Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • آڈیو لیکس کی برسات میں لانگ مارچ کا شور

    آڈیو لیکس کی برسات میں لانگ مارچ کا شور

    پی ٹی آئی کے متوقع لانگ مارچ کی تاریخ کے حتمی اعلان سے قبل ہی آڈیو لیکس کے سلسلہ وار اجرا نے ملک میں‌ سیاسی ہیجان میں‌ مزید اضافہ کر دیا ہے، ساتھ ہی سائفر کا مردہ ہو جانے والا گھوڑا بھی دوبارہ نہ جانے کیوں زندہ کر دیا گیا ہے۔

    رواں سال مارچ میں اس وقت کے وزیرِاعظم نے اپنے اقتدار کے آخری ایّام میں ایک عوامی جلسے میں کاغذ لہراتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے بیرونی سازش کا ذکر کیا تھا اور ان کا یہ بیانیہ عوام میں ہٹ ہوگیا۔ اس کے بعد کافی وقت تک سازش پر مبنی خط ہمارے سیاسی افق پر چھایا رہا جو درحقیقت ایک سائفر تھا۔

    گزشتہ چھے ماہ سے سائفر ہے، سائفر نہیں ہے، سازش ہے، سازش نہیں مداخلت ہے، سازش کا بیانیہ من گھڑت ہے، موجودہ حکومت رجیم چینج کی سازش سے اقتدار میں آئی جیسے دعوے، الزامات اور انکشافات کی گونج سنائی دے رہی تھی جس میں‌ دو سیاسی جماعتوں‌ کی جانب سے بیانات سنتے سنتے قوم کے کان پک گئے۔ پھر فریقین کی جانب فوری نئے الیکشن کے مطالبے، مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کے دبنگ اعلانات اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی پریکٹس شروع ہوگئی۔ اسی اثنا میں ان آڈیو لیکس نے مردہ ہوتے سائفر کے گھوڑے میں جان ڈال دی اور یوں بالآخر سائفر نکل ہی آیا۔

    ستمبر جاتے جاتے ستم گر ثابت ہوا، لیکن کس کے لیے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ بہرحال ستمبر کا آخری ہفتہ تھا، پی ٹی آئی کے حلقوں میں قہقہے لگ رہے تھے اور اس کے راہ نما بغلیں بجا رہے تھے کیونکہ ان کے سخت بلکہ بدترین سیاسی حریف وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز کی ایک دو نہیں بلکہ کئی مبینہ آڈیو ملکی میڈیا کے ذریعے افشا ہوئیں۔ جس کے بعد ن لیگ کے کیمپ کو جیسے سانپ سونگھ گیا تو پی ٹی آئی کے کیمپ میں شادیانے بج اٹھے، لیکن ابھی ان آڈیو لیکس کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ اچانک پی ٹی آئی چیئرمین کی وزارت عظمیٰ کے آخری دور کی آڈیو بھی عوام کے سامنے آگئیں۔

    وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی بھتیجی، ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کے مابین 24 ستمبر سے پے در پے کئی ٹیلیفون کالز آڈیو لیکس کے نام پر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچیں جو سب کو ازبر ہیں۔ تاہم اس میں اپنی نوعیت کی سب سے سنگین اور عوامی مفاد کے خلاف جو گفتگو تھی وہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے اور انصاف صحت کارڈ بند کردینے سے متعلق تھی۔ ان میں مریم نواز کی طرف سے وزیراعظم سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور انصاف صحت کارڈ بند کر دینے کی بات کی گئی تھی۔

    ان آڈیو لیکس نے ایک جانب جہاں ن لیگی قیادت کے عوامی ہمدردی کے دعوؤں اور دہرے معیار کی قلعی کھول کر رکھ دی وہیں ہیکر کی جانب سے جمعے کو ایسے متعدد انکشافات سے بھرپور اور سنسنی خیز آڈیو لیک کرنے کے اعلان نے حکم راں جماعت کے کیمپ میں بھی ہلچل مچائے رکھی، جس کی ایک دل چسپ وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے قبل ن لیگ کے خلاف اکثر سیاسی اور عدالتی فیصلے جمعے کے روز ہی آئے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ جمعے کا دن ن لیگ پر بھاری ہوتا ہے، تاہم ہوا اس کے بالکل الٹ۔

    ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کی تاویلیں اور پی ٹی آئی کی ملامتیں جاری تھیں اور قبل اس کے کہ ن لیگ پر بھاری جمعہ آتا بدھ 28 ستمبر کو ٹی وی چینلوں پر آڈیو لیک کی صورت میں ایک اور دھماکا ہوگیا، لیکن اس دھماکے نے توقع کے برخلاف پی ٹی آئی کے کیمپ میں ہلچل مچا دی۔

    اس بار آڈیو لیک میں وزارت عظمیٰ کے آخری ایّام میں‌ عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے مبینہ گفتگو سامنے آئی۔ اعظم خان اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو سائفر سے متعلق آگاہ کرتے ہیں جب کہ عمران خان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اس پر کھیلیں گے، اس کے بعد دو دن کے وقفے سے اسی سے متعلق ایک اور آڈیو منظر عام پر آتی ہے جس میں عمران خان شاہ محمود قریشی سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اچھا شاہ جی ہم نے کل ایک میٹنگ کرنی ہے۔ اس مبینہ آڈیو میں عمران خان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ایشو پر پلیز کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے۔ ایک ہفتے کے تعطل کے بعد ہیکر نے عمران خان کی ایک ہی دن میں مزید دو مبینہ آڈیوز لیکس کر دیں جس میں ایک میں وہ عدم اعتماد کے دنوں میں ممبران خریدنے اور دوسرے میں میر جعفر اور میر صادق کے بیانیے کو ’’عوام کو گھول کر پلانا ہے‘‘ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

    ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کے کیمپ میں بھی خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے اور تمام وزرا اور راہ نما تازہ دم ہو کر پی ٹی آئی کے خلاف میدان میں آگئے۔ پے در پے پریس کانفرنسیں ہونے لگیں۔ گویا پی ڈی ایم اور حکومت کے تنِ خستہ میں جان پڑ گئی جب کہ سائفر کا مردہ گھوڑا زندہ ہونے پر دیگر سیاسی جماعتیں بھی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے میدان میں آگئیں۔

    وزیراعظم، مریم نواز، بلاول بھٹو، سمیت پی پی پی اور ن لیگ کی سیکنڈ لائن قیادت بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آگئی اور شکوہ جوابِ شکوہ کی طرح بیانات، جوابی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوسری جانب عمران خان نے اس سائفر کو عام کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سائفر پبلک ہوجائے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کتنی بڑی سازش ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ تک کہہ دیا کہ صدر مملکت نے سائفر چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوایا ہوا ہے اگر وہ کہہ دیں کہ یہ غلط ہے، ہم پارلیمنٹ جانے کو تیار ہو جائیں گے۔ اسی ہنگامے میں سائفر کے وزیراعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف ہوا۔ کابینہ نے سائفر کو من گھڑت قرار دے دیا تو پی ٹی آئی نے سائفر کی گم شدگی پر اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ بھی کر دیا۔

    ان آڈیو لیکس کے بعد اب تک ن لیگ کی جانب سے جہاں پی ٹی آئی پر الزامات اور سیاسی وار جاری ہیں وہیں عمران خان اور پی ٹی آئی آڈیو لیکس کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے پیچھے ن لیگ کا ہاتھ ہے۔ جعلی آڈیوز کی حقیقت عوام پر آشکار کرنے کیلیے عمران خان نے اپنے ایک جلسے میں نواز شریف کی فیک آڈیو عوام کو سنا دی جس میں نواز شریف خود کو سب سے کرپٹ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

    قومی سلامتی کمیٹی آڈیو لیکس اور سائفر کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کرچکی ہے، اس کے کئی اجلاس بھی ہوچکے ہیں، تاہم آگے کیا ہوتا ہے، کتنی آڈیو لیک ہوتی ہیں اور کن اہم شخصیات کی ہوتی ہیں؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

    پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا تاحال اعلان تو نہیں کیا تاہم غالب امکان یہ ہے کہ یہ رواں ماہ اکتوبر میں ہی ہوگا، جس کو ناکام بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے اسلام آباد سیل کرنے کیلیے اقدامات شروع کردیے ہیں اور وفاقی دارالحکومت کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے ہیں، دیگر صوبوں سے نفری بھی طلب کر رکھی ہے اور کے پی اور پنجاب سے انکار پر وفاق کی جانب سے انہیں انتباہی پیغام بھی دیا جا چکا ہے، جب کہ اس معاملے پر حکومتی اتحادیوں نے شہباز حکومت کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔

    صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ لانگ مارچ کی صورت میں حکومت جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل فون اور میٹرو بس سروس بند رکھنے کے ساتھ دارالحکومت کے ہوٹلز میں مہمانوں کی چھان بین سمیت پکوان سینٹروں اور ساؤنڈ سسٹم کرائے پر دینے والوں کو بھی پابند کرنے پر غور کررہی ہے اور یہ تمام اقدامات حکومت کی پریشانی کو عیاں کر رہے ہیں۔

    اسی تناظر میں وفاقی وزارت داخلہ نے 16 اکتوبر کو ملک کے قومی اسمبلی کے 11 حلقوں میں ضمنی الیکشن تین ماہ کیلیے ملتوی کرنے کی درخواست وفاقی حکومت کو دے دی ہے تو دوسری جانب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی پریس کانفرنس میں سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر موجودہ حکومت کی مدت بڑھانے کا مطالبہ کرچکے ہیں جب کہ اس سے قبل حکومتی اتحادی ایم کیو ایم بھی بات کرچکی ہے اور سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ ایک پارٹی سربراہ کے ساتھ اہم حکومتی عہدے پر براجمان شخصیت اور ایک حکومتی اتحادی جماعت کی جانب سے ایسے مطالبات کا منظر عام پر آنا مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی عکاسی کر رہے ہیں جس کے لیے اندرون خانہ کوششیں جاری ہیں۔

    ملکی سیاست میں ہر دن ایک نیا تماشا ہو رہا ہے اور امید یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں‌ عوام کو آڈیو لیکس اور لانگ مارچ کی صورت میں‌ بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملے گا۔

  • پاکستان کو سیلابی  پانی میں  ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان کو سیلابی پانی میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان میں تاریخ کے تباہ کن سیلاب کے بعد ایک بار پھر ڈیموں کی تعمیر بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ مقتدر اور بااختیار حلقوں کی جانب سے بھی کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔

    حالیہ سیلاب کو اس لحاظ سے تاریخ کا تباہ کن سیلاب کہا جارہا ہے کہ یہ دریائی سیلاب نہیں جو گلیشیئر پگھلنے سے ملک کے طول وعرض میں تباہی پھیلاتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زیریں اور وسطی علاقوں میں غیر معمولی طوفانی بارشیں ہوئیں اور ایک بڑا حصّہ سیلاب کی زد میں‌ آگیا۔ ان غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ملک کا 70 فیصد حصّہ زیر آب آگیا ہے، ہزاروں افراد اس سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں مویشی پانی میں بہہ گئے، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور فصلیں تباہ اور گھر برباد ہوگئے ہیں‌ جس سے لوگ متاثر جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جب کہ سیلاب کے بعد اب وہاں پھوٹنے والے وبائی امراض ان غریبوں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے امتحان بن کر آئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہر چند سال بعد سیلاب اور تباہی کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ملک و قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ڈیمز کیوں نہیں بنائے جا رہے ہیں؟

    حالیہ سیلاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ڈیم کی تعمیر سے متعلق بیانات میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

    صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، صوبوں میں اعتماد فروغ دے کر کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقے دادو کے دورے کے موقع پر کہا کہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان میں مزید بڑے ڈیمز بنانا پڑیں گے اور پانی سے بجلی بھی بنائی جاسکے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف حکام نہیں بلکہ اب ملک کے مختلف حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ ڈیم وقت کی ضرورت ہیں اور اگر ہم نے ڈیم بنا لیے ہوتے تو شاید اتنی تباہی نہ ہوئی ہوتی۔

    یوں تو پاکستان میں اس وقت 150 ڈیم اور دیگر آبی ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کے دو بڑے ڈیم، تربیلا اور میرانی ہیں۔ ہری پور ضلع میں تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا گیا تربیلا ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور مٹی سے بنا ہوا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ بلوچستان میں دریائے دشت پر قائم میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے لیے حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مشہور ڈیموں میں منگلا، راول ڈیم، وارسک ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، حب ڈیم، نمل ڈیم، گومل زام ڈیم اور زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم شامل ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں مہمند ڈیم سمیت 10 دیگر چھوٹے آبی ذخائر کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق 22 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ آبی ذخائر ناکافی ثابت ہوں گے۔

    اس کے برعکس ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت پر نظر ڈالیں تو وہاں 5 ہزار سے زائد ڈیمز موجود ہیں جب کہ مزید کئی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ بھارت کے دریائے چناب پر منصوبوں بہلگہار، دولہستی، سلال، پاکل دول، کیرتھاری، برساسر، سوالکوٹ، رتلے، کروار، جیپسا ملا کر 17 پروجیکٹ ہیں، جس میں دریائے جہلم پر کشن گنگا قابل ذکر ہے۔ دریائے سندھ سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے ہائیڈرو پاور کے 155 کے قریب چھوٹے اور بڑے منصوبے ہیں۔ بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہے چھوڑ سکتا ہے اور یہ پانی سیلاب کی صورت میں ہر چند سال بعد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

    پاکستان میں جب بھی نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذہنوں میں کالا باغ ڈیم کا ہی نام آتا ہے، جو کہ اپنی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی متنازع ہو کر اب تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ڈیم پر کیا تنازعات ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہے کیا؟

    مجوزہ کالا باغ ڈیم میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بننا ہے۔ ’’کالا باغ‘‘ میانوالی سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قصبے میں قیام پاکستان سے قبل کیلوں کے بہت سارے باغات تھے جو دور سے سیاہ رنگ کے بادل لگتے تھے اور اپنے اس پیش منظر کے باعث ہی اس جگہ کا نام کالا باغ پڑ گیا۔ اس مقام پر دریائے سندھ ایک قدرتی ڈیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دروازہ لگا کر اسے ڈیم کی شکل دی جاسکتی ہے۔

    اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے 1873 میں کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948 میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیا گیا جسے جناح بیراج کہا جاتا ہے ایوب دور میں دیگر آبی منصوبے تعمیر کیے گئے لیکن کالا باغ کا منصوبہ کاغذات کی حد تک رہا جس پر جنرل ضیا الحق کے دور میں کام شروع ہوا لیکن وہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچا۔

    سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے 1983 میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیم کی اونچائی 925 فٹ، پانی کی اسٹوریج 6.13 ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا اور سستی ترین 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ اسی دور حکومت میں کالا باغ کے منصوبے کی تعمیر کیلیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے اور مشینری لگائی گئی۔ لیکن پھر کئی دہائیاں گزر گئیں اور یہ سب کچھ اب تباہ ہوچکا ہے۔

    اب آتے ہیں کالا باغ ڈیم منصوبے پر تنازع اور اس کے بعد اب تک اس کی تعمیر نہ ہونے کے موضوع پر۔ جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تو برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی جس نے سیٹلائٹ ایمیجنگ کے لیے علاقے میں عمارتوں کی چھتوں پر نشانات لگائے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کرکے تعمیر شروع کی جاسکے، جس کے بعد نوشہرہ ڈوبنے کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی۔ یوں پاکستان دشمنوں کو یہ جھوٹا پروپیگنڈہ مفت میں مل گیا اور اسی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا گیا، تب سے یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو صوبے کے شہر نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، مردان اور پبی ڈوب جائیں گے، اس کے ساتھ ہی سندھ نے کہنا شروع کردیا کہ اس ڈیم کے بننے سے سندھ بنجر ہو جائے گا۔

    ضیا دور میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) نے اعتراض اٹھایا کہ اس ڈیزائن سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، اعتراض دور کرنے کیلیے ڈیم کی اونچائی کم کر کے 925 سے 915 فٹ کردی گئی، اس صوبے کی بات مانی گئی تو سندھ نے اعتراض کر دیا کہ پنجاب سندھ کو پانی کا حصہ نہیں دے گا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کیلیے صوبوں کو پانی کی تقسیم کے قابل عمل معاہدے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ سے پنجاب 37 فیصد، سندھ 33، کے پی کے 14 اور بلوچستان 12 فیصد پانی لیں گے۔

    یہ دو بڑے اعتراضات دور کرنے کے بعد بھی بات آگے نہ بڑھی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ وقت کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ قوم پرست جماعتوں نے قومی مفاد کی آڑ میں ذاتی سیاست چمکانے کے لیے اس کا نام استعمال کر کے یہ ڈیم نہیں بننے دیا اور جنرل ضیا بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا خواب لیے دنیا سے چلے گئے۔ 1999 میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے کالا سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈیم نہیں بنائیں گے تو مرجائیں گے لیکن طاقت ہونے کے باوجود وہ بھی اس خواب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

    دنیا بھر کے ماہرین یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور مردان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے سندھ کی زمینیں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔ وہ یوں کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے اونچا حصہ 915 فٹ ہے یعنی ڈیم مکمل بھر بھی جائے تو کسی شہر کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم سے نوشہرہ کا نچلا ترین حصہ 25 فٹ بلند، چار سدہ کا نچلا ترین حصہ 40 فٹ، پبی کا 45 فٹ، مردان کا 55 اور صوابی کا نچلا ترین حصہ 85 فٹ بلند ہے۔ جو کالا باغ ڈیم کی بلند ترین سطح سے کہیں زیادہ اونچے ہیں اور ان کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    ماہرین کے مطابق میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جب کہ نوشہرہ کی بلندی 889 فٹ بلند ہے، ڈیم کی تعمیر سے کل 27 ہزار 500 ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا، جس میں پنجاب کا کل رقبہ 24500 ایکڑ پنجاب جب کہ کے پی کے کا صرف 3 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا یعنی یہ ڈیم بنا تو نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب سے ہی ہوگی۔

    اس وقت پاکستان کے تین بڑے ڈیمز تربیلا، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ جب کہ کالا باغ تنہا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے، 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب، سالانہ 15 ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ملے گی جب کہ زرعی اجناس میں ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ ایک لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

    کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقے سندھ کے زیریں اور بلوچستان کے مشرقی حصے ڈیم کے پانی سے قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان کو مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی، سندھ کو اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا، جس سے سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس بجھ سکتی ہے اور 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ بلوچستان کو اس سے 15 لاکھ ایکڑ پانی اضافی مل سکتا ہے، مشرقی بلوچستان کا سات لاکھ ایکڑ رقبہ اضافی سیراب ہوسکے گا۔

    پاکستان میں جو بھی حکومت آئی، اُس نے یہ کہا کہ کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے کیونکہ یہ قومی مفاد میں ہے، لیکن جیسے ہی اس منصوبے کی بازگشت شروع ہوتی ہے تو اس کے مخالف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر احتجاج، دھرنوں، دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور شاید ڈیم کے مخالف حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تمام حکومتوں نے اُن کے آگے سر جھکایا اور اس پر عمل درآمد سے باز رہیں۔ پاکستان کے تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا یہ موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے معاملے میں سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔

    سیاسی اور علاقائی مخالفتوں کے علاوہ اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ عالمی قانون برائے تقسیم آب ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر موجود فریق کا یہ قانونی اور قدرتی حق ہے کہ اس تک پانی کی ترسیل ممکن رہے اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں، البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

    پانی کے ضیاع کے حوالے سے آبی ماہرین کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پانی کا بہاؤ 100 ملین ایکڑ فٹ تھا جو 12 خالی ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا، ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس سے کالا باغ جیسے 6 ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔

    یہاں یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے پر کچھ ملک گیر سیاسی جماعتیں اور کچھ قوم پرست یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ڈیم کو تین صوبوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دے کر اسے متنازع بنا دیا جاتا ہے لیکن بھارت نے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر 14 ڈیم بنائے اور مزید بنانے جا رہا ہے، جس پر یہ جماعتیں کوئی آواز بلند نہیں کرتیں، کیا وہاں سے ہنگامی صورت میں پانی پاکستان میں نہیں داخل ہوتا؟

    امریکا کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 900 دن ہے۔ آسڑیلیا کی 600 دن اور بھارت کی 170 دن ہے جب کہ پاکستان کی صرف 30 دن کی ہے اور منگلا تربیلا بالترتیب اپنی 20 سے 35 فیصد پانی ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ اس لیے کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے جس کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ڈیم دیامر بھاشا زیرتعمیر ہے دیگر چھوٹے ڈیموں‌ کے منصوبے بھی زیر غور یا ان پر کام شروع ہونا ہے لیکن اس سے ملک میں‌ پانی کی ضرورت پوری نہیں‌ ہوسکتی اور یہ آبی وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے اب ہمیں کالا باغ ڈیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے قومی سطح‌ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی ترقی کی سوچ کے ساتھ اس حوالے سے آگے بڑھنا ہو گا اور جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ہمیں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کرنا ہوگا۔

    اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے لیکن پاکستان اس کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین ارضیات اور موسمیات اس حوالے سے پیشگوئی کرچکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں مون سون مزید شدت اختیار کرے گا، دوسرے معنوں میں زیادہ تباہی لائے گا۔ اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

    اگر اب بھی ذاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفاد میں فیصلے نہیں کیے تو ہمارا جو انجام ہو گا، اس سے خبردار کرنے کے لیے ہم شاعر مشرق علامہ اقبال یہ شعر (معمولی ردوبدل کے ساتھ) یہاں رقم کررہے ہیں…

    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستانیو!
    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

  • سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے، نصف سے زائد ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے، ایک ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ لاکھوں گھر پانی میں بہہ گئے ہیں اور دوسری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگوں کی جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں‌ لاکھوں خاندان کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ نہ تو کوئی قلم اسے پوری طرح ضبطِ تحریر میں لاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی کیمرہ اس کی مکمل عکس بندی کرسکتا ہے۔

    وزارت ماحولیات تبدیلی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے ملکی معیشت کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 10 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک کا 70 فیصد حصہ زیر آب ہے اور پاکستان کے جنوبی حصوں میں کئی مقامات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اموات کی تعداد 1500 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جب کہ 3 ہزار سے زائد زخمی رپورٹ ہوئے ہیں۔ دریاؤں میں اب تک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ 10 لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہے۔ متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ 243 پل تباہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوا ہے، سندھ کا 90 فیصد اور ملک کی کل فصلوں کا 45 فیصد حصہ زیر آب ہے۔

    یہ تو سرکاری رپورٹ ہے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق سیلاب سے جانی نقصان مذکورہ اعداد وشمار سے کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے اور اس کا اصل اندازہ سیلاب اترنے کے بعد ہی ہوسکے گا کیونکہ اب تک 100 فیصد سیلاب متاثرہ علاقہ رپورٹ نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے عالمی، ملکی اور عوامی سطح پر امدادی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس دوران بعض صاحب اقتدار لوگوں کی جانب سے اسے عذاب الہٰی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ ہر چند سال بعد یہ عذاب الہٰی صرف غریب عوام پر ہی کیوں ٹوٹتا ہے؟

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ملک کو سیلابی پانی نے گھیرا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار سیلاب آئے اور تباہی کی ایک داستان رقم کرکے چلے گئے۔ اس وقت بھی مسندِ اقتدار پر براجمان افراد نے پھرتیاں دکھائیں، امدادی سرگرمیاں ہوئیں، بین الاقوامی امداد آئی، پھر وقت گزرا اور سب لوگ حسب روایت بھول بھال کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہوگئے لیکن یہاں جن کی ذمے داری تھی یعنی صاحبان اقتدار، انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کیلیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی۔

    مون سون کے آغاز سے کئی ماہ قبل ہی محکمہ موسمیات نے فروری، مارچ میں حکومت سمیت ریلیف کے تمام اداروں کو آگاہ کردیا تھا کہ اس بار ملک میں مون سون نہ صرف طویل ہوگا، بلکہ معمول سے کئی گنا زائد اور شدید طوفانی بارشیں ہوسکتی ہیں، جس سے شہری و دیہی علاقے سیلاب کی زد میں آسکتے ہیں اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پیشگوئی کے بعد حکومت اور اس سے جڑے ادارے حرکت میں آجاتے اور پیشگی اقدامات شروع کردیتے تو شاید تباہی آج اپنی انتہا پر نہ ہوتی اور آسمان سے برستا جل اس ملک کے غریبوں کے لیے شاید فرشتہ اجل ثابت نہ ہوتا، لیکن اس وقت تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کرسی، سیاست، اکھاڑ پچھاڑ تھی تو اس جانب کیا توجہ دی جاتی۔

    جون میں برساتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو جولائی تک ملک کے بیشتر حصوں میں پھیل گیا طوفان اور سیلاب نے سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کو اپنا ہدف بنایا جہاں ہر چیز خس وخاک کی طرح اس سیلابی ریلے میں بہہ گئی، لیکن یہ ہماری روایتی بے حسی کہہ لیں جب بلوچستان ڈوب رہا تھا، لاشیں کیچڑ میں لت پت مل رہی تھیں، ماؤں کے سامنے ان کے بچے سیلابی ریلوں میں بہہ کر جارہے تھے اور وہ اپنے جگر گوشوں کو بچانے کیلیے کچھ بھی نہیں کر پارہے تھے، اس وقت بھی ہمارا معاشرہ روایتی بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہا تھا جب کہ میڈیا بھی سیاسی رنگینیوں کی داستانیں سناتے ہوئے تھک نہیں رہا تھا، سیلاب کی تباہی پر حکومت وقت کی نظر اس وقت پہنچی جب پانی اپنی راہ بدل کر سندھ اور جنوبی پنجاب میں داخل ہورہا تھا اس کے بعد جب پانی خیبر پختونخوا میں بپھرا تو انسانی جانوں کے ساتھ وادی سوات کا سارا حسن بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

    یہ تباہی اتنی بڑی تھی کہ صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرنی پڑی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اقوام عالم سے پاکستان کی امداد کی اپیل کرچکے۔ چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، ایران، امریکا، کینیڈا، قطر سمیت دیگر ممالک نے انسانی بنیادوں پر مدد شروع کر بھی دی اس کے ساتھ حکومت سمیت پاک فوج، رینجرز، دیگر اداروں نجی سطح پر بھی امداد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی تھون کرکے دنیا بھر سے ساڑھے پانچ ارب سے زائد رقم جمع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دعوت اسلامی، جے ڈی آئی، الخدمت فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، تحریک لبیک پاکستان سمیت دیگر سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور لوگ انفرادی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ آج ملک میں جو تباہی پھیلی ہے یہ یقیناً قدرتی آفت تو ہے لیکن کیا حکومت جس کی بنیادی ذمے داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے، کیا وہ اس آفت سے نمٹنے کیلیے پیشگی اقدامات نہیں کرسکتی تھی؟ کہ اگر اس سے مکمل بچا نہ جاسکتا تھا تو نقصان کا حجم کم تو کیا جاسکتا تھا یا کم از کم ایسے اقدامات کیے جاسکتے تھے کہ جس سے انسانی جانوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

    یوں تو چاروں صوبے ہی کسی نہ کسی طرح سیلاب سے متاثر ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان میں جو المیے جنم لے رہے ہیں اس سے ہر حساس دل تڑپ رہا ہے، یہ دور سوشل میڈیا کا ہے جہاں کوئی بات چھپ نہیں پاتی ہے، ملکی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایسے ایسے المناک مناظر سامنے آرہے ہیں جسے دیکھنے والی ہر انسانی آنکھ نم ہورہی ہے۔ الہٰی یہ کیسی تباہی ہے کہ جنازے تو ہیں لیکن انہیں دفنانے کیلیے خشک زمین میسر نہیں، لیکن ان حالات میں جب کروڑوں لوگ بے کس و بے بس بنے ہوئے ہیں اس ملک میں ضمیر فروشوں کی بھی کمی نہیں ہے، اول تو اشیائے ضرورت دستیاب نہیں ہیں اگر ہیں تو ان کی قیمتیں اتنی بلند کردی ہیں کہ آسمان بھی اس کے آگے نیچا دکھائی دینے لگا ہے، صرف اسی پر بس نہیں ضمیر فروش ملنے والی امداد پر بھی قابض ہورہے ہیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں وائرل ہوکر اس ملک کا مذاق بنوا رہی ہیں۔

    اس وقت سیلاب متاثرہ لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھوک اور پیاس، کپڑے، سر چھپانے کیلیے عارضی پناہ گاہیں ہیں کئی رپورٹس کے مطابق بعض جگہوں پر تو سیلاب متاثرین بے لباس بیٹھے ہیں، اس سے زیادہ حیوانیت کہاں ملے گی کہ جب ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر تھا وہاں انسانیت کے دعویدار حیوان نما انسان بنت حوا کی روٹی کے بدلے عزت اتار رہے ہیں سانگھڑ میں ایک خاتون کو راشن دینے کے نام پر دو دن تک اس کی عصمت دری کی گئی میڈیا میں خبر آنے پر ملزمان پکڑے گئے لیکن کیا اس قیامت خیز منظر نامے میں ایسا انسانیت سوز واقعہ ہونا چاہیے تھا؟ وزرا، سیاستدانوں اور وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کیلیے عارضی بند بناکر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی جانب موڑ دیا جس نے تباہی میں مزید اضافہ کیا۔

    حکومت اور سیاستدانوں کی بے حسی کے کیا کہنے کہ جب سیلاب بلوچستان میں پوری طرح تباہی پھیلا رہا تھا اور وہاں موت رقصاں تھی تو یہاں ہمارے عوام کے ہمدرد حکمراں جشن آزادی کے نام پر ناچ گانا دیکھنے میں مصروف تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں کیا، جیسے جیسے سیلاب کا دائرہ کار اور تباہی بڑھتی گئی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی بھی بڑھتی گئی۔ لوگ ڈوب اور ایک ایک روٹی کو ترس رہے تھے، ایسے وقت میں ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف 25 رکنی وفد کے ساتھ 65 ویں کامن ویلتھ کانفرنس میں شرکت کیلیے کینیڈا گئے، لیکن میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس میں سے نصف اراکین نے تو یہ کانفرنس اٹینڈ ہی نہیں کی بلکہ فیملی کے ساتھ سیر سپاٹے اور لگژری زندگی کے مزے لیتے رہے۔ خود راجا پرویز اشرف کے وفد کے ہمراہ اور نیاگرا فال کے نظارے دیکھنے اور پرتعیش ہوٹلوں میں لذیذ کھانے کھانے کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی رہیں۔ اسی دوران وزیراعظم دورہ قطر پر تشریف لے گئے 40 رکنی وفد کے ہمراہ یہ دورہ تین روزہ تھا جس پر عوام کا ہی پیسہ خرچ ہوا اگر ایسے وقت میں یہ دورہ ضروری بھی تھا تو مختصر وفد کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ عوام پر موت کے سائے بڑھتے جا رہے تھے اور مولانا فضل الرحمٰن لاؤ لشکر کے ہمراہ ترکیہ کے نجی دورے پر تھے جس کا مقصد تو صوفی بزرگ شیخ محمود آفندی کے انتقال پر تعزیت کرنا تھا لیکن ان کی وہاں ایک فیری میں تفریح کی تصویریں میڈیا پر چلیں تو پتہ چلا کہ وہ وہاں تفریح کرکے سیلاب متاثرین کا غموں کا مداوا کر رہے ہیں۔

    صرف یہ نہیں بلکہ جو سیاسی رہنما سیلاب زدہ علاقوں میں گئے بھی تو وہاں اپنے طرز عمل سے ان کی اشک شوئی کے بجائے زخموں پر نمک ہی چھڑکا، پی پی کے ایک صوبائی وزیر منظور وسان جو خواب دیکھنے کے ماہر ہیں انہوں نے جاگتی آنکھوں سیلاب زدہ علاقے کو اٹلی کے شہر وینس سے تعبیر کر ڈالا، ایک ایم این اے امیر علی شاہ شاہانہ انداز میں پلنگ پر بیٹھے اور منرل واٹر سے جوتے دھوتے نظر آئے، آصف زرداری کے بہنوئی اور فریال تالپور کے شوہر نے تو سیلاب متاثرین میں 50 پچاس روپے تقسیم کرکے اس کی ویڈیو بھی بنوائی۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ حکمراں طبقے نے بجائے اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے اسے عذاب الہٰی سے تعبیر کیا اور سندھ کے کئی وزرا کی جانب سے اسے عوام کے گناہوں کا ثمر قرار دیا گیا۔

    شاید حکمرانوں اور سیاستدانوں کے یہی حاکمانہ ذہنیت کے طرز عمل تھے کہ گزشتہ 5 دہائیوں کے مسلسل جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گزشتہ 14 سال سے سندھ کے اقتدار پر مسلسل براجمان پی پی پی کے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں نے ان کی آنکھیں کھول دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے سیلاب زردگان نے متاثرہ علاقوں میں آنے والے حکمرانوں کا گھیراؤ شروع کردیا پھر چاہے وزیراعظم شہباز شریف ہوں، یا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہوں یا قائم مقام گورنر سراج درانی یا پھر سندھ کے دیگر وزرا، غریبوں نے انہیں آئینہ دکھانا شروع کیا تو لاڑکانہ، دادو، سکھر، خیرپور، ٹھٹھہ، نوشہروفیروز سمیت تمام سیلاب متاثرہ علاقوں میں ان ہی حکمرانوں کو زمین پر اترنا دشوار ہوگیا لیکن ستم یہ ہوا کہ وڈیرانہ سوچ کے حامل حکمرانوں نے بجائے ان نازک حالات میں ان کی داد رسی کرنے کے اپنی بے کسی کا اظہار کرنے پر ان کے خلاف ہی مقدمات درج کرا دیے اور سکھر میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے بعد 100 سے زائد نامعلوم سیلاب متاثرین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

    سیلاب متاثرین کے مصائب اور ان کی مشکلات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی امداد کے اعلانات ہی کافی نہیں‌حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے رویے اور طرز عمل سے بھی خود کو مصیبت کی اس گھڑی میں عوام کا حقیقی ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کرنا ہو گا۔

    bostancı escort bayan
    ümraniye escort bayan
    ümraniye escort
    anadolu yakası escort bayan
    göztepe escort bayan
    şerifali escort
    maltepe escort
    maltepe escort bayan
    tuzla escort
    kurtköy escort
    kurtköy escort bayan

  • غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ سیاست میں اخلاقی گراوٹ تو پہلے بھی تھی، لیکن اب یہ معاملہ ناشائستہ زبان اور نامناسب بیانات تک محدود نہیں‌ رہا بلکہ بات نازیبا اشاروں تک جا پہنچی ہے۔

    سیاسی قیادت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے لیکن آج ہماری سیاست میں جو لب و لہجہ اختیار کیا جارہا ہے اور ہمارے سیاست دان جس قسم کی سطحی زبان استعمال کرنے لگے ہیں اس کی مذمت میں‌ شرم ناک کا لفظ برتنا بھی کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تندوتیز لہجہ اختیار کرنے کے ساتھ بدزبانی اور بداخلاقی کو بھی سیاست میں نام بنانے اور توجہ حاصل کا ذریعہ تصور کیا جانے لگا ہے۔

    آج تمام مخالف جماعتیں عمران خان کو سیاست میں اخلاقی گراوٹ کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں اور ان کا اشارہ چند سال قبل دھرنے میں کنٹینر سے بلند ہونے والے "اوئے” کی جانب ہوتا ہے، لیکن کیا ملک کی سیاسی اخلاقیات کی بربادی صرف اسی ایک لفظ "اوئے” سے شروع ہوتی ہے؟ اس کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔

    قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایک موقع پر ہنگامہ آرائی بڑھی اور کرسیاں چل گئیں۔ ڈپٹی اسپیکر زخمی ہوئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی ایک دو مثالوں سے قطع نظر اسمبلیوں میں طویل تقریروں، سرکاری دعوؤں، اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں، محرومیوں اور ناانصا فیوں کی شکایتوں کی بازگشت تو ضرور معمول تھی مگر گالم گلوچ کا اس کوچے سے گزر نہیں ہوتا تھا۔

    لیکن پھر 1965 کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہر سچے اور دردمند پاکستانی کو رلا دیا۔ اس صدارتی انتخاب میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مدمقابل آئیں تو سرکاری مشینری نے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جا چکا تھا، سو مادر ملت بھی غدار قرار پائیں۔ ایوب خان نے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ بھی لیا۔

    ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔

    اسی حوالے سے ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ‘فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان’ اور اس وقت کے اخبارات کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ‘نسوانیت اور ممتا سے عاری’ خاتون قرار دیا تھا۔ یہ شاید وہ لمحہ تھا جب پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکلا لیکن پھر اس وقت ایوب کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی کیا۔ ایوب خان کی صدارتی مہم کے دوران مادر ملت سے متعلق نامناسب الفاظ کہنے کے علاوہ پاکستان کے بڑے سیاسی لیڈروں اور اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے میں پیش پیش رہے۔ یوں سیاست میں اخلاقی گراوٹ بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو لگتا ہے کہ شعلہ بیاں ہونے کے ساتھ ساتھ بداخلاقی بھی ایک سیاست دان کی خوبی گنی جاتی ہے جس پر ملک کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ گومگو کی کیفیت میں ہے کہ جو لوگ ملک اور قوم کی ترجمانی کے دعوے دار ہیں کیا وہ اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کرسکتے ہیں؟

    اس وقت کے اخبارات کا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو نے مخالف لیڈروں کو مضحکہ خیز نام دیے۔ انہوں‌ نے کسی کو ’اِچھرہ کا پوپ‘ کہا تو کسی کو ’چوہا‘ اور’ڈبل بیرل خان‘۔ 1977 کی پیپلز پارٹی اور پی این اے کی انتخابی مہم اخلاقی گراوٹ کی طرف ایک اور قدم ثابت ہوئی۔ کراچی میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو جب کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو ’آلو‘ قرار دیا گیا۔ پی این اے نے ’گنجے کے سر پر ہَل چلے گا‘ کا نعرہ لگایا۔ واضح رہے کہ اس وقت "ہل” پی این اے کا انتخابی نشان تھا۔ لیکن یہ یکطرفہ نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی مخالفین کی جانب سے بھی بھٹو اور ان کی فیملی کیلیے نامناسب زبان اور غیر اخلاقی نعرے بلند کیے گئے۔

    سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ اس وقت بھی نکلا جب ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد لگ بھگ 10 سال تک پی پی پی اور ن لیگ میں اقتدار کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ جب بینظیر بھٹو پہلی بار 1988 میں ملک کی وزیراعظم بنیں اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حکمراں ہونے کا اعزاز حاصل کیا تو ان کی اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کی تصاویر میں جعلسازی کے ذریعے اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک سمیت کیا کیا نام نہیں دیے گئے جس نے قوم کو ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہونے والی مہم کی یاد دلا دی۔

    شیخ رشید جو آج عمران خان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں 90 کی دہائی میں یہ نواز شریف کے قریب ترین رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے اس دور میں اسمبلی فلور پر بینظیر بھٹو کے بارے میں انتہائی عامیانہ الفاظ کہہ کر ان کی کردار کشی کی کوشش کی۔ آج یہی شیخ رشید بی بی شہید کے صاحبزادے بلاول بھٹو کو مضحکہ خیز نام سے پکارتے ہوئے جملے بازی کے ساتھ اپنے سابق قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی کچھ کہنے سے نہیں چوکتے۔

    90 کی دہائی میں مولانا فضل الرحمٰن نے بینظیر بھٹو کے عورت ہونے کو جواز بناکر ان کے اقتدار کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور جب انہیں بینظیر کے اگلے دور میں اقتدار میں شریک کیا گیا تو ان کی مخالف ن لیگ کی صفوں سے انہیں ڈیزل کہا جانے لگا۔

    1999 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے اور دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی میدان سے باہر ہونے پر ان دونوں جماعتوں کو کچھ عقل آئی اور سیاسی اختلافات بھلا کر 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تاہم اقتدار کی ہوس میں اس میثاق کی ساری شقوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور اس میثاق کے کچھ عرصے بعد سے گزشتہ سال تک دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان ایسی ٹھنی کہ الامان الحفیظ، ملک کا سب سے بڑا ڈاکو، زرداری سب سے بڑی بیماری، لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا، پیٹ پھاڑ کر لوٹی رقم نکالیں گے، جیسے اعلانات سرعام کیے گئے۔

    جب مشرف دور میں نجی ٹی وی چینلز کا دور آیا اور ٹاک شوز کا عروج ہوا تو پھر تو گویا سیاست نہیں خرافات رہ گئیں یاد ہوگا کہ ایک نجی ٹی وی کے مقبول ٹاک شو کے دوران اس وقت ق لیگ کابینہ کی وزیر کشمالہ طارق اور پی پی میں نئی نئی شامل فردوس عاشق اعوان کا ٹاکرا ہوا تو بات نیوز روم سے نکل کر بیڈروم تک جاپہنچی۔

    عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور شیخ رشید کی توہین یہ کہہ کر کی کہ میں تو اسے اپنا چپڑاسی بھی نہ بناؤں۔ فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کے لیے مسلسل ’راجکماری‘ اور ن لیگ کے خواتین کے لیے’ کنیزیں ‘کے القاب ایسے مختص کیے کہ آج پی ٹی آئی کے دیگر رہنما اس کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔

    اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے نواز شریف کو بھگوڑا، حمزہ شہباز کے لیے کُکڑی، شہباز شریف کو شوباز شریف اور مریم نواز کیلیے جھوٹوں کی نانی و دیگر نام اور القاب دیے گئے ہیں‌ تو خاموش ن لیگ بھی نہیں رہی اور وہاں سے عمران خان کے لیے فتنہ خان، یوٹرن خان سمیت دیگر تضحیک آمیز نام سامنے آئے۔ فضل الرحمٰن نے یہودیوں کا ایجنٹ کہہ ڈالا بعد میں ان کی اپنی پارٹی کے منحرف رہنما نے بتایا کہ مولانا نے کہا تھا کہ ان کا یہ بیان سیاسی تھا۔

    یہ تو سیاسی میدان میں سوقیانہ پن اور زبان و بیان کے برتنے میں پستی اور بداخلاقی کی چند مثالیں ہیں اگر اس قسم کی غیر اخلاقی زبان اور تضحیک آمیز بیانات کی تفصیل میں‌ جائیں‌ تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ الغرض ہمارے بعض غیر ذمے دار سیاستدانوں نے اپنی قابلِ اعتراض زبان سے معاشرے میں سیاسی کلچر کو جو پراگندہ کیا ہے اس کے برے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس سے معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص نئی نسل متاثر ہورہی ہے جس کا اندازہ آج مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سپورٹرز کے مابین ہونے والی چپقلش سے کیا جاسکتا ہے۔

    نجی چینلوں کے بعد اب سیاسی اخلاقیات کے زوال کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے جس میں سیاستدانوں کے بارے میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثر بڑی جماعتوں نے خود اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے زوال کے اس رجحان کے آگے بند کس طرح سے باندھا جائے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی مل کر اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو نہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

    یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ” ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بلکہ انسان کے کردار سے بنتی ہیں۔” افلاطون کے اس قول کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق و کردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

    ریاستیں جمہوریت سے مضبوط ہوتی ہیں اور جمہوریت میں سیاسی اختلافات ہوتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن غیرذمہ داری اور بداخلاقی اس حسن کو گہنا دیتی ہے۔ قوم سیاستدانوں کی زبان سے عرصہ دراز سے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت سنتی آرہی ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ اب سیاسی جماعتیں ملک کے سیاسی ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے بچانے کیلیے غیر مشروط طور پر آگے آئیں اور اخلاص کے ساتھ آپس میں ایک "میثاق اخلاقیات” پر دستخط کریں۔ سب سے پہلے پارٹی سربراہ خود کو اس کا پابند کرے اور پھر جو بھی اس کے خلاف جائے تو اس کی درپردہ پشت پناہی کے بجائے ایسے اقدام کیے جائیں جس سے ہمارے بارے میں ایک باوقار جمہوری ملک اور قوم کا تاثر دنیا کو جائے۔

    escort
    ataşehir escort
    kadıköy escort
    göztepe escort
    şerifali escort
    göztepe escort
    kartal escort
    maltepe escort
    pendik eskort
    anadolu yakası escort

  • 75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 واں جشنِ آزادی منانے کے لیے پاکستانی قوم جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ گھروں، سڑکوں، گلیوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آگئی ہے اور یہ اہتمام کیوں نہ ہو کہ آزادی کا جشن منانا کسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔

    آزادی کسی قوم کا وہ سرمایۂ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تاب ناک مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، جب کہ غلامی ایک مرض اور غیروں پر بھروسا کرنا وہ عادت ہے جو دلوں کو جوش و جذبے سے محروم اور جذبہ و امنگ سے یکسر خالی کردیتی ہے۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اسی غلامی کو آزادی میں بدلنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا تھا:

    دلِ مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
    کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ

    14 اگست 1947 اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کا نام ابھرا۔ آزادی کی یہ نعمت ہمیں قائداعظم کی قیادت اور ان کے رفقا کی شبانہ روز جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے طفیل نصیب ہوئی تھی۔ دو قومی نظریے اور ایک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا وطن جب معرضِ وجود میں آیا تو اس کے پاس مسائل زیادہ اور وسائل انتہائی کم تھے۔ لیکن مخلص قیادت نے اس وقت کے ایک ناتواں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا اور چند سال میں اسے دنیا کے ایک ایسے ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا جہاں تیزی سے صنعتی ترقی ہورہی تھی۔

    دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، اسٹیل مل، معروف فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان کا شہر کراچی بھی کبھی دنیا میں اپنی مصروف بندرگاہ کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستانی قیادت اگر امریکا جاتی تو وہاں کے حکم راں اور اعلیٰ عہدے دار خود ان کا استقبال کرتے تھے۔ یہ بات شاید کئی قارئین کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہو کہ پاکستان جرمنی سمیت متعدد ملکوں کو قرضے دیتا تھا، لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پاکستان نے ابتدائی دو عشروں میں جو ترقی کی تھی وہ اس طرح ترقیٔ معکوس ثابت ہوئی کہ قرض دینے والا یہ ملک آج خود قرضوں کے جال میں جکڑ چکا ہے اور ہمارے حکم راں کاسۂ گدائی پھیلائے ہوئے ہیں۔ ہم سے کئی برس بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک آج صنعت و حرفت میں ہم سے آگے ہیں اور اپنی معیشت کا عروج دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا میں مشہور ہونے والی اسٹیل مل معیار اور صنعت گری کے اعتبار سے ختم ہوچکی ہے۔ پی آئی اے تباہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ سب سے بڑے نہری نظام اور دنیا کے سب سے بڑے ڈیم والا ملک پانی کی قلت کے مسئلے کا سامنا کررہا ہے اور زرعی زمینیں بھی پانی سے محروم ہیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کو پہلے دہشت گردی کے عفریت نے تاریکیوں میں دھکیلا اور اب حکم رانوں کی ریشہ دوانیوں اور غفلت نے عروسُ البلاد کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند سال کے بعد جو بھی حکم راں رہے ہیں ان میں سے چند کو چھوڑ کر یا تو سب کوتاہ نظر رہے یا پھر ان کی ترجیح ملک سے زیادہ ذاتی مفاد رہا ہے۔ ہمارے اکثر حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلیے کبھی مذہب تو کبھی لسانیت اور صوبائیت کا سہارا لیا۔ ہماری خارجہ پالیسی یہ رہی کہ جس کسی کے پاس اقتدار رہا وہ سات سمندر پار امریکا سے دوستی میں تو ہر حد تک گیا لیکن ہمسایہ ممالک (ماسوائے چین) کے ساتھ تعلقات کو کوئی اہمیت نہ دی۔

    حکومتوں نے ملکی وسائل اور افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے زراعت و صنعت کو فروغ دینے کے بجائے بیرونی قرضوں کا طوق اس قوم کے گلے میں ڈالا۔ قومی صنعت کو فروغ دینے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا اور ہر موقع پر بااختیار و برسر اقتدار طبقے نے اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھا دیا۔ جاگیردار طبقے نے جان بوجھ کر تعلیم کو نظر انداز کیا تاکہ عام آدمی باشعور ہو کر ان کے اقتدار کیلیے خطرہ نہ بن سکے۔ یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی آبیاری کرنے کے بجائے تعلیم کو کمرشلائز کر کے طبقاتی تقسیم کو عروج دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو وراثت میں ڈھال کر جمہوریت کے نام پر خاندانی ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی اور اسی سیاست کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔

    ایک کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر بار بار خون میں نہلایا گیا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی صرف دو مواقع پر ایک قوم نظر آتے ہیں، ایک 14 اگست اور دوسرا کرکٹ میچ۔ وہ بھی بالخصوص بھارت سے مقابلے میں ورنہ اس کے علاوہ کہیں سندھی ہے تو کوئی پنجابی، کہیں پختون ہے، کوئی بلوچی، مہاجر اور کوئی سرائیکی ہے، اگر نہیں ہے تو پاکستانی نہیں ہے۔

    75 برس کے اس سفر میں ہم اپنا ایک بازو گنوا چکے جو اب دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے جب کہ باقی ماندہ پاکستان ہماری اپنی کوتاہیوں، ریشہ دوانیوں، رنجشوں، لسانی نفرت اور مذہبی بنیاد پر تفریق سے نڈھال اور ناتواں ہو چکا ہے جس کی ذمے داری یوں تو من حیث القوم سب پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک پر حکومت اور قوم کی قیادت کی لیکن ہمیں ایک ایسا پاکستان نہیں دے سکے جو دنیا میں ایک باوقار، حقیقی معنوں میں خود مختار اور معاشی طور پر مستحکم ہوتا۔

    یوں تو ہم کہنے کو آزاد قوم ہیں لیکن نہ ہماری معیشت آزاد ہے اور نہ ہی ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل۔ اب ہماری معاشی پالیسی ہمارے قرض خواہ ادارے ہمیں بنا کر دیتے ہیں جن پر من و عن عمل کرنا حکمران وقت کی مجبوری ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی صنعت و حرفت، تعلیم و صحت، فن و ثقافت کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کی کارکردگی کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔

    کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
    ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
    دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی

    پچھتر سال کا وطن عزیز سوال کررہا ہے کہ جس مقصد کیلیے کرہ ارض پر یہ زمین کا ٹکڑا پاکستان کے نام سے حاصل کیا گیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوگیا۔ اس بار قوم یہ جشن آزادی عدم اعتماد کی فضا میں پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کے نعروں کی بازگشت میں منا رہی ہے۔ ملی نغموں کی گونج اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار تو ہر طرف ہے، لیکن کیا صرف سال میں ایک ہی دن جھنڈے لہرانے، جھنڈیاں لگانے، قومی اور ملی نغمے گانے، ریلیاں نکالنے اور حب الوطنی پر مبنی تقاریر کرنا ہی ایک زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے؟

    وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ رک کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوگا اور قیام پاکستان سے اب تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ 75 سال کے آزادی کے اس سفر میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں باوقار انداز سے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اپنے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی قرضوں سے کس طرح نجات ممکن ہے؟ کس طرح چھوٹی چھوٹی اکائیوں کی تقسیم کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر قوم بناسکتے ہیں؟

    آج ملک کے مقتدر اور بااختیار افراد سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بحیثیت قوم سب کو سوچنا ہوگا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ ارضی حاصل کیا تھا۔

    صرف آزادی کا جشن منا لینے سے وطن کی محبّت کا حق ادا نہیں ہوتا، ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ یہ مُلک جتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد نصیب ہوا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور اس سے محبّت کریں۔ قوم، بالخصوص نوجوان نسل میں جبّ الوطنی کو فروغ دینے کے لیے حکومت وقت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور جس کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر انہیں درست سمت اور سازگار ماحول دیا جائے تو وہ اسے مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ قومیتوں، فرقوں کی تقسیم سے نکال کر ایک قوم کی لڑی میں پرویا جائے تو یہ قوت بن کر اغیار کے سامنے سرنگوں مملکت کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتے ہیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پر حقیقی معنوں میں سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایک خودمختار ملک کے طور پر جگمگا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف اور صرف اخلاص کے ساتھ جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔

    احمد ندیم قاسمی کے ایک دعائیہ کلام کے ساتھ اپنے اس بلاگ کا اختتام کرتا ہوں:

    خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
    وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
    یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
    یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
    یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
    اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
    گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
    کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
    خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
    اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
    ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
    کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
    خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
    حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

  • کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    پاکستان مسلم لیگ (ن) نے صوبۂ پنجاب اور اپنے سیاسی گڑھ لاہور میں ضمنی الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کیا اور پھر تختِ پنجاب بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں‌ تو وفاق میں بھی حکم رانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

    انتخابی نتائج اور شکست کے بعد مسلم لیگ ن کی صفوں‌ میں اختلافات اور انتشار واضح ہوتا جارہا ہے۔ سربراہ عوامی لیگ شیخ رشید کے دعوؤں کے مطابق تو ن لیگ میں سے شین اور میم نہیں‌ نکل سکیں، لیکن ایسے ہی حالات رہے تو کہیں مسلم لیگ ن بھی لندن اور پاکستان کے نام سے دو گروہوں‌ میں نہ تقسیم ہوجائے جس طرح متحدہ قومی موومنٹ کو آج ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے۔

    ن لیگ جو ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے اور مخلتف ادوار میں وفاق اور صوبۂ پنجاب کی حکم راں رہی ہے، آج سیاسی میدان میں اس حال کو کیسے پہنچی؟ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں بعض سیاسی کمزریوں اور تنظیمی معاملات میں کوتاہیوں کے علاوہ لالچ اور بے صبری جیسے عناصر کو بھی نظرانداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ بعض سنجیدہ اور باشعور حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری نے ن لیگ کو حکومت کا لالچ دے کر وہاں پہنچا دیا ہے جہاں اسے صرف اور صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    شکار کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ سیاست وہ میدان ہے جس میں شکار ایک لیکن شکاری بہت سے ہوتے ہیں، لیکن یہاں وہی کام یاب ہوتا ہے جو انتہائی زیرک ہو اور اسے شکار کو پھنسانے کے لیے بہترین چارہ استعمال کرنا بخوبی آتا ہو۔

    پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ‌ کے منصب کے لیے سیاسی کھینچا تانی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اب ملک میں سیاسی ماحول خاصا گرم ہوچکا ہے اور تلخی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت ساڑھے تین ماہ میں ہی اس دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔ دورِ عمران سے شریف تک پہنچنے میں ملک میں کیا کچھ ہوا یہ سب نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ تحریک عدم اعتماد عمران خان حکومت کے خاتمے کی بڑی وجہ بنی اور سیاسی مبصرین کے مطابق اس تحریک کی سرخیل ایک ہی جماعت پیپلز پارٹی تھی اور اس کے پیچھے صرف سابق صدر آصف علی زرداری کی ذہانت کار فرما تھی۔

    ایک وقت تھا جب آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے اور بینظیر بھٹو شہید کے شوہر کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں اترے تھے، لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد "ایک زرداری سب پر بھاری” کے مقبول نعرے نے ان کا یہ منفی تأثر زائل کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے سیاسی رابطوں‌ اور فیصلوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں مفاہمت کے بادشاہ مشہور ہوئے اور ان کی یہ شہرت تاحال برقرار ہے۔

    صوبۂ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسی لیے اسے سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد کا 50 فیصد سے زائد صوبہ پنجاب سے منتخب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہاں سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت وفاق میں اقتدار میں آئی ہے۔ یوں مرکز میں‌ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کا پنجاب میں‌ انتخابی فتح حاصل کرنا لازمی ہے۔

    ماضی میں پنجاب سے پیپلز پارٹی بھی اکثریت حاصل کرتی رہی ہے۔ یہیں پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور 1972، 1988، 1993 کے انتخابات میں پنجاب کا میدان مارنے پر ہی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔ لیکن پھر اس جماعت کی سیاست نظریات سے نکل کر مفادات کے گرد طواف کرنے لگی اور جب نظریاتی کارکن بددل ہوکر پارٹی سے دور ہوگئے تو پیپلز پارٹی کی پنجاب پر گرفت بھی کمزور ہوگئی۔ سیاسی میدان میں اس کا بڑا فائدہ ن لیگ نے اٹھایا اور پھر گزشتہ انتخابات کے نتائج دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پی پی پی کے خلا کو بالخصوص جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی نے پُر کیا ہے۔

    1972، 1988، 1993 اور 2008 میں وفاق پر حکومت کرنے والی جماعت کا حال یہ ہوا ہے کہ 1996 کے انتخابات میں پی پی پی ملک بھر میں قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں ہی حاصل کرسکی تھی۔ اس میں پی پی پی کو پنجاب سے ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست پر فتح نہیں ملی تھی۔ 2002 کے الیکشن میں اس کے حصے میں 16 نشستیں آئی تھیں۔ 2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی لیکن یہ الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد ہوئے تھے اور عمومی رائے یہ ہے کہ اس وقت پی پی پی کو ہمدردی کا ووٹ پڑا تھا۔ 2013 کے الیکشن میں پی پی پی پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے صرف 3 پر ہی کام یابی حاصل کر پائی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی یہاں سے بھٹو کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد صرف 6 رہی۔

    اب اگر ان نتائج پر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ مقتدر حلقوں کے آشیر باد کے بغیر کوئی اقتدار میں نہیں آتا اور پی پی پی کو جان بوجھ کر ان الیکشن میں کمزور کیا گیا تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کے غیر جانب دار حلقے 1970 کے الیکشن کے علاوہ تمام الیکشن کو کم یا زیادہ جھرلو ہی کہتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا اعداد وشمار جھرلو الیکشن کا نتیجہ ہیں تو جن ادوار میں پی پی پی اقتدار میں رہی وہ اقتدار بھی تو انہی جھرلو انتخابات کی مرہون منت ہیں۔

    پیپلز پارٹی صدر مملکت، وزارت عظمیٰ سے لے کر اقتدار اعلیٰ کے تمام عہدوں کا لطف اٹھا چکی ہے۔ مگر اقتدار نشہ ایسا ہے کہ جس کے منہ کو لگ جائے، وہ اس کے سرور میں رہنا پسند کرتا ہے۔ بات وہیں آجاتی ہے کہ اقتدار کی مسند تک پہنچنا ہے تو پنجاب کو فتح کرنا ہے، لیکن پنجاب پر اس وقت پی ٹی آئی اور ن لیگ کا غلبہ ہے۔ یہاں فی الحال پی پی پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی، لیکن آصف علی زرداری نے اپنے سیاسی تدبّر اور قیاس آرائیوں کے مطابق "آشیر باد” سے ایک ایسا "کھیل رچایا” جس میں ان کی کام یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے تھے۔

    پیپلز پارٹی کو اس کے لیے بیک وقت دو محاذ سر کرنے تھے۔ یعنی پنجاب سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا صفایا۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے ہٹانا اور پھر ن لیگ کو وقتی طور پر اقتدار میں لانا اسی کھیل کا حصہ تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ صرف پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ پی پی پی کی منزل نہیں تھی کیونکہ اس کا متبادل پنجاب میں ن لیگ اور اس کا ووٹ بینک تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں‌ ہو گا کہ پی پی پی کی قیادت کی خواہش رہی کہ اس بھاری ووٹ بینک کو اگر ختم نہیں تو اس حد تک کم کردیا جائے کہ پی پی پی کا راستہ صاف ہوسکے۔ دوسری طرف گزشتہ حکومت کو درپیش سخت معاشی چیلنجز کا سامنا تھا جب کہ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بیروزگاری عوام کو مارے ڈال رہی تھی۔ یہ وہ حالات تھے جس میں حکومت کی تبدیلی آسان تو تھی لیکن متبادل حکومت کے لیے ملک چلانا آسان ہرگز نہ تھا۔ آصف علی زرداری جانتے تھے کہ ان حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آکر حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا، بلکہ بدترین معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی سے اس کی سیاسی مقبولیت ختم نہیں‌ تو اس کا گراف تیزی سے نیچے ضرور جاسکتا ہے۔ یہ وقت سیاسی چال چلنے کے لیے انتہائی مناسب تھا۔

    واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پہلے ن لیگ کی مدد سے عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پھر اسمبلی کی باقی مدت کی تکمیل تک پی پی پی نے اتحادی رہتےہوئے اقتدار نواز لیگ کے حوالے کر دیا تاکہ ڈیڑھ سال میں عوام پہلے سے زیادہ مصیبت جھیل کر ن لیگ سے بھی متنفر ہوجائیں جس کے بعد اگلے عام انتخابات میں پی پی پی کو میدان صاف ملے۔

    وزارت عظمیٰ کی کرسی ہر سیاست دان کی معراج ہوتی ہے اور جب یہ یوں تھال میں رکھ کر پیش کی جائے تو کون اس پر براجمان ہونے سے انکار کرے۔ اب ن لیگ اسے نومبر میں کسی اہم تعیناتی کا خوف کہیں یا کچھ اور بہرحال اس معاشی بحران میں حکومتی ڈھول انہوں نے اپنی بھرپور رضامندی سے گلے میں ڈالا ہے اور ایک طرف جب ن لیگ کو مہنگائی اور مسائل پر عوام کے شدید غم و غصے کا سامنا ہے، وہاں مخالف سیاسی جماعتوں کے کیمپ میں شادیانے بج رہے ہیں۔

    اقتدار میں آنے کے بعد کئی بار ن لیگ کی صفوں‌ میں سے ہی فوری انتخابات کرانے کی آوازیں اٹھیں بلکہ لندن سے بھی جلد از جلد نئے الیکشن کی طرف جانے کا پیغام آیا۔ شہباز حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ شاید ن لیگ کے لیے زیادہ نقصان دہ نہیں ثابت ہوتا لیکن حکومت کو مدت پوری کرنے پر قائل کرلیا گیا جس کا نتیجہ آج ساڑھے تین ماہ میں ہی سب کے سامنے ہے۔

    آج مسلم لیگ ن کے جو حالات ہیں ان میں‌ بظاہر پی پی پی کا راستہ صاف ہوتا نظر آتا ہے، لیکن اس کھیل میں سب کچھ ن لیگ کی مخالف جماعت کی مرضی کے مطابق نہ ہوسکا۔ اس صورت حال میں پی پی پی کی قیادت کو تشویش بھی ہوگی۔ جب عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا تو پی پی پی کی قیادت کیا خود عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ گمان نہیں ہوگا کہ وہ ملک کی سیاسی تاریخ میں اقتدار کھونے کے بعد مقبولیت کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔

    اقتدار کے ایوانوں کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ پی پی پی کی قیادت چاہتی تھی کہ ن لیگ کی مشکلات بڑھنے کے بعد اگلے الیکشن میں ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنے اقتدار کو یقینی بنایا جائے اور بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرایا جائے۔ لیکن سیاست میں‌ جہاں‌ بروقت فیصلے کام یابی کے امکانات روشن کرتے ہیں‌، وہیں یہ قسمت کا بھی کھیل ہے۔

    عمران خان اس معاملے میں قسمت کے دھنی نکلے ہیں اور ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے سیاست کے میدان میں‌ فتح کے کسی بھی منصوبے کو فی الحال تو دفن کر دیا ہے۔ اگر ان حالات میں الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کے بیانیے کی جیت کے امکانات روشن ہیں اور مخالفین کا ہر خواب چکنا چور ہوتا نظر آتا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے اور سیاست میں‌ بالخصوص پاکستانی سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔

  • سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے اتوار 22 جولائی کو کراچی، حیدر آباد اور ٹھٹھہ میں پولنگ جب کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست 245 پر ضمنی انتخاب بھی 26 جولائی کو ہونا تھا جو اچانک ملتوی کر دیا گیا۔

    بلدیاتی الیکشن سے صرف تین روز قبل جب تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، رات گئے اچانک میڈیا پر بلدیاتی اور ضمنی الیکشن ملتوی کیے جانے کی خبر نشر ہوئی اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ شیڈول کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ اس نئے شیڈول کے مطابق اب این اے 245 پر ضمنی الیکشن 21 اگست جب کہ بلدیاتی الیکشن 28 اگست کو ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابات کے اچانک التوا کی وجہ متوقع بارشیں بتائی ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر دو بڑی جماعتوں پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی نے اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک التوا کی وجہ خراب موسم ہے یا پھر کچھ اور؟

    اگر متوقع بارشیں ہی اس کی اہم اور واحد وجہ ہیں تو محکمہ موسمیات سمیت دیگر ادارے تو رواں سال کے آغاز سے ہی کئی بار یاد دہانی کراچکے کہ اس سال ملک بھر بالخصوص زیریں سندھ میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ تو جب یہ پیشگوئی کئی ماہ پہلے ہی ہوچکی تھی تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ مون سون کے اس موسم میں انتخابات شیڈول کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پہلے الیکشن شیڈول کا اعلان کر کے کروڑوں روپے انتظامات پر خرچ کیے گئے اور اب صرف 3 روز قبل یہ کہہ کر ملتوی کر دیے گئے کہ بارشوں کا طوفانی اسپیل آ رہا ہے اس لیے الیکشن ممکن نہیں ہوسکیں گے۔ اس اچانک التوا سے ہی ایک رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا اور دوبارہ الیکشن کے انتظامات کے لیے الیکشن کمیشن کو تقریباً 20 کروڑ روپے اضافی خرچ کرنا پڑیں گے۔ اس موقع پر سوال تو یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ درست ہے؟

    متنازع ماحول میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن (متنازع اس لیے کہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایم کیو ایم کا ایک کیس سپریم کورٹ میں ہے اور اس کا موقف ہے کہ حلقہ بندیاں درست کیے بغیر بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جائیں، تاہم اس درخواست کے باوجود ایم کیو ایم انتخابی میدان میں موجود ہے) ان حالات میں ہو رہے تھے کہ جب شہر قائد حالیہ برساتوں کے بعد تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بارشوں کے ایک ہی اسپیل نے عروس البلاد کہلانے والے شہر کی رونقیں ایسی اجاڑیں کہ سڑکیں جو پہلے ہی خستہ حال تھیں اب کھنڈر کا نمونہ پیش کررہی ہیں۔ نکاسی آب کے ناقص نظام نے اس برسات میں قیمتی جانوں سمیت شہریوں کی قیمتی املاک بھی تباہ کیں۔

    جب ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی بدترین حالات سے گزرے بلکہ گزر رہے ہوں۔ سڑکیں کھنڈر، گلیوں شاہراہوں پر کھڑا پانی لیکن نلکے خالی، صفائی کا ایسا نظام کہ جہاں جاؤ خوشبو کے جھونکے پاؤ۔ ان حالات میں "سندھ ہمارا ہے” کی دعوے دار پی پی پی جس کے پاس بلاشرکت غیرے 14 سال سے سندھ کی حکمرانی ہے اور "کراچی ہمارا ہے” کی دعوے دار ایم کیو ایم جن کے وسیم اختر گزشتہ میئر کراچی تھے کیسے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے کہ نہ سندھ ہمارا ہے کہ دعویداروں نے کبھی اس شہر کے حالات سدھارنے پر اخلاص سے توجہ دی اور نہ ہی شہر پر اپنا حق جتانے والی جماعت ایم کیو ایم اصل معنوں میں اس شہر کے باسیوں کی پُرسان حال بنی۔

    اب اگر کوئی یہ کہے کہ گزشتہ میئر کراچی ایم کیو ایم کا تھا لیکن بااختیار نہ بلدیاتی نظام تھا اور نہ ہی میئر تو یہ بات تو 100 فیصد درست ہے۔ حقیقت ہے کہ اس معاملے پر چند ماہ قبل تک ایم کیو ایم بڑی شدومد کے ساتھ احتجاج بھی کرتی رہی اور سندھ حکومت پر الزامات بھی عائد کرتی رہی، لیکن پھر اچانک اسی سندھ حکومت کی اتحادی بن گئی جس نے اس کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا کہ جو جماعت چند روز تک جس کے خلاف احتجاج پر تھی وہ اچانک ہم نوالہ اور ہم پیالہ کیسے ہوگئی؟ یہ مفادات کا ہی کھیل تھا کہ چند ماہ قبل باہم دست و گریباں سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے گلے مل گئیں۔

    یہ تو تھی سندھ اور کراچی پر حق جتانے والی دو بڑی جماعتوں کی کارکردگی لیکن الیکشن ملتوی ہونے کی اصل وجہ صرف یہ نہیں تھی بلکہ حال ہی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کی عبرت ناک شکست اور سب کی مشترکہ حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف کی شاندار فتح بھی اور کرتا دھرتاؤں کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ جھاڑو یہاں سندھ میں بھی نہ پھر جائے۔ اس خدشے کا سب سے بڑا سبب گزشتہ ماہ کراچی کے حلقے این اے 240 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ بھی ہے جو موجودہ سیاسی صورتحال کو زیادہ واضح کرتا ہے۔ وہاں گو کہ ایم کیو ایم کے امیدوار نے فتح حاصل کی لیکن یہ فتح انتہائی کم مارجن کے ساتھ تھی اور ایم کیو ایم کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس کے قطعی شایان شان نہیں تھی۔ یہاں دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت تحریک لبیک کا امیدوار ایم کیو ایم کے فاتح امیدوار سے 60 سے 65 ووٹوں سے ہی پیچھے رہا۔ یہ فرق بھی دیکھ لیں کہ یہاں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی میدان میں نہیں تھی اور یہاں ووٹرز ٹرن آؤٹ 15 فیصد کے لگ بھگ تھا جب کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے مساوی 50 فیصد کے قریب رہا۔

    انتخابات ملتوی ہونے کے بعد جہاں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں الیکشن کمیشن کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہیں تو وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہے وہ سب کے سامنے کچھ بھی کہیں لیکن دونوں اس التوا پر خوش ہیں۔

    اب محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارشیں اس شدت سے برستی بھی ہیں یا نہیں لیکن الیکشن تو ملتوی کردیے گئے ہیں۔ کراچی میں سالوں بعد جو انتخابی ماحول گرم ہوا تھا، وہ ٹھنڈا ہونے کے بعد شہر کی سیاسی فضا میں گھٹن اور حبس بڑھ گیا ہے۔ ملک کو 65 فیصد سے زائد ٹیکس دینے والے شہر کراچی اور اس کے شہری اب حقیقی مسیحائی چاہتے ہیں اب تک اس شہر کو کئی میئر اور مقامی نمائندے مل چکے ہیں جو اس شہر کے بیٹے ہونے کے دعویدار تو تھے، لیکن تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں وہ اس شہر اور یہاں کے باسیوں کو کچھ نہیں دے سکے۔

  • ن لیگ کو ہوم گراؤنڈ پر "تاریخی شکست”، کیا شریف خاندان کے "بچے” ناکام ہوگئے؟

    ن لیگ کو ہوم گراؤنڈ پر "تاریخی شکست”، کیا شریف خاندان کے "بچے” ناکام ہوگئے؟

    بالآخر وہ معرکہ انجام پایا جس کا پورے ملک میں شور تھا، یعنی 17 جولائی کو پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوگئے۔

    اس ضمنی الیکشن سے قبل ملک بھر میں گھر ہو یا دفتر، دوستوں کی محفل ہو یا کاروباری ملاقات اور بات چیت، شادی کی تقریب ہو یا جنازے کا اجتماع ہر جگہ صرف ایک ہی بحث ہورہی تھی کہ 17 جولائی کو کیا ہوگا؟ عوام نے تو اب اپنا فیصلہ سنا دیا لیکن جو فیصلہ عوام کی جانب سے سنایا گیا ہے وہ حکومت اور اس کی 12 اتحادی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اور کسی کو بھی معمولی سا گمان نہیں تھا کہ ن لیگ اپنے صوبے میں اس عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگی۔ 2 روز قبل ہونے والی اس شکست پر 48 گھنٹوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ہر شخص نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ہم اس بلاگ میں ن لیگ کی اس حیران کن اور تاریخی شکست کی وجوہات پر لب کشائی سے قبل نوجوان نسل کو بتا دیں کہ ن لیگ کا حال ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ملک میں صرف ن لیگ ہی ن لیگ تھی۔

    یہ 1996 کی بات ہے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سیاست میں تاریخ رقم کرتے ہوئے ملک بھر سے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ دوسری بار اسلام آباد میں اپنی حکومت بنائی اور نواز شریف نے دوسری بار وزیراعظم کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس دو تہائی اکثریت پر مختلف سوالات اٹھائے گئے لیکن سیاست میں کامیابی بڑی ہو یا چھوٹی سوالات اٹھائے جانے کا رواج رہا ہے۔ لہذا ان سوالات سے صرف نظر یہ ن لیگ کی سب سے بڑی کامیابی تھی جب وہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر حکومت میں آئی تاہم وہ اس دو تہائی اکثریت کا بوجھ زیادہ عرصہ نہیں اٹھاسکی اور خود اپنے ہی من مانے فیصلوں کے بوجھ تلے دب گئی۔ لیکن 1996 میں پاکستان کی سیاست میں ایک یہی تاریخ رقم نہیں ہوئی بلکہ لگ بھگ اسی سال ملک کے سیاسی نقشے پر ایک نئی جماعت "تحریک انصاف” کے نام سے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی قیادت میں قائم ہوئی۔ لیکن صرف 26 سال کے مختصر عرصے میں، مختصر اس لیے کہ انفرادی زندگی میں یہ عرصہ ایک طویل عرصہ گردانا جاتا ہے لیکن سیاست اور قوموں کی تاریخ میں 26 سال کا عرصہ مختصر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ صرف 26 سال قبل قائم ہونے والی سیاسی جماعت نے ایسا کیا کیا کہ اس نے اپنی سیاسی پیدائش کے وقت کی سب سے مقبول عام جماعت کو اس انجام سے دوچار کردیا۔

    پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق 15 نشستیں پی ٹی آئی نے حاصل کیں۔ 4 ن لیگ اور ایک آزاد امیدوار کے حصے میں آئی جس میں ن لیگ کی پی پی 7 پنڈی کی ایک نشست پر ابھی سوالیہ نشان ہے کہ اس کو پی ٹی آئی کے امیدوار نے چیلنج کیا ہوا ہے اور اس پر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رکھی ہے جس پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس سیٹ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اس وقت نمبر گیم میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی ق لیگ کے پاس 188 ووٹوں کے ساتھ اپنا وزیراعلیٰ یعنی چوہدری پرویز الہٰی کو لانے کے لیے نمبر گیم پورا ہے۔ جب کہ ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس 179 نمبرز ہیں۔ بہرحال ضمنی الیکشن کا نتیجہ مسلم لیگ ن جیسی جماعت جس کو لیگی رہنما ملک کی سب سے بڑی جماعت گردانتے ہیں اس کے ہرگز ہرگز شایان شان نہیں اور وہ بھی اس صورتحال میں کہ جب یہ الیکشن پی ٹی آئی بمقابلہ 13 اتحادی جماعتوں کے درمیان ہو۔ حکومت بھی اپنی ہو، انتظامیہ بھی ماتحت اور پی ٹی آئی الزامات کے مطابق الیکشن کمیشن بھی پارٹی بنا ہوا ہو۔

    نتائج کا غیر سرکاری اعلان ہونے کے بعد جتنے منہ اتنی ہی باتیں اکثر اسے عمران خان کے سازشی تھیوری اور رجیم چینج بیانیے کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پنجاب کے نتائج پر عمران خان کا یہ بیانیہ بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اسے صدق دل سے قبول بھی کیا لیکن کیا یہی ایک وجہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فتح اور شکست کا پیش خیمہ ہر دو فریق کی فہم وفراست اور نااہلی اور کوتاہی ہوتی ہے۔ اگر ہم یہاں صرف عمران خان کے بیانیے کو فتح گر جانیں تو یہ حقیقت کے منافی ہوگا۔

    اگر ہم یہاں شکست خوردہ مسلم لیگ ن کی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں تو ایک طویل فہرست نظر آتی ہے مختصراً یہ کہ ن لیگ جو سابق وزیراعظم نواز شریف کی برطرفی اور سزا کے بعد اینٹی اسٹبلشمنٹ اور ووٹ کو عزت دو کے ساتھ عمران خان کو "سلیکٹڈ” کے طعنے کا بیانیہ لے کر چلی تھی اور عوام بھی اس کی ہمنوا ہو رہی تھی بالخصوص پنجاب کی جس کا نمایاں اثر عمران دور حکومت میں اس بڑے صوبے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی سامنے آیا جب ن لیگ نے تواتر سے پی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن پھر رواں سال اپنے اسی بیانیے سے یوٹرن لیا اور اینٹی اسٹبلشمنٹ جماعت کے طور پر عوام میں اپنا امیج بنانے والی جماعت اسٹبلشمنٹ کے گن گانے لگی۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس وقت ہی دفن کردیا جب اس نے وفاق میں اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ہوس اقتدار میں پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے ووٹوں کو عزت دینے کے بجائے لالچ کے ترازو میں تولنا شروع کیا۔ ن لیگ نے یوں سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت قائم کر لی جو اب ان نتائج کے مطابق صرف دو دن کی مہمان لگتی ہے۔ رہا سلیکٹڈ کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس کو تار تار یوں کیا کہ مخالف کو سلیکٹڈ بولنے والی خود سلیکٹڈ بن گئی۔

    اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو شاید نتیجہ یکسر مختلف نہ ہوتا تو کچھ بہتر ضرور ہوتا مگر نہ جانے کیا سوجھا کہ ن لیگ نے اپنی پرانی اس مقامی قیادت کو جو سالوں تک ان حلقوں سے الیکشن لڑ کر ایوانوں میں مسلم لیگ ن کا علم بلند کرتے رہے اور اپنے دیرینہ ووٹرز، سپورٹرز کو نظر انداز کرکے 20 میں سے 18 نشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف جنہیں اب ملک کے طول وعرض میں لوٹوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے انہیں ٹکٹ دیا۔ جس نے پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکنوں میں مایوسی کو جنم دیا اور یوں ن لیگ کے اپنے سیاسی یوٹرن اسے ہی لے ڈوبے جس کا اعتراف کئی ن لیگی رہنما کرچکے کہ عوام نے ن لیگ کو نہیں لوٹوں کو مسترد کیا ہے۔

    دوسری اہم وجہ ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کا عمران حکومت کے دوران ہونے والی مہنگائی اور بدانتظامی پر شور مچانا تھا۔ جب یہ حکومت میں آئے تو عوام کی ان سے توقعات بجا تھیں کہ جن باتوں پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں شور ڈالتی تھیں اب خود اقتدار میں اس کا تدارک کرتے ہوئے عوام کو کچھ ریلیف دیں گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ ریلیف کیا ملنا تھا الٹا عوام کو دن میں تارے دکھا دیے مہنگائی کی صورت میں۔

    ن لیگ کے قائد نواز شریف "علاج” کے لیے لندن میں ہونے اور پارٹی صدر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہونے کے باعث انتخابی مہم کے لیے دستیاب نہ تھے اس لیے پنجاب ضمنی الیکشن کے لیے مہم چلانے کا تاج ایک بار پھر ن لیگ نے مریم نواز کے سر سجایا۔ یہ تیسری باری تھا جب انہیں یہ اہم ذمے داری ملی لیکن جس طرح انہوں نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر الیکشن میں جلسے اچھے کیے لیکن ن لیگ کو ناکامی ملی اسی طرح پنجاب ضمنی الیکشن میں یہ تیسرا اسائنمنٹ بھی مریم نواز نے بری طرح سے ہار کر ثابت کردیا کہ وہ بڑا عوامی مجمع تو اکٹھا کرسکتی ہیں لیکن پولنگ کے دن ووٹر کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک لانے کی صلاحیت ابھی ان میں کم ہے۔ ایک وجہ ان کا بیانیہ بھی رہا جو بدل کر انہوں نے "خدمت کو ووٹ دو” اسی دوران حمزہ شہباز بھی سرگرم رہے گوکہ وہ وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے علی الاعلان تو انتخابی مہم کا حصہ نہ بنے لیکن وقتاً فوقتاً عوامی ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے مریم نواز کا ہاتھ بٹانے کی ضرور کوشش کی صرف یہی نہیں بلکہ ایاز صادق، اویس لغاری سمیت کئی وزرا کو انتخابی مہم چلانے کے لیے مستعفی کرایا لیکن الٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ استعفوں نے کام کیا کے مترادف نتائج حسب توقع نہ آسکے۔ ن لیگ نے جس طرح ان ڈھائی تین ماہ میں عوام کی خدمت کی تو عوام نے بھی ادھار نہ رکھا اور اس کا بھرپور جواب انہیں دے دیا۔

    کیونکہ پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن کی ذمے داری شریف خاندان کے ان ہی "بچوں” کے سر پر تھی تو ناکامی کے ذمے دار بھی یہ "بچے” ہی گردانے جائیں گے۔ اب ملک کی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا تاہم بلاگ تحریر کیے جانے تک 13 جماعتی حکومتی اتحاد نے یہ تو طے کرلیا تھا کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی۔

    سیاسی تجزیہ کار پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی کو 2018 کے عام انتخابات کی کامیابی سے بڑا مان رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ 2018 کے نتائج پر مخالفین کو اعتماد نہیں تھا لیکن یہ نتائج تو پی ٹی آئی کی تمام مخالف جماعتیں تسلیم کر رہی ہیں اسی کے ساتھ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حکومت کے پاس نئے الیکشن میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ عمران خان کے پاس ملک کا سب سے بڑا صوبہ آچکا ہے اور وہ جو پہلے ہی مزاحمت کی سیاست بھرپور انداز میں چلا رہے ہیں اب حکومت پر اپنا دباؤ مزید بڑھائیں گے۔

  • کراچی ہوا پانی پانی، سب نے سنائی اپنی کہانی

    کراچی ہوا پانی پانی، سب نے سنائی اپنی کہانی

    اس بار مون سون کا آغاز ہی کراچی جیسے بڑے شہر میں‌ بڑی بربادی اور نقصانات کا سبب بن گیا ہے اور اب محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ سندھ کے مشرقی علاقے سے ایک اور سسٹم داخل ہوچکا ہے جو کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی اور جنوبی علاقوں میں تیز بارش کا سبب بن سکتا ہے۔

    ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو ایک بار پھر کراچی پر رحمتِ خداوندی برس رہی ہو، جو متعلقہ اداروں کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے زحمت بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ یعنی اب سب ہی برسات کے "مزے” اور آفٹر شاکس اور آفٹر شاکس کا مزا چکھنے والے ہیں آفٹر شاکس اس لیے کہا کہ ہمارے ہاں بارش جو تباہی لاتی ہے اس کے آفٹر شاکس کئی روز بعد تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ ویسے محکمہ موسمیات کی موسم کی پیشگوئی اور شیخ رشید کی سیاسی پیشگوئی کا ایک ہی حال ہے کہ پوری ہوگئی تو ہم نے کہا تھا نا، نہ ہوئی تو پھر ” جو اللہ کو منظور، میں کی کراں یا سانوں کی” کی صورتحال ہوتی ہے۔ بہرحال یہاں بات ہو رہی تھی بارش کے ایک اور طوفانی سسٹم کے کراچی میں آنے کی تو یہاں ایک ہی سسٹم نے پہلے ہی کراچی والوں کی سانسیں اوپر چڑھا دی ہیں بلکہ کئی علاقوں میں تو عوام کو چھتوں پر چڑھا دیا کہ نیچے تو ہر طرف پانی ہی پانی کا راج تھا بلکہ کئی علاقوں میں اب تک اس کا راج باقی ہے یہ الگ بات ہے کہ متعلقہ اداروں کی غفلت سے یہ رحمت کروڑوں شہریوں کے لیے زحمت بن گئی اور اب اس زحمت سے سخت تعفن بھی اٹھنے لگا ہے اور روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر کراچی کے باسیوں کی حالت اس وقت اس شعر میں ڈھلی نظر آرہی ہے۔

    آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
    میں نے سب تیاریاں کرلی ہیں مرنے کے لیے

    اس بار کراچی میں عیدالاضحیٰ کا چاند نظر آتے ہی برسات نے بھی ٹھانی کہ میں بھی عید کراچی میں ہی مناؤں گی نہ جانے اس کو کس نے کہہ دیا تھا کہ کراچی والے بڑے دریا دل ہیں اور عید کو بڑے اچھے انداز میں مناتے ہیں اس لیے شاید اس نے اس بار عید کو کراچی میں گزارنے کے ساتھ کراچی کو حقیقی معنوں میں دریا بنانے فیصلہ کیا اور اس حوالے سے اپنی دریا دلی دکھا ہی دی۔ ویسے کچھ سالوں سے عید کے موقع پر رم جھم ہوتی رہتی ہے لیکن اس بار برسات پوری تیاری سے عید منانے کراچی آئی اتنی تیاری کہ اس سے نمٹنے کیلیے حکومت سندھ اور متعلقہ اداروں کی اعلان کردہ یا خود ساختہ تیاریاں کم پڑگئیں۔

    شہر قائد کے گلی محلوں میں جیسے جیسے گائے اور بکروں کی تعداد بڑھتی گئی اسی رفتار سے بارش بھی بڑھتی چلی گئی، یوں تو محکمہ موسمیات نے یکم جولائی سے ہی شہر میں تیز بارشوں کی پیشگوئی کر رکھی تھی لیکن ابتدائی تین چار روز تک شہری بارشوں کا انتظار کرتے رہے۔ شاید بارش کی اس شہر میں عید منانے کیلیے آنے کے لیے تیاریوں میں کچھ کمی تھی اس وجہ سے چار دن کی تاخیر ہوگئی جس کی وجہ سے لوگ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کو "شیر آیا، شیر آیا” والی کہانی سمجھنے لگے، تاہم پھر جب شیر آیا (معذرت کے ساتھ یہ سیاسی شیر نہیں) تو پھر اس کی دست بُرد سے شہر کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں رہا۔

    شہر قائد کے پوش علاقے ڈیفنس، کلفٹن، ڈی ایچ اے ہوں یا متوسط علاقے صدر، نارتھ کراچی، گلشن اقبال، گلستان جوہر، طارق روڈ، شاہراہ فیصل یا پھر غریب علاقے بارش نے حکمرانوں کی طرح نوازنے میں امیر اور غریب نہیں کیا اور بغیر کسی تفریق کے سب کو فیض یاب کیا اور ایسا فیض یاب کیا کہ سمندر کنارے آباد بستیوں کے مکینوں کو تو یہ فرق کرنا مشکل ہوگیا کہ کہاں ساحل ختم ہورہا ہے اور کہاں سمندر شروع ہورہا ہے اور ہمیں علامہ اقبال یاد آگئے اپنے اس شعر کی صورت میں کہ

    ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
    نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

    کیماڑی، سولجر بازار، ناظم آباد، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، سائٹ ایریا، انڈسٹریل ایریا، سعدی ٹاؤن سمیت شہر کی ہر سڑک دریا بن گئی جہاں کشتی کے بجائے لوگوں کی گاڑیاں تیرتی نظر آرہی تھیں۔ بارش خیر سے آگئی لیکن خیر سے گئی نہیں بلکہ تباہی اور بربادی کی کئی داستانیں رقم کرگئی لیکن اس میں بارش کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اس کا کام تو برسنا ہے۔ قصور تو ان کا ہے جو ذمے دار ہیں یعنی حکومت اور اس کے ماتحت بارش سے نمٹنے والے بلدیاتی ادارے، لیکن کیا انہوں نے اپنی ذمے داری پوری کی؟

    اس ملین ڈالر سوال کا جواب تو یکسر نفی میں ہی ہے۔ بھئی وجہ صاف ہے کہ بقرعید تھی اور عید تو اپنوں کے ساتھ اچھی لگتی ہے تو کراچی میں حکمرانوں یا متعلقہ اداروں کے افسران کا کون اپنا تھا جو وہ یہاں رہ کر عید مناتے اسی لیے تو وہ عید منانے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں اپنے پیاروں کے پاس چلے گئے اور ان کے پاس ایک عذر بھی تھا کہ بارشیں تو ابھی بہت ہونی ہیں تو اس سے نمٹتے رہیں گے لیکن اگر بقرعید پیاروں کے بغیر گزر گئی تو پھر ایک سال بعد ہی آئے گی اور ایک سال کس نے دیکھا ہے شاید ہم اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، یا پھر اپنے اپنے عہدوں پر براجمان ہوں یا نہ ہوں تو سیاسی پروٹوکول کے ساتھ عید کی جتنی خوشیاں منانی ہیں منا لی جائیں۔

    تو جناب عید سے قبل شروع ہونے والی بارش دھواں دھار انداز میں عید کے ابتدائی دو ایام میں اس طرح برسی کہ کراچی ڈوبتا رہا اور اہل نظر تماشا دیکھتے رہے وہ بھی دور بیٹھ کر اپنوں میں تکے کباب کھاتے اور کھلاتے ہوئے یہ الگ کہ کراچی والوں کی اکثریت نے تکے کباب کھانے کے بجائے متعلقہ اداروں کی بے حسی پر خون کے گھونٹ پیتے ہوئے گزارا (قربانی کے جانوروں کا خون نہیں) اور جب یہ بھی ختم ہوگیا تو پھر صبر کے گھونٹ پی لیے اور سوچا کہ جو برسات کے باعث قربانی نہ کرنے کا ثواب نہیں لے سکے تو کیا ہوا صبر کا بھی تو بڑا ثواب ہے۔ جب کہ ان حالات میں ہمارے حکمراں تو اپنوں میں تکے بوٹیاں کھانے کے بعد لسی شسی یا پھر ستو پی کر سو رہے تھے چائے اس لیے نہیں پی کہ ایک ارسطو وزیر اس کے کم پینے کے نادر فوائد پہلے ہی بتاچکے تھے۔

    اس موقع پر حکمراں اور متعلقہ ادارے کے حکام تو غائب رہے لیکن برستی بارش کے شور میں ایک مدھم سا شور حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم نے ضرور اٹھایا اور حکومت کو لتاڑا اور ساری ذمے داری حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ جیسے کہ ہمارے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے اپنے پارٹی سربراہ کی تقلید کرتے ہوئے فرمایا کہ جب بارشیں ہوتی ہیں تو سڑکوں پر پانی بھی آتا ہے۔ تو جناب یہ کوئی انکشاف نہیں سب کو پتہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو سڑکوں پر پانی آتا ہے اور جن کو پتہ بھی نہ تھا ان کو آپ کے قائد محترم بلاول بھٹو واضح طور پر باور کراچکے تھے کہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ لیکن پانی زیادہ آئے یا بہت زیادہ اس کو سڑکوں اور آبادی سے نکالنا حکومت وقت اور اس کے ماتحت ذمے دار اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے وہ کہاں گیا؟ لیکن یہاں تو صورتحال یہ کہ وزیراعلیٰ سندھ دوسرے دن ٹی وی اسکرینز پر جلوہ افروز ہوئے کچھ اپنی کہی بلکہ صرف اپنی ہی کہی اور پھر نکلے شہر کے دورے پر جس کے بارے میں کئی لوگوں نے آرا دی کہ وزرا اور ایڈمنسٹریٹر صرف ان علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں پانی اتر جاتا ہے۔ بات شرجیل انعام میمن کی ہورہی تھی جنہوں نے کراچی ڈوبنے کی وجہ بادل پھٹنا قرار دیا اور محکمہ موسمیات کی ذمے داری نبھاتے ہوئے اعداد و شمار بھی گنوائے ساتھ ہی کہا کہ کراچی میں برسات کے دوران ہونے والی قیمتی جانوں کے ضیاع کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے۔ لیکن پولیس ریکارڈ کے مطابق کراچی میں بارشوں کے دوران 20 افراد جان کی بازی ہارے ان میں سے 13 اموات کرنٹ لگنے سے ہوئیں تو بقیہ سات زندگیوں کو موت کا تحفہ کس کا انعام ہے؟

    بارشیں رکے دو دن ہوگئے اور یہ ابر رحمت اب پھر دستک دے رہی ہے لیکن شہر قائد کا حال یہ ہے کہ امجد اسلام امجد نے کہا ہے کہ

    محبت ایسا دریا ہے
    کہ بارش روٹھ بھی جائے
    تو پانی کم نہیں ہوتا

    تو یہی حال کچھ اس وقت عروس البلاد کہلانے والے شہر کراچی کا ہے لیکن اس کا یہ حال اس سے "محبت” کے دعویداروں نے کیا ہے یقین نہ آئے تو گھر سے نکلیں اور دیکھ لیں پھر چاہے صدر ہو یا گرومندر، کورنگی ہو یا انڈسٹریل ایریا، اورنگی سائٹ ہو یا مضافاتی علاقے کئی علاقے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے نظر آئیں گے۔

    قصہ مختصر بارشیں، پھر بارشیں اور پھر بارشیں، لہذا عوام حکومت کے آسرے پر نہ رہے جو کہ پہلے بھی کم ہی رہتی ہے اور ہمارا مشورہ ہے کہ اپنے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدامات کر لے اب چاہے تو چھت پر ہی تمبو وغیر باندھ لے یا پھر جو اس کی سمجھ میں آئے کرلے کہ جن کا کام ہے ان سے تو کچھ ہو نہیں رہا ہے ہمارا تو یہ حال ہے کہ زہرہ نگاہ کے ایک شعر میں معمولی تبدیلی کے بعد یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ

    نہیں نہیں، ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
    تجھے بھی بھول گئے ہم اپنی خوشی کیلیے

  • پاکستان قوم کےلیے "دھرتی ماں” تو مسلم لیگ ن "نانی اماں”؟

    پاکستان قوم کےلیے "دھرتی ماں” تو مسلم لیگ ن "نانی اماں”؟

    یہ عنوان پڑھ کر قارئین اپنا رخ کہیں اور نہ کریں کیونکہ یہ رشتہ ہم نے نہیں بلکہ جانے انجانے میں مسلم لیگ (ن) کے ہی ایک رہنما احسن اقبال جنہیں ان کے ایسے ہی نادر افکار اور خیالات کی بنا پر قوم ارسطو مان چکی ہے، نے جوڑا ہے۔

    وفاقی وزیر احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی ماں ہے۔ یہ شاید ان کا اُسی طرح کا سیاسی رنگ لیے فلسفیانہ بیان ہے جب انہوں نے قوم کو چائے کم پینے کا نادر مشورہ دیا تھا۔ بہرحال احسن اقبال کے اس انکشاف نے قوم کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ پوری قوم تو اب تک یہی سمجھتی رہی کہ پاکستان بنانے والی جماعت بغیر کسی ن، م، ش، ض، ق کے صرف مسلم لیگ ہی تھی جس کی مخلص لیڈر شپ کی دن اور رات کی کاوشوں کی بدولت 1947 میں دنیا کے نقشے پر ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان’ ابھرا۔

    وفاقی وزیر نے اپنے بیان کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے کہا کہ "ن لیگ پاکستان کی ماں ہے اور ماں کبھی بھی اپنے بچے کو قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتی اسی لیے ن لیگ نے سیاسی ساکھ داؤ پر لگا کر پاکستان بچانے کی سیاست کی ہے۔” ان کے اس "انکشاف” نے قوم کو تو حیرت میں ڈالا ہی لیکن تاریخ کا دھارا موڑنے کی بھی ایک "بے ضرر” سی کوشش کی ہے۔ پاکستانی چاہے وہ بڑھاپے میں ہو یا جوان یا پھر بچے سب ہی قائداعظم محمد علی جناح والی مسلم لیگ کو پاکستان کی بانی جماعت اور قائداعظم کے ساتھ ان کے رفقائے کار کو بانیان پاکستان مانتے آئے ہیں لیکن اس تازہ ترین "انکشاف” پر ہماری تاریخ بھی انگشت بدنداں رہ گئی ہے۔

    جب احسن اقبال نے قوم کے کانوں میں یہ رس گھولنے کی سعی کی ہے تو ہم بھی قوم بالخصوص نونہالان وطن کو جو قیام پاکستان اور مسلم لیگ کی تاریخ سے زیادہ واقف نہیں ہیں، مسلم لیگ کی تاریخ کا مختصر احوال بتاتے ہیں‌ کہ مسلم لیگ کیا تھی، کیا ہے؟ اور کیا ملک میں اس وقت موجود نصف درجن مسلم لیگوں میں کوئی اصل مسلم لیگ بھی ہے؟ جو ملک اور قوم سے مخلص ہو۔

    مسلم لیگ 1906 میں قائم ہوئی جس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ تھا۔ 1937 کے انتخابات میں کانگرس کو فتح ہوئی اس نے ہندوستان کے تمام صوبوں میں حکومتیں قائم کرلیں۔ ہندوؤں کا مسلمانوں کیخلاف عملی تعصب کھل کر سامنے آگیا تو مسلمان اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں۔ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ کامیابی سے لڑا۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ 1945-46 کے انتخابات میں مسلمانوں نے علیحدہ اور آزاد وطن (پاکستان) کے حق میں ووٹ دیے اور مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ 14اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ پاکستان سے مخلص دونوں رہنما جلد قوم کو داغ مفارقت دے گئے جس کا خمیازہ پاکستان اور اس کی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
    یہ تھی اصل مسلم لیگ جس کی قیادت اپنی ذات یا خاندان سے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان اور قوم سے مخلص تھی لیکن جب یہ دونوں بڑے لیڈر دنیا سے رخصت ہوئے تو مسلم لیگ کی حیثیت اس تڑپتی اور سسکتی روح کی طرح ہوگئی جس کے گرد گدھ منڈلانے لگے کہ کب یہ ختم ہو اور وہ اس کے حصے بخرے کریں مسلم لیگ کی روح تو ختم ہوگئی لیکن گدھوں نے اس کے اتنے حصے بخرے کیے کہ بانیان پاکستان کی روحیں بھی اپنی مسلم لیگ کا یہ حال دیکھ کر تڑپ اٹھی ہوں گی۔

    قیام پاکستان کے بعد تو صورتحال یہ ہوئی جو آیا وہ اپنی مسلم لیگ بناتا اور اس کے آگے ن، ق، ض، ف و دیگر حرف تہجی لگاتا گیا۔ اتنی برق رفتاری سے مسلم لیگیں بنیں کہ قوم کو یہ خدشہ ہونے لگا کہ اگر مسلم لیگوں کی پیدائش اسی رفتار سے جاری رہی تو شاید اردو کے سارے حرف تہجی ختم ہوجائیں گے لیکن ساتھ یہ فکر بھی کہ اگر پھر نئی مسلم لیگ وجود میں آئی تو وہ کس حرف کا لاحقہ لگائے گی۔

    اب تاریخ پاکستان مسلم لیگ کے بارے میں کیا کہتی ہے اس کے بارے بھی جان لیں۔ 1962 میں پاکستان کی بانی اصل مسلم لیگ کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے نام سے جنم لیا جو اس وقت کے سربراہ مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان کے صدر بننے کے بعد تشکیل دی گئی۔ اسی دوران کچھ سال کے وقفے سے کونسل مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی لیگ وجود میں آئی۔ اس کے کرتا دھرتا اس وقت کے صدر ایوب خان کے مخالف سیاسی رہنما تھے۔ صدر ایوب کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد یہ کونسل مسلم لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور قوم ایک نئی جماعت پاکستان مسلم لیگ قیوم سے آشنا ہوئی جو خان عبدالقیوم خان کی تشکیل کردہ جماعت تھی اور 1970 کے عام انتخابات سے قبل یہ معرض وجود میں آئی۔ 1973 میں مسلم لیگ کنونشن اور مسلم کونسل کا انضمام ہوا تو پھر ایک نئی مسلم لیگ وجود میں آئی اور پیر پگارا کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مسلم لیگ زیادہ پنپ نہ سکی لیکن ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر مملکت ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کے مقابل ایک نئی جماعت کھڑی کرکے اس کا راستہ روکنے کیلیے مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کرکے اس کٹھ پتلی جماعت کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھ لیں۔

    ضیاالحق کے اقتدار میں آتے ہی ادھر اُدھر ٹکڑوں میں بکھری تمام مسلم لیگوں کو متحد کیا گیا اور محمد خان جونیجو کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا جس کے بعد پیر پگارا نے 1985 میں مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے ایک نئی مسلم لیگ تشکیل دی جو مشرف دور میں مسلم لیگ میں ضم ہوئی لیکن یہ انضمام زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور پیر پگارا کی مسلم لیگ پاکستان کے سیاسی میدان میں ایک بار پھر مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے فنکشنل ہوگئی۔

    1984 کے ریفرنڈم کے بعد ضیا الحق ملک کے صدر بن گئے تھے جس کے بعد ریفرنڈم میں حمایت کرنے والی جماعت کو 1985 کے عام انتخابات کے دوران ایک نئی مسلم لیگ کے روپ میں میدان میں اتارا گیا گوکہ وہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے لیکن موجودہ مسلم لیگ ن اور اس کے بطن سے نکلنے والی دیگر جماعتوں کی بنیاد وہی 1985 کے الیکشن ہیں جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ۔

    بھٹو کے شدید مخالف ہونے کے باعث نواز شریف جلد ہی ضیاالحق کے چہیتوں میں شامل ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مرحوم صدر انہیں اپنا منہ بولا بیٹا اور نواز شریف انہیں سیاسی باپ کہتے بھی نہ کتراتے اور جب کوئی سیاہ سفید کے مالک حکمراں کا منہ بولا بیٹا بن جائے تو پھر وہ کہاں رکتا ہے۔ لہذا نواز شریف نے 1988 میں اس محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کو خدا حافظ کیا اور فدا محمد خان کی تشکیل کردہ ایک نئی مسلم لیگ میں جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا لیکن پھر اس مسلم لیگ کی سربراہی لے کر اس کو مسلم لیگ ن کا نام دیا۔ مسلم لیگ ن نے اسی نام سے الیکشن لڑا اور جیت کر تین بار اقتدار حاصل کرچکی اور چوتھی بار بغیر جیتے اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔

    یہ درست ہے کہ موجودہ دور میں عوامی مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کے سیاسی افق پر مسلم لیگ ن ہی سر فہرست ہے لیکن اب بھی پاکستان میں مسلم لیگ کے کئی دھڑے ہیں جس میں سے کچھ سیاسی میدان میں سرگرم تو کچھ صرف تانگا پارٹی بنے ہوئے ہیں۔

    جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان کی سابقہ سیاسی روایات کے مطابق سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ہوئی اور 2001 میں مسلم لیگ ن کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا اور 2002 کے الیکشن جیت کر 5 سال اقتدار کے مزے لیے لیکن جنرل مشرف کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی اس سیاسی جماعت کا حجم بھی انتہائی تیزی سے سکڑ گیا۔ یہ جماعت آج بھی چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پاکستان کی سیاست میں فعال تو ہے لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ گھر کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوٹنے والی ہے کیونکہ چوہدری برادران میں اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں۔

    ان کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ض) جو سابق صدر ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کی مسلم لیگ ہے اور اس کی حیثیت سیاسی زبان میں تانگا پارٹی سے زیادہ نہیں اور خود اعجاز الحق بھی صرف وقتی سیاسی بیانات کی حد تک سیاست میں فعال ہیں تاہم ایک اور ون مین شو جماعت عوامی مسلم لیگ ہے جس کے سربراہ ہمارے شیخ رشید صاحب ہیں لیکن یہ تانگا پارٹی کے سربراہ ہونے کے باوجود اپنی مخصوص سیاسی صلاحیتوں کے باعث ” ہر جگہ ” قابل قبول ہوتے ہیں۔

    تو قارئین گرامی یہ تھا مسلم لیگوں کا حال اب اگر ارسطو کا خطاب پانے والے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے بیان کو حسن ظن رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آج پاکستان میں کئی مسلم لیگ ہیں۔ اگر انہوں نے بھی ایسا ہی دعویٰ کردیا تو قوم سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ دھرتی ماں تو صرف ایک "پاکستان” ہے لیکن نانی اماؤں کا شمار ہی نہیں۔ اس لیے ہمارا ارسطو وزیر کو ایک ادنیٰ مشورہ ہے کہ وہ بیان دیتے وقت زبان کے ساتھ تاریخ کا بھی خیال کیا کریں کہ تاریخ زبان کی لغزش کو کبھی معاف نہیں کرتی۔