Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    چند برسوں سے دنیا بھر میں جنوبی کورین فلمیں اور ویب سیریز شوق سے دیکھی جا رہی ہیں اور کچھ فلموں نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ویب سیریز اسکویڈ گیم (squid game ) انہی میں سے ایک ہے، جو ناظرین کے دلوں کو چُھو گئی ہے۔ اب تک کروڑوں‌ لوگ اس ویب سیریز کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ دنیا کے 93 ممالک میں نیٹ فلکس کے ٹاپ ٹین کے چارٹ میں نمبر ون پوزیشن پر رہی ہے اور اس وقت ہندی ڈبنگ کے ساتھ پاکستان اور انڈیا میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔

    27 جون 2025ء کو اسکویڈ گیم کا پریمیئر ہوا ہے اور یہاں ہم اس ویب سیریز کے تیسرے اور آخری سیزن کا ریویو پیش کررہے ہیں۔

    کہانی/ مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کی کہانی اور مرکزی خیال ہوانگ ڈونگ ہاؤک کا ہے، جو اس کے ہدایت کار بھی ہیں۔ خیال نیا نہیں ہے، لیکن اس کو ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ہوانگ ڈونگ ہاؤک کو ایک دہائی پہلے اس کا خیال آیا تو انہوں نے جنوبی کوریا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کو یہ کہانی سنائی، مگر کسی نے اسے لائقِ توجہ نہ سمجھا بلکہ یہ کہا گیا کہ کہانی میں دَم نہیں ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ یہ کہانی نیٹ فلیکس پر اب تک ریلیز ہونے والی ویب سیریز میں سب سے زیادہ مقبول کہانی ہے۔

    کہانی نویس اور ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے جنوبی کوریا میں بچّوں کے ایک کھیل کے ذریعے جس طرح وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا عکاسی کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ویب سیریز میں یہ بتایا ہے کہ کیسے عام لوگ مالی پریشانی کے ساتھ ذہنی اذیت اور مختلف منفی احساسات کے دباؤ میں آکر اپنی زندگی کو جہنّم بنا لیتے ہیں اور پیسہ کمانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

    یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جنہیں ایک کھیل کو انعامی رقم جیتنے سے زیادہ اپنی بقا کے لیے کھیلنا پڑتا ہے۔ انہیں اس کھیل میں حصّہ لینے کا دعوت نامہ اچانک اور پراسرار طریقے سے موصول ہوتا ہے۔ کھیل ایک الگ تھلگ جزیرے پر ہوتا ہے اور شرکاء کو اس وقت تک بند رکھا جاتا ہے جب تک کہ کوئی کھیل کا حتمی فاتح بن کر سامنے نہ آجائے۔ اس کہانی میں 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے کوریائی بچوں کے مقبول کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے، جیسے اسکویڈ گیم۔ اس میں جرم اور دفاع کے گھناؤنے کھیل کے لیے اسکویڈ کی شکل کا ایک بورڈ استعمال کیا جاتا ہے۔

    ایک ایسا کھیل، جو بظاہر سادہ سا ہے اور اس کے فاتح کو کروڑوں کی رقم بطور انعام دی جائے گی۔ اس مالی لالچ میں بہت سے معصوم لوگ بھی کھیل کھیل میں ایک دوسرے کی زندگیوں سے کھیلنے لگے ہیں۔ جیسے جیسے کھلاڑی جان سے جاتے جائیں گے، ویسے ویسے انعام کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ کھیل اسی گھناؤنے اور خوں ریز چکر کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہر لمحہ میں، مقابلہ کرنے والوں کو اگلی اسٹیج پر جانے سے پہلے، اپنی موت کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ تیسرے زون میں کم از کم ایک شخص کو مارنے کے بعد، آخر میں جو بھی باقی رہے گا، وہ کروڑوں کی یہ رقم حاصل کرے گا۔ یہ انعامی رقم کس نے حاصل کی، یہ جاننے کے لیے آپ کو ویب سیریز squid game دیکھنا ہوگی۔

    ہدایت کاری اور اداکاری

    فلم کے ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے پہلے دو سیزن میں تو ناظرین پر اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا ایسا جادو جگایا کہ سب دیکھتے رہ گئے، لیکن تیسرے سیزن میں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ذہن میں جو آئیڈیا تھا، اس کا رَس گزشتہ دو سیزن میں نچوڑا جا چکا ہے اور اب تیسرے سیزن کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ کم از کم تیسرے سیزن کے معیار کو دیکھا جائے یہ اپنے پچھلے دو سیزن کا آدھا بھی نہیں ہے۔ انتہائی مایوس کن ہدایت کاری اور کہانی کا مرکب، جس میں پوری ویب سیریز میں کہیں کلائمکس نہیں دکھائی دے رہا، حتٰی کہ لوکیشنز کے لحاظ سے، سیٹ ڈیزائننگ کے اعتبار سے اور پروڈکشن کے دیگر پہلوؤں سے بھی اس کا جائزہ لیا جائے تو اسے ایک بدترین اور زبردستی بنایا ہوا سیزن تھری کہا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دو سیزن پر ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

    اداکاری کی طرف چلیں تو مرکزی اور معاون کرداروں کو سبھی فن کاروں نے بخوبی نبھایا ہے، لیکن تینوں سیزن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے لی جانگ جے نے تیسرے سیزن میں بھی اپنی اداکاری کا معیار برقرار رکھا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ اداکاراؤں پارک گیو-ینگ اور کانگ ای شیم کے علاوہ نوجوان اور خوبرو اداکارہ جویوری نے بھی خوب اداکاری کی ہے۔آسڑیلوی اداکارہ کیٹ بلینچٹ بطور مہمان اداکار ویب سیریز کے چند مناظر جلوہ گر ہوئی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر بھی اداکاری کے لحاظ سے سیزن تھری کو بہتر کہا جاسکتا ہے، البتہ یہ ناکام کہانی اور ناکام ہدایت کاری کا ایک نمونہ ہے۔

    عالمی میڈیا اور مقبولیت کا ڈھونگ

    عام طور پر کسی بھی فلم اور ویب سیریز کی کام یابی کے پیچھے میڈیا، بالخصوص فلم کے ناقدین کا بہت ہاتھ ہوتا ہے، لیکن ویب سیریز اسکویڈ گیم سے متعلق یہ تاثر گہرا ہے کہ اس کی اندھا دھند ستائش کی گئی، مگر جس قدر بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے، وہ معیار اس سیزن تھری میں کہیں دکھائی نہیں دیا بلکہ یہ بہت ہی بچکانہ معلوم ہوا۔ فلموں کی مقبول ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی نے اسے 10 میں سے 8 ریٹنگ دی ہے۔ نیویارک ٹائمز اور ٹائم میگزین نے بھی اس کی ستائش کر رہے ہیں۔ دیگر معروف فلمی ویب سائٹوں میں روٹین ٹماٹوز نے اسے 81 فیصد اور میٹکریٹ نے 66 فیصد بہترین قرار دیا ہے۔

    اب اگر نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں شامل ہونے کی بات کریں‌ تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ لوگ وہاں ایک سیریز دیکھ رہے ہیں، اب وہ اچھی ہے یا بری، اس کا فیصلہ ناظرین کی تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا کہ زیادہ لوگوں نے دیکھا تو کوئی فلم یا ویب سیریز اچھی ہے۔ وہ بری، مایوس کن یا پست معیار کی بھی ہو سکتی ہے۔

    حرفِ آخر

    میری رائے ہے کہ اگر آپ اسکویڈ گیم کا سیزن تھری دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے پہلے دو سیزن ضرور دیکھ لیں جس سے آپ یہ جان سکیں‌ گے کہ کس طرح سیزن تھری تک آتے آتے ویب سیریز نے اپنا معیار کھویا ہے۔ اس کا بنانے والوں کو بھی شاید اندازہ ہے اسی لیے اس کو آخری سیزن بھی قرار دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کو نیٹ فلیکس نے اس تیسرے سیزن میں صرف کیش کیا ہے۔ اس طرح کاروباری سودا تو خوب خوب رہا، مگر معیار کے لحاظ سے یہ پست اور عامیانہ ہے، جسے دیکھنا میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر تو ہمارے پاکستانی ڈرامے ہیں، لیکن نیٹ فلیکس ہماری فلموں اور ویب سیریز کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ نہیں دیتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنوبی ایشیا (انڈیا) میں پڑوسیوں کی اجارہ داری ہے، کیونکہ نیٹ فلیکس کا جنوب ایشیائی ہیڈ آفس انڈیا میں ہے۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے انٹرٹینمنٹ کے اداروں کو متوجہ کرے، کیوں کہ پاکستان بھی نیٹ فلیکس کا بڑا گاہک ہے۔

  • ٹرمپ نے تجارتی جنگ اور فلاحی ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟

    ٹرمپ نے تجارتی جنگ اور فلاحی ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟

    چند دن قبل جب میں نے ’’دنیا کیسے چلتی ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون تحریر کیا، تو اُس وقت تک مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ سماجی تنقید کے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کی ایک کتاب بھی How the World Works (2011) کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ان کے مختلف انٹرویوز، لیکچرز اور تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے عالمی سیاست اور معیشت، میڈیا، اور امریکی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی ہے۔

    میں، یہاں اس کتاب کے مندرجہ جات پر بات کروں گا، جو کہ 4 حصوں پر مشتمل ہیں۔ نمبر ایک: انکل سام سچ میں کیا چاہتے ہیں؟ نمبر دو: چند خوش حال باقی بے چین۔ نمبر تین: راز، جھوٹ اور جمہوریت۔ اور نمبر چار: مشترکہ خیر۔

    ایک نظر اس کے خلاصے پر ڈالتے ہیں۔ چومسکی نے کتاب میں امریکی خارجہ پالیسی کے تاریخی اور موجودہ کردار پر بحث کی ہے، جو دراصل ایک عالمی سامراجی ایجنڈا ہے۔ امریکا نے سرد جنگ کے بعد سے اپنی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی مداخلت، اقتصادی دباؤ، اور سیاسی اثر و رسوخ کا بے دریغ استعمال کیا۔ چومسکی ویتنام جنگ، لاطینی امریکا میں مداخلت، اور مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ پالیسیاں اکثر ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ہوتی ہیں لیکن ان کا اصل مقصد اقتصادی مفادات اور عالمی کنٹرول ہوتا ہے۔ چومسکی کے مطابق امریکی سامراج دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی ہلاکتوں اور عدم استحکام کا باعث بنا۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں دنیا کے 90 سے زائد ممالک متاثر ہوئے، سرد جنگ کے بعد امریکی پالیسیوں نے عالمی عدم مساوات کو بڑھایا، اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ دراصل عالمی بالادستی کی حکمت عملی ہے۔

    نوم چومسکی نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور نجکاری کے اثرات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے نجکاری کے پروگراموں نے ترقی پذیر ممالک میں غربت اور بے روزگاری کو بڑھایا۔ چومسکی کے مطابق نجکاری کا مقصد عوامی دولت کو چند امیروں کے ہاتھوں میں منتقل کرنا ہے، یہ ایک ایسی معاشی پالیسی ہے جو چند لوگوں کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے اور عالمی سطح پر عدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ نجکاری سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے، عالمی مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک پر اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں، اور سرمایہ داری نے بھوک، بے روزگاری، اور سماجی ناانصافی کو بڑھاوا دیا۔

    چومسکی نے کتاب میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہونے والے میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی، اور بتایا کہ میڈیا کارپوریٹ اور حکومتی مفادات کی تابع داری کرتا ہے، حقائق کو مسخ کرتا ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے معلومات کو فلٹر کرتا ہے۔ وہ امریکی میڈیا کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح یہ امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور تنقیدی آوازوں کو دباتا ہے۔ میڈیا عوام کو سچائی سے دور رکھنے کے لیے بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

    اب میں اس کتاب کے چند حصوں کے اہم مباحث آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب کے پہلے حصے کا بہت دل چسپ عنوان ہے: ’انکل سام دراصل کیا چاہتا ہے؟‘‘ نوم چومسکی نے اس حصے میں ’اپنے دائرہ کار کا تحفظ‘ کی ذیلی سرخی جماتے ہوئے لکھا ہے: دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب بیش تر صنعتی حریف جنگ کی وجہ سے کمزور یا تباہ ہو گئے، امریکا کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہو گیا، امریکا کے پاس دنیا کی 50 فی صد دولت آ گئی، اس نے دونوں سمندروں کے دونوں کناروں پر بے مثال تاریخی کنٹرول حاصل کر لیا۔ امریکی منصوبہ سازوں نے دنیا کو اپنے وژن کے مطابق تشکیل دینا شروع کیا، نیشنل سیکیورٹی کونسل میمورینڈم 68 (1950) ایک دستاویز ہے، اس میں پال نٹز نے لکھا کہ سوویت یونین کو کم زور کرنے کے لیے اس کے اندر تباہی کے بیج بوئے جائیں، اس دستاویز میں جو پالیسیاں تجویز کی گئین، ان پر عمل کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ فوجی اخراجات میں بھاری اضافہ ہو اور سوشل سروسز کے اخراجات میں کٹوتی ہو۔ اور اس کے علاوہ ’’حد سے زیادہ رواداری‘‘ کا رویہ بھی ترک کیا جائے تاکہ ملک کے اندر اختلاف رائے کو زیادہ اجازت نہ ملے۔ یہاں نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ سوویت یونین کو کمزور کرنے کے لیے امریکا نے مشرقی یورپ میں نازی جرمنی کے ساتھ اتحاد کر کے بدترین مجرموں پر مشتمل ایک جاسوس نیٹ ورک بنایا، اس نیٹ ورک کے آپریشنز لاطینی امریکا تک بھی پھیل گئے تھے۔

    اب میں اس کتاب کے اُس حصے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے میں نے اس کتاب کو چُنا ہے کہ اس کا تعارف آپ کے سامنے پیش کروں۔ یہاں نوم چومسکی نے ذیلی عنوان ’’انتہائی لبرل نقطہ نظر‘‘ کے تحت امریکا کی امن پسندی پر گہرا طنز کیا ہے۔ جارج کینن کو ’سب سے نمایاں امن پسند‘ لکھتے ہوئے ان کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ کینن نے 1950 تک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کی سربراہی کی، وہ امریکی منصوبہ سازوں میں سب سے ذہین اور واضح سوچ رکھتے تھے۔ اسی کینن نے 1948 میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کے لیے ایک دستاویز لکھی جس کا عنوان ہے ’’پالیسی پلاننگ اسٹڈی 23‘‘۔ یہ ایک انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔

    کینن نے اس میں لکھا: ’’ہمارے پاس دنیا کی تقریباً 50 فی صد دولت ہے، لیکن دنیا کی آبادی کا ہم صرف 6.3 فی صد ہیں، اس صورت حال میں، ہم حسد اور ناراضی کا نشانہ بننے سے نہیں بچ سکتے۔ اس لیے ہمارا اصل کام آنے والے عرصے میں یہ ہے کہ ہم تعلقات کا ایک ایسا سانچہ تیار کریں جس کی مدد سے ہم اس عدم مساوات کی حالت کو برقرار رکھ سکیں۔ اس کے لیے ہمیں ہر قسم کی جذباتی سوچ اور خیالی پلاؤ سے چھٹکارا پانا ہوگا؛ ہمیں صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی کہ ہمارے فوری قومی مقاصد کیا ہیں۔ ہمیں انسانی حقوق، لوگوں کے معیار زندگی بہتر بنانے اور جمہوریت کو فروغ دینے جیسے مبہم اور غیر حقیقی مقاصد کی تکرار بند کرنی ہوگی۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں سیدھے سادھے طاقت کے تصورات کے مطابق معاملات کرنے ہوں گے۔ ہم اُس وقت نظریاتی نعروں کو جتنا کم توجہ دیں، اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘

    کیا آپ نے نوٹ کیا کہ امریکا کے لیے پالیسی تیار کرنے والوں کے لیے 75 سال قبل لکھی گئی اس خفیہ دستاویز میں وہ حیرت انگیز پالیسی ڈیزائن کی گئی ہے جس پر آج اتنے عرصے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمل شروع کر دیا ہے۔ اس پالیسی کو اس سے قبل کسی امریکی صدر نے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ لیکن ٹرمپ نے دوسری مدت سنبھالتے ہی دیگر ممالک کے جاری امدادی پروگرام بند کر دیے۔ ٹرمپ نے اس دستاویز کے عین مطابق ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی شروع کی اور ’یو ایس ایڈ‘ جیسا بڑا اور وسیع ادارہ بند کر دیا۔ پاکستان میں بھی ٹی بی پر قابو پانے کے لیے سب سے بڑی مدد ’یو ایس ایڈ‘ کی طرف سے آ رہی تھی۔ یہ ادارہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے فنڈنگ کرتا تھا۔

    امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام سے دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبے رک گئے، ان منصوبوں میں صحت، تعلیم، ترقی، روزگار کی تربیت، بدعنوانی کے خلاف اقدامات، سیکیورٹی امداد، اور دیگر کوششیں شامل ہیں۔ کینن نے تجویز کیا تھا کہ امریکا کو دیگر ممالک کے ساتھ اپنی طاقت کے بل پر معاملات طے کرنے چاہیئں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی پر عمل کرتے ہوئے دھونس اور دھمکی سے حکومت چلانا شروع کر دیا۔ انھوں نے کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپ کو تجارتی ٹیرف کے ڈنڈے سے دبانا شروع کیا، روس پر تو زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکے لیکن یوکرین کے صدر کو امریکا بلا کر پوری دنیا کے سامنے ذلیل کر دیا، ایران کے ساتھ بھی دھونس دھمکی والا سلسلہ جاری ہے۔ غرض انھوں نے دنیا سے ایک پریشان کن تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے اور اب ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے جھگڑے کا حل تجارت کے ذریعے نکالنا چاہتے ہیں۔

    اب ذرا میکسیکو، ایل سلواڈور، پاناما اور کیوبا جیسے لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ یاد کریں اور نوم چومسکی کے ان جملوں پر غور کریں، وہ لکھتے ہیں: ’’کینن نے 1950 میں لاطینی امریکی ممالک کے لیے جانے والے امریکی سفیروں سے کہا کہ ہمارا بڑا مقصد لاطینی امریکا کے خام مال کا تحفظ ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ایک خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو لاطینی امریکا میں پھیل رہی ہے، یعنی یہ خیال کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے براہ راست ذمہ دار ہے۔‘‘ کینن نے عوام کی فلاح و بہبود کے خیال کو خطرناک بدعت قرار دیا، اور اسے کمیونزم کہا۔ کینن نے اس بدعت کے شکار لوگوں کو دشمن اور غدار کہا، اور پولیس کے ذریعے ان سے طاقت کے ساتھ نمٹنے کی بے جھجھک تلقین کی۔ کینن نے نرم اور لبرل حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط رجیم کو بہتر قرار دیا۔

    اس کتاب میں ایک باب ’’جمہوریتوں کے لیے امریکی وابستگی‘‘ بھی ہے۔ اس باب میں نوم چومسکی نے بہت تشویش ناک معاملے کی نقاب کشائی کی ہے۔ پالیسی سازوں نے ایک طرف امریکا کے بنائے ہوئے نئے عالمی نظام کے لیے تیسری دنیا میں پائی جانے والی قوم پرستی کو بنیادی خطرہ قرار دیا، اور یہ ہدف پیش کیا کہ ایسی کوئی حکومت اقتدار میں نہ آئے، دوسری طرف ’’اصلی جمہوریتوں‘‘ کو ایک مسئلہ قرار دیا گیا، کیوں کہ وہ اس بدعت کا شکار ہو جاتی ہیں کہ امریکی سرمایہ کاروں کی بجائے اپنی آبادی کی ضروریات کو ترجیح دینے لگتی ہیں۔ جب سرمایہ کاروں کے حقوق کو خطرہ ہوتا ہے، جمہوریت کو ختم کرنا پڑتا ہے؛ اگر یہ حقوق محفوظ ہیں، تو قاتل اور تشدد کرنے والے بالکل ٹھیک ہیں۔ صرف یہی، آج جب پاکستان کے حوالے سے پراکیسز کا بڑا شور ہے، نوم چومسکی نے اعتراف کیا ہے کہ ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا میں امریکی دہشت گرد پراکسیز نے صرف قتل عام ہی نہیں کیا، بلکہ بچوں اور عورتوں پر سفاکانہ اور وحشیانہ تشدد کی بد ترین مثالیں بھی قائم کیں۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب موجودہ دنیا میں امریکی کردار کے ہر پہلو کو واضح کر کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ جسے ہر پڑے لکھے پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔

  • ثنا یوسف کو اب کوئی ‘خطرہ’ نہیں!

    ثنا یوسف کو اب کوئی ‘خطرہ’ نہیں!

    پاکستان میں شادی یا دوستی کرنے سے انکار پر مشتعل ہوکر لڑکی پر تیزاب پھینکنے یا قتل کر دینے کے بے شمار واقعات سامنے آتے رہے ہیں اور اب نوجوان ٹک ٹاکر ثناء یوسف کا قتل ذرایع ابلاغ میں زیرِ بحث ہے اس ملک میں غیرت کے نام پر یا شادی اور دوستی کرنے سے انکار پر کسی لڑکی کا قتل تو نئی بات نہیں، لیکن شاید اخلاقی اقدار کے یہ نام نہاد ٹھیکیدار لڑکیوں کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ انھیں کیسا یا کس ڈیزائن کا لباس پہننا ہے ورنہ کوئی طیش میں آکر لڑکی پر حملہ بھی کرسکتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو گا بلکہ موقع پر موجود لوگوں کی اکثریت بھی لڑکی کو مطعون کررہی ہوگی۔

    گزشتہ دنوں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک الم ناک واقعہ پیش آیا جس میں 22 سالہ نوجوان نے دوستی سے انکار کرنے پر ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مقتول ٹک ٹاکر ثنا یوسف کی عمر 17 برس تھی۔

    کیس کا پس منظر

    2 جون کو عمر حیات عرف ‘کاکا’ نے ٹک ٹاکر کو گھر میں گھس کر گولی مار دی۔ ثنا یوسف کے قتل کا مقدمہ ان کی والدہ کی مدعیت میں درج کیا گیا اور قاتل کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ”ملزم فیصل آباد کا رہائشی 22 سالہ عمر، میٹرک پاس طالب علم ہے جو سوشل میڈیا پر پروموشن کے ذریعے پیسے کماتا ہے۔ ملزم عمر کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے اور اس کے والد ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں۔“

    ملزم سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف سے دوستی کا خواہش مند تھا۔ اس نے کئی بار ثنا یوسف کو دوستی کا پیغام دیا، مگر ثنا کی جانب سے ہر بار انکار کیا گیا۔ مسلسل اصرار کے باوجود جب ملزم کی خواہش پوری نہ ہوئی تو وہ مشتعل ہوگیا اور پھر ثنا یوسف کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ اس سے قبل عمر حیات مقتول ٹک ٹاکر کے گھر آیا لیکن آٹھ گھنٹوں تک انتظار کے باوجود اس سے ملاقات نہیں کرسکا۔ 29 مئی کو ثنا کی سال گرہ تھی۔ اس روز بھی ملزم نے ثنا یوسف ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ واقعہ کے روز بھی وہ اس لڑکی سے ملاقات چاہتا تھا، لیکن ناکامی پر ٹک ٹاکر کے گھر میں داخل ہوگیا اور اسے قتل کر دیا۔

    دوستی سے انکار نے نوجوان عمر حیات کا خون ایسا جلایا کہ وہ جلّاد بن گیا۔ عمر حیات کا دل دماغ ایک لڑکی کے انکار کو قبول نہ کرسکا۔ شاید اسے اپنی ہتک محسوس ہوئی اور اسی سوچ اور انتقامی جذبے کے تحت اس نے ایک اندوہِ سماعت جرم کا ارتکاب کیا۔ "تُو مجھے کیسے ٹھکرا سکتی ہے….تُو نے مجھے انکار کیسے کیا…. اس کا مزہ بھی تجھے چکھنا ہوگا…. میں تجھے ابھی بتاتا ہوں….. یہ وہی سوچ ہے جس میں‌ شادی سے انکار پر لڑکی کو اٹھا لیا جاتا ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہی سوچ ہے جس کے زیرِ اثر ایک مرد دوستی کرنے یا بات کرنے سے انکار پر کسی لڑکی پر تیزاب پھینک دیتا ہے یا پھر وہ غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہے اور اس طرح کے سنگین جرائم کے بعد مذمتی بیانات کا انبار لگا دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی کسی واقعے کی بازگشت چند روز تک سنائی دیتی ہے اور پھر ایک اور ایسا ہی واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ حکومت اور ادارے ان واقعات کی روک تھام میں ناکام نظر آتے ہیں۔

    اشتعال انگیزی اور قتل کے چند حالیہ واقعات

    گزشتہ سال 5 ستمبر کو صوبہ خیبرپختوخوا میں ایک اسکول ٹیچر نرگس کو بااثر مقامی شخص نے شادی کی پیشکش قبول نہ کرنے کے بعد گولی مار دی تھی۔ بعد میں‌ معلوم ہوا کہ وہ بااثر شخص مقتولہ کو کافی عرصہ سے ہراساں کررہا تھا اور اس پر شادی کے لیے دباؤ ڈالتا تھا اور پھر ”وہ اگر میری نہیں تو کسی کی نہیں ہوسکتی…” کے جنون میں اس نے ایک عورت کو قتل کردیا۔

    حال ہی میں 16 مارچ 2025 کو پنجاب کے شہر ساہیوال کے محلّہ نور پارک میں شادی سے انکار کرنے پر لڑکی کو قتل کر دیا گیا۔ لڑکی اور اس کی والدہ کے انکار پر ملزم نے اشتعال میں‌ آکر لڑکی کی جان لے لی۔ 7 اپریل 2025 کو لاڑکانہ میں بھی ایک ایسا ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا جہاں پولیس اہلکار نے ایک ٹیچر کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔

    ثنا یوسف کیس اور سوشل میڈیا

    اسلام آباد میں‌ 17 سالہ ثنا یوسف کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر مجھے بھی مختلف مباحث اور لوگوں کے خیالات جاننے کا موقع ملا اوران میں بعض تبصرے اُسی سوچ کو تقویت دے رہے تھے جن کا اظہار ایسے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے اکثر ملزمین نے کیا تھا۔ ایک صارف نے لکھا، "جب آپ اپنی ذاتی زندگی اور پرائیویسی کو لمحہ بہ لمحہ بیچ چوراہے میں رکھ دیں گے تو حادثات کا رسک بڑھ جائے گا۔”

    پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی کئی نوجوان لڑکیاں شوقیہ اور اکثر بسلسلۂ روزگار سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ ان میں کمپنیوں کو پیشہ ورانہ مہارت کے زور پر خدمات فراہم کرنے والی لڑکیوں کے علاوہ ایسی لڑکیاں بھی شامل ہیں جنھیں‌ سوشل میڈیا انفلوئنسر کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ تو کیا اس معاشرے میں واقعی ان سب لڑکیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں؟

    ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں جنوری سے نومبر تک 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں، ان میں سے پنجاب میں 168، سندھ میں 151، خیبر پختونخوا میں 52، بلوچستان میں 19 جب کہ اسلام آباد سے دو کیس رپورٹ ہوئے۔

    ملٹی میڈیا پریکٹیشنر کی رائے

    عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی ثوبیہ سلیم کی نظر میں ثنا یوسف کا قتل نہ صرف دل دوز ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے میں عورتوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کی ایک اور بدترین مثال ہے۔ اگرچہ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے قاتل کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف گرفتاری کافی ہے؟ ہمیں اپنے قانونی نظام، سماجی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے تعلیمی اداروں سے آغاز کیا جاسکتا ہے جس سے خواتین کا تحفظ ممکن ہے۔

    یہ سلسلہ کیسے رکے گا؟

    یہ واقعہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ ثنا کا قتل محض ایک شخص کا جرم نہیں بلکہ ایک سوچ کا نتیجہ ہے جو عورت کی آزادی، اس کی خواہش اور خود مختاری کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر پہچان بنانے والی ہر لڑکی اب خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ہمیں معاشرے کے ہر فرد بالخصوص نوجوانوں کو سکھانا ہوگا کہ انکار ایک لڑکی کا حق ہے، اس کے جواب میں ایک لڑکی کو ہراساں کرنا، دھمکی دینا، یا کسی قسم کا تشدد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی رائے کا احترام کرنا ہوگا اور فوری جذباتی ردعمل سے گریز کرنا چاہیے۔

    پاکستان میں عورتوں‌ پر تشدد اور قتل کے واقعات کی فہرست طویل ہے اور مخصوص سوچ کے تحت انتہائی قدم اٹھانے یا اشتعال انگیزی کے نتیجے میں‌ قتل کا یہ سلسلہ اُس وقت تک نہیں رکے گا جب تک ریاستی سطح پر مؤثر اور سخت سزاؤں کا نفاذ نہیں کیا جاتا۔ دوسری طرف والدین بالخصوص بیٹوں کی تربیت کرتے ہوئے انھیں یہ سکھائیں کہ وہ اپنی خواہش اور اپنی کسی آرزو کا اظہار ضرور کرسکتے ہیں۔ لیکن اپنی بات منوانے کے لیے کسی پر جسمانی یا ذہنی تشدد نہیں کیا جاسکتا بلکہ غصہ اور اشتعال انگیزی آپ کے لیے ہی نہیں آپ کے کنبے کو بھی مشکل سے دوچار کرسکتی ہے۔ بلاشبہ اس سلسلے میں آگاہی اور شعور اجاگر کرنے کے لیے‌ حکومتی سطح پر کوششوں کے ساتھ ساتھ والدین کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    ثنا یوسف کیس: فلم و ٹی وی پر تشدد کی تمجید اور اس کے مہلک اثرات

  • معرکۂ حق: پاکستانی سائبر ماہرین نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی

    معرکۂ حق: پاکستانی سائبر ماہرین نے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دی

    پاک بھارت معرکہ میں بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستانی حملوں سے نہ صرف بھارتی جنگی طیارے زمین پر آرہے بلکہ پاکستان نے دشمن ملک کے فضائی دفاعی نظام کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ اس جنگ نے ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کی برتری ہی ثابت نہیں‌ کی بلکہ خطّے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کے قائدانہ کردار کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے۔

    بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے دس مئی کی صبح آپریشن بنیان المرصوص شروع کیا اور بھارت کے ان فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں سے پاکستان کے شہروں اور فوجی تنصیات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سائبر وار فیئر کے تحت بھارتی افواج کے درمیان رابطے کے نظام کے علاوہ فوج کو معاونت فراہم کرنے والے غیر فوجی ڈیجیٹل نظام کو بھی مفلوج کر دیا جس نے بھارت میں نظامِ زندگی بری طرح متاثر کیا۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان سائبر جنگ دراصل سات مئی کو بھارتی جارحیت کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ پہلے بھارتی ہیکرز نے پاکستان کی سرکاری ویب سائٹوں کو نشانہ بنایا جس پر پاکستانی سائبر سیکیورٹی نے مؤثر دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی اور حکومتی ڈیجیٹل اثاثوں کو ان حملوں سے محفوظ بنایا۔

    آپریشن سالار شروع، بھارت کی ویب سائٹس ہیک کرلی گئیں

    بھارت کی جانب سے سائبر حملے کا جواب دینے کے لیے پاکستانی ہیکرز نے منظم طریقے سے سائبر جنگ شروع کردی اور اسے آپریشن سالار کا نام دیا۔ اس رضا کار گروپ کے بھارتی ویب سائٹوں کو نشانہ بنانے سے بھارتی حکومت اور دشمن فوج بوکھلاہٹ اور افراتفری کا شکار ہوگئی جو پہلے ہی پاکستانی فوج کے حملوں کی وجہ سے دباؤ میں آچکی تھی۔ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق آپریشن سالار میں سائبر ماہرین نے نریندر مودی کی آفیشل ویب بھی ہیک کر لی۔ پاکستانی ہیکروں کا کہنا تھا کہ ہم پُرامن قوم ہیں، اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی مثبت اور تعمیری مقاصد کے لیے کرتے ہیں، لیکن مادرِ وطن کی سالمیت، ہماری خود مختاری یا قومی وقار کو چیلنج کرنے والے دشمن کو بتانا ضروری کہ ہم سائبر وار کے ذریعے اسے بے بس کرنا بھی جانتے ہیں۔

    بھارت کی کئی اہم فوجی تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ

    اے آر وائی نیوز کی ایک خبر کے مطابق دس مئی کو پاکستان نے بھارتی دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سائبر حملہ کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں فوج کا آئی ٹی انفرااسٹرکچر، افواج کے باہمی موصلاتی نظام سمیت بھارتی فضائیہ کے رابطے کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ بھارت کے مختلف اداروں کی ویب سائٹس، سرکاری ای میل نظام، مختلف شہروں میں بجلی کا نظام، بھارتی ریلویز اور ایئر پورٹس کے علاوہ پیٹرولیم کے شعبے کا ڈیجیٹل نظام بھی ہیک کر لیا گیا جس سے یہ ادارے بھارت کی مسلح افواج کو ہر قسم کی سہولت اور معاونت فراہم کرنے میں مشکلات کا شکار ہوئے۔

    سائبر وار کے ان پاکستانی ماہرین نے بھارت کے مشرقی، شمالی اور جنوبی بجلی کے لوڈ ڈسپیچ سینٹرز کا کنٹرول حاصل کرتے ہوئے انہیں عارضی طور پر بند کر دیا۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں دعویٰ‌ کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں بھارت کے تقریباً 80 فیصد صارفین کو عارضی طور پر بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی جس سے وہاں کی انتظامیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی۔

    اس کے علاوہ بھارت میں ہر قسم کی نگرانی اور کارروائی کا نظام بھی اس سائبر وار میں بری طرح‌ متاثر ہوا، کیوں کہ پاکستانی سائبر ماہرین نے کئی اہم اداروں کے سی سی ٹی وی نظام کو بھی ہیک کر لیا تھا۔ اس طرح یہ سائبر جنگ جس کا آغاز بھارت نے کیا تھا، اس کے لیے بڑے نقصان کا سبب بنی۔

    سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے ہم تک پہنچنے والی بعض اطلاعات اور میڈیا رپورٹوں کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ سائبر وار فیئر حملہ نہ صرف اس شعبے میں ہماری صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ اس نے ڈیجیٹل دنیا میں بھارت کے ٹیکنالوجی اور سائبر سیکورٹی کے میدان میں دعوؤں اور پیشہ ورانہ قابلیت و استعداد کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ دنیا بھر میں ڈیجیٹل ایکسپورٹ مختلف ممالک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر ڈیجیٹل اثاثوں کی تجارت 4.1 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اور اس میں سالانہ 15 فیصد سے زائد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت اس وقت خطّے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اور سالانہ 180 ارب ڈالر صرف ٹیکنالوجی سے متعلق خدمات فراہم کر کے کماتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے اس شعبے پر کورونا کے بعد توجہ دینا شروع کی ہے اور اس وقت پاکستان سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں برآمدات 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔

    شعبۂ ابلاغیات کے استاد اور جدید ذرایع ابلاغ کے ماہر پروفیسر ریحان حسن طویل عرصہ تک تعلیمی شعبہ سے وابستہ رہے اور اب من گھڑت خبروں اور پروپیگنڈا کے خلاف ادارہ چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید جنگی حکمتِ عملی میں سائبر حملوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اور انہیں انفارمیشن وار فیئر کے طورپر بھی دیکھا جاتا ہے۔ سائبر حملے کے ذریعے دشمن کے جوابی حملے کا نظام بھی مفلوج کیا جاسکتا ہے تاکہ دشمن جارحانہ حکمت عملی نہ اپنا سکے اور اپنے نظام میں ہی الجھ کر رہ جائے۔ ریحان حسن کا کہنا ہے کہ سائبر وار فیئر جدید جنگ کا لازمی حصہ بن گئی ہے۔

    گزشتہ چند سال کے دوران بھارت نے اپنی سائبر ٹیکنالوجی سے متعلق صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ بھارت نے ڈیفنس سائبر ایجنسی اور انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم جیسے ادارے قائم کیے ہیں اور اب مقامی سطح پر سائبر اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز پر کام کررہا ہے۔ بھارتی ہیکروں نے ماضی بہت سی ویب سائٹوں جیسا کہ نادرا کی ویب سائٹ کو ہیک کرنے کے علاوہ موبائل فونز بھی ہیک کرنے کی کوششیں کی تھیں جن کے بعد پاکستان نے بھی اپنے سائبر سیکورٹی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں۔

    عامر جہانگیر الیکٹرانک میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ابلاغیاتی جنگ اور اس سے متعلق موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان بھارت جنگ میں سائبر وار فیئر کو ایک نیا رجحان سمجھتے ہیں۔ عامر جہانگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ معرکہ میں پاکستان نے جدید جنگی طرز کو اپنایا ہے جس میں روایتی جنگ اور ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سائیبر اسپیس میں ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس معرکہ کے دوران روایتی جنگ لڑتے ہوئے ڈیجیٹل جنگی صلاحیت کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے اور اسے بلاشبہ پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کا درجۂ کمال کہا جاسکتا ہے جس سے بھارت کی ڈیجیٹل محاذ پر برتری کی قلعی کھل گئی ہے۔

    عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے نیشنل پاکستان کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (پی کے سی ای آر ٹی) اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی اے آئی ) قائم کی ہے۔ اس سے پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ اس کی سائبر سیکورٹی کو بھی مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے ایک وسیع سوچ پائی جاتی ہے۔

    سائبر صلاحیت کوئی لگژری یا پُرتعیش اقدام نہیں ہے بلکہ قومی طاقت کا اہم آلہ ہے۔ یہ سائبر سکیورٹیز میں علاقائی صورتحال میں فوجی توازن کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان سائبر توازن کو بھی قائم کرے گی۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل تصادم کے حوالے سے معیارات کا تعین کرنا بھی اہم ہے۔

    سائبر سیکورٹی صرف جنگی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ ڈیٹا کے تحفظ اور آن لائن کاروباری تحفظ کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں جہاں ڈیجیٹلائزیشن بڑھ رہی ہے، وہیں ان ڈیجیٹل اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ زمانۂ جنگ نہ بھی ہو تو تجارتی نظام اور کاروبار کے لیے اپنی ڈیجیٹل سیکورٹی کی حفاظت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ٹیک جیوری کے مطابق یومیہ 30 ہزار ویب سائٹ پر سائبر اٹیک ہوتا ہے۔ یعنی ہر 11 سیکنڈ میں ایک سائبر حملہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سائبر سیکورٹی کا رجحان اور ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ سال 2029ء تک سائبر سیکورٹی کی مارکیٹ 271 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

    عثمان آصف نے سائبر سیکورٹی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ٹیکنالوجی سے متعلق ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ پاک بھارت جنگ سے قبل انہوں نے ایک موقع پر بات چیت کے دوران ڈیجیٹل میدان میں پاکستان کے بھارت سے پیچھے رہ جانے سے متعلق کہا تھا کہ بھارت اس وقت جہاں پہنچا ہے، پاکستان بہت کم وقت میں اس پوزیشن کو حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ مصنوعی ذہانت اور سائبر سکیورٹی نے ڈیجیٹل انڈسٹری کی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

    اس وقت سائبر سیکورٹی ٹولز اور اس کے ماہرین کی طلب بڑھ رہی ہے۔ اور مستقبل میں بھی ان کی طلب میں اضافہ دیکھا جائے گا۔ ابھی سے ہم یہ طے کر لیں کہ کس طرح ہنگامی طور پر سائبر سیکورٹی میں پروفیشنلز تیار کرسکتے ہیں۔ ان پروفیشنلز کو جامعات اور انڈسٹری ملک کے لیے تیار کرے تاکہ ان کے پاس تعلیمی گہرائی کے ساتھ براہ راست صنعت کا تجربہ بھی ہو۔

    پاکستان نے بھارت کو جہاں فوجی میدان میں شکست دی ہے، وہیں اس کے سائبر سیکورٹی نظام کی خامیوں کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اب پاکستان نے سائبر سیکورٹی کے شعبے میں خود کو منوا لیا ہے اور اب صرف اپنی برتری کا جشن ہی نہیں منانا ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ابھرتی ہوئی سائبر سیکورٹی مارکیٹ میں بھی اپنا مقام بنائیں اور اس شعبے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں ماہرین کی مدد سے جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس حکومتی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔

  • رائے: پاکستان کا شمسی توانائی کا سفر صارفین کے درمیان لاگت کی منتقلی سے متاثر ہو رہا ہے

    رائے: پاکستان کا شمسی توانائی کا سفر صارفین کے درمیان لاگت کی منتقلی سے متاثر ہو رہا ہے

    پاکستان نے 2015 میں خاموشی سے توانائی کے غیر مرکزی نظام کا ایک نیا دور شروع کیا۔ “نیٹ میٹرنگ ضوابط” کے نام سے منظور ہونے والے قانون کے تحت گھروں اور کاروباری اداروں کو اجازت دی گئی کہ وہ شمسی پینل لگا کر اضافی بجلی قومی گِرڈ کو واپس بیچ سکیں، اور جتنی قیمت پر وہ بجلی خریدتے تھے اتنی ہی قیمت پر فروخت بھی کر سکیں۔ یہ ایک جرآٔت مندانہ قدم تھا ایک ایسے ملک میں جو بجلی کی قلت، بڑھتے ہوئے درآمدی اخراجات، مہنگی اور ناقابل بھروسہ بجلی کے باعث عوامی بے چینی کا شکار تھا۔

    اِس قانون کا فوری اثر ہوا۔ گرتی ہوئی سولر پینل کی قیمتوں اور جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ بجلی کے خوردہ نرخوں کے باعث، پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال میں تیزی آئی۔ صرف سال 2024 میں، 22 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کئے گئے جو ایک حیران کن عدد ہے، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان کی مجموعی نصب شدہ پیداواری صلاحیت 46 گیگا واٹ ہے۔ تاہم، اِس کامیابی کے پسِ منظر میں ایک خاموش اضطراب پوشیدہ ہے: ”پھنسے ہوئے اخراجات” کا بنیادی مسئلہ۔

    بجلی کے استعمال کے موجودہ طریقے اور یوٹیلٹیز (بنیادی سہولیات جیسے بجلی) کے اخراجات وصول کرنے کے نظام کے درمیان ایک بڑھتا ہوا معاشی عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔ پاکستان میں یوٹیلٹیز نے ہمیشہ حجم پر مبنی نرخوں پر انحصار کیا ہے — یعنی ہر فروخت ہونے والی کلو واٹ گھنٹہ بجلی کے بدلے چارج کرنا — تاکہ وہ نہ صرف توانائی بلکہ بنیادی ڈھانچے (جیسے کھمبوں، تاروں، سب سٹیشنز اور انتظامی اخراجات) کی قیمت بھی وصول کر سکیں۔ لیکن جیسے جیسے زیادہ صارفین شمسی توانائی کو اپنانے لگے ہیں اور اپنی کچھ بجلی خود پیدا کرنے لگے ہیں، یوٹیلٹی کی جانب سے فروخت کی جانے والی بجلی (کلو واٹ گھنٹوں کی صورت میں) کم ہوتی جا رہی ہے۔

    یہ صورتِ حال گِرڈ کو چلانے کے اصل اخراجات کو کم نہیں کرتی۔ اس کے برعکس، مستقل اخراجات اب کم تعداد میں صارفین پر تقسیم ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں باقی تمام صارفین کے لئے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بڑھتے ہوئے نرخ منقسم توانائی) لوگوں کا اپنی بجلی خود پیدا کرنا( کو مالی لحاظ سے مزید پرکشش بنا دیتے ہیں، خاص طور پر تجارتی و صنعتی صارفین کے لئے، جو یوٹیلٹی آمدنی کا بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔ جب بڑے صارفین گِرڈ سے ملنے والی بجلی پر اپنا انحصار کم کرتے ہیں، تو یوٹیلٹی ادارے “پھنسے ہوئے اثاثوں” کے مسئلے سے دوچار ہو جاتے ہیں — یعنی ایسا انفراسٹرکچر جو زیادہ طلب کے اندازے پر بنایا گیا تھا، مگر اب اس کی لاگت وصول ہونے کا کوئی واضح راستہ باقی نہیں رہا۔

    تاہم، یوٹیلٹی اداروں پر مالی دباؤ ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ پاکستان میں بجلی کی فراہمی کا نظام ایک خریدار پر مشتمل مارکیٹ پر قائم ہے، جہاں سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (CPPA-G) بجلی پیدا کرنے والوں سے معاہدے کرتی ہے، اور ریاستی تقسیم کار کمپنیاں (DISCOs) صارفین کو بجلی فروخت کرنے، بل وصول کرنے اور چوری روکنے کی پابند ہوتی ہیں۔ جب خوشحال صارفین شمسی توانائی اپنا کر گرڈ پر انحصار کم کرتے ہیں، تو ریاستی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی آمدن گھٹنے لگتی ہے اور نقصان میں اضافہ ہوتا ہے۔ فروخت کی مقدار کم ہو جاتی ہے، مگر اخراجات جوں کے توں رہتے ہیں یا بڑھ جاتے ہیں، اور باقی صارفین پر نرخوں کا بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں مزید صارفین کے جانے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک فیڈ بیک لوپ پیدا کرتا ہے جسے “یوٹیلٹی کی موت کا چکّر (یوٹیلیٹی ڈيتھ لوپ” کہا جاتا ہے۔

    بجلی کے زیادہ تقسیمی نقصانات، کم بل کی وصولی اور درآمدی ایندھن پر بھاری انحصار کے باعث یہ سرکاری تقسیم کار کمپنیاں مشکل میں گرفتار ہیں۔ وہ مالی خسارے کو روک نہیں پا رہیں اور سیاسی وجوہات کی بنا پر بجلی کے نرخ اتنے بڑھا نہیں سکتیں کہ اپنے نقصان پورے کر سکیں۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ جنوبی افریقہ میں بھی ایسی ہی صورتحال سامنے آ رہی ہے۔

    نیٹ میٹرنگ سے نیٹ بلنگ تک
    پاکستان کی نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے نیٹ بلنگ کا نظام اپنانے کی سفارش کی ہے۔ یہ تجویز پہلے ہی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی سے منظوری پا چکی ہے اور اب کابینہ کی منظوری کی منتظر ہے۔ اگر یہ تجویز حتمی طور پر منظور ہو گئی تو نیپرا باقاعدہ طور پر اس تبدیلی کو ریگولیٹری فریم ورک (قواعد و ضوابط) میں شامل کر دے گا، جس سے پاکستان کا تقریباً دس سال پرانا نیٹ میٹرنگ نظام ختم ہو سکتا ہے۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کی نیٹ انرجی میٹرنگ 3.0 (Nem) پالیسی کی مانند، یہ نظام سولر صارفین کو ریٹیل (خوردہ) نرخوں کی بجائے یوٹیلٹی کی بچت شدہ لاگت کے مطابق ادائیگی کرتا ہے (یعنی وہ رقم جو یوٹیلٹی بجلی بنانے یا خریدنے پر خرچ کرتی) جو عموماً ریٹیل نرخوں سے کافی کم ہوتی ہے۔

    نیپرا کی نئی تجویز کے تحت، گِرڈ کو زائد بجلی فراہم کرنے والے صارفین کو اس بجلی کی اصل قیمت کے قریب معاوضہ دیا جائے گا، جو نظام کے لئے حقیقی قیمت کی عکاسی کرے گا۔ اِن صارفین کو پاکستان میں یہ قیمت عام طور پر فی کلو واٹ گھنٹہ کے حساب سے ادا کی جاتی ہے، جب کہ ملک کے کئی حصوں میں ریٹیل نرخ 27 روپے فی کلو واٹ گھنٹہ سے زیادہ ہیں۔ نظریاتی طور پر، اس سے نظام میں زیادہ منصفانہ طریقہ کار آئے گا کیونکہ یہ غیر شمسی صارفین پر پڑنے والے اضافی بوجھ (گِرڈ کے مستقل اِخراجات کا بوجھ) کو کم کرے گا اور یوٹیلٹی اداروں کو مالی طور پر مستحکم رکھے گا۔

    لیکن اس سے شمسی توانائی کی معاشیات بھی بدل جاتی ہے۔ نئے صارفین کے لئے بغیر اسٹوریج کے روف ٹاپ سولر سسٹم کی ادائیگی کا وقت 1 سے 2 سالوں سے بڑھ کر 4 سے 5 سال ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ قدم گِرڈ کو مستحکم کرے گا اور غیر شمسی صارفین کا تحفظ کرے گا، لیکن اس سے نئی تنصیبات کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔ سوائے اس کے کہ یہ جدید کاروباری ماڈلز کے ساتھ جوڑے جائیں، جیسے کہ سولر پلس اسٹوریج (جو صارفین کو چوٹی کے اوقات میں مہنگی بجلی خریدنے سے بچاتا ہے) یا پیر ٹو پیر انرجی ٹریڈنگ (جس سے وہ اضافی بجلی براہِ راست دوسروں کو بیچ سکتے ہیں)۔

    کیلیفورنیا کے تجربے سے ایک اہم سبق ملتا ہے۔ 2023 میں نیٹ بلنگ کے نظام پر منتقلی کے بعد خالص روف ٹاپ سولر کی تنصیبات میں کمی آئی۔ تاہم، بیٹری کے استعمال میں اضافہ ہوا کیونکہ صارفین مہنگے چوٹی کے اوقات (بجلی کی زیادہ مانگ کا دورانیہ) میں استعمال کے لئے توانائی ذخیرہ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی رجحان دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ خالص روف ٹاپ فوٹو وولٹک نظام کی تنصیبات سست پڑ جائیں گی، لیکن شمسی توانائی کے ساتھ لیتھیئم آئن بیٹریوں اور سمارٹ انورٹرز کے امتزاج پر مبنی خود کفالت کے حل میں دلچسپی بڑھے گی۔

    بڑا مسئلہ حل کرنا: غیر مؤثر تقسیم
    تاہم، صرف نیٹ بلنگ سے پاکستان کے توانائی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں جو صارفین کو سولر کی طرف لے جا رہی ہیں، اِن کی جڑیں گہرے بنیادی مسائل میں ہیں: نظام کے چلانے میں خامیاں، مہنگے ایندھن کے معاہدے، بڑھتا ہوا گردشی قرضہ، اور کمزور انتظامیہ۔

    اگرچہ نیپرا منقسم توانائی (لوگوں کا اپنی بجلی خود پیدا کرنا) کے لئے ضوابط میں تبدیلیاں کر رہا ہے، سرکاری تقسیم کار کمپنیوں کو فوری طور پر تکنیکی نقصانات کو کم کرنا، میٹرنگ اور بلنگ کے نظام کو جدید بنانا، بجلی کی خریداری کو بہتر بنانا اور جوابدہ ہونا چاہیے۔ جب تک بجلی کی اصل لاگت کم نہیں ہوتی، صارفین گِرڈ کی بجلی سے ہٹ کر متبادل تلاش کرتے رہیں گے، چاہے جس طرح بھی اُن کی تلافی کی جائے۔ یہ ایک گہری حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: پاکستان میں لوگ گِرڈ سے انحراف کر کے شمسی توانائی کی طرف اس لئے نہیں جا رہے کہ وہ صاف توانائی چاہتے ہیں بلکہ وہ درحقیقت خود کو مہنگی بجلی سے بچانا چاہتے ہیں تاکہ اُن پہ مالی بوجھ کم ہو سکے۔

    مستقبل کی ایک جھلک: بیٹریاں اور ایک زیادہ بہتر گِرڈ
    اگرچہ پاکستان نیٹ بلنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر اِس کی شمسی توانائی کا سفر ختم ہونے والا نہیں ہے۔ بجلی ذخیرہ کرنے کی ٹیکنالوجیز، خاص طور پر لیتھیم آئن بیٹریاں، زیادہ سستی اور قابل رسائی ہوتی جا رہی ہیں۔ جیسے جیسے بیٹریوں کی قیمتیں کم ہوتی جائیں گی، زیادہ تر سولر صارفین شام کے وقت خود استعمال کے لئے توانائی ذخیرہ کریں گے۔

    بیٹری اسٹوریج کے ساتھ چھتوں پر لگے سولر سسٹم گِرڈ کی لچک میں نمایاں اضافہ کر سکتے ہیں کیونکہ یہ چوٹی کے اوقات اور بجلی کی بندش کے دوران گِرڈ پر انحصار کم کر دیتے ہیں۔ دن کے وقت زائد شمسی توانائی ذخیرہ کر کے شام کو استعمال کرنے سے، جب پاکستان کا گِرڈ سب سے زیادہ دباؤ میں ہوتا ہے، یہ سولر سسٹم چوٹی کی طلب (بجلی کی زیادہ طلب) کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں اور چوٹی کے اوقات میں مہنگے پاور پلانٹس چلانے کی ضرورت کو گھٹا دیتے ہیں جو عام طور پر درآمدی ایندھن پر چلتے ہیں۔

    یہ تبدیلی نہ صرف قومی ایندھن کے خرچ کو کم کرتی ہے بلکہ بجلی کے نئے ترسیلی اور تقسیمی ڈھانچے کی فوری ضرورت کو بھی مؤخر کر دیتی ہے، یوں ایک ایسے گرڈ پر دباؤ کم ہوتا ہے جو پہلے ہی نقصانات اور محدود صلاحیتوں کا شکار ہے۔ یوں، سولر اور بیٹری پر مبنی یہ منقسم توانائی کا نظام ایک غیر مرکزی سہارا بنتا ہے، جو بجلی کی زیادہ مانگ کے اوقات میں گِرڈ کو طاقت دیتا ہے اور صارفین کو بااختیار بناتا ہے۔

    اِن رجحانات سے آگے رہنے کے لئے، پاکستان کے توانائی کے منصوبہ سازوں کو مختصر مدتی اِصلاحات سے آگے دیکھنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ ‘ڈیمانڈ رسپانس’ نظام، ذہین گِرڈز اور ایسے ٹیرف ڈیزائنز میں حکمت عملی کے تحت سرمایہ کاری کریں جو بجلی کی حقیقی قیمت کی عکاسی کرے، یعنی جو استعمال کے وقت اور مقام کے حساب سے مختلف ہو۔

    ایک زیادہ ذہین اور فوری ردعمل دینے والا گِرڈ صارفین کو بااختیار بنائے گا، کیونکہ اس سے گھروں اور کاروباروں کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنے توانائی کے استعمال کو وقت کی صورتحال کے مطابق ڈھال سکیں۔ اس سے بجلی کے سسٹم پر دباؤ کم ہوگا اور صارفین کو اپنے استعمال پر زیادہ کنٹرول حاصل ہوگا۔

    (سعدیہ قیوم کی یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس یہاں پڑھا جاسکتا ہے)

  • پاک بھارت جنگ اور سمندر پار پاکستانی

    پاک بھارت جنگ اور سمندر پار پاکستانی

    پاکستان اور بھارت کے درمیان چھڑپوں کے دوران ہم پاکستانیوں نے جس اطمینان، اور بے خوفی کا مظاہرہ کیا اس پر دنیا حیران ہے۔ جس طرح سمندری طوفان کے موقع پر مرکز میں خاموشی اور ٹھراؤ ہوتا ہے جب کہ اردگرد تلاطم برپا ہوتا ہے۔ شاید ایسا ہی وطن میں موجود پاکستانیوں کا حال تھا جو جنگ سے بے خوف اور مطمئن تھے۔ ان کی حس مزاح عروج پر تھی۔ مگر بیرون ملک پاکستانی جو کئی قومتیوں کے ساتھ رہتے ہیں، اُن دنوں بہت کچھ سہنے پر مجبور تھے اور بہت سے جذباتی لمحات ان کی زندگی کا حصہ بنے۔

    دیارِ غیر میں‌ وطن کی فکر اور اپنوں سے دوری کا احساس انسان کو کس طرح نچوڑ دیتا ہے یہ تو کوئی سمندر پار پاکستانیوں سے پوچھے۔ ہم وطنوں پر کوئی افتاد ٹوٹ پڑے اور جب جنگ چھڑ جائے تو وطن سے دور بسنے والوں کی تڑپ کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہاں ہم آپ کو دیارِ غیر میں‌ مقیم چند پاکستانیوں کا احوال سنا رہے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں وہاں ان پر کیا گزری۔

    پہلگام واقعے کے بعد برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور بھارتی باشندوں کے درمیان لندن میں خوب دنگل ہوا۔ پاکستانی ہائی کمیشن اور بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے ہونے والے مظاہروں میں دوںوں ملکوں کے شہریوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔ ایک موقع پر پاکستانیوں نے بھارتیوں کو مفت چائے پلا کر ان کو بھارتی پائلٹ ابھینندن کی یاد دلائی۔ جب کہ بھارتی حملے کا پاکستان کی جانب سے جواب دینے پر لندن میں پاکستانیوں نے سڑکوں پر جشن بھی منایا اور اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

    بھارتی جارحیت اور حملوں‌ کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے بھرپور اور منہ توڑ جواب دینے کے بعد جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو برطانوی اخبار نے لکھا کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہری لندن میں پارلیمنٹ اسکوائر میں جمع ہوگئے، فتح کا نشان بنایا، اور جنگ بندی کا خیر مقدم کیا۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے صحافیوں کو بتایا کہ سات مئی کے بعد سے وہ سوئے ہی نہیں تھے۔ مگر اب پاکستان کو جنگی محاذ پر فتح نصیب ہوگئی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے حل کو کیا جانا چاہیے۔ خصوصا پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے علاوہ بھارت کی جانب سے انڈس واٹر معاہدے کی خلاف ورزی ان کے لئے باعث تشویش ہے۔

    حارث یونس ایک پاکستانی نژاد برطانوی گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ ان دنوں طب کی تعلیم کے لیے جارجیا میں مقیم ہیں۔ وہ جس ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں اس میں وہ واحد پاکستانی ہیں۔ جب کہ بھارتیوں اور دیگر قومیتوں کے نوجوانوں کی بڑی تعداد ساتھ رہتی ہے۔ جب سات مئی کو بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تو بھارتی طلبہ کی بڑی تعداد ہاسٹل کے مرکزی ہال میں جمع ہوگئی اور بھارت کے حق میں نعرے لگانے لگے۔

    واحد پاکستانی ہونے کی وجہ سے حارث بہت زیادہ پریشان رہے۔ وہ جانتے تھے کہ پاکستان نے بھی بھارت کے حملے کا بھرپور جواب دیا ہے۔ مگر وہ اس شور میں یہ بات کسی کو بتانے کے قابل نہیں تھے۔ مگر جب آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان نے دس مئی کو بھارت پر جوابی حملہ کیا تو حارث بھی مرکزی ہال میں پہنچ گئے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ پاکستانی فوج کے اس منہ توڑ جواب نے ان کو نڈر بنا دیا تھا اور وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ اس جگہ دشمن ملک کے کئی شہریوں کے درمیان وہ واحد پاکستانی ہیں اور یہاں کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں ہے۔ حارث بتاتے ہیں کہ بھارتی طلبہ تو اپنے کمروں میں ہی گھسے رہے۔ مگر دیگر قومیتوں کے طلبہ نے باہر نکل کر حارث کو مبارک باد دی اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔

    برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں راجہ محمود ایک اہم ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ وہ جہاں کام کرتے ہیں وہاں پر مخلتف قومیتوں کے لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے۔ جن میں افغان، نائجیرین، لبنان، شام و ایران اور عراق کے شہری شامل ہیں۔ سات مئی کو بھارت کے حملے کی خبر پر پہلے پہل تو دل دہل گیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایسے حملوں میں بڑا جانی نقصان ہوسکتا ہے۔ مگر جب پاکستانی فضائیہ کے حملوں میں بھارتی طیاروں خصوصاًَ رافیل کے تباہ ہونے کی اطلاع آئی تو ان کی جان میں جان آئی۔ راجہ محمود کہتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کے علاوہ انگریز باشندے بھی اس جنگ پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کے ایک دفتری ساتھی ڈیوڈ نے جنگ کے بارے میں دریافت کیا اور راجہ محمود نے بتایا کہ بھارت نے حملہ کیا تھا جس کے بعد پاکستانی فوج نے اس کے پانچ جہاز مار گرائے ہیں۔ تو ڈیوڈ نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایئر فورس نے چھے جہاز گرائے ہیں۔

    روزینہ عمران پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے ہر قومیت کے لوگوں کے قریب ہیں اور ان کے حلقۂ احباب میں مختلف ممالک کے شہری شامل ہیں۔ پہلگام کے واقعے کے بعد ان کو اسی طاقت اور برتری کے جنون اور مذہبی تعصب پر مبنی رویے کا سامنا کرنا پڑا جسے خاص طور پر بھارت کی مودی سرکار کئی برس سے ہوا دے رہی ہے۔ وہ بتاتی ہیں‌ کہ ان کی ہندو شناسا کس طرح پہلگام واقعے کے بعد فون پر رسماً حال احوال پوچھنے کے بعد اس واقعے پر تبصرہ کرتیں اور بتاتیں کہ کیسے ہندو شناخت جاننے کے بعد لوگوں کو قتل کیا گیا۔ روزینہ کا کہنا ہے کہ جب ان سے سوال کیا جاتا کہ کیا کوئی ایک دہشت گرد پکڑا جاسکا، اس اہم سیاحتی مقام پر پولیس کیوں نہ تھی، پہلگام تک دہشت گرد کیسے پہنچ گئے اور اتنی آسانی سے فرار کیسے ہوگئے تو وہ جواب دینے کے بجائے بہانہ بنا کر فون بند کر دیتیں۔ پھر پاکستان پر بھارت نے حملہ کردیا لیکن ہماری فوج کی جوابی کارروائی میں بھارتی فضائیہ کا بڑا نقصان ہوا اور جنگ کے آغاز پر ہی پاکستان کا پلڑا بھاری ہوگیا تو ان کو کسی بھارتی دوست نے فون تک نہ کیا۔

    شمائلہ متحدہ عرب امارات میں قائم انڈین اسکول میں ملازمت کرتی ہیں۔ بھارتی اسکول ہونے کے باوجود اس کی انتظامیہ اور اعلیٰ عہدوں پر مسلمان فائز ہیں۔ شمائلہ کا کہنا ہے کہ جب جنگ شروع ہوئی تو ہم بہت پریشان تھے کہ نجانے یہ سب کتنی جانیں لے کر جائے گا۔ مگر بھارت کو پہلے ہی حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے کارروائی میں نقصان اٹھانا پڑا تو خاصا حوصلہ ہوا۔ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے بعد پاکستانی تو خوش تھے ہی تھے۔ مگر بھارتی مسلمان بھی بہت خوش تھے کیونکہ وہاں ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جارہا ہے اور بھارتی حکومت اور انتظامیہ نے حیلے بہانوں اور ناانصافی پر مبنی قانون سازی سے مسلمانوں کے وقف اور زمینوں کو ہتھیانا شروع کر دیا ہے۔ ان حالات میں اقلیتیں بھلا کس دل سے بھارتی حکومت کا ساتھ دے سکتی ہیں۔ شمائلہ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات کا ایک خاص ماحول ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے کھل کر تو پاک بھارت تنازع اور جنگ پر بات نہیں کی مگر دیگر ملکوں کے مسلمان اور خصوصاً عرب اساتذہ بہت خوش اور پرجوش نظر آئے۔ دس مئی کو جب پاکستان نے بھارتی فوج کو منہ توڑ جواب دیا اور بھرپور حملے کیے تو شمائلہ جہاں جاتیں انہیں مبروک مبروک کی آواز سنائی دیتیں۔

    حادی کے والدین متحدہ عرب امارات میں ملازمت کے لئے سلسلے میں مقیم ہیں اور حادی بھی اپنے تعلیم وہیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاک بھارت کشیدگی کے بعد ان کے بھارتی کلاس فیلوز نے جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ حادی کا کہنا ہے کہ ان کو جواب دینے کا بہت دل کرتا تھا۔ مگر شروع میں وہ اس کا حوصلہ نہ کرسکے اور جب دس مئی کو پاکستان کا بھرپور جواب سامنے آیا تو حادی نے بھی کلاس میں اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔

    راجہ ہارون دبئی ایئر پورٹ پر امارات ایئرلائن میں تقریباً دو دہائیوں سے ملازمت کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ کام کرتے ہیں۔ جب کہ ایک بڑی تعداد بھارتی شہریوں کی ہے۔ بھارتی شہریوں میں ہندوؤں کے علاوہ سکھ اور مسلمان بھی شامل ہیں۔ مگر ہندوؤں کا رویہ مجموعی طور پر غیردوستانہ ہوتا ہے۔

    سات مئی کو جب بھارتیوں نے حملہ کیا تو ڈیوٹی پر موجود بھارتی ہندوؤں کے چہروں پر خوشی نمایاں تھی۔ وہ ایک دوسرے کو پرجوش انداز میں مبارک دے رہے تھے۔ ان کی باڈی لینگویج میں ایک احساس تفاخر نمایاں تھا۔ مگر ہم پاکستانی کم تعداد میں ہونے کے باوجود پر اعتماد تھے۔ اور بھارتی فضائیہ کے جنگی طیاروں کے گرنے کی خبر نے بھی بہت اعتماد دیا تھا۔ ہارون مزید کہتے ہیں کہ سات سے دس مئی کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کچھ ہوا وہ ایک جذباتی معرکہ بھی تھا۔ وطن سے دور رہتے ہوئے میڈیا پر یہ سب سننا اور دیکھنا ایک الگ ہی نوعیت کا تجربہ تھا۔ ہماری زندگی کے لگ بھگ 50 یا 55 سال میں یہ پہلا موقع تھا کہ دونوں ملکوں نے اس بڑے پیمانے پر جنگ کی۔ سات مئی کی رات کو جب بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا تو پہلا ردعمل تو یہی تھا کہ یہ سراسر بیوقوفی ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ انسانی جانوں کو خطرہ میں ڈال دیا گیا ہے۔ پھر پاکستان کی طرف سے بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیارے گرانے کی خبر سنی تو دل کو کسی قدر تسلی ہوئی مگر جذبات کسی طرح تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بہرحال فتح‌ کے بعد بھی ہماری مسلح افواج کی میڈیا بریفنگز، حکومت اور سرکاری و سفارتی عملہ کا طرزِ عمل بہت بہتر رہا جسے دنیا نے سراہا ہے۔

    معرکۂ حق میں‌ فتح اور آپریشن بنیان مرصوص کی کام یابی نے بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں‌ کو بھی شاد باد کر دیا اور ان کے سر فخر سے بلند ہیں۔ سمندر پار اپنے غیر ملکی دوستوں اور حلقۂ احباب کی نظر میں‌ پاکستانیوں کا وقار بڑھ گیا ہے کہ یہ اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بہادری اور شجاعت کے جذبے کے تحت اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کو عبرت کا نشان بنا دیا ہے۔

  • بھارت کے شہرت یافتہ ’’مسلمانوں‘‘ کی سب سے بڑی مجبوری

    بھارت کے شہرت یافتہ ’’مسلمانوں‘‘ کی سب سے بڑی مجبوری

    بھارت کے چہرے سے بالخصوص مودی کے 13 سالہ دور میں سیکولر ملک کا نقاب اتر چکا ہے اور ایک ایسی ہندو ریاست کا ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ جس میں کسی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کو تو کوئی تحفظ اور حقوق حاصل نہیں۔

    بھارت میں عام مسلمانوں کی حالت تو انتہائی ابتر ہے۔ کبھی انہیں گئو رکشا کے نام پر ہندو جنونیت کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے تو کبھی زبردستی ہندوؤں کے مذہبی نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ گو کہ ہندوستان میں مشہور مسلمان شخصیات کی زندگی مشکل تو نہیں، لیکن اتنی آسان بھی نہیں ہے۔ وہاں کی مشہور مسلمان شخصیات کو بھی چین اور سکون سے رہنے اور حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف بولنا ضروری ہوتا ہے۔

    حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بالی ووڈ مصنف اور نغمہ نگار جاوید اختر نے اپنی روایت دہراتے ہوئے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور کہا کہ ’’اگر مجھے جہنم یا پاکستان جانے کا کہا جائے تو میں جہنم کا انتخاب کروں گا‘‘۔ ان کے اس غیر سنجیدہ بیان پر پاکستانیوں نے ایسا ہی منہ توڑ جواب دیا ہے جیسا کہ مودی سرکار کے نام نہاد آپریشن سندور کا جواب پاک فوج نے آپریشن بنیان مرصوص سے دیا تھا۔

    جاوید اختر کا یہ بیان ہے تو بہت زہریلا اور متعصب، لیکن اگر گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو یہ ان کی مجبوری ہے، جو سب کو پتہ ہے کہ بھارت میں بسنے والے مسلمان چاہے کتنے ہی با اثر اور مشہور کیوں نہ ہو جائیں، اور اپنے قول وعمل سے خود کو کتنا ہی سیکولر کیوں نہ ثابت کر دیں لیکن انہیں خود کو بھارتی ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف زہر اگلنا پڑتا ہے۔

    بالی ووڈ مصنف جو کئی بار ادبی میلوں اور تقریبات میں پاکستان آ چکے ہیں اور پاکستان نے ہمیشہ ان کی بہترین مہمان نوازی کی۔ وہ جب تک پاکستان میں رہتے ہیں پاکستان کی مدح سرائی کرتے ہیں لیکن بھارت جاتے ہی گرگٹ سے بھی زیادہ تیزی رنگ بدلتے ہوئے ہمارا حقِ نمک ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔

    یہ اکیلے جاوید اختر ہی نہیں بلکہ بھارت میں میں جتنے بھی نامور مسلمان ہیں، چاہے وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں اپنی ہندوستانیت اور حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے یا تو پاکستان کے خلاف زہر اگلنا پڑتا ہے یا پھر خاموش رہنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ خاموشی بھی ہندو انتہا پسندوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ ان کی امن پسند خاموشی پر بھی سیخ پا ہو کر انہیں بھارت چھوڑنے اور پاکستان چلے جانے تک کا مشورہ دیتے ہیں۔

    ایسی مسلم مخالف ذہنیت کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ حال ہی میں بھارتی فوج کی ترجمان صوفیہ قریشی پر ہندو انتہا پسندی کی زد میں آئیں۔ انہیں بی جے پی رہنما جے شاہ نے دہشتگردوں کی بہن قرار دے کر ہندوتوا ذہنیت آشکار کر دی اور دنیا کو باور کرا دیا کہ ان اور ان جیسی سوچ رکھنے والوں کی نظر میں صرف وہی ہندوستانی ہے جو ہندو ہے۔ بی جے پی رہنما اپنی فوج کی ترجمان پر شرمناک الزام لگاتے ہوئے یہ بھی بھول گئے کہ صوفیہ کی کئی نسلیں اُسی ملک کے لیے قربانیاں دے چکی ہیں۔ اُن کی پر دادی نے کالونیل برصغیر دور میں ملکہ ہند لکشمی بائی عرف جھانسی کی رانی کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف لڑی تھی، لیکن نسل در نسل قربانیوں کے باوجود وہ صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے آج بھی معتبر نہیں ہیں۔

    بھارتی فلم انڈسٹری میں اب تک دلیپ کمار (یوسف خان) سے بڑا اداکار پیدا نہ ہوسکا جو بلاشبہ 20 ویں صدی کے برصغیر کے سب سے بڑے اداکار قرار پائے۔ انہوں نے زندگی بھر ایک قانون پسند اور محب وطن بھارتی ہو کر زندگی گزاری، لیکن ہندو انتہا پسندوں نے دنیا بھر میں بھارت کی شناخت بننے والے اس دلیپ کمار کو بھی نہ بخشا۔

    1998 میں جب پاکستانی حکومت نے دلیپ کمار کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں نشان امتیاز سے نوازا تو بھارت کے ہندو انتہا پسند طبقے میں آگ لگ گئی۔ حالانکہ دلیپ کمار یہ ایوارڈ لینے کے لیے اس وقت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی کی اجازت سے پاکستان آئے تھے، لیکن شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کو یہ بھی ہضم نہ ہوا اور ان کے خلاف زہر اگلا۔ اسی سے شہ پا کر ہندو انتہا پسندوں نے دلیپ کمار کے گھر کے باہر مظاہرے کیے، حد تو یہ کہ ان پر پاکستان سے جاسوسی تک کا بے سروپا الزام عائد کیا گیا۔

    حالانکہ یہ پہلا موقع نہیں تھا جب حکومت پاکستان نے کسی ہندوستانی کو اہم قومی اعزاز سے نوازا ہو۔ اس سے قبل بھارتی سیاستدان مرار جی ڈیسائی جو بعد ازاں ہندوستان کے وزیراعظم بنے انہیں حکومت پاکستان نے اعلیٰ سول ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ 1987 میں بھارتی ایئر ہوسٹس نیرجا بھنوت کو ہائی جیکنگ کے واقعے میں بہادری کا مظاہرہ کرنے پر بعد از مرگ تمغہ پاکستان دیا گیا۔ لیکن ان پر بی جے پی یا آر ایس ایس نے غدار وطن یا پاکستان کے جاسوس ہونے کا الزام عائد نہیں کیا، کیونکہ یہ شخصیات مسلمان نہیں تھیں۔

    حالیہ کشیدگی کے علاوہ ماضی میں کئی بار پاک بھارت کشیدگی کے دوران شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان کی فلموں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ انہیں بھارت سے نکال باہر کریں۔ حالیہ جنگ بندی پر امن کی ٹویٹ کرنے پر یہ اتنے سیخ پا ہوئے کہ سلمان خان کو اپنی وہ ٹویٹ ہی ڈیلیٹ کرنی پڑی۔ بالی ووڈ کے فلمی اداکاروں کو تو ممبئی میں گھر تک خریدنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ یہی حال کھیل سے وابستہ مسلمان کھلاڑیوں کا ہے۔ اظہر الدین، عرفان پٹھان، محمد شامی، ظہیر خان، محمد سراج سمیت ایسے درجنوں نام ہیں، جو خاموش رہتے ہیں یا پھر ’’مجبوری‘‘ کے تحت پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔

    ایک سابق بھارتی کرکٹر عرفان پٹھان ہیں۔ اتنا تو ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے سابق اور موجودہ کرکٹرز پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی نہیں کرتے جتنا وہ زہر اگلتے ہیں اور ان کا یہ طرز عمل ان کی مجبوری اور فرسٹریشن دونوں ظاہر کرتا ہے۔ حالانکہ یہ وہی عرفان پٹھان ہیں، کہ جب 2006 میں بھارتی ٹیم کے ہمراہ پاکستان آئے تھے تو ان ہی پاکستانیوں نے اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔

    2017 میں چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پاکستان سے بھارت کی شکست کے ذمہ دار تنہا محمد شامی نہیں تھے۔ ویرات کوہلی، شیکھر دھون، روہت شرما سب ناکام ہوئے تھے لیکن گھر پر حملہ صرف محمد شامی کے کیا گیا اور انہیں غدار وطن تک کے خطاب سے نواز دیا گیا۔ ہندو انتہا پسندی کے خوف نے 2023 کے ورلڈ کپ میں شامی کو گراؤنڈ پر سجدہ شکر ادا کرنے سے روک دیا۔ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم جب بھی پاکستان سے ہارتی تھی تو بھارتی سب سے زیادہ لعن طعن مسلمان کپتان اظہر الدین پر کرتے تھے۔

    ایک جانب ہندوتوا کی حامی ریاست بھارت ہے جہاں مسلمانوں کے لیے سانس لینا بھی اجیرن اور پاکستان یا اس سے منسلک کسی نام کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ کہیں وہ کراچی بیکری پر حملہ آور ہوتے ہیں تو کہیں انتہا پسندی کی انتہا کرتے ہوئے قدیمی مٹھائیوں سے پاک نام ہٹا شری لگاتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان ہے، جہاں اقلیتوں کو ان کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ بھارت کتنی ہی شر انگیزی کرے، لیکن یہاں کا کوئی مسلم شہری کسی ہندو شہری کی حب الوطنی پر شک نہیں کرتا۔ اس کو ہراساں کیا جاتا ہے اور نہ ہی پاکستان چھوڑنے کے لیے دھمکایا جاتا ہے۔ یہاں بمبئی بیکری ہو یا دہلی بریانی آج بھی ہماری ثقافت کا حصہ اور شان سمجھی جاتی ہے۔ یہ فرق ہے دونوں طرف کی ذہنیت، سوچ اور اقدار کا۔

    مسلمانوں سے نفرت کرنے والے بھارت اور ہندو انتہا پسندوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جس ایٹم بم کے بل بوتے پر وہ اتراتے ہیں، وہ ایک مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالکلام ہی کی کاوش تھا۔ جو ترنگا وہ لہراتے ہیں اس کے ڈیزائن کی حتمی منظوری ایک مسلم طالبہ نے دی تھی۔ تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار سمیت سیاحوں کو راغب کرنے والے تاریخی مقامات مسلمان مغل حکمرانوں کی یادگار ہیں۔

  • پاکستان: مصدق ملک کے پانی، موسمیاتی آفات اور گرمی کی شدت کے حوالے سے خیالات

    پاکستان: مصدق ملک کے پانی، موسمیاتی آفات اور گرمی کی شدت کے حوالے سے خیالات

    کراچی کی جھلستی گرمی میں، جہاں سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے ساتھ کشیدگی جاری ہے، مصدق مسعود ملک امریکانو کافی نوش کررہے تھے۔ حال ہی میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کاری مقرر ہونے والے مصدق ملک نے وزارت آبی وسائل اور پیٹرولیم کی نگرانی کے اپنے سابقہ عہدے کو چھوڑ کر ایک ایسا کردار سنبھالا ہے جسے وہ ناگزیر اور چیلنجنگ قرار دیتے ہیں۔ اپریل 2025 کی تبدیلی کے بعد اپنے پہلے انٹرویوز میں سے ایک میں، انہوں نے خصوصی طور پر ڈائیلاگ ارتھ سے بات کی۔

    ملک پاکستان کے سب سے سنگین ماحولیاتی خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں، “فضائی آلودگی اور اس کا پاکستانی عوام پر اقتصادی اثر۔ پانی کی آلودگی اور اس تک رسائی۔ اور ٹھوس فضلہ (چاہے وہ میتھین ہو یا کاربن ڈائی آکسائیڈ) کے انتظامات ۔ یہ تین بڑے چیلنجز ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے”۔

    لیکن انہیں سب سے زیادہ تشویش پاکستان کے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کی ہے۔ کراچی آنے سے پہلے، سینیٹر ملک کے پہلے سرکاری دوروں میں سے ایک گلگت بلتستان تھا، جو پاکستان کا شمالی ترین علاقہ ہے اور قطبی علاقوں کے علاوہ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر ذخائر کا گھر ہے۔ وہ وہاں اقوام متحدہ کے ایک منصوبے کے تحت جاری اقدامات کا جائزہ لینے گئے تھے، جس کا مقصد گلیشیئر جھیلوں کے اچانک بہاؤ (جی ایل او ایف) کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اعداد اپنی حقیقت خود بیان کرتے ہیں، پاکستان میں 13,000 سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں، جو اسے بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت کے سامنے فرنٹ لائن پر کھڑا کرتے ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، “آبادی کے بڑھنے کے ساتھ، کمیونٹیاں اب وہیں نہیں رہتیں جہاں ان کے اجداد رہتے تھے۔ اگر وہ ان خطرات کے راستے میں ہوں تو کیا ہوگا؟”

    گلگت بلتستان سے تقریباً 2,000 کلومیٹر دور، وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، کراچی میں بالکل مختلف قسم کے موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور مالیاتی مرکز ہے۔ ان میں سب سے اہم وفاق اور صوبوں کے درمیان سیاسی خلیج کو پُر کرنا اور صوبوں کے متصادم مفادات کو سمجھنا ہے۔

    تباہی کا تماشہ؟
    بھارت کی طرف سے مالی امداد روکنے کے سفارتی دباؤ کے باوجود، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اس ماہ پاکستان کے لئے ایک نیا قرضہ منظور کیا ہے۔ ایک بیان میں، آئی ایم ایف نے تصدیق کی کہ اس نے پاکستانی حکومت کی ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلیٹی (آر ایس ایف ) کے تحت درخواست قبول کر لی ہے، جس کے تحت 1.4 ارب امریکی ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جائے گی تاکہ ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق چیلنجز کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کر سکے۔

    اگرچہ یہ فنڈنگ ایک اہم مدد ثابت ہوگی، لیکن مالک اس حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہم ابھی تک 2022 کے سیلاب کے دوران پیش آنے والے بہت سے مسائل سے نہیں نکل پائے۔ وعدے کئے جاتے ہیں، لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔” انہوں نے مزید کہا، “نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے وعدے کئے گئے تھے، لیکن کیا اس فنڈ میں رقم ڈالی گئی؟ وعدوں کے حجم کو دیکھیں، پھر اصل میں موصول ہونے والی فنڈنگ کو دیکھیں۔”

    وہ پوری عالمی ردعمل کے نظام پر سوال اٹھاتے ہیں، “کیا یہ سب صرف ایک تباہی کا تماشہ ہے، جہاں ہم سب مل کر شاندار انگریزی بولتے ہیں اور زبردست تقاریر کرتے ہیں؟”

    حال ہی میں، پاکستان نے متعلقہ فریقین سے تباہی اور نقصان فنڈ سے فنڈز کی تقسیم کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ ملک شدید موسمی واقعات اوربتدریج بڑھتے موسمیاتی اثرات کا شکار ہے۔ مالک کہتے ہیں، “میں مایوس نہیں ہوں۔ جو کچھ میں اس وقت کر رہا ہوں وہ لابنگ ہے۔ اور یہ صرف پاکستان کے لئے نہیں، اگرچہ یہ میری پہلی اور سب سے اہم ذمہ داری ہے، بلکہ میں کمزور طبقات کے لئے، میں موسمیاتی انصاف کے لئے لابنگ کر رہا ہوں۔”

    وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی نے حالیہ بین الاقوامی فورمز پر بھرپور انداز میں اپنا موقف رکھا ہے، جہاں انہوں نے موسمی انصاف اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لئے بھرپور حمایت کی ہے۔ جنیوا کلائمٹ سمٹ سمیت دیگر مواقع پر، انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیات کے نظام میں موجود ناانصافیوں کی سخت الفاظ میں نشاندہی کی۔ وہ چند ممالک کو غیر متناسب فوائد پہنچنے پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “دنیا کے باقی ممالک کا کیا ہوگا؟” اور پوچھتے ہیں، “پاکستان کا کیا ہوگا؟”

    پانی کے تنازعات
    ملکی سطح پر ماحولیات کے سب سے زیادہ متنازعہ مباحثوں میں سے ایک جنوبی پنجاب کے چولستان کے صحرا میں متعقدہ چھ نہروں کا منصوبہ ہے۔ پاکستان میں پانی ایک نہایت حساس اور سیاسی مسئلہ ہے، جہاں صوبے دریائے سندھ کے نظام میں اپنے حصے کی تقسیم پر طویل عرصے سے متنازعہ رہے ہیں، کیونکہ یہ نظام ملک کی زرعی معیشت کا سہارا ہے۔ اسی پس منظر میں، چھ نہروں کا یہ منصوبہ، جسے سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سندھ صوبے کی طرف پانی کے بہاؤ کم ہوجاۓ گا، سخت مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ سندھ حکومت نے پانی کی مقدار میں کمی کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے، منصوبے پر مشاورت نہ ہونے پر بھی اعتراض کیا ہے۔

    ملک اس تصور کا دفاع کرتے ہیں اور اسے ممکنہ طور پر فائدہ مند قرار دیتے ہیں، لیکن زور دیتے ہیں کہ صوبوں کے درمیان اعتماد اور شفافیت خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “ہر صوبے کے پانی کے حقوق کی حفاظت کا ممکنہ حل یہ ہے کہ ہر بین الصوبائی جنکشن پر پانی کی نگرانی کے لئے ایک ٹیلیمیٹری نظام قائم کیا جائے، تاکہ ہر وہ بوند جو بہتی ہے، اس کا حساب رکھا جا سکے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ جب یہ نظام نافذ ہو جائے گا، تو صوبے یہ یقین دہانی کر سکیں گے کہ انہیں اپنے حصے کا پانی “سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے مل رہا ہے، نہ کہ انسانی مداخلت سے۔”

    تاہم، عوامی مظاہروں اور بڑھتے ہوئے بین الصوبائی تنازعات کی وجہ سے حکام نے اس منصوبے کو اس وقت تک روک دیا ہے جب تک کہ اتفاقِ رائے نہ ہو جائے۔ ملک کہتے ہیں، “ہم صوبوں کی رضامندی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتے، اور صوبوں سے مشاورت کی جانی چاہیے۔”

    ملک پانی کے نظم و نسق میں شفافیت اور جوابدہی کے اپنے عزم کو دہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “کوئی یکطرفہ فیصلہ سازی نہیں ہوگی،” اور مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ایک مضبوط ٹیلیمیٹری نظام حقیقی وقت میں پانی کی نگرانی اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے گا۔

    وفاقی وزیر پانی کی پیداواری صلاحیت کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہیں، ایک ایسا تصور جسے ان کے خیال میں پاکستان میں خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی۔ وہ کہتے ہیں، “زرعی شعبے میں پانی کے استعمال کی پیداواریت میں 3 فیصد بہتری وہی پیداوار دے سکتی ہے جو 30 لاکھ ایکڑ فٹ سیلابی آبپاشی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔” دوسرے الفاظ میں: “زیادہ فصل، کم پانی۔”

    ان کے مطابق، توجہ کو آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کو پھیلانے کے بجائے موجودہ پانی کے مؤثر استعمال پر مرکوز کرنا چاہیے۔

    جب پاکستان میں بندوں کی تعمیر کے سیاسی تنازعے کے بارے میں پوچھا گیا تو ملک نے مسکراتے ہوئے کہا، “میں اس بند کا نام نہیں لوں گا، ورنہ ‘مجرم’ بنا دیا جاؤں گا۔

    بھارت اور پاکستان کے درمیان تازہ کشیدگی اور تصادم کے بعد حال ہی میں اعلان کردہ جنگ بندی کے باوجود، انڈس واٹرز ٹریٹی کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ کشمیری علاقے پہلگام پر حملے کے بعد بھارت نے انڈس واٹرز ٹریٹی کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا، جس کی پاکستان نے سخت مذمت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “اگر کوئی اختلاف ہو تو پہلا قدم انڈس کمشنرز کے درمیان دوطرفہ بات چیت ہونی چاہیے۔ اگر وہ کامیاب نہ ہو تو دوسرا راستہ تکنیکی ماہرین کی غیرجانبدارانہ مشاورت ہے۔” “آخری حل ثالثی عدالت ہے، اور یہ طریقہ اس معاہدے میں کام کرتا رہا ہے۔ اور اگر اس معاہدے کی کوئی وقعت نہیں، تو دنیا میں کسی معاہدے کی وقعت نہیں۔”

    ملک کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے اس معاہدے کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “معاہدے کی ایک لازمی شرط یہ ہے کہ کمشنرز کو وقتاً فوقتاً ملاقات کرنی ہوتی ہے، جس کی بھارت پہلے ہی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ وہ اتنی معلومات یا ڈیٹا بھی فراہم نہیں کرتا جو اس دوطرفہ نظام میں پانی کے بہاؤ کی تصدیق میں مدد دے۔” وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلگام حملے سے پہلے ہی بھارت معاہدے کی شرائط دوبارہ طے کرنے کی بات کر رہا تھا۔ “یہ شک و شبہات کو جنم دیتا ہے کہ کیا پہلگام کو معاہدے کی خلاف ورزی کا بہانہ بنایا گیا؟” وہ سوال اٹھاتے ہیں۔

    علاقائی کشیدگی سے لے کر عالمی بے عملی تک، ملک پھر سے موسمیاتی تبدیلی کے انسانی نقصانات کی طرف آ تے ہیں، خاص طور پر پاکستان کے سب سے زیادہ متاثرہ گروپ کے لئے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم اسکولوں اور صحت کے مراکز تک رسائی کھو دیتے ہیں۔ ہماری لڑکیاں اور خواتین ان تباہ کاریوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔”

    پھر ایک خاموش لمحے میں، ملک نے معصوم ماضی یاد کرتے ہوئے کہا، ” اپنے بچپن میں ہم اپنے باغ میں جگنو پکڑتے، انہیں بوتلوں میں بند کر کے اندھیرے کمروں میں لے جاتے، مگر پھر باہر آ کر انہیں آزاد کر دیتے تاکہ وہ مر نہ جائیں۔ شام کے وقت تتلیوں کے پیچھے دوڑتے تھے۔ وہ تتلیاں اور جگنو کہاں گئے؟ اب ان کا پیچھا کرنے کون دوڑتا ہے؟ ہرے توتے اور بلبل کہاں ہیں؟ کیا آپ نے انہیں حال میں دیکھا ہے؟” وہ جواب کی توقع نہیں رکھتے۔

    ملک کے نزدیک، بتدریج گرم درجہ حرارت کی طرف مائل دنیا کی وجہ سے جو جمالیاتی اور ثقافتی نقصان ہوتا ہے، وہ مادی یا جسمانی نقصان کے برابر ہی گہرا ہے۔ ملک افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ شاعری اور لوک گیت جو کبھی پاکستان کی قدرتی خوبصورتی کی تعریف میں گائے جاتے تھے، اب معدوم ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “سیلاب اور موسمیاتی آفات صرف مادی نقصان نہیں پہنچاتیں، بلکہ ہماری ثقافت کو بھی چھین لیتی ہیں۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • نحیف و نزار ’’پاکستان کرکٹ‘‘ سے خصوصی انٹرویو!

    نحیف و نزار ’’پاکستان کرکٹ‘‘ سے خصوصی انٹرویو!

    سڑک سے گزر رہا تھا کہ کنارے پر ایک بوڑھے جھریوں زدہ وجود کو سکڑے سمٹے دیکھا۔ یہ کوئی انوکھی بات نہ ہوتی، اگر اس کمزور وجود نے اپنے ایک ہاتھ میں گیند، بلا اور دوسرے ہاتھ میں پاکستانی پرچم نہ تھاما ہوتا۔ اس حلیہ نے تجسس کو بھڑکایا اور صحافتی رگ پھڑکی تو ہم اس نحیف و نزار وجود کے پاس جا پہنچے اور علیک سلیک کر کے کچھ بات کرنے کی کوشش کی۔

    چہرے کے نقوش بتا رہے تھے کہ یہ عمارت کبھی پرشکوہ بھی رہی ہوگی۔ تاہم زمانے کی چیرہ دستیوں اور حالات کے جبر نے خوبصورتی کو گہنا دیا ہے۔ قریب کھڑے ہو کر مزید جاننے کی کوشش کی تو ایسا لگا کہ یہ وجود جو بہت ستم رسیدہ دکھائی دے رہا تھا کوئی تازہ غم اس کے اندر نوحہ کناں تھا اور یہ غم اس کی آنکھوں کے ساتھ پورے ہی وجود سے جھلک رہا تھا۔ آنکھیں جھکی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں کسی سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں۔ یہ حالت دیکھ کر میں اس وجود کو زبردستی قریبی چائے کے ہوٹل پر لے گیا، تاکہ سکون کے ماحول میں اس کے کچھ اوسان بحال کیے جائیں اور حال احوال دریافت کیا جائے۔ ہوٹل پہنچنے کے بعد اس نے ایک کونے میں سر چھپا کر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ کئی بار بات کا ارادہ کیا لیکن سامنے گہری خاموشی دیکھ کر خاموش رہا۔ بالآخر صبر نے جواب دیا تو سکوت توڑ کر تعارف حاصل کرنا چاہا اور پہلا سوال یہ پوچھا کہ آپ کون ہیں اور یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟

    پہلے تو وہ وجود اپنا تعارف کرانے سے ایسے جھجھکا، جیسے وہ اپنا تعارف کرانے پر شرمسار ہو لیکن ہمارے بے حد اصرار پر بالآخر بول پڑا کہ میں ’’پاکستان کرکٹ‘‘ ہوں۔ یہ سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ مگر جلد ہی خود کو سنبھال کر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کرکٹ سے منفرد انٹرویو کرنے کی ٹھانی۔

    میں نے بطور صحافی تعارف کراتے ہوئے انتہائی کمزور وجود کے ساتھ بیٹھی پاکستان کرکٹ سے انٹرویو کی خواہش ظاہر کی۔ تھوڑے سے اعتراض کے بعد وہ راضی ہوئی، اور ساتھ ہی احسان جتایا کہ مجھ سے اپنا نام بڑا بنانے والے آج پیسوں پر انٹرویو دے رہے ہیں، مگر تم بھی کیا یاد کرو گے کہ میں تمہیں صرف چائے کی ایک پیالی پر ہی انٹرویو دے رہی ہوں۔

    انٹرویو کی نشست شروع ہوتے ہی میں نے پہلا پرتجسس سوال داغا کہ آپ جو آج بہت کمزور اور دکھی دکھائی دے رہی ہیں کیا ہمیشہ سے یہی حال ہے؟
    نہیں بیٹا میرا ماضی تو بہت خوبصورت اور روشن تھا۔ خوشیوں کا چمن تھا جس میں کئی پھول کھلے اور دنیا کو اپنی خوشبو سے مہکایا، لیکن آنے والے نا اہل مالیوں اور امر بیل فطرت رکھنے والوں نے میرے اس گلستان کو اب کسی اجڑے چمن کی صورت کر دیا ہے۔ جہاں قومی ٹیم نے بڑی فتوحات سے اقوام عالم میں میرا سر فخر سے بلند بھی کیا اور کچھ کرکٹرز نے اپنی حرکتوں سے دنیا کے سامنے مجھے شرمسار بھی کیا۔

    آپ کی عمر کیا ہے، کچھ اپنے ماضی کے بارے میں بتائیں؟
    میری عمر اس وطن عزیز سے چند سال ہی چھوٹی ہے۔ پاکستان 1947 میں معرض وجود میں آیا۔ متحدہ ہندوستان میں برطانوی کالونی ہونے کی وجہ سے وراثت میں کرکٹ ملی تھی۔ اس لیے صرف 5 سال بعد ہی 1952 میں مجھے باقاعدہ ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ مل گیا۔

    ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلے کس ملک کا دورہ کیا؟
    ٹیسٹ کرکٹ ملک کا درجہ ملنے کے بعد سب سے پہلا دورہ بھی کپتان عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں روایتی حریف بھارت کا کیا اور اکتوبر 1952 میں پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا۔

    آپ کو مختلف ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے؟
    ہاں بالکل درست ہے۔ مجھے قومی پرچم اور جرسی کی مناسبت سے گرین شرٹس بھی کہا جاتا ہے، مین ان گرین بھی پکارا جاتا ہے۔ میں شاہین بھی ہوں لیکن حالیہ کارکردگی نے مجھے کرگس بنا دیا ہے جب کہ لوگ مجھے طنزیہ انداز میں دنیا کی واحد نا قابل بھروسہ ٹیم بھی کہتے ہیں۔

    میرا سینہ اگر آج زخموں سے چور ہے لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ میرے دامن میں آنے والوں نے میرے ذریعے مال و دولت کمایا لیکن کچھ ایسے بھی نکلے جنہوں نے پیسہ کی خاطر میری عزت اور وقار کا سودا کر دیا۔

    آپ کی اب تک کی کارکردگی کیا رہی ہے؟
    ٹیسٹ نیشن کا درجہ ملنے کے بعد سے اب تک میں 10 ممالک کے خلاف مجموعی طور پر 465 ٹیسٹ میچز کھیل چکی ہوں اور ان میں سے 151 جیتے۔ 148 ہارے۔ 166 ڈرا ہوئے۔
    جب ایک روزہ کرکٹ آئی تو اولین دن سے اس کا حصہ بنی اور اب تک 19 ممالک سے پنچہ آزمائی کرتے ہوئے 987 میچز کھیل کر 520 میچوں میں کامیابی سمیٹی اور 437 میں ناکامی ملی۔

    دو دہائی قبل جب ٹی 20 کرکٹ کا دور شروع ہوا تب سے اب تک ورلڈ الیون اور 19 ملکوں کی ٹیموں سے 258 میچز کھیل کر 145 جیتے اور 102 ہارے۔

    13 ون ڈے ورلڈ کپ میں 1992 کا ٹائٹل جیتا۔ دو فائنل اور چار سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز پایا۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ کے ریکارڈ پانچ سیمی فائنل اور دو فائنل کھیلے 2009 میں چیمپئن بنا۔ 2016 میں ٹیسٹ کرکٹ کی نمبر ون ٹیم کا اعزاز پایا۔ 2017 میں پہلی بار سرفراز کی قیادت میں چیمپئنز ٹرافی بھی اٹھائی۔

    گزشتہ کئی سالوں سے پے در پے شکستوں کے باوجود آج بھی میری جیت کا تناسب شکستوں سے زیادہ ہے، جو اس بات کا گواہ ہے کہ میرا ماضی خوشیوں سے بھرا اور بہت روشن تھا۔

    پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی خوشی کون سی ہے؟
    اس میں کوئی شک نہیں کہ 1992 میں جب پاکستان پہلی بار ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنا تو وہی سب سے بڑی خوشی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں اس وقت کے کپتان عمران خان نے جس طرح ٹوٹی، بکھری اور شکستوں کے بھنور میں پھنسی ٹیم کو عرش سے اٹھا کر فرش پر پہنچایا اور جس طرح میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں خوبصورت کرسٹل ٹرافی اٹھائی۔ وہ منظر 33 سال گزرنے کے باوجود دل ودماغ سے محو نہیں ہوتا۔

    اس کے علاوہ پاکستان نے شارجہ میں 1986 کے آسٹریلیشیا کپ میں روایتی حریف بھارت کو فائنل میں ہرا کر پاکستان کو پہلی بار کثیر الملکی ٹورنامنٹ میں ٹرافی جتوائی۔ میانداد کا چیتن شرما کی آخری گیند پر مارا گیا چھکا آج بھی بھارتیوں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ کئی سال کے ٹرافی کے قحط کے بعد پاکستان ٹیم ایک بار لارڈز کے میدان میں سرخرو ہوئی اور 2009 میں یونس خان کی قیادت میں ٹی 20 ورلڈ کپ جیت کر دہشتگردی سے خوفزدہ پاکستانی عوام کے چہرے پر خوشیاں بکھیریں۔ پھر 2016 میں ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز اور ایک سال بعد ہی سرفراز احمد نے وہ کر دکھایا جو کسی اور کپتان نے نہیں کیا تھا۔ روایتی حریف بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں پچھاڑ کر پاکستان کو پہلی بار یہ اعزاز بھی دلایا اور اس کے ساتھ آئی سی سی کے تمام فارمیٹس کی فتوحات پاکستان کے نام ہوئیں۔

    آپ کے لیے سب سے مشکل وقت کون سا تھا؟
    بیٹا دکھ سکھ تو ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ کبھی سکھ کی چھاؤں آتی ہے تو کبھی دکھ کی تمازت پورے جسم اور روح کو جلا دیتی ہے۔ لیکن میرے لیے جہاں خوشیوں کے بہت سارے در کھلے وہیں دکھ کے موسم بھی بہت اور طویل رہے۔ دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے ہر بار عارضی مرہم پٹی کر کے سدھار کی کوشش کی گئی لیکن مستقل مزاجی نہ ہونے کے باعث لگتا ہے کہ یہ زخم ناسور بن چکا ہے۔

    پاکستان کرکٹ میں دھڑے بندی کب شروع ہوئی؟
    ٹیم میں کپتانی کی دوڑ تو 80 کی دہائی سے شروع ہو چکی تھی لیکن 90 کی دہائی میں اس نے تقویت پائی اور دھڑے بندی بھی ہوئی لیکن بات کرو دکھ کی تو جس نے روح تک کو مسل ڈالا وہ 1999 کا ورلڈ کپ تھا۔ اس پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم ناقابل شکست رہتے ہوئے بڑی بڑی ٹیموں کو پچھاڑ گئی لیکن حیران کن طور پر نو آموز بنگلہ دیش سے ہار گئی۔ اس وقت کے کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ ہم اپنے بھائی سے ہارے لیکن اس کے جواب میں بنگلہ دیش کی متعصب وزیراعظم حسینہ واجد نے جلتی پر تیلی کا کام کرتے ہوئے اس کو 1971 (سقوط ڈھاکا) کا بدلہ قرار دیا۔ پھر اس کے فائنل میں جس بری طرح شکست ہوئی وہ 26 سال گزرنے کے باوجود اب تک لوگوں کے ذہنوں کے پردے پر محفوظ ہے۔

    اس سے قبل 1994 میں پہلی بار پاکستان ٹیم پر میچ فکسنگ کا الزام لگا تھا۔ اس کی تحقیقات ہوئیں اور جب جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ آئی تو اس نے تہلکہ بھی مچایا۔ لیکن ملبہ صرف دو کھلاڑیوں سلیم ملک اور عطا الرحمان پر ڈال کر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ وسیم اکرم کو فوری کپتانی سے ہٹانے کی سفارش کی گئی اس کے ساتھ کچھ کھلاڑیوں کو اہم عہدوں پر تعینات نہ کرنے کی بھی سفارش کی گئی مگر بعد میں ان میں سے ہی کچھ کپتان اور ریٹائرمنٹ کے بعد پی سی بی کے عہدوں پر فائز ہوئے۔

    2006 میں دورہ انگلینڈ میں آخری ٹیسٹ میچ کو فورفیٹ کر کے انگلش ٹیم کو ایوارڈ کرنا بھی کرکٹ کا انوکھا واقعہ رہا اور اس میں بھی پاکستان ہی شریک تھا۔ وہ تو بعد میں پی سی بی کی کوششوں سے آئی سی سی نے اس میچ کو ڈرا قرار دیا۔

    2007 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں پہلے ہی راؤنڈ میں ٹورنامنٹ سے اخراج سے زیادہ تکلیف دہ اس وقت کے ٹیم کوچ باب وولمر کی پراسرار موت تھی۔ اس معاملے میں پاکستانی ٹیم پر شک اور تفتیش نے دنیا میں میرا امیج خراب کیا۔

    2010 میں دورہ انگلینڈ میں اسپاٹ فکسنگ ایسا کیس ہے جس نے میرے شکستہ وجود کو مزید کمزور کیا اور ایسا لگا کہ میرے چہرے پر کالک مل دی گئی ہو۔ اس جرم کی پاداش میں پہلی بار پاکستانی کرکٹرز کو جیل کی سزا بھی بھگتنی پڑی۔ اس وقت کے کپتان اور سارے تماشے کے کرتا دھرتا سلمان بٹ اور محمد آصف کو تاحیات پابندی جب کہ نوجوان محمد عامر کو سات سال پابندی کی سزا ملی۔ اس واقعہ نے پاکستان کو ایک بڑے فاسٹ بولر سے محروم کر دیا گوکہ محمد عامر کی واپسی ہوئی لیکن وہ پہلے کی طرح اپنا جادو نہ جگا سکا۔

    سوال: پاکستان ٹیم نے کیوں برسوں تک اپنے میچز نیوٹرل مقامات پر کھیلے؟
    بیٹا یہ بھی دہشتگردی کا شاخسانہ تھا۔ 2009 میں سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر تھی کہ لاہور میں مہمان ٹیم پر دہشتگرد حملے کے بعد ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ رک گئی۔ غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان کا رخ کرنا چھوڑ دیا اور پاکستان نے اسی وجہ سے اپنے میچز کئی سال تک نیوٹرل مقامات پر کھیلے۔ یہ بہت شرمناک اور اذیت ناک دور تھا۔ اسی کی آڑ لے کر پاکستان سے خائف بھارت نے 2011 میں ون ڈے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی بھی مجھ سے چھین لی۔

    2015 میں سیکیورٹی اداروں کی کوششوں اور امن قائم ہونے کے بعد غیر ملکی ٹیموں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور اب سوائے بھارت کے تمام ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔ پاکستان نے 29 سال بعد رواں برس آئی سی سی کے کسی ایونٹ چیمپئنز ٹرافی کا کامیاب انعقاد بھی کیا۔ پاکستان سپر لیگ نے بھی میرا مثبت امیج دنیا کو دیا اور آج دنیا کے کئی ممالک کے نامور کرکٹرز پی ایس ایل کھیلتے ہیں۔

    جب آپ کو اتنی خوشیاں ملیں تو پھر اتنا زود رنج کیوں ہو رہی ہیں؟
    بیٹا تم ہی بتاؤ کہ وہ ٹیم جس نے آئی سی سی کے تمام ٹورنامنٹس (ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی) جیتنے کے ساتھ ٹیسٹ نمبر ون ٹیم کا اعزاز بھی پا رکھا ہو۔ دو بار ایشین چیمپئن کا تاج بھی سر پر سجایا ہو۔ اس ٹیم کی آج حالت یہ ہوچکی ہو کہ وہ ڈیڑھ سال کے دوران ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور اپنی میزبانی میں کھیلی گئی چیمپئنز ٹرافی میں پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہوچکی ہو۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم بھی مجھے میرے گھر میں وائٹ واش کر کے چلی جائے تو اس پر خوشی کے بھنگڑے ڈالوں یا ماتم کناں ہوں۔

    آپ کی نظر میں اس کارکردگی کی وجہ کیا ہے؟
    بیٹا میں نے آج تک یہی دیکھا ہے کہ مستحکم کامیابی مستقل مزاجی سے ملتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے کسی ادارے میں مستقل مزاجی نہیں تو کرکٹ میں کیسے ہو سکتی ہے۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں چھیڑ چھاڑ، نئی پالیسیاں، نئے چہرے اور ترجیحات سے معاملات بگڑتے ہیں۔

    میں زیادہ پرانی بات نہیں کرتی۔ صرف اس سوا ڈیڑھ سال کے عرصہ کو دیکھ لو۔ حکومتوں کی تبدیلی کے ساتھ پی سی بی سربراہ، عہدیدار، ٹیم منیجمنٹ حتیٰ کہ کئی بار کپتان تبدیل ہوگئے۔ ہر تبدیلی پر بڑے دعوے اور میجر آپریشن کی بات کی گئی لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیم کو عارضی کامیابیاں تو ملتی ہیں مگر مستقل مزاجی نہیں آتی۔

    آپ کو 73 سال کا تجربہ ہے تو آپ کی نظر میں اس کا حل کیا ہے؟
    بیٹا میں کیا اور میری رائے کیا؟ ہونا تو وہی ہے جو اس ملک کے بڑے اور کرکٹ کے کرتا دھرتا چاہیں گے، مگر جب زبان پر آئی ہے تو کہہ چلوں کہ پاکستان کرکٹ کی ترقی کے لیے حق اور راست گوئی کی راہ اپناتے ہوئے بے رحمانہ احتساب کیا جائے لیکن اس میں صرف کھلاڑیوں کو ہی نہیں بلکہ اس میں فیصلہ سازوں کو بھی شامل کیا جائے۔ پرچی کلچر ختم کر کے باصلاحیت کھلاڑیوں کو آگے لایا جائے، ساتھ ہی مستقل مزاجی سے ٹیم اور منیجمنٹ منتخب کر کے اس کو وقت دیا جائے تو یہی ٹیم پھر سے قوم کی امنگوں پر پوری اترے گی اور میری عمر رسیدگی کا بھرم قائم رکھے گی۔

    آپ کی خواہش کیا ہے؟
    کرکٹ واحد کھیل ہے جو لسانی اور فرقہ ورانہ تقسیم میں بٹے لوگوں کو ایک قوم میں بدلتی ہے خاص طور پر جب پاک بھارت میچ ہو تو قومی جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ قوم کا اتحاد اسی کھیل کی ترقی سے بھی جڑا ہے۔ میں ایک بار پھر اپنی ٹیم میں محمد برادران، حفیظ کاردار، عمران خان، جاوید میانداد، یونس خان، شاہد آفریدی، سرفراز احمد جیسے بڑے نام دیکھنا چاہتی ہوں جن کا مطمح نظر پیسہ نہیں بلکہ پاکستان اور سبز ہلالی پرچم کی سر بلندی ہوتا تھا۔
    یہ پاکستان کرکٹ کے وہ درخشاں ستارے ہیں جن کے بغیر پاکستان کرکٹ کی تابناک تاریخ ادھوری رہے گی۔ انہوں نے پاکستان کو بڑا ٹائٹل جتوایا لیکن خود پر کبھی کرپشن کا ایک داغ نہیں لگنے دیا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ خود کو منوانے اور کامیابی کے لیے جذبے کےساتھ ایمانداری بھی ضروری ہے۔

  • جارحانہ رویّہ اور منفی ردعمل سفارتی میدان میں بھارت کو تنہا کرگیا

    جارحانہ رویّہ اور منفی ردعمل سفارتی میدان میں بھارت کو تنہا کرگیا

    پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور جھڑپوں کے بعد اس وقت بین الاقوامی سرحد پر مکمل جب کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جزوی طور پر جنگ بندی ہے جب کہ سفارتی سطح پر تناؤ اور میڈیا کے محاذ پر کشیدگی برقرار ہے۔

    7 مئی سے 10 مئی تک جھڑپوں اور پاکستان کی جانب سے بھرپور حملوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ امریکی مداخلت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا ہے۔ جو لوگ 10 مئی کو صورت حال مانیٹر کر رہے ہوں گے انہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ ٹرمپ کے جنگ بندی کے ٹوئٹ کے بعد بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کے جنگ بندی کے اعلان سے قبل صبح ہونے والی میڈیا بریفنگ میں بھارتی مسلح افواج نے نہ صرف پاکستان کی جانب سے ایک بھرپور حملے کی تصدیق کی بلکہ یہ بھی کہا کہ بھارتی مسلح افواج مزید کشیدگی نہیں چاہتی، اگر پاکستان بھی ایسا ہی کرے۔

    اس پریس بریفنگ میں یہ الفاظ بھارتی فوج کی جانب سے اعتراف شکست ہی ہیں۔ اس میڈیا بریفنگ کی ویڈیو اب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اسے دیکھا اور اعتراف شکست کو سنا جاسکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی مسلح افواج کے ہاتھ کھڑے دینے کے بعد مودی حکومت کے پاس امریکا کی جنگ بندی کی پیشکش کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

    بھارت کی سفارت کاری جنگ بندی تک محدود رہی جب کہ پاکستان نے اپنی سفارت کاری جنگ بندی سے آگے جا کر کی تھی۔ اور لگتا ہے کہ پاکستان نے امریکا کو جنگ بندی کی شرائط میں مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے لیے عالمی طاقتوں کو آمادہ کرلیا ہے۔ اس جنگ بندی میں پاکستان کو عالمی سطح پر چین، ترکی اور آذربائیجان کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ جب کہ بھارت کو جنگی جرائم میں عالمی عدالتِ انصاف کو مطلوب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حمایت حاصل رہی۔

    جنگ شروع ہونے سے قبل امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بھارت کا دورہ مکمل کیا تھا۔ اور جس وقت پہلگام کا واقعہ رونما ہوا تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ یعنی بھارت سفارتی سطح پر اعلٰی ترین رابطوں میں مصروف تھا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر اعظم ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد وائٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ جب کہ پاکستان کی ابھی تک کسی بھی امریکی اعلیٰ عہدیدار سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہونے سے قبل بھارت نے اعلیٰ امریکی قیادت بشمول امریکی صدر، کو یہ باور کرایا ہوا تھا کہ پاکستانی دفاعی نظام بھارت کے حملوں کے آگے ٹک نہ سکے گا۔ مگر سات مئی کے بھارت کے حملے میں اس کو جو نقصان ہوا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح دس مئی کو جو جواب دیا گیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس جواب نے امریکی صدر اور انتظامیہ کے اہم افراد کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
    پاکستان نے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کے بعد سے بہتر سفارت کاری کی اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے واقعے کی غیر جانبدار تحقیقات کی پیشکش کو دنیا نے مثبت لیا تھا۔ مگر بھارت اپنی عددی طاقت کے نشے میں ایسا دھت تھا کہ وہ سفارتی سطح پر آنے والے پیغام کو ڈھنگ سے سمجھ نہ سکا۔ اور جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی زبان اس کو سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔

    اب بھارتی حکومت کی سرپرستی میں گودی میڈیا نے ان ملکوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جنہوں نے پاکستان کی براہ راست حمایت یا معاونت کی ہے یا پھر انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کرانے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بھارت کے ہیرو میجر گورو آریا جس کی زبان گالی اور گندگی کے علاوہ اور کچھ اگل نہیں رہی ہے، اس نے ایران کی جانب سے مفاہمت کی کوشش کرنے والے وزیر خارجہ کے بارے میں نازیبا کلمات کہے جس پر ایران نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح بھارت میں بی جے پی کے کارکنوں نے سعودی عرب کے جھنڈے کی بے حرمتی کی جس نے نہ صرف سعودی عرب کو ناراض کیا بلکہ پوری مسلم امہ میں بھارت کے خلاف غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔

    بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ میں فرانسیسی رافیل طیارے، مقامی طور پر تیار کردہ میزائل، اسرائیلی ڈورونز، روسی فضائی دفاعی نظام کو تباہ کروا کے ان ملکوں کی ٹیکنالوجی کو بے توقیر کروایا۔ مگر پاکستان نے بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے کسی بھی ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی رافیل طیارے دینے والے فرانس کے خلاف اور نہ ہی ایس 400 ڈیفنس سسٹم دینے پر روس کے خلاف کوئی بیان دیا گیا۔ مگر پاکستان کی سفارتی حمایت اور فوجی معاونت کرنے والے ممالک کے خلاف بھارت کے گودی میڈیا کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔

    بھارت کی ایک نیوز ایجنسی جس کو را کی جانب سے خبریں اور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں نے ایک مضمون میں ترکیہ کو دھمکی دی ہے کہ بھارت اپنے براہمسترا میزائل سے چھ منٹ میں اسے تباہ کر سکتا ہے۔ اس دعوے کے علاوہ بھارتی ایوی ایشن سکیورٹی ادارے بی سی اے ایس نے جمعرات کو ترکیہ کی گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنی سیلیبی ائیرپورٹ سروسز انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی سکیورٹی کلیئرنس منسوخ کر دی ہے۔ ترکیہ کی یہ ایجنسی بھارت کے نو ایئرپورٹس ممبئی، دہلی، کوچی، کنور، بنگلور، حیدرآباد، گوا، احمد آباد اور چنئی پر جہازوں کی ہینڈلنگ کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

    اسی طرح بھارت نے پاکستان کی کھل کر حمایت کرنے پر آذربائیجان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی شروع کر دی ہے۔ اور ٹریول ایجنیسوں نے اس ملک کا سیاحتی بائیکاٹ شروع کردیا ہے۔ بھارتی حکومت کی اس پر خاموشی اور بائیکاٹ مہم کے خلاف کارروائی نہ کرنے کو بھارت سرکار کی آشیر باد تصور کیا جا رہا ہے۔

    چین، ترکیہ اور آذربائیجان کے خلاف بائیکاٹ مہم بھارتی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا حصہ محسوس ہوتا ہے۔ مگر بھارت کے سفارتی سطح پر منفی رویّے پر معروف امریکی پروفیسر کرسٹین فیئر نے بھی حالیہ جنگی معرکے میں بھارتی کامیابی کے دعوؤں کی نہ صرف قلعی کھول دی ہے بلکہ بھارتی سفارت کاری سے جھلکتے ہوئے اس کے رویّے کو کاٹ کھانے جیسا قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ کرسٹین فیئر پاکستان کے خلاف کھلم کھلا معاندانہ رویہ اختیار کرتی رہی ہیں اور ہماری سخت ناقدین میں سے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کرسٹین فیئر کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کے رویوں میں بہت فرق ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان نے حالیہ دنوں میں سفارت کاری میں آداب کو ملحوظ رکھا ہے اور اس کے آفیشلز کا رویہ بہت نرم اور مہذب رہا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی ذاتی مثال پیش کی کہ وہ طویل عرصے سے پاکستان کے خلاف باتیں اور تجزیے کررہی ہیں۔ مگر پاکستانی ان سے نرمی سے بات کرتے ہیں۔ جب کہ بھارت کی حمایت کرنے کے باوجود بھارتی جب بات کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کاٹ کھانے کو دوڑ رہے ہیں۔ کرسٹین کا کہنا ہے کہ جنگ سے قبل اور بعد میں پاکستان کی سفارت کاری بہتر رہی مگر لگتا ہے کہ بھارت نے جنگ بندی کے بعد بھی سفارتی سطح پر اپنا رویہ درست نہ کیا تو اسے مزید نقصان اٹھانا پڑے گا۔

    پاکستان کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی ملکوں سے بھی بھارت کے نامناسب رویّے نے سفارتی سطح پر بھی اس کی تنہائی میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی مالدیپ کا سیاحتی بائیکاٹ کرچکے ہیں۔ جب کہ خطے کے دیگر ملک بھوٹان، نیپال، میانمار، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی جانب سے بھی بھارت کو کسی قسم کی حمایت نہیں مل سکی ہے۔

    گزشتہ صدی کے اختتام تک بھارت نے ایک غیر جانب دار ملک کے طور پر اپنی سفارتی شبیہہ بنائی تھی جو رواں صدی کے آغاز پر آہستہ آہستہ مٹنے لگی تھی اور اب بھارت اپنی اکڑ اور درشت رویّے کی وجہ سے سفارتی طور پر تنہائی کا شکار نظر آرہا ہے مگر ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہے۔