Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • کیاموجودہ  حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی  ہے ؟

    کیاموجودہ حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی ہے ؟

    ڈھائی ماہ قبل اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بڑے کروفر کے ساتھ 11 جماعتوں کا اتحاد حکومت میں آیا اور وزارت عظمیٰ کا تاج مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا یوں معاشی اور سیاسی طور پر ہچکولے کھاتے پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ مسلم لیگ ن کو دے دی گئی اور پھر حصہ بقدر جثہ کے مطابق وزارتوں کی تقسیم ہوگئی۔ لیکن ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے خاص طور پر سیاسی اور اقتدار کی سانجھے کی ہانڈی پھوٹنے کا دھماکا تو زیادہ تیز اور اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ سیاسی ساجھے داری میں نہ کوئی اصول ہوتے ہیں نہ ضوابط بلکہ صرف مفادات کو دیکھا جاتا اور اقتدار کے حصول کو ہی فوقیت دی جاتی ہے کہ یہی ہماری سیاسی تاریخ رہی ہے۔

    لگ بھگ کرکٹ ٹیم کے اراکین کے مساوی سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے بنائی گئی حکومت کی کھچڑی جب بنی تھی تو وزیراعظم شہباز شریف کے سابقہ انتظامی تجربے کو دیکھتے ہوئے قوم کو امید تھی کہ وہ اپنے اس تجربے کو بروئے کار لاکر پاکستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت شہباز شریف نے اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں بھی دکھائیں اور اتنی دکھائیں کہ ان کے اپنے ہی لوگوں نے اسے شہباز اسپیڈ کا نام بھی دیا۔ انہوں نے اپنے ابتدائی ایک ماہ کے اقتدار میں نصف درجن غیر ملکی دورے بھی کرلیے تھے جو بعد ازاں غالباً عوامی سطح پر تنقید کے باعث روک دیے گئے۔ اسی دوران انہوں نے کئی خوش کن اور دلربا قسم کے اعلانات بھی کیے لیکن جلد ہی ان سے اس طرح یوٹرن لیا کہ پوری قوم ان کی جانب سے خطاب دیے جانے والے "یوٹرن خان” کو بھولنے لگی، ویسے عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا۔

    موجودہ حکومت کی مشکلات تو شہباز شریف کے وزرات عظمیٰ کی مسند پر بیٹھتے ہی شروع ہوگئی تھیں کہ ہچکولے کھاتی ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلیے جو فیصلے کیے گئے اس سے پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی تو چیخیں ہی بلند ہوگئیں، دو ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں لگ بھگ دُگنا کے قریب اضافہ، بجلی، گیس، سی این جی کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کی بے پناہ لوڈشیڈنگ، آئی ایم ایف کی ایما پر تیار کیا گیا ظالمانہ بجٹ اور پھر منی بجٹ اور اس کے نتیجے میں شہباز کی اسپیڈ کی زیادہ تیزی سے بڑھنے والی مہنگائی نے عوام کو تو بے حال کیا لیکن حکومتی کیمپ میں بھی بے چینی بڑھی کیونکہ ملک میں متحرک اپوزیشن پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ عوام کے الزامات اور غصے کا تمام تر رخ حکومت کی جانب ہوگیا لیکن اس صورتحال میں جب کہ یہ گیارہ جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے سارا عوامی ردعمل ن لیگ کے حصے میں آیا جب کہ دیگر جماعتیں جن میں بالخصوص پی پی پی اور جے یو آئی (ف) شامل ہیں تاحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ ان مشکل معاشی فیصلوں پر شہباز شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں سوائے ایک آدھ بیان دینے کے کچھ نہیں کیا بلکہ ہنوز ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہوئے ن لیگ کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔

    بات صرف عوامی ردعمل اور اپوزیشن کے احتجاج تک ہوتی تو شاید شہباز حکومت کیلیے اتنی فکر کی بات نہ ہوتی لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بظاہر حکومت مخالف عدالتی فیصلوں کے ساتھ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے جس طرح سے شہباز حکومت کو آنکھیں دکھانی شروع کی ہیں اور کھلم کھلا اتحاد سے علیحدگی کی دھمکیاں بھی دے ڈالی ہیں اس سے حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان سا لگتا محسوس ہوتا ہے۔

    یہ تو سب کو پتہ ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان حکومت کے اتحادیوں ایم کیو ایم، بی اے پی اور آزاد اراکین کو اپنا ہمنوا کرکے بنائی گئی تھی اور اس کے لیے انہیں سبز باغ بھی دکھائے گئے تھے لیکن ان سبز باغوں کا اب تک وہی ہوا ہے جو اس سے قبل دکھائے گئے سبز باغوں کا ہوتا رہا ہے اور وہ جنہوں نے بڑی خوشی اور دعوؤں کے ساتھ اپنی سابقہ حلیف جماعت پی ٹی آئی پر وعدے پورے نہ کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے سابقہ حکومت سے علیحدگی نئی حکومت سے وعدوں کے بندھن میں بندھ کر اپنا ایک اور نیا سیاسی سفر شروع کیا تھا اب وہی موجودہ حکومت کی وعدہ خلافیوں سے نالاں ہوکر اپنے پرانے آشناؤں کے دور کو اچھے لفظوں میں یاد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سے بہتر تو عمران خان کی حکومت تھی اس میں انہیں فنڈز بھی ملتے تھے اور ان کی بات بھی سنی جاتی تھی۔

    اس سارے تماشے میں بات کریں ایم کیو ایم کی تو وہ اپنے بند دفاتر کی حوالگی اور دوبارہ کھولنے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مکمل بااختیار بلدیاتی نظام کے مطالبے پر موجودہ حکومت کا حصہ بنی تھی، ابتدائی دو مطالبات شاید کسی سیاسی حکومت کے لیے پورا کرنا ممکن نہ ہوں لیکن تیسرا اور اہم ترین مطالبہ بااختیار بلدیاتی نظام پر پی پی پی نے اب تک ایم کیو ایم کو لالی پاپ ہی دیا ہے اور ایم کیو ایم یہ لالی پاپ کھا کھا کر اتنا تنگ آچکی ہے کہ اس نے مزید یہ لالی پاپ کھانے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے ایم کیو ایم کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور رواں ماہ دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اگر پی پی کی یہی روش رہی تو ایم کیو ایم کو خطرہ ہے کہ دونوں بڑے شہروں کی میئر شپ سے اسے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے جس کا اظہار پی پی پی کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی یہ دعویٰ کرکے کرچکے ہیں کہ اگلا میئر کراچی پی پی پی کا ہوگا۔

    ایم کیو ایم اور پی پی کے معاہدے میں ضمانتی شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن تھے لیکن وہ بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کے باعث ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی زبان بھی تلخ ہوتی جارہی ہے۔ عوامی سطح کے بعد اب ایم کیو ایم کی حکومت کے خلاف آواز ایوان میں بھی بلند ہونے لگی ہے اور اسمبلی کے فلور پر حکومت سے علیحدگی کی کھلے لفظوں میں دھمکی دے چکی ہے حکومت سے صرف ایم کیو ایم ہی ناراض نہیں بلکہ ن لیگ کی ہم پیالہ اور ہم نوالہ بنی جے یو آئی (ف) بھی پریشان ہے، بالخصوص سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے یکطرفہ نتائج اور کھلے عام دھاندلیوں کی بازگشت پر وفاقی حکومت کی پراسرار خاموشی نے اس کے اشتعال میں اضافہ کردیا ہے۔

    جمعیت علمائے اسلام (ف) جو اطلاعات کے مطابق پہلے ہی مولانا فضل الرحمٰن کو صدر بنانے کے وعدے سے مُکر جانے پر اتحاد کی بڑی جماعتوں سے نالاں تھی سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ان پر جلتی پر تیلی کا کام کیا ہے اور اس نے دو ووٹوں کی بیساکھی پر کھڑی شہباز حکومت کو اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دیدی ہے۔

    مولانا فضل الرحمٰن کے دست راست تصور کیے جانے والے جے یو آئی کے رہنما مولانا راشد سومرو نے پی پی پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پی پی کی من مانیوں، مبینہ دھاندلیوں اور اپنے اتحادیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا نوٹس لیں اگر انہوں نے اس پر خاموشی اختیار رکھی تو وہ اتحاد کی بیساکھی واپس لینے پر مجبور ہوں گے، راشد سومرو نے صرف شہباز شریف کو ہی تنبیہہ نہیں کی ہے کہ بلکہ اپنے قائد فضل الرحمان سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کریں۔

    شہباز حکومت کی ایک اور اتحادی بی اے پی اور آزاد رکن اسلم بھوتانی بھی حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے ہیں ایک جانب انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خدشات اور حکومت کی بے وفائی کا کھل کر اظہار کیا تو دوسری جانب جب اس شور شرابے پر وزیراعظم نے انہیں ملاقات کیلیے بلایا تو وہاں بھی اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کو کھری کھری سناتے ہوئے واضح کردیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ان کا مزید حکومت کے ساتھ رہنا مشکل ہوگا۔

    اے این پی اراکین کی اکثریت تو حکومت سے علیحدگی کی رائے رکھتی ہے اس حوالے سے حتمی فیصلے کیلیے ایمل ولی نے عید بعد پارٹی کا اہم اجلاس بلا لیا ہے۔

    اس دوران حکومتی اتحادیوں کے اختلافات دور کرانے کیلیے آصف زرداری بھی میدان میں اترے جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی ہے تاہم ان ملاقاتوں کے بھی کوئی حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔

    ناقابل برداشت مہنگائی، اپنوں کی بیوفائی کے ساتھ ہی عدالتی فیصلوں نے بھی شہباز شریف اور حمزہ کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پہلے الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کی پی ٹی آئی کی 5 مخصوص نشستوں کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرنے اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے ووٹوں سے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ منہا کرکے فوری طور پر اگلے روز دوبارہ گنتی کرانے کے فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن کے بعد 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ اںتخاب کرانے کا حکم دیدیا گیا ہے جس پر دونوں فریقوں یعنی پی ٹی آئی اور ن لیگ نے آمادگی ظاہر کی ہے۔

    شہباز حکومت جو پہلے ہی آئی ایم ایف کے بعد اتحادیوں کا دباؤ برداشت کر رہی ہے ایسے میں عدالتی فیصلوں نے اس کی پریشانی بڑھا دی ہے، اگر 17 جولائی کو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی واضح کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں حمزہ شہباز کی ہار یقینی ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہوجائے گی اور حمزہ شہباز کیلیے وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو یہ پنجاب کے بعد تخت اسلام آباد کیلیے بھی اچھا شگون نہیں ہوگا کیونکہ یہ تو بادشاہوں کو معلوم ہی ہے کہ اگر تخت اسلام آباد پر براجمان رہنا ہے تو پھر تخت لاہور کو قبضے میں رکھنا ہوگا۔

    اس تمام صورتحال میں اگر کوئی خوش ہے تو وہ ہے پی ٹی آئی جو اقتدار سے جانے کے بعد سے سڑکوں پر ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اب تک عمران خان کی اپیل پر متعدد بار گھروں سے باہر آکر اور احتجاج کرکے ثابت بھی کردیا ہے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں؟ گوکہ 25 مئی کو اسلام آباد دھرنے کا منصوبہ نامکمل رہنے کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست میں کچھ ٹھہراؤ آیا تھا تاہم ایک ہفتے سے بدلتی صورتحال نے نئے مواقعوں کو جنم دیا ہے اور عمران خان نے ایک بار پھر سیاسی میدان گرم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مظاہرہ گزشتہ ماہ مہنگائی کے خلاف ہونے والے پی ٹی آئی کے ملک گیر احتجاج اور گزشتہ روز اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں مہنگائی کیخلاف ہونے والے بھرپور احتجاج سے ہوگیا ہے اور ان دونوں ایونٹس میں پی ٹی آئی نے بھرپور عوامی شو سے ثابت کردیا ہے کہ فی الوقت وہ ملک کے سب سے بڑے مقبول لیڈر اور عوام میں ان کا بیانیہ سب سے زیادہ پر اثر ہے۔

    تمام تر سیاسی صورتحال سے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس وقت صرف عوام کی بے چینی میں ہی اضافہ نہیں ہورہا بلکہ مقتدر حلقوں اور بند کمروں میں بھی کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے جس کا جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی نتیجہ برآمد ہونا ہے۔

  • سڑکوں پر  موت بانٹتا ہیوی ٹریفک اور چارہ گر

    سڑکوں پر موت بانٹتا ہیوی ٹریفک اور چارہ گر

    "نائٹ ڈیوٹی کرکے آنے کے بعد گھر میں سو رہا تھا کہ اچانک کانوں میں ایمبولینس کے سائرن کی تیز آواز سنائی دی۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور اللہ خیر کرے کہتا ہوا گھر سے باہر نکلا تو وہاں محلے والوں کا ہجوم لگا ہوا تھا اور ایمبولینس سے میتیں نکالی جارہی تھیں، آہ و فغاں جاری تھا معلوم ہوا کہ پڑوس کے عنایت صاحب جو بیٹے کو چھوڑنے اسکول گئے تھے کہ سڑک پر دندناتے ڈمپر نے روند ڈالا اور آن کی آن میں باپ اور بیٹا دنیا چھوڑ گئے۔ متوفی گھر کے واحد کفیل اور بیٹا بھی اکلوتا تھا وہ اپنے پیچھے دو کمسن بیٹیاں اور بیوہ کو بے سہارا چھوڑ گئے۔”

    یہ کہانی تو فرضی ہے لیکن زمینی حقائق کے منافی نہیں، آئے دن ایسے حادثات رونما ہونا معمول بن چکے ہیں، ان حادثات میں زیادہ تر حادثات کی وجہ ہیں سڑکوں پر دندناتے ٹریلر، ڈمپر اور کنٹینر کے ساتھ سڑکوں پر ریس لگاتی بسیں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ چار روز کے دوران ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں ڈمپر اور ٹرالروں نے کم از کم 5 گھروں کے چراغ بجھا دیے ہیں، چار روز قبل نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگ کے قریب ڈمپر نے دو موٹر سائیکل سواروں کو کچل ڈالا، ڈرائیور فرار ہوگیا، اہل علاقہ نے مشتعل ہوکر ڈمپر جلا ڈالا، اگلے روز ایسا ہی ایک حادثہ پرانی سبزی منڈی کے علاقے میں پیش آیا جب کہ گزشتہ روز عائشہ منزل کے قریب ڈمپر کی ٹکر سے دو موٹر سائیکل سوار اپنی جان سے گئے۔ اس کے علاوہ ریسکیو ادارے کی دو ماہ کی رپورٹ اٹھا کر دیکھیں تو رواں سال کے ابتدائی دو ماہ یعنی جنوری اور فروری میں ہی 151 افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوکر جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ 784 افراد زخمی ہوئے ہیں اور اس حادثات کے نقصانات کے اعداد وشمار میں اگر لگ بھگ رواں سال کو پورا نصف شامل کریں تو یہ گراف کہیں اوپر پہنچ جائے گا۔ اب ان میں سے کوئی اکلوتا بیٹا تو کوئی گھر کا واحد کفیل اور کوئی جوان بہنوں کا واحد سہارا، کسی کی حال ہی شادی ہوئی ہوگی تو کسی کی ماں اپنے بیٹے پر سہرے سجانے کے خواب دیکھتی ہوگی لیکن جب گھر سے خون پھولوں کی چادر میں یہ میتیں اٹھتی ہوں گی تو اس کا حقیقی درد تو وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس کرب سے گزر رہا ہے یا گزر چکا ہے۔ ان ٹریفک حادثات شکار وہ بھی بنے ہوں گے جن کی نظریں مستقبل کے آفاق پر ہوں گی، لیکن ان کے خواب بھی ان کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہوگئے ہوں گے۔ لوگ بھی آئے دن ٹی وی چینلز، اخبارات اور اب تو سوشل میڈیا پر خبر پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ آج فلاں علاقے میں ٹینکر نے تین افراد کو کچل دیا، آج ڈمپر نے موٹر سائیکل سواروں کو روند ڈالا، بے قابو ٹرک گھر یا فیکٹری میں گھس گیا اور کئی قیمتی جانیں نگل گیا۔

    حادثے کا شکار کبھی ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ ہوتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے دوست، لیکن حکومت سمیت متعلقہ اداروں کی کمال بے حسی کہ ان حادثات پر اب تو رسمی بیانات اور اقدامات کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ ہم کراچی شہر میں رہتے ہیں جو کہنے کو بین الاقوامی سطح پر پہچان رکھنے والا شہر ہے لیکن یہاں کراچی کے شہریوں کو دستیاب سہولتوں کا جائزہ لیں تو اس ’’بین الاقوامی‘‘ شہر کے باسیوں کی حالت زار پر صرف ’’بین‘‘ کرنے کو ہی دل چاہتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی شہ رگ کہلانے والا شہر کراچی جس کی آبادی متنازع مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ کے لگ بھگ جب کہ عمومی رائے کے مطابق ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میٹروپولیٹن قرار دیے جانیوالے اس شہر کے باسیوں کو وہ تمام سہولتیں فراہم کی جاتیں جو کہ حقیقتاْ اس شہر کے باسیوں کا حق ہیں لیکن ہوا اس کے برعکس بجائے اس کے کہ عنان اقتدار پر جمے جدی پشتی حکمران کراچی کے عوام کو دستیاب سہولتوں میں اضافہ کرتے اس کے برخلاف شہریوں کو جو سہولتیں دستیاب تھیں وہ بھی ان سے آہستہ آہستہ چھین لی گئیں۔

    منی پاکستان کہلائے جانے والے کراچی کا حال تو یہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مشکل ترین امر ہوگیا ہے۔ لیکن ہم یہاں صرف شہر کی خستہ حال سڑکوں پر بلاخوف وخطر دندناتے اور شہریوں میں موت بانٹتے ہیوی ٹریفک کا ذکر ہی کریں گے کیونکہ کراچی کے شہریوں کو درپیش تمام مسائل اتنے زیادہ اور گمبھیر ہیں کہ ان کا احاطہ تو ایک بلاگ میں نہیں ہوسکتا بلکہ اس کیلیے ضخیم مضمون بھی شاید ناکافی ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ حادثات کی بڑی وجہ ہیوی ٹریفک چلانے والے ڈرائیورز کا ٹریفک قوانین سے نابلد ہونا، نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کرنا، کم عمر ڈرائیور اور سڑکوں پر ریس لگانا سرفہرست ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8 فیصد حادثات تیز رفتاری اور 17 فیصد اموات ڈرائیورز کی بے باک ڈرائیونگ کے باعث ہوتی ہیں لیکن کمال حیرت کی بات ہے کہ حادثات کے وقت کئی مقامات پر پولیس موجود ہوتی ہے لیکن حادثے کا موجب ڈرائیور اور اس کے ساتھی وہاں سے باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو کہ پولیس کارکردگی پر سوالیہ نشان ہی لگاتا ہے؟ ڈمپر، ٹریلر اور ٹینکر حادثات میں اضافے کے بعد حسب روایت پولیس افسران کی جانب سے صبح 7 سے 9 تک اور شام 5 سے رات 9 تک شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے اور ان میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں، کنسٹریکشن مکسچر کی گاڑی، ڈمپر، واٹر ٹینکر اور ایسی دیگر گاڑیاں شامل ہیں اور ساتھ ہی خلاف ورزی کرنے والی گاڑیوں اور تیز رفتاری اور غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کیا گیا لیکن اس پابندی کو عائد ہوئے تین ماہ گزر جانے کے باوجود اس پر کہیں عملدرآمد نظر نہیں آتا۔ آج بھی دن کے اوقات میں ہیوی ٹریفک شہر قائد کی سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ اعلانات، پابندیاں نئی بات یا پہلی بار نہیں بلکہ ریکارڈ اٹھاکر دیکھا جائے تو شہر میں ہیوی ٹریفک کے شہر میں دن کے اوقات میں داخلے پر پہلے ہی پابندی عائد ہے لیکن اس پر کبھی عملدرآمد ہوا ہی نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ اس پر کبھی موثر طریقے سے عملدرآمد کرایا ہی نہیں گیا ہے۔ عملدرآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ٹریفک قوانین پر عملد رآمد کیلیے متعین عملے کی مبینہ غفلت اور کرپشن ہے دیکھا گیا ہے اور اکثر سوشل میڈیا پر بھی ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں کہ ٹریفک اہلکار غریب موٹر سائیکل سواروں کو تو روک لیتے ہیں لیکن پابندی کے اوقات میں ہیوی ٹریفک کے شہر میں داخلے پر مبینہ غفلت یا جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں اور اگر کبھی کہیں پکڑ بھی لیا جائے تو مبینہ مُک مُکا کرکے انہیں کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔

    ملک میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے ہی عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوتے ہیں جن میں سے بیشتر عمر بھر کی معذوری کا عذاب سہتے ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہوتا ہے۔ نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق مستقبل میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فیصد تک بڑھ جائیں گے اور اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں 2030 میں حادثات میں 200 فیصد تک اضافے کا خدشہ ہے۔ روڈ سیفٹی پروجیکٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت پر خرچ ہوتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کی روک تھام کیلیے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے اور حادثات کے مرتکب ڈرائیورز کو قانون کی مضبوط گرفت میں نہ لانے کے باعث حادثات کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ اگر حکومت اور متعلقہ حکام نے توجہ نہ دی تو سڑکوں پر بے فکری سے دندناتے اور بے گناہ شہریوں کو موت کی نیند سلاتے یہ ٹریلر، ڈمپر، کنٹینرز اور بس ڈرائیورز یونہی گھروں کے چراغ بجھاتے رہیں گے۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کراتے ہوئے ہیوی ٹریفک کو پابندی کے اوقات میں شہر میں ہرگز ہرگز داخل نہ ہونے دیا جائے اور حادثات کے مرتکب غافل ڈرائیورز کو قانون کے کٹہرے میں لا کر ایسی سزائیں دی جائیں جو دیگر کیلیے نمونہ عبرت بن جائیں۔

  • شہباز حکومت کے شاہانہ انداز اور عوام سے ڈومور کے مطالبات

    شہباز حکومت کے شاہانہ انداز اور عوام سے ڈومور کے مطالبات

    مثل مشہور ہے کہ "اندھوں میں کانا راجا ہوتا ہے۔” شاید اندھوں کی بستی میں یہی بہتر آپشن ہوتا ہو۔ ہم اپنے وطنِ عزیز کی بات کریں تو پاکستان کے عوام کو تو اکثر بے حس راجا (حکمراں) ہی ملے ہیں جنہیں عوام سے زیادہ اپنا خیال رہا ہے، اس مثل کو دیکھتے ہوئے کہیں تو یہ سوچ ابھرتی ہوگی کہ پاکستان میں بستے عوام کو بھی کوئی کانا راجا مل جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔

    مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی کی چیخ پکار کرنے والے جب اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تو ” امید پر دنیا قائم ہے” کے مصداق غربت کی ماری عوام نے بھی ایک امید باندھی کہ زیادہ کچھ نہیں بس اتنا ہو کہ وہ سکون سے اپنے اہلخانہ کی کفالت کرسکیں۔ دو ماہ کی حکومت نے ایک ماہ کی ادھر ادھر تاکا جھانکی کے بعد جس طرح اپنی کارکردگی کی رونمائی کرائی اس نے تو غریب عوام کے چودہ طبق ہی روشن کردیے۔

    عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کی کارکردگی کی داستانیں تو لوگ روز ہی ٹی وی چینلز پر دیکھ اور اخبارات میں پڑھ رہے ہوں گے اس لیے اس پر کیا بات کریں کہ بات پھر وہی ہوگی کہ قارئین پڑھ کر کہیں گے کہ ‘دل جلانے کی بات کرتے ہو’ تو ہم تو اپنے ایک بزرگ سیاسی رہنما کے اس قول ‘ مٹی پاؤ اور روٹی شوٹی کھاؤ’ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہر اس بات سے صرف نظر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس سے دل جلے لیکن کیا کریں کہ اب تو حالات صرف ‘مٹی پاؤ’ میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور روٹی شوٹی کھانے کا معاملہ تو لگتا ہے کہ حالات ایسے ہی رہے تو غریب کے لیے روٹی شوٹی کھانے کی عیاشی بھی عید کے چاند کی طرح ہو جائے گی، کیونکہ جب بجلی، گیس، پٹرول سمیت سب کے دام اقبال کے شاہیں (جسے شہباز بھی کہا جاتا ہے) کے پر لگا کر ان کے شعر کے اس مصرع ” تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر” پر عمل کرتے ہوئے پہاڑ کیا آسمان دنیا عبور کرکے پتہ نہیں کہاں تک جا پہنچے ہیں اور سنا ہے ان کی قوت پرواز ابھی باقی ہے تو پھر ہمیں واقعی "شہباز اسپیڈ” یعنی شاہین کی قوت پرواز کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

    بلاگ لکھنا تو کسی اور موضوع پر تھا لیکن قلم بہک کر دوسری سمت چلا گیا چلیں اس کو رام کرکے ہم راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکمرانوں کی نظر میں تو ملک کے عوام کو روٹی چٹنی کھانے کی عیاشی کا بھی حق نہیں لیکن وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

    بدترین معاشی بحران کا شکار پاکستان جس کا رونا ہمارے موجودہ حکمران روتے رہتے ہیں، لیکن اس ملک کے حالات بدلنے کیلیے کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ گزشتہ ایک ماہ میں میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے کپڑے بیچ کر ملک کو سستا آٹا فراہم کرنے والے وزیراعظم اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا تو نہ دے سکے لیکن اسی عوام کے پیسوں میں سے کروڑوں روپے سے وزیراعظم ہاؤس میں پہلے سے موجود سوئمنگ پول کی مرمت کرائی گئی ہے جب کہ اسی پر بس نہیں بلکہ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم ہاؤس مزید سجاوٹ بھی ہونی ہے اس کے لیے عوام کے خون پسینے کی کتنی کمائی استعمال ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکے گا۔

    دوسری جانب دو ہفتوں میں تین بار دکھی دل کے ساتھ عوام پر پٹرول بم گرانے والے ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی عوامی خزانے کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل ہوگئے ہیں، خبر کے مطابق مفتاح اسماعیل نے اپنے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لیے سرکاری خزانے سے 48 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔

    ایک جانب عوام کے سب سے بڑے ہمدرد ہمارے حکمرانوں کے یہ شاہانہ انداز ہیں تو دوسری جانب ہمارے یہی وزیراعظم اور ان کے درباری وزرا عوام کو سادگی سے زندگی گزارنے کا درس دے رہے ہیں اور جس طرح امریکا اور آئی ایم ایف ہماری حکومت سے ڈومور ڈومور کا مطالبہ کرتے ہیں ہمارے حکمرانوں نے بھی اسی طریقے کو اپناتے ہوئے عوام سے ڈومور ڈومور کی رٹ لگا دی ہے۔

    اِدھر ہمارے وزیراعظم غریب کے بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لیے ایک روٹی کو چار حصوں میں تقسیم کرکے مل بانٹنے کا نایاب فارمولا بتا رہے ہیں تو اُدھر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے بہترین منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کو چائے کے دو کپ کم کرنے کا انمول مشورہ دے رہے ہیں، اسی دوران دربار شاہی کے دربانوں کی جانب سے آئے دن کچھ نہ کچھ ڈومور کا مطالبات پر مبنی بیانات آتے ہی رہتے ہیں۔ چلیں حکمرانوں کے ان نادر ونایاب مشوروں سے یہ تو ہوا ہے کہ کم از کم عوام کے دکھ بھرے چہروں پر ہلکی سی صحیح مسکراہٹ تو بکھری ہے کہ اس دور میں کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بہت نیکی کا کام ہے اور ہمارے نیک حکمرانوں نے یہ نیک کام بخیر وخوبی اور ہنستے کھیلتے انجام دیا ہے۔ ویسے بھی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے پیاروں کو یہ میٹھا پھل کھلانا چاہتا ہے تو حکمرانوں کیلیے عوام سے پیارا تو کوئی نہیں ہے نا اسی لیے تو انہوں نے عوام کو صبر کرکے اس کا میٹھا پھل کھانے کی ترغیب دلائی ہے کیونکہ اصلی پھل تو اب بے چارے عوام کی دسترس میں رہے ہی نہیں ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے اس لطیفہ نما مشوروں پر عوام کے چہروں پر آنے والی ہنسی کے پیچھے چھپی بے بسی کی ایک الگ کہانی ہے جس سے ہمارے حکمرانوں کو کوئی لینا دینا نہیں۔

    اب اگر ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ایک روٹی کے چار ٹکڑے کرکے مل بانٹ کر کھانے کا درس دیا یا صبر کرکے چائے کی پیالی کم کرنے کا مشورہ دیا تو اس پر عوام کا غم وغصہ اور سوشل میڈیا پر شور بپا ہوگیا اور ہمارے ایک محترم وزیر کو ارسطو کا خطاب مل گیا (ویسے ہمارے حکمرانوں میں تو سارے ہی ارسطو ہیں) تو اس پر حکمرانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب انہوں نے اپنی پیاری عوام کو اتنے پیارے مشورے دے ہی ڈالے تو پھر ” کیا ہے جو پیار تو پڑے کا نبھانا” کے حسب حال طنز تو برداشت کرنا پڑے گا کہ ان حالات میں عوام کی عیاشی کے صرف دو ذرائع تو رہ گئے ہیں کہ ایک روٹی اور دوسری چائے، جس سے لاکھوں غریب خاندانوں کا گھر بھی چل رہا ہے، اگر اس پر بھی قدغن لگ گیا تو پھر کیا ہوگا؟

    ویسے ارسطو وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی کفایت شعاری کی یہ منصوبہ بندی پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں بھی لاگو کی جائے گی کہ پاکستان بھر میں مہنگائی کی مناسبت سے چائے کا کپ 40 سے 50 روپے میں دستیاب ہے لیکن پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں یہی مزیدار چائے سے بھرا کپ بازار سے کئی گنا کم قیمت میں ہمارے غریب اور مسکین اراکین پارلیمنٹ کو فراہم کیا جاتا ہے اور بات آئے روٹی کی تو غریب پارلیمنٹرین کی کینٹین میں اتنی سستی روٹی ہے کہ اگر حقیقی غریب عوام تک اس کا دروازہ کھول دیا جائے تو شاید وہ بددعائیں دینے کے بجائے حکمرانوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دینے لگیں۔

    اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سال 2021ء کے قومی انسانی ترقیاتی جائزے (این ایچ ڈی آر) میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اسی پاکستان کے 9 کروڑ لوگ جو کہ مجموعی آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد ہے اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

    اس سروے رپورٹ کی عملی شکل ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کو حاصل مراعات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور دوسری جانب غربت کا نظارہ کرنا ہے تو اسی سے اندازہ لگا لیں کہ موجودہ حکومت کے دو ماہ کے اندر متعدد افراد نے غربت کے باعث اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا ہے اور جو یہ نہ کرسکے تو اپنے بچوں کی کفالت نہ کرنے کا بوجھ دل پر لے کر تھانے گرفتاری دینے یا اسمبلیوں میں دہائی دینے خاندان سمیت پہنچ رہے ہیں لیکن انہیں کہیں ایسا در نہیں مل رہا جہاں ان کی شنوائی ہوسکے۔

    مسلمانوں کے دوسرے خیلفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا۔

    ہمارے لیے رول ماڈل خلیفہ دوم کا یہ قول صرف کسی مخصوص زمانے کیلیے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کیلیے ایک واضح تنبیہ ہے۔

  • بڑھتی ہو ئی  اسلام دشمنی، مسلم دنیا بھارت کو  کیسےلگام ڈالے؟

    بڑھتی ہو ئی اسلام دشمنی، مسلم دنیا بھارت کو کیسےلگام ڈالے؟

    آج ایک بار پھر منکر اسلام اور دشمنان رسول ﷺ کی یلغار ہوئی ہے وہ جو ہمیشہ سے ہی اسلام کو مٹانے اور عظمت رسول ﷺ کو نعوذ باللہ نشانہ بنانے کیلیے ناکام کوششوں میں مصروف رہتے ہیں وہ آج ایک بار پھر حملہ آور ہوئے ہیں اور یہ حملہ کسی یورپی یا مغربی ملک سے نہیں ہوا ہے بلکہ ہندو توا کی حامی مودی حکومت کے بھارت میں ہوا ہے-

    مغرب اور یورپی ممالک میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر اسلام کی مخالفت اور برگزیدہ و مقدس ہستیوں سے متعلق توہین آمیز بیانات پر اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں عوام کی جانب سے سخت ردعمل اور احتجاج کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ رُو سیاہ کبھی گستاخانہ خاکے، کبھی کسی برگزیدہ ہستی کی زندگی پر فلم بنا کر یا کوئی توہین آمیز بیان دے کر مسلمانوں میں اشتعال انگیزی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔

    گزشتہ دنوں ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت بھارت میں ہندتوا کی حامی مودی کی جماعت کے اراکین نے کی تو پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک نے سخت ردعمل دیتے ہوئے بھارت سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا۔

    بھارت میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پالیسیوں نے بھارت میں مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو ہوا دی ہے۔ ہندو انتہا پسند کبھی کسی مسجد کو ڈھانے پر تُل جاتے ہیں، کبھی مسلمانوں کے لیے گائے کا گوشت کھانے پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب کو مسئلہ بنا کر مسلمانوں کو بغض و عناد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں‌ مسلمانوں کو معاشی اور ہر لحاظ سے پستی میں‌ دھکیلنے کی کوششیں‌ کی جارہی ہیں‌ اور انتہا پسند ہندوؤں کو بی جے پی کی خاموش حمایت حاصل ہے، لیکن اس مرتبہ جب بی جے پی کے دو اراکین کی جانب سے شانِ رسالت ﷺ میں توہین آمیز بیان دیا گیا تو بھارت اور دنیا بھر لگ بھگ دو ارب مسلمانوں اور تمام اسلامی ممالک نے مودی سرکار سے سخت احتجاج کیا ہے۔

    بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کے یکے بعد دیگرے بیانات کے بعد بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے یک زبان ہو کر ان کے خلاف سخت ترین کارروائی اور بھارتی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے، جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے کسی نہ کسی سطح پر دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ خلیجی اور عرب ممالک سمیت پاکستان، بھارت، ایران، افغانستان، مصر، ترکی، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں مسلمان غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف سڑکوں پر بھرپور احتجاج کررہے ہیں۔ یورپی، افریقی اور امریکا میں بھی جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں بھی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج ہورہا ہے۔ بھارت کی بات کریں تو وہاں مختلف ریاستوں اور تمام بڑے شہروں میں مسلمان احتجاج کے لیے نکلے، لیکن ان پر پولیس ٹوٹ پری اور وحشیانہ تشدد کیا جس میں درجنوں مظاہرین زخمی اور متعدد جان سے گئے۔ پولیس نے کئی شہروں‌ میں نہ صرف مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان پر بدترین تشدد کیا بلکہ ان پر جھوٹے الزامات میں مقدمات بنا کر گھروں کو بھی مسمار کردیا ہے۔

    پاکستان سمیت تمام عالمِ‌ اسلام نے بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں اور سعودی عرب، یو اے ای، ایران، قطر، بنگلہ دیش، ترکی و دیگر ممالک میں بھارتی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے جب کہ اسمبلیوں میں بھی مذمتی قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔

    دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کا احتجاج اور دباؤ ہی ہے کہ مودی سرکار نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پہلے ان بدبختوں کی پارٹی رکنیٹ معطل کی پھر نوپور شرما اور نوین جندال کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، لیکن مودی حکومت کی مسلمانوں سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور کئی فیصلے ایسے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مودی کی حکومت ہندوتوا کو فروغ اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کررہی ہے اور یہ سب بیرونی دباؤ پر کیا گیا ہے اور مقدمہ محض دکھاوے کی کارروائی ہے۔ جس کا ثبوت یہ بھی ہے اب تک وزیراعظم مودی اور ان کے تمام وزرا نے اس معاملے پر پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ویسے بھی مودی ہندوتوا کی حامی جماعت آر ایس ایس کے بانی اور تاحیات رکن ہیں اور ان سے مسلمانوں کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عوامی اور سرکاری سطح پر حالیہ احتجاج کے بعد بھارتی حکومت وہاں کے مسلمانوں کے خلاف اپنی روش ترک کر دے گی اور ان کو مذہبی آزادی کے ساتھ سماج میں اپنے حقوق اور تحفظ بھی حاصل ہو جائے گا؟

    بھارت میں توہین آمیز بیانات کے بعد عمان کے مفتیٔ اعظم کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی جس پر وہاں سپر اسٹورز بھارتی مصنوعات سے خالی ہونے لگے تھے جب کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا تھا کہ خلیجی ممالک کی کمپنیاں بھارتی ملازمین کو فارغ کررہی ہیں، لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

    یہ سب پہلی بار نہیں ہوا ہے اور ماضی قریب میں کبھی فرانس تو کبھی امریکا اور خود کو ترقی یافتہ و مہذب کہنے والے ممالک میں بدبختوں نے اسلام اور شانِ رسالت میں ہرزہ سرائی کی ہے جو اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کے ساتھ دنیا کا امن تہ و بالا کرنے کا سبب بنا ہے۔

    ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں‌ مسلمانوں کی بڑی تعداد حیران کن ہے اور اس رپورٹ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اور بعض ماہرین کی تحقیقی رپورٹوں‌ کے مطابق 2050 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔ دنیا کے نقشے پر 57 اسلامی ملک موجود ہیں دنیا کے 10 بڑے آبادی والے ممالک میں اسلامی ملکوں کی تعداد 6 ہے، جن میں سے ایک ملک دنیا کی آٹھویں ایٹمی طاقت ہے، لیکن افسوس کہ اپنی پالیسیوں، مغرب اور یورپ کی کاسہ لیسی اور باہمی اختلافات کے باعث ان 57 ممالک کی حیثیت صرف کاغذی شیر کی سی ہے۔ آج کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لیے مسلمان ممالک کو مضبوط معیشت کے ساتھ علم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کی ضرورت ہے۔ دنیا کو ہماری اس کمزوری اور علم و فنون کے میدان میں پستی کا علم ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔

    آج کی دنیا معیشت کی دنیا ہے، جس کی معیشت مضبوط اس کا ملک مضبوط۔ بھارت لگ بھگ دو ارب کی آبادی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کی بڑی مارکیٹ ہی کسی بھی ملک کو بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے روکتی ہے، آج بڑی تجارتی منڈی ہونے کی وجہ سے بھارت دنیا کی پہلی ترجیح ہے۔ اسلامی ممالک کے بھی بھارت سے معاشی مفادات وابستہ ہیں اگر ان واقعات کی روک تھام کرنی ہے تو پھر ان اسلامی ممالک کو اپنے وقتی معاشی فوائد کو نظرانداز کرکے بڑا فیصلہ کرنا ہوگا۔

    معاشی طور پر مضبوط اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب بھارت کو تیل بیچنے والا سب سے بڑا ملک ہے دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے ممالک میں بڑی سرمایہ کاری ہے اسی طرح یو اے ای اور بھارت بھی ایک دوسرے کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، رواں برس ہی دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو ایک سو ارب ڈالر سے آگے لے جانے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اسی طرح دیگر ممالک کے بھی تجارتی تعلقات ہیں۔

    یہاں یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ معیشت صرف اسلامی ممالک کیلیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی اہم ہے، ماضی میں جب ملائیشیا صرف اپنے صدر مہاتیر محمد کے دورہ برطانیہ کے موقع پر ان کا کارٹون برطانوی اخبارات میں شائع ہونے پر برطانیہ سے تجارتی تعلقات منقطع کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے، تو پھر بھارت سے تجارت کے رشتے میں بندھے اسلامی ممالک انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ متحد ہوکر اور متفقہ فیصلہ کرکے بھارت کو بھی اسلام دشمن اور توہین رسالت جیسے واقعات کی حتمی روک تھام اور توہین کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے معاشی تعلقات ختم کرکے اسے اسلامی دنیا کے آگے گھٹنوں کے بل گرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

  • مفتاح اسماعیل کا قہقہہ اورعوام کی  دوڑ

    مفتاح اسماعیل کا قہقہہ اورعوام کی دوڑ

    عوام ابھی حکومت کی جانب سے خود پر دو بار’ پٹرول بم’ گرائے جانے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ ہمارے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے ایک پُراسرار قہقہے نے انہیں‌ ایک بار پھر دوڑ لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔

    وزیر کا قہقہہ اور عوام کی دوڑ کا آپس میں کیا تعلق ہے، یہ ہم ابھی واضح کر دیں گے۔ آج کے اس دور میں خالی پیٹ اور سوکھی جیب والوں کیلیے یہ نسبتاً دھیما قہقہہ بھی کسی بم سے کم ثابت نہیں‌ ہوا۔ مہنگائی کی اس چلچلاتی دھوپ میں عوام کو کچھ لمحے تو فرحت کے محسوس ہوتے ہیں، لیکن حکمرانوں کو شاید یہ بھی گوارا نہیں کہ غریب بلکہ ان کی نظر میں بھکاری عوام کچھ وقت چہرے پر مسکان ہی سجا سکیں۔ جبھی تو وزیر خزانہ نے ایک ایسا قہقہہ لگایا جس نے کراچی تا خیبر عوام کے ہونٹوں سے باقی ماندہ مسکان کیا چھینی بلکہ تفکر کی نئی لکیریں اور ڈال دیں جو پہلے ہی سے مارے ہوئے تھے ان کو "مرے کو مارے شاہ مدار” یا ” دس درے اور مارنے” کے مترادف مفتاح نے اپنے شاہانہ قہقہے سے نواز دیا، گو کہ اب تک اس قہقہے کی حقیقت یا خدوخال واضح نہیں ہوئے لیکن پہلے کے ڈسے عوام نے آؤ دیکھا نہ تاؤ صرف جیب میں پڑے چند روپے دیکھے اور پھر دوڑ لگا دی۔ اب پڑھنے والے اس الجھن میں ہوں گے کہ مفتاح اسماعیل صاحب نے ایسا کون سا قہقہہ لگایا جس پر عوام کی دوڑ لگ گئی۔

    تو جناب عالی یہ کوئی خالی خولی قہقہہ نہیں بلکہ اس میں پاکستانی عوام کی مزید کھال کھینچنے کا منظر نامہ پوشیدہ تھا، تھی تو اسلام آباد میں بزنس کمیونٹی کی تقریب اور وہاں موصوف نے حسب سابق انہیں اپنی دو ماہ پرانی مگر تاحال نئی نویلی دلہن کی طرح برتاؤ کرتی شہباز اسپیڈ حکومت کی کارکردگی اور سابق حکومت کی چھوڑی گئی پریشانیوں کی روداد سنانی تھی لیکن نہ جانے انہیں اس موقع پر عوام سے مذاق کرنے کی کیا سوجھی کہ پہلے مسکرائے بلکہ باقاعدہ قہقہہ لگایا پھر کہا کہ "پٹرول” تو سننے اور دیکھنے والے اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ شاید حکومت کو عوام کا کچھ خیال آگیا ہے اور شاید ان کے لیے اس قہقہے میں کوئی خوشی کی خبر ہو لیکن حکمرانوں کے بارے میں خوش گمان عوام کے لیے اگلا لمحہ بڑا سنگین تھا جب ہمارے وزیر خزانہ نے اپنا جملہ پورا کیا کہ پٹرول ابھی تھوڑا اور مہنگا ہوگا اور یہ تھوڑا مہنگا تو سب کو پتہ ہے کہ شہباز اسپیڈ کی حکومت میں 30 روپے تھوڑا کم ہی اضافہ ہوتا ہے۔

    اب بھلا یہ بھی کوئی قہقہہ لگا کر بھری دوپہر میں سنانے والی بات تھی اچانک رات گئے ٹی وی پر آتے اور بم گرا دیتے، عوام نے ان کا کیا بگاڑ لینا تھا وہ پہلے سے ہی زخم خوردہ ہیں زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک جاتا تکلیف بڑھتی پھر اللہ اللہ خیر صلّا، لیکن ہوا یہ کہ دن دیہاڑے اس حکومتی قہقہے نے عوام کو چوکنا کردیا اور انہوں نے پٹرول پمپوں کی طرف دوڑ لگا دی پمپس والے بھی حیران اور پریشان کہ ایسا کیا ہوگیا کہ عوام کا رش ٹوٹ پڑا، یہ منظر دیکھ کر عام شہریوں کو بھی تشویش ہوگئی۔ بعد میں‌ وزیر موصوف کو عوام کی اس بھاگ دوڑ کا علم ہوا تو ان کی جانب سے وضاحت کردی گئی اور کہا گیا کہ ایسا کچھ نہیں‌ ہونے جارہا اور ان کی بات کو غلط سمجھا گیا ہے۔

    خیر، اب بیچاری اس غریب عوام کو سمجھ میں آگیا ہے کہ جس طرح امریکا میں کوئی ڈنر مفت نہیں ہوتا اس طرح پاکستان میں سیاستدانوں بالخصوص حکمرانوں کے قہقہے بھی خالی خولی نہیں ہوتے ان میں بھی عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے تو پیارے عوام تیار رہیں کہ یہ پہلا قہقہہ ہے جو قہر بن کر عوام پر ٹوٹنے والا ہے دعا کریں کہ یہ آخری قہقہہ ہو ورنہ عوام فیض احمد فیض کو یاد کرتے ہوئے یہ گنگنانے پر مجبور ہوں گے۔

    یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

  • پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    گزشتہ رات تقریباً ساڑھے نو بجے کا وقت تھا عوام شام ہی کو بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا خبر پاچکے تھے اور ابھی خود کو سنبھال ہی رہے تھے کہ اچانک ٹی وی اسکرین پر ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا چہرہ دکھائی دیا جنہوں نے ایک ہفتے کے دوران پٹرول کی قیمتوں میں دوسری بار 30 روپے فی لیٹر اضافے کا مژدہ سنا دیا اور یہ خبر ایسی تھی کہ ہر طرف ہلچل مچ گئی۔

    جس طرح 29 روزے مکمل ہونے کے بعد عشاء کی نماز تک عید کے چاند کا اعلان نہ ہونے پر لوگ قدرے پُرسکون ہونے لگتے ہیں کہ اچانک کہیں سے شہادتیں ملنے پر اگلے دن عید کی نوید سنائی جاتی ہے اور لوگ پھر اپنے سارے کام اور آرام چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں تو ایسا ہی کچھ گزشتہ شب ہوا۔ جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوا تو عوام سمجھے کہ مہنگائی کی چاند رات ہوگئی ہے، اس لیے جو کھانا کھا رہا تھا وہ کھانا چھوڑ کر جو آرام کر رہا تھا وہ بستر سے اٹھ کر اور جو بیوی بچوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہا تھا وہ انہیں حیران و پریشان چھوڑ کر اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں لے کر پٹرول پمپس کی طرف نکل گیا۔ لیکن باہر نکلتے ہی شہر بھر کے اکثر پٹرول پمپ ایسے بند ملے کہ جیسے یہاں سے کورونا وائرس ہوکر گزرا ہو، شہر کے چند ایک پٹرول پمپس کھلے بھی ملے تو وہاں عید کی چاند رات پر مارکیٹوں میں پڑنے والا رش جیسا ہجوم نظر آیا۔ گاڑیوں کی طویل قطاریں ایسی تھیں کہ لگتا تھا کہ پٹرول میں 30 روپے لیٹر اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ مفت بٹ رہا ہے، یا سیل لگی ہوئی ہے۔

    ابھی یہ مناظر نگاہوں کے سامنے تھے کہ ساتھ ہی ماضی قریب کی یادوں کے کچھ دریچے بھی وا ہونے لگے۔ شاعر اختر انصاری نے کیا خوب کہا ہے:

    یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
    یاد کے تند و تیز جھونکے سے
    آج ہر داغ جل اٹھا میرا

    تو ماضی قریب کی یاد کا ایسا تند و تیز جھونکا آیا جس سے ہمارا ہر داغ جل ہی اٹھا کہ زیادہ پرانی نہیں، آج سے تین چار ماہ قبل ہی کی تو بات ہے۔ پاکستان کے عوام کے حافظے میں ضرور یہ سب تازہ ہوگا جب اس وقت کے "نئے پاکستان” میں "پرانے پاکستان” کے داعی پیٹوں میں کس طرح عوام کی حالت زار دیکھ دیکھ کر مروڑ اٹھتا تھا اور اس وقت وہ لوگ یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ "عمران حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ "، "یہ عوام دشمن حکومت ہے۔”، اور یہ بھی کہا جاتا تھاکہ "عمران خان کو عوام کا کوئی خیال نہیں۔”، "یہ سلیکٹڈ ہیں۔” اور اپوزیشن عوام کو یہ بھی بتاتی تھی کہ "مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔”، ” عوام کو سستا مکان اور بیروزگاروں کو کروڑوں نوکریاں‌ دینے کی بات کرنے والے نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔”‌ اور سب سے بڑھ کر اسی پٹرول کی قیمت میں اضافے پر کہا جاتا تھا کہ”پٹرول کی قیمت میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ عوام پر ظلم ہے۔”، "ہم نے ہمیشہ عوام کو ریلیف دیا اور موقع ملا تو دوبارہ ریلیف دیں گے۔”

    یہ تھے وہ خوش کن نعرے جو پرانے پاکستان کے موجودہ حکمران اور ان کے حلیف عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن بن کر لگاتے تھے۔ یہ نعرے اس وقت لگتے تھے جب ملک میں پٹرول 150 روپے لیٹر تھا، سی این جی 230 روپے کلو میں دستیاب تھی، ڈالر 175 سے 180 کے درمیان تھا، کوکنگ آئل اور گھی 350 روپے کلو میں عوام کو دستیاب تھے، عوام آٹا 70 سے 80 روپے کلو خرید کر پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے، بیرون شہر اور اندرون شہر ٹرانسپورٹ کے کرائے کم تھے، بجلی کے نرخ بھی آج سے کم تھے اور بجلی مکمل نہیں مگر پھر بھی دستیاب تو تھی۔ لیکن آج یہی خوش نما نعرے لگانے والے "پرانا پاکستان” کے داعی عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے والوں کی حکومت ہے اور لگ بھگ دو ماہ ہوچکے ہیں لیکن ان دو ماہ میں پٹرول 150 سے 210 روپے، ڈالر 175 سے 200 روپے کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے، بجلی کی قیمت میں عمران دور حکومت کی نسبت فی یونٹ 47 فیصد تک اضافے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس پر بھی بجلی دستیاب نہیں ہے، مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے اور دیہات میں 18 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ سی این جی نے یک دم 70 روپے چھلانگ مار کر ٹرپل سنچری کرلی، کوکنگ آئل اور گھی، مرغی اور گائے کا گوشت سب 500 روپے کلو سے تجاوز کرگئے ہیں۔ آٹا بھی سنچری عبور کرنے کے قریب ہے بلکہ بہت سے علاقوں میں تو یہ 100 کی حد بھی عبور کرچکا ہے۔

    پٹرول کی قیمتوں سے براہ راست ٹرانسپورٹ کرائے تو بڑھے ہی ہیں اسی تناسب سے کھانے پینے کی اشیا، پھل، سبزیوں، دودھ، دہی، انڈوں، گوشت غرض کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور اب تو وزیراعظم کے ماتحت وفاقی ادارہ شماریات نے بھی تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اور حالیہ جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے مہنگائی ریکارڈ شرح پر پہنچ گئی ہے اور 20 فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جو ملک کے بدترین معاشی حالات میں دو ماہ میں اب تک 6 غیر ملکی دورے کرچکے ہیں نے گزشتہ ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے پر انتہائی "دکھی” انداز میں کہا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ عوام کے پاس کھانے اور دوا تک کے پیسے نہیں ہیں اور پٹرول قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ "دل پر پتھر” رکھ کر کیا تو اب جناب نیا اضافہ ہوچکا ہے، اب دیکھتے ہیں وزیراعظم عوام کا درد کتنا دل میں سمو کر اور کتنا چہرے پر ظاہر کرکے قوم کو بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ انہوں نے اب ” کتنی بڑی چٹان” دل پر رکھ کر کیا ہے۔

    اس ملک کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور غریب عوام یوں تو عمران خان کے دور حکومت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید نہیں ہورہی تھی لیکن آج سے قدرے بہتر اور سکون کی حالت میں تھی، پرانا پاکستان کے نام پر جو جال پھینک کر سیاست کے کھلاڑیوں نے قوم کا حال کردیا ہے شاید اس کی توقع اس قوم کو نہیں تھی۔

    پوری قوم شہباز حکومت کے فیصلوں پر انگشت بدنداں ہے کہ بقول حکمران ہمارے پاس زہر خریدنے کے پیسے نہیں ہیں لیکن شاہانہ غیر ملکی دورے جاری ہیں، وزیراعظم اور ان کے کسی وزیر مشیر نے عوام کے دکھوں پر سوائے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ ان کے دکھوں کے مداوے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے حسب روایت مہنگائی کے اس طوفان کا ملبہ بھی سابق حکومت پر ڈال دیا گیا ہے لیکن عوام سب دیکھ رہے ہیں، عمران خان کے دور حکومت میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مارچ کی قیادت کرنے والے بلاول بھٹو اور مہنگائی کا رونا رونے والی پی ڈی ایم آج اسی حکومت کے دست راست بنے ہوئے ہیں جنہوں نے صرف دو ماہ میں عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں غرق کردیا ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ سابق دور میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مکاؤ مارچ کے نام پر تماشا لگانے والی پی پی پی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب خاموش تماشائی بنے ہیں شاید انہیں ملک کے خارجہ معاملات دیکھنے سے فرصت نہیں یا پھر وہ اپنی سابقہ حریف مسلم لیگ ن کی بے بسی کا تماشا انجوائے کررہے ہیں، اس کے ساتھ ہی سابقہ حکومت 5 یا 10 روپے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے پر شور مچانے والی ایم کیو ایم بھی اس 60 روپے کے ریکارڈ اضافے پر لب سیے ہوئے ہے۔

    مہنگائی مکاؤ کے فریبی نعرے سے وجود میں آنے والی حکومت کے لگ بھگ دو ماہ میں عوامی سہولت کے لیے اٹھایا گیا کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آتا کہ جس پر اسے سراہا جا سکے، حتیٰ کہ حج پالیسی میں بھی حد سے زیادہ تاخیر کا شکار کرکے عازمین حج کو اذیت میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت اور ان کے حلیفوں نے کچھ بھلائی کے کام کیے بھی ہیں تو لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد میں ہی کیے ہیں، مثلاً نیب ترامیم، انتخابی اصلاحات، ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے "سب کے سب” نیب اور ایف آئی اے کے مجرموں یا ملزموں کے ناموں کا بیک جنبش قلم نکال دینا، تفتیشی اداروں کے سربراہوں کے تبادلے وہ تو خیر ہو کہ عدالت نے اس کا نوٹس لیا اور یہ سلسلہ کچھ تھما تھا۔

    ملک و قوم کا نعرہ لگانے سے نہ تھکنے اور ہر وقت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں کی آمرانہ طرز حکومت کے پروردہ لوگوں نے شاید اپنے گھروں کو ملک اور اپنے بچوں کو قوم سمجھ رکھا ہے اسی لیے شہباز حکومت میں ایسے اقدام کثرت سے نظر آتے ہیں کہ جس میں بقول ان کے "ملک و قوم کی بھلائی” مضمر ہے۔ اب تو شاید پوری قوم کو ہی سمجھ میں آگیا ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں ملک و قوم کی بھلائی اصل میں کس کی بھلائی ہے۔

    عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب نے یہ شعر شاید آج کے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے کہا تھا۔

    قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

    قتیل شفائی مرحوم کو بھی شاید آنے والے وقت کا ادراک ہوگیا تھا جب ہی وہ بھی کہہ گئے کہ

    حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
    اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

    اسی لیے شاید عوام کی قوت برداشت کے حوصلے بھی پست سے پست ہوتے ہوتے اب ختم ہوچلے ہیں کہ اب انہوں نے حکومتوں سے حقیقی معنوں میں عوام کیلیے کسی اچھی خبر کی امید رکھنا ہی چھوڑ دی ہے۔ کسی شاعر نے یہ بھی تو کہا تھا کہ

    اتنی مہنگی پڑی ہیں تعبیریں
    خواب آنکھوں میں اب نہیں آتے

    یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں اب سب کچھ بلا خوف وخطر کہنے کی اجازت ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی لوگوں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جس میں بلاتفریق اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ ملک مشکل حالات میں ہے تو ہمیشہ قربانیاں عوام سے ہی کیوں مانگی جاتی ہیں حکومت کرنے والے برسراقتدار بھی قربانیاں دینے کا حوصلہ پیدا کریں اور اسی تناظر میں بڑی شدومد کے ساتھ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکمران، وزرا کی فوج ظفر موج، اراکین پارلیمنٹ، بلاتفریق تمام سرکاری اداروں کے افسران کی شاہانہ مراعات ختم کرکے ان سے بھی قربانی میں حصہ ڈلوایا جائے، شاید عوام کا یہ ردعمل ہی ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کے اعلانات سامنے آئے ہیں لیکن پٹرول الاؤنس میں 40 فیصد کمی اس کا مکمل علاج تو نہیں۔

    انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

    ویسے بھی پوری قوم جانتی ہے کہ عوام کا درد لیے اسمبلیوں میں آنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے مالی طور پر اتنا نوازا ہوا ہے کہ انہیں تو مراعات تو دور تنخواہ کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ عوام کا درد محسوس کرنے کا اپنا "محنتانہ” وصول کرنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے لیکن صرف محنتانہ ہی وصول کریں ساتھ میں شاہانہ مراعات تو نہ لیں اور اگر حکومت عوامی دباؤ میں کچھ ایسا فیصلہ بھی کرے تو صرف اعلان تک محدود نہ رکھے بلکہ جس طرح کے عوام کیلیے فوری فیصلے ہورہے ہیں اسی طرح ان کی شاہانہ مراعات ختم کرنے کے فوری ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جائیں یعنی فوری عملدرآمد شروع کردیا جائے۔

  • وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش، افواہوں کا بازار گرم

    وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش، افواہوں کا بازار گرم

    احتجاجی سیاست کو نیا ڈھب دینے والے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سڑکوں پر ہیں اور پچھلے چند ہفتوں سے لانگ مارچ کا نعرہ بلند کرکے عوام کو تیار کرتے رہے کہ یہ حقیقی آزادی کی جدوجہد ہے اور وہ لانگ مارچ کرکے اسلام آباد پہنچیں‌ گے اور وہاں دھرنا دیں گے اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

    عمران خان ہر رکاوٹ عبور کرکے اسلام آباد تو پہنچ گئے لیکن وہاں دھرنا نہیں دیا بلکہ جلسہ کرکے لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 6 روز کے اندر نئے الیکشن کروائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ایک بار پھر 20 لاکھ افراد کو لے کر اسلام آباد پہنچیں گے۔ اگلے روز انہوں نے اس کی مزید وضاحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر اس شام میں اسلام آباد رک جاتا تو خون خرابہ ہوجاتا۔ ملک و قوم کے وسیع مفاد میں اسلام آباد سے واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    دوسری جانب لانگ مارچ شروع ہونے کے اگلے روز قومی اسمبلی اجلاس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ دینے کا حق واپس لینے اور نیب قوانین میں ترامیم کے بلوں کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اپنی تقریر میں حسب روایت گرجے برسے اور کہا کہ وہ عمران خان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے اور الیکشن کا فیصلہ یہ ایوان ہی کرے گا لیکن ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش بھی کی اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہک موجودہ حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکاری پی ٹی آئی کی جانب سے بھی فوری طور پر کہا گیا کہ وزیراعظم مذاکراتی کمیٹی بنائیں، بات چیت کیلیے تیار ہیں۔

    پی ٹی آئی کا موقف کہ خون خرابے سے بچنے اور ملک و قوم کے مفاد میں اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ واپس لیا اور حکومت کا موقف کہ پی ٹی آئی عوام کو سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہی اور اپنی ناکامی کو وہ خون خرابے اور ملک کے وسیع مفاد کے بیانیے میں چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ ساتھ ہی دونوں جانب سے ایک دوسرے کو مذاکرات کے ڈول ڈالنا یہ وہ عوامل ہیں جس کے بعد ملک میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہوگیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اسلام آباد کی جانب بڑھتے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کے قدموں کی گونج نے ایوانوں میں لرزہ طاری کیا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ لانگ مارچ ناکام ہوگیا اور پی ٹی آئی نے پسپا ہونے کے بعد حکومت سے مذاکرات کی ہامی بھری، لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور اس کے بعد حکومتی اقدامات پر عدالتوں کا فوری حرکت میں آنا اور ایسے فیصلے دینا جس سے پی ٹی آئی کو ریلیف ملا ہے، اس نے حکومت کو لچک کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کردیا۔ جس کا واضح ثبوت سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کے ملکی صورت حال سے متعلق فیصلوں کے بعد ن لیگ کے بعض سیاسی رہنماؤں کے بدلتے لب ولہجے ہیں، بالخصوص ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز جن کا ماضی اداروں کو تنقید کے حوالے سے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، انہوں نے اپنے ٹوئٹر بیانات میں عدالتوں کو نرم لہجے میں مشورہ بھی دینا شروع کر دیا ہے۔

    ادھر سابق وزیراعظم نواز شریف جو لندن میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں موجود لیگی قیادت اور حکومت ان کے اشارے کی منتظر رہتی ہے اور کوئی فیصلہ ان کی رضامندی کے بغیر نہیں کرتی، نے گزشتہ دنوں حکومت چھوڑنے کا گرین سگنل دیتے ہوئے واضح کہہ دیا تھا کہ اگر آئی ایم ایف سے اچھا پیکیج نہیں ملتا تو حکومت جلد از جلد قومی اسمبلی سے نیب قوانین میں ترامیم اور انتخابی اصلاحات منظور کرائے اور اس کے فوری بعد حکومت سے باہر آجائے اور اب جب کہ نواز شریف کی یہ دونوں خواہشات جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوری ہو گئیں تو پھر کچھ بھی ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔

    حکومت نے گوکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے دباؤ میں گزشتہ شب اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ 30 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا اور آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتیں بھی بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ تاہم ن لیگ میں اکثریت کی رائے یہی ہے کہ قیمتیں بڑھانے کی بجائے فوری الیکشن کرائے جانے چاہییں کیونکہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پارٹی کی عوام میں مقبولیت کو بری طرح نقصان پہنچے گا، ن لیگ کے سینیئر رہنماؤں کی اکثریت کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنا پارٹی کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

    ان حالات میں ملک بالخصوص سوشل میڈیا پر تو افواہوں کا بازار گرم ہوچکا ہے اور مقتدر حلقوں کی جانب سے عمران کو یقین دہانیوں کی بات کی جارہی ہے جن میں کچھ ایسی باتیں بیان کی جارہی ہیں کہ ‘عمران خان نے دھرنے کا فیصلہ ایسے ہی واپس نہیں لیا بلکہ سب معاملات طے ہوچکے ہیں، اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر وزیراعظم شہباز شریف کے دستخط کرکے لفافہ صدر کے پاس رکھ دیا ہے جس کا اعلان 2 جون کو ہوگا، تب تک کیئر ٹیکر حکومت کا فیصلہ کیا جائے گا، قوم الیکشن کی تیاری کرے۔’

    اسی طرح یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ مذاکرات میں فیصلہ 25 مئی کو دن 12 بجے ہی ہوگیا تھا لیکن عمران خان نے کہا کہ درمیان میں آنے والوں سے کہا کہ مجھے کسی کے زبانی کہنے پر یقین نہیں ہے، سمری لکھ کر صدر کے پاس رکھ دو، پھر جب قافلے ہر طرف سے اسلام اباد داخل ہوئے اور آئی ایم ایف سے حکومت کے مذاکرات بھی ناکام ہو گٸے تو صبح 4 بجے حکومت کی جانب سے سمری صدر کو بھیج دی گئی جس پر صدر علوی نے عمران خان کو آگاہ کیا اور تب عمران خان 6 دن کا وقت دے کر اسلام آباد سے واپس ہوئے۔’

    یہ افواہیں یا قیاس آرائیاں سوشل میڈیا پر کافی گردش کررہی ہیں اور لوگ اس کو پھیلا رہے ہیں۔ تاہم ملکی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے خاموشی ہے۔ ادھر عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بھی ڈیل نہ ہونے کی واضح بات اور حکومت کی جانب سے اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کے بیانات کے بعد یوں بھی اس قسم کی باتوں اور قیاس آرائیوں کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی لیکن یہ سارا تماشا اب بھی سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ ساتھ ہی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اور حکومتی کھیلوں میں اس سے قبل بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ زبان پر کچھ ہوتا ہے، پس پردہ کچھ اور نتیجہ کچھ سامنے آتا ہے۔

    اب چاہے نواز شریف کا مشرف سے معاہدہ ہو، بینظیر اور مشرف کے درمیان معاہدہ ہو یا معاہدے کے تحت ہی مشرف کا صدر کا عہدہ چھوڑنا، جب یہ باتیں باہر نکلیں تو پہلے متعلقین اس کی بھرپور تردید کرتے رہے لیکن جب سب کچھ ویسے ہی سامنے آیا تو انہیں ماننا ہی پڑا۔

    ہوسکتا ہے کہ آج بھی تمام تر تردید اور مسلسل بیانات کے باوجود ان افواہوں سے ہی کوئی حقیقت جنم لے لے، کیونکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے۔” آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، یہ جلد واضح ہو جائیگا لیکن سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی بقا اور استحکام ان کی انا اور ضد سے بڑھ کر ہے۔

  • کیا ملک اس وقت کسی تصادم کا متحمل ہوسکتا ہے؟

    کیا ملک اس وقت کسی تصادم کا متحمل ہوسکتا ہے؟

    پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی بیرونی سازش کے تحت لائی گئی "امپورٹڈ حکومت نامنظور” کے بیانیے کے ساتھ ملک بھر میں جلسے کرنا شروع کر دیے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ ماہ جاری رہنے کے بعد 20 مئی کو ملتان میں ہونے والے جلسے میں جاکر تھما جہاں اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے تاریخ کا اعلان ہونا تھا۔ انہوں نے اس مارچ کو حقیقی آزادی مارچ کا نام دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ موجودہ حکومت ختم کر کے فوری عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ تاہم بعض یقین دہانیوں اور پس پردہ کوششوں کے وعدوں کے باعث 20 مئی کو اعلان تو نہ ہوسکا لیکن 22 مئی کو پشاور میں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد حقیقی آزادی مارچ کے لیے 25 مئی کی حتمی تاریخ دے دی گئی۔

    پی ٹی آئی کے ‘حقیقی آزادی لانگ مارچ’ کی حتمی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی حکومت بھی حرکت میں آگئی اور اپنے اتحادیوں سے بھرپور مشاورت کے بعد اس لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس پر عمل بھی شروع کردیا لیکن ان سے وہ عوام جن کا نہ پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت سے کتنے متاثر ہوں گے؟ اس کی حکومت نے پروا نہیں کی اور مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کی جو کوششیں اور جس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں اس سے تصادم کا خدشہ ہے۔

    ہم اس بلاگ میں پہلے حکومت کے کچھ اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں۔ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے وفاقی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا اور اسلام آباد میں رینجرز کی تعیناتی سمیت ملک بھر سے پولیس کی بھاری نفری، خواتین اہلکار، قیدیوں کی وینز اور ہزاروں کی تعداد میں آنسو گیس شیلز بھی منگوا لیے گئے جب کہ اطلاعات کے مطابق ایف سی کو مظاہرین کیخلاف آنسو گیس کے استعمال کی اجازت بھی دے دی گئی اور کئی جگہ ان کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب اور سندھ میں دفعہ 144 نافذ کی جاچکی ہے، پنجاب بھر کے اسلام آباد جانے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیے جانے سے لاہور سمیت کئی بڑے شہروں کا ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت صوبہ پنجاب کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے طبی عملے کی چھٹیاں بھی منسوخ کی جاچکی ہیں، میٹرک کا منگل کے روز ہونے والا پرچہ منسوخ کردیا گیا تھا، منگل کو پنجاب بھر کے اسکولوں میں چھٹی بھی رہی اور معلوم نہیں کہ اس صورتحال میں کب تک اسکول بند رہیں۔ ان تمام اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، مارچ کے آغاز سے قبل ہی ملک بھر بالخصوص پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں جو صورتحال ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مارچ نہیں بلکہ دشمن کی فوج آرہی ہے جس سے نمٹنے کیلیے حکومت سخت ترین اقدامات کررہی ہے۔ اس کا ایک اندازہ دو روز سے پنجاب بھر میں ہونے والے پولیس چھاپوں اور سیکڑوں پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری سے لگایا جاسکتا ہے، حد تو یہ ہے کہ حکومت نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے خون کو بھی نہیں بخشا اور علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصر جاوید اور پوتے ولید اقبال کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے، اسی افراتفری میں لاہور میں گھر میں داخل ہونے والے پولیس اہلکاروں پر مبینہ طور پر اہلخانہ کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل کمال شہید ہوگیا، یہ بلاگ لکھے جانے تک پولیس پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی حراست میں لے چکی ہے جن میں خاتون رہنما یاسمین راشد، عندلیب عباس بھی شامل ہیں۔

    حکومت نے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لیے اگر دو منصوبوں کا اعلان کیا ہے تو پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کیلیے تین منصوبے تیار کر رکھے ہیں جو پی ٹی آئی رہنما اسد عمر بتا چکے ہیں لیکن یہ منصوبے کیا ہیں اس کی میڈیا تک کو ہوا نہیں لگنے دی گئی ہے۔

    اب آتے ہیں حکومتی اقدامات سے عام لوگوں اور سیاسی جماعتوں سے دور رہنے والے عوام کی تکالیف کی طرف تو ایک جانب جب پورا پنجاب بند کر دیا گیا ہے اور مال بردار کنٹینرز اور ٹریلر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے تو ایک جانب ان کنٹینرز اور دیگر گاڑیوں میں لدا سامان خراب ہونے اور عوام کے کروڑوں روپے کے نقصان کا امکان غالب ہے تو دوسری جانب ترسیل نہ ہونے سے ملک میں اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہوسکتی ہے، راستوں کی بندش کے باعث ٹینکرز ایسویسی ایشن نے پنجاب بھر کو پٹرول کی سپلائی بند رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ راستوں اور مسافر گاڑیوں کی بندش سے لوگوں کے اپنے عزیز واقارب سے رابطے منقطع ہوچکے، اس دوران کئی خوشی اور غمی کے لمحات میں لوگ اپنے پیاروں سے نہیں مل سکیں گے۔ ایمرجنسی میں اسپتال نہیں پہنچ سکیں گے جس کے باعث زندگیوں کو خطرات لاحق ہونگے۔ لوگ اپنے کاموں پر نہیں جاسکیں گے تو مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی پسے عوام کس طرح اپنے گھروں کا چولہا جلا پائیں گے۔

    ایک جانب عمران خان کا کہنا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن پھر بھی جہاد سمجھ کر نکل رہا ہوں جب کہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی زندگی کو خطرہ اور خودکش حملے کا خدشہ ہے جس کے بارے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ کو بھی آگاہ کرچکے ہیں۔

    پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے اپنا سفر شروع کیا اور صوابی انٹرچینج پر ایک بار پھر عوام سے تمام رکاوٹیں عبور کرکے اسلام آباد پہنچنے کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ہر حال میں اسلام آباد پہنچیں گے، دوسری جانب حکومت ہر حال میں اس مارچ اور مظاہرین کو کچلنے کیلیے طاقت کا ہر حربہ آزمانے پر بضد ہے اور اس حکومت کے اصل کرتا دھرتا نواز شریف پہلے ہی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے "بھرپور” تیاریاں کرنے کی ہدایت کرچکے تھے جس کے بعد پنجاب سمیت کراچی اور اندرون سندھ بھی پولیس نے مجموعی طور پر سیکڑوں گرفتاریاں کی ہیں اور کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں تصادم جیسی صورتحال بھی سامنے آئی ہے جہاں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس بھی فائر کیے ہیں جب کہ حکومتی وزرا بالخصوص وزیر داخلہ کے سخت بیانات نے ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ اس صورتحال میں عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو کسی ممکنہ تصادم سے بچانے کیلیے پی ٹی آئی کے گرفتار افراد کو رہا کرنے جب کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو پی ٹی آئی کو احتجاج کیلیے اسلام آباد میں متبادل جگہ دینے کا حکم دیا ہے۔ ملک میں بحران سے نمٹنے کی سب سے بڑی ذمے داری تو حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے اور ایسی حکومت جس کے دامن پر 2014 میں ماڈل ٹاؤن واقعے کے 14 مقتولوں کے خون کے دھبے بھی ہیں اس کو تو ویسے ہی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے کہ زرا سی غفلت چنگاری کو شعلہ بناسکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس تمام صورتحال میں جب کہ ملک سیاسی بحران کے باعث پہلے ہی بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کررہا ہے اور معیشت کو چلانے کیلیے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ گدائی پھیلایا جارہا ہے، ایسے سخت آزمائشی دور میں اگر کسی کی بھی معمولی سی غلطی سے اگر ملک کسی تصادم سے دوچار ہوتا ہے تو کیا پاکستان اور غربت میں پسے اس کے مظلوم عوام ایسے کسی بھی تصادم کے متحمل ہوسکتے ہیں؟

    یقیناً مقتدر اور سنجیدہ حلقے اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہوں گے، باکسنگ کے رِنگ کا بھی اصول ہے کہ جب تک معاملہ کھیل تک رہے اور کوئی سنگین خطرہ نہ ہو تو ریفری رِنگ سے باہر ہی رہتا ہے لیکن جیسے ہی معاملہ بگڑنے لگتا ہے کہ ریفری مجبوراً رنگ کے اندر آتا ہے اور ایک دوسرے سے نبرد آزما کھلاڑیوں کو چھڑا کر الگ کرتا ہے کہ کہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ ہوجائے۔ یہاں مسئلہ نہ باکسنگ کے رنگ کا ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کا، بلکہ یہاں معاملہ ہے اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھری مملکت خداد پاکستان اور اس کے 22 کروڑ عوام کا۔ تو یہ وقت ہے کہ فیصلہ ساز انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ ملک و قوم کے مفاد میں پاکستان کو تصادم کا شکار ہونے سے بچائیں۔ کیونکہ ملک ہے تو سب کی سیاست ہے، ملک ہے تو اقتدار بھی ہے اور سب کی طاقت اور فیصلہ سازی کی قوت بھی ہے۔ اس لیے ملک سب سے مقدم ہے اور کسی بھی فیصلے میں اس کو ہی مقدم رکھنا چاہیے۔

  • کہاں گئے ن لیگ کے آزادی صحافت کے دعوے؟

    کہاں گئے ن لیگ کے آزادی صحافت کے دعوے؟

    ہر سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر "بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟

    بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔

    اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے جو ڈیڑھ ماہ قبل تک اظہار رائے کی آزادی کی مالا جپتے تھکتے نہ تھے اور صحافت اور صحافیوں سے بڑا ان کا کوئی دوست اور ہمدرد نہ تھا لیکن اقتدار کا ہُما سر پر بیٹھتے ہی حسب روایت تو کہاں ہم کہاں گوکہ ماضی میں کسی کی بھی حکومت رہی تو اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو کسی حکومت نے برداشت نہیں کیا ہے لیکن مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تاریخ میں مسلم لیگ ن سبقت رکھتی ہے۔

    آج ملک میں ایک بار پھر مسلم لیگ ن کی حکومت ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے بھائی کی جگہ چھوٹا بھائی وزیراعظم ہے لیکن پالیسیاں اب بھی ساری لندن سے بن کر ہی آرہی ہیں۔ کئی جماعتوں کے اتحاد سے بنائی گئی شہباز حکومت جب اقتدار سے باہر تخت اقتدار پر آنے کیلیے برسرپیکار تھی تو اس وقت کے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کا دوبارہ مطالعہ کریں یا ان کی ویڈیوز دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان سے زیادہ صحافت اور صحافیوں سے کوئی بھی مخلص نہیں تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی اپنی پرانی روایت دہرانی شروع کردی اور حقیقت کا آئینہ نہ دیکھنے کے عادی نواز لیگی حکمرانوں نے اختیار ملتے ہی نہ صرف آئینہ دکھانے والے میڈیا گروپس بلکہ انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو بھی صرف آنکھیں دکھانا ہی شروع نہیں کیں بلکہ ان کی زباں بندی کیلیے انہیں ریاستی انتقام کی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

    مریم نواز کے الزامات اور دھمکیوں کی مذمت کرتے ہیں: اے آر وائی نیوز انتظامیہ

    پاکستان میں آج ایک بار پھر صحافت کی زباں بندی کی گئی ہے اور وفاقی حکومت نے ملک کے سب سے مقبول نیوز چینل اے آر وائی نیوز کی این او سی منسوخ کردی ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ ارض وطن ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے 75 برس کا ہونے جارہا ہے اور پوری قوم ملک کا 75 واں جشن آزادی منانے کے لیے زور وشور سے تیاریاں کر رہی ہے۔
    پاکستان کی سیاسی تاریخ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ ہر سیاسی جماعت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟ جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے صحافت کو ہی اپنی خواہشات کے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جو یہ نہ مانے پھر اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ آزاد میڈیا ہمارے کسی بھی حکمراں کو کبھی بھی ایک آنکھ نہیں بھایا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور ہمارے حکمراں سچ سننے، دیکھنے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہے ہیں۔ یوں تو اس حوالے سے تمام حکمراں ہی اپنا اپنا ماضی رکھتے ہیں لیکن مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تاریخ میں مسلم لیگ ن سبقت رکھتی ہے اور ہمارے ملک کی تاریخ ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔
    اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومت ہے جو اقتدار ملنے سے قبل تک اظہار رائے کی آزادی کی مالا جپتے تھکتے نہ تھے اور صحافت اور صحافیوں سے بڑا ان کا کوئی دوست اور ہمدرد نہ تھا لیکن اقتدار کا ہُما سر پر بیٹھتے نظریں ایسی بدلی ہیں کہ تو کہاں اور میں کہاں والی بات ہوگئی ہے۔

    ن لیگ کی حکومت جو پہلے ہی میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں اے آر وائی کے سرکاری اشتہارات بند کرکے ملک کے اس سب سے بڑے معروف اور عوام چینل سے اپنی پُرخاش ظاہر کرچکی تھی لیکن دوبارہ ساجھے کا اقتدار ملتے ہی اس کی اے آر وائی کے خلاف ریشہ دوانیوں میں تیزی آگئی۔ پہلے صرف چینل کی کیبل پر نشریات بند کی گئیں اور جب حسب منشا نتائج نہ نکلے تو اے آر وائی کی آواز کا مکمل گلا گھونٹنے کیلیے بغیر کسی پیشگی نوٹس کے اس کا این او سی ہی منسوخ کردیا گیا ہے۔ حکومت نے تمام قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ انتہائی اقدام کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے اس جابرانہ فیصلے سے 4 ہزار سے زائد افراد بیروزگار اور ہزاروں گھروں کے چولہے بند ہوجائیں گے۔

    حکومت کے اس من مانے اور ماورائے قانون اقدام کی صرف ملک کے صحافتی اداروں نے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی صحافتی تنظیموں، ملکی سیاسی جماعتوں حکومت کی اتحادی جماعتوں، ماہر قوانین سمیت مختلف طبقہ فکر کے افراد نے سخت مذمت کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام سویلین مارشل لا سے تعبیر کیا اور ایسے وقت جب پوری قوم نے جشن ٓزادی کی تیاریوں میں مصروف ہونا تھا اس صورتحال میں ملک بھر میں صحافتی تنظیموں سمیت عوام سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج حکومت کا سیاہ کارنامہ بن کر دنیا بھر کے سامنے آرہا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے این او سی منسوخ کرنے کا نوٹیفکیشن منسوخ کرنے کے حکومتی نوٹیفکیشن کو معطل بھی کردیا ہے لیکن نشریات بحال نہیں ہوسکی ہیں۔

    شہباز حکومت جب اقتدار سے باہر تخت اقتدار پر آنے کیلیے برسرپیکار تھی تو اس وقت کے اپوزیشن جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کے بیانات کا دوبارہ مطالعہ کریں یا ان کی ویڈیوز دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان سے زیادہ صحافت اور صحافیوں سے کوئی بھی مخلص نہیں تھا لیکن اقتدار میں آتے ہی اپنی پرانی روایت دہرانی شروع کردی اور حقیقت کا آئینہ نہ دیکھنے کے عادی نواز لیگی حکمرانوں نے اختیار ملتے ہی نہ صرف آئینہ دکھانے والے میڈیا گروپس بلکہ انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو بھی صرف آنکھیں دکھانا ہی شروع نہیں کیں بلکہ ان کی زباں بندی کیلیے انہیں ریاستی انتقام کی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ یہ مسلم لیگ نواز کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر دور اقتدار میں اپنے پیاروں اور ہمنوا درباریوں کو اپنے نام کی مناسبت سے نوازتی ہے لیکن مخالف اور آئینہ دکھانے والوں کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ بڑے کی جگہ چھوٹا بھائی برسراقتدار ہے لیکن پالیسیاں اب بھی لندن سے ہی بن کر آرہی ہیں۔ شہباز شریف کے دور حکومت میں نواز حکومت کا ری کیپ جاری ہے اور انتقامی کارروائی کا کا بڑا ہدف تو اے آر وائی اور اس سے وابستہ صحافی ہیں لیکن جو بھی اس حکومت اور ن لیگ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے ان کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    1999میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کا ایک بڑے میڈیا گروپ سے تنازع ہوا اور اس قدر سنگین ہوا کہ اس میڈیا گروپ کا کاغذ ہی بند کردیا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پرائیویٹ نیوز چینلز پاکستان میں نہیں آئے تھے اور صحافت کا سارا زور صرف اخبارات پر تھا۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس ادارے نے ایک طویل لڑائی کے بعد بالآخر ایک صفحے پر اپنا اخبار شائع کیا اور اس نوٹ کے ساتھ کے ادارے کے پاس مزید اخبار چھاپنے کیلیے مزید کاغذ نہیں بچا اور حالات یوں ہی رہے تو شاید اب آگے اخبار کی اشاعت ممکن نہ ہو۔
    اس وقت تمام صحافتی تنظیمیں اس اخباری ادارے کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور دیگر لوگ بھی درمیان میں آئے، دباؤ بڑھا تو تصفیہ ہوا اور وہ ادارہ اس بحرانی کیفیت سے نکل سکا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس ادارے نے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ اس جماعت سے جھگڑا کرنے سے شاید توبہ کرلی اور پھر ن لیگ کو کبھی آئینہ دکھانے کی جرات نہ کی۔

    اپنوں کو نوازے کی بات کریں تو 2014 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مدح سرا صحافی عرفان صدیقی کو اپنا مشیر بنایا آج ان کے چھوٹے بھائی نے ن لیگ کی سخت حریف پی ٹی آئی کے شدید ناقد فواد حسین کو اپنا مشیر بنا لیا ہے لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نئے مشیر جو خود سینیئر صحافی ہے وہ آج اپنی حکومت کی اس میڈیا مخالف پالیسی پر کیوں زباں بند کیے بیٹھے ہیں کیا وہ بھی اظہار رائے کی آزادی کو پابند سلاسل کرنے کی کوششوں میں موجودہ حکومت کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

    گو کہ سابق ضیا دور، مشرف دور میں بھی آزاد صحافت کا گلا گھونٹا گیا لیکن ن لیگ کی اتحادی حکومت نے جس طرح یہ انتہائی اقدام کیا اس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ حکمراں طبقہ یاد رکھے کہ ماضی میں میڈیا اداروں کے خلاف اقدامات کرنے والے حکمراں اقتدار سے رخصت ہوئے لیکن وہ ادارے قائم رہے اور حکمرانوں کا یہ اقدام تاریخ نے سیاہ باب کے طور پر رقم کیا۔ تو حکومت سوچے کہ کیا اس نے پاکستانی سیاست میں ایک اور سیاہ ترین باب رقم کردیا ہے

    1999 میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ان کا ایک بڑے میڈیا گروپ سے تنازع ہوا اور اس قدر سنگین ہوا کہ اس میڈیا گروپ کا کاغذ ہی بند کردیا گیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ابھی پرائیویٹ نیوز چینلز پاکستان میں نہیں آئے تھے اور صحافت کا سارا زور صرف اخبارات پر تھا۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ اس ادارے نے ایک طویل لڑائی کے بعد بالآخر ایک صفحے پر اپنا اخبار شائع کیا اور اس نوٹ کے ساتھ کے ادارے کے پاس مزید اخبار چھاپنے کیلیے مزید کاغذ نہیں بچا اور حالات یوں ہی رہے تو شاید اب آگے اخبار کی اشاعت ممکن نہ ہو۔

    اس وقت تمام صحافتی تنظیمیں اس اخباری ادارے کے ساتھ کھڑی ہوئیں اور دیگر لوگ بھی درمیان میں آئے، دباؤ بڑھا تو تصفیہ ہوا اور وہ ادارہ اس بحرانی کیفیت سے نکل سکا۔

    شاید یہی وجہ تھی کہ اس ادارے نے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ اس جماعت سے جھگڑا کرنے سے شاید توبہ کرلی اور پھر ن لیگ کو کبھی آئینہ دکھانے کی جرات نہ کی۔

    اپنوں کو نوازے کی بات کریں تو 2014 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے مدح سرا صحافی عرفان صدیقی کو اپنا مشیر بنایا آج ان کے چھوٹے بھائی نے ن لیگ کی سخت حریف پی ٹی آئی کے شدید ناقد فواد حسین کو اپنا مشیر بنا لیا ہے لیکن سوال یہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کے نئے مشیر جو خود سینیئر صحافی ہے وہ آج اپنی حکومت کی اس میڈیا مخالف پالیسی پر کیوں زباں بند کیے بیٹھے ہیں کیا وہ بھی اظہار رائے کی آزادی کو پابند سلاسل کرنے کی کوششوں میں موجودہ حکومت کے ساتھ شریک جرم ہیں۔

  • پاکستان کے فیصلے کب تک لندن میں ہوتے رہیں گے؟

    پاکستان کے فیصلے کب تک لندن میں ہوتے رہیں گے؟

    لندن برطانیہ کا خوبصورت شہر ہے لیکن پاکستانی جب لندن کا نام سنتے ہیں تو ان کی نظروں کے سامنے پاکستان کی سیاست اور سیاستدان آجاتے ہیں۔ یہ شہر جو ہر دور میں کسی نہ کسی طور پاکستان کی سیاست میں اہم رہا ہے آج پھر اہمیت اختیار کرگیا ہے کیونکہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سمیت ان دنوں کابینہ اراکین کی بڑی تعداد کے ہمراہ لندن میں موجود ہیں اور وہاں زیرعلاج عدالت سے سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملک چلانے کیلیے صلاح ومشورے کررہے ہیں۔

    بلاگ تحریر کیے جانے تک کی اطلاعات کے مطابق اب تک کی اس اعلیٰ سطحی مشاورت میں الیکشن کے حوالے سے ن لیگ میں واضح اختلاف رائے کے باوجود اسمبلی مدت پورے ہونے کے بعد ہی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں عمران خان سمیت کسی بھی "دوسرے” دباؤ کو قبول نہ کرنے کا موقف اپنایا گیا ہے۔ اسی اجلاس میں ملک کی معاشی حالات کی بہتری کیلیے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے اچھی ڈیل لانے کی ہدایت کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو مفتاح اسماعیل کی رہنمائی کرنے کی ذمے داری سونپی گئی ہے تاہم انہیں اس حوالے سے براہ راست میڈیا پر آکر بات کرنے سے گریز کرنے کی بھی ہدایت دی گئی ہے۔

    پاکستان کی سیاست اور لندن

    یہ تو تھا موجودہ حکومت کی لندن یاترا کا تازہ ترین احوال لیکن آئیے آج ہم پاکستان اور لندن کے اس گہرے سیاسی رشتے پر نظر دوڑاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کبھی لندن پلان تو کبھی میثاق جمہوریت، پاکستانی سیاستدانوں کی جلاوطنی ہو یا تفریح و نجی دوروں کے نام پر جوق درجوق لندن یاترا، جس سے پاکستانی قوم کو لگنے لگا ہے کہ ہماری سیاسی رگوں میں لندن خون کی طرح رچ بس گیا ہے، لندن سے پاکستان میں اتنے پلان بنے تو کیا کبھی پاکستان کیلیے کوئی راحت کا سامان بھی ہوا ہے۔

    پاکستان اور بھارت (متحدہ ہندوستان) چونکہ طویل عرصے تک برطانیہ کی کالونی رہے ہیں اس لیے بھی لندن کی ایک اہمیت دونوں ممالک کیلیے مسلمہ رہی ہے۔ نئی نسل کیلیے شاید یہ انکشاف ہو لیکن تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ لندن کی اہمیت قیام پاکستان سے قبل بھی مانی جاتی رہی ہے اور قیام پاکستان کے حوالے سے گول میز کانفرنس لندن میں ہی ہوئی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک برطانیہ یہاں راج کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی لندن کی پاکستانی سیاست میں اہمیت اور حیثیت قائم رہی اور مختلف ادوار میں پاکستان کے صف اول کے سیاسی رہنما لندن کا رخ کرتے رہے، کئی پلان یہاں بنے، کچھ پر عملدرآمد ہوا تو کچھ ہوا میں تحلیل ہوگئے تاہم جب جب سیاستدان لندن میں جمع ہوتے ہیں تو اس کے اثرات پاکستان میں محسوس کیے جاتے رہے ہیں اور لندن میں ہونے والے فیصلے پاکستان کی سیاست میں بعض اوقات بڑی تبدیلی کا موجب ثابت ہوئے ہیں تاہم اب تک ہونے والے لندن پلان پاکستان میں حکومتوں کے جوڑ توڑ کے حوالے سے تو اہم رہے لیکن پاکستان میں استحکام اور ترقی وخوشحالی کے حوالے سے لندن کا کردار کبھی بھی مثالی نہیں رہا ہے۔

    پاکستان کی سیاست اور لندن

    بینظیر بھٹو، نواز شریف اور بانی متحدہ سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے برسوں جلاوطنی کی زندگی وہاں گزاری تو اکثر ہمارے سیاسی رہنما بظاہر علاج، بچوں کی تعلیم اور کاربوبار کے بہانے لندن کا رخ کرتے رہے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر انہیں پاکستان میں جمہوریت اور ملک کے مستقبل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے تاہم ان کا مطمع نظر ہمیشہ اپنا اقتدار ہی ہوتا ہے اس وقت بھی پاکستان میں کئی صف اول کے رہنماؤں کے گھر ہیں کئی تسلیم کرتے تو کئی انکار ہیں لیکن سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ لندن پاکستان کی سیاست کیلیے اہم حیثت رکھتا ہے۔

    اس حوالے سے تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت لندن بیٹھ کر اہم فیصلے اس لیے بھی کرنا پسند کرتی آئی ہے کہ ایک تو وہاں کھل کر بات کرنا اور اسے پوشیدہ رکھنا آسان ہوتا ہے دوسرا وہاں کسی "دباؤ” کا بظاہر خطرہ نہیں ہوتا۔

    پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے اور حالیہ دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو لندن کو سیاسی حوالے سے اصل مقبولیت بانی متحدہ اور بینظیر بھٹو کی ازخود جلا وطنی اور نواز شریف کے مشرف حکومت سے معاہدے کے تحت پہلے سعودی عرب اور پھر لندن قیام سے ملی۔

    1992 میں اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کیخلاف فوجی آپریشن کے آغاز سے قبل بانی ایم کیو ایم نے علاج کی غرض سے لندن روانگی اختیار کی جو بعد ازاں ازخود جلاوطنی میں تبدیل ہوئی اور پھر گزشتہ دہائی میں انہیں وہاں کی شہریت بھی مل گئی بانی متحدہ نے 1992 سے اگست 2017 تک لندن سے کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کی شہری سیاست کو چلایا اور اپنے انداز میں چلایا اور ایسے چلایا کہ کم وبیش 25 سال تک ایم کیو ایم کے تمام سیاسی فیصلے وہیں سے ہوتے رہے، کس حکومت میں رہنا ہے، کس سے جانا ہے، کب احتجاج کرنا ہے، کب عوامی ردعمل دینا ہے یہ سب لندن میں ہی طے ہوتا ہے جس پر عملدرآمد یہاں موجود ایم کیو ایم کی قیادت کراتی تھی خیر اب تو یہ ماضی ہوچکا اگر 22 اگست 2017 کا کراچی پریس کلب والا واقعہ نہ ہوتا تو شاید یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہوتا۔

    بینظیر بھٹو جو 90 کی دہائی کے آخر میں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں حکومت کی سیاسی انتقامی کارروائی کا نشانہ بننے سے بچنے کیلیے لندن روانہ ہوئیں اور خودساختہ جلاوطنی اختیار کی انہوں نے بھی وہاں سے اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالی اور تقریباً نو سال تک یہ جلاوطنی برقرار رہی۔

    نواز شریف بھی مشرف سے معاہدہ کرکے گئے تو سعودی عرب مگر وہاں سے پھر انہوں نے لندن کی اڑان بھری ساتھ میں انکے شہباز شریف اور دیگر اہلخانہ بھی تھے اور پھر وہاں سے انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لندن کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ ماضی کے بدترین حریف اور ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھنے کے روادار گردانے جانے والے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو ایک ساتھ بٹھادیا اور میثاق جمہوریت وجود میں آئی گوکہ یہ

    میثاق اس وقت تک ہی رہی جب تک یہ دونوں لندن میں رہے، بینظیر تو وطن واپسی کے بعد شہادت کے رتبے پر فائز ہوکر سیاست میں امر ہوگئیں تاہم بعد میں نواز شریف اور زرداری اس میثاق جمہوریت پر اس کی اصل روح کے مطابق قائم نہ رہ سکے اگر رہتے تو آج ملک اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتا۔

    پاکستان کی سیاست میں لندن کا کردار نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد ختم نہیں ہوا بلکہ پھر اس شہر کا نام سازشوں کے تانے بانے بنے جانے والے شہر میں ہونے لگا مشرف مخالف تحریک کا آغاز تو میثاق جمہوریت کے ساتھ ہی ہوگیا تھا تاہم سابق صدر کی جانب سے چوہدری افتخار کو چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب سے ہٹائے جانے کے بیک جنبش قلم فیصلے کے بعد مشرف مخالف تحریک کو جلا اسی شہر نارسا نے بخشی۔

    پاکستان کی سیاست اور لندن

    مشرف حکومت کے خاتمے اور بینظیر کی شہادت کے فوری بعد ہمدردی کے ووٹ سے آنے والی زرداری حکومت کیخلاف میمو گیٹ اسکینڈل کی شروعات بھی لندن سے ہی ہوئی جس کے بعد شریف برادران کو ہمت ہوئی اور وہ کالے کوٹ پہن کر پاکستان کی عدالت عظمیٰ پہنچ گئے، بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی آج غیر ملکی سازش کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان نے جب نواز شریف کے حکومت کے خلاف 2014 میں طویل دھرنا دیا تو اس وقت بھی ایک اہم بیٹھک لندن میں ہی ہوئی جس میں عمران خان، چوہدری برادران، چوہدری سرور اور طاہرالقادری کی خفیہ ملاقاتیں میڈیا کی زینت بنیں۔

    عدالت سے نااہلی کی سزا پاکر تیسری بار قبل از وقت اقتدار سے محروم ہونے والے نواز شریف نے کچھ وقت تو پاکستان میں جیسے تیسے گزار لیا لیکن عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی اچانک ان کی بیماریاں بڑھتی چلی گئیں اور ایسی بڑھیں کہ اسپتالوں کے کارکردگی اور صلاحیت کے بارے میں اپنے دور اقتدار میں بلند بانگ دعوے کرنے والے نواز شریف کی طبی حالت اتنی دگرگوں ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے واضح کہہ دیا کہ ان کا علاج پاکستان نہیں بلکہ صرف لندن میں ہی ممکن ہے اس دوران نواز شریف کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک گرگئے اور ملک سمیت حکمرانوں کو بھی میاں صاحب کی حالت پر تشویش ہونے لگی بالآخر وہ 50 روپے کے اسٹامپ پیپر پر اپنے بھائی اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی ضمانت پر اپنے پسندیدہ ملک لندن سدھار گئے اور یہاں سے وہیل چیئر پر جہاز میں سوار ہونے والے بڑے میاں صاحب کو لندن کی آب و ہوا ایسی راس آئی کہ انہوں نے چہل قدمی اور کیفے ٹیریا جاکر چائے اور کافی پینا شروع کردی اور اب حال ہی میں شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد مسلم لیگ ن کے اہم رہنما نے ایک ٹی وی پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ پاکستان کے اسپتال اور ڈاکٹر اتنی ترقی کرگئے ہیں کہ اب نواز شریف کا علاج ملک میں بھی ہوسکتا ہے اس لیے وہ جلد وطن واپس آرہے ہیں۔

    اقتدار کے حصول اور کسی کو گرانے اور کسی کو سر پر بٹھانے کیلیے بھاگ دوڑ کی اس ساری مشقت میں پاکستانی سیاستدانوں کے بارے میں اب عمومی رائے یہ بن چکی ہے کہ ہمارے سیاست دان پہلے اقتدار کے حصول اور پھر اپنی کرسی بچانے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر قیام پاکستان سے لیکر آج تک کی تاریخ کو پڑھا جائے تو قائداعظم کے بعد ابھی تک کوئی ایسا سیاستدان نہیں گزرا جس پر کبھی مالی بدعنوانی یا اقربا پروری اور دھاندلی جیسے الزامات نہ لگے ہوں۔ جیسا کے بلاگ کے آغاز میں کہا گیا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت مشاورت کیلیے لندن میں موجود ہے جس میں حکومت چلانے اور عوام کی قسمت کے فیصلے کیے گئے ہیں لیکن وفاقی وزیر اطلاعات سمیت ن لیگی رہنماؤں کی اکثریت اسے نجی دورہ بھی کہہ رہی ہے تو قوم یہ جاننے میں حق بجانب ہے کہ کیا حکمران عوام کو انسان سمجھتے ہیں یا اپنی نجی ملکیت جن کی قسمت کا فیصلہ وہ اپنے نجی دوروں میں کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ بھی سوال ان کے ذہنوں میں گردش کرتا ہے کہ آخر کب تک پاکستان کے مقدر کے فیصلے غیر ملکوں میں ہوتے رہیں گے۔ پاکستانی سیاست میں کھیل تماشوں کا یہ سلسلہ کب تک دراز رہتا ہے اس حوالے سے موجودہ حالات دیکھ کر تو مستقبل قریب میں اس حوالے سے کوئی امید نظر نہیں آرہی۔