Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • ہمارا کیا ہو گا؟

    ہمارا کیا ہو گا؟

    تحریر: شریکی سنگھ سندھو

    ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے، اور تربیت کی بھاری ذمہ داری ماؤں پر عائد ہوتی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں بیرون ملک سے پی ایچ ڈی پروفیسر صاحبہ تھیں جن کی اکلوتی بیٹی اکثر اسکول کے بعد ان کے پاس آ جایا کرتی تھی۔ موصوفہ گلوبلائزیشن اور کلائمیٹ چینج کے مضامین پڑھاتی تھیں لیکن اپنی بیٹی کو سرکاری A4 سائز کاغذوں کا ایک دستہ پکڑا دیا کرتی کہ چلو بیٹا آپ ڈرائنگ کر لو۔ اور وہ بچی کاغذ پر کچھ دائرے بنا کر اور لکیریں لگا کر اگلا صفحہ اٹھا لیتی۔ اس پر فخر سے کہا جاتا تھا کہ بچوں کی پرورش کا لازمی پہلو ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو دبایا نہ جائے۔

    اپنے اردگرد دیکھیں تو اس قسم کے نظریات سے روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا ہے کہ بچوں کو ڈانٹنا نہیں چاہیے کہ شخصیت سازی کا عمل متاثر ہو گا۔ ان کو ٹوکنا بھی نہیں ہے کہ ان کی سوچنے کی قوت سلب ہو جائے گی۔ ان پر دین کا اطلاق بھی انتہائی غیر محسوس اور ماڈرن طریقے سے کرنا ہے ورنہ مذہب سے متنفر ہو جائیں گے۔ ان کو ان کی مرضی کے مضمون چننے کی آزادی دیں۔ان کو پڑھاتے ہوئے آسان الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے، ورنہ ذہن معانی و اسلوب میں الجھ جائے گا ۔ ان کی خواہشات کو پورا کرتے رہنا چاہیے تاکہ احساس کمتری پیدا نہ ہو۔ گویا بچوں کو پالتے پالتے ان کی رضا کے غلام بن جاؤ۔

    اب ذرا اپنے بچپن کی طبیعت کا دورِ‌ حاضر کے بچوں کی تربیت سے موازنہ کریں۔ جی مجھے اندازہ ہے کہ 1990 کا 2025 سے کیا مقابلہ لیکن کچھ عادات و اطوار، تہذیبی روایات اور اقدار کا زندہ رہنا ہی معاشرے کا حسن ہے۔ جب آٹھ بجے کا ڈرامہ سب مل کر ٹی وی پر دیکھتے تھے۔ کوئی مہمان آتا تھا تو سارے اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے لیکن آج کمروں سے نکلنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ بلاشبہ یہ دور انفرادیت، خودمختاری اور آزادی کا دور ہے، لیکن یہ انفرادیت اب خود غرضی میں بدل رہی ہے۔ سونے جاگنے کے اوقات پر اپنی مرضی، کس رشتے دار سے نہیں ملنا یہ اپنا فیصلہ، کس شادی میں شرکت کرنی ہے یہ بھی موڈ پر منحصر ہے۔ اپنی مرضی کا کھانا، اور بس اپنی خواہشات کی فکر۔۔۔ نہ وہ جذبِ باہم رہا نہ وہ محفلِ انجم رہی۔

    ایک ہی گاڑی میں میلوں کا سفر طے کر لیا ۔ خاموشی سے، کانوں میں ٹوٹیاں ڈالی ہوئی ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کہ ماں باپ کن مسائل پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ایک ہی گاڑی میں اگلی سیٹ پر بیٹھے ماں باپ کسی الگ دنیا میں ہیں اور پچھلی نشستوں پر براجمان اولاد کی اپنی ہی کائنات ہے۔ بچوں کو ماں باپ کے معاملات میں دلچسپی لینا سکھائیں۔ بچوں کو خدارا باتیں کرنا سکھائیں، ان کو تعریف کرنا، تعمیری تنقید کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا سکھائیں۔ ان کو الفاظ استعمال کرنے کا پابند بنائیں۔ الفاظ ہتھیار بھی ہیں اور مسیحا ہیں، لیکن افسوس کہ ہمارے بچوں کے پاس الفاظ ہی نہیں۔ کون ٹائپ کرنے کا تردد کرے۔ آج کل تو سوشل میڈیا کی پوسٹ پر بھی ہنستا، روتا یا حیران ہوتا ہوا ایموجی چسپاں کر دیا جاتا ہے۔

    کوئی کچھ بھی سمجھے، راقم نزدیک اتنی کم گوئی بے حسی ہے۔ باتیں کرنا، بے معنی اور لگا تار باتیں، ماں باپ کے ساتھ، خالہ اور پھپھو کے ساتھ، بہن اور بھائی کے ساتھ، ہمیشہ بے وقوفی نہیں ہوتی۔ کبھی زیادہ بولنا محبتوں کا تبادلہ اور تقاضا بھی ہوتا۔ آپ کی آواز آپ کے ہونے کا احساس ہے۔ خاموشی بے شک بہترین حکمت عملی ہے، لیکن دشمن کے خلاف۔۔۔ اپنوں پر اس کو نہ آزمائیں۔ کبھی اپنے ساتھ رہنے والے دادا دادی اور نانا نانی سے پوچھیں کہ وہ آپ کو سننے کو کتنا ترستے ہیں۔

    یاد ہے کہ ہم ایک جوتے اور چپل میں سارا سال گزار لیتے تھے وہی عید پر پہن لیا، وہی کسی شادی بیاہ پر اور وہی اسکول میں۔۔ لیکن آج ہمارے بچوں کی الماریاں کپڑوں اور جوتوں سے بھری ہوئی ہیں، درازوں سے آرائش کی اشیا امنڈ رہی ہیں۔ بے تحاشا اور لاتعداد کپڑے، ریشم و اطلس و کمخاب، جینز اور لینن کے کپڑے۔۔ لیکن ناقدری۔ اسٹیشنری، کاپیاں، پنسلیں درجنوں بھری پڑی ہیں۔ لیکن کچھ لکھنے کی بجائے کوشش ہے کہ اسکرین شاٹ لیا جائے۔ خدارا بچوں کو کم میں راضی رہنا اور تھوڑے سے خوش ہونا سکھائیں۔ آپ کتنے باذوق ہیں یہ آپ کا لباس نہیں بلکہ آپ کی گفتگو کو بتانا چاہیے۔

    علم نفسیات کی ایک تھیوری ہے delay in gratification یوں سمجھ لیں کہ تسکین میں تاخیر۔ بچوں کی تربیت کا یہ گُر ہمیں بچوں کے ماہرین نفسیات نے بتایا کہ بچوں کو انکار سننے اور انتظار سہنے کا عادی بنائیں، اگر وہ آپ سے کچھ مانگ رہے ہیں تو قوت خرید ہونے کے باوجود ان کو صبر کا سبق دیں۔

    بچوں کو لاڈ سے نہیں پیار سے پالیں۔ ان کو آرام نہیں احترام کا درس دیں، اور آسائش نہیں نظم و ضبط کا عادی بنائیں۔ ورنہ جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا۔

    راقم بذات خود تنبیہی انداز تحریر کا قائل نہیں لیکن یہ فکر دل کو کھا رہی ہے کہ ہمارے والدین تو پھر بھی اچھے رہ گئے، ہمارا مستقبل جس نسل سے وابستہ ہے ہمارا کیا ہو گا؟

  • ’’آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص‘‘ پاکستان کا ہندوستان کے لیے ناقابل فراموش سبق

    ’’آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص‘‘ پاکستان کا ہندوستان کے لیے ناقابل فراموش سبق

    چار روز کے بعد خطّے کے دو ایٹمی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی ہو گئی۔ یہ جنگ بندی ہندوستان کے جنگی جنون کی شکست اور پاکستان کی امن پسندی کے پیغام کی یقینی فتح ہے۔ قوم کو بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح مبارک ہو۔

    پاکستان کو اپنے سے 6 گنا بڑے اور عیار مگر بزدل دشمن سے صرف جنگی میدان میں ہی فتح نصیب نہیں ہوئی، بلکہ سبز ہلالی پرچم تلے یکجا قوم اور پاک فوج کے شہادت کے جذبے سے سرشار ہو کر وطن عزیز کے دفاع کے لیے خون کے آخری قطرے تک لڑنے کے عزم مصمم نے یہ فتح دلائی۔ پاک فوج کے ہر جوان اور افسر نے خود کو پاکستان کا خواب دیکھنے والے شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر کے طور پر پیش کیا جس میں اقبال نے فرمایا ہے

    یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
    جہاد زندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں

    پاکستان کو اس جنگ میں دشمن کے خلاف صرف جنگی محاذ پر ہی نہیں بلکہ سفارتی، سیاسی اور اخلاقی محاذ پر بھی فتح نصیب ہوئی۔

    گزشتہ ماہ 22 اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردوں کے حملے کے بعد بھارت کی جانب سے پہلگام فالس فلیگ اور مسلم کُش آپریشن کا جو ڈراما رچایا گیا تھا۔ اس کو مودی سرکار کے جنگی جنون اور حسب سابق بغیر ثبوت اس کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کے مخاصمانہ اور بچکانہ فیصلوں نے خود طشت از بام کر دیا۔ اسی آڑ میں ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ ازخود یکطرفہ طور پر منسوخ کر کے آبی جارحیت سے اس نئے جنگی جنون کی ابتدا کی۔ پاکستان کی جانب سے مذکورہ واقعہ کی مذمت کے ساتھ غیر جانبدار اور شفاف عالمی تحقیقات کی پیشکش کو مسترد کر کے اپنی سازشوں کی بلی کو خود ہی تھیلے سے باہر نکال دیا۔

    یہ حقیقت اپنی جگہ کہ ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ کثیر آبادی والا ملک ہونے کے باعث دنیا بھر کے ممالک کے لیے ایک پرکشش تجارتی منڈی ہے اور اسی لیے ماضی میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر تھوپے گئے دہشتگردی کے بے ثبوت الزامات پر عالمی دنیا یقین کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھاتی رہی ہے۔ پہلگام فالس فیلگ آپریشن کر کے بھی بھارت پہلے کی طرح دنیا سے اپنے اس جھوٹے الزام پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کی توقع کر رہا تھا، لیکن اس بار سب بھارت کی منشا کے اُلٹ ہوا۔

    ہندوستان کے حامی اور دوست ممالک پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی۔ خصوصا حالیہ چند سالوں میں کینیڈا میں سکھوں کی عالمی تنظیم کے رہنما کے قتل اور امریکا میں سکھ رہنما کے قتل کی سازش میں ہندوستان کے ملوث ہونے کے نا قابل تردید ثبوت سامنے آنے پر اب دنیا کی آنکھوں سے بھارت کے جھوٹ کا پردہ اٹھتا جا رہا ہے۔ پھر خطے میں عوامی انقلاب کے بعد پہلے سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھارت نواز حکومتوں کے خاتمے، نیپال میں بھارت سے بڑھتی نفرت نے ہندوستان کے لیے معاملات کو کافی گھمبیر بنا دیا ہے۔ جب کہ سابق مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں مودی کی جانب سے بھارت کی دل کھول کر مدد کا سرکاری بیان تو پہلے ہی دنیا کو پتہ چل چکا ہے۔

    پہلگام فالس فیلگ آپریشن کے ڈراما پر جب دنیا کے کسی ملک نے کان نہ دھرا تو عالمی سفارتی کوششوں کی ناکامی پر جنگی جنون کا شکار مودی سرکار ایسی برافروختہ ہوئی کہ 7 مئی کو رات کی تاریکی میں ’’آپریشن سندور‘‘ کے نام پر پاکستان کے شہری علاقوں میں میزائل حملے اور دوسری شب مختلف شہروں میں اسرائیلی ساختہ ڈرون حملے کیے جن کو پاک فوج نے مار گرایا تاہم ان حملوں میں 30 کے قریب معصوم شہری جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اور 50 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ پاکستان نے اس پر صرف اپنے دفاع میں کارروائی کی اور بھارت کے فرانسیسی ساختہ رافیل طیاروں سمیت 6 طیاروں کو مار گرایا۔ لیکن بھارت کا جنگی جنون پھر بھی ختم نہ ہوا اور اس کی جانب سے ایئر بیسز پر حملے شروع کرنے کے بعد پاکستان نے 10 مئی کو علی الصبح آپریشن بنیان مرصوص کے نام سے آپریشن شروع کیا جس کے معنی سیسہ پلائی دیوار ہے۔

    پاک فوج قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ کی عملی تفسیر بن گئی اور بھارت کے لیے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی اور ایسے جوابی وار کیے کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس سمیت بھارت کی متعدد یئر بیسز کو تباہ کیا، ایئر ڈیفنس سسٹم کو اڑا دیا، ایئر فورس کا نظام جام کردیا۔ پاکستانی فوج نے بردباری کے ساتھ جنگی قوانین پر عمل کرتے ہوئے صرف اہم فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، کسی عام شہری کی جان نہ لی۔ پاکستان کی اس تاریخی کامیابی پر آج ملک بھر میں یوم تشکر منایا جا رہا ہے تو وہیں بھارت میں صف ماتم بچھ چکی ہے۔

    اس حملے سے مودی پر ثابت ہو گیا ہوگا کہ یہ ایڈونچر کوئی بالی ووڈ فلم نہیں تھی جس میں ایک چٹکی سندور دکھا کر فلم کامیاب کرا لی جاتی ہے اور پاکستان مخالف فلموں میں من پسند نتائج حاصل کر لیے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ حقیقی دنیا ہے جس میں آپریشن سندور کے ایک گھنٹے اندر پاک فوج نے بھارت کی مانگ اجاڑ دی اور آپریشن ’’آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْص‘‘ کے ذریعے اس سندور کو ملیا میٹ کر دیا۔

    پاکستان کی جانب سے فوجی کارروائی میں تنصیبات کو نقصان پہنچنے کی اعتراف خود بھارتی فوج کے ترجمان نے بھی کیا۔ اس سے قبل جو ہندوستان پہلگام آپریشن پر پاکستان کے غیر جانبدار عالمی شفاف تحقیقات کو مسترد کر چکا تھا اور کشیدگی کم کرنے کے لیے کسی صورت مذاکرات پر تیار نہ تھا۔ پاک فوج کے دندان شکن جواب کے چند گھنٹے بعد ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا جس کے بعد امریکا کی قیادت اور عالمی ثالثی کے نتیجے میں دونوں ممالک میں جنگ بندی عمل میں آئی۔ اور اب بھارت اور پاکستان کے درمیان فوج کے درمیان مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ تاہم ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق بھارت جنگ بندی معاہدے کی کئی مقامات پر خلاف ورزی کر رہا ہے جب کہ پاکستان اب بھی تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

    جنگ کی سب سے تلخ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اس میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا جو مودی سرکار کے جنگی جنوں سے دو قدم نہیں بلکہ کئی فرلانگ آگے نکل کر اور چیخ چلا کر لائیو رپورٹنگ کی کہ دنیا تو دنیا خود بھارت میں باشعور طبقہ اس کے خلاف بول اٹھا۔ بھارتی مین اسٹریم لائن میڈیا نے جس طرح کی رپورٹنگ کی اس نے سچ کا قتل نہیں بلکہ قتل کرنے کے بعد سچ کی لاش کی بے حرمتی کرتا رہا جب کہ اس کے برعکس پاکستانی میڈیا کا رپورٹنگ رویہ اپنی فوج اور قوم کی طرح مدبرانہ اور حقائق پر مبنی رہا۔
    بھارتی میڈیا نے تو جھوٹ کی تمام حدوں کو پھلانگتے ہوئے پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کراچی، لاہور، پشاور 26 شہروں کا صفایا کرا دیا سمندر کو لاہور اور ملتان تک گھیسٹ کر لے گئے۔ کچھ چینلز نے بلوچستان پر باغیوں کا قبضہ کرا دیا۔ گودی میڈیا نے جھوٹ صرف یہیں تک قائم نہیں رکھا بلکہ مختلف چینلز ایک ہی وقت میں مختلف بیانیے نشر کرتے رہے۔ ایک چینل پاکستان کے آرمی چیف عاصم منیر کی گرفتاری تو دوسرا ان کے ملک سے فرار کی مضحکہ خیز خبریں نشر کرتا رہا۔ کسی چینل نے وزیراعظم شہباز شریف کے ملک سے فرار کی خبر تو کسی نے گرفتاری کی خبر دی۔ ایک چینل نے تو حد کرتے ہوئے شہباز شریف کے بنکر میں چھپنے اور اس کی لوکیشن ٹریس ہونے کی خبر دی، بعد ازاں جب یہ خبریں غلط ثابت ہوئیں اور بھارتی میڈیا کو خود ان کے ملک سے لعن طعن ہونا شروع ہوئی تو کئی چینلز نے رپورٹنگ پر معافی بھی مانگی۔

    بھارت کی جانب سے مسلط کی گئی اس چار روزہ جنگ میں بھارت کو عالمی سطح پر سبکی ہوئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس کے موقر خبر رساں ادارے اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ آسمانوں میں پاک فضائیہ نے دنیا پر اپنی بادشاہت ثابت کر دی۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کے پاکستان پر حملے کو شرمناک بھی قرار دیا، پھر دنیا میں بھی ہلچل مچ گئی۔ سعودی عرب، برطانیہ، یو اے ای سمیت دیگر ممالک دنیا کے امن کو بچانے کے لیے دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرانے کے لیے سرگرم ہوئے۔

    دنیا کے سامنے تو مودی کا بھیانک چہرہ آشکار ہو چکا۔ اب حساس دل اور باشعور بھارتی بھی سوچیں کہ بھارت میں فالس فلیگ آپریشن صرف ہندوتوا کی حامی بی جے پی اور مودی سرکار میں ہی کیوں ہوتا ہے اور اس کا مودی کو کیا فائدہ اور غریب بھارتی عوام کیا نقصان ہوتا ہے۔

    بات کریں ماضی کی تو 1992 میں بی جے پی سرکاری میں ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت دنیا کے کسی مسلمان کے ذہن ودل سے نہیں مٹائی جا سکتی۔ اس واقعہ میں نہ صرف مسجد کو شہید کیا گیا (جہاں اب مندر بنا دیا گیا ہے) بلکہ سینکڑوں مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔ 2001 میں بی جے پی حکومت میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کر کے بلاثبوت اس کا الزام پاکستان کے سر تھونپا گیا۔ 2002 میں گودھرا ٹرین حادثے کو جواز بنا کر مودی جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے نے آر ایس ایس کو اتنی کھلی چھوٹی دی کہ مسلمانوں کی نسل کشی کرتے ہوئے سینکڑوں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل، زندہ جلایا گیا۔ ڈیڑھ لاکھ مسلمان بے گھر ہوئے، خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اس قیامت کے بعد مودی کو گجرات کے قصائی کے لقب سے نوازا گیا اور امریکا نے بھی اس کے اپنے ملک آنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

    مودی جب سے مرکزی حکومت میں برسراقتدار ہیں تو کئی فالس فلیگ آپریشن کیے جاچکے ہیں۔ 2002 میں بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی کے دور حکومت میں امر ناتھ یاتریوں پر حملے کو 2017 میں مودی سرکاری میں ری پلے کر کے اس کے بعد مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ 2016 میں پٹھان کوٹ حملہ، اڑی حملہ اور 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد اب جب بہار کے الیکشن قریب ہیں تو پہلگام فالس فلیگ آپریشن کیا گیا لیکن بھارت کے ہاتھ کیا آیا۔ صرف ایک کپ ’’فنٹاسٹک ٹی‘‘ اور اب مودی سرکار میں بھارت کو عالمی رسوائی اور تاریخی ناکامی۔ 2019 میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرنے والے بھارت کو پاکستان اور عالمی میڈیا نے دنیا کے سامنے ننگا کر دیا کہ یہ کیسی سرجیکل اسٹرائیک تھی جس میں دشمن کی کسی تنصیب کو نقصان نہ پہنچا اور صرف ایک کوا ہی ہلاک ہوا، تو کیا کوا ہی بھارت کا سب سے بڑا دشمن تھا۔

    پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور مقبوضہ کشمیر ان کے درمیان وہ سلگتا انگارہ ہے کہ جب تک یہ دیرینہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک اس کی چنگاریاں ہر کچھ عرصہ بعد اڑتی رہیں گی اور دونوں ممالک کے ساتھ دنیا کا امن بھی داؤ پر لگا رہے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد تجزیہ کار بی کہہ رہے ہیں کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر واپس آ چکا ہے جب کہ امریکی وزیر خارجہ کے مطابق کشیدگی کا حل نکالنے کے لیے جلد دونوں ممالک میں غیر جانبدار مقام پر مذاکرات بھی ہوں گے۔ گوکہ اس کی تاریخ اور مقام کا اعلان نہیں کیا گیا ہے تاہم امید اچھی رکھنی چاہیے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ پاکستان کے سامنے کوئی عام نہیں بلکہ مسلم مخالف عیار دشمن ہے جس کی ہندوتوا سوچ نے تقسیم ہند کے بعد سے اب تک پاکستان کا وجود دل سے تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کو مٹانے کی ناکام کوششیں کرتا رہتا ہے لیکن اس کو پتہ نہیں کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔

    حرف آخر اس وقت پاکستان کو فوجی، سفارقی، اخلاقی محاذ پر برتری حاصل ہے اور اس کا فائدہ اٹھا کر مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب قدم بڑھائے اور ابتدائی طور پر کشمیریوں کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 370 اے کو بحال کرایا جائے جس کو ختم کر کے مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن بھارت کے یہ اوچھے ہتھکنڈے کشمیری مسلمانوں میں آزادی کی ترنگ اور ان کا جذبہ جہاد ختم نہیں کر سکتے۔ امریکا جس کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت ایک کھلی جنگ سے بچے ہیں اب ٹرمپ بھی اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی منظورہ شدہ قرارداد کے مطابق کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلانے کے لیے بھارت پر دباؤ بڑھائے۔ اگر امریکا اور عالمی طاقتیں ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو بھارت اپنی روایتی ہٹ دھرمی اور مسلم و پاکستان دشمنی میں ایک اور فالس فلیگ آپریشن کر کے دنیا کا امن تہہ وبالا کر سکتا ہے۔

  • دنیا کیسے چلتی ہے؟

    دنیا کیسے چلتی ہے؟

    بنیاد یہ ہے کہ آپ خواہ جنگ کریں، امن قائم کریں، یا قانون سازی کریں __ یہ سب سیاسی سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ اگر آپ دنیا میں کوئی حکومت یا ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، اگر پالیسی وضع کرنا اور طاقت کا توازن بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اہداف سیاسی نظاموں کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

    اس لیے ایک شہری ہونے کے ناتے ہر شخص کی توجہ کا مرکز ملک میں اچھے اور بہتر سیاسی نظام کی تعمیر ہونا چاہیے۔ ایک شہری جو سیاسی طور پر ووٹر ہوتا ہے، کو سیاسی نظام پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ اس پر کتنی ہی پابندیاں عائد کیوں نہ ہو جائیں، وہ یہ بات واضح کہتا رہے کہ شفاف سیاسی نظام کے علاوہ ہر دوسری صورت مسترد ہے۔

    یہ جھگڑا کہ ’’دنیا کن عناصر پر چلی ہے‘‘ مقامی یا قومی سیاست کا سوال ہی نہیں ہے۔ ہزار قسم کے مسائل میں گھرا شہری _ عملاً جس کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت نہ ہو _ نہ اس سوال کا درست جواب فراہم کر سکتا ہے، نہ درست جواب کی نوعیت کو ٹھیک سے سمجھ سکتا ہے۔ پریشانیوں، محرومیوں میں گھرا شہری جذبات کی گرفت میں ہوتا ہے۔

    آج کی حقیقی دنیا آئیڈیلزم اور لبرلزم کی گرفت میں ہے۔ جس نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام تشکیل دے رکھا ہے، جس کے تحت اقوام متحدہ جیسے اداروں، اقتصادی مفادات کی بجائے بین الاقوامی تعاون، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے دھارے بہہ رہے ہیں۔ اس کے لیے صرف طاقت اور معیشت کافی نہیں۔

    دنیا جن عناصر پر چلتی ہے، اگر ہم نے اس کا یہاں تصور کرنا شروع کر دیا، تو اجتماعی سطح پر ہمارے سماجی شعور میں زبردست وسعت پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ کیوں کہ آئیڈیلزم کی ماری اس دنیا کے نظام کی زیریں سطح پر ایک زبردست تنقیدی نظام کا دھارا بھی بہہ رہا ہے۔ ایک ایسا شہری جس نے اپنے خطے میں کبھی ’تعمیری نظام‘ نہ دیکھا ہو، اس کے لیے کسی تنقیدی نظام کا درست تصور کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔

    طاقت، معیشت، فوج، سرحدیں _ یہ سب تلخ حقیقتیں ہیں۔ بد قسمت لوگ ان حقیقتوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہتے ہیں اور ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن سماجی تعمیر کے نظریے کا جال بھی ان سب کے گرد پوری طرح کسا ہوا ہے۔ اس لیے قومی سطح ہی نہیں بین الاقوامی تعلقات کو بھی یہ مختلف نظریات، شناخت، ثقافت، اقدار، اور بیانیوں کا تناظر بھی فراہم کرتا ہے۔ ہماری اسی تلخ دنیا میں رئیلزم اور لبرلزم کے روایتی نظریات بھی چینلج ہوتے رہتے ہیں، یعنی: ’’دنیا جس طرح ہے، وہ اسی طرح ہو سکتی تھی — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسی طرح ہونی ہی تھی۔‘‘

    ریاستوں کا مفاد کیا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ریاستوں کا رویہ کیا ہے؟ اس کی تشکیل اُس کے خیالات اور سماجی شناخت سے ہوتی ہے، مفادات سے نہیں۔ یہ نکتہ اب عام طور پر کوٹ کیا جاتا ہے کہ ’’قومی مفاد‘‘ بھی ایک تشکیل شدہ (constructed) تصور ہے، جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

    امریکا اس کی قریب ترین مثال ہے __ بین الاقوامی سیاست کا اسٹرکچر مادی حقائق سے نہیں بلکہ سماجی تعمیر سے بنتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے بڑی فوج، ایٹمی ہتھیار، اور بڑی معیشت ہے لیکن ایران اور شمالی کوریا سمیت چند ممالک کے علاوہ باقی دنیا امریکی طاقت کو خطرہ نہیں تحفظ کی علامت سمجھتی ہے۔ یعنی یہاں طاقت خود کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ایک بیانیہ ہے جو اس طاقت کے لیے معنی فراہم کر رہا ہے۔ اس لیے خطرے اور تحفظ کی تشریح سماجی تناظرات کے تحت ہوتی ہے۔ امریکا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، 19 ویں صدی میں اس پر شناخت کے حوالے سے تفرُّد پسندی کا بھی دور گزر چکا ہے۔

    اس خطے کے شہری کا عام خیال یہ ہے کہ امریکا کا کردار اس کی فوجی اور ٹیکنالوجی کی، اور معاشی طاقت طے کرتی ہے۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ امریکا کا کردار اس کی ’’قومی شناخت‘‘ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ بیانیاتی شناخت پر استوار ہے جو اسے عالمی نظام کا مربی بنا کر پیش کرتا ہے _ امریکا نے خود کو عالمی سیاست میں ’’جمہوریت کا محافظ‘‘ اور ’’آزادی کا علم بردار‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ سماجی تصور کی مدد سے ممکن ہو سکا، مادی قوت پر نہیں۔ اگر عالمی سلامتی کا بیانیہ (بیانیے ہمیشہ سوالیہ نشان کی زد پر اسی لیے ہوتے ہیں کہ یہ دھوکے پر مبنی ہوتے ہیں) تشکیل نہ دیا جاتا تو افغانستان یا عراق پر حملہ ممکن نہ تھا۔

    سماجی تعامل اور تاریخی تجربات سے سیکھنے والے اگر سیاسی بیانیے طاقت ور نہ ہوتے تو برطانیہ، جاپان اور جرمنی آج اتحادی نہ ہوتے۔ روس، چین اور ایران گہرے رشتوں میں نہ بندھے ہوتے۔ ہمیں طاقت کی تعبیر سماجی سطح ہی پر کرنی پڑتی ہے، اور جب ہم دوستی اور دشمنی کی بات کرتے ہیں تو یہ ہمارا ایک اجتماعی تصور ہوتا ہے، اسی طرح قومی مفاد کوئی فطری چیز نہیں بلکہ سماجی بیانیہ ہے۔ اس لیے ہمیں ایسے سماجی بیانیے تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اندرونی سطح پر ہماری شناخت کے مسائل کو حل کر سکے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری شناخت کو بہتر بنا سکے۔

    کسی نازک وقت کی آزمائش خود ایک کمزور بیانیے کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ تسلسل کے ساتھ آتا رہے تو آخرکار ’’نازک وقت‘‘ کے بیانیے پر لوگوں کا اعتماد کم زور ہو جاتا ہے۔

    تنقیدی نظام کا ایک دھارا فیمینزم بھی ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ایک گالی ہے۔ لیکن دنیا اس دھارے کو قبول کرتی ہے اس لیے یورپ اور امریکا میں عورت کی سماجی صورت حال باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ یہ فکر تو اس اوپر کے سارے بیانیے پر کہے گی کہ یہ مردانہ (patriarchal) انداز فکر ہے۔ کیا ہم اس تنقید کو کھلے دل سے عزت دے سکتے ہیں!

    تنقید کا ایک دھارا یہ کہتا ہے کہ بین الاقوامی نظام مغربی طاقتوں کا تشکیل کردہ ہے، اور وہ اپنے نوآبادیاتی مفادات، شناخت، اور بیانیے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا اس تنقید کو بھی قبول کرتی ہے اور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی سطح پر خود کو اس حوالے سے بہتر بناتی رہتی ہے۔

    دراصل، دنیا کیسے چلتی ہے، اس حوالے سے طاقت کے نظام، سیاسی و اقتصادی ڈھانچے کو جوں کا توں مان لینا خود ایک مسئلہ ہے، اس لیے روایتی مفروضات کو چیلنج کرتے رہنا چاہیے۔ یعنی دنیا کی محض تشریح کافی نہیں، اسے بدلنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔

    دنیا کیسے چلتی ہے؟ یہ دیکھیں کہ اس وقت عالمی نظام میں اقدار اور ثقافتی معیارات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ غلامی، نوآبادیات اور ایٹمی ہتھیار ایک وقت میں جائز سمجھے جاتے تھے، مگر اب ناقابلِ قبول ہیں۔ تاریخی عمل کے ذریعے انسانی حقوق اور جمہوریت ہی نے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ جیسے اصول نے بھی ایک عام قدر کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    آج کی دنیا کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے فلسفیانہ تصورِ ‘‘ساخت’’ یا زیر سطح نظاموں (underlying structures) کا مطالعہ بھی ضروری ہے، بنیادی طور پر یہ لسانیات (سوئس ماہر لسانیات فرڈیننڈ سوسیور نے بیسویں صدی کی ابتدا میں میں یہ تصور پیش کیا) اور ثقافتی بشریات (Cultural anthropology__ کلاڈ لیوی اسٹراس نے اس کا بشریات پر اطلاق کیا) کے شعبے کا تصور تھا، لیکن اس میں اتنی فکری کشش تھی کہ یہ فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، سماجیات، ادب اور بین الاقوامی تعلقات جیسے متنوع شعبوں تک پھیل گیا۔ اس تصور نے دراصل غیر مرئی ساختوں (invisible structures) کی دریافت کی، اور پتا چلا کہ کسی بھی نظام کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ تصور ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ کوئی مظہر خواہ کسی بھی شعبے کا ہو، ساخت (structure) کے تصور میں یہ صلاحیت ہے کہ اُس مظہر کے اساسی پیٹرنز یا سسٹمز کو بے نقاب کر سکے، اور بتا سکے کہ دراصل معانی کیسے پیدا ہو رہے ہیں۔ آج ساختیات کا یہ تصور طاقت، شناخت، ثقافت، قانون اور بین الاقوامی نظام کو سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کسی شے کا مطلب اس کے مخالف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ اس کی انفرادی حقیقت سے۔ ساختیات نے بتایا کہ نظریہ خود بہ خود پیدا نہیں ہوتا، نہ یہ کسی انسان کی سوچ ہوتی ہے، نہ کوئی آفاقی سچائی _ بلکہ یہ ثقافتی نظام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ترقی کا نظریہ مغرب کے مخصوص تاریخی، لسانی، اور معاشی ساخت سے پیدا ہوا۔

    اگر ہم عالمی نظام کی ساخت کو سمجھنا شروع کریں گے تو ہمارے راستے میں مارکسی نظریات بھی مدد کے لیے کھڑے ہوں گے، ان کے بغیر فہم کی ہماری کوشش علمی نہیں ہوگی، بلکہ تعصب کا شکار ہو جائے گی۔ یعنی زبان، ذہن، بیانیے، اور ثقافتی کوڈز کا تجزیہ ہی کافی نہیں، مادّی حقیقت سب سے اہم ہے، کیوں کہ سماجی شعور مادی حالات سے پیدا ہوتا ہے۔ لوئی التسر نے ساختیات اور مارکسزم کو ملا کر ایک امتزاجی نقطہ نظر پیش کیا۔ ساختیات اگرچہ غیر سیاسی ہے لیکن سیاست کے شعبے پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔ لیکن ساختیات تاریخ سے کٹی ہوئی ہے اس لیے مارکسی فہم اس گیپ کو بھرتی ہے۔

    اسی طرح، ساختیات سے آگے کی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ خود یہ تصور بھی کافی کرخت اور بے لوچ ہے، جس کی وجہ سے یہ محدود ہو گیا ہے۔ کیوں کہ جب معانی، ساخت، اور شناخت جیسے قضیوں کا مزید تجزیہ کیا گیا تو دریافت ہوا کہ ان میں استحکام نہیں ہے؛ معنی سیال ہے، سیاق بدلتے ہی معنیٰ بھی بدل جاتا ہے۔ ساختیات نے بتایا کہ ہر نظام میں ایک ساخت اور مستقل مرکز ہوتا ہے، پوسٹ اسٹرکچرلزم نے واضح کیا کہ مرکز کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔ یہ فلسفیانہ تناظر ہمیں عالمی سیاست کے ’’مراکز‘‘ کو سمجھنے میں وسیع مدد فراہم کرتے ہیں۔ کہ کس طرح کوئی مرکز ہمیشہ قائم نہیں رہتا، یعنی، تاریخ بدلتی رہتی ہے، ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔

    ساخت نظر نہیں آتی، لیکن ہمیں اپنے معنی کے ذریعے متاثر کرتی ہے۔ انسان، ادارے، نظریات — سب ان ہی ساختوں کے ’’زیر اثر‘‘ ہوتے ہیں۔ شناختیں، تصورات اور معانی ان ساختوں کی پیداوار ہیں، پہلے سے موجود structures of meaning ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں بتاتی ہیں کہ دیکھو دنیا کی حقیقتیں بس یہی ہیں! ہم ہر پل ان ساختوں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ان سے روگردانی پر یہ ساختیں ہم سے ناراض دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ ساختیں سماجی قوتوں کو ہماری سرکوبی کے لیے متحرک کر دیتی ہیں۔ طے شدہ معنی والی ان ساختوں پر سوال اٹھانا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔

    کیوں کہ، ایک اور حقیقت بھی ہے، جسے ہم آسانی سے فراموش کرتے رہتے ہیں __ یہ کہ ریاستیں اور انسان اپنے بیانیے، شناخت اور اقدار وقت کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں، اور کرتے رہتے ہیں۔

  • ڈائری: ملائیشیا میں پلینٹری ہیلتھ (زمینی صحت) سے متعلق تین روزہ ورکشاپ

    ڈائری: ملائیشیا میں پلینٹری ہیلتھ (زمینی صحت) سے متعلق تین روزہ ورکشاپ

    فروری کے اواخر میں ایک خوشگوار، خوشنما صبح، میں کوالالمپور، ملائیشیا پہنچی۔ 40 کلومیٹر سے زیادہ اور ایک خوبصورت، گھنٹہ بھر کی ٹیکسی کی سواری کے بعد، میں سن وے سٹی پہنچی، جو سوبانگ جایا کا ایک شہر ہے۔ یہ سن وے یونیورسٹی اور سن وے سنٹر فار پلینٹری ہیلتھ کا گھر تھا، جس نے گزشتہ اپریل میں سالانہ پلانیٹری ہیلتھ سمٹ کی میزبانی کی تھی۔ یہ اس ورکشاپ کا مقام بھی تھا جس میں، میں شرکت کر رہی تھی۔ میڈیا پروفیشنلز کے لیے کیپسٹی ڈویلپمنٹ اینڈ ٹریننگ سیریز کا ایک باب، جہاں ہم زمین کی صحت پر بات کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے، جس میں توجہ شدید گرمی اور انسانی صحت پر مرکوز کی گئی تھی۔

    فرح ناز زاہدی نے ایک ورکشاپ میں شرکت کے بعد اپنے تجربے کے بارے میں لکھا جہاں بین الاقوامی صحافیوں اور ماہرین نے موسمیاتی رپورٹنگ اور اس کے چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔

    ورکشاپ میں آسیان اور سارک (جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن) کے علاقوں سے 30 صحافیوں اور ماہرین کو اکٹھا کیا گیا۔ یہ چار سالوں کے دوران منعقد ہونے والی دس ورکشاپس کی مجوزہ سیریز میں دوسری تھی، جو میڈیا کے پیشہ ور افراد کو سیارہ زمین کی صحت کے بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے ضروری علم اور مہارتوں سے آراستہ کرنے، آب و ہوا سے متعلق مشکلات پر بات چیت کرنے، غلط معلومات اور جعلی خبروں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ سیکھنے اور مشکلات کے حل پر مبنی صحافت کو رپورٹنگ میں ضم کرنے کی تربیت فراہم کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ اس کے بعد سیکھنے، سکھانے اور دوبارہ سیکھنے پر مبنی چند دن پرکشش اور اثر انگیز تھے۔

    ہر صبح، سیشن شروع ہونے سے پہلے، شرکاء یونیورسٹی تک 4 کلومیٹر کی کینوپی واک میں ساتھ ساتھ چلتے تھے، جو سن وے کے اہم مقامات کو جوڑنے والے سبزہ زاروں سے گزرتا ہوا سایہ دار راستہ ہے۔ یہ 40 منٹ کی چہل قدمی ہمیں باقی سرگرمیوں کے لیے تیار کرتا تھی۔ غیر رسمی تبادلوں، مشترکہ مشاہدات اور ابھرتی ہوئی دوستی کے لمحات قیمتی تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کے لیے پڑوسی ممالک کے صحافیوں سے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کا یہ ایک نادر موقع بھی تھا۔

    ملائیشیا کی ماحولیاتی پالیسیوں اور اقدامات کے لیے اعلان کردہ وعدوں نے ملائیشیا کو ورکشاپ کے لیے موزوں مقام بنا دیا۔ میرے لیے، موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ایک ترقی پذیر جنوب مشرقی ایشیائی ملک کا دورہ کئی سطحوں پر تعلیمی تھا۔

    پلینٹری ہیلتھ (زمینی صحت) کیا ہے؟

    پلینٹری ہیلتھ (زمینی صحت) ایک نسبتاً حالیہ تصور ہے۔ اسے وسیع پیمانے پر ایک کثیر الشعبہ تصور کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی، انسانی فلاح و بہبود اور عالمی استحکام کے درمیان تعلق کو تلاش کرتا ہے۔ ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کے طور پر، یہ موسمیاتی تبدیلی،ماحولیاتی آلودگی اور انسانی صحت پر ان مسائل کے اثرات کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

    سن وے سینٹر کے مطابق پلینٹری ہیلتھ کا نقطہ نظر یہ تسلیم کرتا ہے کہ بنی نوع انسان نے نمایاں ترقی کی ہے، جس کی مثالیں صنعتی اور تکنیکی انقلابات ہیں۔ لیکن اس طرح کے ترقیاتی فوائد کے ضمنی اثرات اب کرہ ارض کی صحت کے لیے بڑھتی ہوئی واضح رکاوٹ ہیں۔ یہ زوال پذیر حیاتیاتی تنوع، فضائی آلودگی میں اضافے، قدرتی وسائل کی قلت اور ہم جس ماحول میں رہتے ہیں اس کو پہنچنے والے نقصان میں دیکھا جاتا ہے۔

    مؤثر صحافتی کہانی سنانے کی اہمیت

    مرکز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر جمیلہ محمود کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور صحت کے نتائج کے درمیان تعلق کو سمجھنا ضروری ہے اور وہ ان مسائل کی روشنی میں ہمارے سیارے کی صحت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “یہ ورکشاپ صرف سائنس کو سمجھنے کے بارے میں نہیں ہے – یہ موسمیاتی اور صحت کے بحرانوں کا ایک زیادہ موثر کہانی کار اور رپورٹر بننے کے بارے میں ہے۔”

    ڈائیلاگ ارتھ کی پاکستان ایڈیٹر کے طور پر، مجھے صحافتی رپورٹس تفویض کرنے کے ساتھ ساتھ ہیٹ ویوز، سیلاب اور خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں کے بارے میں لکھنے کا موقع ملتا ہے۔ پاکستان میں 2022 کے سیلاب نے جس کو بڑے پیمانے پر “مونسٹر مون سون” کہا جاتا ہے، ملک میں ہر سات میں سے ایک شخص کو متاثر کیا اور تقریباً 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ اس کے بعد سے، دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں موسمیاتی تبدیلی گہری مشاہدے میں آئی ہے۔ اس کے باوجود، پورے خطے میں، میں نے دیکھا ہے کہ تباہی کی کوریج اکثر موسمیاتی تبدیلی کو پس پشت ڈالتی ہے، اسے ایک اہم شراکت دار کے بجائے ایک تجریدی اور مبہم پس منظر کے طور پر پیش کرتی ہے۔

    ورکشاپ کی سرگرمیوں، جیسا کہ مصنوعی گرمی کی لہر کے بحرانوں پر مبنی خبروں کی کہانیاں تیار کرنا، نے مجھے اس بات پر غور کرنے پر مجبور کیا کہ ہم پاکستان میں اپنی کہانیوں کو کس طرح ترتیب دیتے ہیں۔ کیا ہمارے پاس صحت اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان گٹھ جوڑ کو سمجھنے اور اس موضوع پر مؤثر طریقے سے رپورٹ کرنے کے اوزار، ڈیٹا اور سائنسی معلومات ہیں؟ ورکشاپ کے دوران ہونے والی گفتگو سے ظاہر ہوا کہ ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک میں صحافیوں کو درپیش چیلنجز مشترکہ ہیں۔

    رپورٹنگ میں درپیش مسائل کی نشاندہی

    مقررین اور ٹرینرز نے موضوعات کی ایک وسیع فہرست پر خطاب کیا، لیکن چند اہم موضوعات تھے، جو ان کی اہمیت کو ظاہر کرتے تھے۔ ان میں صحت عامہ کے بحرانوں میں تیزی کی وجہ کے طور پر موسمیاتی تبدیلی کا کردار شامل ہے۔ ایشیا میں گرمی کے واقعات اور وہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی سے منسوب ہیں۔ مختلف ماحولیاتی نظاموں میں گرمی کے مختلف جسمانی اثرات کیسے دیکھے گئے ہیں۔ انسانوں کی کارکردگی اور معیشت پر ہیٹ ویو کے اثرات، اور گرمی سے ہونے والی اموات اور آفات کی اطلاع دینے کی اخلاقیات اور پیچیدگیاں۔ آب و ہوا کی کہانیوں کے سامعین کی نفسیات کو پہچاننے اور سمجھنے پر بھی توجہ دی گئی، غلط حل سے بچنے کی حکمت عملی اور موسمیاتی رپورٹنگ کے معیار کو کیسے بہتر بنایا جائے، یہ بھی بات چیت کا ایک حصہ تھا۔

    ایک گفتگو جنوب مشرقی ایشیائی آب و ہوا کی رپورٹنگ کے تجزیہ پر مرکوز تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تبادلوں نے دیہی اور شہری مقامات کے درمیان ٹائفون کی کوریج میں تفاوت، اور رپورٹنگ میں استعمال ہونے والی زبان میں فرق جیسے موضوعات کو اجاگر کیا۔ متعدد شرکاء نے بتایا کہ کس طرح مقامی پریس اکثر زیادہ مقامی رپورٹنگ فراہم کرتا ہے، جبکہ انگریزی زبان کا میڈیا پالیسی سازوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سیاسی اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا، اور صحافیوں نے بتایا کہ وہ فوسل فیول فیز آؤٹ کے ارد گرد حساس بات چیت کے بارے میں کیسے بات کرتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔ صحافیوں نے بتایا کہ بعض ممالک میں ان موضوعات کو اکثر قوم پرستانہ جذبات کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

    ایک خاص طور پر دلچسپ سیشن کی قیادت نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے ہیٹ ریزیلینس اینڈ پرفارمنس سنٹر کے پروفیسر جیسن لی نے کی اور اس سیشن نے زیادہ تر شرکاء کو متاثر کیا۔ پروفیسر لی نے شدید گرمی صحت کے پر اثرات اور بوڑھوں جیسی کمزور آبادی کے تحفظ کی ضرورت پر روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ کمیونٹی اور مذہبی رہنما شدید گرمی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لی نے انتہائی گرمی اور بڑھتی ہوئی جارحیت، جذباتی رویے اور خودکشی کی بلند شرح سے منسلک تحقیق کے بارے میں بات کی، اور ٹھنڈک کے لیے ایسے حل کی ضرورت کے بارے میں بات کی جو آسانی سے قابل رسائی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جگہ جہاں آرام سے چلنا ممکن نہ ہو وہ صحت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ “انسانی صحت اور تندرستی تین چیزوں پر منحصر ہے: اچھی خوراک، اچھی نیند، اچھی ورزش۔ اور تینوں چیزیں شدید گرمی سے متاثر ہوتی ہیں۔” لی نے مینڈکوں کو ابالنے کا استعارہ دے کر شدید گرمی کے واقعات کے اثرات پر تبصرہ کیا: “ہمیں آہستہ آہستہ پکایا جا رہا ہے اور ہمیں پتہ تک نہیں ہے۔”

    راکفیلر فاؤنڈیشن-لینسیٹ کمیشن برائے سیاروںپلینٹری ہیلتھ کہتا ہے کہ انسانی صحت اور زمین کی صحت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور یہ کہ “ہماری تہذیب انسانی صحت، پھلتے پھولتے قدرتی نظاموں اور قدرتی وسائل کے دانشمندانہ انتظام پر منحصر ہے۔ قدرتی نظاموں کو اس حد تک تنزلی کا سامنا ہے جس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہماری اور ہمارے سیارے کی صحت دونوں ہی متاثر ہیں۔” لی کے سیشن نے، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، اس بات پر زور دیا کہ یہ کتنا ضروری ہو گیا ہے۔

    جیسے ورکشاپ اپنے اختتام کو پہنچی، میں سوچ رہی تھی کہ پاکستان کے لیے زمینی صحت کا تصور کیا معنی رکھتا ہے۔ آخری بار کینوپی واک میں چہل قدمی کرتے ہوئے، میں نے لی کے سیشن کے بارے میں سوچا، اور محسوس کیا کہ پیدل چلنے کی سہولت اور گرمی سے بچنے والے شہری ڈیزائن کی ضرورت اس واک وے میں اچھی طرح جھلکتی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بہت گرمی پڑ سکتی ہے، اس طرح کا شہری انفراسٹرکچر جو آرام اور انسانی صحت کو ترجیح دیتا ہے دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک اچھی مثال ہے، کیونکہ ہماری دنیا شدید گرمی کا سامنا کر رہی ہے۔

    میں نے محسوس کیا کہ پلینٹری ہیلتھ صرف ایک علمی تصور نہیں ہے۔ انسانی سطح پر، انسانوں کی زندگی شدید گرمی اور آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات سے متاثر ہوتی ہے۔ ہم نے ڈائیلاگ ارتھ پر پاکستان میں خواتین پر موسمیاتی آفات کے اثرات، ماں اور بچے کی صحت پر گرمی کے اثرات، اور مون سون کے سیلاب سے بے گھر ہونے والی کمزور کمیونٹیزکے بارے میں لکھا ہے۔ لیکن اس ورکشاپ نے زیادہ مؤثر طریقے سے رپورٹ کرنے کے میرے عزم کو تقویت بخشی ہے، کیونکہ اس زمین کی سطح پر انسانوں کی زندگیاں کرہ ارض کی صحت سے جڑی ہوئی ہیں۔

    (فرح ناز زاہدی کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہ ہے)

  • کیا آپ فطرت (نیچر) کے بارے میں یہ باتیں جانتے ہیں؟

    کیا آپ فطرت (نیچر) کے بارے میں یہ باتیں جانتے ہیں؟

    فطرت (Nature) ایک وسیع اور بنیادی تصور ہے لیکن اس سے عام طور پر انسان کی پیدائشی حالت، اس کے بنیادی رجحانات اور وہ خصوصیات مراد لے لی جاتی ہے جو اسے فطری طور پر عطا کی گئی ہیں۔

    مگر فطرت ایک وسیع، خودمختار، اور پیچیدہ نظام ہے جو اربوں سالوں سے اپنے قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ یہ انسان سے الگ اور اس سے کہیں بڑا ہے، اور چاہے انسان موجود ہو یا نہ ہو یہ نظام اپنے بل پر چلتا رہتا ہے۔

    فطرت کا انسانی وجود سے آزاد پہلو


    قدرتی نظام (Natural Systems): فطرت کائنات کا وہ حصہ ہے جو اپنے اندرونی قوانین سے وجود میں آیا اور چل رہا ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے، سمندر، پہاڑ، اور زمین کے اندرونی عمل (جیسے زلزلے یا آتش فشاں)۔ یہ سب انسان سے آزاد ہیں اور اپنے فطری قوانین کے تحت کام کرتے ہیں۔

    حیاتیاتی تنوع (Biodiversity): فطرت میں تمام جان دار شامل ہیں، جیسے جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، پودے، اور جرثومے (Microorganisms)۔ یہ سب ارتقائی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئے اور انسان کے بغیر بھی اپنی زندگی کے چکر (Life Cycles) مکمل کرتے ہیں، جیسے شہد کی مکھیوں کا چھتا بنانا یا درختوں کا بڑھنا۔

    موسمی اور ماحولیاتی عمل (Environmental Processes): فطرت میں وہ تمام واقعات شامل ہیں جو انسان کے کنٹرول سے باہر ہیں، جیسے بارش، طوفان، موسموں کا بدلنا، یا سمندری لہروں کی حرکت۔ یہ عمل زمین کے فطری توازن اور سورج، چاند، اور سیاروں کے باہمی تعامل سے چلتے ہیں۔

    کیمیائی اور طبیعیاتی قوانین (Chemical and Physical Laws): فطرت کو چلانے والے بنیادی قوانین جیسے کشش ثقل (Gravity)، توانائی کا تبادلہ (Thermodynamics)، یا آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا چکر (Carbon Cycle) انسان سے آزاد ہیں۔ یہ قوانین کائنات کے آغاز سے موجود ہیں اور فطرت کے ہر جزو کو متاثر کرتے ہیں۔

    خودکار توازن (Self-Regulation): فطرت کا ایک اہم پہلو اس کا خود کو متوازن رکھنے کا نظام ہے۔ مثال کے طور پر، جنگلوں میں شکار اور شکار کرنے والے جانوروں کے درمیان توازن، یا سمندر میں پانی کے بخارات بننے اور بارش کا عمل، یہ سب انسان کی مداخلت کے بغیر چلتے ہیں۔

    فطرت کا انسانی وجود سے جڑا پہلو


    سائنسی طور پر فطرت کو عام طور پر انسانوں، جانوروں، پودوں اور مجموعی طور پر کائنات کے فطری نظام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے حیاتیات، جینیات، اور ارتقائی سائنس (Evolutionary Science) کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ فطرت کا وہ پہلو ہے جو انسان کے وجود سے جڑا ہوا ہے۔

    جینیاتی بنیاد (Genetics): سائنس کے مطابق انسان کی فطرت کا بڑا حصہ اس کے جینز سے طے ہوتا ہے۔ جینز وہ بنیادی اکائیاں ہیں جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہیں اور ان میں انسان کی جسمانی خصوصیات (جیسے رنگت، قد) اور کچھ بنیادی رویوں کے رجحانات شامل ہوتے ہیں۔

    جبلت (Instincts): انسان اور دیگر جان داروں میں کچھ فطری رویے ہوتے ہیں، جو بغیر سیکھے موجود ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، نومولود بچے کا دودھ پینے کی کوشش کرنا یا خطرے سے بچنے کی جبلت۔ یہ ارتقائی عمل (Evolution) کا نتیجہ مانے جاتے ہیں جو بقا کے لیے ضروری ہیں۔

    دماغ اور رویہ (Brain and Behavior): سائنس کہتی ہے کہ انسان کا دماغ (خاص طور پر نیورو کیمیکلز جیسے ڈوپامائن اور سیروٹونن) اس کی فطرت کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، سماجی تعلق قائم کرنے کی خواہش یا خوف کا ردعمل دماغ کے فطری نظام کا حصہ ہیں۔

    ماحول سے تعامل (Interaction with Environment): اگرچہ فطرت جینیاتی طور پر طے ہوتی ہے، لیکن سائنس یہ بھی مانتی ہے کہ ماحول (Nurture) اسے شکل دیتا ہے۔ اسے ’’نیچر بمقابلہ نیچر‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یعنی فطرت اور تربیت مل کر انسان کے رویوں اور شخصیت کو تشکیل دیتے ہیں۔

    ارتقائی نقطہ نظر (Evolutionary Perspective): ارتقائی حیاتیات کے مطابق فطرت میں موجود خصوصیات وہ ہیں جو لاکھوں سالوں کے دوران بقا اور تولید (Survival and Reproduction) کے لیے موزوں ثابت ہوئیں۔ مثلاً انسان کا سماجی ہونا اسے گروہوں میں زندہ رہنے میں مدد دیتا ہے۔

    سائنسی طور پر انسانی فطرت کو جامد چیز نہیں، بلکہ ایک متحرک عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو جینیات، دماغی ڈھانچے اور ارتقائی دباؤ سے مل کر بنتا ہے۔ نیورو سائنس کے تناظر میں انسانی فطرت (Human Nature) کو دماغ کے ڈھانچے، اس کے کیمیائی عمل، اور عصبی نظام (Nervous System) کے فطری رجحانات کے ذریعے سمجھا جاتا ہے۔ جس کے مطابق انسان کے بنیادی رویے، جذبات، اور فیصلہ سازی کا تعلق دماغ کے فطری نظام سے ہے۔

    انسانی فطرت نیورو سائنس کے تناظر میں


    دماغ کا ڈھانچا (Brain Structure): انسانی دماغ 3 بنیادی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جو فطرت کا حصہ ہیں: ریپٹیلین دماغ (Reptilian Brain) جو بنیادی جبلتوں (جیسے بھوک، خوف، بقا) کو کنٹرول کرتا ہے، لمبک سسٹم (Limbic System) جو جذبات (محبت، غصہ، خوشی) سے جڑا ہے، اور نیو کورٹیکس (Neocortex) جو سوچ، منطق، اور زبان کے لیے ذمہ دار ہے۔ یہ تمام حصے ارتقائی طور پر مختلف مراحل میں تیار ہوئے ہیں اور ان سے انسان کی فطرت متشکّل ہوئی ہے۔

    نیورو کیمیکلز (Neurochemicals): دماغ میں موجود کیمیائی مادے جیسے ڈوپامائن (خوشی اور انعام کا احساس)، سیروٹونن (مستقل مزاجی اور اطمینان)، آکسیٹوسن (سماجی تعلق اور اعتماد)، اور کورٹیسول (تناؤ) انسان کے فطری رویوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ماں اور بچے کے درمیان محبت کا رشتہ آکسیٹوسن کی وجہ سے فطری طور پر مضبوط ہوتا ہے۔

    جبلی ردعمل (Instinctual Responses): نیورو سائنس کے مطابق انسان کے کچھ ردعمل فطری طور پر دماغ میں پروگرامڈ ہوتے ہیں۔ جیسے فائٹ یا فلائٹ (Fight or Flight) ردعمل، جو ایمیگڈالا (Amygdala) نامی دماغ کے حصے سے کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ خطرے کے وقت خود بخود متحرک ہوتا ہے۔ یہ دماغ کے لمبک سسٹم میں بادام کی شکل کا ایک اسٹرکچر ہے۔ اسی طرح، سماجی تعلق کی خواہش دماغ کے انعامی نظام (Reward System) سے جڑی ہے۔

    جینیاتی اثر (Genetic Influence): نیورو سائنس جینیات کے ساتھ مل کر بتاتی ہے کہ دماغ کی ساخت اور اس کے نیٹ ورکس جینز سے وراثت میں ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں میں تناؤ یا پریشانی کا زیادہ رجحان ان کے دماغ کے کیمیائی توازن اور جینیاتی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    سماجی فطرت (Social Nature): انسان کا سماجی ہونا بھی نیورو سائنسی طور پر اس کے دماغ سے جڑا ہے۔ مرر نیورونز (Mirror Neurons) انسان کو دوسروں کے جذبات سمجھنے اور ان کی نقل کرنے میں مدد دیتے ہیں، جو تعاون اور گروہی زندگی کے لیے فطری ہیں۔ یہ سماجی رجحانات ارتقائی طور پر انسان کی بقا کے لیے اہم رہے ہیں۔

    لچک اور سیکھنے کی صلاحیت (Plasticity): دماغ کی نیورو پلاسٹیسٹی (Neuroplasticity) انسانی فطرت کا ایک انوکھا پہلو ہے۔ یعنی، اگرچہ کچھ چیزیں فطری ہیں، لیکن دماغ ماحول سے سیکھ کر خود کو تبدیل بھی کر سکتا ہے۔ یہ فطرت اور تربیت (Nature vs. Nurture) کے تعامل کو ظاہر کرتا ہے۔

    فطرت اور ادب


    اگرچہ انسان خود کائنات میں پھیلی عظیم تر فطرت کے بے شمار مظاہر میں سے ایک مظہر ہے، تاہم ادب میں فطرت کو زیادہ تر انسان کے مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ دونوں ہم آہنگ دکھائی دیتے ہیں، جیسے قدیم دیہاتی کہانیوں میں، اور کبھی متضاد، جیسے جدید ادب میں جہاں انسان فطرت کو تباہ کرتا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی ناول The Old Man and the Sea میں فطرت (سمندر) اور انسان کے درمیان کشمکش دکھائی گئی ہے۔

    فطرت اور ادب کا رشتہ بہت گہرا اور قدیم ہے۔ ادب میں فطرت کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے—کبھی اسے انسان کے جذبات کا آئینہ دار بنایا جاتا ہے، کبھی اس کی خوب صورتی کو سراہا جاتا ہے، اور کبھی اسے ایک علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رومانوی شاعروں جیسے ولیم ورڈز ورتھ اور جان کیٹس کی نظمون میں فطرت مرکزی موضوع رہا، ورڈز ورتھ کا یہ مشہور مصرعہ کتنا خوب صورت ہے ’’Nature never did betray the heart that loved her‘‘۔ یعنی جس دل میں فطرت کا پیار ہوتا ہے، اسے فطرت کبھی دھوکا نہیں دیتا۔

    ایک طرف اگر ادیبوں نے فطرت کو ایک روحانی قوت کے طور پر دیکھا، تو دوسری طرف صنعتی انقلاب اور ماحولیاتی مسائل کے بعد ادب میں فطرت کو تباہی کے تناظر میں بھی دیکھا جانے لگا ہے، جدید ناولوں اور شاعری میں فطرت کی بربادی، آلودگی، اور انسان کے ہاتھوں اس کی بے توقیری کو موضوع بنایا گیا۔

    کیا فطرت بے رحم ہے؟


    بعض اوقات فطرت کو بے رحم کہہ دیا جاتا ہے، اس سوال کا جواب نقطہ نظر پر منحصر ہے۔ سائنسی طور پر فطرت کوئی شعوری ہستی نہیں ہے جو رحم یا بے رحمی کا فیصلہ کرے۔ یہ صرف اپنے قوانین کے تحت کام کرتی ہے، جیسے کشش ثقل، موسم، یا ارتقائی عمل۔ مثال کے طور پر زلزلے، طوفان، یا شکار کرنے اور شکار ہونے کا نظام، یہ فطرت کے عمل ہیں جو کسی جذبات سے متاثر نہیں ہوتے۔ اگر ایک شیر ہرن کا شکار کرتا ہے، تو یہ بے رحمی نہیں، بلکہ فطرت کا توازن ہے، کیوں کہ یہ شیر کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح بیماری یا قدرتی آفتیں بھی فطرت کے عمل کا حصہ ہیں، نہ کہ کوئی دانستہ ظلم۔

    فلسفیانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ کچھ فلسفی فطرت کو بے رحم سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ انسان کے جذبات یا اخلاقیات کی پروا نہیں کرتی۔ مثال کے طور پر تنہائی یا موت کے خوف سے دوچار انسان فطرت کے سامنے خود کو بے بس پا سکتا ہے۔ لیکن دیگر فلسفی جیسے کہ رومانوی مفکرین فطرت کو ایک خوب صورت اور رحم دل قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو سکون اور تحریک دیتی ہے، جیسے بہار کے پھول یا سمندر کی لہریں۔

    انسانی تجربہ یہ ہے کہ جب فطرت کی تباہ کاریاں، جیسے سیلاب، زلزلے، یا وبائیں، انسانوں کو نقصان پہنچاتی ہیں تو لوگ اسے بے رحم سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن یہ بے رحمی فطرت کی جانب سے کوئی ارادی عمل نہیں، بلکہ اس کے غیر جانب دار قوانین کا نتیجہ ہے۔

  • ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    حال ہی میں نیٹ فلیکس نے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ نشر کی ہے، جو فی الحال چار اقساط پر مشتمل ہے اور اسے دنیا بھر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس ویب سیریز میں دو باتیں بہت کمال ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق انسان کے اندر موجود جوہر اور اس کی صلاحیتوں‌ سے ہے اور دوسری تیکنیکی ہے۔

    پہلی بات اس کا ”ون ٹیک فارمیٹ“ پر بنایا جانا ہے۔ یعنی ہر قسط بغیر کوئی سین کاٹے یا ایڈٹ کیے، ایک ہی بار میں شوٹ کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک گھنٹے کی قسط کو ایک ہی مرتبہ پکچرائز کیا گیا ہے، جو ویب سازی کی دنیا میں ایک انقلابی نوعیت کا کام ہے۔

    اس ویب سیریز کی دوسری کمال بات مرکزی کردار نبھانے والے وہ بچہ ہے، جس نے اپنی زندگی میں پہلی بار اداکاری کی اور اس کی پرفارمنس دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بڑے بڑے اداکاروں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی ہیں۔

    دوستو! ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کا تفصیلی تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    یہ کہانی ایک نفسیاتی جرم کے ارتکاب پر مبنی ہے، جس میں ملزم، جو بعد میں مجرم ثابت ہو جاتا ہے، ایک 13 سالہ بچہ ہے۔ اس ویب سیریز کی آفیشل ٹیم نے اس کہانی اور ویب سیریز کے لیے لفظ ”ڈراما“ استعمال کیا ہے، جو کسی بھی طورپر درست نہیں ہے، کیونکہ یہ کہانی ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے، جس کا تذکرہ آگے آئے گا، لیکن اس کے ایک خالق جیک تھرون اس بات کا انکار کرتے ہیں۔

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال جیک تھرون اور اسٹفین گراہم نے تشکیل دیا اور اس کو لکھا بھی ہے۔ اس تیرہ سالہ بچے کو جس کا نام جیم ملر ہے۔ پوری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔کہانی کے کرداروں کی ترتیب، کہانی آگے بڑھانے کا طریقہ اور اس میں مسلسل تجسس برقرار رکھنے کا ہنر کام یابی سے برتا گیا ہے۔

    یہ ایک ایسے کمسن بچے کی کہانی ہے، جو ایک برطانوی قصبے میں رہائش پذیر ہے۔ وہ اسکول میں پڑھتا ہے اور سوشل میڈیا پر متحرک ہے۔ مغرب میں اکثر اسکولوں میں جس طرح بچوں میں آپس میں تعصب پر مبنی خیالات پائے جاتے ہیں، وہی اس کہانی میں بھی شامل ہیں۔یہ بچہ (جو تیزی سے بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہے) کیسے اپنی ایک ہم جماعت کے قتل میں ملوث ہو جاتا ہے، اس کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں اور پھر برطانوی نظامِ قانون کیسے اسے اپنے دائرے میں لیتا ہے، ان سب پہلوؤں کو بہت خوبی سے کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔

    ویب سازی

    اس ویب سیریز کی سب سے کمال بات اس کا ون ٹیک فارمیٹ پر بنایا جانا ہے۔ اس کی کل چار اقساط ہیں اور ہر قسط ایک گھنٹے کی ہے جسے مسلسل ایک ہی ٹیک میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے بظاہر کوئی تکنیکی غلطی بھی نظر نہیں آتی بلکہ کئی جگہوں پر بغیر کیمرہ بند کیے جس طرح کردار سے کردار کو بدلا گیا ہے، وہ لاجواب ہے۔ اس ویب سیریز میں کاسٹنگ کا انتخاب بھی قابل داد ہے۔ اس میں جس طرح ایک نئے بچے کو موقع دیا گیا، اور اس نے اس موقع سے اپنی زندگی بدل دی، یہ قابلِ تعریف ہے۔ یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں‌ ہوتی کہ یہ بچہ آنے والے وقت کا ایک بڑا اداکار ہے۔

    ایک ہی وقت میں پوری قسط کو شوٹ کرنے کی غرض سے ایک رن تھرو بنایا گیا اور ہر قسط دس بار شوٹ کی گئی اور اس میں سے جو سب سے بہتر شوٹ ہوا، اس کو حتمی شکل دے دی گئی۔ ایک قسط شوٹ کرنے میں تین ہفتے لگے اور چار مہینوں میں اس کا مکمل کام ختم کر لیا گیا۔ یہ ویب سیریز 93 ممالک میں ٹاپ 10 کے چارٹ پر نمبر ون رہی ہے اور یہ بھی اس کا ایک کمال ہی ہے۔ ایڈولیسنس“ کے پروڈیوسروں میں کئی بڑے نام شامل ہیں، جن میں سے ایک امریکی اداکار بریڈ پٹ ہیں۔

    ہدایت کاری اور فن کاروں کا انتخاب

    برطانیہ کے معروف ہدایت کار فلپ بارنٹینی جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا، اب بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر کے فلم بینوں‌ کو حیران کر دیا ہے۔ اس ویب سیریز میں سنیماٹوگرافی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس پر تمام کیمرہ مین اور ٹیم بھی قابل داد ہے، جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو بروئے کار لا کر اس ویب سیریز کو یادگار بنا دیا۔

    ویب سیریز کی خاص بات اس بچے کی دریافت ہے، جس نے اس میں مرکزی کردار نبھایا ہے۔ اس کا نام اون کوپر ہے۔ یہ ایک کاسٹنگ ڈائریکٹر شاہین بیگ کی دریافت ہے۔ وہ ایسے اداکاروں اور کمیونٹی کے لیے کام کرتی ہیں، جنہیں کم توجہ ملتی ہے یا جن کے پاس شوبز کی چکا چوند میں نووارد ہونے کی وجہ سے آگے بڑھنے کے راستے کم ہوں۔ شاہین بیگ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ وہ پاکستانی نژاد ہیں اور چوں کہ اون کوپر شاہین بیگ کی دریافت ہے تو یہ بات پاکستانی کمیونٹی کے لیے بھی باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے ویب سیریز ایڈولیسنس“ کے اس مرکزی کردار کے لیے پانچ سو بچوں کے آڈیشن لیے تھے۔

    اداکاری

    ”ایڈولیسنس“ کے شریک خالق اور معروف اداکار اسٹیفین گراہم نے اس ویب سیریز کی تشکیل سے فلم بینوں‌ کو تو حیران کیا ہی مگر بطور اداکار بھی انہوں نے ویب سیریز دیکھنے والوں کے دل موہ لیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اداکاری نے ہر لمحہ ناظرین کو کہانی سے جوڑے رکھا اور اس ویب سیریز کے جتنے کلائمکس ہیں ان کا بوجھ بھی اسٹیفین گراہم‌ نے ہی اٹھایا ہے۔ ان کے ساتھ نو وارد اور کمسن اون کاپر نے بھی اپنی فطری اداکاری سے ویب سیریز کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس ویب سیریز میں دوسرے کم عمر بچے بھی دکھائی دیے ہیں، جنہوں نے اپنا کام بہت اچھے انداز میں کیا ہے، البتہ متذکرہ بالا دو مرکزی کرداروں کے علاوہ اگر کسی نے اپنی اداکاری سے دیکھنے والوں کو ششدر کیا ہے تو وہ ماہر نفسیات کا کردار نبھانے والی اداکارہ ایرن ڈوہرٹی ہیں۔ انہوں نے لاجواب اداکاری کی ہے۔ اس ویب سیریز میں ہمیں کئی پاکستانی اور انڈین نژاد اداکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 

    کہانی کا تنازع

    برطانیہ میں اس کہانی کی طرز پر ایک واقعہ کچھ برس پہلے رونما ہوا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ویب سیریز اسی کہانی کے اردگرد گھومتی ہے، جب کہ ویب سیریز کے آفیشلز نے اس سے انکار کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اصل واقعے میں ملوث کمسن بچہ سیاہ فام تھا جب کہ اس ویب سیریز میں سفید فام بچہ دکھایا گیا ہے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک نے نسلی تعصب کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

    کہانی کے پس منظر میں ایسا محسوس بھی ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس معاشرے میں نسلی امتیاز موجود تو ہے اور اسے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کی کہانی میں بھی ڈھکے چھپے انداز میں دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر جب ایک سیاہ فام تفتیشی افسر اتفاقاً اپنے بیٹے کے اسکول جاتا ہے، جہاں وہ خوف ناک واقعہ پیش آیا ہے، تو دکھایا گیا ہے کہ اس کا بیٹا کس طرح سے نسلی تعصب کا سامنا کرتا ہے۔ دوسری طرف ایک بڑی بات یہ بھی ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو بھی اس ویب سیریز نے بہت متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اس کے بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان سے ملاقات کی اور ویب سیریز کی تشہیر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    اختتامیہ

    مذکورہ ویب سیریز موجودہ دور میں بچوں کے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے نقصانات کا احاطہ کر رہی ہے اور اسے بچوں کو ضرور دکھانا چاہیے۔ ایسے موضوعات کو ان کے حقیقی پہلوؤں کے ساتھ پیش کیا جانا بھی ضروری ہے، یعنی اگر کوئی کہانی کسی سچے واقعہ پر مبنی ہے تو اس میں حقائق کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

    قارئین! اگر آپ ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اردو اور ہندی زبان سمجھنے والوں کے لیے اچھی خبر ہے کہ یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں بھی دیکھنے کے لیے موجود ہے۔

  • رابعہ نے ‘غیرت مند’ رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے کیے کا ‘خمیازہ’ بھگت لیا

    رابعہ نے ‘غیرت مند’ رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے کیے کا ‘خمیازہ’ بھگت لیا

    مصنّف:‌ سدرہ ایاز

    رابعہ کا ‘جرم’ پسند کی شادی کرنا تھا۔ اور اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ رابعہ کو مانسہرہ کے علاقے جابہ میں اس کے گھر میں قتل کردیا گیا۔ 4 اپریل کے اس درد ناک واقعے میں ‘قصور وار’ رابعہ کو ہی نہیں اس کی ڈیڑھ سالہ معصوم بیٹی کو بھی گولیاں‌ مار دی گئیں۔ معصوم بچی کو اس کا باپ اپنے کنبے کی کفالت کی خاطر اُس وقت پنگوڑے میں‌ چھوڑ گیا تھا جب وہ صرف دو ماہ کی تھی۔

    دہرے قتل کے اس واقعے کا مقدمہ درج کر کے دو ملزمان بھی دھر لیے گئے ہیں۔ مقتولہ کی ساس نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کی بہو سفاک اور بے رحم قاتلوں کو کہتی رہی کہ اس کی بیٹی کو کچھ نہ کہو، مگر انھیں اس معصوم پر ترس نہیں آیا اور ننھی کلی کو بھی روند کر چلے گئے۔ وہ ‘غیرت مند ‘جو تھے!

    رابعہ نے محمد عمر نامی شخص سے کورٹ میرج کی تھی کیوں کہ اس کا خاندان اس شادی پر رضا مند نہیں تھا۔ 2022 میں کورٹ میرج کے بعد یہ کنبہ کراچی میں قیام پذیر تھا اور وہیں رابعہ کے شوہر نے بہتر مستقبل کی خاطر سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی مانسہرہ میں اپنے سسرال منتقل ہو گئی اور وہیں رابعہ اور اس کی بیٹی کو رشتے داروں‌ نے قتل کردیا۔

    سوچتی ہوں کہ یہ غیرت ہمیشہ اسی وقت کیوں جاگ اٹھتی ہے جب لڑکی پسند کی شادی کے لیے گھر والوں‌ کے انکار پر مجبوراً کورٹ میرج کرتی ہے۔ عزت و آبرو اور خاندانی وقار پر دھبہ کیوں لگتا ہے جب لڑکی سنت کے مطابق نکاح کر کے زندگی کا نیا سفر شروع کرتی ہے۔ کوئی خونی رشتہ دار یا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ ایسی لڑکی کو قتل کیوں کردیتا ہے۔ اس میں بنیادی وجہِ عداوت کورٹ میرج اور سببِ شقاوت وہ غیرت ہوتی ہے جس کی تعریف اور تفہیم بھی ایسے ‘آبرو مند’ مرد من چاہی اور حسبِ خواہش ہی کرتے رہے ہیں۔

    والدین، بھائیوں، چچا ماموں یا دوسرے خونی رشتوں کو کبھی اس بات پر بھی شدید تکلیف ہوتی ہے جب خاندان میں کسی لڑکی کا جائیداد میں حق مارا جاتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی بڑی ناانصافی کی جاتی ہے۔ کسی لڑکی کو جب ماں باپ کے انتقال کے بعد اس کے ظالم بھائی، چچا یا ماموں وغیرہ گھر سے نکال دیں اور زمین یا مال ہتھیا لیں تو کیا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ اس کا مقدمہ لڑنا چاہتا ہے اور جوش میں آکر قتل جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے؟ ایسا کوئی واقعہ یا خبر میں‌ نے تو نہیں سنی۔

    اسلام عورت کو پسند کی شادی کا حق دیتا اور یہ وہ بات ہے جسے کوئی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور نیم خواندہ شخص بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن مردوں کے اس معاشرے میں چوں کہ غیرت کی تعریف، اور اس کی تفہیم کرتے ہوئے صرف مرد ہی بوقتِ ضرورت خود کو غیرت مند ثابت کر سکتا ہے، اس لیے اسلامی تعلیمات پر غور کرنے اور قانون کو سمجھنے کی شاید ضرورت ہی نہیں ہے۔

    عربی زبان کا یہ لفظ ہمیں لغت میں ملتا ہے جس کا ایک معنی احساس عزت، عزت نفس کا لحاظ ، مقدس اور محبوب شے کا خیال رکھنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جلن حسد اور رقابت کا احساس بھی اسی لفظ سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ معاشرہ میں کوئی انسان ان اوصاف کی بنا پر خود کو مثبت اور تعمیری سوچ کا حامل ثابت نہیں کرسکتا، اس لیے من چاہی تفہیم کی جاتی رہی ہے۔ یہ لفظ اور اس سے جڑا ہوا مخصوص تصور ہمارے خطے میں صدیوں سے عورت کو کچلتا، پامال کرتا اور اس کی جان لیتا رہا ہے اور آج کے جدید دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    اس پدر سری معاشرے میں عورت پر آج بھی اپنی حاکمیت کی دھونس جمانے اور برتری قائم رکھنے کے لیے غیرت کے روایتی تصور کو برقرار رکھا گیا ہے۔ عورت طلاق کا مطالبہ کرے تو بھی مرد کی غیرت پر حملہ ہوتا ہے اور مرضی کی شادی کرنا چاہے تو باپ اور بھائی کی عزت اور آبرو پر حرف آتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ اپنی ہی بیٹی اور بہن کو قتل کر سکتے ہیں۔

    ملک میں‌ غیرت کے قانون سے متعلق دستیاب معلومات کے مطابق 2004 میں ‌حکومت نے ایسے جرائم کو حکومت کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے پسند کی شادی اور دوسرے معاملات میں‌ عورت کا غیرت کے نام پر قتل بھی معافی اور خوں بہا سے منسلک رہا ہے جس کا فائدہ اسی کو ہوتا ہے جس نے خاندان کی آبرو کے نام پر عورت کا قتل کیا ہو۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس قاتل کو مقتولہ کے دوسرے رشتے دار معاف کر دیتے ہیں اور وہ عدالت سے بری ہو جاتا ہے۔ 2016 میں اس قانون میں مزید ترامیم کی گئیں مگر اس وقت تک ترامیم میں معافی اور ازالے کی شقیں واپس نہیں لی گئی تھیں البتہ جج کی صوابدید بڑھا دی گئی تھی۔

    ہم دیکھتے ہیں‌ کہ پسند کی شادی کرنے پر قتل ہونے والی لڑکیوں کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں، ناخواندہ یا قبیلہ اور برادری نظام کے تحت چلنے والے خاندانوں سے ہوتا ہے۔ شہری علاقوں‌ میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں مگر ان کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ بہرحال، اس حوالے سے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے علاوہ حکومتی سطح پر خاندانی نظام یا برادری سسٹم کی قیادت کے توسط سے لوگوں کو اس ظلم کے خلاف شعور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کو سمجھانا ہوگا کہ کوئی بھی عاقل و بالغ لڑکی اپنے شریک حیات کا انتخاب خود کر سکتی ہے اور اسے پسند کی شادی کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے۔ حکومتی وفد ایسے علاقوں میں بھیجے جائیں جہاں ان واقعات کی شرح زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کوئی جامع پروگرام ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی اراکین کی جانب سے مذمت کی جانی چاہیے اور اس کی میڈیا پر تشہیر بھی لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لاسکتی ہے۔

    شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے ہوئے اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین اور خاندان کے بزرگوں کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے سائے میں نئی زندگی کا آغاز کریں لیکن جب صورت حال مختلف ہو اور لڑکی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہو اور ایسی کوئی وجہ نظر نہ آتی ہو جس سے اس کا مستقبل خراب ہوسکتا ہے تو خاندان کو بھی اس کی خوشی کا احترام کرنا چاہیے۔ آخر پسند کی شادی کے بعد والدین اور گھر والے کسی لڑکی کو اپنا رشتہ نبھانے اور ازدواجی زندگی کو پائیدار بنانے میں اس کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتے۔ کیا ایسی لڑکی سے جینے کا حق چھین لینا ہی غیرت ہے؟

  • چمیپئنز ٹرافی: بہت بے آبرو ہو کر ’’اپنے ہی‘‘ کوچے سے ہم نکلے

    چمیپئنز ٹرافی: بہت بے آبرو ہو کر ’’اپنے ہی‘‘ کوچے سے ہم نکلے

    مرزا غالب نے اپنا شعر اس مصرعِ ثانی ’’بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ کے ساتھ باندھا تھا، مگر پاکستانی کرکٹ ٹیم نے اپنی ہی میزبانی میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے ایک میچ میں جس بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس نے ہمیں مرزا غالب کے اس مشہور شعر کے مصرع میں تحریف کرنے پر مجبور کر دیا۔

    پاکستان کو 29 سال بعد کسی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ روایتی دشمنی میں کھیل کے میدان میں‌ بھارت نے ہمیں اس سے محروم کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے آزمائے جس میں ہمارا روایتی حریف تو ناکام ہوا لیکن ہمارے اپنوں نے جس بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس کے بعد ہمارے ذہن میں ایک بہت ہی عامیانہ شعر کا یہ مصرع ابھرا کہ ’’ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دَم تھا۔‘‘

    چیمپئنز ٹرافی کا شور کئی ماہ سے ہو رہا تھا جس کے میچز اب بھی جاری ہیں لیکن میزبان اور دفاعی چیمپئن صرف پانچ روز ہی میں ہی اس میگا ایونٹ سے ایسے باہر ہوا ہے جیسے مکھن سے بال یا دودھ سے مکھی نکال دی جائے۔

    پہلے نیوزی لینڈ اور پھر بھارت سے شرم ناک اور یک طرفہ شکستوں کے بعد قومی ٹیم خالی ہاتھ خاموشی سے وطن واپس لوٹ چکی ہے۔ میگا ایونٹ سے قبل ٹیم اور بورڈ میں جتنا شور بپا تھا اب اتنا ہی سکوت طاری ہے۔ شور مچ رہا ہے تو شائقین کرکٹ اور تجزیہ کارروں کے بحث ومباحثے میں، لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ میں یہ خاموشی کسی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ یہ خاموشی کیا طوفان اٹھاتی ہے یا سیدھے سادے الفاظ میں اس شکست کا ملبہ یا نزلہ کس پر گرایا جاتا ہے وہ وقت دور نہیں جب یہ سب آشکار ہو جائے گا۔

    چیمپئنز ٹرافی سے قبل باصلاحیت نوجوان اوپنر صائم ایوب اور پھر فخر زمان کا زخمی ہوکر میگا ایونٹ سے باہر ہونا یقینی طور پر پاکستان کے لیے سب سے بڑا شاک تھا لیکن انجریز کھیل کا حصہ ہیں۔ صائم ایوب کے بعد فخر زمان کے زخمی ہونا گرین شرٹس کے ذلت آمیز طریقے سے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کا جواز نہیں بنتا کیونکہ دیگر ٹیموں کے اہم کھلاڑی بھی زخمی ہوئے بلکہ آسٹریلیا کے تو ایک دو نہیں کپتان سمیت چار کھلاڑی میگا ایونٹ سے باہر ہوگئے لیکن ان کی جگہ آنے والوں نے انگلینڈ کے خلاف جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے یہ کمی ظاہر نہ ہوئی۔ یہاں نااہلی ثابت ہوتی ہے ہماری ٹیم منیجمنٹ کی جنہوں نے اپنی پوری بینچ نہیں بنائی اور کسی کھلاڑی کا متبادل تک تیار نہیں کر سکے۔

    چیمپئنز ٹرافی کے لیے تمام ٹیموں نے کئی ہفتے قبل اپنے اسکواڈز کا اعلان کر دیا تھا، لیکن میزبان پاکستان نے آئی سی سی کی ڈیڈ لائن سے کچھ وقت قبل ہی 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا۔ اسکواڈ کے اعلان میں اتنی تاخیر کے باعث سب کو توقع تھی کہ سلیکشن کمیٹی میگا ایونٹ کے لیے گوہر نایاب کھلاڑی سامنے لائے گی، لیکن جب اسکواڈ کا اعلان کیا گیا وہ بھی صرف ایک پریس ریلیز کے ذریعہ۔ یہ اعلان کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف تھا اور ایسے ایسے نام سامنے آئے، جو وہم وگمان میں بھی نہ تھے۔ سابق کرکٹرز تو اس کو سفارش اور پیراشوٹ سلیکشن بھی کہنے سے نہ کترائے۔

    جدت جہاں تمام شعبوں کو تبدیل کر رہی ہے، وہیں کرکٹ کو بھی تبدیل کر رہی ہے۔ اب کرکٹ تیز رفتار ہونے کے ساتھ کیلکولیٹڈ گیم بن چکا ہے۔ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والا زمانہ گیا، اب ہر پوزیشن کے لیے اسپیشلسٹ درکار ہوتے ہیں۔ سب کو توقع تھی کہ چیمپئنز ٹرافی پاکستان کی سر زمین پر ہو رہی ہے اور تمام ٹیمیں اپنے اسکواڈ میں دو، تین اور چار اسپنرز ساتھ لا رہی ہیں تو ہماری ٹیم جو ہوم گراؤنڈ پر کھیل رہی ہے اور حال ہی میں انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کو اسپن اسکواڈ سے زیر کیا تو لازمی اس میں یہ اسپنرز شامل ہوں گے لیکن جب اعلان ہوا تو صرف ایک اسپیشلسٹ اسپنر اور ایک ہی اوپنر دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔
    حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان چیمپئنز ٹرافی سے اسی وقت باہر ہو گیا تھا جب ان نادر اور نایاب کھلاڑیوں پر مشتمل اسکواڈ کا اعلان کیا گیا، جس میں صرف ایک اسپنر اور ایک اسپیشلسٹ اوپنر کے ساتھ اعلان کیا گیا۔ شائقین کرکٹ تو ٹھہرے جذباتی لیکن برسوں اس میدان میں کھیلنے والے سابق کرکٹرز بھی اس اعلان پر انگشت بدنداں ہوتے ہوئے بار بار اسکواڈ کو متوازن کرنے کے لیے مزید ایک اور اسپیشلسٹ اوپنر اور اسپنر کو شامل کرنے کا مشورہ دیتے رہے لیکن ہماری سلیکشن کمیٹی نہ جانے جاگتی آنکھوں کیا خواب دیکھ رہی تھی کہ اسپنرز کی مدد سے ہوم گراؤنڈ پر حالیہ کامیابیاں سمیٹنے کے باوجود ان فاسٹ بولرز پر تکیہ کیا جن کی وجہ سے ہم گزشتہ سوا سال میں ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے مرحلے میں اسی انداز سے ذلت آمیز طریقے سے باہر ہوئے تھے۔

    ٹی 20 ورلڈ کپ میں امریکا سے غیر متوقع شکست اور میگا ایونٹ سے اخراج کے بعد چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے دھواں دھار پریس کانفرنس کرکے ٹیم میں بڑی سرجری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن سرجری کیا ہوتی، اس کی جگہ پاکستان ٹیم قوم کو ایک اور نیا زخم دے گئی ہے۔

    ورلڈ کپ 2023 کی شرمناک شکست کے بعد ٹیم میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔ کئی بڑے نام والے کھلاڑیوں کو ڈراپ کر کے دورہ آسٹریلیا کے لیے ون ڈے میں نئے کھلاڑیوں کو اسکواڈ میں شامل کیا گیا اور ان میں سے کئی نے کارکردگی دکھائی اور 22 سال بعد ان کی سر زمین پر ون ڈے سیریز جیتی۔ اس کے بعد جنوبی افریقہ کو اسی کے میدانوں میں وائٹ واش کیا لیکن جب اپنے ہوم گراؤنڈ پر چیمپئنز ٹرافی کا موقع آیا تو نہ جانے کس بقراط نے مشورہ دیا یا کہیں سے فون آیا کہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کو ان کی سر زمین پر ناکوں چنے چبوانے والے ان کھلاڑیوں میں سے بیشتر کو باہر کر کے اور وننگ کمبی نیشن توڑ کر اچانک کئی سال سے ٹیم سے باہر فہیم اشرف اور خوشدل شاہ کو لایا گیا اور پھر نتیجہ سب نے ہی دیکھ لیا۔

    اس ذلت آمیز انداز سے ہوم گراؤنڈ پر ہی ایونٹ سے باہر ہونے پر کوئی ذمہ دار شرم تک محسوس نہیں کر رہا۔ لگتا ہے کہ سب کو تو سانپ سونگھ گیا ہے لیکن ہیڈ کوچ جو میگا ایونٹ کے دوران بھی نام نہاد فاسٹ ٹرائیکا سے جیت کی آس لگائے بیٹھے تھے اب پریس کانفرنس میں بھی ڈھٹائی سے ان ناکام کھلاڑیوں کا دفاع کر رہے ہیں۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کا تسلسل کے ساتھ آئی سی سی ایونٹ سے اس طرح ذلت آمیز اخراج میں کھلاڑیوں سے زیادہ پاکستان کرکٹ بورڈ سمیت ٹیم منیجمنٹ، سلیکشن کمیٹی کی قابلیت اور پالیسیوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ چیئرمین بورڈ کی تبدیلی، ان کے بدلتے ہی ٹیم منیجمنٹ کی تبدیلیاں، پالیسیوں میں عدم تسلسل۔ قومی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات اور انا نے آج قومی ٹیم کو اس جگہ پہنچا دیا ہے جہاں دنیائے کرکٹ کے بڑے کھلاڑی سابقہ عالمی چیمپئن کی حالت زار پر افسوس کرنے کے ساتھ اب پاکستان ٹیم کا شمار بنگلہ دیش اور زمبابوے سے بھی گئی گزری ٹیموں میں کر رہے ہیں۔

    اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ٹیم میں اب بھی سدھار کی گنجائش ہے؟ تو اس کا جواب ہے بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے، اگر اخلاص اور قومی جذبے کے ساتھ کوششیں کی جائیں تو اندھیرے اب بھی روشنی میں بدل سکتے ہیں۔ غلطیوں سے سیکھنا باشعور قوموں کا شعار ہے۔ ہم بہت غلطیاں کرچکے، اگر اب بھی غلطیاں نہ سدھاریں تو کرکٹ کا حال بھی عنقریب قومی کھیل ہاکی جیسا ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو شاید اچھا نہ ہو کیونکہ فرقہ واریت، لسانیت، صوبائیت اور سیاسی تفریق میں تقسیم اس قوم کو صرف ایک چیز ہی جوڑتی ہے اور وہ ہے کرکٹ۔ تو کرکٹ کو بچائیں ملک کے اتحاد کو بچائیں، پھر چاہے اس کے لیے بے رحمانہ اور سخت فیصلے کیوں نہ کرنے پڑیں۔ کاغذی ہیروز سے دامن چھڑا کر ایسے باصلاحیت لوگوں کو آگے لائیں جو پاکستان ٹیم کا مستقبل روشن کر سکیں کیونکہ پاکستان کرکٹ ہے تو کرکٹ میں بڑے نام بھی ہیں۔

  • آج کے دور میں پہلے شادی ضروری ہے یا کیریئر؟

    آج کے دور میں پہلے شادی ضروری ہے یا کیریئر؟

    تحریر: سائرہ فاروق

    پاکستانی سماج میں شادی کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی زندگی میں انتہائی اہم موڑ سمجھی جاتی ہے، جو نہ صرف دو افراد کو بلکہ دو خاندانوں کو بھی جوڑتا ہے۔ تاہم، بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے تقاضے اور ہماری ضروریات بھی بدل چکی ہیں۔

    ماضی میں روایتی طور پر لڑکیوں‌ کی شادی والدین اور خاندان کی اوّلین ترجیح ہوتی تھی جب کہ یہ خیال بھی عام تھا کہ لڑکے کی شادی کر دی جائے تو وہ معاشی طور پر جلد مستحکم ہوسکتا ہے۔ لیکن آج صورتِ حال مختلف نظر آتی ہے۔ موجودہ دور میں شادی کا نام لیتے ہی لڑکے اور لڑکیاں گویا بدکنے لگتے ہیں۔ نئی نسل کا خیال ہے کہ کیریئر پر فوکس کرنا ضروری ہے۔ وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟

    اس سوال کا جواب سماجی، معاشی اور نفسیاتی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا جاسکتا ہے۔

    سب سے پہلی بات کہ معاشی استحکام یا مالی آسودگی آج کے دور کی ایک بڑی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، وہاں شادی کے بعد یک دم اخراجات میں اضافہ اور مالی طور پر ذمہ داریاں اٹھانا مرد کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ شادی کے بعد صرف اسے ایک فرد کی نہیں بلکہ جلد ہی ایک کنبے کی ضروریات کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ اگر شادی سے پہلے مرد یا عورت دونوں میں سے کوئی ایک بھی معاش کی کسی بھی شکل میں اپنا کیریئر بنا لیتا ہے، تو بعد کی زندگی کافی حد تک آسان ہو سکتی ہے۔ وہ جوڑے جو کسی شعبے میں‌ قدم جما لینے اور قدرے مستحکم ہو جانے کے بعد شادی کرتے ہیں، عام طور پر مالی مسائل میں کم الجھتے ہیں اور زیادہ خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں۔

    دوسرا اہم پہلو خود مختاری ہے۔ شادی سے پہلے کیریئر بنانا اور معاشی طور پر مستحکم ہونا مرد اور عورت دونوں کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکیں۔پاکستانی سماج میں، خاص طور پر لڑکیوں کو شادی کے بعد اکثر اوقات مالی اور سماجی طور پر دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کے کئی اہم فیصلے خود نہیں کر پاتیں۔ شادی سے پہلے اگر ملازمت پیشہ یا کاروباری فرد کسی قدر بہتر مالی پوزیشن میں ہو اور مستحکم ہو رہا ہو، تو وہ اپنی زندگی کے فیصلے زیادہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف اس کی ذاتی زندگی بہتر ہوتی ہے بلکہ وہ ازدواجی زندگی میں بھی اعتماد اور عزت پاتا ہے۔

    تعلیم یا کوئی ہنر سیکھنے کے بعد ایک اچھی نوکری یا کاروبار شروع کرنا صرف مالی فوائد ہی نہیں دیتا بلکہ کسی فرد کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ شادی کے بعد کی زندگی میں کئی طرح کے چیلنج سامنے آ سکتے ہیں، جن کا مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط اعصاب اور ذہنی پختگی درکار ہوتی ہے۔ ایک کامیاب کیریئر ان دونوں چیزوں کو بڑھاتا ہے۔ جب کوئی فرد ہر لحاظ سے خود مختار ہوتا ہے تو وہ زیادہ بہتر انداز میں اپنے ازدواجی اور خاندانی تعلقات کو بھی چلا سکتا ہے۔

    پاکستانی معاشرت میں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ شادی کو زیادہ تر عورتوں کے لیے "زندگی کی سب سے بڑی کام یابی” سمجھا جاتا ہے، جب کہ مردوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شادی کے فوراً بعد ایک مضبوط کفیل بن کر سامنے آئیں۔ اس روایتی سوچ کی وجہ سے بہت سے نوجوان جذباتی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر وہ افراد جو کسی پیشہ کا تعین اور یافت و معاش کی بنیاد رکھے بغیر شادی کرتے ہیں، بعد میں مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ لڑکی کے لیے بھی شادی کے بعد کیریئر بنانا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ زیادہ تر لڑکیوں کو سسرال میں اس حوالے سے سپورٹ نہیں ملتی اور دوسری طرف وہ خود بھی گھریلو کاموں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔ اگر شادی سے پہلے پیشہ ورانہ سفر کا آغاز کیا جائے اور مالی استحکام یا کیریئر بنانے پر توجہ دی جائے تو بعد میں زندگی کو زیادہ متوازن رکھا جا سکتا ہے۔

    ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ بہترین کیریئر بنانے والے اور مالی طور پر مضبوط کسی بھی مرد کو زیادہ بہتر جیون ساتھی چننے کا موقع مل سکتا ہے۔ پاکستانی معاشرت میں شادی کے فیصلے اکثر والدین اور خاندان کے دباؤ میں کیے جاتے ہیں، اور نوجوانوں کو اپنے فیصلے کرنے کی زیادہ آزادی نہیں دی جاتی۔ جب کوئی فرد خود مختار ہو جاتا ہے، تو وہ اپنے لیے زیادہ بہتر فیصلے کر سکتا ہے۔ ایک بہتر یا مستحکم کیریئر رکھنے والا شخص شادی کے بعد جذباتی، سماجی اور مالی دباؤ کا کم شکار ہوتا ہے، جس سے ازدواجی تعلقات بھی زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔

    پاکستانی سماج میں طلاق اور ازدواجی مسائل کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مالی مشکلات، ذہنی دباؤ، اور غلط توقعات ہیں۔ اگر شادی سے پہلے کیریئر پر توجہ دی جائے تو ازدواجی زندگی کے عمومی مسائل کا حل آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم شادی کرنے والے لڑکے اور لڑکی دونوں کی بات کریں تو ایک ایسا جوڑا جو مالی طور پر آسودہ اور خود مختار ہو، وہ زیادہ بہتر انداز میں اپنی شادی شدہ زندگی کو سنبھال سکتا ہے اور ایک دوسرے کا ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے نبھا سکتا ہے۔

    کیریئر پر توجہ دینے کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر ازدواجی زندگی میں کسی بھی قسم کے مسائل پیدا ہوں، تو ایک فرد کے پاس خود کو سنبھالنے کا راستہ موجود ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں خواتین کو اکثر اوقات شادی کے بعد شوہر یا سسرال کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی شادی سے پہلے مالی طور پر مستحکم نہ سہی مگر اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی تو وہ کسی بھی ناخوش گوار صورتِ حال میں اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتی ہے۔

    دیکھا جائے تو شادی سے پہلے کیریئر بنانا صرف ایک خواہش نہیں بلکہ آج کے دور میں ایک ضرورت بن چکا ہے۔ مضبوط کیریئر اور بہتر مالی پوزیشن رکھنے والا شخص شادی کے بعد زندگی کے نشیب و فراز کا بہتر طریقے سے سامنا کر سکتا ہے اوراپنے مستقبل کے حوالے سے بھی مثبت اور دیرپا فیصلے کرسکتا ہے۔ شادی کرنے میں جذبات سے زیادہ حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے۔ ایک کام یاب اور خوش حال ازدواجی زندگی میں مضبوط کیریئر اور استحکام بہت اہمیت رکھتا ہے جس کے بغیر شادی تو ممکن ہے، مگر ایسے جوڑے کو زندگی کے کسی بھی موڑ پرغیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے نمٹنا اکثر مشکل ہوجاتا ہے۔

  • ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    پاکستان کے منظر نامے پر جہاں ایک طرف سیاسی میدان میں چلنے والی اکھاڑ پچھاڑ زور و شور سے جاری ہے، وہاں دوسری طرف چند برسوں سے ایک اور محاذ بہت شدت سے گرم رہا ہے، جس پر حکومتی سطح پر ’دشمن‘ سے ایک بڑی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس دشمن نے پوری دنیا میں پاکستان کے گرد ایک سرخ دائرہ بنا رکھا ہے۔ یہ دشمن ہے پولیو وائرس!

    اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو گزشتہ چند برسوں سے ملک بھر میں شد و مد کے ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور ابھی 3 فروری کو 2025 کی بھی پہلی قومی انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے، جس میں 4 کروڑ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ پاکستان سے ’’پولیو کا مکمل خاتمہ‘‘ حکومت کی اوّلین قومی ترجیح بنا ہوا ہے، اور وسیع سطح پر مہمات چلائے جانے کے باوجود یہ ایک حیران کن امر ہے کہ پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا، اور ملک کے مختلف حصوں سے نہ صرف پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز سامنے آ رہے ہیں بلکہ پولیو کیسز بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں 73 پولیو کیس سامنے آئے تھے، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔ یہاں تک گزشتہ 20 سالوں میں آزاد کشمیر سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، لیکن وہاں بھی سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلنے لگے ہیں، گزشتہ سال میرپور آزاد کشمیر، اور رواں برس آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سیمپلز مثبت نکلے ہیں۔

    دی ڈریمرز: ہیروز فائٹنگ فار آ پولیو فری پاکستان

    اگست 2024 میں جب راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے پاکستان کی تاریخ کے ایک دل کو چھو لینے والے پنّے کو پلٹا تھا، تو اسکرین پر ڈائریکٹر سید عاطف علی نے ننھے اقبال مسیح کی سچی کہانی کو بہت دل پذیر طور سے منتقل کر دیا تھا۔ وہ تاریخ کے چند اور حیران کن اوراق ہمیں دکھا چکے ہیں، جو ان کی فلم میکنگ کی مہارت کا بیّن ثبوت ہے۔ لیکن پھر پچھلی بار کچھ ایسا ہوا کہ جب انھوں نے بلوچستان میں موجود قدیم تاریخی مندر پر ’ہنگلاج کی دیوی‘ نامی ڈاکیومنٹری بنائی تو یوٹیوب پر ریلیز ہونے والی 43 منٹ کی اس دستاویزی فلم کے پریمیئر شو میں پہلی بار مایوسی کی لہر محسوس کی گئی۔ کم زور اسکرپٹ اور پیش کش کی وجہ سے اس پر کئی سوالات ذہن میں اٹھے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، کیوں کہ ڈائریکٹرز کی ہر کوشش ہٹ نہیں ہوا کرتی۔

    ’پری‘ اور ’پیچھے تو دیکھو‘ جیسی خوب صورت فلمیں بنانے والے سید عاطف علی نے جب اگلی دستاویزی فلم کے لیے پاکستان میں پولیو جیسے حساس موضوع کو چُنا تو موضوع کی وجہ سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتی تھیں۔ لیکن انھوں نے بڑے اعتماد اور شان دار طریقے سے اس طرح ’کم بیک‘ کیا کہ حساس اور خشک موضوع پر ایک سنسنی خیز دستاویزی فلم تخلیق کر دی۔ اپنے مواد کے حساب سے اسے اگر سنسنی خیز کہا جا سکتا ہے، تو دوسری طرف شان دار طریقے سے اسکرین پر اس کی منتقلی کو ڈائریکٹر کی ایک تخلیقی جست بھی کہا جا سکتا ہے۔ شروع سے آخر تک پوری ڈاکیومنٹری دیکھتے ہوئے کہیں ایک لمحے کے لیے محسوس نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کا کنیکشن اسکرین سے منقطع ہو گیا ہے۔ اس فلم میں اسکرین پر ان کی اسٹوری نریشن بہت طاقت ور رہی۔

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    راوا فلمز کے تحت بننے والی ان ڈاکیومنٹری فلمز کی منفرد بات یہ رہی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ان فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما میں اسکریننگ کی گئی، اور پریمیئر شو رکھے گئے، جن میں بڑی تعداد میں متعلقہ لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ لیکن اس سلسلے کو اچانک جھٹکا اس وقت لگا جب ’’دی ڈریمرز‘‘ کے سنسر سرٹیفکیٹ کے لیے سندھ بورڈ آف فلم سنسرز سے رابطہ کیا گیا۔ سندھ بورڈ آف فلم سنسرز نے اس ڈاکیومنٹری فلم کو سنسر سرٹیفکیٹ دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ بورڈ نے جائزے کے بعد اسے عوامی نمائش کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آخر قومی سطح کے ایک حساس موضوع پر بننے والی ایک دستاویزی فلم کو آخر کیوں لوگوں کے لیے نامناسب قرار دیا گیا، جب کہ اس میں شہریوں کو پولیو ویکسین کی اہمیت کا شدید احساس دلایا گیا ہے؟ بہرحال یہ فلم اب یوٹیوب چینل پر ریلیز کی جا چکی ہے، جہاں اسے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

    دی ڈریمرز میں ایسا کیا ہے؟

    پولیو ایسا وائرس ہے جس کے خلاف پاکستان کی وفاقی اور صوبائی وزارت صحت نے کئی برسوں تک تواتر کے ساتھ پوری شد و مد کے ساتھ مہمات چلائیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اس لیے اس کے بارے میں عام لوگوں تک ابتدائی آگہی پہنچ چکی ہے۔ کچھ منفی عناصر کی جانب سے پولیو ویکسین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا، اور کافی لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلاتے، تاہم زیادہ تر آبادی اس کے خلاف جنگ پر متفق ہے۔ حکومتی کوششوں کے سبب عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں پولیو کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ لیکن ایک اہم نکتہ جو اس دستاویزی فلم سے عام لوگوں کے سامنے ایک انکشاف کی صورت میں آتا ہے، وہ ایک ایسا محاذ ہے جس پر پولیو کے خلاف لڑائی کے بارے میں سرکار کبھی بات نہیں کرتی۔

    کیا صرف ویکسین کافی ہے؟

    1960 کی دہائی میں امریکا میں بھی پولیو کے لاکھوں کیسز تھے، لوگ قطاروں میں لگ کر ویکسین لگواتے تھے۔ لیکن صرف ویکسین ہی نہیں تھی جس نے وائرس کا خاتمہ کیا، بلکہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے سینیٹیشن کا نظام بہتر کیا، یعنی صحت اور صفائی کا نظام جس کی وجہ سے وائرس پوری طرح سے ختم ہو گیا۔ امریکا میں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں مہم چلائی گئی کہ عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم ہونا چاہیے، یہ مہم چلتے ہی پولیو کے کیسز کا گراف تیزی سے نیچے گرا، حالاں کہ اس وقت ان کی ویکسینیشن کی کوریج بھی 80 سے 85 فی صد تھی، جب کہ پاکستان میں کوریج 97 فی صد تک بھی جا چکی ہے لیکن پھر بھی یہاں سے پولیو ختم نہیں ہو رہا۔ جیسے ہی لوگوں کو پینے کا صاف ملنے لگا نہ صرف پولیو بلکہ دیگر کئی بیماریاں (جیسا کہ ہیپاٹائٹس اے، ٹائفائیڈ، کالرا)بھی ختم ہو گئیں۔

    ویڈیو میں کراچی میں سینیٹیشن کے نظام پر بات کی گئی، اور بتایا گیا کس طرح گھروں سے فضلہ نکلتا ہے اور پینے کے پانی کے نظام کے ساتھ باہم ملتا ہے، یہ اس حد تک مدغم ہے کہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے پانی لے ٹیسٹ کریں اس میں ای کولائی بیکٹیریا ملتا ہے۔ جن علاقوں کی ہائجینک صورت حال اچھی نہیں ہوتی، وہاں پولیو وائس پایا جاتا ہے۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کا ایک طریقہ ویکسین ہے اور دوسرا صحت و صفائی۔ اگر یہ دونوں ایک ساتھ روبہ عمل نہیں لائے جاتے تو پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت کی انسداد پولیو کی کوششوں پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس سے ایک سادہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومتوں کو پہلے اپنی تمام آبادی کو پوری ایمان داری کے ساتھ پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہوگا اور علاقوں میں صفائی کا نظام بہتر بنانا ہوگا۔ تو کیا پاکستان میں حکومتی رویے اور اقدامات دیکھ کر ایسا کچھ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟ یہ وہ بڑا سوال ہے جس سے حکومتیں ہمیشہ خائف رہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اس حد تک ایکسپوز ہو چکی ہیں کہ کوئی بھی پاکستانی ان سے اس کی امید نہیں رکھتا۔

    اس ڈاکیومنٹری فلم میں ایک اور اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ لوگ حقیقتاً اب پولیو ویکسین کے قطرے اپنے بچوں کو پلا پلا کر تھک چکے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ویکسین کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈے پر بھی آسانی سے یقین کر لیا ہے۔ ایک شخص اپنے بچپن سے یہ قطرے پیتا آ رہا ہے اور پھر اس کے بچوں نے پیے اور اب اس کے پوتے پوتیاں قطرے پی رہے ہیں، لیکن اس میراتھن ریس میں خاتمے کا نشان قریب نہیں آ رہا۔ نائجیریا جیسے ملک نے بھی اس کا خاتمہ کر لیا ہے، اور وہ اس حوالے سے آخری ملک ہے، جس کے بعد اب دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان دو ملک پولیو متاثرہ رہ گئے ہیں۔

    سرکاری حکام اس بارے میں بتاتے ہیں کہ افغانستان میں حکام کا پولیو کے پھیلاؤ پر قابو نہیں ہے، اور چوں کہ سرحد پر افغانستان سے آبادی کی نقل و حرکت بہت زیادہ اور آزادانہ ہے، اس لیے وہاں سے پولیو وائرس منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بارڈر پر دونوں طرف پولیو ٹیمیں اب مستقل طور پر تعینات رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والوں کو پولیو قطرے پلائے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس حوالے سے دونوں ممالک میں اب ایک ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغانستان کی نسبت پولیو کیسز زیادہ ہیں۔ اس لیے حکام کے طرف سے پڑوسی ملک پر بار ڈالنے کے بیانات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے کہ یہ ایٹمی ملک کب پولیو کا خاتمہ کرتا ہے۔ پولیو مہمات کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ہماری اتھارٹیز ان کا جواب نہیں دے پائیں۔

    کرپشن کی سطح

    ڈاکیومنٹری میں ہیلتھ جرنلسٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب پاکستان میں کوئی بچہ پولیو وائرس سے معذور ہوتا ہے تو ملک میں کچھ لوگ مزید امیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو پولیو پروگرام سے برسوں سے وابستہ ہیں اور انھوں نے جائیدادیں بنا لی ہیں، اور وہ ارب پتی ہو گئے ہیں۔ ویڈیو میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پولیو پروگرام کو لوگوں کی دولت میں اضافے کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ بہ طور قوم ہم پولیو کے خاتمے میں مکمل طور پر کیوں ناکام ہوئے۔ اس میں وہ آنکھیں خیرہ کرنے والے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں کہ ورلڈ بینک سمیت کس کس ادارے نے پولیو کے خاتمے کے لیے اربوں ڈالر پاکستان کو دیے۔ پیسہ بے حساب آیا، لیکن وائرس ختم نہیں ہوا۔ آخر ذمہ دار کون ہے؟ یہ خطرناک پوائنٹ آف ویو سامنے رکھا گیا ہے کہ اگر کہیں کنفلیکٹ آف انٹرسٹ ہے تو آپ چاہیں گے کہ بیماری ختم نہ ہو، چاہیں گے کہ لوگ پولیو ویکسین کے قطرے نہ پلائیں، یعنی جو کام کرنا ہے وہ نہیں کرنا، اور روڑے اٹکا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک بتایا گیا کہ کوریج اتنی نہیں تھی جتنا رجسٹر بھر بھر کر ظاہر کیا گیا۔ یہ دستاویز ہمیں ’فیک فنگر مارکنگ‘ کے بارے مین بھی کھل کر بتاتی ہے، جس کے بارے میں میڈیا میں کبھی بات نہیں کی جاتی۔ پولیو مہمات کے دوران ڈرائیور، مالی اور چوکیداروں کو یونین کونسلز کے میڈیکل آفیسرز لگانے کی نشان دہی کی۔ کمیونکیشنز کے لیے ایسے لوگوں کی بھرتی پر بات کی گئی جنھوں نے پیسے اینٹھنے کے لیے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو بھرتی کیا۔ یہ ڈاکیومنٹری بہت درد مندی سے بتاتی ہے کہ دوسروں کے بچوں کی معذوری اور لاشوں پر امیر ہونے کا یہ سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔

    پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا

    اس ڈاکیومنٹری میں پولیو ویکسین کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر وسیع طور پر بات کی گئی ہے، اور اس کے سبھی پہلوؤں کو بہت اچھے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کو اس کا بات کا ادراک بھی نہیں ہوگا کہ ماضی میں کراچی کے ایک ’مقبول‘ اخبار نے اس کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں پولیو ورکرز کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ 2019 میں سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈے کے باعث عارضی طور پر پولیو پروگرام کو روکنا پڑ گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے ہونے والی منفی سرگرمیوں پر بات کی گئی۔ خود ساختہ اور عاقبت نا اندیش عالموں کی مخالفانہ روش کو نمایاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیو سے متعلق اس ڈاکیومنٹری میں ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب ناظرین اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کو اس سارے مسئلے سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں، کہ کس طرح شکیل آفریدی نے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کے بارے میں معلومات سی آئی اے کو فراہم کیں، جس کی وجہ سے جہادی عناصر میں پولیو ورکرز کے خلاف شدید غصہ پیدا ہوا۔ مختصر یہ کہ ایسے حالات بن گئے ہیں کہ بقول پولیو ورکر صبا علی ہم بارڈر پر بھی لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہاں پولیو ورکرز کو بھی مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ امریکی اور یورپی ورکرز کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ ڈیوٹی کے دوران مارے جاتے ہیں تو انھیں حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے ملتے ہیں۔ ویڈیو میں یہ قضیہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جو پولیو ورکر مارے جاتے ہیں ان کے گھر والوں کی اچھے سے کفالت کی جانی چاہیے۔

    صرف یہی نہیں، اس ڈاکیومنٹری فلم کا ایک بڑا قصور یہ بھی ہے کہ اس کا اختتام پریشان کن اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ پاکستان سے پولیو وائرس کے خاتمے کی ایک امید کے ساتھ کیا گیا ہے۔