Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • بلدیاتی انتخابات:  روایتی گہماگہمی کا فقدان،’ منقسم’ ایم کیو ایم کے اتحاد کی کوششیں

    بلدیاتی انتخابات: روایتی گہماگہمی کا فقدان،’ منقسم’ ایم کیو ایم کے اتحاد کی کوششیں

    سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ شیڈول کے مطابق 15 جنوری یعنی آئندہ اتوار کو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن ہو رہے ہیں تاہم اس مرتبہ انتخابی سیاست کے لیے روایتی گہما گہمی نظر نہیں‌ آرہی ہے۔

    بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں گزشتہ سال جون میں اندرون سندھ الیکشن ہوچکے اور دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں گزشتہ سال 24 جولائی کو الیکشن ہونے تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی اور اس کے بعد پھر متعدد بار الیکشن ملتوی کیے گئے۔ حکومت سندھ کے اس اقدام کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی عدالت گئیں اور عدالتی حکم پر اب 15 جنوری کو الیکشن متوقع ہے۔ لیکن اب بھی ایم کیو ایم کی جانب سے التوا کی درخواست الیکشن کمیشن میں ہے جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے اور پیر کے روز سنایا جائے گا۔ اب تک اس فیصلے کو نہ سنائے جانے کے باعث بھی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

    کراچی جو کہنے کو تو ملک کا سب سے بڑا شہر معاشی حب ہے جو پاکستان کو 65 فیصد سے زائد ریونیو فراہم کرتا ہے لیکن ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس شہر کو ہر دور میں نظر انداز کرتے ہوئے اس کا جائز حق نہیں دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روشنیوں کا شہر کراچی آج ان گنت مسائل سے دوچار ہے اور ان تمام مسائل کا تعلق بلدیاتی اداروں سے ہی جڑا ہے۔

    گزشتہ بلدیاتی دور ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر کا دور تھا لیکن بدقسمتی سے وہ دور شہر کراچی کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اور عملی اقدامات کے بجائے صرف اقتدار اور اختیار نہ ہونے کا رونا روتے ہوئے گزار دیا گیا اور کوئی میگا پراجیکٹ اس شہر کو نہیں دیا گیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جس جماعت پر شہر کراچی کے حقوق غصب اور بلدیاتی اداروں کو بے اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا ایم کیو ایم نے گزشتہ سال اسی سیاسی جماعت سے پانچویں بار اتحاد کیا۔

    بلدیاتی نمائندوں کی مدت 2020 میں ختم ہوگئی تھی جس کے بعد سے ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی حب کراچی کو بغیر منتخب نمائندوں کے عارضی بنیادوں ایڈمنسٹریٹرز تعینات کر کے چلایا جا رہا تھا۔ اب جب کہ عدالتی حکم پر الیکشن کے انعقاد میں 7 دن باقی رہ گئے ہیں لیکن لگ ہی نہیں رہا ہے کہ کراچی میں آئندہ ہفتے کوئی بڑا انتخابی معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ ایسا غالباً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں بلدیاتی الیکشن ہونے جا رہے ہوں اور ان میں سات دن سے بھی کم کا وقت ہو لیکن روایتی انتخابی گہما گہمی کہیں نظر نہیں آ رہی ہو۔ اگر کسی حد تک کوئی انتخابی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں تو وہ صرف جماعت اسلامی کی ہیں جب کہ شہر کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعوے دار ایم کیو ایم کی سرگرمیاں صرف الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن میں درخواست تک ہیں۔

    بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے دوران ہی دو ماہ قبل ایم کیو ایم کے نامزد گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے والے کامران ٹیسوری سیاسی طور پر بہت سرگرم ہیں اور ان کی تمام کوششیں ایم کیو ایم کے منقسم دھڑوں کو متحد کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال کے آخر میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ نیا سال شروع ہوتے ہی کراچی کے عوام اس حوالے سے خوشخبری سنیں گے لیکن اب تک رابطوں، ملاقاتوں اور رسمی بیانات کے علاوہ کوئی بڑی پیش رفت نظر نہیں آئی۔

    ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران گورنر سندھ ایم کیو ایم پاکستان سمیت پی ایس پی، ڈاکٹر فاروق ستار، آفاق احمد سے ملاقاتیں کر چکے ہیں اور گزشتہ کئی سال سے ایک دوسرے کے خلاف ان جماعتوں کے رہنما بھی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں لیکن جس اتحاد کی بازگشت گزشتہ ماہ سنائی دی تھی اور خوشبری سال شروع ہوتے ہی ملنے کی نوید دی گئی تھی وہ خوشخبری اب تک سنائی نہیں دی ہے۔

    شہری سیاست کے واقفان حال کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے کچھ رہنما اس ادغام کے خلاف ہیں جو کھل کر سامنے نہیں آ رہے لیکن انہیں ایک بھی نہیں ہونے دے رہے جس کے باعث اب تک کوئی حتمی منظر نامہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ادھر مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ شہری مسائل اور حلقہ بندیوں پر ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں لیکن وہ متحدہ قومی موومنٹ کا حصہ نہیں بن رہے ہیں۔ یعنی اتحاد کی بیل ابھی منڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی۔

    پیپلز پارٹی جو کچھ عرصہ پہلے تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کترا رہی تھی اور اس حوالے سے سندھ اسمبلی سے قانون سازی سمیت کئی اقدامات بھی کیے اور الیکشن کے التوا کے لیے کمیشن کو خطوط بھی لکھے لیکن اب نہ جانے چند دن میں کیا کایا پلٹ ہوئی کہ وہ مقررہ تاریخ پر الیکشن کرانے کی سب سے بڑی داعی بن کر سامنے آئی ہے اور اس معاملے پر پی پی پی اور ایم کیو ایم میں تلخیاں مزید بڑھتی جا رہی ہیں۔

    ایم کیو ایم جس کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات سے نہیں بھاگ رہی اور نہ ہی کسی کے لیے میدان خالی چھوڑے گی بلکہ وہ حلقہ بندیوں پر معترض ہے کیونکہ حلقہ بندیاں پی پی کی سندھ حکومت نے اپنے ذاتی سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر کی ہیں تاکہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ ایم کیو ایم کے اس الزام کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ بلاول بھٹو سمیت کئی یی پی سیاسی رہنما ببانگ دہل یہ اعلان کرچکے ہیں کہ اس بار کراچی کا میئر جیالا ہوگا اگر ایسا ہوا تو یہ کراچی کی تاریخ میں پہلی بار ہوگا۔

    نئی حلقہ بندیوں تک بلدیاتی الیکشن کے التوا پر ایم کیو ایم کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے 11 جنوری کو اس حوالے سے احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے جس میں اس نے شرکت کے لیے پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ اور جماعت اسلامی کو بھی دعوت دی تاہم پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ نے تو شرکت کی یقین دہائی کرائی تاہم جماعت اسلامی نے اس معاملے پر ایم کیو ایم کو ہرا جھنڈا دکھانے کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں متحدہ رہنماؤں کو آئینہ بھی دکھا دیا۔

    بلدیاتی انتخابات کے حوالے اب تک جماعت اسلامی ہی متحرک نظر آنے والی ہی واحد سیاسی جماعت نظر آ رہی ہے باقی سب جماعتیں زبانی کلامی باتیں کرتی سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے شہر بھر میں بلدیاتی الیکشن کے لیے سیاسی دفتر کھلے ہوئے ہیں۔ انتخابی مہم بھی جاری ہے۔ اس کے نمائندے عوام سے رابطے بھی کر رہے ہیں جب کہ یہ بلاگ لکھے جانے تک جماعت اسلامی نے شہر قائد کے لیے اعلان کراچی کے نام سے ایجنڈا جاری کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

    اس کے برخلاف گزشتہ عام انتخابات میں کراچی سے ایم کیو ایم کو بڑا نقصان پہنچانے والی پاکستان تحریک انصاف بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے اس طرح سرگرم نظر نہیں آتی جس طرح کہ یہ بلدیاتی انتخابات تقاضہ کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے عدالت ضرور گئی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان انتخابات کے لیے اس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور اس کی توجہ صرف اعلیٰ ایوانوں کی سیاست پر مرکوز ہے۔

    پیپلز پارٹی کے پاس بھی صرف سیاسی دعوے اور بیانات ہیں یا پھر سندھ کی حکومت باقی زمینی حقائق کے مطابق پی پی پی بھی باضابطہ سیاسی طور پر انتخابی سرگرمی شروع نہیں کرسکی ہے۔

    ایم کیو ایم جو خود کو شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہتی رہی ہے اور ماضی کے انتخابی نتائج اٹھا کر دیکھا جائے تو یہ بات 100 فیصد درست بھی ہے لیکن ایم کیو ایم کا حال اب ماضی جیسا قطعی نہیں اور اس کا بھرپور اندازہ اور مشاہدہ خود ایم کیو ایم کو بھی ہے۔ ایم کیو ایم رہنماؤں کی جانب سے کسی بھی امیدوار کے لیے میدان کھلا نہ چھوڑنے کے اعلانات کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کا انتخابی مہم چلانے کے حوالے سے جو خاصہ رہا ہے وہ اس بار کہیں نظر نہیں آ رہا ہے اور اس کا اولین خواہش تو الیکشن کا التوا ہے۔

    تحریک لبیک پاکستان جو کراچی کی سیاست میں چند سال سے فعال نظر آ رہی ہے اور سندھ اسمبلی میں بھی اس کے نمائندے موجود ہیں۔ گزشتہ سال قومی اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں بھی اس نے ایم کیو ایم کو کافی ٹف ٹائم دیا تھا لیکن اس کیمپ میں بھی ہنوز خاموشی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ باقی دیگر جماعتیں جس میں پی ایس پی، مہاجر قومی موومنٹ، ڈاکٹر فاروق ستار ودیگر شامل ہیں تو گزشتہ انتخابات میں ان کی کارکردگی دیکھ کر ان کا سرگرم ہونا نہ ہونا برابر محسوس ہوتا ہے۔

    دوسری جانب صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں اس بار کراچی کے شہری بھی گم سم لگتے ہیں اور ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ شہر قائد کے باسی الیکشن کے بارے میں اس قدر لاعلم ہیں کہ انہیں اپنے حلقوں سے کھڑے ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کے بارے میں بھی علم نہیں ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ بلدیاتی انتخابات کے کئی بار التوا نے ان کی دلچسپی ختم کر دی لیکن اکثریت کی رائے ہے کہ ہر روز بڑھتی مہنگائی، بیروزگاری نے عوام کو ان معاملات سے دور کر دیا ہے اور جس طرح سے خاص طور پر گزشتہ 8 ماہ میں ملک کے سیاسی معاملات چلائے گئے ہیں اس سے عوام کی اکثریت سیاست اور سیاستدانوں سے بدظن نظر آتی ہے۔

    سیانے کہتے ہیں خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ انتخابی میدان میں اس طرح کی خاموشی کیا رنگ لائے گی اس کا نتیجہ تو آئندہ ہفتے 15 جنوری کی شام کو ظاہر ہو گا۔ تاہم شہر قائد کے باسی اب نعروں کے بجائے اپنی اور شہر کی حالت کی بہتری کے لیے عملی اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام اپنے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے کس قیادت کا انتخاب کرتے ہیں؟

  • 2022: ملکی سیاست میں یوٹرن اور بدتہذیبی  کا سال!

    2022: ملکی سیاست میں یوٹرن اور بدتہذیبی کا سال!

    پاکستان کی سیاست میں یہ سال انتہائی ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔اسے سیاسی افق پر انہونیوں، یوٹرنز اور اخلاقی قدروں کے زوال کا سال کہا جاسکتا ہے۔

    2022 کا سورج طلوع ہوا تو عمران خان وزیراعظم اور شہباز شریف اپوزیشن لیڈر تھے اور اب جب یہ سال ختم ہو رہا ہے تو شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور پی ٹی آئی ایوان سے باہر، لیکن عمران خان عملاً اپوزیشن لیڈر بن گئے ہیں۔

    2022 میں ملک میں سیاسی افراتفری اور جو ہیجان انگیزی دیکھی گئی، موجودہ نسل نے شاید اس سے قبل نہ دیکھی ہو۔ یہ سال سیاسی افراط و تفریط کا شکار تو رہا لیکن اس دوران ایسے ایسے اسکینڈلز، اقدامات سامنے آئے کہ الامان الحفیظ۔ مسلسل آڈیو اور ویڈیو اسکینڈلز سے ایسا لگنے لگا کہ شرافت نے کوچۂ سیاست کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے اور بدتہذیبی نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ رواں برس سیاستدان ’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟‘‘ پر دل و جان سے عمل پیرا نظر آئے اور ایک دوسرے پر شرمناک الزامات لگانے میں‌ بہت آگے نکل گئے۔ اس برس تحریک عدم اعتماد، توشہ خانہ ریفرنس، آڈیو ٹیپس، سیاستدانوں کی گرفتاریاں، نیب ترامیم کے بعد پی ڈی ایم رہنماؤں کو ریلیف، مقدمات کا خاتمہ، عمران خان کی مقبولیت اور عسکری قیادت کی تبدیلی کا معاملہ سیاسی منظر نامے میں نمایاں رہا۔

    ملک میں جہاں سیاستدانوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی کشمش جاری رہی وہیں عوام اس بات کے منتظر رہے کہ ہر وقت عوام کی فکر میں‌ ہلکان ہونے والے سیاستدان ان کے لیے بھی سوچیں گے لیکن عوام کا یہ خواب ہنوز خواب ہی ہے۔ رواں سال مہنگائی اور بیروزگاری نے ان پر عرصۂ حیات مزید تنگ کر دیا ہے۔

    اس سال کے آغاز پر سیاسی افق پر بے یقینی کے بادل چھانے لگے تھے۔ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے عمران خان کو بھی اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کا اقتدار ڈانوا ڈول ہو رہا ہے جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں کرتے رہے۔ پھر ماضی کی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے فضل الرحمٰن کی قیادت میں گٹھ جوڑ اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اعلان نے تمام خدشات کو درست ثابت کر دیا۔

    سال کا آغاز پی ڈی ایم رہنماؤں کے مہنگائی مکاؤ مارچ اور احتجاج سے ہوا۔ ن لیگ تو سرگرم تھی ہی، بلاول بھٹو مہنگائی مارچ لے کر کراچی سے اسلام آباد کے لیے عازم سفر ہوئے اور جب لانگ مارچ لے کر 8 مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوئے اور اسی روز متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرا دی۔ لیکن یہ کسی مذاق سے کم نہیں کہ آج جب سال اپنے اختتام پر ہے اور 13 جماعتی پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت ہے تو مہنگائی سال کے آغاز سے کئی گنا بڑھ چکی ہے اور اس کی پرواز مسلسل جاری ہے لیکن پی ڈی ایم یا ان کے سپورٹرز اس پر سیاسی بیانات تک محدودہیں جب کہ حکومت کی جانب سے مہنگائی کے خاتمے کے لیے کوئی موثر عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ عمران خان کو مخالفین نے مسٹر یوٹرن کا نام دیا ہے لیکن سیاسی اقدامات میں یوٹرن لینے میں پی ڈی ایم جماعتوں کے رہنما بھی پیچھے نہیں ہیں۔

    پی ڈی ایم کی جانب سے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد ملک بالخصوص شہر اقتدار اسلام آباد میں ہر دن سیاسی درجہ حرارت بڑھتا رہا۔ اسی ہنگامہ خیزی میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے روس کا دورہ کیا اور یہ محض اتفاق کہ جس دن وہ روس پہنچے اسی روز روس نے یوکرین پر چڑھائی کر دی تھی، یوں غیر معمولی صورتحال میں عمران خان کا دورہ روس دنیا بھر میں موضوع بحث بھی بنا۔

    قصہ مختصر عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن جماعتوں پر امریکی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا اور اعلان کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کو بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ایک ماہ تک سیاسی جوڑ توڑ اور بیرونی دباؤ کے بعد ان کی اپنی پارٹی کے 20 اراکین منحرف ہو گئے جب کہ عمران خان کے حلیف بھی پل بھر میں حریف بن گئے اور ساڑھے تین سال تک حکومت اور وزارتوں کا مزا لینے والی ایم کیو ایم اور بی اے پی راتوں رات قبلہ تبدیل کر کے پی ڈی ایم میں شامل ہوگئیں، جس کے بعد سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔

    اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے تمام راستے بند ہوتے دیکھ کر عدم اعتماد روکنے کے لیے قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس صدر عارف علوی کو بھیجی۔ صدر مملکت نے بھی اس ایڈوائس پر عمل کرنے میں دیر نہ لگائی جس کے خلاف متحدہ اپوزیشن عدالت پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے رات گئے کھل کر اور الیکشن کمیشن نے آئندہ چند ماہ تک الیکشن کرانے سے معذوری ظاہر کر کے سابق وزیراعظم کی تمام تدابیر پر پانی پھیر دیا یوں انہیں عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اور ناکامی کے بعد اقتدار سے محروم ہوئے تاہم جاتے جاتے وہ اسمبلیوں سے استعفے دے گئے جو سوائے 11 کے اب تک قبول نہیں ہوسکے ہیں۔

    ایسا ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ کسی وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کرکے نیا وزیراعظم لایا گیا۔ اس سے قبل سابق وزرائے اعظم بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف تحاریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔

    اقتدار سے محرومی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا اور عوام میں ان کا اینٹی امریکا اور بیرونی مداخلت بیانیہ یوں سر چڑھ کر بولا اور مقبول ہوا کہ وہ ملک کے سب سے مقبول سیاسی لیڈر گردانے گئے۔ جس کا ثبوت پنجاب اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخابات ہیں جہاں ایک طرف پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن میں 16 پر کامیابی حاصل کی وہیں کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے استعفوں سے خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن میں عمران خان نے بیک وقت 6 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے اپنا ہی 5 نشستوں پر کامیابی کا ریکارڈ توڑ دیا۔ ان ضمنی الیکشن میں کئی حلقے ایسے بھی تھے جو موروثی سیاست کی داعی جماعتوں کے گڑھ کہلاتے تھے وہاں بھی تحریک انصاف نے 13 جماعتی اتحاد کو بدترین شکست سے دوچار کیا۔

    وفاق میں تبدیلی کیساتھ ہی تحریک انصاف کو پنجاب حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور سردار عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے پر حمزہ شہباز نئے وزیر اعلی ٰ پنجاب بن گئے۔ باپ کے وزیراعظم اور بیٹے کے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بننے کو سیاسی حلقوں سمیت عوامی حلقوں میں اچھے انداز میں نہیں دیکھا گیا تاہم حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ چند ماہ ہی چل سکی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ کا تاج چوہدری پرویز الٰہی کے سر سج گیا۔

    سیاسی داؤ پیچ کے جاری اس طویل میچ کے دوران عمران خان خود بھی سڑکوں پر سرگرم رہے اور عوام کو بھی متحرک رکھا۔ 25 مئی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان پورا نہ ہوسکا لیکن اکتوبر کے آخر میں حقیقی آزادی مارچ کے نام سے لانگ مارچ نکالا جو لاہور سے وزیر آباد تک پہنچا تھا کہ وہاں سابق وزیراعظم کے قافلے پر فائرنگ کی گئی جس میں خوش قسمتی سے ان کی جان محفوظ رہی تاہم وہ اور ان کے کئی ساتھی زخمی ہوئے جب کہ ایک کارکن جاں بحق ہوا۔ مرکزی ملزم گرفتار کرلیا گیا تاہم اس حوالے سے اب تک تحقیقات کے ساتھ مخالفین کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔

    تین ہفتے کے وقفے کے بعد عمران خان پھر متحرک ہوئے اور 26 نومبر کو پی ٹی آئی لانگ مارچ راولپنڈی پہنچا تو عمران خان نے اپنے خطاب میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا جو کہ تاحال نہیں ہوسکی ہیں۔ اس دوران پنجاب میں ایک بار پھر حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی اور گورنر نے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کردیا لیکن عدالت سے وزیراعلیٰ کو چند گھنٹوں میں ہی ریلیف مل گیا اور وہ اپنے عہدے پر بحال کردیے گئے۔

    شہباز شریف کی حکومت بنتے ہی ایسا لگا کہ مہنگائی اور عوام کا درد دکھاوا تھا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی 9 ماہ کی حکومت کے دوران مہنگائی کی کوکھ سے مزید کئی مہنگائیاں جنم لے چکی ہیں۔ سال بھر عوام مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پستے رہے۔ سیلاب بھی غریبوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا لیکن سیاستدان اقتدار، اقتدار کی آنکھ مچولی کھیلتے رہے۔ حکومتی اقدامات اور پھرتیوں سے تو عمران خان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکمراں اپنے کیسز ختم کرانے آئے تھے کیونکہ موجودہ حکومت کے کریڈٹ پر اگر کوئی نمایاں کام نظر آتا ہے تو وہ نیب قوانین میں ترامیم ہیں جس کے بعد پی ڈی ایم قیادت بالخصوص، وزیراعظم شہباز شریف، مریم نواز، سلیمان شہباز، صفدر اعوان، اسحاق ڈٓار سمیت ایک طویل فہرست ہے جو اس سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے کیسز سے جان چھڑا چکی ہے جب کہ مریم نواز تو ریلیف ملتے ہی لندن کوچ بھی کرچکی ہیں۔

    اس سال ملک کے لیے کوئی اچھی خبر رہی ہے تو وہ پاکستان کا فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی موجودہ حکومت خود لے رہی ہے اور وزیر خارجہ تو گزشتہ دنوں امریکا میں ببانگ دہل پاکستان کے فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو اپنی انتھک محنت کا ثمر قرار دے رہے ہیں، لیکن پی ڈی ایم حکومت کو شاید یاد نہیں کہ پاکستان فٹیف کی گرے لسٹ میں ن لیگ کے دور حکومت میں گیا تھا اور فٹیف نے اس درجے سے نکالنے کے لیے جو سخت شرائط عائد کی تھیں وہ 90 فیصد سے زائد پی ٹی آئی حکومت نے پوری کیں۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ عمران دور حکومت میں فٹیف سے متعلق ایک اجلاس میں موجودہ وزیر خارجہ سمیت حکمراں جماعتوں کے رہنما بائیکاٹ کر گئے تھے۔

    سال ختم ہو رہا ہے تو صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی اپنے نئے الیکشن کے مطالبے کے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا فی الوقت قبل از وقت الیکشن کے اعلان کا کوئی موڈ نظر نہیں آتا۔ سال بھر میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد حکومت میں شامل تمام جماعتیں خود بھی فوری الیکشن سے فرار چاہتی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی بدترین معاشی صورتحال کے باعث مشکل فیصلے کرنے کے لیے ملک میں طویل مدت کے لیے ٹیکنو کریٹ کی حکومت کی باتوں کی گردش سنائی دے رہی ہے۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے؟

    حکومت کی کارکردگی پر نظر دوڑائیں تو آج ہر طرف پاکستان کے دیوالیہ ہونے یا دیوالیہ کے قریب ہونے کی صدائیں ہی سنائی دے رہی ہیں۔ معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کی سرگوشیاں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ گیس ناپید ہوتی جا رہی ہے تو بجلی بھی رُلا رہی ہے۔ بینک ایل سیز نہیں کھول رہے، کروڑوں ڈالر کی شپمنٹس پورٹ پر پڑی سڑ رہی ہیں۔ کئی بین الاقوامی کمپنیاں کاروبار وقتی اور مستقل بند کر رہی ہیں یا سوچ رہی ہیں۔ اس صورتحال میں بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ترجیح اقتدار سے چمٹے رہنا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، گھڑی کیوں بیچی، گھڑی میری مرضی میری، فلاں کی آڈیو اور ویڈیو کی ریلیز، اسمبلیوں کی تحلیل، استعفے اور بڑھکیں مارنا رہ گیا ہے۔ حکومت آرٹیفیشل اقدامات کے طور پر کبھی توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے کاروبار جلد بند کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے لیکن کیا یہ آرٹیفیشل اقدامات غربت کے سمندر میں غرق ہونے والے عوام کو کچھ ریلیف دے سکیں گے کہ جن کی دسترس سے آب آٹا بھی دور ہوگیا ہے۔

    زر مبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر، ترسیلات زر کا انتہائی حد تک گرجانا اور افراط زر کا بڑھ جانا ملک کے سنجیدہ طبقے کو فکرمند کر رہا ہے جب کہ سال کے اختتام پر ملک میں بڑھتی دہشتگردی نے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ہم کئی خدشات اور سر پر لٹکتی خطرات کی کئی تلواروں کے ساتھ 2022 کو الوداع اور 2023 کو خوش آمدید کہیں گے۔ دعا ہے کہ ہمارا ملک اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ رہے۔

  • سموسہ ہماری صحت کے لیے ایٹم بم؟ دل چسپ بحث اور قدیم تاریخ

    سموسہ ہماری صحت کے لیے ایٹم بم؟ دل چسپ بحث اور قدیم تاریخ

    سموسہ برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول ہے۔ زبان کے چٹخارے اور ذائقے کے لیے تلی ہوئی غذاؤں میں سموسہ وہ نمکین پکوان ہے جسے ہلکی پھلکی بھوک مٹانے اور اکثر چائے کے ساتھ شوق سے کھایا جاتا ہے۔

    تکونی شکل کا یہ خوش ذائقہ سموسہ کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا بوڑھا کیا جوان سب ہی کے من کو بھاتا ہے۔ اس نمکین ڈش کو مہمانوں کی آمد پر بھی چائے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب کو مرغوب سموسے کو جب سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان نے صحت کیلیے خطرہ اور ایٹم بم قرار دیا تو ایک بحث شروع ہو گئی۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عفان کی جو ‘تحقیق’ سامنے آئی، اس پر جہاں ان کی تائید کرنے والے تعداد میں کم نہ تھے، وہاں سموسے کے ایسے عاشقوں کی بھی کمی نہیں تھی جنہوں نے میمز کی بھرمار کر دی۔ کئی دل جلوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اگر سموسہ کھائے بغیر بھی مرنا ہے تو بہتر ہے کہ کھا کر مرا جائے۔ اب سموسے سے ایسے لازوال عشق کی کوئی اور مثال ملے گی؟

    ’’سموسہ‘‘ دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں تو یہ ہر چھوٹے بڑے کی پسند ہے۔ شادی کی تقریب ہو یا سالگرہ، افطار ہو یا اچانک آنے والے مہمانوں کی تواضع مقصود ہو، سموسہ ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تکون شکل کا وہ سموسہ عام ہے جسے آلو بھر کر تلا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ 90 کی دہائی کی بالی ووڈ فلم کا ایک گیت بھی سموسے پر تھا۔ آلو کے علاوہ سبزی کا آمیزہ، قیمہ اور چکن والا سموسہ بھی بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ انواع و اقسام کی چٹنیاں اس کے ذائقے کو گویا ‘تڑکا’ لگا دیتی ہیں۔

    آج ہم آپ کو اس من پسند سموسے کی صدیوں پرانی دلچسپ تاریخ سے آگاہ کریں گے۔
    پاکستان اور بھارت میں لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ سموسہ اسی خطے کی ایجاد ہے اور اس نمکین ڈش کو مقامی لوگوں نے تیار کیا اور اسے رواج دیا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان کی وجہ سے چھڑنے والی بحث نے ایک دل چسپ تکرار کو بھی جنم دیا۔ سموسے کے دیوانے پاکستانی اور بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد اس دوران خود کو ‘فادر آف سموسہ’ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن سموسہ متحدہ ہندوستان یا بٹوارے کے بعد کسی ملک کے باورچیوں کی اختراع نہیں ہے۔اس کی تاریخ ہزار سال سے بھی پرانی اور دل چسپ ہے۔

    اس پکوان نے دسویں یا گیارھویں صدی عیسوی میں وسط ایشیائی ریاستوں میں کوئی شکل پائی تھی۔ ہزار ہا برس کے تمدن اور ثقافت سے متعلق معلومات اکٹھا کرتے ہوئے محققین نے جانا کہ سموسہ وہ ڈش ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ دسویں اور تیرہویں صدی کے درمیان عرب باورچیوں کی کتابوں میں پیسٹریوں کو ‘سنبوساک’ کہا گیا ہے، جو فارسی زبان کے لفظ ‘سانبوسگ’ سے آیا ہے۔

    تاریخ پڑھیں تو سموسے کا ذکر سب سے پہلے ہندوستان سے ہزاروں میل دور قدیم سلطنتوں میں ملتا ہے۔ سب سے پہلا تذکرہ فارسی مؤرخ ابوالفصل بیہقی نے اپنی کتاب تاریخ بیہقی میں کیا۔ انھوں نے غزنوی سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا جاتا تھا۔ اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔

    وہاں سے یہ سنبوساک سفر طے کرتا برصغیر آیا اور نجانے کتنے نام اپنانے اور شکلیں بدلنے کے بعد سموسہ کہلایا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ دہلی میں مسلم سلطنت میں سموسے کو جنوبی ایشیا میں متعارف کروانے والے مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے باورچی تھے جو یہاں سلطان کے لیے کام کرنے آئے تھے۔

    مشہور سیاح ابن بطوطہ بھی سموسے کی لذت سے آشنا ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں محمد بن تغلق کے دستر خوان پر چنے گئے کھانوں اور لوازمات میں شامل سموسے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اسے قیمے اور مٹر سے بھری ہوئی پتلی پرت والی پیسٹری لکھا ہے۔
    بات کی جائے دیگر ممالک میں سموسے کی تو پاک وہند میں سموسے کو تیل میں تلا جاتا ہے تاہم وسط ایشیائی ترک بولنے والے ممالک میں اسے تیل میں تلنے کے بجائے پکایا جاتا ہے۔ جسے چھوٹی بھیڑ کے گوشت، پیاز، پنیر، کدو سے بھرا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی سموسہ تیار کیا جاتا ہے لیکن وہ ہمارے روایتی سموسوں کی طرح نہیں ہوتا اور تلنے کے بجائے بیک کیا جاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت میں نمکین ہی نہیں میٹھا سموسہ بھی کھایا جاتا ہے اور اس کا یہ ذائقہ بھی سب کو پسند ہے جسے عرف عام میں ’’گجیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کو سبزیوں کی جگہ شکر، دودھ کا ماوہ اور خشک میوہ جات سے بھرا جاتا ہے اور پھر اصلی گھی میں تل کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ڈش خوشی کی تقریبات میں خاص طور پر بنوائی جاتی ہے۔

    یہ ہندوستان میں روایتی مٹھائی کی دکانوں اور عام بیکریوں پر تیّار اور فروخت کیا جاتا ہے۔ سموسہ جو کبھی خوانچہ فروشوں اور حلوے مانڈے کی چھوٹی دکانوں پر ملتا تھا اب بالخصوص شام کے اوقات میں فاسٹ فوڈ کے مشہور مراکز پر بھی فروخت ہورہا ہے۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی اعلیٰ درجے کی بیکریاں اور نامی گرامی سوئیٹ شاپس پر بھی سموسے بڑے اہتمام سے تیّار کیے جارہے ہیں۔

    سموسہ برصغیر اسی راستے سے پہنچا جس سے 2 ہزار برس پہلے آریائی نسل کے لوگ ہندوستان پہنچے تھے۔ یہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے سے یہاں متعارف ہوا۔ سموسے کے اس طویل سفر کی کہانی کو بھارتی پروفیسر پنت نے ’سم دھرمی ڈش‘ کہہ کر سمیٹ لیا ہے، جس کا مطلب ہے تمام ثقافتوں کے سنگم والا پکوان۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج برطانیہ کے لوگ بھی سموسہ خوب شوق سے کھاتے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوا جو برصغیر سے سہانے مستقبل کا خواب سجائے برطانیہ گئے تھے۔ اس طرح ایران کے اس شاہی پکوان کا آج دنیا کے کئی ممالک میں لطف اٹھایا جا رہا ہے۔

    ہم نے سموسے کے ہر دل کی پسند ہونے کا ذاتی مشاہدہ بھی کیا جو آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ کچھ اس طرح‌ ہے کہ کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں 25 سال قبل کھانے پینے کی ایک دکان ہوتی تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں صرف تین اشیا ہوتی تھیں اور دور دور سے لوگ یہاں کھانے کے لیے آتے تھے۔ کھانے پینے کی تین چیزوں کی یہ تکون سموسہ، لسّی اور امرتی پر مشتمل تھی۔ اس ٹرائیکا کے بارے میں جان کر جہاں ہماری نئی نسل کو حیرت ہو گی، وہیں کئی قارئین ایسے بھی ہوں گے جو اس ذائقے سے آشنا ہوں گے۔

    معلوم نہیں آج یہ دکان قائم ہے یا نہیں لیکن ایک بار جب ہمارے منہ کو یہ ذائقہ لگا تو کھانے پینے کی اس بے جوڑ تکون والی دکان پر دوسرے شوقین افراد کی طرح ہم بھی کئی بار گئے تھے۔

    اب اگر بات کی جائے ڈاکٹر عفان کی جو ماہرِ امراض جگر ہیں تو ان کی بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سموسے میں کتنی کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ نقصان دہ ہے یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر زیادتی کسی بھی چیز کی ہو بری ہوتی ہے۔

    ہمارا مشورہ ہے کہ سموسے کھانا بے شک نہ چھوڑیں مگر اس میں توازن اور اعتدال ضروری ہے کہ لذّتِ کام و دہن کا سلسلہ بھی چلتا رہے اور صحت بھی برقرار رہے۔

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں 15 جنوری 2023 کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلدیاتی الیکشن متعدد بار ملتوی کیے گئے اور عدالتی حکم نے حکومت سندھ اور اتحادیوں کی التوا کے لیے تدبیروں کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں صوبے کے 16 اضلاع میں رواں سال مئی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور دوسرے مرحلے میں کراچی، حیدرآباد میں 24 جولائی کو الیکشن ہونا تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث الیکشن ملتوی کر کے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی لیکن پھر 23 اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کردیا گیا اور اس تاریخ سے قبل ہی ایک مرتبہ پھر الیکشن ملتوی کر دیے گئے۔

    اس دوران سندھ حکومت نے بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑانے کیلیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ساتھ اپنے اتحادیوں کو ملا لیا اور یکے بعد دیگرے پی پی پی اور اتحادیوں (بشمول ایم کیو ایم) کے اقدامات سے ایسا لگا کہ ان میں چاہے اندرونی لاکھ اختلافات ہوں لیکن کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے فیصلے پر یہ تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔

    پہلے وفاقی حکومت نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے لیے سیکیورٹی دینے سے معذرت کر لی جس کے بعد اکتوبر میں ہونے والے الیکشن ملتوی ہوئے لیکن پھر سندھ حکومت نے اپنے داؤ پیچ کھیلے۔ پی پی کی سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں تین ماہ تک الیکشن نہ کرانے کا جواب دیا اور جواز دیا کہ اس وقت سندھ پولیس کی نفری سیلاب زدہ علاقوں اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے وہاں مصروف ہے اور الیکشن کے لیے 37 ہزار نفری چاہیے جو دستیاب نہیں۔ جب کہ اسی دوران ایم کیو ایم بھی حلقہ بندیوں اور بلدیاتی قانون میں ترامیم اور با اختیار میئر کے نام پر میدان میں رہی اور اس کا موقف رہا کہ حلقہ بندیوں کی درستی اور بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے بغیر الیکشن بے سود ہوں گے۔

    ایک طرف پی پی کی سندھ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے تاخیری حربے جاری تھے تو اس کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کھڑی تھیں جو بلدیاتی انتخابات کے بار بار التوا پر سندھ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے فیصلے کے خلاف عدالت پہنچ گئیں۔ اس میدان میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو کامیابی ملی اور سندھ ہائیکورٹ نے ان کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے کراچی، حیدرآباد ڈویژن میں الیکشن کمیشن کو 3 دسمبر تک بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے سندھ حکومت کی بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 15 جنوری 2023 کو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو بلدیاتی انتخابات کیلئے سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی مکمل ہدایت کردی۔

    سندھ حکومت نے تو اپنی پوری کوشش کی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جتنا دور رہا جائے وہی اس کے لیے سیاسی طور پر بہتر ہوگا۔ اسی لیے تو کبھی سیلاب اور کبھی انتظامات نہ ہونے کے جواز گھڑے۔ پولیس کی نفری میں کمی، اسلام آباد میں پولیس نفری بھیجے جانے کا بہانہ کیا اور جب اس کو اندازہ ہوا کہ مزید یہ بہانے نہیں چلیں گے تو ایک قدم اور آگے آتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کے التوا کے حوالے سے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی اور اس کی کابینہ سے منظوری بھی لے لی گئی۔ بلدیاتی ایکٹ کی شق 34 کے تحت 120 دن کے اندر الیکشن کرانا تھے، سندھ حکومت کی جانب سے نئی ترمیم کے بعد یہ شق ہی ختم کردی گئی۔

    پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر من وعن عمل کا بیان تو سامنے آیا ہے لیکن یہ سیاست ہے جہاں سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ سندھ حکومت اپنے اعلان پر قائم رہتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کراتی ہے یا پھر کچھ نئی تاویلیں، بہانے تراش کر اسے پھر ملتوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر جہاں سندھ حکومت نے بظاہر سر تسلیم خم کیا ہے وہیں ایم کیو ایم نے حسب سابق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے الیکشن ملتوی کیے جانے کی درخواست سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں تو اس معاملے پر ایم کیو ایم کا عدالت جانے کا پھر کیا جواز بنتا ہے؟

    یہ درست ہے کہ بلدیاتی قانون میں میئر با اختیار نہیں اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس کے پاس ہیں جب کہ حلقہ بندیوں پر بھی ایم کیو ایم کا اعتراض جائز ہے کہ کہیں چند ہزار تو کہیں لاکھ کے لگ بھگ ووٹرز پر حلقہ بندیاں من پسند حلقوں میں کی گئی ہیں لیکن سوال تو یہی ہے کہ یہ حلقہ بندیاں کسی باہر والے نے تو نہیں کیں پی پی نے ہی کی ہیں میئر کے اختیارات کا گلا بھی پی پی نے گھونٹا ہے تو پھر ایم کیو ایم پی پی کے ساتھ کیوں بیٹھی ہے بے شک اس کے پاس سندھ کی وزارتیں نہیں لیکن کہلائے گی تو وہ اتحادی ہی۔ بلدیاتی معاملات پر روز مذاکرات اور روز ناکامی کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت سے نکلنے کے بیانات آئے روز دہرائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل ہوتا نہ دیکھ کر اب اس کے ووٹرز بھی ایم کیو ایم کے تحفظات پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ ایم کیو ایم کا ووٹرز چند ماہ قبل یہ تماشا بھی دیکھ چکا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بننے سے صرف چند روز قبل ہی ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے خلاف سخت سراپا احتجاج تھی اور یہاں کی پوری قیادت وہاں کی پوری قیادت کو ملامت کر رہی تھی پھر اچانک راتوں رات موقف کی تبدیلی اور یوٹرن نے عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔

    الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی بلدیاتی میدان میں موجود جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں اور آئندہ چند روز یا اگلے ماہ تک بلدیاتی الیکشن کے لیے شہر کا سیاسی ماحول گرم ہونے کی توقع ہے اب کس کے سر میئر کراچی کا تاج سجے گا یہ فیصلہ تو 15 جنوری کو ہی ہوگا لیکن اس سے پہلے جو شور مچے گا عوام کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں میدان میں ہوں گی اور عوام کو دینے کے لیے لالی پاپ ہوں گے۔ اس مرحلے پر شہر کراچی کے باسیوں کو بھی سیاسی نعروں کے فریب میں آنے کے بجائے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہوگا۔

    اس وقت کراچی بے شمار مسائل کا شکار ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتوں کی عدم توجہی، سیاسی منافرت اور بندر بانٹ نے روشنیوں کے شہر کو مسائلستان بنا دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہ رگ کی یہ حالت ہے کہ شہر کی تقریباً ہر سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور کئی علاقے کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ صفائی کا نظام تو لگتا ہے کہ یہاں سے ختم ہی کیا جاچکا ہے ہر سڑک اور گلی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔ ناقص سیوریج نظام سے آئے دن کوئی نہ کوئی سڑک یا علاقہ جوہڑ میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پارکس، بچوں کے کھیل کے میدان، ٹریفک کے نظام بھی توجہ کے طالب ہیں۔

    کراچی کو درپیش مسائل اس وقت حل ہوں گے جب بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والے تمام شہری ذاتی غرض کے دائرے سے نکل کر اجتماعی بہبود کے لیے سوچیں گے اور اس شہر کو اپنا شہر سمجھیں گے۔ شہر کراچی کے باسی 15 جنوری کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے قبل اپنے شہر کے مذکورہ تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کا حق استعمال کریں گے تب ہی وہ کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں، رنگوں اور امنگوں کا شہر بنانے کی کوشش میں کامیاب ہوں گے۔

  • عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پنڈی میں بڑے پاور شو میں تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا بڑا اعلان کیا جو سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں‌ حیران و

    پریشان ہیں۔

    عمران خان نے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے اکتوبر کے آخر میں لاہور سے حقیقی آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کیا تھا تاہم لانگ مارچ کے آغاز کے چند روز بعد ہی وزیر آباد کے ایک مقام پر قاتلانہ حملے میں ان کے زخمی ہونے کے بعد یہ لانگ مارچ مؤخر کردیا گیا۔ پھر پروگرام کو تبدیل کرتے ہوئے لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے میں اسے دو مختلف مقامات سے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی زیر قیادت آگے بڑھایا گیا جس کے شرکا سے عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرکے ان کے جذبے کو ممہیز کرتے رہے۔

    نومبر شروع ہوا تو شہر اقتدار سمیت ملک بھر میں نظریں پاکستان میں دو اہم تعیناتیوں اور عمران خان کے لانگ مارچ پر لگی ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا تھا چہ می گوئیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں اور غیر یقینی کی فضا اور صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ ان معاملات بالخصوص فوج میں کمان کی تبدیلی اور افسران کی ترقی کا معاملہ جس طرح میڈیا پر اٹھایا جا رہا تھا اس سے ایسا لگنے لگا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور باقی عوامی مسائل حل ہوچکے ہیں۔

    اسی بے یقینی کی فضا میں عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان اور وہاں آکر سب کو سرپرائز دینے کا اعلان کیا۔ ایسے وقت میں جب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری کا معاملہ ملک کے سیاسی افق پر چھایا ہوا تھا تو لوگوں کی اکثریت نے اس سرپرائز دینے کے اعلان کو بھی اسی تناظر میں‌ دیکھا جب کہ 24 نومبر کو فوج میں‌ تقرری کے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں سے طویل مشاورت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور سمری منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجی۔ اس موقع پر صدر مملکت کے اچانک لاہور جانے اور عمران خان سے ملاقات نے افواہوں اور بے یقینی کو تقویت بخشی تاہم ملاقات کے بعد صدر کی جانب سے سمریوں پر دستخط سے تمام افواہوں نے دم توڑ دیا اور پھر سب کی نظریں عمران خان کے لانگ مارچ کی جانب مبذول ہوگئیں۔

    اگر مگر، دہشتگردی کے خدشات و خطرات، پی ٹی آئی کی سیاسی چالوں اور حکومتی دعوؤں اور لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کے باوجود عمران خان 26 نومبر کی شام پنڈی پہنچ گئے جہاں عوام ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    پنڈی میں جتنا بڑا جلسہ تھا اتنا ہی طویل خطاب بھی تھا۔ عمران خان نے ایک گھنٹے سے زائد خطاب کیا جس میں حسب سابق اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ساتھ ہی اپنی حکومت کے حاصل کردہ اہداف اور موجودہ حکومت کی معاشی ناکامیوں کے اعداد وشمار عوام کے سامنے پیش کیے۔ یہ سب اعداد و شمار لوگوں کے لیے نئے نہیں تھے لیکن ان کے خطاب کے آخری چند منٹ ہی انتہائی اہم تھے جس میں انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ بدلتے ہوئے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

    عمران خان کے اس سرپرائز اعلان نے صرف مخالف پی ڈی ایم حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں کے ساتھ اپنے سخت ناقد صحافیوں کو بھی حیران کردیا اور تجزیہ کار یہ کہتے نظر آئے کہ عمران خان نے سیاسی چال سے حکومت کو بیک فٹ پر کر دیا ہے اور حکومت جو کئی ماہ سے نئے الیکشن کے مطالبے پر ان سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ کرتی تھی اب عمران خان کے اعلان نے اسے امتحان میں ڈال دیا ہے۔

    عمران خان کے اس اعلان کے بعد حکومتی نمائندوں کے بیانات اور باڈی لینگویج سے ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت کو پنڈی اجتماع میں ایسے کسی اعلان کی توقع نہیں تھی بلکہ سابق وزیراعظم کے پنڈی پہنچنے سے ایک دن قبل تک سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش میں تھیں کہ عمران خان پنڈی میں جلسہ کرکے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی میں بھی واپس آجائیں گے جہاں تین فریق آئندہ الیکشن پر مذاکرات کریں گے لیکن بجائے اسمبلی واپس جانے کے پنجاب، کے پی اور گلگت بلتستان اسمبلیوں سے نکلنا یا دوسرے معنوں میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد اس بارے میں جلد تاریخ کا اعلان کریں گے۔

    حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کا اندازہ حکومتی نمائندوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو، رانا ثنا اللہ و دیگر حکومتی وزرا کی جانب ایک بڑے عوامی جلسے کو فلاپ شو قرار دینا اسی پریشانی کی ایک جھلک لگتی ہے۔ ایک جانب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی والے اسمبلیوں سے باہر جائیں گے تو ضمنی الیکشن کرا دیے جائیں گے جس کی توثیق بعد ازاں الیکشن کمیشن نے بھی کر دی اور ادارے کے باخبر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل استعفے ہوئے تو ضمنی الیکشن ہوں گے کیونکہ آئین کے مطابق نصف اسمبلی بھی خالی ہو تو ضمنی انتخاب ہوگا اور 2 نشستیں بھی اسمبلی میں ہوں تو اسمبلی بحال رہتی ہے۔

    آئین کی شق اپنی جگہ لیکن اگر پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں یعنی نصف سے زائد پاکستان میں کوئی منتخب ادارے نہیں رہتے تو کیا پھر بھی حکومت کا یہی مؤقف رہے گا کیونکہ ملک بھر کے منتخب نمائندوں کے مجموعی فورم کا 50 فیصد سے زائد حصہ پی ٹی آئی ہے۔ اگر تحریک انصاف کے استعفوں سے ملک کا 50 فیصد حصہ منتخب نمائندوں سے محروم ہوگا تو کیا اتنی زیادہ نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانا ممکن رہے گا؟ اگر کرانے کی کوشش کی تو کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب آئین کے مطابق اسمبلیوں کی مدت میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ جائیں گے۔

    پی ٹی آئی کے پی اور گلگت بلتستان میں بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے تاہم پنجاب کا معاملہ مختلف ہے جہاں اکثریتی پارٹی بے شک پی ٹی آئی ہے لیکن حکومت ق لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی کی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے فوری بعد اس حوالے سے چہ می گوئیاں بھی ہوئیں تاہم مونس الہٰی نے اس پر مثبت ردعمل دے کر ان کا فوری گلا گھونٹ دیا اور اپنے ٹوئٹ میں واضح کر دیا کہ ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں عمران خان کا اشارہ ملتے ہی پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

    ماہر قانون کی اکثریت بھی اس بات پر متفق ہے کہ اگر عمران خان اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہیں اور پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں اس کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی ایم پی ایز مستعفی ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑا سیاسی بحران ہوگا۔ اس صورت میں یہ بحران صرف ضمنی الیکشن سے ختم نہیں ہوگا بلکہ لامحالہ نئے عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔

    پاکستان میں قومی اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 859 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی 123 نشستیں پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے باعث خالی ہیں۔ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی نہ ہوں تو پی ٹی آئی ایم پی ایز کے استعفوں سے پنجاب کی 297 نشستیں، کے پی کی 115، سندھ کی 26 اور بلوچستان کی 7 نشستیں خالی ہوں گی جو مجموعی طور پر 567 ہوں گی۔

    صرف مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنما ہی نہیں بلکہ پی پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی اس سے قبل کئی بار عمران خان کے نئے الیکشن کے مطالبے پر کہتے تھے کہ وہ پہلے اپنی صوبائی حکومتیں توڑیں تو قومی اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرا دیں گے۔ عمران خان کا یہ ماسٹر اسٹروک بھی حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نے اپنے پتوں کو بروقت کھیل کر سیاست کے میدان کا شاطر کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے تاہم اسمبلیوں سے نکنے کے اعلان پر فوری عمل کرنے کے بجائے پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کے اعلان نے اس پر سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان کا یہ اعلان اپنے سامنے موجود قوتوں اور مخالفین کو نئے الیکشن کے لیے سنجیدہ اور فیصلہ کن مذاکرات کے لیے سوچنے کا وقت دینے کی ایک اور کوشش ہے۔

    اگر پی ڈی ایم حکومتی آپشنز کی جانب نظر دوڑائیں تو اس کے پاس اس بحران سے بچنے کے لیے صرف تین آپشنز بچتے ہیں۔ ایک یہ کہ فوری طور پر پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے جو کہ کے پی میں تو یقینی ناکام ہوگی جب کہ پنجاب کے بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی اور یہی سب سے بڑا بونس پوائنٹ ہوسکتا ہے۔ اگر دونوں جگہوں پر تحریک عدم اعتماد ناکام رہتی ہیں تو وفاقی حکومت گورنر راج جیسا آپشن بھی استعمال کرسکتی ہے اس کے علاوہ اس کے پاس خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کی چوائس بھی ہے۔

    عمران خان نے ایک پر ایک سیاسی چال چلتے ہوئے تُرپ کا پتہ بھی پھینک دیا ہے۔ اگر اس پر سنجیدہ مذاکرات کے بجائے وفاقی حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے مذکورہ بندوبست کرتی ہے تو یہ عارضی ہی ثابت ہوں گے۔ ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار اور ماہرین معیشت کے مطابق ڈیفالٹ کی دہلیز پر کھڑا ہے ایسے میں سیاسی بحران سے نمٹنے اور اپنے چند ماہ کے باقی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی عارضی اقدام سیاسی تناؤ کو مزید ہوا دے کر بحران کے شعلوں کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔

    عمران خان نے یہ اعلان کرکے وفاقی حکومت کو نئے انتخابات پر مذاکرات کے لیے راستہ دے دیا ہے۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کر وہ فیصلے کریں کہ جس سے ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ معاشی استحکام آئے اور غریب عوام کی زندگی بہتر ہوسکے۔ اس کے لیے چند ماہ قبل سہی نئے الیکشن کا اعلان کر دینے میں‌ کوئی مضائقہ نہیں اور تاکہ نئی منتخب حکومت پورے اعتماد سے ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرسکے۔

  • ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے  قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل جیت کر اس تاریخی فتح کی یاد تازہ نہیں کرسکی جس کا جشن قوم نے آج سے تیس سال قبل منایا تھا، لیکن ٹیم نے جس شان سے اس ٹورنامنٹ کا اختتام کیا، اس نے کروڑوں پاکستانیوں اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے ہیں۔

    آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم کے سامنے انگلینڈ کے کھلاڑی تھے اور ان کی ٹیم ورلڈ کپ کی فاتح بنی، لیکن ٹورنامنٹ کے فائنل سے قبل پاکستان جس طرح کھیلا اور سیمی فائنل تک پہنچا، اس نے دنیا بھر میں شائقینِ کرکٹ کو 1992ءکے ون ڈے ورلڈ کپ کی یاد دلا دی۔ اس ون ڈے اور حالیہ ٹورنامنٹ میں مماثلت ایک دل چسپ موضوع بن گیا اور ہر طرف اس پر بات ہونے لگی۔ پھر جب سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ٹاکرا ہوا تو قومی ٹیم کی کام یابی سے ان میچوں میں مماثلت کی باتوں کو مزید تقویت ملی۔ دوسرے روز جب انگلینڈ نے آسان فتح کے ساتھ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو پاکستانی شائقین کی توقعات اور ان کی خوش امیدی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل بھی اسی میدان میں‌ کھیلا گیا جس میں‌ 1992ء میں پاکستان نے فتح حاصل کی تھی بلکہ حریف ٹیم بھی اسی ملک کی تھی جس کا سامنا پاکستانی کھلاڑیوں نے 30 سال پہلے کیا تھا۔ یعنی میلبرن میں ایک بار پھر پاکستان اور انگلینڈ آمنے سامنے تھے۔ قوم توقع کررہی تھی کہ جس طرح 1992ء میں عمران خان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھامی تھی، اسی طرح بابر اعظم بھی ٹرافی لے کر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ شاداں و فرحاں وطن لوٹیں گے۔

    میدان میں اترنے سے قبل قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پوری ٹیم میدان میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور تاریخ دہرانے کی کوشش کرے گی۔ پاکستانی ٹیم کی یہ کوشش نظر بھی آئی، لیکن قسمت میں فتح نہیں لکھی تھی۔ انگلینڈ کے ہاتھوں شکست سے پاکستانی شائقین کے دل ضرور ٹوٹے ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے حریف ٹیم کا خوب مقابلہ کیا اور شکست کے باوجود سَر اٹھا کر میدان سے باہر آئے۔

    اس میچ میں‌ ٹاس جیت کر انگلینڈ نے پاکستان کو بیٹنگ کا موقع دیا تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل سمیت سپر 12 مرحلے میں جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف بیٹنگ اور کپتان بابر اعظم کی فارم میں واپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے شائقینِ کرکٹ کو قومی ٹیم سے اچھے اسکور کی امید تھی لیکن انھیں مایوسی ہوئی۔ پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 138 رنز کا ہدف دیا جو مختصر طرز کے اس تیز ترین کرکٹ فارمیٹ میں قابلِ‌ ذکر ہدف نہیں تھا۔ بلّے بازوں کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بلّے باز نصف سنچری نہ بنا سکا اور نہ ہی کوئی 50 رنز کی پارٹنر شپ ہوسکی۔ رہی سہی کسر بیٹسمینوں نے 48 ڈاٹ بالز کھیل کر پورا کر دی۔ دوسرے لفظوں میں 8 اووروں میں گرین شرٹس کوئی رن نہ بنا پائی۔ بیٹنگ میں شاہینوں کی یہ کارکردگی اور انگلینڈ کے اوپننگ بلّے بازوں کی بھارت کے خلاف طوفانی بیٹنگ دیکھتے ہوئے فائنل میں شائقینِ کرکٹ ناامید ہو چلے تھے اور دوسری اننگ سے قبل یہ یکطرفہ مقابلہ لگ رہا تھا لیکن پاکستانی بولروں نے اس موقع پر دنیائے کرکٹ میں اپنی صلاحیتیوں کا بہترین مظاہرہ کیا اور اپنا نام اونچا کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    پاکستانی بولروں نے 138 رنز کے آسان ہدف کا حصول انگلینڈ کے بلّے بازوں کے لیے ناکوں چنے چبوانے کے مترادف بنا دیا۔ انگلش اوپنرز جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز جنھوں نے سیمی فائنل میں بھارتی بولروں کی خوب دھنائی کی تھی انھیں ابتدا ہی میں پویلین لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ ایک موقع پر 84 رنز پر انگلینڈ کے 4 باصلاحیت بلّے باز آؤٹ ہوچکے تھے اور انگلش ٹیم کے لیے رنز کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ پھر قسمت نے انگلینڈ کا ساتھ اس طرح دیا کہ پاکستانی بولر شاہین شاہ آفریدی زخمی ہو کر میدان سے باہر ہوگئے۔ ان کے جانے سے جہاں قومی ٹیم کو دھچکا لگا وہیں انگلش بلّے بازوں کی جان میں جان آئی کیوں کہ ابھی ان کے دو اوورز باقی تھے۔

    شاہین شاہ آفریدی کا زخمی ہونا میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ کیوں کہ ان کی میدان میں موجودگی کے وقت فتح کے لیے انگلش ٹیم کو 30 گیندوں پر 48 رنز درکار تھے لیکن شاہین شاہ میدان سے کیا لوٹے پاکستان کی تمام امیدوں اور خوشیوں نے بھی منہ موڑ لیا اور بظاہر ایک مشکل ہدف کو انگلش بلّے بازوں نے ایک اوور قبل ہی حاصل کرلیا۔

    شکست کے باوجود پوری قوم اور ہمارے سابق کھلاڑیوں سمیت دنیا کے مشہور کرکٹروں نے پاکستانی بولروں کی کارکردگی کو سراہا ہے اور اسے کھیل کی دنیا کا سب سے خطرناک بولنگ اٹیک قرار دیا ہے۔

    اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر سفر شروع کیا۔ سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہارا ساتھ ہی اگلے میچ میں کمزور زمبابوے سے غیرمتوقع شکست کا زخم سہنا پڑا۔ اس اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کردیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

    ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا لیکن اسی فضا میں قومی ٹیم نے اپنی محنت اور دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور بلاشبہ پوری ٹیم کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔

    ٹورنامنٹ اب ختم ہوچکا ہے۔ ٹرافی نہ جیتنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن یہ کم نہیں کہ ہماری ٹیم دنیا کی 16 ٹاپ کرکٹ ٹیموں میں سے دوسری بہترین ٹیم ہے جس نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ جہاں لوگ قومی ٹیم کی ستائش کر رہے ہیں وہیں ٹیم کے کپتان اور کھلاڑیوں کے لیے وہی آوازیں دوبارہ بلند ہونے لگی ہیں جو سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے سے قبل سنائی دے رہی تھیں۔

    دیکھنا چاہیے کہ فتح اور شکست کی نوعیت کیا ہے۔ شرم ناک شکست وہ ہوتی ہے جہاں سپاہی لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں لیکن جہاں مقابلہ برابر کا ہو وہاں فتح و شکست نہیں جذبہ دیکھا جاتا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم آخری لمحے تک جیت کے لیے جان لڑاتی نظر آئی۔

    اس ٹورنامنٹ سے ہمیں محمد حارث جیسا جارح مزاج بلّے باز ملا جس نے جنوبی افریقہ کے اہم میچ میں فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کے ہم نام حارث رؤف اپنی ایک شناخت بنائی اور امید ہے کہ جس طرح 1992ء کے ورلڈ کپ میں نو آموز انضام الحق، مشتاق احمد، عامر سہیل بعد میں پاکستانی کرکٹ کے اہم ستون رہے، اسی طرح آج کے نو آموز کھلاڑی بھی وقت کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ بلاجواز تنقید کے بجائے تعمیری رویّہ اپناتے ہوئے ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کمزوریوں کودور کرنے کی بات کی جائے۔

    سب سے پہلے تو قومی ٹیم کو بیٹنگ لائن پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں‌ ایسے بہترین بلّے بازوں کی ضرورت ہے جو مستقل مزاجی سے پاکستان کے لیے رنز اسکور کریں۔ اس وقت بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی ایسا بلّے باز قومی ٹیم میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح ڈاٹ بال کھیلنے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔ یہ اعتراف تو کپتان بابر اعظم بھی کرچکے ہیں کہ ہم نے فائنل میں بہت ڈاٹ بالز کھیلیں اور 20 رنز کم بنائے۔

    ہماری ٹیم میں اس وقت شاداب خان کے علاوہ کوئی مستند آل راؤنڈر نہیں ہے۔ ہماری ٹیم کو ایسے مزید آل راؤنڈرز کی ضرورت ہے جو کسی بھی پوزیشن پر پاکستان کے لیے اچھی پرفارمنس دے سکیں۔ اکھاڑ پچھاڑ اور غیر ضروری تبدیلیوں کے بجائے ٹیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی، کیوں کہ آئندہ سال پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنی ہے۔ ایشیا کپ کے بعد اگلا بڑا مقابلہ ون ڈے ورلڈ کپ ہوگا جو بھارت میں کھیلا جائے گا اور اس کے لیے ابھی سے سوچنا ہوگا۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ: ٹرافی ایک میچ کی دوری پر ، تاریخ خود کو دہرا رہی ہے!

    ٹی 20 ورلڈ کپ: ٹرافی ایک میچ کی دوری پر ، تاریخ خود کو دہرا رہی ہے!

    آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا ٹی 20 ورلڈ کپ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس بار کون ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے گا اور کون خالی ہاتھ گھر واپس جائے گا، یہ فیصلہ صرف ایک میچ کی دوری پر ہے۔

    اتوار 13 نومبر کو میلبرن میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے فائنل کا سب کو شدت سے انتظار ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC T20 World Cup (@t20worldcup)

    اگر مگر کی صورتحال میں قوم کی دعاؤں اور پرفارمنس سے پاکستان کی ٹیم ایک بار پھر 1992 کی تاریخ دہرانے کیلیے میلبرن میں اترے گی۔ میدان بھی 30 سال پرانا ہے، ٹیم بھی وہی انگلینڈ کی ہے، قوم کو امیدیں ہیں کہ پاکستانی ٹیم ایک بار پھر پورے ملک اور قوم کا سر فخر سے بلند کرے گی لیکن کرکٹ بائی چانس ہے اور یہ کھیل اتنا غیر متوقع ہے کہ بعض اوقات جب تک آخری گیند نہ پھینک لی جائے تب تک کچھ بھی کہنا مشکل ہوتا ہے جیسا کہ ٹورنامنٹ کے آغاز میں پاکستان اور بھارت کا سنسنی خیز میچ ہوا۔

    آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ کے دوران اگر مگر کی صورتحال اور کشمکش کی فضا میں جس طرح اپنی محنت اور قوم کی دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور سیمی فائنل میں با آسانی نیوزی لینڈ کو زیر کرکے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ نے بھارت کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے اسے خالی ہاتھ اپنے وطن واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔ یوں بھارت پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کے لیے اپنے بنائے گڑھے میں خود ہی گر گیا ہے، ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف فتح نے ان یادوں کو مزید تقویت بخشی، کیونکہ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں شکست دی تھی اور میدان بھی آسٹریلیا کا تھا، اب جب کہ ٹرافی صرف ایک ہاتھ یعنی ایک میچ دور ہے اور مدمقابل بھی تو قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل فائنل سے قبل دیکھا گیا تھا اور اب پاکستانیوں کی ہر بیٹھک میں یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔

    اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔ اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

    ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا، قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے میچوں کے حسب منشا نتائج بھی ضرورت بن گئے، پھر قومی ٹیم بیدار ہوئی اور مسلسل تین میچز میں مخالف ٹیموں کو پچھاڑتی ہوئی اگر مگر کے ساتھ ہی سیمی فائنل میں پہنچی اور وہاں بھی نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی اور یہی سب کچھ تو 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا تو قوم کو لگا کہ یہ 92 کے ورلڈ کپ کا ہی ری پلے ہے پھر قوم نے اس بار وہی امیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ جہاں کھلاڑی میدان میں اپنی جان ماریں گے وہیں شائقین اسٹیڈیم میں ان کا جوش بڑھائیں گے اور قوم ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ دیکھنے کے ساتھ دعائیں بھی کرے گی جب کہ بعض بزرگ تو میچ شروع ہوتے ہی مصلیٰ سنبھال لیں گے۔

    جس طرح 25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔

    جس طرح 1992 میں پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلے باز نہ تھا، اسی طرح موجودہ ٹیم میں بھی کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہ تھا اور مڈل آرڈر پر سب نے سوالات اٹھا دیے تھے جب کہ سب سے زیادہ پریشان کن بات اس کامیاب اوپننگ پیئر بالخصوص کپتان بابر اعظم کا آؤٹ آف فارم ہونا بھی تھا جو سیمی فائنل کے قبل 5 میچوں میں صرف 39 رنز ہی اسکور کر سکے تھے۔ جس طرح 92 میں ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اسی طرح موجودہ زمانے کے ماہرین کرکٹ نے بھی بابر اعظم کی زیر قیادت ٹیم کے پہلے مرحلے سے آگے نہ بڑھنے کی پیشگوئی کی تھی لیکن دونوں بار یہ پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔

    ایک اور مماثلت کہ 92 میں قومی ٹیم جب آسٹریلیا روانہ ہوئی تو سوائے جاوید میانداد کے کوئی قابل بھروسا بلے باز نہیں تھا لیکن جب ٹیم کپ کے ساتھ واپس آئی تو اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔

    اس بار بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہیں تھا لیکن ٹیم واپس آئے گی تو امید ہے کہ ٹرافی کے ساتھ محمد حارث، افتخار احمد جیسے مستقبل کے ہیروز ساتھ لے کر آئے گی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC T20 World Cup (@t20worldcup)

    تاہم سنسنی خیز فائنل سے قبل آسٹریلوی محکمہ موسمیات نے فائنل کے روز میلبرن میں بارش کی پیشگوئی کی ہے یعنی پاکستان کا مدمقابل صرف انگلینڈ نہیں بلکہ موسم بھی ہوگا، میچ کے لیے ریزرو ڈے بھی ہے لیکن اگر دونوں دن میچ مکمل نہ ہوسکا تو پھر دونوں فائنلسٹ ٹیموں کو مشترکہ فاتح قرار دیا جاسکتا ہے۔

    پاکستان کی ٹیم نے جس طرح سیمی فائنل جیتا، اور قوم کو خوشیاں منانے کا موقع دیا، اس کے بعد اب کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں بلکہ پوری قوم آرزو مند ہے کہ فائنل کی فاتح بن کر ہماری ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے۔ ہم سب کی دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ:  کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی غیر متوقع کارکردگی کے باعث کسی بھی میچ میں اس کی فتح اور شکست کی پیش گوئی بھی مشکل رہی ہے یہ وہ ٹیم ہے جو ایک میچ میں اگر کسی مضبوط حریف کو ہرا سکتی ہے تو اگلے ہی میچ میں ایک کمزور کرکٹ ٹیم سے شکست کھا کر دنیا کو حیران کر دیتی ہے۔

    آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے یہی کیا۔ کھیل کے دوران کشمکش کی فضا میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

    ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اُس ایک روزہ ورلڈ کپ اور حالیہ مقابلے میں اتنی مماثلت پیدا ہو گئی ہے کہ قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل دیکھا گیا تھا۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔

    آسٹریلیا میں گزشتہ ماہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہوا تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔

    اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا۔قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت ضروری تھی جس کے لیے قوم دل کی گہرائیوں سے دعا گو تھی اور اس موقع پر 1992ء کے ورلڈ کپ کی یاد تازہ ہوگئی۔

    اگلے میچز میں شاہین بیدار ہوئے اور فتوحات کی ہیٹ ٹرک کے ساتھ سیمی فائنل کا ٹکٹ بھی کٹوا لیا، پہلے جنوبی افریقہ کو ہرایا، پھر نیدر لینڈز کو پچھاڑا۔ اتوار کی صبح نیدر لینڈز نے جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دے کر پاکستانی قوم کو ایک خوشی سے ہمکنار کردیا۔

    جنوبی افریقہ کی اس شکست نے پاکستان کا اگلے مرحلے کے لیے سفر مزید آسان کر دیا اور رن ریٹ کا گورکھ دھندا ختم ہوگیا اب صرف پاکستان نے بنگلہ دیش کو شکست دینا تھی اور سیمی فائنل میں پہنچنا تھا اور یہ کام قومی ٹیم نے باآسانی کرلیا جس کے ساتھ ہی وہ کچھ ہوا جس کی بہت سارے لوگوں نے امیدیں چھوڑ دی تھیں اور ایسا ہی کچھ 1992 میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا۔

    25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم، جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، جس کے لیے ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔

    پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلّے باز نہ تھا۔ آخری پانچ میچوں میں تو وہ خود بیٹنگ کا بوجھ اٹھاتے رہے، بولنگ میں سارا بوجھ وسیم اکرم کے کاندھوں پر تھا لیکن یہ ٹیم جب واپس آئی تو صرف ورلڈ کپ لے کر نہیں آئی بلکہ اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔

    اس ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر مایوس کن تھا۔ اپنے افتتاحی میچ میں قومی ٹیم ویسٹ انڈیز سے شکست کھا گئی جس کا ذمے دار ٹیم اوپنر (موجودہ چیئرمین پی سی بی) رمیز راجا کی سست بیٹنگ کو قرار دیا گیا تھا۔ اگلا میچ بھارت کے ساتھ تھا اور کسی بھی عالمی کپ میں یہ دونوں روایتی حریف پہلی بار مدمقابل آ رہے تھے، یہ میچ بھارت نے جیتا اور اگلے میچ میں جنوبی افریقہ نے بھی پاکستان کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔

    ابتدائی دو میچز ہارنے کے بعد قومی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی لیکن عمران خان کی قیادت اور کھلاڑیوں کی انتھک محنت اور خوش قسمتی سے پاکستان کی یہ منزل کچھ اس طرح آسان کی کہ سب حیران رہ گئے۔

    پاکستان نے اگلے میچ میں آسان حریف زمبابوے کو شکست دے کر ٹورنامنٹ میں پہلی فتح حاصل کی، لیکن ٹورنامنٹ کا ٹرننگ پوائنٹ پاکستان اور انگلینڈ کے خلاف کھیلا گیا میچ تھا جو بارش کے باعث نامکمل رہا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دیا گیا اور یہی ایک پوائنٹ آخر میں اتنا اہم ہوا کہ پاکستان بڑی ٹیموں کو روندتا ہوا عالمی چیمپئن بن گیا۔

    اس کو خوش قسمتی کی انتہا نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ پاکستان کی پوری بیٹنگ لائن انگلینڈ کے خلاف 74 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی اور انگلینڈ آسان ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ بھی شروع کرچکا تھا کہ اچانک بارش آسمان سے پاکستان کے لیے رحمت بن کر اتری اور اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک میچ ختم کرنے کا اعلان نہیں کر دیا گیا۔

    اس کے بعد پاکستانی شاہین اسی طرح جاگے جیسے حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مسلسل دو شکستوں نے ان کو بیدار کیا، 92 کے ورلڈ کپ میں پاکستان نے پہلے آسٹریلیا اور سری لنکا کو زیر کیا اور پھر راؤنڈ میچ میں اپنا آخری میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا جو کہ اس وقت تک ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست ٹیم تھی اور جس کو ورلڈ کپ میں دیگر 7 ٹیمیں نہیں ہرا سکی تھیں اسے قومی ٹیم نے زیر کرلیا۔ پاکستان نے اپنے مجموعی پوائنٹ 9 کر لیے۔

    جس طرح ہم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کشمکش اور تذبذب کا شکار رہے اور اگر مگر کی کشتی میں ڈولتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے لیے بھی من چاہے نتائج کی دعائیں کرتے ہوئے دن گزارے یہ سب کچھ نوے کی دہائی میں بھی ہوا تھا۔ اس وقت راؤنڈ میچ میں پاکستان نو پوائنٹس کے ساتھ اسی روز ہونے والے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے آخری میچ پر انحصار کر رہا تھا۔ آسٹریلیا کے 6 پوائنٹ اور ویسٹ انڈیز کے 8 پوائنٹس تھے، پاکستان اسی صورت سیمی فائنل میں پہنچ سکتا تھا کہ جب آسٹریلیا کالی آندھی کو زیر کر لے۔ دوسری صورت میں ویسٹ انڈیز 10 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل پہنچتا اور پاکستان خالی ہاتھ گھر واپس آتا۔

    92 کا ورلڈ کپ اپنے مکمل ہوش و حواس میں دیکھنے والوں کو یاد ہوگاکہ اس میچ میں آسٹریلیا گویا پاکستانیوں کی قومی ٹیم بن گئی تھی جس کی فتح کے لیے ہر پاکستانی دعائیں کررہا تھا جو قبول ہوئیں اور میچ کا نتیجہ آسٹریلیا فتح کی صورت نکلا۔

    پھر کیا تھا پاکستان سیمی فائنل میں گیا، دوبارہ نیوزی لینڈ مدمقابل تھا اور پاکستان نے یہ میچ جیت کر اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ ٹیم نے فائنل میں انگلینڈ کو 22 رنز سے ہرا کر ایک تاریخ رقم کی اور دنیا نے پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان کو ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے دیکھا۔

    آج دیکھیں تو کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اُس ورلڈ کپ کی طرح آسٹریلیا میں کھیلا جا رہا ہے، میزبان آسٹریلوی ٹیم پہلے کی طرح فائنل فور سے قبل ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی ہے، پاکستانی ٹیم بھی تاریخ دہراتے ہوئے اگر مگر کے کانٹوں سے الجھتی اس مرحلے تک پہنچی ہے، اس وقت بھی پاکستان کا سیمی فائنل نیوزی لینڈ سے تھا اور اس بار بھی سیمی فائنل میں یہی دونوں ٹیمیں مدمقابل ہیں۔

    اگر سیمی فائنل میں پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا دے اور دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ بھارت کو پچھاڑ دے تو پھر فائنل بھی 30 سال قبل کھیلے گئے ورلڈ کپ کا ری پلے ثابت ہو سکتا ہے اور ٹرافی کے لیے مقابلہ پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ہوگا۔

    کھیلوں کی دنیا میں حالیہ مقابلے اور 1992ء کے ورلڈ کپ میں اس قدر مماثلت نے قوم کی امیدوں کو بھی دو چند کردیا ہے۔ ٹرافی کے حصول کے لیے چار ٹیمیں میدان میں ہیں اور تین میچوں کے بعد فیصلہ ہو جائے گا کہ کون یہ ٹرافی اٹھا کر اپنے وطن لے جائے گا۔

    صرف کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں، پوری قوم کی آرزو ہے کہ ہماری ٹیم تاریخ کو دہراتے ہوئے میدان مار لے اور ہمارے کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی لے کر وطن لوٹیں۔ ہماری دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

  • ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان میں‌ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ارشد شریف ہم میں نہیں رہے۔

    وہ کینیا میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں رات کی تاریکی چھٹ رہی تھی اور سویرا ہونے کو تھا۔ عوام کی اکثریت جو محوِ خواب تھی، جب اپنے موبائل فون کی گھنٹیوں اور میسج ٹونز پر بیدار ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا محبوب اینکر پرسن انھیں‌ دائمی جدائی کا غم دے گیا ہے۔

    ارشد شریف ہر دل عزیز اینکر پرسن اور پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کا ایک بڑا نام تھا جن کی الم ناک موت پر ہر پاکستانی افسردہ و ملول ہے اور بالخصوص صحافتی حلقوں میں فضا سوگوار ہے۔ ارشد شریف ایک نڈر اور بے باک صحافی مشہور تھے جو نہ تو کبھی بکے اور نہ ہی کسی طاقت کے آگے سَر جھکایا۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر میں ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی دباؤ میں‌ آ کر حق و سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور شاید یہی ارشد شریف کا ‘جرم’ بھی تھا۔ پرچمِ حق و صداقت بلند رکھنے کی پاداش میں اپنے ہی وطن میں زمین ان پر تنگ کر دی گئی اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

    ارشد شریف کی موت کی خبر پر یقین نہیں آرہا۔ ہر بار ان کے نام کے ساتھ ان کا ہنستا مسکراتا، زندگی سے بھرپور چہرہ سامنے آجاتا ہے اور انہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزنے لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت جھٹلائی بھی نہیں جاسکتی کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ پاکستان یہ بے باک اور نڈر صحافی بوڑھی ماں کا واحد سہارا بھی تھا اور چار بچّوں کا باپ بھی جسے سچ عوام کے سامنے لانے پر دو درجن سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر یہ مقدمات کسی دورِ آمریت میں نہیں بلکہ جمہوری دور میں پی ڈی ایم کی حکومت میں بنائے گئے۔ اس پر بہی خواہوں نے ارشد شریف کو کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے جانے کا مشورہ دیا۔ (یہ وہ وقت تھا کہ جب عمران ریاض اسیری کا مزہ چکھ چکے تھے، صابر شاکر بھی ملک چھوڑ کر جا چکے تھے، سمیع ابراہیم، اوریا مقبول جان اور ایاز امیر بھی عتاب شکار تھے، صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور انھیں، ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے) ان حالات میں‌ ارشد شریف نے اپنا وطن چھوڑا تھا۔

    ذرایع ابلاغ کے مطابق ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی کے قریب کیجاڈو کے علاقے میں موجود تھے جہاں وہ گولی کا نشانہ بنے۔ اس وقت ارشد شریف کار میں اپنے ایک دوست کے فارم ہاؤس کی طرف جا رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کینیا کے محکمۂ پولیس کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ارشد شریف کہا گیا کہ پاکستانی صحافی کی موت پولیس کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ایک بچّے کے اغوا کی اطلاع پر پولیس اہل کار گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے اور سڑک بند تھی جہاں شناخت نہ ہونے اور غلط فہمی کے سبب یہ واقعہ پیش آیا۔

    پولیس کے اس موقف پر دنیا اور خود وہاں کا مقامی میڈیا بھی حیران ہے اور اس ‘غلط فہمی’ پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بچّے کے اغوا میں ملوث گاڑی اور ارشد شریف کی گاڑی کی نمبر پلیٹیں یکسر مختلف تھیں۔ پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ بالفرض اس گاڑی میں بچّہ تھا بھی تو گاڑی نہ روکنے پر پولیس اس کے ٹائروں پر فائر کرتی اور پھر ملزمان پر قابو پاتی۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا اور پولیس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے کار سواروں کو کیوں‌ اپنی گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا؟ اسی طرح اگر عقب سے یا سامنے سے گولی چلی تو ارشد شریف کے سَر کے درمیانی حصّے پر گولی کا نشان کیوں؟ اس واقعے میں صرف ارشد شریف ہی کیوں نشانہ بنے، ان کے ساتھ بیٹھا ڈرائیور پولیس کی فائرنگ سے کیسے محفوظ رہا اور اب وہ کہاں ہے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو اس افسوس ناک واقعے کی شفاف تحقیقات اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے آنے تک اٹھائے جاتے رہیں گے۔ دوسری طرف یہ بھی خدشہ ہے کہ ماضی کے کئی ایسے واقعات کی طرح ارشد شریف کی فائل کو بھی کچھ عرصہ بعد ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔

    ارشد شریف نے 22 فروری 1973 کو کراچی میں پاک بحریہ کے کمانڈر محمد شریف کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993 میں اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں فری لانس صحافی کی حیثیت سے کیا۔ ارشد شریف نے یوں تو صحافت کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا، لیکن تحقیقاتی رپورٹنگ ان کا خاصہ تھا۔ ارشد شریف نے کئی سیاست دانوں کی کرپشن کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ انھوں نے ملک اور بیرونِ ملک پاکستان کے بڑے صحافتی اداروں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اے آر وائی نیوز پر ان کا ٹاک شو ’’پاور پلے‘‘ کے نام سے نشر ہوتا تھا اور یہ ایک مقبولِ‌ عام پروگرام تھا۔ اس پر ارشد شریف نے 2016 میں بہترین تحقیقاتی صحافت کے زمرے میں ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ 2019 میں حکومتِ پاکستان نے ارشد شریف کو ان کی صحافتی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا تھا۔

    ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات گئے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا کر وہاں کی حکومت نے انھیں 48 گھنٹوں میں ملک سے چلے جانے کو کہا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بالخصوص یہ خبریں گردش میں رہیں کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے یو اے ای پر ارشد شریف کی ملک بدری کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اور یہ صحافی کسی خطرے کو بھانپ کر پاکستان واپس آنے کے لیے تیّار نہیں‌ تھے۔ انھوں نے فوری طور پر کینیا جانے کا فیصلہ کیا جہاں پاکستانیوں کو ایئرپورٹ آمد پر ویزے کے حصول کی سہولت موجود تھی۔ لیکن وہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس ملک کا ایک دور دراز علاقہ ان کا مقتل ثابت ہو گا۔

    ارشد شریف کی اس ناگہانی موت نے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں‌ موجود دانش وروں، صحافیوں‌ اور عام لوگوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ امریکا نے بھی کھل کر اس واقعے کی مذمت کی، جب کہ حکومتِ پاکستان نے مکمل تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا اعلان کر دیا جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، صحافتی تنظمیں بھی سراپا احتجاج ہیں اور پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کی شفاف تحقیقات کروائے اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے۔

    ایک طرف پاکستانی عوام بالخصوص ارشد شریف کے مداح اور صحافی برادری غم زدہ اور صدمے میں‌ تھی، لندن میں موجود ن لیگ کی قیادت نے دیوالی کا کیک کاٹ رہی تھی جس پر سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کی جارہی تھی کہ مریم نواز کا ایک ٹوئٹ سامنے آگیا جس میں‌ انھوں نے ارشد شریف کی میّت کے تابوت کی تصویر کے ساتھ طنزیہ جملہ لکھا تھا۔ اس ٹوئٹ پر مریم نواز کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے انھیں بے حس اور سنگ دل قرار دیا جب کہ صحافیوں نے ان کی اس ٹوئٹ کو غیرانسانی رویہ کی عکاس قرار دیا جس کے بعد مریم نواز کو نہ صرف ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی بلکہ انھوں نے عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس پر معذرت بھی کی۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ ایک جانب مریم کے چچا اور وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا تعزیت اور اس واقعے کی تحقیقات کرانے کے بیانات دے رہے تھے اور دوسری طرف لندن میں موجود مریم نواز یہ ٹوئٹ کررہی تھیں جو بدترین تھا۔ یہ سب ایسے وقت ہوا جب ارشد شریف کے اہل خانہ نے مرحوم کا آخری دیدار بھی نہیں کیا تھا اور میّت کی وطن واپسی کے منتظر تھے۔

    ارشد شریف کی میّت وطن واپس آئی تو اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر اسپتال منتقل کیا گیا۔ ورثا کی درخواست پر پمز اسپتال میں ان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ارشد شریف کی رہائش گاہ پر اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔

    اقوام متحدہ نے بھی ارشد شریف کیس میں‌ مکمل تفتیش اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنا باقی ہے اور پاکستان سے تحقیقاتی ٹیم کینیا روانہ ہو رہی ہے، لیکن کیا یہ ٹیم حقائق ہمارے سامنے رکھ سکے گی اور عوام یہ جان سکیں‌ گے کہ حق اور سچ کے لیے آواز بلند کرنے اور اس راستے میں ڈٹ جانے والا یہ صحافی وطن چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا اور اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟

  • ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    ضمنی الیکشن: کیا عمران خان تاریخ رقم کرسکیں گے؟

    وزارتِ داخلہ کی ضمنی الیکشن اور سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست الیکشن کمیشن نے مسترد کر دی ہے اور اب قومی اسمبلی کی 8 اور پنجاب اسمبلی کی 3 نشستوں پر ضمنی الیکشن اتوار 16 اکتوبر اور کراچی کے بلدیاتی الیکشن اتوار 23 اکتوبر کو مقررہ شیڈول کے تحت ہی منعقد ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال نے بھی جنم لے لیا ہے کہ کیا پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان جو قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر امیدوار کی حیثیت سے کھڑے ہیں وہ یہ تمام نشستیں جیت کر اپنا ہی ایک ریکارڈ توڑ دیں گے اور نئی تاریخ رقم کرکے اپنے مخالفین کو بھی سرپرائز دے سکیں گے؟ یہ تاریخ رقم کرنا اس لیے ہو گا کہ اب تک کسی بھی سیاسی رہنما نے اب تک 7 نشستوں پر بیک وقت انتخاب نہیں لڑا ہے، اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان بیک وقت 5 حلقوں سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 4 نشستوں کے فاتح اور ایک پر شکست کھائی تھی جب کہ عمران خان نے 2018 میں سیاست کے بڑے بڑے برج گراتے ہوئے تمام 5 حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔

    ان انتخابات میں عمران خان نے این اے 53 اسلام آباد سے ن لیگی رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، بنّوں 35 جے یو آئی ف کے اکرم درانی، این اے 243 سے ایم کیو ایم پاکستان کے علی رضا عابدی، ن لیگ کے مضبوط ترین گڑھ لاہور کی نشست این اے 131 سے موجودہ وفاقی وزیر سعد رفیق کو شکست دینے کے ساتھ میانوالی سے بھی قومی اسمبلی کی نشست جیتی تھی۔

    ملک میں بیک وقت اتنی تعداد میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر غالباً پہلی بار ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ ان ضمنی انتخابات کا ڈھول اس وقت بجا جب موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی میں سے منتخب کردہ 11 ممبران کے استعفے منظور کیے تھے جن میں دو مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین کے استعفے بھی شامل تھے۔ استعفوں کی منظوری کے بعد 9 خالی نشستوں پر ستمبر میں ضمنی الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ تاہم ملک میں سیلاب کے باعث انہیں ملتوی کرکے 16 اکتوبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا۔

    جن اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کیے گئے ان میں این اے-22 مردان 3 سے علی محمد خان، این اے- 24 چارسدہ 2 سے فضل محمد خان، این اے- 31 پشاور 5 سے شوکت علی، این اے- 45 کرم ون سے فخر زمان خان، این اے-108 فیصل آباد 8 سے فرخ حبیب، این اے-118 ننکانہ صاحب 2 سے اعجاز احمد شاہ، این اے-237 ملیر 2 سے جمیل احمد خان، این اے-239 کورنگی کراچی ون سے محمد اکرم چیمہ، این اے-246 کراچی جنوبی ون سے عبدالشکور شاد شامل تھے۔ ان کے علاوہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار کے استعفے بھی منظور کیے گئے تھے۔

    9 حلقوں پر ضمنی الیکشن کا اعلان ہوتے ہی پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کرائے، کچھ حلقوں میں اعتراضات کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوگئے تاہم ان 9 انتخابی حلقوں میں سے دو حلقوں کراچی لیاری سے این اے 246 اور این اے 45 کرم ون کی نشستوں پر ضمنی الیکشن نہیں ہو رہے کیونکہ این اے 246 لیاری کراچی سے منتخب عبدالشکور شاد کی جانب سے اپنے استعفے کی منظوری کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے این اے 246 لیاری کراچی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا جب کہ این اے 45 کرم میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے باعث وہاں بھی پولنگ نہیں ہو رہی جس کے باعث اب ان سات حلقوں میں پولنگ ہوگی جہاں عمران خان کا براہ راست اپنے مخالفین سے ٹکراؤ ہو گا۔

    اس کے علاوہ حلقہ این اے 157 ملتان فور وہ حلقہ ہے جہاں شاہ محمود کے بیٹے شاہ زین نے پنجاب کے حالیہ ضمنی الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد استعفیٰ دیا تھا۔ یہاں سے پی ٹی آئی کی امیدوار اور شاہ محمود کی صاحبزادی مہر بانو قریشی کا پی ڈی ایم کے حمایت یافتہ پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسی گیلانی کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے جب کہ پنجاب اسمبلی کے تین حلقوں پی پی 139 شیخوپورہ فائیو، پی پی 209 خانیوال سیون اور پی پی 241 بہاولنگر فائیو میں بھی اسی روز پولنگ ہوگی۔

    تاہم اتوار کو مجموعی طور پر ان 11 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں سب کی توجہ قومی اسمبلی کی ان سات نشستوں پر ہے جہاں عمران خان نے خود میدان میں اتر کر مخالفین کو بڑا چیلنج دیا ہے۔ خان صاحب اس فیصلے سے قوم سمیت اپنے تمام حریفوں کو یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہے ہیں کہ وہ کریز سے باہر نکل کر کھیلنے کے عادی ہیں اور وکٹ گنوانے کی پروا نہیں کرتے اس کے ساتھ ہی قوم کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ عمران خان اکیلے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کے مدمقابل ہیں۔ لیکن کیا وہ یہ معرکہ سر کر سکیں گے؟ کہیں یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی جوا تو ثابت نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس لیے کہ یہ الیکشن ایسے موقع پر ہونے جا رہے ہیں کہ جب عمران خان کو تواتر کے ساتھ اپنی متنازع اور مبینہ آڈیو لیکس منظر عام پر آنے کے بعد مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں کے ساتھ کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔

    گو کہ اس وقت عمران خان پی ڈی ایم حکومت کے نشانے پر ہیں، کئی مقدمات قائم جب کہ مزید بننے جا رہے ہیں، عدالتوں کے چکر بھی لگ رہے ہیں، خاص طور پر مبینہ آڈیو لیکس کے بعد مخالفین کے زبانی حملوں اور عملی اقدامات میں بھی تیزی آچکی ہے لیکن زمینی حقائق اور حالات کو دیکھا جائے تو ہر گزرتا دن یہ باور کراتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی ان کے مخالفین کی سب سے بڑی پریشانی ہے کہ جہاں حکمراں اتحاد بالخصوص ن لیگ کی قیادت اور رہنماؤں کو عوامی غیظ وغضب کا سامنا ہے، وہ جہاں جاتے ہیں چور، چور کی صدائیں ان کا پیچھا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر ن لیگی رہنما عوامی مقامات پر جانے سے گریز کررہے ہیں جب کہ دوسری جانب مخالفین کے الزامات، مقدمات در مقدمات اور مبینہ آڈیو لیکس کے باوجود عمران خان کے جلسے اسی زور وشور سے بدستور جاری ہیں اور وہاں عوام پہلے کی طرح پرجوش انداز میں بڑی تعداد میں پہنچ رہی ہے، ایسے میں ایک جانب پی ٹی آئی کا مجوزہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اس سے قبل ضمنی الیکشن حکمرانوں کی نیندیں حرام کرچکا ہے۔ تاہم ایسے موقع پر پی ٹی آئی کو یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کے مدمقابل وہ سیاسی قوتیں ہیں جو کئی دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائی رہی ہیں اور انہیں سیاست کے تمام گُر آتے ہیں۔

    یہاں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی نے 11 اپریل کو استعفے دیے تھے تو ان 11 حلقوں میں وہ کیا خاص بات تھی کہ پہلے مرحلے میں ان کے استعفے منظور کرنے کا انتخاب کیا گیا؟ اگر 2018 کے انتخابی نتائج سامنے رکھے جائیں تو سب پر واضح ہوجائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے ان حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو باقاعدہ ہوم ورک کر کے ڈی سیٹ کیا ہے۔

    2018 کے عام انتخابات کے نتائج پر نظر دوڑائی جائے تو ضمنی الیکشن کے لیے مذکورہ سات حلقوں میں سے 5 حلقے ایسے تھے جہاں ہار جیت کا مارجن صرف چند سو سے زیادہ سے زیادہ ہزار دو ہزار کے لگ بھگ رہا۔ اگر ان نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو عمران خان کیلیے 7 نشستیں جیتنا تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر کانٹے کا مقابلہ ہوگا کیونکہ 2018 میں ان کے مخالفین کے ووٹ منقسم تھے لیکن اس الیکشن میں تمام مخالف 12 یا 13 جماعتوں کا ووٹ اکٹھا ہے اور ہر حلقے میں عمران خان کا مقابلہ بھی پی ڈی ایم کے ایک ہی مشترکہ امیدوار سے ہوگا۔

    اگر عمران خان ان میں سے کچھ حلقے ہار جاتے ہیں تو حکومت اسے اپنی جیت قرار دے گی کیونکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد حکومتی اتحاد اس موقع کی تلاش میں ہے کہ کسی طرح عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تاثر ختم کیا جائے اور اگر ان کے من پسند نتائج آئے تو حکومتی اتحاد کیلیے کو عوام کو متوجہ کرنے کے لیے ایک خوش کُن اور حوصلہ افزا بیانیہ مل سکتا ہے۔

    اگر عمران خان نے سات نشستیں جیت لیں تو پھر حکومتی اتحاد جس میں پہلے ہی دراڑیں‌ پڑی ہوئی ہیں، مزید دفاعی پوزیشن پر چلا جائے گا۔ اگر بھرپور جیت کے ساتھ ہی عمران خان نے اسلام آباد لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کر دیا تو پھر ایک نیا سیاسی میدان سجے گا۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ جہاں ضمنی الیکشن عمران خان اور حکومتی اتحاد کے لیے بڑا معرکہ ثابت ہوں گے وہیں ان کے نتائج کی بنیاد پر مستقبل کا منظر نامہ بھی تشکیل دیا جائے گا جس کے لیے سیاسی صف بندیاں کہیں دور شروع بھی ہوچکی ہیں۔