسی حلقوں میں تو پہلے ہی یہ بازگشت ہے کہ شریف خاندان میں دوریاں پیدا ہوچکی ہیں۔ نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں جس کا گاہے گاہے اظہار مریم نواز بھی کرتی رہتی ہیں۔ وزیراعظم کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کو سیاسی منظر سے غائب کر دیا گیا ہے اور اب یہ اطلاعات ہیں کہ ن لیگ میں تین سوچیں پنپنے لگی ہیں ایک وہ جو نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ہیں۔ دوسرے وہ جو شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کے حامی اور اس وقت حکومت میں موجود ہیں اور تیسرا پارٹی میں موجود سینیئر رہنماؤں کا وہ طبقہ جو مریم نواز کی قیادت کا بھرپور مخالف ہے۔

    مریم نواز کو جب سے مسلم لیگ ن کا چیف آرگنائزر اور سینیئر نائب صدر بنایا گیا ہے یہ اختلافات ڈرائنگ روم سے نکل کر عوام کے سامنے آچکے ہیں۔ سب سے پہلے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی جو نواز شریف کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں نے مریم نواز کو چیف آرگنائزر بنائے جانے پر پارٹی کے سینیئر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد متعدد مواقع پر اس بات کا میڈیا میں برملا اظہار کیا کہ انہیں مریم نواز کی قیادت میں کام کرنا منظور نہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر شاہد خاقان عباسی نے مستقبل میں مریم کو ن لیگ کا صدر بنانے پر پارٹی چھوڑنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔

    صرف شاہد خاقان عباسی ہی نہیں ہیں جو مریم نواز کو پارٹی میں قائدانہ پوزیشن ملنے پر ناراض ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ سینیئر رہنماؤں کی بڑی تعداد ان کی ہم خیال ہے جو وقت آنے پر کھل کر اس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ شاہد خاقان کے بعد سینیئر رہنما اور صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے مرکزی نائب صدر سردار مہتاب عباسی بھی خاموش نہیں رہ سکے اور اقرار کر لیا کہ عمران خان کی حکومت کو گرانا اور پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر وفاقی حکومت بنانا بڑی غلطی تھی۔ کے پی میں ن لیگ کے خلاف سازش ہوئی۔ سردار مہتاب عباسی نے کہا کہ ن لیگ چند لوگوں تک محدود کر دی گئی ہے۔ پہلے پارٹی فیصلے کرتی تھی اب صرف چند لوگ کرتے ہیں۔ مریم نواز پارٹی کی قائد کی بیٹی ہیں لیکن پارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر اور جماعت کو ساتھ لے کر فیصلے کیے جائیں تو پارٹی کیلئے بھی اچھا ہوگا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ سوال بھی اٹھا دیا کہ جس پارٹی میں شخصیات کی بنیاد پر معاملات چلائیں گے وہ ملک کیسے چلائے گی؟

    مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا میں بھی اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں، مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے ترجمان اور سابق رکن اسمبلی اختیار ولی نے ن لیگ کے وزرا کو مغرور قرار دیا ہے اور کہا کہ وفاقی وزرا مسلم لیگ ن کو پنجاب کے چند اضلاع تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔

    نظریاتی اختلافات اب صرف پارٹی کے اندر اور خاندان سے باہر ہی نہیں رہے بلکہ خاندان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مریم کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر بھی پارٹی فیصلوں پر اپنی قیادت پر برس پڑے ہیں ۔ انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ن لیگ کے غیر جمہوری رویوں اور پارٹی میں گروہ بندی کی جانب اشارہ کیا ہے۔ جس کے بعد اطلاعات ہیں کہ مریم نواز نے اپنے شوہر سے اظہار ناراضی کرتے ہوئے ان پر پارٹی پالیسی سے متعلق بیانات دینے پر پابندی لگا دی ہے۔

    چدہدری نثار جو نواز شریف کے کئی دہائیوں تک دست راست رہے انہوں نے بھی مریم نواز کو پارٹی میں سینیئر لیڈر شپ سے زیادہ اہمیت دینے پر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور کئی سال سے سیاسی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ حال ہی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو اپنے خاندانی عزیز اسحاق ڈار کو منصب دینے کے لیے وزارت سے ہٹا کر پارٹی سے بھی سائیڈ لائن کیا گیا وہ پارٹی رہنماؤں میں پیدا ہونے والی بے چینی کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے۔

    مریم نواز گو کہ شاہد خاقان عباسی کو اپنا بڑا بھائی اور ان کے اختلافات دور کرنے کے لیے بات چیت کرنے کا عندیہ دے چکی ہیں تاہم یہ صرف بیانات اور کارکنوں کو مطمئن کرنے کی زبانی کوشش کہا جا سکتا ہے کیونکہ شاہد خاقان پہلے ہی مریم نواز کی قیادت کو تسلیم نہ کرنے کا واضح اعلان کرچکے ہیں تو ان سے اب کیا بات ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب اس ساری صورتحال میں پارٹی کے اصل قائد نواز شریف کی پراسرار خاموشی اور خاقان سے کوئی رابطہ نہ کرنا بھی عیاں کر رہا ہے کہ شاہد خاقان اور پارٹی قیادت کی سوچ الگ الگ ہوچکی ہے۔

    ادھر وفاقی حکومت میں موجود 12 جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) بھی انتشار کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے بعد پہلے مرحلے میں 16 مارچ کو ملک بھر کے 33 حلقوں میں ضمنی الیکشن کے اعلان پر پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اس میں حصہ نہ لینے کا دوٹوک اعلان کیا تھا۔ تاہم اس اعلان کو ان کے اتحادیوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔

    پہلے ایم کیو ایم نے کراچی سے قومی اسمبلی کے 9 حلقوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ پھر پیپلز پارٹی نے یہ کہتے ہوئے کہ پی پی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے، مولانا فضل الرحمان کے اعلان سے انحراف کر گئی۔ حد تو یہ کہ کاغذات نامزدگی جمع ہوئے تو ن لیگ کی جانب سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے گئے ہیں۔

    اس تمام صورتحال کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کی مخالفت میں بننے والے اتحاد پی ڈی ایم میں سیاسی اتفاق نہیں ہے اور آئندہ عام انتخابات اب چاہے وہ قبل از وقت ہوں، مقررہ وقت پر یا پھر کچھ تاخیر سے جب بھی نئے الیکشن کا بگل بجے گا پی ڈی ایم خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر جائے گا اور آج ہم نوالہ و ہم پیالہ کل ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہوں گے اور ہوسکتا ہے کہ عوام کو پھر ’’پیٹ پھاڑنے، لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے، ڈیزل پرمٹ کی آوازیں، کرپشن کے بادشاہوں کی کہانیاں‘‘ سننے کو ملنے لگیں کہ پاکستانی سیاست میں کچھ ناممکن نہیں ہے۔

  • دہشتگردی کا عفریت، مہنگائی، سیاسی دھینگا مشتی اور عوام

    دہشتگردی کا عفریت، مہنگائی، سیاسی دھینگا مشتی اور عوام

    گزشتہ دنوں پشاور ایک بار پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ پولیس لائنز کی مسجد میں دوران ادائیگی نماز خودکش دھماکے میں 80 سے زائد افراد جان سے گئے جب کہ کئی زخمی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ چند سال کے دوران بھی دہشتگردی کےبڑےواقعات ہوئے لیکن پچھلے تین ماہ میں ایک بار پھر اس عفریت نے سر اٹھایا ہے اور جہاں ملک میں سیکیورٹی اداروں‌ کی کارکردگی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں وہیں مہنگائی کے بے قابو جن اور سیاستدانوں کی دھینگا مشتی نے بھی غریب عوام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔

    پاکستان جو پہلے ہی اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ہر طرف یہ باتیں ہورہی ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے بلکہ چند معاشی ماہرین نے تو دعویٰ بھی کیا ہے کہ ملک تیکنیکی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے حکمراں جہاں سخت شرائط پر قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایم ایف کی منت سماجت میں لگے ہوئے ہیں، وہیں کاسہ گدائی بھی دنیا کے سامنے پھیلایا ہوا ہے جس سے قوم کا وقار ملیا میٹ ہو رہا ہے۔ ایسے میں دہشتگردی کے پھیلتے سائے نے صورتحال مزید سنگین کردی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاستدان ملک دشمنوں کے مقابلے کے لیے یک جان ہوتے مگر روایتی مذمت کے ساتھ حکمراں اتحاد اور اپوزیشن کے بے سر و پا بیانات اور اقدامات نے صورتحال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔

    اپوزیشن نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے ماتحت وزارت خزانہ کی جاری کردہ ماہانہ آؤٹ لک رپورٹ میں پاکستان کا مالی خسارہ بڑھنے اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ظاہر کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے اور اس کے حکومتی عہدیداروں سے مذاکرات بھی شروع ہوچکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے سخت ترین مذاکرات ہیں جس کے بعد عوام پر مہنگائی شکنجہ مزید کس دیا جائے گا۔ حکومتی وزرا ایک جانب غریب عوام کو ریلیف دینے اور دوسری جانب معاشی حالات میں بہتری کے لیے عوام سے مزید مشکلات برداشت کرنے کے متضاد بیانات دے رہے ہیں۔

    عالمی مالیاتی ادارے سے مذاکرات شروع ہونے سے ایک روز قبل حکومت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر اچانک اضافے کی سلامی آئی ایم ایف کو دے چکی ہے جب کہ آنے والے دنوں میں مزید اضافے کی بازگشت عوام کے کانوں سے ٹکرا رہی ہے اور حکومتی و غیرحکومتی حلقوں کی جانب سے انہیں ایک نئے امتحان کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ لگتا ہے کہ عوام کے تن پر جو چیتھڑے رہ گئے ہیں، حکومت اب عوام سے اس کی قربانی بھی چاہتی ہے۔ کیونکہ سیاست کے حمام میں تو سب پہلے ہی ننگے ہیں۔

    یہ وہ ملک ہے جس کے حکمرانوں، سیاستدانوں، با اختیار افراد کے بیانات سن کر لگتا ہے کہ 75 سال سے ملک کسی نازک موڑ پر کھڑا ہے اور اب تک اس موڑ سے نکلنے کی اسے راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے۔ ایک جانب آئی ایم ایف کے سامنے سخت شرائط پر قرض کے لیے جھولی پھیلی ہے تو دوسری جانب حکومت کا کشکول بھی دنیا بھر میں حرکت میں ہے۔ چین، سعودی عرب، یو اے ای جیسے دوست ممالک گاہے بگاہے ہمیں سہارا دیتے رہے ہیں لیکن مستقل پھیلا کشکول دوست تو کیا بھائی کو بھی برا لگتا ہے اور یہ بات ہمارے ارسطو دماغوں کو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔

    پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے ملک میں ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے پھر چاہے کچھ عرصے بعد پٹرول کی قیمت کچھ کم ہوجائے لیکن مہنگائی کم نہیں ہوتی۔ ایسے میں حکومتی زعما کا رٹا رٹایا یہ بیان کہ اس کا بوجھ غریب عوام پر نہیں پڑے گا سن کر اب تو ہنسی آنے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمراں طبقہ خود کو ہی ملک کی غریب عوام سمجھتا ہے کیونکہ اسے پٹرول، بجلی، گھر کا کرایہ، کھانا، سفر، علاج سب کچھ تو مفت ملتا ہے تو پھر اس کا بوجھ ان پر کیسے پڑ سکتا ہے۔ قسمت کے مارے تو عوام ہیں کہ وہ آٹا لائیں تو دال کی فکر ستانے لگتی ہے۔ بچے کو دوا دلا دیں تو اسکول کی فیس کا مسئلہ اس کے سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہوتا ہے۔

    ایک جانب عوام کو بنیادی ضروریات کھانے کو آٹا، پینے کو پانی، علاج کے لیے دوا میسر نہیں ہے۔ باقی ضروریات زندگی تو نہ جانے کب کی ان کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عملاً عوام سے مزید قربانی مانگنے کے بجائے حکومت خود اپنی شاہ خرچیاں ختم کرتی اور سادگی اختیار کرتی، لیکن یہ ہمارے حکمراں طبقے کی بے حسی کہہ لیں کہ عوام پر جیسے جیسے عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے حکمرانوں کی عیاشیوں کا سلسلہ بھی دراز ہوتا جا رہا ہے۔

    یہ ایک مذاق ہی ہے کہ دنیا کے مقروض اور ڈیفالٹ کے قریب کھڑے ملک کی کابینہ سب سے بڑی ہے جس کی وزرا، مشیروں کی تعداد 75 سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ان تمام کی مراعات بھی ایسی ہیں کہ جو دیگر امیر ممالک کی اشرافیہ کی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ اس پر کمال یہ کہ جب یہ حکمراں قرض لینے یا امداد کی امید لیے کسی ملک کا دورہ بھی کرتے ہیں تو شاہی لاؤ لشکر کے ساتھ جایا کرتے ہیں جہاں ان کا قیام وطعام بھی شاہانہ ہوتا ہے اور ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کی تصاویر جب قومی اور بین الاقوامی میڈیا پر نشر یا پرنٹ ہوتی ہیں تو وہ عوام کے ادھڑے زخموں پر مزید نمک پاشی کرتی ہیں۔

    زیادہ دور نہ جائیں صرف موجودہ حکومت کے ابتدائی 9 ماہ ہی دیکھ لیں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔ کیا وزیراعظم، کیا وزیر خارجہ، کیا اسپیکر قومی اسمبلی اور کیا دیگر وزرا کے علاوہ وزرا کی فوج ظفر موج سے باہر حکومت کے اتحادی سیاسی رہنما، سب ہی ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ چاہے عمرے کی ادائیگی جیسا قطعی ذاتی مذہبی معاملہ ہو یا پھر قطر، یو اے ای، امریکا، جنیوا امداد کے لیے دورے ہوں حکومتی لاؤ لشکر لازمی ہوتا ہے۔

    ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی کینیڈا جاتے ہیں تو قوم کے خرچے پر درجن بھر سے زائد وزرا کو فیملی کے ہمراہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں قیام وطعام ہوتا ہے، نیاگرا فال کی سیر و تفریح ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ جن کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں وہ سرکاری خرچ پر یعنی غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی پر ترکی کا کئی روزہ دورہ کرتے ہیں اور شاہانہ فیری میں سیر وتفریح کرتے ہیں۔ بے حس سیاسی رہنماؤں کی یہ تصاویر گزشتہ سال قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں اور یہ تو صرف چند بڑی مثالیں ہیں ورنہ تفصیل میں گئے تو بات کہیں کی کہیں نکل جائے گی۔ رہی بات ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی تو وہ شاید وزیر بنے ہی عوامی خرچ پر بیرون ملک دوروں کے لیے ہیں کہ 9 ماہ کی حکومت میں شاید وہ 9 ہفتے بھی ملک میں نہیں رہے ہوں گے۔

    بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان کے دو درجن سے زائد بیرونی دوروں پر غریب عوام کی خطیر رقم خرچ ہوچکی ہے لیکن قوم خوش ہوجائے کہ ان بیرونی ممالک کے دوروں کا فائدہ عوام کو ہی ہوتا ہے یہ ہم نہیں ہمارے وزیر خارجہ خود کہتے ہیں، جنہوں نے ڈیڑھ دو ماہ قبل اپنے گزشتہ دورہ امریکا میں کہا تھا کہ اگر حکومت میرے بیرون ملک دوروں کا خرچ اٹھاتی ہے تو یہ میرا حق ہے میں وزیر خارجہ ہوں اور میرے دوروں سے ملک کے عوام کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔ موصوف اب خیر سے پھر امریکا کے دورے پر ہیں اور آئندہ دو ماہ کے دوران مزید دو بار امریکا جائیں گے۔

    ملک میں سیاسی افراتفری اور سیاسی دھینگا مشتی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ ایک جانب اپوزیشن ہے جس نے عام انتخابات کے لیے تمام حربے استعمال کر ڈالے اور شہر شہر سڑکوں پر بھرپور احتجاج کے باوجود آرزو بر نہ آنے پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں تک ختم کر دیں تو دوسری جانب حکومت اور اس کے اتحادی ہیں جو نئے الیکشن سے مسلسل بھاگ رہے ہیں۔ کبھی معاشی حالات کا بہانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی بڑھتی دہشتگردی کا بیانیہ سامنے لے آتے ہیں۔ پہلے مطالبات پر پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی سے استعفے منظور نہیں ہوتے تھے پھر جب نئے الیکشن کی راہ ہموار کرنے اور نگراں وفاقی حکومت پر مشاورت کے لیے عمران خان نے اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا تو صرف چند دن میں ہی تحریک انصاف کے باقی 113 اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے گئے جن میں سے 33 عام حلقوں پر الیکشن کمیشن 16 مارچ کو ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کرچکا ہے۔

    قومی اسمبلیوں کے 33 حلقوں پر ضمنی الیکشن کے شیڈول پر قوم کے ذہن میں یہ سوال بھی کُلبلا رہا ہے کہ جب پی ٹی آئی کے ملک بھر میں عام انتخابات کرانے کے مطالبے سے بچنے کیلیے حکومتی اتحادی اور ادارے بڑھتی دہشتگردی کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب اور کے پی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد اب تک ان صوبوں میں بھی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوسکا ہے اور دہشتگردی کو جواز بنا کر ان انتخابات کے التوا کی بھی باتیں سامنے آ رہی ہیں تو کیا دہشتگردی کا خطرہ قومی اسمبلی کے 33 حلقوں میں آئندہ ماہ شیڈول ضمنی الیکشن پر نہیں پڑے گا؟

    پھر ملک کے بدترین معاشی حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے تمام 33 حلقوں پر عمران خان کے الیکشن لڑنے کے اعلان نے ایک مضحکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے۔ عمران خان جو بلاشبہ ملک میں اس وقت مقبول ترین سیاستدان کے طور پر سامنے آئے ہیں اور گزشتہ سال اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد قومی اسمبلی کے 6 ضمنی انتخابات تنہا جیت کر اس کو ثابت بھی کردیا۔ مگر ان 6 میں سے انہوں نے ایک ہی حلقہ اپنے پاس رکھنا ہے۔ اگر چند لمحوں کے لیے یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ عمران خان ان تمام 33 حلقوں پر اپوزیشن کو ناک آؤٹ کرتے ہوئے فتح یاب ہوں گے تو وہ تمام حلقے تو اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گے۔ انہیں ایک ہی رکھنا ہوگا اور 33 پھر خالی ہوں گے تو کچھ سوچا ہے کہ ڈیفالٹ کی بازگشت میں ملک و قوم کے ساتھ یہ سیاسی مذاق کیا رنگ لائے گا۔

    حالات کا تقاضہ ہے کہ سیاسی اختلافات رکھتے ہوئے ملک اور قوم کی بہتری اور معاشی استحکام کے لیے حکومت، اپوزیشن قومی مفاد میں تمام نہیں تو چند متفقہ نکات پر ایک پیج پر آئے جو مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں کہ حکومتیں تو بنتی رہیں گی، اور اس کے لیے عوام کی خوشحالی اور پاکستان کی بقا ناگزیر ہے۔

  • پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ، کیا حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ؟

    پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری ، کیا حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ؟

    ملک کے متزلزل سیاسی منظر نامے میں پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے ساتھ زبردست ہلچل پیدا ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ ایوان اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ کر مستقبل کی پیش بندی شروع کر دی ہے۔

    گزشتہ سال تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کے خاتمے اور شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی پاکستان تحریک انصاف کے تمام اراکین قومی اسمبلی نے 11 اپریل کو اسمبلی فورم پر ہی اپنی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا اور اپنے استعفے اسپیکر قومی اسمبلی کو ارسال بھی کردیے تھے لیکن ان استعفوں کو منظور کرنے میں مسلسل لیت ولعل سے کام لیا جا رہا تھا۔ بعد ازاں جولائی میں منتخب 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے تھے جن میں 9 جنرل اور دو مخصوص نشستوں کے اراکین تھے۔ ان میں سے 7 نشستوں پر ضمنی الیکشن میں سے 6 پر پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کامیابی حاصل کر کے ملک کے مقبول سیاسی لیڈر ہونے کا ثبوت دیا تھا۔

    پاکستان تحریک انصاف اس دوران اپنے تمام اراکین کے استعفوں کی منظوری کے لیے متعدد بار آواز بھی اٹھاتی رہی۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکٹایا گیا لیکن حکومت سمیت تمام اداروں نے پی ٹی آئی اراکین کو واپس اسمبلی میں آنے کا ہی مشورہ دیا۔ اسی دوران استعفوں کی منظوری کے لیے پی ٹی آئی کی جانب سے دباؤ بڑھانے پر اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ استعفے منظوری کے لیے آئین اور قانون کا طے شدہ راستہ اپنایا جائے گا۔ جب تک پی ٹی آئی اراکین انفرادی طور پر پیش ہو کر استعفوں کی تصدیق نہیں کرتے اور استعفے ہاتھ سے لکھے نہیں ہوتے تب تک استعفے منظور نہیں کیے جائیں گے۔

    گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے وفد نے اسپیکر چیمبر میں راجا پرویز اشرف سے استعفوں کی منظوری کے لیے ملاقات کی تھی تاہم اس وقت بھی اسپیکر اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے اور پی ٹی آئی کو نامراد لوٹنا پڑا تھا۔ اس تمام صورتحال میں ایسا اچانک کیا ہوا کہ برسات کی تیزی کے مثل پی ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کیے جانے لگے اور صرف دو روز کے وقفے سے 70 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے جن میں سے 64 جنرل نشستوں پر منتخب اراکین اور 6 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔

    اب تک جن اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں علاوہ عمران خان پی ٹی آئی کی تمام صف اوّل کی قیادت شامل ہے جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، مراد سعید، عمر ایوب، اسد قیصر، پرویز خٹک، شہریار آفریدی، علی امین گنڈاپور، نورالحق قادری، عامر محمود کیانی، مخدوم خسرو بختیار، ملیکہ بخاری، عندلیب عباس کے علاوہ حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان کے ساتھ استقامت سے کھڑے سینیئر سیاستدان شیخ رشید بھی شامل ہیں۔ عمران خان کو اس لیے قومی اسمبلی سے باہر نہیں کیا جاسکتا کہ جس نشست پر انہوں نے استعفیٰ دیا تھا اس پر تو الیکشن کمیشن نااہل قرار دے چکا جب کہ ضمنی الیکشن میں حاصل نشستوں پر استعفوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس تیزی سے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی اراکین کے استعفے دو روز کے دوران منظور کیے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہنے کا قومی امکان ہے تو کیا استعفوں کی منظوری کے لیے اسپیکر کے بتائی گئی شرائط مکمل ہوگئیں؟ کیا تمام اراکین نے انفرادی طور پر اسپیکر کے سامنے پیش ہوکر اپنے استعفوں کی تصدیق کر دی؟ کیا جن اراکین کے استعفے منظور کیے گئے انہوں نے اپنے استعفے آئین اور قانون کے مطابق ہاتھ سے لکھ کر دے دیے؟ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر حکومت نے استعفوں کی منظوری پر یوٹرن کیوں لیا؟

    یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ عمران خان جب سے اقتدار سے باہر ہوئے ہیں تب سے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک فوری شفاف عام انتخابات کرائے جائیں اور عوام جس کو بھی منتخب کریں وہ حکومت سنبھالے۔ پی ڈی ایم کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں تو شاید پی ڈی ایم میں بھی اس حوالے سے سوچ واضح تھی۔ کچھ ضروری قانون سازی کرکے الیکشن کرا دیے جائیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سوچ ایک شکست کے خوف میں تبدیل ہوکر کہیں ہوا ہوچکی ہے۔

    دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کی بنیاد پر بڑھتی مہنگائی، عوامی مسائل سے دور پی ڈی ایم حکومت کی اپنی کیسز ختم کرانے کیلیے صرف احتساب قوانین کے خاتمے میں دلچسپی اور پھر بڑے کرپشن کیسز میں ریلیف ملنا، شدید معاشی بحران اور ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ جانے کے باوجود جہازی سائز کابینہ میں مسلسل اضافہ، وزیراعظم اور وزرا کے شاہانہ غیر ملکی دورے نے جہاں پی ڈی ایم کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ وہیں عمران خان کا غیر ملکی مداخلت سے ان کی حکومت ختم کرنے کا بیانیہ عوام میں مقبولیت اختیار کرگیا جس کو حکومت کے ہی بعض اقدامات نے مزید تقویت دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 13 جماعتی اتحاد مقبولیت کے بجائے غیرمقبولیت کی انتہا کی طرف بڑھ گیا جب کہ عمران خان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

    گزرے سال کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات بالخصوص پنجاب میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین سے خالی ہونے والی 20 صوبائی نشستوں میں سے 16 پر پی ٹی آئی کامیابی اور پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری سے قومی اسمبلی خالی 7 نشستوں میں 6 پر عمران خان کی تنہا کامیابی نے حکومتی اتحاد کی مقبولیت میں سمجھو آخری کیل ٹھونک دی۔ پی ٹی آئی نے یہ کامیابیاں پنجاب میں ن لیگ کا گڑھ کہلائے جانے والے لاہور اور ایم کیو ایم کے گڑھ کراچی میں اس صورتحال میں حاصل کیں کہ ایک جماعت کے مقابلے میں 13 جماعتوں کا ایک مشترکہ امیدوار میدان میں تھا۔

    اس تمام عرصے کے دوران پی ٹی آئی نے سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے بھی حکمران اتحاد کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔ انتخابات کا مطالبہ پورا نہ ہونے پر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں جس کے بعد تو ملک میں عام انتخابات کا ماحول بننے لگا اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں سمیت بااختیار حلقوں میں بھی باقاعدہ نئے انتخابات کے حوالے سے غور و خوض اب آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اور سیاسی حلقوں میں قبل از وقت اپریل میں عام انتخابات کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔

    ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی اور عام انتخابات کی افواہوں اور چہ می گوئیوں کے ماحول میں مہینوں سے استعفوں کی منظوری کے لیے زور دینے اور موجودہ اسمبلی میں واپس نہ آنے کا واضح موقف رکھنے والے پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اچانک گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں واپسی کا عندیہ دیا اور کہا کہ وہ سوچ رہے ہیں اسمبلیوں میں واپس جائیں تاکہ عام انتخابات کے اعلان سے قبل نگراں حکومت کا قیام پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی سے منحرف ہوکر موجودہ اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے پاس نہ رہے اور وہ اکثریتی اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے اس مشاورت کا حصہ بنیں۔

    عمران خان کے اس اعلان نے ہچکولے کھاتی پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیے اور حکومتی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم کے اس بیان کے صرف چند گھنٹے بعد ہی پی ٹی آئی کے 35 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرلیے گئے اور اگلے روز الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا۔ حکومت نے پھرتی دکھاتے ہوئے ایک روز کے وقفے کے بعد ہی پھر دوبارہ 35 اراکین کے استعفے منظور کرکے انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو بھیج دیا ہے۔

    ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام میں پی ٹی آئی کی بڑھتی مقبولیت اور اپنی سیاسی ناکامیوں کا شکار پی ڈی ایم حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے کہ عام انتخابات ناگزیر ہوچکے ہیں اور سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے کہتے ہیں کہ حکومت کی استعفوں پر یوٹرن اور پھرتیاں بھی اسی لیے ہیں کہ وہ نگراں سیٹ اپ میں پی ٹی آئی قیادت بالخصوص عمران خان سے کوئی مشاورت نہیں کرنا چاہتی ہے۔

    اس سیاسی تماشے کے دوسری جانب غربت کے پہاڑ تلے دبی وہ عوام ہے جو آٹا خریدنے کے بدلے میں موت پا رہی ہے۔ آٹا، چینی، دال، سبزی، گوشت سب اس کی دسترس سے دور ہوچکا ہے۔ دو وقت تو دور اکثریت کو ایک وقت کی روٹی بھی سکون سے دستیاب نہیں ہے۔ ایسے میں جب وہ سیاسی دنگل دیکھتی ہے۔ اپنے پیسے پر پرتعیش ہوٹلوں میں وزرا کا قیام و طعام، ترکی میں فیری اور نیاگرا فال کی تفریح کرتی تصاویر اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کے پاس سوائے اپنے آنسو پینے اور سرد آہ بھرنے کے کچھ نہیں ہوتا۔

    آخر میں‌ اقتدار کی لڑائی لڑنے والے سیاست دانوں کے گوش گزار یہ کرنا ہے کہ حکومت کسی زمین کے خالی ٹکڑے پر حکمرانی کرنے کا نام نہیں ہے۔ اصل حکمرانی عوام کے دلوں پر حکمرانی ہوتی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ عوام نے ان کو ہی دل کے تخت پر بٹھایا ہے جنہوں نے ان کے حقوق کا پاس کیا ہے۔ آج بھوک اور افلاس سے بلکتی عوام منتظر ہے کہ اقتدار کی لڑائی سے ہٹ کر کوئی ان کی جانب بھی نظر کرم کرے۔ ایسے میں سیاستدان نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈر پر لازم ہے کہ ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ملک اور مصیبت کی ماری عوام کو بچانے کے لیے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قومی مفاد میں فیصلے کریں تاکہ تاریخ میں ان کا بھی اچھے الفاظ میں ذکر ہوسکے۔