Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    سال 2018 کی اہم کتابیں اور چند سوالات

    تحریر و تجزیہ: سیمیں کرن

    ایک ایسے وقت میں، جب یہ شوروغوغا ہے کہ ادب پھل پھول نہیں رہا، کتاب کلچر کو انٹر نیٹ نگل لیا ہے، دنیا ایک بالکل نئی کروٹ لے چکی، وہاں موجودہ اردو ادب کو پرکھنے اور اُس پر بات کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

    کیا اُردو ادب تخلیق نہیں ہو رہا؟ ایسا ادب جو بین الاقوامی معیارات کا مقابلہ کر سکے، کیا کتاب کلچر ہمارے بیچ سے غائب ہو چکا ہے؟ کیا کتاب کی جگہ واقعی نیٹ اور سوشل میڈیا لے چکا ہے؟

    اِن سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ناگزیر اِس لیے بھی ہو جاتا ہے کہ نئی صدی کی دوسری دہائی اختتام پذیر ہے اور گذشتہ بیس تیس برس ایک مکمل بدلے اورنئے سماج کے دعوے دار ہیں، جہاں سیاست ہماری جذباتی دنیا میں بری طرح داخل ہو چکی ہے، عام شخص کا سیاسی شعور مزید بالغ ہو چکا ہے۔

    [bs-quote quote=”قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اُردو زبان کا شمار برصغیر کی اہم زبانوں میں ہوتا ہے، ایک ایسی زبان جسے پڑھنے اور بولنے والے دُنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں، جو پاکستان کی قومی زبان ہے، یہ ہندوستان میں ایک بڑی آبادی میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، ہندوستان اُردو ادب میں مسلسل حصہ بھی ڈالا جا رہا ہے، لیکن اِس کے باوجود اُردو ادب زوال پذیر ہے کا سلوگن کیوں گردش عام ہے؟

    اِن حالات میں اس سوال کے معنی خیزی نہ صرف ادب کے لکھاری کے لیے بڑھ جاتی ہے بلکہ قاری بھی اس سوال کوپوچھنے میں حق بجانب ہے، اس خطے کا سماج ایک گھٹن، انتشار اور شدت پسندانہ رویوں کا ثمرکاٹ رہا ہے، پاکستان میں غیر مستحکم جمہوری اقدار اور ہندوستان میں شدت پسند ہندو سیاست، جو اُردو کو ایک اقلیت کی زبان بنانے کے درپے ہے، یہ وہ مسائل، چیلنجز اور سوال ہیں جو اُردو ادیب کو درپیش ہیں اور جن کو جواب ڈھونڈنے میں شاید اس کا حل بھی پنہاں ہے۔

    یہ سوال اہم ہے کہ کیا آج کا ادیب موجودہ سوالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے تیار ہے؟ اگر ہمارے پاس اِس سوال کا کوئی واضح جواب ہے ،تو یقیناً ہم باقی سوالوں اور  مسائل کی جانب مثبت پیش رفت کے قابل ہوں گے۔

    یہ سوال اپنی جگہ ہیں، مگر کتابوں کی اشاعت، اُس کاتذکرہ ناگزیر ہی نہیں، بلکہ خوش آئند بھی ہے اور اِس دعوے کی نفی بھی کہ ادب زوال پذیر ہے اور ناپید ہو رہا ہے۔

    فکشن کے میدان میں قابل ذکر کتب

    سال 2018 میں سامنے آنے والی کتب و جرائد کا جائزہ لیا جائے، تو ہمارے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے، صورت حال یقینا خوش آئند اور اُمید افزا ہے۔ قرة العین حیدر کہتی ہیں: ”پتھر وقت کی منجمد صورت ہیں۔“ اور اگر یہی بات کسی اچھی کتاب کے بارے میں کہی جائے تو کچھ ایسا غلط نہیں۔ اِس سال ایسا بہت کام ہوا جو نہ صرف قابلِ ذکر ہے، بلکہ اُردو ادب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھا جائے گا۔

    سب سے پہلا تذکرہ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ”منطق الطیر ، جدید “کا ہے۔ تارڑ صاحب کے ناول کے کچھ اِختصاصات ہیں، جن میں پرندے سرفہرست ہیں۔ فریدالدین عطا رکے یہ پرندے مستنصر حسین تارڑ کی باطنی دنیا میں ہی نہیں پھڑپھڑاتے، بلکہ یہ پرندے ان کی ادبی کائنات میں بھی پرواز کرتے ملتے ہیں۔ یہ پرندے ” خس و خاشاک زمانے میں “ بھی منسوب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تارڑ کے ساتھ ساتھ محوِپرواز رہتے ہیں۔ ایسا ناول لکھنے کی ہمت مستنصر حسین تارڑ جیسا کہنا مشق ادیب ہی کر سکتا تھا۔ جس کے ساتھ مطالعہ کی کثرت ہم رکاب ہے وہ چاہے سفر کی صورت ہو یا کتاب کی۔ تارڑ ہر صورت مطالعہ کے خوگر ہیں اور یہی اُس کی تحریر کو ایک لازوال چاشنی عطا کرتی ہے۔ اُنھوں نے ان گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب کو بلا مبالغہ ایسے بڑے ناولز سے نوازا، جس کو اہم عالمی ادب کے سامنے فخر سے رکھ سکتے ہیں۔

    خالد فتح محمد بھی اُن ناموں میں شامل ہیں جنھوں نے اُردو ادب میں معتبر اضافہ کیا ہے۔ اُن کا اسلوب سادہ و دل نشین ہے، بغیر کسی اُلجھا وے کے وہ اپنی بات و سوچ قاری تک پہنچا دیتے ہیں۔ ”شہر مدفون“ اور ” خلیج “کے بعد اُن کا تازہ ناول ”سانپ سے زیادہ سراب “ سامنے آیا ہے۔

    محمد الیاس بھی اُن معتبر ناموں میں شامل ہیں، جنھوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ متعدد افسانوی مجموعے اور ناول اُن کے کریڈٹ پر ہیں۔ کہر، برف، بارش، پروا اور دھوپ جیسے بڑے ناول وہ اردو اَدب کو دے چکے ہیں اور امسال اُن کا ناول ” عقوبت“ اُمید ہے کہ اشاعت ہو کر سامنے آ جائے گا۔

    اختر رضا سلیمی بھی ایک اہم ناول نگار کی صورت اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ برس اُن کے پہلے ناول ”جاگے ہیں خواب میں“ کا تیسراایڈیشن شائع ہوا، جب کہ دوسرا ناول ”جندر“ بھی سامنے آیا، اس سال اِن کے دو ناولوں کا خوب تذکرہ رہا۔ ہزارہ کے پس منظر میں لکھے گئے یہ دونوں ناولز یقیناً ایک گراں قدر اضافہ ہیں۔

    سید کاشف رضا کا ناول ”چاردرویش اور کچھوا“ اِس برس کا ایک اہم اور عمدہ ناول ہے۔ ناول، آغاز میں دیے ژاں بودریلارد کے اِس بیان کی بہترین مثال ہے کہ آج کا فن حقیقت میں مکمل طور پر گھس گھسا چکا ہے اور دوسرے باب کے آغاز میں ژاں بودریلارد کا کہنا ہے کہ اول تو یوں کہ فن بنیادی حقیقت کا عکس ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے یہ گمان ہوتا ہے کہ اِس کا بیانیہ حقیقت میں گھس گھسا چکا ہے یا کسی حقیقت کا عکس ہے۔ پاکستان کا سیاست کا ایک باب بے نظیر کی شہادت اور طالبان کی کاشت کاری ایسے موضوعات کی عکس بنیادی مصنف کچھ ایسے کی ہے کہ گویا کوئی قلم سامنے چل رہی ہے، جس میں مصنف خود کسی کچھوے کے خول میں جا چھپا ہے۔

    [bs-quote quote=”تمام تر مسائل کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    آمنہ مفتی کا ناول ”پانی مر رہا ہے“ بھی قابلِ تذکرہ ہے، وہ ایک عمدہ لکھاری اور ڈرامہ رائٹر ہے، فارس مغل بھی ایک تیز رفتار لکھاری ہیں اور یکے بعد دیگرے اُن کے دو ناول سامنے آئے ہیں۔ ”ہم جان“ اُن کا پہلا ناول تھا اور اِس برس اُن کا ناول ”سوسال وفا“ سامنے آیا ہے، جس میں ایک حساس اور سنجیدہ موضوع کو ایک محبت کی کہانی کی صورت میں پیش کیا ہے۔

    مشرف عالم ذوقی افسانے اور ناول کی دنیا کاوہ اہم نام ہے، جو اب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، گذشتہ دودہائیوں میں وہ سلگتے مسائل اور عالمی و سماجی بدلاؤ کو اپنے ناولز کا موضوع بناتے رہے ہیں، اِس برس اُن کی ایک ہی تسلسل میں پانچ طویل کہانیاں، ہندوستان کے سیاسی پس منظر اور گھٹن کی بہترین عکاس رہیں۔

    ڈاکٹر ناصر عباس منیر جو ایک معتبر ادبی نقاد ہیں کا افسانوی مجموعہ ”راکھ سے لکھی گی کتاب “ قابلِ ذکر اضافہ ہے، سید ماجدشاہ کے افسانوی مجموعے ”ق“ کے بعد”ر“ ان کا دوسرا مجموعہ ہے۔ جو اُن کے مختصر افسانوں و افسانچوں پہ مشتمل ہے۔

    امین ھایانی کایہ دوسرا افسانوی مجموعہ ”بے چین شہر کی ُپرسکون لڑکی“ سامنے آیا ہے۔ محترم حمید شاہد کے رائے فلیپ پر شامل ہے۔ امین ھایانی کے افسانوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک دردمند اور حساس لکھاری ہیں۔

    سبین علی نوجون لکھاریوں میں ایک عمدہ اضافہ اور اہم نام ہیں مختلف اور اہم موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں۔ صاحبِ مطالعہ اور عمدہ تنقیدی فکر رکھتی ہیں۔

    جواد حسنین بشر جواد جو ابن مسافر کے قلمی نام سے لکھتے ہیں، ان  کے یکے بعد دیگرے دو افسانوی مجموعے آئے ہیں۔ پہلا مجموعہ ”سفرناتمام “تھا اور اِس برس دوسرا مجموعہ ”ہاتھ ملاتا دریا اور مقدس بیٹی“ منظرعام پر آیا ۔ جواد ایک جرات آمیز افسانہ نگار ہیں اور نئے موضوعات پہ لکھنے کے خوگر روایتی موضوعات کے علاوہ جدید موضوعات و مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ 

    ایک نظر شعری مجموعوں‌ پر

    شعری دنیا پہ نظر ڈالیں تو کئی مجموعے منظرعام پر آئے، امجد اسلام امجد جیسے سینئر شاعر کی کتاب امجد فہمی حال ہی میں شایع ہوئی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا نیا شعری مجموعہ انتشار آیا، نصیر احمد ناصر کے کلیات کے علاوہ ملبے میں ملی چیزیں کا نیا ایڈیشن سامنے آیا۔ نئی نسل و نئے شعرا بڑی تعداد میں سامنے آ رہے ہیں، ڈاکٹر جواز جعفر کی نظموں کا مجموعہ ”متبادل دنیا کاخواب“ قابلِ ذکر ہے۔

    شہزاد نیر جو ایک اہم اور کہنہ مشق شاعر ہیں، اُن کا شعری مجموعہ خواہشار بھی قابلِ ذکر ہے۔ ارشد معراج کی نظموں کا مجموعہ ”دوستوں کے درمیاں“ قابلِ ذکر ہے۔ حفیظ تبسم کا نظموں کا مجموعہ ”دشمنوں کے لےے نظمیں“اِک نئے ذائقے کا آہنگ ہے۔

    ظہور چوہان جن کے تین مجموعے اِس سے پہلے آ چکے، اُن کا شعری مجموعہ ”رودنی دونوں طرف“ اِس برس منظرعام پر آیا۔ شوزیب کاشر،اک جواں سالہ خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر ہیں اور شعری دنیا میں عمدہ اضافہ ہیں۔ اُن کا شعری مجموعہ ”خمیازہ“ اِس برس شایع ہوا۔

    ثمینہ تبسم ایک منجھی ہوئی شاعرہ ہیں، چار کتب پہلے منظر عام پر آ چکیں، اِس برس اُن کی کتاب ”سربلندی تیری عنایت ہے اشاعت پذیر ہوئی ہے، ناز بٹ کی نظموں و غزلوں کا پہلا مجموعہ ”وارفتگی“ منظرعام پر آیا ہے.

    شعر و ادب کی تخلیقی کتب کے علاوہ کچھ اور اہم قابلِ ذکر کتابیں ہیں، جن کا ذکر ہونا چاہیے۔

    جبار مرزا ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں ہیں،اُن کی کتاب ”نشانِ اِمتیاز“ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سے متعلق چار عشروں کی یادداشتوں پر مشتمل ہے، جمیل احمد عدیل کے فن پر شایع ہونے والی کتاب ”صاحبِ اسلوب“ کے نام سے اُن کے ادبی محاسن کا احاطہ کیا گیا ہے، یاسرجواد جو کہ ایک معروف مترجم و محقق ہیں، اِس برس اُن کی سرائیکی ویب کی تاریخ، نوبیل اِنعام یافتہ ادیبوں کے خطبات، پنجاب میں دیسی تعلیم (سرلائنز)، ضرب الامثال اور محاورے (فرہنگِ آصفیہ سے ماخوذ) منظرعام پر آئیں۔

    ”فکشن، کلامیہ اور ثقافتی مکانیت“ فرخ ندیم کی کاوش ہے جو نئے تنقیدی فریم میں ادب کو دیکھنے کی کاوش ہے۔

    حرف آخر

    جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، جہاں اِسے کتاب کلچر کو نگلنے کا ملزم ٹھہرایا جا رہا ہے، وہیں اسی سوشل میڈیا کے مختلف فورمز اردو ادب کے فروغ کے لئے اپنا سود مند حصہ ڈال رہے ہیں، یہ اردو ادب کی نئی بستیاں ہیں، جہاں نیا لکھاری بھی پیدا ہوا رہا ہے اور قارئین بھی ۔ ہاں، لکھاری کنفیوز ہے کہ نہیں جانتا کہ اسے کیا لکھنا ہے، کہاں لکھنا ہے اور کہاں چھپنا ہے مگر اس کے سامنے امکانات کی وسیع تردنیا ہے۔

    اِس منظر نامے پہ نگاہ دوڑائیں تو ایک اور دروزہ کھلتا ہے۔ اِک اور منظرنگاہوں کے سامنے ہے وہ یہ کہ تمام تر مسائل اور  کے باوجود ادب تخلیق ہو رہا ہے اور کتابیں سامنے آ رہی ہیں، ہاں اِک گھٹن زدہ اور انتشار کے شکار معاشرے کے ادیب کو دھند کے اِس بار نئے افق تلاش کرنے ہیں۔

    کیا وہ ایسا کر پائے گا یہ سوال باقی رہے گا؟

  • عدالتی حکم پر نفاذ اردو لیکن ہوگا کیسے؟؟

    عدالتی حکم پر نفاذ اردو لیکن ہوگا کیسے؟؟

    اردو ہے میرا نام میں ’خسرو‘ کی پہیلی
    میں ’میر‘ کی ہمراز ہوں، ’غالب‘ کی سہیلی

    اردو دنیا کی خوبصورت اور شیریں ترین زبانوں میں شامل ہے، اردو زبانوں کی انڈو یورپین شاخ سے تعلق رکھتی ہے، ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے نزدیک اردو ایک مخلوط زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے، الطاف حسین حالی لکھتے ہیں کہ

    شہد و شکر سے شیریں اردو زبان ہماری
    ہوتی ہے جس کی بولی میٹھی زبان ہماری

    مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو "دہلی اور نواح دہلی” سے، حافظ محمود خاں شیرانی "پنجاب” سے، سید سلیمان ندوی "وادی سندھ” سے منسوب کرتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق "اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے”۔ گیان چند جین کے نظریے کے مطابق "اردو کی اصل کھڑی بولی ہے”۔اردو کے ذخیرۂ الفاظ کا بڑاحصّہ ایڈو آرین ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات ہیں۔ جس سے اس زبان کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے ہیں، جبکہ اقبال اشعر کہتے ہیں کہ

    غالب‘ نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
    حالی‘ نے مروت کا سبق یاد دلایا
    اقبال‘ نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
    مومن‘ نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی

    عدالت عظمی نے سرکاری اداروں میں اردو کو نافذ کرنے کاحکم جاری کر دیا، فرمان جاری ہوا ہے کہ آئین کی دفعہ دوسو اکاون کے احکامات کو بلا تاخیر نافذ کیا جائے،اور اس کام کیلئے جو مدت حکومت نے مراسلہ بتاریخ چھ جولائی سنہ دوہزار پندرہ کے خود طے کی ہے اس کی ہر حال میں پابندی کی جائے کیوں کہ اس کا عدالت کے روبرو عہد کیا گیا ہے ۔

     عدالت نے کہا ہے کہ قومی زبان کا رسم الخط یکساں بنانے کیلئے وفاقی اورصوبائی حکومتیں ہم آہنگی پیدا کریں۔اور تین ماہ میں وفاقی اور صوبائی قوانین کا ترجمہ انگریزی سے اردو زبان میں کر لیا جائے۔ عدالت نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ نگرانی کرنے والے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارےبغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے تمام متعلقہ اداروں میں اس کا نفاذ یقینی بنائیں ۔ وفاقی سطح پہ مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان استعمال کی جائے،عوامی مفاد سے متعلق عدالتی فیصلوں کو اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں لازماَاردو میں ترجمہ کروایا جائے۔ عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔

    عدالت نے تنبیہ کی ہے کہ اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار دفعہ دو سو اکاون کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اسکی خلاف ورزی سے نقصان ہو گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔

    سپریم کورٹ کی جانب سے اردو کو قومی کے ساتھ سرکاری زبان بنانے کا حکم آنے کے بعد ، اردو کے نفاذ کے حوالے سے متعدد سوال پیدا ہو گئے ہیں۔

    زندہ قومیں اظہار بیان کے لئے اپنی زبان کو ترجیح دیتی ہیں،عظیم چینی رہنما ماو زے تنگ نے بہترین انگریزی جاننے کے باوجود کبھی انگریزی میں بات نہیں کی، ان کا کہنا تھا چین گونگا نہیں ہے، ترک وزیراعظم طیب اردوان نے پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب اپنی زبان میں کیا، زندہ قوموں کے رہنما کسی اجنبی زبان کی غلامی نہیں کرتے اور یہ ہیں ہمارے وزیر اعظم جو عالمی رہنماؤں کی بیٹھک میں انگریزی زبان میں تقریر کر رہے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اردو کو سرکاری زبان بنانے کے حکم کے بعد کیا ہمارے وزیر اعظم رواں ماہ ہونے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اردو میں خطاب کریں گے؟ کیا سرکاری تمام محکمہ جاتی افسران کے نام کی تختی اردو میں ہوگی؟ ، کیا سرکاری دفاتر کے فارم اردو میں چھاپے جائیں گے؟ کیا دفاتر میں جملہ سرکاری خط و کتابت اور دفتری کارروائی اردو میں ہوگی؟  اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری بابوؤں کو اردو میں لکھنا اور ٹائپ کرنا سکھانے کے لئے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا؟۔

    دنیا بھر کی وہ قومیں جو آج ترقی کے بام عروج پہ کھڑی ہیں انکے اندرونی نظام کو ٹٹولیں تو وہاں ہر سطح پہ انکی قومی زبانوں کا راج پائینگے اور اکثر میں تو انگریزی ڈھونڈے سے بھی نہ ملے گی، حتیٰ کہ سری لنکا جیسا چھوٹا ملک کہ جہاں کی قومی زبان سنہالی دنیا میں سو ویں درجے میں بھی نہیں شمار ہوتی، وہاں بھی اعلیٰ تعلیم تک کا انتظام انکی زبان میں متوازی طور پہ موجود ہے۔

    لیکن  یہاں ہماری قومی زبان کی وقعت کو تو دیکھئے کہ جو زبان دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں میں تیسرے نمبر پہ ہے، اسکا خود اس ملک میں کیا مقام بناکر رکھ دیا گیا ہے، سارے ملک کے تعلیمی نظام ہی نہیں دفتری و عدالتی نظام تک پہ انگریزی مکمل طور پہ قابض ہے۔

    غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اردو نہ رہی تو ہمارے اولیا کرام شعراء کرام مصنفوں کی لکھی ہوئی کتابیں کون پڑھےگا بابائے اردو مولوی عبدالحق ، مولانا ابوالکلام آزاد ، علامہ اقبال ، مرزا غالب مولانا حالی اور سر سید احمد خان جیسے تاریخی ہیروں کو کون یاد رکھے گا؟

    اُردو زبان کو نئے زمانے کے نئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے قابل قدر کام ہوچکا ہے، پنجاب یونیورسٹی نے بائیس جلدوں پر مشتمل اُردو انسائیکلو پیڈیا شائع کیا ہے، وفاقی اُردو ڈکشنری بورڈ نے بائیس جلدوں پر مشتمل اُردو لغت شائع کی ہے، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے تاریخ ادبیات اُردو چھ جلدوں میں تصنیف کی ہے جسے پنجاب یونیورسٹی نے شائع کیا ہے، منہاج الدین نے قاموس الاصطلاحات کے نام سے ڈکشنری مرتب اور شائع کرائی ہے جس میں انگریزی زبان کی تمام سائنسی، دفتری اور تکنیکی اصطلاحات کا اُردو ترجمہ شامل ہے،حقیقت یہ ہے کہ اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

  • میرے  ‘پیارے’  ہمسائے کے نام

    میرے ‘پیارے’ ہمسائے کے نام

    یہ بات ہے کچھ عرصہ پہلے کی، میں گھر سے باہر تھی۔ مجھے میری بہن کا”ایس-ایم-ایس” موصول ہوا۔ اُس انگریزی ایس-ایم-ایس کا اردو رترجمہ کرنے میںمجھے کافی دِقت محسوس ہو رہی ہے لہٰذا ‘اردو’ مفہوم ہی پیشِ خدمت کئے دیتی  ہوں”ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی رہنے کے لیےتشریف فرما ہوئی ، فیملی میں دو بھائی ایسے تھے جنکو ‘اردو’ اور پنجابی لغت کے کچھ ایسے الفاظ پر مہارت حاصل تھی جو ہم اکثر اوقات گھروں میں ماؤں بہنوں کے سامنے بولتے حتٰی کہ سُنتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں”خیر میں نے اپنی بہن کے ایس-ایم-ایس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کافی عرصہ گزر گیا، ایک دن میرے کانوں کو کچھ ایسے الفاظ سُننے کو ملے جو معمول میںآج سے پہلے کبھی نا سنے تھے، اور اگر سُنے بھی ہونگے تو اس قسم کے’کمبینیشن’کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔ مجھے اپنی کمر پر عجیب سے سرسراہٹ محسوس ہونےلگی۔ میں جو کہ ایک بہت ‘بولڈ’ شخصیت کی مالک ہوں فوراً یہاں وہاں دیکھنے لگی کے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور تو نہیں؟ شکر کا سانس لیا، یہ جان کر کہ میں اکیلی ہی بیٹھی اپنی پنجابی ‘لغت’ میں نت نئے فحش الفاظ کا اضافہ کر رہی ہوں۔ شرمندگی سے میرا منہ مجھے گرم ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا اوردلکی دھڑکن اس خوف سے بڑھنے لگی کہ کہیں کوئی آ ہی نا جائے ،اس دوران میرے موبل فون پر بھی مسلسل کال آرہی تھی جسے میں اٹینڈ نہیں کر رہی تھی کیوں؟یہ تو آپ بھی باخوبی سمجھ گئے ہونگے۔۔۔۔جو الفاظ میں تنہائی میں بھی ہضم کرنے سے قاصر تھی بھلاکسی اور کے سامنے سُننے کی کیسے متحمل ہو سکتی تھی؟ کافی دیر تک دونوں بھائیوں کے درمیان اُن الفاظ تبادلہ ہوتا رہا جن میں اُنہی کی ماں بہن کے پوشیدہ حساس مقامات کا تفصیلی ذکر سننے میں آرہا تھا۔اتنا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میرے باقی گھر والے اور دیگر ہمسائے بھی یہی سب سن رہے ہیں مگر اردگرد کی خاموشی میری شرمندگی میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی چلی جا رہی تھی۔ اتنے میں میرے کانوں کو کسی صنفِ نازک کی آواز سنائی دی۔ ماصوفہ نے جو الفاظ بولے وہ لکھنے کی بھی "یہ ناچیز "ہرگز جُرت نہیں کر سکتی۔ بس اتنا کہے دیتی ہوں کہ ان دونوں بھائیوں نے اپنی زبان کی روانگی کی بدولت گھر کی عورتوں کی بھی اچھی خاصی تربیت کر ڈالی ہوئی تھی۔ پنجابی میں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ "ساریاں دے چاکے لتھ گئے ہوے سن”۔ چند گھنٹے تک ان جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا جن میں کافی زیادہ الفاظ تہذیب کی لکیر سے نیچے بلکہ کافی زیادہ نیچے تھے۔ اس بات کوغالباً دو سے تین سال گزر گئے ہونگے۔ میری بھی پنجابی لغت میں اس دوران خاطر خواں اضافہ ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ دن میں تین سے چار راونڈ اسی قسم کی گفتوشنید پر مشتمل پورے محلے کے کانوں میں سے گزرتے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک محلے یا کسی قصبے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے تیسرے گھر کا یہی حال ہے۔سڑکوں پر آتے جاتے ہم بے وجہ گالی گلوچ کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائے پھر رہے ہوتے ہیں ، بنا یہ دیکھے کے آس پاس سے کوئی خاتون تو نہیں گزر رہی ، ہم دل کھول کر” آزادیِ رائے” کے حق کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں ۔ ڈرتی ہوں کہ اگر یہی حال رہا تو گھر کی شریف عوتوں کی بھی ایک دن زبان ایسی ہی ہو جائے گی۔ یہ قوم اپنی تہذیب اپنا تمدن کھو دے گی پنجابی میں کہوں تو "ساریاں دے چاکے کھل جان گے”۔ شرم و حیا ناپید ہو جائے گی اور نبیؐ کی محبت کے دعوی ٰدار ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

    سوال میرا مختصر سا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ باحثیتِ قوم ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم جو اپنے آپ کو بہت بڑا عاشقِ رسول مانتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ ہمارے نبیؐ نے بےہودہ گفتاری کو کس قدر ناپسند فرمایا تھا؟ الفاظ کے چُناؤ میں ہم ہمیشہ ایسے الفاظ ہی کیوں چُنتے ہیں جن میں ہماری مائیں بہنیں بھی "چُنی”جاتی ہیں؟ کیا مہذب معاشروں کی یہ پہچان ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کس منہ سے ہم اپنے آپ کو مسلمان بلکہ عاشقِ رسول ﷺ کہتے ہیں؟قیامت کے روز کیا جواب دیں گے اپنے رب کو کہ آخر ” ہمارے نبیؐ کی زندگی سے ہم نے کیا سیکھا؟ زندگی اصلاح کے مواقعے بار بار نہیں دیتی، کب کہاں کیسے ” بُلاوا” آجائے،یہ نہ تو میں جانتی ہوں نہ ہی آپ، پھر کیوں نا آج سے ہی اپنے اصلاح کا آغاز کریں؟منہ سے عاشقِ رسولؐ ہونے کے دعوی چھوڑیں، عملاً ثابت کریں کہ "ہاں ہم عاشقِ رسولؐ ہیں دعا ہے کہ اللہ مجھے، آپ کو اور ہم سب کو سچ میں ایک ” سچا عاشقِ” رسولؐ بنائے۔
    آمین

  • کیوں؟

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب "ریمنڈ ایلن ڈیوس” نامی شخص جو کے ایک سابق امریکی سپاہی بھی رہ چکاتھا اور سینٹرل انٹیلی جنٹ سروس (سی-آئی-اے)کے لیے بطورِ کنٹریکٹر اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا نے 27 جنوری 2011 میں دو پاکستانیوں کا دن دہاڑے گولیاں مار کے قتل کیا۔ ایک اور تیز رفتارگاڑی جو ڈیوس کو” بیک اپ” دے رہی تھی نے سڑک کی الٹی سمت میں جاتے ہوئے ایک تاجر کو بھی ٹھوک ڈالا جو غالباً موقعے پر ہی سر پر شدید چوٹ لگنے سے دم توڑ گیا تھا ۔ یہ تینوں افراد اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔

    شروع شروع میں بہت شورشرابا برپا ہوا ، لواحقین کو کبھی دھمکیاں تو کبھی منہ بند کرنے کے لیے رشوتوں کی پیشکش کی جانے لگیں مگر وہ "خون کے بدلے خون” پر ڈتے رہے۔ پوری قوم شدید غم وغصے میں تھی۔ ہر کوئی لواحقین کے ساتھ کھڑا تھا۔ مگر اچانک گیم نے کلٹی بدلی،آنکھ جھپکتے ہی 16 مارچ 2011 کو ” دية”کے اسلامی قانون کے مطابق ورثا کو رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے،ریمنڈ صاحب کو رہائی ملتی ہے اور دوسرے ہی لمحے حضرت مآب کو "بھاگم دوڑ” کر کے ائیر پورٹ لے جایا جاتا ہے جہاں ایک پرائیویٹ جہاز ان کا پہلے سےمنتظر تھا۔ محترم اس پرپوری شان و شوکت سے کسی ہالی وڈ کے فلمی ہیرو کی طرح سوار ہوتے ہیں، اور پوری پاکستانی قوم کو اّلو بلکہ ” الو کا پٹھا ” بنا کے نکل جاتے ہیں۔

    مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں کیسے بے بسی اور لاچاری کے ساتھ وہ تمام رپورٹنگ ٹی-وی پر دیکھ اور سن رہی تھی۔ میرے غصے میں غم کی شدت کم اور بےبسی کی شدت کہیں زیادہ تھی۔مقتولین میں سے ایک کی بیوی جس کا نام شمائلہ کنول تھا اس نے 6 فروری کو خودکشی بھی کر لی تھی۔ وجہ؟ "اس کا ماننا تھا کہ اسے انصاف نہیں مل رہا اور نا ہی ملنے کی امید نظر آرہی ہے، شمائلہ کا کہنا تھا کہ وہ جانتی ہے کے ریمنڈ کو بنا کسی "ٹرئیل” ہی رہائی مل جائے گی” ، اور اُس کی یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی۔ خیر ، کوئی لاکھ کہانیاں بنائے بلآخرہوا وہی جس کا شمائلہ کو ڈر تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے، حقیقت یہی ہے ہے کہ لواحقین کا زبرداستی منہ بند کروادیا گیا تھا۔کیوں؟ یہ آپ جانتے ہی ہیں، کیسے؟ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر” میں” چاہتی کیا ہوں؟ اتنے سالوں بعد یہ گڑھے مردے کیوں اُکھاڑ رہی ہوں؟ یقیناً اسکے پیچھے میرا کوئی مقصد ہو گا۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ یہ بی بی کسی "غیر ملکی ایجنڈے” پر کام کر رہی ہے، کچھ کہیں گے یہ اس عورت کے "سستی شہرت” کمانے کے گھٹیا ہتھکنڈے ہیں۔۔۔ پر ان سوالوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اس بات سے ضرور پڑتا ہے کہ آخر شمائلہ کی اس بہن کا کیا ہوا ، جو غالباً اس کی دیورانی بھی لگتی تھی۔
    مجھے یاد ہے اس کا وہ انٹرویو بھی، جو اس نے طلعت حسین کو دیا تھا۔ وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ اُس نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ وہ اپنے سسرال سے بھی رابطے میں نہیں تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کے سسرالی اس سے رابطہ رکھنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ وہ پریشان حال یہی سوچ رہی تھی کے آخر وہ اپنے بچے کو کیا بہانا بنا کے ٹالے گی کے اس کے باپ نے کیوں اس سے لاتعلقی اختیار کی ، آخر وہ اس سے رابطہ کرنے سے کیوں کترا رہا تھا؟ وہ کہاں گیا اور اب وہ لڑکی کہاں جائے گی؟ اور آج کا میرا سوال ، وہ لڑکی "اب”کہاں ہے؟ کیا وہ خیریت سے ہے؟ کسی نے دوبارہ اس کا حال دریافت کرنے کی کوشش کی؟
    یہ صرف ایک واقعہ ہے، ایسے کئی واقعات آئے دن اخباروں اور نیوز چینلز کی زینت بنتے ہیں ، پھر کوئی نئی نیوز اس کی جگہ لے لیتی ہے اور بس ایک کے بعد ایک معاملہ اللہ کے سپرد کر کے ہم چلتے چلے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہماری حکومتیں، عدلیہ اور سول سوسائٹی نے اس سب کے لیے کیا کیا؟ کیا معاشرے میں ایسی عورتوں کے لیے کسی قسم کے تحفظ کی یقین دہانی کبھی کرائی گئی ؟ اگر نہیں تو کیوں؟