Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    بچپن میں جب یہ سنتے تھے کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے” تو حیران ہوتے تھے کہ جب بچوں کی عید ہوتی ہے تو بڑے کیوں مناتے ہیں؟ نئے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟ اور نماز عید کیوں پڑھنے جاتے ہیں؟ لیکن جب بڑے ہوئے تو اس جملے کے مفہوم سے آشنا ہوئے۔ یقین آگیا کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور اب ہم بھی اپنے بچوں کو یہی کہتے ہیں کہ اصل عید تو بچو تمہاری ہے۔

    آج ہم اپنے بچپن کی عیدوں سے متعلق اپنی یادیں تازہ کریں گے، بقول شاعر

    میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
    آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے

    تو جناب ہمارے بچپن کی عید میں بھی آج کی طرح نئے کپڑے، عیدی، نت نئے پکوان، سیر و تفریح سب کچھ ہوتا تھا مگر عید کے وہ دن ہماری آج کی عید سے خاصے مختلف تھے۔

    70 اور 80 کی دہائی میں جنم لینے اور بچپن کے خوبصورت دن گزارنے والوں کو یاد ہوگا کہ کیسے وہ عیدیں آج کی عید سے منفرد ہوتی تھیں۔ ہم جب بچے تھے تو آج کے بچوں ہی کی طرح بے تابی سے عید کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن انداز کچھ مختلف ہوتا تھا، روز امی سے پوچھنا کہ اب عید میں کتنے دن رہ گئے، کتنے روزے باقی رہ گئے؟ اس طرح کے کئی سوال تو ہم کرتے تھے لیکن ساتھ ساتھ عید کی تیاری کچھ اس انداز میں کرتے تھے جو آج شاید ہمارے لیے ممکن بھی نہیں۔

    مثلا آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینے کے لیے روایتی عید کارڈز دینے کا رواج متروک ہی ہوچکا ہے۔ اب تو صرف ہاتھ میں پکڑے موبائل سے عید مبارک کا پیغام، کوئی ایموجی یا ڈیجیٹل کارڈ بھیج کر یہ روایت بالکل روکھے پھیکے انداز میں نبھائی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے بچپن میں رمضان کا آغاز ہوتے ہی ہم اپنے دوستوں اور کزنز وغیرہ کو عید پر دینے کیلیے عید کارڈز کی خریداری شروع کر دیا کرتے تھے اور اس کے لیے روزانہ دکانوں اور اس حوالے سے لگائے جانے والے خصوصی اسٹالز (جی ہاں اس دور میں عید کارڈز فروخت کرنے کے خصوصی اسٹالز لگائے جاتے تھے) کے روز چکر لگایا کرتے تھے۔ اس موقع پر کوشش ہوتی تھی کہ اچھے سے اچھے کارڈز کا انتخاب کریں۔ عموما اس وقت دور حاضر کے فلمی اداکار اور اداکاراؤں کے پوسٹ کارڈز پر مبنی عید کارڈز ہوا کرتے تھے جن کے ایک طرف تصویر اور دوسری جانب لکھنے کیلیے خالی جگہ ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف پھولوں اور تہنیتی پیغامات کے ساتھ کارڈز بھی ہوتے تھے، اس دور میں کارڈز پر مبارک باد کے ساتھ بچکانہ اشعار بھی لکھ کر اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیا جاتا تھا جن میں سے یہ دو تو بہت مشہور زمانہ رہے ہیں۔

    گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
    دوست سے دوستی توڑی نہیں جاتی

    عید آئی ہے بڑی دھوم دھام سے
    دوست اچھل پڑا سویوں کے نام سے

    لیکن آج کا بچہ تو روٹی کے بجائے پزا کا دلدادہ ہے، سویوں کے بجائے نوڈلز، اسپیگٹیز اور پاستا اس کے من کو بھاتے ہیں جو کہ ہمارے دور میں ندارد تھے۔

    خیر بات ہورہی تھی عید کارڈز کی تو اس دور میں محکمہ ڈاک کی جانب سے بھی عید کارڈز پوسٹ کرنے کیلیے مقررہ تاریخ کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا تھا کہ جس نے اپنے دوستوں رشتے داروں کو ملک یا بیرون ملک عید کارڈز بھیجنے ہیں وہ مقررہ تاریخ تک کارڈز محکمہ ڈاک کو دے دیں تاکہ بروقت پہنچ سکیں۔ اس کے بعد لوگ پوسٹ آفس کے باہر گھنٹوں لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور دوست واحباب کو کارڈز پوسٹ کیا کرتے تھے کیونکہ اس دور میں آج کی طرح کئی کئی کوریئر سروس موجود نہیں تھیں۔

    جیسے جیسے دن گزرتے جاتے تھے ہمارا عید کے انتظار کے حوالے سے جنون بڑھتا جاتا تھا جو کہ آج کی نسل میں عنقا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری عید کے انتظار کی سب سے بڑی وجہ نیا جوڑا، نیا جوتا اور اس کے بعد عیدی ملنا ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں عموما تہوار یا کسی شادی بیاہ میں ہی نئے کپڑے بنائے جاتے تھے جبکہ آج اس کے برعکس ہوچکا ہے۔ اب تو جب دل چاہا نئے کپڑے بنالیے تو نئے کپڑوں کی وہ خوشی جو سال میں ایک بار ملنے پر ہمیں بچپن میں ہوتی تھی اور نئے کپڑے پہننے کا انتظار وصل یار کی طرح لگتا تھا، اس مزے سے آج کی نسل ناآشنا ہے۔

    چاند رات پر رات بھر جاگ کر انتظار کیا جاتا تھا کہ صبح عید ہے نئے کپڑے پہنیں گے، پھر سب سے عیدی ملے گی تو اپنی مرضی سے چیزیں کھائیں گے اور خوشی کے یہ چھوٹے چھوٹے پروگرام ہم کئی کئی روز تک دوستوں یا کزنز اور بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر بناتے تھے۔

    ادھر چاند نظر آیا ادھر اُدھم مچ گئی، گھر میں امی اور دیگر بڑی خواتین صبح کے لیے شیر خرما اور دیگر پکوانوں کی تیاری میں جُت جاتیں اور ہم للچائی نظروں سے ہینگر میں ٹنگے استری شدہ نئے کپڑوں کو دیکھ کر جاگتی آنکھوں سے خود کو صبح اس نئے لباس میں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اس وقت صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا جو آج کے برعکس اس وقت پورا ماہ رمضان مذہبی لبادہ اوڑھے رکھتا تھا اور ایک ماہ تک گانے اور موسیقی پر پابندی ہوتی تھی لیکن چاند نظر آتے ہی اس پر بھی عید کے رنگ چڑھ جاتے تھے۔ خاص طور پر فریدہ خانم کا مشہور گانا "میں نے پیروں میں پائل تو باندھے نہیں” اور روشانے ظفر کا نغمہ ” فلک پہ کیسا یہ چاند نکلا” ہر عید کی چاند رات کو کئی سالوں تک اتنی مستقل مزاجی سے نشر کیا جاتا رہا ہے کہ بچوں بڑوں کو ان گیتوں کے بول تک ازبر ہوگئے تھے۔

    صبح عید ہوگی کا انتظار کرتے کرتے امی کی پیار بھری سرزنش کے ساتھ سوجاتے تھے۔ صبح نماز عید کے لیے خاندان کے سب بڑے مرد اکٹھا ہوکر عید گاہ نماز کے لیے جاتے تھے اگر لوگ علیحدہ علیحدہ گھروں میں بھی رہتے تھے تو نماز عید کے لیے کسی ایک گھر میں اکٹھا ہوجاتے تھے اور وہیں سے عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی بغل میں چادریں، جائے نماز اور کپڑے کے تھیلے دبائے عیدگاہ کی طرف گامزن ہوتے تھے۔ اس وقت کم سن بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ بڑے جب نماز پڑھیں تو وہ کپڑے کے تھیلوں میں گھر والوں کی جوتیاں جمع کرکے ان کی نگرانی کریں تاکہ وہ چوری نہ ہوسکیں۔

    ادھر نماز عید ہوئی لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے اور گھر واپسی ہوئی ادھر ہمیں اپنی عیدی کی فکر ہوئی۔ گھر آتے ہی ابو اور گھر کے بڑوں سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا تھا۔ اس وقت عیدی کیا ہوتی تھی آج کے بچے جان لیں تو حیران رہ جائیں۔ ایک روپیہ، دو روپے، پانچ روپے حد ہے 10 روپے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ 50 یا 100 روپے ملے ہوں۔ اگر کسی کو 100 یا 50 روپے عیدی ملتی تو سمجھ لو پورے محلے میں اس کی شان بڑھ جاتی تھی۔ عیدی ملتے ہی ہم سب گھر سے رفوچکر اور عیدی خرچ کرنے کی فکر۔

    آج کے دور میں جب بچے کولڈ ڈرنک، آئسکریم کے رسیا ہیں اور آئے روز اپنے والدین سے اپنی فرمائشیں پوری کراتے ہیں لیکن ہمارے دور میں ہم میں سے اکثریت ان چیزوں کیلیے عید کا انتظار کرتی تھی کہ عید ہی ایسا موقع ہوتا تھا جب ہم اپنی پسند یعنی کولڈ ڈرنک اور آئسکریم سے بھرپور لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس دور میں بچوں کی عیدی میں ملنے والے پیسوں سے سے بڑی عیاشی کولڈ ڈرنک، آئسکریم یا میٹھا پان ہوتا تھا یا پھر گھر کے قریب لگنے والے بچوں کیلیے شغل میلے جن میں مختلف اقسام کے دیسی جھولے، رِنگ پھینک کر انعام جیتنے والی لاٹری یا اس جیسے ہی دیگر کھیل کود۔

    عید کا سارا دن اسی ادھم چوکڑی میں گزر جاتا تھا اور رات ہوتے ہی تھکن کے مارے خوشی سے سرشار ہم نیند کی وادیوں میں گم ہوجاتے تھے۔

    ایسی ہوتی تھی ہماری تصنع و بناوٹ سے دور سادگی کے رنگوں سے لبریز خوشیوں بھری عید جس کا ذکر کرکے ہم بھی اپنے بچپن کی عیدوں میں کھوگئے اور یہ سوچنے لگے کہ کاش یہ بچپن دوبارہ واپس آجائے لیکن پھر یہ سوچ کر ہنس دیے کہ کبھی گزرا وقت بھی واپس آتا ہے اور دوبارہ اپنے مشینی دور میں واپس آگئے تاکہ اپنے بچوں کے لیے حقیقی معنوں میں عید کا اہتمام کرسکیں۔

  • سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    چند سال قبل پڑوسی ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈراما "تُو تو مَیں میں” نشر ہوتا تھا جو ساس بہو کے روایتی جھگڑوں پر مبنی مزاحیہ کہانی تھی۔ ان دنوں ہمارا معاشرہ اسی ڈرامے کی جھلکیاں‌ پیش کررہا ہے جس کی اصل وجہ ہے سیاست اور ہمارے ‘پیارے’ سیاستدان۔

    احمد اور مسعود بچپن کے دوست ہیں۔ احمد کی سیاسی وابستگی پی ٹی آئی اور مسعود کی وابستگی ن لیگ سے ہے۔ انہوں نے واٹس ایپ پر اپنے دوستوں کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے جس میں یہ اپنے اسکول اور کالج کے دوستوں سے رابطے میں رہتے اور پرانے دن اور باتوں کو شیئر کرتے رہتے ہیں۔ دو ہفتے قبل عمران خان کی حکومت گئی تو سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آگیا۔ ہر سیاسی جماعت کا سپورٹر اپنے اپنے سیاستدانوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے لگا اور اس رجحان کا اثر اس گروپ پر بھی پڑا۔ اور جہاں دوست ایک دوسرے سے حال چال پوچھا کرتے تھے، اب وہاں سیاسی بحث زور و شور سے ہونے لگی اور آہستہ آہستہ یہ حد سے بڑھنے لگی۔ ہر شخص اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو ہی اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگا۔ یہ اگر یہیں تک رہتا تو پھر بھی صحیح تھا، لیکن بات آگے بڑھی اور لوگ سیاستدانوں کی حمایت کرتے کرتے دانستہ اور نادانستہ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگے اور یہ مخالفت اتنی بڑھی کہ معمولی تبدیلی کے ساتھ اس ساری صورت حال میں‌ یہ شعر پڑھا جاسکتا ہے:
    اختلاف جب حد سے بڑھا سارے آداب مٹ گئے
    آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے

    گویا پرانی دوستی یاری بھی اس تُو تو مَیں میں کی زد میں آنے لگی اور تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد ختم ہونے کی نوبت آگئی۔ یہ تمثیل ہمارے زمینی حقائق کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

    ڈیجیٹل دنیا میں سوشل میڈیا اس لحاظ سے سب سے طاقتور میڈیا بن کر ابھرا ہے کہ یہاں ہر سچی، جھوٹی بات، تصدیق اور بلا تصدیق کوئی بھی خبر، تصویر، ویڈیو پھیلانے کی سب کو آزادی حاصل ہے۔ تو جب سے ہماری سیاست میں بھونچال آیا ہے اور عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں تب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سپورٹر اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق دلائل دے کر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کوشش میں کئی معقول ونامعقول حرکات بھی کی جارہی ہیں جس میں سیاستدانوں کی کردار کشی، دانستہ یا نادانستہ جھوٹ کو پھیلانے میں مدد دینے جیسے کام تو ہو رہے ہیں لیکن ان دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کی محبت میں برسوں سے دوستی کے رشتے میں بندھے دوست، خونی رشتوں والے ناتے جو پہلے سیاستدانوں کی محبت میں نوک جھونک تک ہی رہتے تھے اب سیاستدانوں کو چھوڑ کر باقاعدہ اور براہ راست ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور رکیک جملے بازیوں پر اتر آئے ہیں جو اب ایک انتہائی حساس معاملہ بنتا جارہا ہے کیونکہ یہ بلاوجہ کی بحث ان پیارے اور میٹھے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کرسکتا ہے۔

    میرے ہم وطنو!
    براہِ مہربانی میرے اس طرز تخاطب کو کسی اور پیرائے میں نہ جوڑیں بلکہ سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا سیاست اور سیاستدانوں کے حوالے سے جتنا تناؤ ہم لے رہے ہیں اور اس فرسٹریشن میں خود ایک دوسرے کو ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں کیا ہمارے "پیارے” سیاستدان بھی باہمی تناؤ کو اپنی ذات پر لاگو کرتے ہیں۔

    انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
    شاید کہ تیرے دل میں اترجائے میری بات

    بہت سے لوگ آگاہ ہونگے کہ پاکستان میں اقتدار کی بساط بچھانے کیلیے سیاستدان باہمی رشتے داریاں مضبوط کرتے آئے ہیں۔ آپس میں یہ کتنا ہی ایک دوسرے کو برا کہیں لیکن اپنی رشتے داریاں خراب نہیں کرتے، اگر ن لیگ کا قالین اٹھا کردیکھیں تو اس میں پی ٹی آئی، ق لیگ، پی ٹی آئی کے لوگ دکھائی دیں گے، اگر پی ٹی آئی کا قالین اٹھائیں تو اس میں دیگر جماعتیں نظر آئیں گی۔ زیادہ دور نہ جائیں پی ٹی آئی کے اسد عمر اور ن لیگ کے زبیر خان آپس میں سگے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی پارٹیوں کے انتہائی وفادار ہیں جو مخالف جماعت کیخلاف کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے لیکن کبھی اپنے رشتے پر حرف نہیں آنے دیتے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔

    کیا اب عوام بھی سیاستدان بن گئی ہے جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگی ہے؟ تو بہت ہوگیا ایک دوسرے کی کھینچا تانی، سیاست ہوتی رہی ہے، ہوتی رہے گی، سیاسی شور ایسے ہی مچتے رہیں گے لیکن اس شور میں اپنی اقدار، دوستیاں، محبت، رشتوں کو نہ گنوائیں کیونکہ یہ رشتے صرف قیمتی نہیں بلکہ بہت قیمتی ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے جس کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ہمیں بے حد نوازتا ہے اور عید جیسا تہوار منانے کا موقع دیتا ہے جس میں گلے لگ کر ایک دوسرے سے کدورتیں دور کی جاسکتی ہیں تو اگر اس بلاوجہ بحث مباحثے میں اگر آپ کا کوئی پیارا آپ سے ناراض ہوگیا ہے تو آپ ہی پہل کرتے ہوئے اس کی ناراضگی ختم کریں۔ یقین کریں آپ کی یہ پہل تعلقات کی بحالی اور مضبوطی کے لیے ایک جادو کی جپھی کا کام دے گی۔ اس بلاگ کا اختتام اس نظم پر ککرتا ہوں:

    خوشحال سے تم بھی لگتے ہو
    یوں افسردہ تو ہم بھی نہیں
    پر جاننے والے جانتے ہیں
    خوش تم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں
    تم اپنی خودی کے پہرے میں
    اور دام غرور میں جکڑے ہوئے
    ہم اپنے زعم کے نرغے میں
    انا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
    ایک مدت سے غلطاں پیچاں
    تم ربط وگریز کے دھاروں میں
    ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے
    پچھتاوے کے انگاروں میں
    خاموش سے تم ہم مہر بہ لب
    جگ بیت گئے ٹُک بات کیے
    سنو کھیل ادھورا چھوڑے ہیں
    بنا چال چلے بنا مات کیے
    جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں
    وہ سائے رُک بھی سکتے ہیں
    چلو توڑو قسم اقرار کریں
    ہم دونوں جُھک بھی سکتے ہیں

  • عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    پاکستان تحریک انصاف نے حکومت جانے کے بعد تین کامیاب عوامی جلسوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔

    پشاور اور کراچی کے بعد پی ٹی آئی کی سخت سیاسی حریف ن لیگ کے گڑھ لاہور میں ہونیوالے جلسے میں بھرپور پاور شو نے ایوان اقتدار میں تھرتھلی مچا دی ہے، کیونکہ یہ جلسے پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد کیے گئے ہیں اس لیے کوئی یہ شور بھی نہیں کرسکتا کہ اسکے لیے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔

    ملک میں جب 2022 کا سورج طلوع ہوا تو غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کیلیے امید کی کوئی نئی کرن اس نئے سال کے سورج میں نہیں تھی، عوام بدستور بدترین مہنگائی کا عذاب سہہ رہی تھی، اشیائے خورونوش غریب عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی تھیں آئے دن بجلی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے پروں کو انرجی فراہم کرتا تھا، یہ حالات تھے کہ اس وقت کی عمران خان حکومت کے وزرا بھی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہوچلے تھے اور کابینہ اجلاسوں میں برملا اس بات کا اظہار کیا جاتا تھا کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں کراس کرچکی ہے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو آئندہ الیکشن میں ان کا اپنے حلقوں میں عوام کے درمیان جانا مشکل ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

    اس وقت سیاسی منظر نامے پر آج کل کی طرح سیاسی ہلچل نہیں تھی۔ پی ڈی ایم گوکہ اپوزیشن کر رہی تھی اور اس نے مہنگائی کے بیانیے کو بھی اپنایا تھا لیکن عوام نے اس کے بیانیے کو مسترد تو نہیں کیا لیکن لبیک کہہ کر اپوزیشن کی صفوں میں بھی شامل نہیں ہوئی۔

    بڑھتی مہنگائی اور اس پر سابق وزیراعظم کے چند قریبی وزرا کے زخموں پر نمک چھڑکتے بیانات نے خاموش عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنا شروع کر دیا تھا اور عام محافل، پبلک ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرینوں، ہوٹلوں، دکانوں، بازاروں، دوست یاروں کی بیٹھکوں میں صرف ایک ہی مسئلہ مہنگائی زیر بحث ہوتا تھا اور لوگ ملبہ ڈال رہے تھے عمران خان کی نااہلی اور کابینہ پر۔

    ان بیٹھکوں اور غیر رسمی باتوں میں پریشان حال عوام پی ٹی آئی حکومت پر تبرا بھی بھیجتی رہی اور نالاں بھی رہی کہ عمران خان جو وعدے کرکے اقتدار میں آئے وہ پورے نہیں ہورہے بلکہ عوام جو پہلے ہی غربت ومہنگائی کے مارے تھے ان کو مزید مہنگائی کی دلدل میں اتار کر بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔

    یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا اور شاید کچھ وقت تک چلتا رہتا اور آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی اس عوامی بے اعتنائی کا خمیازہ اس وقت کے حالات کے مطابق آئندہ الیکشن میں متوقع ناکامی کی صورت میں چکھ بھی لیتی لیکن پھر ایسا ہوا کہ اپوزیشن حلقوں میں یوٹرن خان کے نام سے مشہور عمران خان کی غیر مقبولیت کو یوٹرن مل گیا اور آج عمران خان صرف ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

    تحریک عدم اعتماد کے نام پر ماضی کی دشمن نما حریف سیاسی جماعتوں کا اکٹھ ہوا تو عوام نے یہ مناظر دیکھے کہ ماضی میں ایک دوسرے کیلیے گالیاں نکالنے والے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر کرپشن کا پیسہ نکالنے، ایک دوسرے کو کرپشن کا بادشاہ کہنے والے ایک دوسرے کو درویش صفت کہتے ہوئے آپس میں بغلگیر بھی ہوئے، جب ایک شخص کے خلاف تمام سیاسی دشمنوں کو اکٹھا ہوتے دیکھا تو عمران خان حکومت سے بیزار عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آنے لگی اور یہ تبدیلی کا ہی مظہر ہے کہ آج عمران خان ملک بھر میں بھرپور پاور شو کررہے ہیں۔

    پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے کی طویل تاریخ ہے لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہاں حکومت کے جانے پر مٹھائیاں بانٹی گئی ہیں اور اگر احتجاج بھی ہوا تو محدود پیمانے پر لیکن عمران حکومت کے خاتمے پر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہاں عوام نکلی اور خوب نکلی۔

    عمران خان نے عوام کے جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیا اور ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے پہلے مرحلے میں پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسوں کا اعلان کیا اور اس بلاگ کے لکھے جانے تک تینوں جلسے ہوچکے اور بھرپور انداز میں ہوئے۔ شاید عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی توقعات سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں بھی کر رہے ہیں۔

    پی ٹی آئی کے جلسوں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی کیمپ میں سے کسی نے اب تک اسے حسب سابق جلسی یا ناکام جلسہ نہیں کہا بلکہ بیان آیا بھی ہے تو یہ کہ عمران خان عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

    عمران خان اپنے جلسوں میں ایک ہی مطالبہ لے کر چلے ہیں کہ فوری طور پر نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے اور لاہور میں انہوں نے عوام کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ اب اسلام آباد جانے کی کال دیں گے اگر ایسا ہوا تو کیا پھر 2014 کی تاریخ دہرائی جائیگی؟

    بہرحال عمران خان کے جلسوں کی کامیابی اور ملک و بیرون ملک پذیرائی دیکھ کر حکومت جو کہ خود بھی قبل از وقت الیکشن کی خواہاں ہے لیکن اس کیلیے پریشانی کا سبب اس وقت کسی بھی سیاسی لیڈر کے مقابلے میں عمران خان کی آسمان کو چھوتی مقبولیت ہے اور حکومتی حلقوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ موجودہ حالات میں اگر الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو شاید پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں آجائے اس لیے حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وقت کے ساتھ عوامی جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے، اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ عوامی جذبات حقیقی ثابت ہوتے ہیں یا صابن کے جھاگ کی طرح وقتی اس کیلیے ہمیں اور آپ کو بھی انتظار کرنا ہوگا۔

  • ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    وزیراعظم بننے کے 9 روز بعد بالآخر شہباز شریف 34 رکنی کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور حلف اٹھانے والوں میں ایم کیو ایم کے بھی دو وفاقی وزیر شامل ہیں جب کہ سندھ میں گورنر کیلیے بھی ایم کیو ایم سے نام مانگے گئے ہیں۔

    ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی کابینہ میں حلف اٹھانے والوں میں سید امین الحق اور فیصل سبزواری شامل ہیں، امین الحق کو تو ان کی پرانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی دی گئی ہے جب کہ اس بلاگ کے تحریر کیے جانے تک فیصل سبزواری کو وزارت بحری امور دیے جانے کا امکان ہے جب کہ شنید ہے کہ گورنر کیلیے ایم کیو ایم کی جانب سے عامر خان، نسرین جلیل اور سابق وفاقی وزیر فروغ نسیم کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھی اور اُس حکومت میں بھی اس کے دو وفاقی وزیر شامل تھے لیکن عدم اعتماد کے گرما گرم ماحول میں ایم کیو ایم نے اپنی سوچ بدلی اور پونے چار سال بعد اس کو خیال آگیا کہ پی ٹی آئی سے اس نے جو معاہدہ کیا تھا اس میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور اس کے بعد کئی روز تک مشاورت در مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل وہ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوگئی۔

    جس وقت ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا تو اپنے فیصلے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کا مطمح نظر حکومت، وزارتیں اور گورنر شپ نہیں بلکہ سندھ کے شہری مسائل بالخصوص بلدیاتی اختیارات، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی، بند دفاتر کی واپسی جیسے اہم مسائل کا حل شامل ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد بار ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے اور ان کا موجودہ اتحاد صرف معاہدے کے نکات پر عملدرآمد تک محدود ہے۔

    اس دوران ایم کیو ایم کے کنوینر سمیت دیگر رہنماؤں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان لفظی گولہ باری بھی جاری رہی اور سابقہ حلیف ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے تاہم اب جب کہ ایم کیو ایم باقاعدہ وفاقی حکومت میں شامل ہوگئی ہے اور جلد ہی گورنر سندھ بھی ایم کیو ایم کا ہوگا اور امکان ہے کہ سندھ کابینہ میں بھی ایم کیو ایم کو حصہ دیا جائیگا، اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر حیران و پریشان ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پہلی یا دوسری بار کسی حکومت کا حصہ بنی ہو، ایم کیو ایم کی پارلیمانی تاریخ کے 34 سالہ ادوار کا جائزہ لیں تو یہ 1993 سے 1996 کا دور بغیر حکومت کے ایم کیو ایم نے گزارا جب کہ اس کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اس کے علاوہ ایم کیو ایم تقریبا 30 سال تک ہر حکومت کا کسی نہ کسی صورت میں حصہ رہی ہے، ایم کیو ایم کے پاس گزشتہ دور حکومت میں بھی دو وزارتیں تھیں، جب کہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے کا اعزاز متحدہ کے نامزد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس رہا ہے جو کہ ایک دہائی سے زیادہ وقت تک مسلسل گورنر سندھ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

    اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر پہلے سابق حکومت سے باہر نکلنے اور اب پھر ایک نئی حکومت میں شامل ہونے کے فیصلے پر حیران ہے کہ ایم کیو ایم اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہونے کے باوجود اب تک اپنے مسائل حل نہیں کراسکی تو اب اس نئی حکومت کا حصہ بن کر اپنے کون سے حقوق حاصل کرلے گی جس سے شہری سندھ کا بھلا یا عوام کا فائدہ ہوگا؟

    نہ نہ کرتے پیار تم ہی سے کر بیٹھے
    کرنا تھا انکار مگر اقرار تم سے کر بیٹھے

    اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے عام ووٹر سمیت شہریوں کی جانب سے ایم کیو ایم کے پی ٹی آئی سے کیے گئے تین بنیادی مطالبات سے متعلق سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم لاپتہ کارکنان کی عدم بازیابی، بند دفاتر واپس نہ دیے جانے اور مقدمات ختم کیے جانے جیسے مطالبات پورے نہ ہونے کا جواز بنا کر پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہ ہوئی جب کہ یہ ایشوز پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران رونما نہیں ہوئے بلکہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ہوئے جن کی وہ آج پھر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے جب کہ یہ بات ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کے مذکورہ بنیادی مطالبات کسی سیاسی حکومت یا جماعت کے حل کرنے کے بس کی بات نہیں ہے۔

  • کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    پاکستان میں نئی حکومت کو آٹھ روز گزر چکے ہیں۔ وقت کی گردش نے اپوزیشن کو ایوان اقتدار میں لا بٹھایا اور حکمرانوں کو سڑکوں پر نکال دیا ہے۔

    شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں دکھانی شروع کردی ہیں لیکن آٹھ روز گزر جانے کے باوجود اس اتحادی حکومت میں‌ وفاقی کابینہ تشکیل نہ دیے جانا ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔

    ہم نے اپنے گزشتہ بلاگ میں کہا تھا کہ ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو یہی ہوتا دیکھا ہے لیکن ہانڈی میں ایک ہفتے کے دوران ہی ابال آنے لگے گا، اس کا اندازہ نہیں‌ تھا۔

    ملک میں چند روز ہی سیاسی سکون رہا اور اب حکومتی کیمپ سے بے چینی ظاہر ہونے لگی ہے۔ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں اختلافات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کی سرخیل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پارٹی کے بعض دیگر رہنما کابینہ میں شمولیت کے سرے سے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پی پی صرف آئینی عہدوں تک محدود رہے اور اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں‌ جو مستقبل میں حکومت کو پیش آسکتی ہیں‌۔ پی پی پی اس حکومت کی ناکامی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کو ہرگز ہرگز تیار نہیں ہے اور پارٹی کے سینیئر رہنما بھی اس معاملے پر آصف زرداری کے ہمنوا ہیں۔ اس حوالے سے پی پی پی اور ن لیگ میں اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔ پہلے پی پی نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کو پنجاب میں آئندہ عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مشروط کیا اور جب اس حوالے سے دونوں میں معاملات طے پائے تو پھر اہم وزارتوں پر اختلافات ظاہر ہوگئے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ پی پی پی نے صدر، چیئرمین سینیٹ کے ساتھ چاروں صوبوں کی گورنر شپ مانگ لی ہے جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں دیگر اتحادی جماعتیں اپنے اپنے گورنرز کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ آصف علی زرداری ایک بار پھر صدر مملکت کا منصب سنبھالنے کیلیے تیار ہیں۔

    ادھر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو صدر بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، کی جماعت جے یو آئی ف بھی وفاقی کابینہ میں شمولیت میں دلچسپی نہیں رکھتی جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے صدر پاکستان بننے کا خواب ممکنہ طور پر پورا نہ ہونے کے سبب فوری نئے عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا اپنے مطالبے کی حمایت میں کہنا ہے کہ اقتدار کو غیر ضروری طور پر طول دینا ہمارا منشا نہیں، ہمیں فوری طور پر الیکشن چاہییں، قوم کو امانت واپس کرنا ہماری ذمے داری ہے۔

    ن لیگ نے ایک بار پھر سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا کے مصداق چیئرمین سینیٹ کیلیے اسحاق ڈار کے نام کا اعلان کردیا ہے جو کہ ابھی تک ملک واپس بھی نہیں آسکے ہیں، ن لیگ کے اس اقدام نے پی پی کو مزید مشتعل کردیا ہے اور بلاول بھٹو جو کہ پی پی کے راضی ہونے پر ممکنہ طور پر وزیر خارجہ بننے جارہے تھے نے لندن کیلیے اڑان بھر لی ہے۔ دوسری طرف پی پی نے اس صورتحال میں آئندہ عام انتخابات کیلیے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کرلی ہیں۔

    شہباز حکومت کی ایک اور اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی وزارتیں لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پہلے ایم کیو ایم کی جانب سے موقف آیا تھا کہ ہمارے لیے معاہدے کے نکات زیادہ اہم ہیں اور اس پر عملدرآمد دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ وزارتوں سے زیادہ اہم ہے۔ اب حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد ایک نیا موقف سامنے آیا ہے کہ ایم کیو ایم کے کنوینر نے کہا کہ یہ خاندانی سیاست ہے جمہوریت نہیں۔ تو اس موقف پر سوال تو بنتا ہے کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی دونوں میں موروثی سیاست نہیں؟ 1990 سے ن لیگ اور 1970 سے پی پی پی کی سیاست خاندانی موروثیت کے گرد ہی تو گھوم رہی ہے۔ تو کیا معاہدہ کرتے وقت ایم کیو ایم دونوں جماعتوں کی یہ تاریخ بھول گئی تھی۔

    موجودہ سیاسی صورتحال سے لگتا تو یہ ہے کہ مفاہمت کے بادشاہ جن کیلیے ایک جملہ بہت مشہور ہے کہ ‘ایک زرداری سب پہ بھاری’ نے گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستانی سیاست میں فیصلے کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی میدان میں سب پر بھاری ہیں۔

    عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا اور جلد یا بدیر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن جہاندیدہ آصف علی زرداری نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا لالچ دے کر اس پر رام کیا اور اب خود کو ممکنہ طور پر چند ماہ یا چند ہفتوں کی حکومت میں کابینہ سے الگ تھلگ رکھ کر صرف آئینی عہدوں صدر، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر، صوبوں کے گورنرز تک ہی محدود رہنا چاہتی ہے۔ قیاس آرائیاں یہ کی جارہی ہیں کہ آصف زرداری ن لیگ کو موجودہ حکومت میں ناکام ثابت کرکے پنجاب میں اپنا راستہ صاف کرنے کے خواہشمند ہیں اور ممکنہ طور پر وہ آئندہ انتخابات میں ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے پنجاب میں الیکشن میں جانا چاہتے ہیں جب کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ن لیگ نے بھی اب آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ صرف پی پی ہی نہیں جے یو آئی اور ایم کیو ایم بھی اس معاملے میں ایک ہی پیج پر نظر آتی ہیں۔

    اس صورتحال میں ن لیگ ایک نئی مشکل میں پھنستی نظر آرہی ہے کیونکہ اگر وہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کی ناکامی پر واویلا کرنے کے بعد اب اقتدار میں ہونے کے باوجود عوام کو مشکلات سے نہیں نکال پاتی تو آئندہ الیکشن کیلیے اس کے پاس کیا نعرہ یا جواز ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ چہرے پر ناکامی کی کالک ملنے کے بجائے جلد الیکشن کی طرف جایا جائے تاکہ ملک میں بھی سیاسی استحکام آسکے۔ ان حالات میں اگر ن لیگ اقتدار میں رہتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن نہیں بلکہ اس کی اتحادی جماعتیں ہی آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلیے حکومت کیلیے مشکلات کھڑا کردیں اور ن لیگ پر یہ شعر صادق آئے:

    دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

  • پرانا پاکستان، نیا وزیراعظم اور ساجھے کی ہانڈی

    پرانا پاکستان، نیا وزیراعظم اور ساجھے کی ہانڈی

    قوم کو مبارک ہو بالآخر ہم تقریباً پونے چار سال تک نئے پاکستان میں مٹر گشت کرنے کے بعد واپس پرانے پاکستان میں آگئے ہیں۔

    پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے ملک کے 23 ویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا اور یوں پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوگیا کہ شیروانی ٹنگی ہی رہے گی، کام نہیں آئے گی۔

    شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے ساتھ ہی پاکستان میں سیاسی انتشار اور افراتفری بھی ختم ہوگئی ہے اور مارچ کے مہینے کے آغاز سے عدم اعتماد کے حوالے سے جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی، وہ عدم اعتماد کی کام یابی اور شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد کم از کم پارلیمنٹ کی حد تک تو سکون ہوگیا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کے استعفوں کے بعد ایوان میں اپوزیشن ہی نہیں رہی ہے۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اچانک اپنی ‘بیماری’ کا ٹوئٹر کے ذریعے اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹروں نے انہیں آرام کا مشورہ دیا ہے، اس لیے وہ نومنتخب وزیرِ اعظم سے حلف نہیں لے سکے اور ان کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین نے شہباز شریف سے حلف لیا۔ صدر مملکت کا اچانک بیمار ہونا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر اس تناظر میں جب پی ٹی آئی کے تمام اراکینِ قومی اسمبلی کے بعد دو صوبوں کے گورنروں نے یہ کہہ کر اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا کہ وہ کسی کرپٹ وزیراعظم کے ماتحت کام نہیں کرسکتے۔

    ادھر شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے کرنے، اور یکم اپریل سے ایک لاکھ تک تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد جب کہ پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کرنے کا اعلان کردیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سرکاری اداروں میں ہفتہ وار دو تعطیلات بھی ختم کر دی ہیں۔

    اپنے اس خطاب میں انہوں نے عوامی مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے حسب روایت سابق حکومت کی نااہلیوں کا پردہ بھی چاک کیا اور کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ خسارہ ہونے جارہا ہے، 60 لاکھ لوگ بیروزگار اور 2 کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلے جاچکے ہیں، تین سال میں ریکارڈ 20 ہزار ارب روپے کے قرض لیے گئے لیکن کام کچھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ صوبوں کے ساتھ مل کر مہنگائی کم کریں گے، معیشت کو دوبارہ چلانے کی کوشش کریں گے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے ایک اہم اعلان یہ بھی کیا کہ مبینہ دھمکی آمیز خط پارلیمنٹ میں لایا جائے گا اور اگر خط میں بیرونی سازش کا رتی برابر شبہ ہوا تو وزارت عظمیٰ چھوڑ کر گھر چلا جاؤں گا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران عالمی برادری امریکا، بھارت، برطانیہ، ایران سمیت تمام ممالک سے اچھے روابط رکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔

    اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے جو اعلانات کیے ہیں، ان پر کس حد تک اور کب تک عمل درآمد میں کام یاب ہوتے ہیں۔ تاہم انہیں ملک کو درپیش مسائل سے نمٹنے کے ساتھ جو سب سے اہم مسئلہ درپیش ہوگا وہ اس ساجھے کی ہنڈیا کو جوڑے رکھنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا کہ ایسی کوئی حکومت تشکیل پائی ہو، حال ہی میں سابق ہونے والی پی ٹی آئی سمیت ن لیگ اور پی پی پی دونوں کو ساجھے کی ہانڈی والی حکومتوں کا تجربہ ہے اور اس کے نتائج سے بھی آگاہ ہوں گے، کیونکہ اس سے قبل جتنی بھی ایوان اقتدار کے چولھے پر جتنی بھی ایسی ہانڈیاں چڑھائی گئیں وہ بیچ چوراہے پر ہی پھوٹی ہیں اور عوام نے یہ منظر بارہا دیکھا ہے کہ باہم شیر و شکر رہنے والوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبانوں تک بھی پہنچے ہیں۔

    زیادہ دور نہ جائیں چند ہفتے پہلے ہی آج کی حکومت میں شامل کچھ جماعتیں سابق حکومت کی اتحادی تھیں، مفاہمت کے بادشاہ کہلائے جانے والے آصف علی زرداری نے اس سے قبل بھی پی پی پی اور ن لیگ کو اکٹھا کیا تھا اور 2008 میں بننے والی پی پی کی وفاقی حکومت میں ن لیگ بھی شامل تھی لیکن یہ لڑکپن کا عشق ثابت ہوا اور چند ماہ بعد ہی دونوں جماعتوں میں سیاسی طلاق ہوگئی جس کے بعد وہ ایک دوسرے کو چور لٹیرا کہنے کے ساتھ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کے بیانات دیتے رہے۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں تو شہباز شریف اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ کالا کوٹ پہن کر اپنی دانست میں پی پی پی حکومت ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ تک جاپہنچے تھے۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ سیاسی اتحاد کتنے عرصے تک قائم رہتا ہے۔

    اسی حکومت میں شامل ایم کیو ایم کا 34 سالہ پارلیمانی ماضی تو سب سے سامنے ہے جو 1988 سے لے کر اب تک کے عرصے میں‌ صرف 1993 سے 1996 تک حکومت سے باہر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ رہی ہے اور مشرف کے دور کی حکومت کو چھوڑ کر ہر حکومت کو خدا حافظ کہتی آئی ہے۔ رہی اے این پی، بی اے پی و دیگر جماعتیں تو پاکستانی سیاسی روایت کے مطابق جس کے جب تک مفادات ہوں گے وہ تب تک ہی ساتھ ہوگا۔

    شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اب وفاقی کابینہ کی تشکیل اہم مرحلہ ہے، جس کے لیے وزیراعظم کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں جاری ہیں، اطلاعات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن پی پی پی کو اسپیکر شپ اور وزارت خارجہ کی پیشکش کرچکی ہے، تاہم پی پی وفاقی وزارتیں لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ اس کی دلچسپی آئینی عہدوں میں ہے اور وہ صدر مملکت کے ساتھ اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے لینے کی خواہاں ہے۔

    ابتدائی اطلاعات کے مطابق کابینہ کی تشکیل کے لیے جو فارمولا طے کیا گیا ہے اس میں مسلم لیگ ن کے 12، پیپلز پارٹی کے 7 وزرا ہوں گے جب کہ جے یو آئی کے 4، ایم کیو ایم کے 2 ، بی این پی مینگل، اے این پی، جمہوری وطن پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کو ایک ایک وزارت دی جائے گی۔

    شہباز شریف نے پی پی پی، جے یو آئی (ف) کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی، بی اے پی و دیگر جماعتوں کی مدد سے وزارت عظمیٰ کا تاج تو سر پر سجا لیا ہے مگر یہ ساجھے کی ہانڈی ہے اور اس میں ابھی سے ابال آنا شروع ہو گیا ہے۔

    اس کی ابتدا تو وزیراعظم شہباز شریف کی اسمبلی میں تقریر کے بعد ہی ہوگئی جب ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر نے نومنتخب وزیراعظم کے خطاب میں متحدہ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کا ذکر نہ کرنے کا شکوہ کیا اور کہا کہ ایم کیو ایم کے اپوزیشن کا ساتھ دینے کے باعث ہی شہباز شریف کو وزیراعظم کا منصب ملا ہے۔ انہیں اپنے خطاب میں ایم کیو ایم سے ہونے والے معاہدے کا ذکر کرنا چاہیے تھا جس کے بعد اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد وزیراعظم نے اتحادیوں میں سب سے پہلے ایم کیو ایم سے ملاقات کی اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    میر تقی میر کی غزل کا ایک شعر ہے:

    ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
    آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

    تو ابھی ابتدائے عشق ہے، منزل دور اور راستہ کٹھن ہے۔

    روٹھنے، منانے کا رواج تو ہماری سیاسی ڈکشنری میں بہت ملے گا۔ مرحوم رحمٰن ملک اس حوالے سے کافی تجربہ کار تھے اور جب بھی اتحادی ادھر ادھر ہوتے تو یہ حرکت میں آجاتے اور انہیں کسی طرح رام کر لیا کرتے تھے۔ کیا شہباز شریف کے پاس کوئی مرحوم رحمٰن ملک جیسا باکمال ہوگا جو روٹھوں کو منانے کا تجربہ رکھتا ہو۔

    یہ کہنا تو قبل از وقت ہے کہ شہباز شریف نے جو دعوے اور وعدے کر کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے ان وعدوں کو وہ کیسے پورا کریں گے اور ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو کیسے خوش رکھیں گے لیکن عوام فکر مند ضرور ہیں کیونکہ وہ 70 سال سے اپنے حکمرانوں سے صرف دعوے، وعدے اور سابق حکمرانوں کی برائیاں ہی سنتے آرہے ہیں اور اگر اب بھی ایسا ہی ہوا تو انہیں بڑی مایوسی ہوگی۔ شہباز شریف جنہیں سیاست کے ساتھ انتظامی عہدے پر کام کرنے کا طویل تجربہ ہے اور پنجاب بالخصوص لاہور اس کی ایک روشن مثال بھی ہے تو عوام کی ان سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس تجربے کو بروئے کار لا کر ان کے دکھوں کا مداوا کریں۔

  • ایم کیو ایم کی پھر قلابازی، کیا حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

    ایم کیو ایم کی پھر قلابازی، کیا حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

    بالآخر وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔

    جب سے عدم اعتماد کی بازگشت شروع ہوئی، ہر روز آج نہیں کل اور کل نہیں پرسوں کہہ کر ٹالنے والی ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بحث سے ایک روز قبل حکومت کو الوداع کہنے اور اپوزیشن سے دوستی کا باضابطہ اعلان کر دیا۔

    گو کہ اس اعلان سے ایک دو روز قبل ہی ایم کیو ایم کی ہوائیں اپوزیشن رخ پر چلنا شروع ہوگئی تھیں جس کا عندیہ دونوں طرف کے لوگ دے رہے تھے، وفاقی وزیر امین الحق نے کہا تھا حکومت کا رہنا یا جانا ہمارے ہاتھ میں ہے جب کہ اپوزیشن کے بیانیے تو لڈی ڈالنے کے مترادف ہی تھے، تاہم اس حتمی اعلان کے ساتھ ہی حکومت کو دھچکا لگا۔ نمبر گیم کی بات کی جائے تو عدم اعتماد کی جیت میں تو اپوزیشن مطلوبہ نمبر گیم سے بھی آگے نکلتی نظر آرہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم نے بھی وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے جب کہ اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے قائد شہباز شریف بھی یہی بات کہتے نظر آتے۔

    ایم کیو ایم کا متحدہ اپوزیشن سے 27 نکات پر مبنی معاہدہ ہوا ہے جس میں شہری سندھ سے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم کا ان نکات پر مبنی پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا یہ ن لیگ سے پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا پی پی پی سے ایم کیو ایم کا پہلی بار معاہدہ ہے؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ایم کیو ایم ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے 1988 سے 2013 کے دوران تین تین بار معاہدے کرکے وفاق اور صوبائی حکومتوں میں شامل ہوتی رہی ہے اور تقریباْ ہر بار ہی کچھ وقت بعد اپنے کیمپ بدلتی رہی ہے۔
    17 اگست 1987 کو صدر جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو جب بہت طویل مارشل لا کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم کو پہلی بار پارلیمانی طاقت تسلیم کیا گیا۔ اور کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے قومی اسمبلی کی 13 اور سندھ اسمبلی کی 25 نشستیں جیت کر ملک کی ’تیسری بڑی سیاسی جماعت‘ بن کر اُبھری۔ ان انتخابات میں ملک بھر میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا اور یوں ایم کیو ایم بھی پہلی بار کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بنی۔

    ایم کیو ایم نے 1988 میں پی پی پی سے شہری سندھ کے مسائل پر مبنی مطالبات پر معاہدہ کیا لیکن صرف دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ حکومت ختم کردی گئی جب کہ اس دوران بھی ایم کیو ایم، پی پی پی کے رویے سے شاکی رہی اور پی پی پی پر معاہدوں سے انحراف کا الزام عائد کرتے ہوئے اس وقت کی اپوزیشن اسلامی جمہوری اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں 6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان کی جانب سے پی پی حکومت کو امن و امان کی خراب صورت حال اور دیگر الزامات پر برطرف کردیا گیا۔ قبل از وقت حکومت ختم کیے جانے کے نتیجے میں 24 اکتوبر 1990 کو پھر عام انتخابات ہوئے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بنی اور نواز شریف نے پہلی بار اسلام آباد میں اقتدار سنبھالا اور اسلامی جمہوری اتحاد تحلیل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کا وجود عمل میں آیا۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 15 اور سندھ اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں اور 1990 میں نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوگئی لیکن پھر 19 جون 1992 کو کراچی آپریشن کلین اپ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے نواز شریف کو الوداع کہہ دیا۔

    18 اپریل 1993 کو وزیراعظم سے اختلافات پر صدر غلام اسحٰق خان نے پھر 58 ٹو بی ترمیم کا حق استعمال کرتے ہوئے نواز حکومت سے جان چھڑائی۔ گو کہ 26 مئی 1993 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت بحال کر دیا لیکن مگر 18 جولائی 1993 کو صدر اسحٰق اور وزیراعظم شریف دونوں ہی کو مستعٰفی ہونا پڑا۔

    دو حکومتیں قبل از وقت ختم ہونے کے بعد ضیا دور کے بعد کی جمہوریت کے پانچویں سال میں 6 اکتوبر 1993 کو تیسرے عام انتخابات ہوئے لیکن ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کے باعث قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سندھ کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

    1988 سے تاحال یہ پہلا دور تھا جب ایم کیو ایم کسی وفاقی یا صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بنی۔ پی پی کے اس دور حکومت میں کراچی میں ماورائے عدالت اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کا سلسلہ اپنے عروج پر رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھائی اور ایم پی اے میر مرتضی بھٹّو 20 ستمبر 1996 کو پولیس سے ایک مدبھیڑ میں جان کی بازی ہار گئے۔ ان حالات میں خود پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ اور بینظیر کے قریبی ساتھی صدر فاروق احمد خان لغاری نے پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹّو کی حکومت کو لاقانونیت اور بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کر دیا اور قومی و صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔

    90 کی دہائی کے تیسرے عام انتخابات 3 فروری 1997 کو ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کیں جب کہ نواز شریف کی مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئی۔ 1997 میں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحادی بن کر نواز شریف کی حکومت میں شامل ہو گئی۔ لیاقت جتوئی ایم کیو ایم کی مدد سے سندھ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے تاہم یہ اتحاد صرف ڈیڑھ سال ہی قائم رہا اور 17 اکتوبر 1998 اس وقت کے گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا اور وزیراعظم کی جانب سے اپنی ہی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر اس قتل کا مبینہ الزام عائد کرنے پر ایم کیو ایم پھر حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔

    12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کے نواز شریف کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے 3 سال بعد 10 اکتوبر 2002 کو پھر انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 19 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس الیکشن کے نتیجے میں میر ظفر اللہ خان جمالی وزیر اعظم اور صوبہ سندھ میں پہلے علی محمد مہر اور پھر ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ بنے۔ ایم کیو ایم وفاق اور صوبے میں ایک بار پھر حکومت میں شامل ہوئی اور دسمبر 2007 تک حکومت کی مدت مکمل ہونے تک اقتدار میں شریک رہی۔

    18 فروری 2008 کے انتخابات ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ سندھ میں پی پی پی نے حکومت بنائی۔ اور پھر ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میں حکومت کا حصہ بنی لیکن 2013 کے عام انتخابات سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی پی پی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔

    11 مئی 2013 میں انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی کل 25 اور سندھ اسمبلی کی 51 نشستیں حاصل کیں۔ وفاق میں حکومت ن لیگ کی بنی لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور ایم کیو ایم اس وقت کارکنوں کے ریفرنڈم کے فیصلے پر صوبائی حکومت میں شامل نہیں ہوئی لیکن تقریباْ ایک سال بعد ہی نہ جانے کیا ہوا کہ مئی 2014 میں اچانک ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوگئی اور فقط ساڑھے چار ماہ ہی میں اس حکومت سے بھی نکل آئی۔

    25 جولائی 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی پہلی بار اتنی نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی کہ ق لیگ، بی اے پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنائی، ایم کیو ایم نے اس الیکشن میں پہلی بار ہزیمت اٹھائی اور صرف قومی اسمبلی کی 7 نشستیں ہی حاصل کرسکی۔ تاہم ایم کیو ایم اس حکومت میں ہنستے کھیلتے شامل ہوئی اور شکوے شکایات کرتے چار سال گزارے۔ اب یہ اتحاد تقریباً 4 سال بعد 30 مارچ 2022 کو ٹوٹ گیا ہے اور ایم کیو ایم ایک بار پھر آزمودہ سیاسی کیمپوں میں جانے کا اعلان کرچکی ہے۔

    اب جب کہ ایم کیو ایم کی یہ سیاسی شراکت بھی قبل از وقت ہی ختم ہوگئی ہے، ایم کیو ایم کے ووٹرز اور سپورٹرز سوشل میڈیا پر یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی ایم کیو ایم کے لیے اتنی قابل اعتماد ہوچکی ہیں کہ وہ کاغذی وعدوں اور عہد و پیماں پر اپنے پَر کھول کر ان کی جانب اڑان بھر چکی ہے۔ کیا اس سے شہری سندھ اور ایم کیو ایم کے ووٹرز کو کچھ فائدہ ہو گا اور کراچی کے دیرینہ مسائل حل ہوسکیں گے؟ ووٹروں اور سپورٹروں کی جانب سے یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ کیا یہ واقعی ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلہ ہے یا پھر اس میں ذاتی مفادات شامل ہیں؟

    ایم کیو ایم کے اس فیصلے کے ثمرات اور مضمرات کا تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا لیکن وفاق سے خبریں ہیں کہ وزیراعظم نے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ آخری وقت تک لڑوں گا۔

    اسی سیاسی ہنگامے میں دھمکی آمیز خط کا بھی خوب چرچا ہورہا ہے۔ اب فیصلے کے چند دن رہ گئے ہیں۔ شکست کس کی اور جیت کس کی، جلد پتہ چل جائے گا۔

  • وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ’’ٹائمنگ‘‘

    یہ درست ہے کہ کسی بھی ملک میں مضبوط جمہوریت کے لیے مستعد اور فعال اپوزیشن ضروری ہوتی ہے جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے اس پر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کے لیے دباؤ ڈالتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپوزیشن اور حکومت کا کردار کبھی دو انتہاؤں پر ہوتا ہے تو کبھی ایسا کہ لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کسی اپوزیشن کا وجود ہے۔ یہاں 90 کی دہائی اگر سیاسی رسہ کشی میں گزری تو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ اپوزیشن کے بارے میں یہی تاثر قائم رہا کہ یہ فرینڈلی اپوزیشن ہے اور اس تاثر کو خود اپوزیشن نے اپنے اقدامات سے تقویت دی۔

    پاکستان میں‌ اپوزیشن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاص وقت پر اشارہ پاتے ہی سڑکوں پر نکل آتی ہے اور حکومت کے خلاف اپنے احتجاج کو عوام کے مسائل اور ان کی مشکلات سے جوڑتی ہے۔

    ہمارے بلاگ کے عنوان سے واضح ہے ہم اپوزیشن کی جانب سے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے نتائج پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ اور ان حالات پر بات کریں گے جن میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے پر اتفاق کیا۔

    گزشتہ سال اپریل میں جب حکومت مخالف اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تو حکومتی حلقوں نے سکون کا سانس لیا تھا وجہ صاف تھی کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے کا اعلان کیا تھا اور اپنی سرگرمیوں کے آغاز کے ساتھ کئی بڑے جلسے بھی کیے تھے جس نے حکم راں جماعت کو دباؤ میں‌ لے لیا تھا، لیکن جب ذاتی مفاد کے لیے ایک بڑی ملکی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دوسری بڑی پارٹی ن لیگ کو بائی پاس کر کے یوسف رضا گیلانی کو حکومت کی مدد سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بنوایا تو گویا پی ڈی ایم میں انتشار پیدا ہوگیا جس کے نتیجے میں پی پی پی اور اے این پی کو اس اتحاد سے نکلنا پڑا اور پی ڈی ایم عملاً ٹوٹ گئی۔ کیوں کہ پی ڈی ایم بنانے کے فیصلے میں بھی پی پی پی پیش پیش تھی اور 20 ستمبر 2020 کو بلاول بھٹو کی میزبانی میں ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں اس کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

    بہرحال پی پی پی کے اس اتحاد سے علیحدہ ہونے کے بعد پی ڈی ایم میں شریک تمام جماعتیں جو پہلے حکومت کے خلاف صف آرا تھیں، ایسا لگنے لگا کہ ان کا ہدف اب حکومت نہیں رہی، خاص طور پر ن لیگ اور پی پی پی نے تو ایک دوسرے کو نشانے پر رکھ لیا اور وہ گولہ باری ہوئی کہ حکومتی ایوانوں میں تو شادیانے بج گئے۔ اس دوران کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے پی پی اور ن لیگ قیادت کے ساتھ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی حکومت کے خلاف بیانات داغ دیتے لیکن مجموعی طور پر اپوزیشن آپس ہی میں گتھم گتھا نظر آئی جس کا حکومتی جماعت نے کئی بار فائدہ بھی اٹھایا۔

    قصہ مختصر اپریل میں پی ڈی ایم ٹوٹنے کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی ختم ہوگئی اور ملکی فضا میں جو سیاسی ہلچل پیدا ہوئی تھی وہ صرف اپوزیشن کیمپ تک ہی محدود رہی۔

    اپوزیشن کی باہمی ’’تُو تُو مَیں میں‘‘ جاری تھی کہ اسی دوران 16 ستمبر 2021 کو عمران خان اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ملاقات ہوتی ہے۔ روسی صدر کی طرف سے دعوت کو عمران خان قبول کر لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دورہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے بہت اہم ہے۔ وزیرِاعظم کسی بھی صورت اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ہیں۔ یہ تاریخی دورہ فروری 2022 کے اواخر میں طے پاتا ہے اور دونوں طرف گرم جوشی نظر آتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے دورے کا وقت قریب آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ ملکی سیاست میں اچانک بھونچال آگیا ہے، ایک دوسرے کی مخالفت میں‌ آگے سے آگے بڑھ جانے والی پارٹیاں توقع کے بَرخلاف ایک دوسرے کے لیے محبت سے بانہیں پھیلا لیتی ہیں اور ایک دوسرے کے ہاں سیاسی آنیاں جانیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی ماحول میں پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیتے ہیں اور اس کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بھرپور رابطوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

    بلاول بھٹو کے اس اعلان کے بعد پی پی پی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری جو کہ کافی عرصہ سے صاحب فراش ہونے کے ساتھ سیاسی منظر نامے سے بھی غائب ہیں اچانک تندرست ہوکر سیاسی میدان میں ظاہر ہوتے ہیں اور اپنے مفاہمتی بلے سے ایک اور اننگ کھیلنے کا آغاز کرتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز لمحہ وہ ہوتا ہے کہ جس بات پر پی ڈی ایم میں پہلی دراڑ پڑی تھی یعنی گزشتہ سال پی پی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کی تجویز کو ن لیگ نے سختی سے رد کردیا تھا اب چند ملاقاتوں کے بعد ن لیگ پی پی کے اس فارمولے پر من وعن راضی ہوجاتی ہے اور پہلے اس تجویز کے شدید مخالف نواز شریف اس کی منظوری بھی دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ تماشا پوری قوم گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے دیکھ رہی ہے۔

    متحدہ اپوزیشن کے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد حکومت پر دباؤ بڑھتا ہے اور عین دورہ روس سے چند روز قبل یہ سرگرمیاں اتنی عروج پر پہنچتی ہیں کہ عوام بھی حیران رہ جاتے ہیں کہ ایسا کیا ہوگیا کہ چند ماہ قبل ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے اب ایک دوسرے کے دست و بازو بن رہے ہیں۔ وہ تماشا لگتا ہے کہ کبھی اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کے دورہ روس کے دوران تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی بات کی جاتی ہے تو مارچ کے آخری ہفتے میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا اعلان ہوتا ہے۔ یہاں بتاتے چلیں کہ 22 اور 23 مارچ تک اسلام آباد میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہونا ہے۔

    اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف اپنی تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نمبرز پورے ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بہرحال عمران خان دورہ روس مکمل کرکے آجاتے ہیں اس کے بعد تو گویا سیاسی پیالی میں وہ طوفان برپا ہونا شروع ہوتا ہے کہ عوام کو لگتا ہے کہ حکومت تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اب گئی کہ تب گئی۔ اس بلاگ کی اشاعت تک اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراچکی ہیں اور اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ 25 مارچ ویسے ہی عمران خان کے لیے تاریخی دن ہے کہ 30 سال قبل اسی روز پاکستان کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بنا تھا اور اس وقت کے کپتان عمران خان نے عالمی کرکٹ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھی۔ اس بار 25 مارچ کو عمران خان کے ہاتھوں میں کیا آتا ہے یہ تو آنے والا 25 مارچ ہی بتائے گا۔

    جیسا کہ ہم نے بلاگ کے آغاز میں تحریک عدم اعتماد کی ٹائمنگ پر بات کی تھی تو ذہن کے دریچے کھولنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق کھنگالنے پڑیں گے۔

    قیام پاکستان کے تقریباً پونے دو سال بعد 8 جون 1949 کو ایران میں پاکستانی اور روسی سفارتکاروں کے ذریعے پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان کو روسی صدر جوزف اسٹالن کی جانب سے دورہ روس کی دعوت دی جاتی ہے جس کے بعد سفارتی ایوانوں میں جیسے بھونچال آجاتا ہے۔

    اس حوالے سے عائشہ جلال اپنی کتاب ”پاکستان اسٹیٹ آف مارشل رول” میں لکھتی ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ مضبوط لابی جس کی قیادت وزیر خزانہ غلام محمد کر رہے تھے وزیراعظم کو دورہ ماسکو سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی۔ وزیر خزانہ نے وزیر اعظم کو یہ دھمکی بھی دی کہ حکومت کرو یا گھر جاؤ۔ اسی طرح ایک اور مصنف اختر بلوچ نے اس سلسلے میں ایک غیرمعمولی انکشاف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر لارڈ گریفٹی سمتھ نے پاکستانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو دھمکی دی تھی کہ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اگر ماسکو گئے تو پاکستان برطانیہ اور امریکا سے دشمنی کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

    اسی انداز فکر کی تائید ایک ممتاز اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کی اس خبر سے بھی ہوتی ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس کی خبر شہ سرخی میں شائع ہوئی اور خبر میں بتایا گیا کہ پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان دولت مشترکہ ممالک میں سے روس کا دورہ کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہوں گے لیکن فیوڈلز پہ مشتمل امریکی نواز وزرا ڈر گئے اور دورہ کینسل ہو گیا۔ دورے کی تنسیخ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فیصلہ کن موڑ تھا۔

    پاکستانی خارجہ پالیسی پر ابتدائی کتابوں میں سے ایک ’’پاکستانز فارن پالیسی‘‘ کے مصنف مشتاق احمد لکھتے ہیں وزیراعظم کا ماسکو نہ جانا ایک بھیانک غلطی تھی کیونکہ اس دورے کے ذریعے پاکستان کو نہ صرف ایک متوازن خارجہ پالیسی پر کاربند ہونے کا موقع ملتا بلکہ عالمی قوتوں کی طرف سے پذیرائی اور حمایت بھی ملتی۔

    دونوں ادوار میں دورۂ روس کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہم نے قارئین کے سامنے رکھ دی ہے۔ آپ اس کا موازنہ کرتے ہوئے سوچیے کہ جو کچھ آج کل وطن عزیز پاکستان میں ہورہا ہے کہیں یہ سب کسی کے اشارے پر تو نہیں‌ ہو رہا؟؟؟

  • سیاسی پنچھیوں کی پرانے آشیانوں کی طرف اڑان!

    سیاسی پنچھیوں کی پرانے آشیانوں کی طرف اڑان!

    نظامِ قدرت ہے یا پرندوں کی فطرت کہ صبح ہوتے ہی رزق کی تلاش میں اپنے گھونسلے چھوڑ دیتے ہیں۔ اس دوران یہ پنچھی کبھی اس ڈالی تو کبھی اُس ڈالی چہچہاتے پھرتے ہیں لیکن جیسے ہی شام ڈھلنے لگتی ہے تو اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب اڑان بھر لیتے ہیں۔
    کچھ ایسا ہی آج کل ملکِ خداداد پاکستان کی سیاست میں ہورہا ہے۔ گو کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، لیکن اکیسویں صدی میں جوان ہونے والی نسل کے لیے یہ ضرور نیا کھیل ہے جسے وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

    پاکستان کے سیاسی افق پر شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے ہیں اور جیسے جیسے یہ سائے بڑھ رہے ہیں پنچھیوں نے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ ملک میں ایک طرف تو اپوزیشن نے سیاسی ماحول گرم کر رکھا ہے، اور دوسری جانب حکومتی صفوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوچکی ہیں۔

    وفاقی دارُالحکومت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ہر کوئی ہر پل کسی نئی خبر کی امید لگائے بیٹھا ہے۔

    بلاول نےعوامی لانگ مارچ کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑا تو سیاسی ہوائیں تیز تر ہوگئیں گو کہ پی ڈی ایم نامی اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد گزشتہ دو سال سے حکومت کے خلاف متحرک رہا، لیکن کس طرح، اس سے سب اچھی طرح واقف ہیں۔

    اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک میں تیزی اس وقت آئی جب پی پی کی تحریکِ عدم اعتماد کی تجویز پر ن لیگ کے سربراہ نواز شریف نے ہامی بھری۔ گو کہ شہباز پہلے ہی اس فارمولے سے راضی تھے لیکن بڑے بھائی کی رضامندی نے گھڑی کی سوئی کو روکا ہوا تھا، لیکن گرین سگنل ملتے ہی اپوزیشن کے دَم میں دَم آیا۔ اور اب متحدہ اپوزیشن پارلیمنٹ میں تحریکِ عدم اعتماد بھی جمع کراچکی ہے جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ہی اپنے پَر پھیلانا شروع کر دیے ہیں۔ اس تحریکِ عدم اعتماد پر ہزیمت کون اٹھاتا ہے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن کہا جارہا ہے کہ شیروانیاں سلوانے کی تیاریاں بھی شروع کر دی گئی ہیں۔

    سیاست امکانات کا نام ہے جس میں بات چیت کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا جاتا۔ ملک ان دنوں جس سیاسی صورت حال سے دوچار ہے اور جس طرح سیاست دانوں کی ایک دوسرے کے ہاں آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں، کچھ بعید نہیں کہ آنے والے چند روز اس حوالے سے دھماکا خیز ثابت ہوں اور آج کے اتحادی کل کے مخالف بن جائیں۔

    پنچھیوں کی اڑان میں یہاں سب سے پہلے بات کریں اب سے کچھ وقت پہلے تک وزیراعظم عمران خان کے ترجمان ندیم افضل چن کی۔ چند ماہ قبل تک وہ وزیراعظم کے ترجمان اور رفیقِ خاص تھے۔ ہر دوسرے دن کسی ٹی وی شو میں وزیراعظم اور حکومت کا دفاع کرتے نظر آتے تھے لیکن پھر کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے پرانے سیاسی آشیانے کی جانب اڑان بھرنے کے لیے پہلے تو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا، پھر بلاول بھٹو کی لاہور آمد پر دوبارہ پی پی پی میں شمولیت کا اعلان یہ کہہ کر کیا کہ وہ پہلے پی ٹی آئی کو عوامی جماعت سمجھتے تھے۔

    بلاول نے بھی ندیم افضل کو یہ کہہ کر خوش آمدید کہا کہ پیپلز پارٹی تو آپ کا پرانا گھر ہے، ندیم افضل چن جو پی ٹی آئی میں آنے سے قبل پی پی پنجاب کے سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز تھے، نے 19 اپریل 2018 میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔ تقریباْ چار سال بعد وہ پی ٹی آئی کی شاخ سے اڑ کر پرانے گھونسلے میں جا بیٹھے ہیں۔

    ان کی پی ٹی آئی میں آمد اور روانگی کا وقت دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ان کی آنکھیں 2018 میں چڑھتے سورج کی چکا چوند سے خیرہ ہوگئی تھیں اور 2022 میں بظاہر ڈوبتے سورج نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں۔

    پی ٹی آئی کے اب تک بلوچستان کے صدر سردار یار محمد رند جو اپنی پارٹی سے ناراض ہیں، نے رواں ماہ کے آغاز میں بلوچستان کی وزارتِ تعلیم سے استعفیٰ دیا اور پھر ان کی سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران یار محمد رند سابق صدر آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کرچکے ہیں اور دونوں ملاقاتوں میں ہی تحریک عدم اعتماد پر گفتگو کی گئی ہے لیکن ان کا اب تک تو یہی کہنا ہے کہ عدم اعتماد پر ووٹ دینے کا فیصلہ وقت آنے پر کریں گے۔

    یہاں اگر کراچی سے منتخب پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی عامر لیاقت حسین کا ذکر نہ کیا جائے تو کہانی ادھوری رہے گی کہ انہوں نے بھی حال ہی میں بانی ایم کیو ایم کو برطانوی کیس سے بریت پر نہ صرف مبارکباد دی بلکہ ایک تقریب میں انتہائی ڈھٹائی سے کہہ بھی دیا کہ عمران خان میری پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن میرے اصل قائد تو بانیٔ متحدہ ہی ہیں۔ ان کا یہ بیان ان کی اگلی منزل کا صاف پتہ دے رہا ہے۔

    صرف یہی نہیں بلکہ فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے 8 اراکین قومی اسمبلی نے بھی ن لیگ کے گھونسلے میں اڑان بھرنے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سے بغاوت کرنے والوں میں نصر اللہ گھمن، عاصم نذیر، نواب شیر وسان، راجا ریاض، ریاض فتیانہ، خرم شہزاد، غلام بی بی بھروانہ اور غلام محمد لالی شامل ہیں۔ گو کہ ان میں سے کئی نے اس خبر کی تردید کی ہے لیکن معاملہ وہی ہے کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔‘‘

    حکومتی پارٹی میں بغاوت میں سب سے بڑا معاملہ جہانگیر ترین گروپ کا ہے جو پہلے ہی دو درجن سے زائد اراکین قومی وصوبائی اسمبلی پر مشتمل ہے لیکن اس کو مزید تقویت گزشتہ دنوں عمران خان کے ایک اور قریبی ساتھی علیم خان نے ترین گروپ میں شمولیت اختیار کر کے دے دی ہے۔ اس گروپ کے اراکین مسلسل اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں میں ہیں جب کہ گروپ سربراہ جہانگیر ترین اور علیم خان لندن میں ہیں، جن کی تحریک عدم اعتماد سے قبل آمد متوقع ہے۔ اطلاعات کے مطابق علیم خان نے لندن میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے ’’چوری چھپے‘‘ ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کو چوری چھپے اس لیے کہا گیا ہے کیوں‌ کہ علیم خان کو نواز شریف کی رہائش گاہ میں عقبی دروازے سے لے جایا گیا۔ اس اہم ملاقات سمیت ملک میں ہونے والی ملاقاتوں کی تصدیق بھی ن لیگ کے ایک راہ نما کرچکے ہیں۔

    اس تمام تر صورت حال کے باوجود وزیراعظم عمران خان کا لب و لہجہ مسلسل اپوزیشن کے لیے سخت ہے اور ان کی زبان انگارے برسا رہی ہے۔ انہوں نے متحدہ اپوزیشن کو تین چوہوں سے تشبیہ دی ہے۔ اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کو ہی پتہ ہے کہ عمران خان کی نظر میں یہ تین چوہے کون ہیں جس سے لگتا ہے کہ عمران خان تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے حوالے سے پرامید ہیں۔ کیونکہ کئی اپوزیشن اراکین کی بھی حکومت سے آن ملنے کی اطلاعات ہیں۔ اور ان کے وزرا بھی جوش و خروش سے مسلسل یہ بیان دے رہے ہیں کہ اپوزیشن کے سارے دعوے ڈرامے ہیں۔ ان کے پاس عدم اعتماد کے لیے نمبر گیم پورے نہیں ہیں اور ہم انہیں آخر وقت میں سرپرائز دیں گے۔

    موجودہ حالات میں حکومت کے لیے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے تو وہ اپوزیشن نہیں بلکہ ناراض پی ٹی آئی اراکین کے ساتھ حکومتی اتحادی جماعتیں جن میں ق لیگ، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت سے وزیراعظم گزشتہ چند دنوں میں ملاقاتیں کرچکے ہیں لیکن کہا جارہا ہے کہ اتحادیوں نے انہیں کوئی مثبت جواب نہیں دیا ہے جو حکومت پر لٹکتی تلوار کے مترادف ہے۔

    مذکورہ جماعتوں کی اپوزیشن راہ نماؤں شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان ملاقاتوں کے بعد ان اتحادی جماعتوں کا رویہ کچھ کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہورہا ہے۔ بالخصوص ق لیگ اور ایم کیو ایم نے اس حوالے سے پارٹی میں مشاورت شروع کردی ہے کہ مزید حکومت میں رہا جائے یا نہیں یا عدم اعتماد میں کس کا ساتھ دیا جائے۔

    تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد اپوزیشن کی سرگرمیاں مزید تیز ہوگئی ہیں، پی پی کا عوامی مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے، گزشتہ روز جے یو آئی کی ذیلی تنظیم حرکت الانصار کے رضاکار پارلیمنٹ لاجز میں داخل ہوگئے تھے جن کے خلاف وفاقی پولیس کو آپریشن کرنا پڑا تھا اور فضل الرحمٰن نے پہلے خود گرفتاری دینے کا اعلان پھر اپنے کارکنوں کو ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے شاہراہیں بند کرنے حکم دیا تھا جس سے فضل الرحمٰن کے جارحانہ رویے کا اظہار ہوتا ہے لیکن ایسے وقت میں جب 22 مارچ کو اسلام آباد میں او آئی سی کا اجلاس ہونا ہے، اپوزیشن اور حکومت کے درمیان یہ کھینچا تانی کسی ایسے ناخوش گوار واقعے کا سبب بھی بن سکتی ہیں جس پر کل کا مؤرخ آج کے سیاستدان چاہے وہ حکومتی ہوں یا اپوزیشن سے ان کا تعلق ہو، انہی کو موردِ الزام ٹھہرائے گا۔

    ملکی حالات یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر کچھ لو، کچھ دو کی بنیاد پر معاملے حل نکالیں، اس سے قبل کہ دیر ہوجائے یا کہنا پڑے، ’’اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘

  • سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی آج 64 ویں برسی ہے، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اورنمایاں مقام رکھتے ہیں۔

    ‎اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے باک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی 1912ء کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کے مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض 43 سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎منٹو کا قلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت ورسوائی سے بھی دوچارکیا۔

    معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    سعادت حسن منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمرکے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔