Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • تہذیبِ گم گشتہ کی کہانی اور عہدِ موجود کے زوال کا بیان۔ مذاقِ خاص

    تہذیبِ گم گشتہ کی کہانی اور عہدِ موجود کے زوال کا بیان۔ مذاقِ خاص

    دنیا بھر میں تین ایسے فنون ہیں، جن کو پرفارمنگ آرٹس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، وہ تھیٹر، موسیقی اور رقص ہیں۔ پاکستان میں موسیقی کو سب سے زیادہ عروج ملا۔رقص تو کسی طور اپنا نام ٹھیک طور سے درج ہی نہ کروا سکا۔ باقی رہ گیا تھیٹر، تو اس فن کے نام پر کچھ کام ہوا، مگر اس تناظر میں ہونے والی تمام کوششیں انفرادی تھیں۔ کسی ادارے کے تحت جو کام ہوا، اس میں صرف دو ادارے "نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس” اور "کراچی آرٹس کونسل” دکھائی دیتے ہیں، جن میں سے اوّل الذکر تو مغربی ڈراما نگاری کے اثر سے تاحال باہر نہیں آسکا، البتہ کراچی آرٹس کونسل نے دیر سے سہی، مگر مقامی تھیٹر پر اپنی توجہ مرکوز کی، جو قابلِ تحسین ہے۔ اس سلسلے میں "عوامی تھیٹر فیسٹیول” تازہ ترین پیشکش ہے، جس میں ہر طرز اور مزاج کے تھیٹر کو جگہ ملی۔ اس ناٹک میلے میں سے ہم نے جس کھیل کا انتخاب کیا، اس کاعنوان”مذاقِ خاص” ہے۔

    مرکزی خیال/ مکالمے/ لفظیات

    یہ انسانی فطرت ہے، ہم جذباتی طور پر جن مقامات سے جڑے ہوتے ہیں، اس کا موازنہ ضرور کرتے ہیں کہ وہ مقام ماضی میں کیسا تھا اور حال میں کیسا ہے۔ ایسے ہی جذبات کے مد و جزر پر مبنی کھیل "مذاقِ خاص” تھا، جس میں عہدِ حاضر کے کراچی کا ایک معروف مقام "آرام باغ” دکھایا گیا ہے، جو ماضی کی شان دار تہذیب کا نوحہ پیش کررہا ہے۔ وہ عہد جب کراچی تہذیب و تمدن کا مرکز ہوا کرتا تھا، اس وقت اس باغ کا نام "رام باغ” تھا، جو آرام باغ ہو گیا۔ تہذیبِ گم گشتہ کی ایک ان کہی داستان کو مرکزی خیال کے ذریعے تمثیلی تخلیق کر کے پیش کیا گیا۔ یہ ترکیب تو انتہائی عام ہے، مگر اس کو جس خاص انداز سے پیش کیا گیا، وہ متاثر کن ہے۔ اسے ڈراما نویس نے "شہرِ خراب کا رام باغ” پکارا ہے اور یہ بنیادی تصور دیا کہ "تہذیب روایات نہیں رویہ ہے۔”

    اس تصور کو مزید بیان کرتے ہوئے جمال مجیب قریشی کہتے ہیں کہ "رام باغ عوام کے لیے کبھی ایک تفریح گاہ تھی، اب ایک اجاڑ ویران باغ ہے۔ شہر کے معیاری نفسیاتی اسپتال سے مریض بھاگ کر اکثر اس سرکاری باغ میں آکر چھپ جاتے ہیں۔ یہ سرکاری تحویل میں ایک ایسا مقام ہے جو ایک ایک گم گشتہ طبقاتی معاشرے کا کھنڈر بھی ہے۔ یہ ایک شکستہ مقام ہے۔ اس کے ہر ذرے پر ایک سوالیہ نشان کندہ ہے۔ اس باغ میں پھیلے سوکھے پتوں کی نیچے ایک آتش فشاں دہک رہا ہے۔ یہ ایک اجاڑ زنداں ہے۔ یہاں رات کے وقت بے چین ارواح کا گزر ہوتا ہے۔”

    اس کھیل میں اداکاروں نے جو مکالمے ادا کیے، اور جو خود کلامی (مونو لاگ) تھے، وہ ذو معنی اور شعریت سے لبریز تھے، ادبیت سے بھرپور تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ بین السطور بھی ایسے موضوعات تھے، جو آج کے حالاتِ حاضرہ کی منظر کشی کرتے ہیں، یعنی وہ باتیں بیان ہوئیں، جنہیں اب سماج میں کہنے کی کھلے بندوں اجازت نہیں ہے۔ اس باریک کام کو ڈراما نویس جمال مجیب قریشی نے بھرپور طور سے کر دکھایا۔ پھر اس کھیل کی ایک اور شان دار بات اس کی لفظیات ہیں، جس کو سماعت کر کے اور اسٹیج پر مکالموں کی صورت میں دیکھ کر لطف آگیا۔ اس کھیل میں وہ مذاق جو آپ کے ذوق کا عکاس ہوتا تھا، اس کو بھی بیان کیا گیا اور اس مذاق کو بھی، جس کو صرف ہم اڑانا مقصود سمجھتے ہیں۔ اس ناٹک کی کہانی کے بیان میں تہذیب کے زوال کے ساتھ ساتھ جس طرح فکشن کے دو کرداروں کو ملا کر کہانی بیان کی گئی ہے، وہ ترکیب بھی دل کو بھائی ہے۔ایک طرف امتیاز علی تاج کے ڈرامے کی "انار کلی” اور دوسری طرف مرزا ہادی رسوا کے ناول کی امراؤ جان ادا کا امتزاج دکھایا گیا ہے۔

    کہانی و کردار

    اس ڈرامے کا آغاز ایک صحافی کے کردار "شاہد میر” کے نمودار ہونے سے ہوتا ہے، ( جمال مجیب قریشی) جو صحافی ہے، آرام باغ نامی ایک پارک میں بینچ پر ماضی کی یادوں میں غرق ہے۔ پس منظر میں ایسی موسیقی ہے، جس سے ناسٹیلجیا بڑھ جاتا ہے، ماضی کی تصویریں ایک ایک کر کے ذہن کے پردے پر ابھرنے لگتی ہیں اور اسٹیج پر کرداروں کی صورت میں بھی عہدِ گم گشتہ کے یاد آنے کی شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اسی ترتیب میں اگلا دلکش کردار "امراؤ جان ادا” کا ہے (فاطمہ علی بھائی)، جو اپنی اسی سج دھج سے طلوع ہوتا ہے، جو اس کردار کی شان ہے۔ ان دونوں کرداروں کے مکالمات، تاریخی پس منظر، شان دار اور منظوم و غیر منظوم مکالمات کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ یہ عہدِ حاضر ہے، جس کو ماضی اور حال کے کرداروں کے ساتھ ملا کر دکھایا گیا ہے۔

    اسکرپٹ کے منظر نامے کی ایک جھلک

    ڈرامے کا آغاز استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری "آجابالم پردیسی”سے شروع ہوتا ہے۔ ایک صدا کار(جمال مجیب قریشی) کی صدا اسٹیج پر اور ہال میں گونجتی ہے کہ "یہ شہر خرابی کا رام باغ ہے، جو اب آرام باغ ہے۔ اور میں ایک جرنلسٹ ہوں۔ آدھا سچ اخبار میں چھپتا ہے اور پورا سچ میں اپنی ڈائری میں لکھتا ہوں۔ میں کہانیاں لکھتا ہوں، مظلوموں کی محرومیاں، زمانے کی ستم ظریفیاں، میرا قلم زخم قلم بند کرتا ہے۔ یہ رام باغ بھی زخموں سے چور ہے۔ کبھی یہاں گل ہی گل تھے اور اب خار ہی خار ہیں۔ کبھی یہاں پیڑوں کی چھاؤں تلے رومیو جولیٹ۔ شیریں فرہاد، لیلی مجنوں، ہیر رانجھا نظر آتے تھے۔ اب یہاں کچرے کا ڈھیر نظرآتا ہے۔ نشے کے عادی افراد اور گداگر نظر آتے ہیں۔ یہ باغ اب ایک باغ کم اور ایک کھنڈر زیادہ ہے۔

    کبھی رام باغ کی ایک جھلک دیکھنے بہت سے لوگ آتے تھے، اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ اس سیاہ رات میں یہ باغ سسکیاں لے رہا ہے۔ کھنڈر سے بے چین روحوں کی آوازیں میرے تعاقب میں ہیں۔ یہ رات ایک درد بھری رات ہے۔ میں سونا چاہتا ہوں پر مجھے نیند نہیں آتی۔ یادیں مجھے سونے نہیں دیتیں۔ رام باغ کی ایک سہانی یاد آج تک میرے خیالوں میں تازہ ہے۔ وہ رات میں کبھی بھول نہیں پایا۔ کاش وہ رات کبھی پھر سے بسر ہو۔ کاش میری محبت پھر سے میری نظروں کے سامنے آجائے۔ کاش میں پھر سے اظہار محبت کرسکوں۔ "صدا کاری کے ایسے کئی شاہکار تھے، جنہوں نے حاضرین کی سماعتوں کو معطر کیا۔

    دیگر کردار اور کہانی کا کلائمکس

    ان دو مرکزی کرداروں کے بعد تین مزید کردار اسٹیج پر وارد ہوتے ہیں، جو ہیں حافظ (منان حمید)، ایک پولیس افسر (صابر قریشی) اور ایک دانشور ڈاکٹر عرفان اللہ (شاہد نظامی)۔ ڈاکٹر عرفان اپنی اردو شاعری کی بابت، گفتگو کے دوران معاشرے میں موجود طبقاتی فرق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ پاگلوں کے ڈاکٹر کے طور پر اس کردار میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ اگلے منظر میں ایک اور تاریخی کردار، انار کلی (کومل ناز) سلیم (جمال مجیب) کے ساتھ محو گفتگو دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کا کلائمکس اس بات پر ہوتا ہے کہ کون سمجھ دار اور کون پاگل اور عہدِ حاضر کی حالت زار بگڑتے ہوئے کہاں تک آپہنچی ہے اور تہذیب کے نام پر کیا کچھ ہے، جو ہم کھو چکے ہیں۔ کہانی کا دورانیہ مختصر تھا، کردار میں جامعیت تھی اور مکالمے چست تھے، جن میں چومکھی پہلو تھے۔ ایک عرصے بعد اتنی اچھی کہانی کسی منچ پر دیکھنے کو ملی۔

    اداکاروں کی اداکاری

    اس کھیل میں تمام اداکاروں نے اپنی بساط میں اچھی اداکاری کی، مگر "امراؤ جان ادا” کے کردار میں فاطمہ علی بھائی نے اپنے فن سے حاضرین کو مبہوت کر دیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اسٹیج ڈراما تھا، جس میں انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کا کریڈٹ، کھیل کے ہدایت کار نعمان خان کو جاتا ہے، جنہوں نے ان سے اس قدر عمدگی سے کام لیا۔ جمال مجیب قریشی اور کومل ناز نے بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا جب کہ دیگر فن کاروں نے بھی اس رنگین مگر اداس ناٹک میں اپنے اپنے حصے کے رنگ بخوبی بھرے، مگر مزید نکھار پیدا کیا جا سکتا تھا۔

    ہدایت کار کی ہدایت کاری

    نعمان خان کراچی آرٹس کونسل سے وابستہ اور تھیٹر کے عاشق ہیں۔ انہوں نے اس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی تازہ ترین پیشکش نے عوامی تھیٹر فیسٹیول میں ایسے حاضرین کو چونکا دیا ہے، جنہیں تہذیب و تمدن اور شعر و ادب جیسے موضوعات میں دلچسپی ہے۔ چالیس منٹس کے مختصر دورانیے میں، منچ پر دو ادوار کو پیش کرنا، دو تہذیبوں کا موازنہ اور تجزیہ کرنا ایک باریک اور مشکل کام ہے، جس کو بہت عمدگی سے نعمان خان نے جمال مجیب قریشی کے شان دار اسکرپٹ و صدا کاری کی بدولت نبھایا۔ امید ہے وہ مستقبل میں بھی ایسے کھیل باذوق افراد اور مداحوں کے لیے پیش کرتے رہیں گے۔

    آخری بات

    یہ ناٹک، کہانی اور لفظیات کے اعتبار سے سب شعبہ جات میں نمایاں رہا۔ اداکاری اور اسٹیج مینجمنٹ میں بھی مزید کام ہو سکتا تھا۔ پورے کھیل میں موسیقی کی صورت میں فلمی رنگ غالب رہا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجموعی طور پر ہدایت کاری عمدہ اور کہانی نویسی شان دار تھی۔ جمال مجیب قریشی، نعمان خان اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ تھیٹر سے وابستہ اداروں کو چاہیے، اس طرز کے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان جیسے فن کاروں کو مزید مواقع دیں تاکہ ہم مقامی اور حقیقی تھیٹر کو فروغ دے سکیں۔

  • دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    آج عہدِ حاضر میں، اگر اردو ادب کے دس بڑے اور اہم ناولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں جمیلہ ہاشمی کا ناول ”دشتِ سوس“ سرِ فہرست ہوگا۔ تصوف پر مبنی، حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول تاریخی طور پر جو اہمیت رکھتا ہے، اس کی اپنی حیثیت ہے، لیکن اردو زبان، شان دار نثر اور کہانی کی بُنت میں یہ ناول اپنے وقت کے کئی بڑے ناولوں سے آگے ہے۔ اس ناول میں اردو زبان، نثر کے پیرائے میں شاعرانہ بلندی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا، جب اردو ادب کے منظر نامے پر قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور انتظار حسین جیسے منجھے ہوئے ادیب ناول نگاری کررہے تھے۔ ایسے بہت سارے مہان ادیبوں کے درمیان جمیلہ ہاشمی نے ”دشتِ سوس“ اور ”تلاشِ بہاراں“ جیسے ناول لکھ کر نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس ناول کو سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ تھیٹر کے لیے یہ ناٹک اسی ناول ”دشتِ سوس“ سے ماخوذ ہے، جس پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مرکزی خیال اسلامی تاریخ کی مشہور صوفی شخصیت ”حسین بن منصور حلّاج“ کی سوانح کو بیان کرتا ہے۔ تصوف سے وابستہ منصور حلّاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا اور معتوب ٹھہرےاور اس کی پاداش میں انہیں سوئے دار جانا پڑا۔ اسلامی تاریخ میں بالخصوص تصوف کے تناظر میں ان کی روداد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے لکھے ہوئے ناول کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دل کو چُھو جانے والی نثر میں اس ناول کو لکھا اور ان کی نثر کا انداز بھی شاعرانہ ہے، جیسے صوفیوں کی شاعری کو نثر میں پرو دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے تصوف پر مبنی ادب کی پوری تاریخ میں اس ناول کا مقام جداگانہ رہا، کیونکہ اس ناول کا پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور اسلوب سب سے مختلف تھا۔ آج بھی قارئین کو یہ ناول مستغرق رکھے ہوئے ہے۔

    مذکورہ تھیٹر کا کھیل، جس کا عنوان ناول کے نام پر ہی ہے، اس کی ڈرامائی تشکیل شاہنواز بھٹی کی کاوش ہے۔ ایک ضخیم ناول سے تھیٹر کے منچ کے لیے ان کی ماخوذ کہانی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر محیط ہے۔ سب سے پہلے تو وہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور دشتِ سُوس جیسے ناول کو ناٹک کی کہانی میں بدلا۔ ان کی کوشش بہت متاثر کن ہے، مگر جو ناول پڑھ چکے ہیں، وہ ظاہر ہے اس ڈرامائی تشکیل سے متاثر نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ اس ناول کی سب سے نادر بات اس میں برتی گئی زبان تھی، جس کو ہدایت کار اور اخذ کنندہ نے ہلکی پھلکی زبان میں منتقل کر دیا، جس کی وجہ سے ناول کا مجموعی تاثر زائل ہو گیا۔

    ہدایت کاری

    اس کھیل کی ہدایت کاری کے فرائض بھی شاہنواز بھٹی نے انجام دیے، جو طویل عرصے سے تھیٹر اور فلم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کھیل میں انہوں نے ایک خاص سیاہ پس منظر میں پوری کہانی پیش کی۔ کھیل کی طوالت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو محسوس ہوا کہ حاضرین اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں، تو انہوں نے ایک گھنٹے کے دورانیے کے بعد دس منٹ کا وقفہ دے دیا، میرے خیال میں یہ ڈرامائی موڑ اس ناٹک کی موت تھی۔ اگر یہ تھیٹر کے عام طور پر معین اصولوں کے مطابق بغیر کسی وقفے کے کہانی کو جاری رہنے دیتے تو دھیرے دھیرے کہانی کا جو تاثر دیکھنے والوں پر طاری ہوا تھا، وہ دم نہ توڑتا۔ اب عالم یہ تھا کہ وقفے کے بعد حسین بن منصور حلّاج کا کردار جب اپنا مونولوگ بول رہا تھا تو حاضرین میں ایک ہلچل تھی، جیسے کہ ابھی تک وقفہ ختم نہ ہوا ہو۔ جمے جمائے تاثر کو وقفہ دے کر ضائع کر دینا ایک تکنیکی غلطی تھی، جو اس کھیل میں کی گئی۔

    کھیل پر ڈیزائن کیے گئے کرداروں کی اداکاری کو ایک ہی فریم میں ڈیڑھ گھنٹے تک رکھ کر دکھایا گیا، جس سے اکتاہٹ ہونا فطری عمل تھا۔ اس کھیل کو ایک گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے تھا اور چند فریم ضرور بدلنے چاہیے تھے۔لائٹنگ کا استعمال بھی کم رکھا گیا۔ لائیو موسیقی کا اہتمام عمدہ تھا، مگر اس کا استعمال بھی انتہائی محدود کیا، جب کہ اس کی بدولت ناٹک میں مزید جان پڑ سکتی تھی۔ ملبوسات کو ارم بشیر نے ڈیزائن کیا، جو کہانی کی کیفیت سے مطابقت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک اچھی کوشش تھی، جس کو سراہا جانا چاہیے۔

    اداکاری

    اس کھیل میں مرکزی کردار حسین بن منصور حلاج کا تھا، جس کو تھیٹر سے وابستہ نوجوان اداکار ارشد شیخ نے عمدگی سے نبھایا۔ افسانوی شہرت کے حامل اس صوفی کردار کو اس کے والد یعنی منصور حلاج کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کردار پارس مسرور نے نبھایا اور ہمیشہ کی طرح اپنی اداکاری سے متاثر کیا۔ دیگر اداکاروں میں بھی سب نے اپنے اپنے حصّے کے کرداروں کو خوب نبھایا، بالخصوص جنید بغدادی کے کردار میں سرفراز علی، ابو عمر قاضی کے کردار میں زبیر بلوچ، آقائے رازی کے کردار میں مجتبیٰ زیدی، اغول کے کردار میں طوبیٰ نعیم، محمی کے کردار میں عامر نقوی اور ہندی سوداگر کے کردار میں نادر حسین قابل تعریف ہیں۔ باقی سب اداکاروں نے بھی اچھا کام کیا، لیکن مذکورہ ناموں نے اپنے کرداروں سے کہانی میں ایک کیفیت پیدا کر دی جس کا سہرا ہدایت کار کو بھی جاتا ہے۔

    آخری بات

    یہ کھیل چونکہ آشکارہ آرٹ پروڈکشن کا تھا، جب کہ اس کو نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ضیا محی الدین تھیٹر ہال میں پیش کیاگیا۔ اب ناپا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی اثر سے نکل کر مقامی رنگ کو اپنی کہانیوں میں جگہ دیں۔ اردو ادب اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اندر کہانیوں کے خزانے موجود ہیں، انہیں کوشش کرنا ہو گی، ایسی کوشش جو شاہنواز بھٹی صاحب نے کی۔ اب جنہوں نے جمیلہ ہاشمی کا ناول نہیں پڑھا ہوا، وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، لیکن جو اس ناول کے قاری ہیں، ان کے سامنے ناٹک کے کرداروں سے ناول کا بیانیہ اور کردار بار بار ٹکرائیں گے، جو کہ فطری بات ہے۔ ایسے ناول بہت کم لکھے جاتے ہیں، اس پر ایک سے زائد تھیٹر کے ڈرامے بننے چاہییں۔ پہلی کوشش پر شاہنواز بھٹی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    اس ناول کی ابتدا جس منظر سے ہوتی ہے اور قاری اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو ناول کے پہلے باب صدائے ساز میں، دوسرے صفحہ پر ایک کردار کچھ یوں گویا ہے کہ ہم سنتے ہوئے مبہوت ہو جائیں۔ تھیٹر کے لیے ناٹک کی شروعات بھی اسی سے ہوئیں۔ وہ کلام ملاحظہ کیجیے، انہیں پڑھ کر اور سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ پھول ہیں، جن کو ایک صوفی پر نچھاور کیا جا رہا ہے اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کل زندگی کا فلسفہ ہے اور اس ناول اور کہانی کا خلاصہ بھی، جس کو یہاں نظم کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کی اس شان دار نثر کے ساتھ ساتھ یہ نظم، جس میں کردار کچھ یوں گویا ہے

    عشق ایک مزرعِ گلاب ہے
    اس کی پگڈنڈیاں ان کے لیے ہیں
    جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
    عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
    ان کی منزل ہیں
    اور مہجوریاں غم خاموش اور برداشت
    کبھی نہ ختم ہونے والا سوز ہمیشگی اور اذیت ناکی
    اس کی شان ہے
    اس کے سوا باقی سب گم کردہ منزل
    جہالت اور وحشت تنہائی
    اور بے جادہ گردش ہے
    عشق مزرعِ زندگی ہے
    (دشتِ سُوس)

  • ’’اغوا اور زیادتی کے بعد سفاکانہ قتل‘‘ کیا کمسن صارم کو انصاف مل سکے گا؟

    ’’اغوا اور زیادتی کے بعد سفاکانہ قتل‘‘ کیا کمسن صارم کو انصاف مل سکے گا؟

    ایک اور کمسن پھول کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا۔ انسانی لبادے میں وحشی درندے نے حیوانیت کی انتہا کرتے ہوئے 7 سالہ صارم پر جو وحشیانہ تشدد کیا، اس نے سب کو لرزا کر رکھ دیا ہے اور اب اس کے غمزدہ والدین انصاف کے منتظر ہیں۔

    اس درد ناک کہانی کا آغاز 7 جنوری کو نارتھ کراچی کے علاقے میں واقع بیوت الانعم اپارٹمنٹ میں ہوا۔ منگل 7 جنوری کا سورج ننھے صارم کے گھر والوں کے لیے ایک اذیت ناک دن لے کر طلوع ہوا۔ اس دن صارم گھر سے مدرسے کے لیے بھائی کے ہمراہ نکلا ضرور لیکن پھر کبھی واپس نہ آ سکا۔ شام مدرسے سے واپسی پر جب بڑا بھائی صارم کے بغیر گھر پہنچا تو اس کی ڈھونڈ مچی۔ اڑوس پڑوس اور رشتہ داروں میں پتہ کیا گیا، لیکن کسی کو بچے کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔
    تھک ہار کر والدین تھانے پہنچے اور صارم کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ بلال ٹاؤن پولیس حرکت میں آئی۔ بچے کی تلاش میں فلیٹوں کی تلاشی لینے کے ساتھ ساتھ پانی کے زیر زمین ٹینکوں، سیوریج لائنوں، چھت سمیت دیگر مقامات کی مکمل تلاشی لی گئی جبکہ شک کی بنیاد پر متعدد مقامات پر چھاپے بھی مارے لیکن ننھے بچے کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ مدرسے کی چھٹی کے وقت لائٹ گئی ہوئی تھی، اس لیے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نہ مل سکی۔

    اسی دوران گمشدہ صارم کے والد کو کچھ مشتبہ میسجز اور مس کالز آئیں جن میں تاوان کے لیے آن لائن پیسوں کا تقاضہ کیا گیا تاہم جب ان نمبروں کی تفتیش کی گئی تو یہ میسجز اور کالز پنجاب اور بلوچستان سے آئیں اور پولیس نے اس کو غیر متعلقہ قرار دے دیا۔

    صارم کے والدین اور اہلخانہ کی بچے کے مل جانے کی امید اس کے لاپتہ ہونے کے 11 دن بعد اس وقت دم توڑ گئی جب 18 جنوری کو عمارت کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے ہی اس کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی۔ لاش کے ساتھ اس کی مدرسہ کی ٹوپی اور گیند بھی ملی۔

    عباسی شہید اسپتال میں بچے کے پوسٹمارٹم میں اس سے زیادتی کی تصدیق تو ہوئی، ساتھ ہی صارم کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد کس بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یہ پتہ بھی اسی پوسٹمارٹم رپورٹ سے چلا جس نے سب کے دل دہلا دیے۔ اس رپورٹ کے مطابق صارم کی لاش چار دن پرانی تھی۔ معصوم بچے کی گردن کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور اس کا گلا دبا کر قتل کیا گیا تھا۔ جسم پر ایک دو نہیں بلکہ زخموں کے 13 نشانات پائے گئے۔ جلد مختلف مقامات سے چھلی ہوئی تھی۔ اس کے پھیپھڑے بھی سکڑ گئے تھے جب کہ پیشانی کے علاوہ تمام زخم مرنے سے پہلے کے تھے۔

    لاش ملنے کے بعد پولیس کی سست رفتار تحقیق میں پھرتیاں آ گئیں۔ ملزمان کی گرفتاری کے لیے سراغ رساں کتوں کی مدد لی گئی اور راتوں رات آپریشن کر کے فلیٹ سے دو مشکوک افراد گرفتار کیے گئے۔ پولیس نے شک کی بنا پر قریبی عزیز، مدرسے کے معلم، والو مین سمیت کئی افراد کو حراست میں لیا۔ بچے کے اعضا کے ساتھ گرفتار ملزمان کے خون کے نمونے اور کئی دیگر اہم شواہد بھی لے کر ڈی این اے کے لیے لیبارٹری بھیج دیے گئے جن کی رپورٹس اب تک موصول نہیں ہوچکی ہیں جب کہ اسی دوران اس کیس کی تحقیقات والی ٹیم نے یہ بھی امکان ظاہر کیا کہ صارم گمشدگی کے بعد سے موت تک اپارٹمنٹ سے باہر نہیں لے جایا گیا۔

    اس واقعہ کی تحقیقات چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کا کہنا تھا کہ وقوعہ کے روز جب پولیس وہاں پہنچی تو کرائم سین کافی حد تک خراب ہو چکا تھا۔ اسلیے ڈی ایس پی فرید احمد خان کی سربراہی میں خصوصی انویسٹی گیشن ٹیم نے ایک بار پھر جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور کرائم سین ری ایکٹ کر کے واقعہ کے سراغ تک پہنچنے کی کوشش کی۔

    تاہم اس سے اگلے روز ہی 25 جنوری کو تحقیقاتی ٹیم نے صارم کی ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ پر غیر تسلی بخش ہونے کا شبہ ظاہر کیا جس کی وجہ اس کیس کے واقعاتی شواہد اور ابتدائی پوسٹمارٹم رپورٹ میں بہت کم مماثلت بتائی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحقیقاتی ٹیم نے میڈیکولیگل آفیسر کو سوالنامہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو ڈی این اے، کیمیکل ایگزامن رپورٹ آنے کے بعد بھیجا جائے گا جب کہ تحقیقاتی ٹیم نے اس کیس میں اعلیٰ حکام کو ڈاکٹروں کا خصوصی میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ یوں اس معصوم صارم کے قاتل کا سراغ لگانے کے لیے پوری تفتیش کا دار و مدار اب صرف ڈی این اے اور فارنزک رپورٹ پر ہے۔

    صارم 7 جنوری کو لاپتہ ہوا اور 18 کو اس کی چار دن پرانی لاش ملی۔ تحقیقات کے مطابق وہ 7 سے 13 تاریخ تک اسی اپارٹمنٹ کے کمپلیکس میں رہا، تو اس کو بروقت کیوں تلاش نہ کیا جا سکا؟ جو سراغرساں کتے بچے کی لاش ملنے کے بعد لائے گئے وہ لاش ملنے سے قبل کیوں نہ لائے گئے؟ ہر تھانے میں ویمن اینڈ چائلڈ ہراسمنٹ سیل بنا ہوا ہے، وہ سیل کیا اس موقع پر سو رہا تھا؟ اس کے علاوہ ہمارے پاس باڈی سینسر کی ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس کے ذریعے ان جگہوں کو بھی چیک کیا جا سکتا ہے، جہاں انسانی آنکھ کام نہیں کرسکتی تو پھر اس کی مدد کیوں حاصل نہیں کی گئی؟ یہ اور ایسے کئی سوالات ہیں جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں اور وہ اس کا جواب بھی چاہتے ہیں۔

    صارم کی گمشدگی کے دوران 11 روز تک والدین بچے کی بازیابی دہائیاں دیتے رہے، مگر پولیس نے ابتدا میں روایتی ٹال مٹول والی تحقیقات کیں اور جب لاش ملی تو بھاگ دوڑ شروع ہوئی، لیکن اب یہ بھاگ دوڑ کیا غمزدہ والدین کو ان کا صارم واپس دلا سکے گی؟

    آپ سب کو یاد ہوگا کہ جب 2018 میں قصور میں سات سالہ زینب کا اسی نوعیت کا زیادتی کے بعد قتل کا واقعہ ہوا تھا، جس کے مجرم کو پھانسی دے کر کیفر کردار تک بھی پہنچا دیا گیا تھا۔ ملک بھر کو ہلا دینے والے اس واقعہ کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس کی دوسری برسی پر زینب الرٹ بل پاس کیا تھا۔ اس بل کے مطابق بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی کم سے کم سزا 10 سال سے بڑھا کر 14 سال قید کر دی گئی تھی جب کہ اسی بل میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ ایسے افسر کو بھی سزا دی جائے گی جو بچے کے خلاف جرم پر دو گھنٹے کے اندر ایکشن نہیں لے گا۔

    یہ واحد کیس نہیں بلکہ گزشتہ سال کی خبروں میں تلاش کریں تو ہمیں ایسے کئی صارم، زینب اور دیگر معصوم بچے مل جائیں گے، جو ان وحشیانہ جرائم کے عادی افراد کی غلیظ سوچ کی نذر ہوگئے، لیکن ان میں کتنی زینب تھیں جن کو انصاف مل سکا اور کیا صارم کو بھی انصاف مل سکے گا؟ کیا آئندہ ایسے قبیح جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی موثر اقدامات کیے جائیں۔ اگر ہم نہ کہیں تو درست ہوگا کیونکہ صارم کے اغوا اور قتل کیس کے بعد سے ہی ملک کے اعداد وشمار تو کیا صرف کراچی میں کئی بچوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ ان میں سے دو کو بازیاب کرا لیا گیا لیکن گارڈن سے اغوا دو بچوں کو دیکھنے کے لیے ان کے والدین اب تک ترس رہے ہیں۔

    معاشرے میں جرم کا ارتکاب ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہوتی، لیکن قانون بننے اور نفاذ کے باوجود تواتر سے بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے واقعات ہونا اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ جنگل سے بدتر اور انسان جانور کے مرتبے سے بھی گر چکا ہے، کیونکہ جانور بھی اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے بچے اور بڑے میں فرق کر لیتے ہیں۔ ہر سال اس نوعیت کے ہزاروں کیسز کا رپورٹ ہونا ہمارے نظام قانون پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے کہ ہمارے قانون میں کچھ سقم ہے، یا پھر متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے، جس کی وجہ سے اس مجرمانہ عمل کی روک تھام نہیں ہوسکی ہے۔

    صارم واقعہ کے بعد کراچی پولیس اور غیر سرکاری سماجی تنظیم کا بچوں کے تحفظ کا بیڑا اٹھاتے ہوئے شہری سطح پر عوامی شعور اجاگر کرنے کی مہم چلانے کا فیصلہ خوش آئند اقدام ہے، لیکن یہ واقعات والدین کے لیے بھی الارمنگ ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو حتی الامکان تنہا نہ چھوڑیں اور ان کی ایسی تربیت کریں کہ کوئی انہیں ورغلا اور نقصان نہ پہنچا سکے۔ ایسے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر رشتے دار، پڑوسی یا جاننے والے بھی ملوث ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے بچنے کے لیے والدین اپنے بچوں کو چچا، ماموں اور دور کے رشتے داروں کے درمیان فرق سے آگاہ کریں اور انہیں بتائیں کہ کس رشتے دار کے ساتھ کتنے فرق سے ملنا ہے۔ انہیں یہ بھی بتائیں کہ صرف انکل کہنے سے کوئی سگا رشتہ نہیں بن جاتا تو کوئی دور کا رشتہ دار یا پڑوسی کی ان سے چھیڑ چھاڑ کی کوئی غیر معمولی حرکت ہو تو فوری والدین کو آگاہ کریں۔ اور ساتھ ہی انہیں ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے بولنا اور آواز اٹھانا سکھائیں، جیسا کہ گزشتہ روز کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک بچی نے شور مچا کر اپنے اغوا کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

  • زندگی میں آپ کی کام یابی کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟

    زندگی میں آپ کی کام یابی کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟

    مصنّف: محمد زبیر

    شاگرد نے گرو سے عرض کی، ”مجھے کام یابی کا راستہ دکھا دیں۔“ گرو نے سامنے اشارہ کیا،”یہاں سے سیدھے چلے جاؤ، یہی راستہ ہے۔“

    شاگرد نے اس راستے پر چلنا شروع کیا ہی تھا کہ زور دار بجلی کڑکی۔ شاگر تیزی سے پلٹا اور کہا،”یہ آپ مجھے کہاں بھیج رہے ہیں، یہاں تو بجلیاں کڑک رہی ہیں۔“

    گرو نے کہا،”یہی راستہ ہے۔“ شاگرد نے پھر چلنا شروع کیا، اب طوفانی ہوائیں چلنے لگیں۔شاگرد پھر پلٹا اور ناراضی سے کہا،”آپ تو سب جانتے ہیں، پھر مجھے درست راستہ کیوں نہیں دکھا رہے ہیں؟“

    گرو نے کہا، ”کام یابی بجلیوں، بارشوں اور طوفانوں کا سامنا کرنے کے بعد ہی ملتی ہے۔“

    یہ گرو کا تجزیہ تھا۔ پرانے زمانے میں اسی قسم کے جنرالائزڈ تجزیے ہوا کرتے تھے۔ یہ سائنس اور تحقیق کا زمانہ ہے۔ اب ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ زور دار بجلی کی کڑک سے کیا مراد ہے، طوفانی ہواؤں کو کیا نام دیا جائے، بارشوں سے متاثرہ راستہ کسے کہتے ہیں اور ان کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔

    اگر آپ اپنی زندگی کام یابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں تو پانچ سوالات کے جوابات پوری ایمان داری سے دیجیے۔ ہر سوال بیس نمبر کا ہے۔ آپ جس حد تک عمل کر رہے ہیں، اس حساب سے خود کو نمبر دیں۔

    مثال کے طور پر پوچھے گئے سوال پر اگر آپ سو فیصد عمل کرتے ہیں تو بیس میں بیس نمبر دیں، اگر پچاس فیصد کرتے ہیں تو دس نمبر دیں۔ یعنی جس تناسب سے یا جتنا آپ بہتر سمجھتے ہیں، نمبر دیں۔ یہ جوابات آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھے گا، لہٰذا پوری دیانت داری سے دیں، اگر ایسا نہ کیا تو یہ تحریر آپ کے کسی کام کی نہیں۔ یہ جوابات آپ کو بتائیں گے کہ آپ کن طوفانوں، کن بجلیوں اور کن بارشوں سے بچ بچ کر نکل رہے ہیں۔ اور جوں ہی ان کا سامنا کریں گے، کام یابی کا تناسب بڑھنا شروع ہو جائے گا۔

    1۔ آپ کتنی دیر اور کیا مطالعہ کرتے ہیں؟

    آپ کی کام یابی کا خاصی حد تک دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ دن بھر میں کتنی دیر اور کیا مطالعہ کرتے ہیں۔ میرا جن کام یاب لوگوں سے ملنا جلنا ہوتا ہے ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو مطالعہ کرتے ہیں اور وہ بھی جو بالکل مطالعہ نہیں کرتے۔ مطالعہ کرنے والوں کی گفتگو سے اعتماد جھلکتا ہے۔ میرے ایک دوست پاکستان کی بڑی ٹریننگ کمپنی کے سی ای او ہیں، کہتے ہیں، ”بعض اوقات مصروفیات کی وجہ سے مطالعہ کا وقت نہیں مل پاتا، اس دوران زندگی ادھوری اور کھوکھلی محسوس ہوتی ہے۔“ جو لوگ کتابیں پڑھتے ہیں، وہ زیادہ پرسکون اور مستقبل کی طرف سے زیادہ پریقین ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو افراد مطالعہ نہیں کرتے، وہ اس خوف کا شکار رہتے ہیں کہ اگر ٹیکنالوجی یا حالات تبدیل ہوگئے تو ان کا کیا بنے گا۔ اس کے ساتھ ہی مطالعہ نہ کرنے والے ایک مقام پر پہنچ کر رک جاتے ہیں جب کہ مطالعہ کرنے والے مختلف جہتوں میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہی صورتِ حال کاروبار کرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ بیرونِ ممالک میں کاروباری حضرات اپنی جڑیں تیزی کے ساتھ دیگر ممالک میں پھیلا دیتے ہیں جب کہ ہم شان دار مصنوعات رکھنے کے باوجود دوسری برانچ تک کھولنے سے ڈرتے ہیں۔

    وارن بفے دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ کار مانا جاتا ہے۔ تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا مالک ہے۔دنیا کا مشہور اور پُر اثر ترین انسان، فیس بک کا بانی مارک زکربرگ بھی وارن بفے سے مشورے لیتا ہے۔ بفے سے جب اس کی کام یابی کا راز معلوم کیا گیا تو اس نے کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”روزانہ پانچ سو صفحات پڑھو، علم اپنا اثر دکھانا شروع کر دے گا۔ اور تم میں سے ہر کوئی یہ کام کر سکتا ہے، لیکن میں ضمانت دے سکتا ہوں کہ تمہاری اکثریت ایسا نہیں کرے گی۔“

    بل گیٹس نوّے ارب ڈالر سے زیادہ کا مالک ہے، سال بھر میں پچاس سے زائد کتابیں پڑھتا ہے۔ یعنی ہر ہفتے ایک کتاب۔ وہ اپنی دولت پر اتنا فخر نہیں کرتا جتنا کتابیں پرھنے کی عادت پر کرتا ہے۔ یہ اس کی کام یابی کی بڑی وجہ ہے۔

    بل گیٹس کی طرح شاہ رخ خان بھی کتابیں پڑھتا اور کتابوں کے ساتھ تصاویر اپلوڈ کر کے اپنی ترجیحات بتاتا ہے۔

    آپ کتنا وقت کتابیں پڑھنے میں صرف کرتے ہیں اور کس قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں؟

    اگر آپ اپنے شعبہ سے متعلق کتابیں نہیں پڑھ رہے ہیں تو اپنے شعبہ میں کام یابی کے امکانات وقت کے ساتھ محدود ہوتے چلے جائیں گے۔ آج آپ کو متعدد کمپنیز کے سی ای اوز نوجوان نظر آئیں گے، اور یہ تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہیں بچپن سے کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی گئی۔ کتابیں بھی وہ، جو ان کی پروفیشنل لائف میں کارآمد ثابت ہوں۔ فرض کریں آپ امیر ہونا چاہتے ہیں جب کہ کتابیں دنیا کی مذمت کے موضوع پر یا ترقی پسند ادب سے متعلق پڑھ رہے ہیں تو یہ مطالعہ آپ کو آپ کے شعبے میں ترقی نہیں دے گا۔

    ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر اپنا جائزہ لیں اور سوچیں آپ خود کو بیس میں سے کتنے نمبر دیں گے۔

    2-آپ اپنی زندگی میں کتنے فیصد کام یاب ہیں؟

    فرض کریں ایک مداری کرتب دکھانے آئے۔ اس کے پاس چار گیندیں ہوں جنہیں وہ ایک ساتھ اچھالنے کا مظاہرہ کرے۔ اگر وہ چاروں گیندوں کو بیک وقت اچھال لے گا تو کام یاب مداری کہلائے گا۔ لوگ تالیاں بجائیں گے، انعام دیں گے۔ اگر کبھی ایک گیند گرے کبھی دوسری تو کوئی بھی اسے نہیں سراہے گا۔ یہی کچھ ہماری زندگی کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ ہماری زندگی عام طور پر ان چار چیزوں سے مل کر بنتی ہے:
    مذہب
    صحت (ذہنی اور جسمانی)
    عزیزواقارب
    پیشہ
    ان چاروں چیزوں میں توازن نہیں ہوگا تو ہماری زندگی ایک ناکام انسان کی زندگی ہوگی، دنیاوی اعتبار سے بھی اور اخروی اعتبار سے بھی۔ سوال کا جواب دینے سے پہلے اہم ترین بات سمجھ لیں۔ ہماری ناکامیوں، ہماری کام یابیوں، ہماری خوشیوں، ہمارے غموں، ہماری صحت، ہماری بیماریوں، ہمارے اچھے اور برے تعلقات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ اگر آپ کی صحت اچھی نہیں ہے، لوگوں سے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اخلاقی بیماریوں کا شکار ہیں، کاروبار یا پیشہ میں کام یاب نہیں ہیں تو اس کا کوئی اور ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تو جان لیں، کام یابی نہیں مل سکتی۔ کہتے ہیں Be the winner or whiner یعنی یا تو شکوہ شکایت کر لیں یا کام یاب ہوجائیں۔ جتنا زیادہ شکوہ شکایت کریں گے، اپنی ناکامیوں کی وجہ کسی اور کو سمجھتے رہیں گے، حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔

    آج آپ اپنی زندگی میں کتنے فیصد کام یاب ہیں؟ اس سوال کے لیے بھی خود کو بیس میں سے نمبر دیں۔

    3۔ آپ کن لوگوں کے درمیان وقت گزارتے ہیں؟

    جم رون نے بہت خوب صورت بات کہی تھی کہ آپ ان پانچ لوگوں کا مجموعہ ہیں جن کے ساتھ بیشتر وقت گزارتے ہیں۔ یہاں بھی وہی بات کہی جائے گی کہ اگر آپ اچھی صحت چاہتے ہیں تو ان لوگوں کے ساتھ رہیں جن کی صحت اچھی ہے۔ اگر دولت مند بننا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کے درمیان رہیں، ان سے تعلقات استوار کریں جو دولت مند ہیں۔ اگر اپنا اخلاق بہتر کرنا چاہتے ہیں تو ان لوگوں کے درمیان رہیں جن کے تعلقات دوسروں کے ساتھ بہتر ہیں۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر شریکِ حیات یا گھر والوں سے تعلقات خراب ہو جائیں تو اس شخص سے مشورہ مانگیں گے جس کے اپنے تعلقات خراب ہیں۔ وہ بتائے گا، ”میں کسی کی پروا نہیں کرتا، چاہے کسی کو برا لگے یا اچھا، میں منافقت نہیں کرتا۔ مجھ سے نہیں ہوتی یہ چاپلوسی۔“ وہ خود تو ناپسندیدہ انسان ہے، اس کے نقشِ قدم پر چل کر آپ بھی لوگوں کی نظروں میں حقیر ہو جائیں گے۔ اپنی بدزبانی اور اخلاقی کمتری کو جھوٹی انا سے چھپانا بڑے لوگوں کا کام نہیں ہے۔ اس لیے پہلے تو یہ سوچیں کہ زندگی کے کس شعبہ میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں اور پھر سوچیں کہ کن لوگوں سے تعلقات استوار کرنے ہیں۔ ان سب باتوں سے پہلے اپنا تجزیہ کریں کہ اس وقت آپ کس مقام پر کھڑے ہیں۔

    جن دوستوں کے ساتھ آپ بیشتر وقت گزارتے ہیں وہ آپ کی کام یابی میں کتنا فیصد کردار ادا کر رہے ہیں۔ نمبر دیں۔

    4۔ کیا آپ نے اہداف لکھ رہے ہیں؟

    کیا آپ نے اپنے اہداف لکھ رکھے ہیں۔ یہاں اتنا سمجھ لیں کہ کوئی بھی بڑی کام یابی منزل کی واضح تصویر ذہن میں ترتیب دیے بغیر ممکن نہیں۔ آپ اپنے بچّے کو کس طرح کا انسان بنانا چاہتے ہیں، گھر کا ماحول کس طرح کا چاہتے ہیں، کس طرح کی ملازمت یا کاروبار کرنا چاہتے ہیں، یہ چیزیں جتنی زیادہ واضح ہوں گی، منزل پر پہنچنے کے امکانات اسی قدر بڑھ جائیں گے۔

    اب بتائیں کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ گول کس طرح سیٹ کرتے ہیں اور آپ اپنے گول سیٹ کر چکے ہیں؟

    5۔ آپ خرچ کرتے ہیں، بچت کرتے ہیں یا سرمایہ کاری کرتے ہیں؟

    ناکام ترین لوگ جو کماتے ہیں، سب خرچ کر دیتے ہیں۔ ان سے بہتر لوگ پیسہ بچا کر رکھتے ہیں۔ ان دونوں سے بہتر لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہ کام یاب لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی امیر ترین انسان بچت کر کے امیر نہیں ہوا، سرمایہ کاری کر کے ہوا ہے۔ اگر آپ سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور اس سرمایہ کاری کی بدولت آپ کے سرمائے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو آپ کی کام یابی کے امکانات بڑھ رہے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کا مستقبل کس حد تک محفوظ ہے۔

    جو لوگ متعلقہ مواد زیرِ مطالعہ رکھتے ہیں، اپنی کام یابی اور ناکامی کا ذمہ دار خود کو سمجھتے ہیں۔ ان دوستوں میں وقت گزارتے ہیں جو انہیں منزل کے قریب کر رہے ہوں، جن کے مقاصد بالکل واضح ہوتے ہیں اور جو سرمایہ کاری کرتے ہیں، زندگی میں بھرپور کام یابی حاصل کر لیتے ہیں۔

    اب آپ پانچوں سوالات کے حاصل کردہ نمبر لکھیں۔ دیکھیں کہ سو میں سے کتنے نمبر حاصل کیے ہیں۔ اگر جواب تسلی بخش ہیں تو آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کوئی بات نہیں۔ زندگی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

    جب جاگو تب سویرا۔ جب احساس ہوگا، زندگی بدلنا شروع ہوجائے گی۔

    (محمد زبیر شکریہ، پرورش اور تربیت کے مصنّف، لائف کوچ اور نامور یوٹیوبر ہیں جن کی یہ تحریر مقصدِ حیات اور اس کا حصول کے عنوان سے ان کے مضامین کے ایک مجموعے میں شامل ہے)

  • ”کیوں“:‌ جون ایلیا کا آخری شعری مجموعہ

    ”کیوں“:‌ جون ایلیا کا آخری شعری مجموعہ

    تحریر:‌ عارف عزیز

    ”کیوں“ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ جون ایلیا کا یہ تازہ شعری مجموعہ اُن کی شاعری کی آخری کتاب بھی ہے۔ مؤلف خالد احمد انصاری ہیں جنھیں اردو ادب، بالخصوص جون ایلیائی لہر میں بہنے والے نوجوانوں کا محسن کہا جا سکتا ہے۔

    jaun eliya book kyun

    یہ جون ایلیا کی وہ پہلی کتاب بھی ہے جس کی تقریبِ رونمائی منعقد کی گئی۔ بطور میزبان خالد انصاری نے چیدہ و چنیدہ شخصیات کو کراچی کے ایک ہوٹل میں مدعو کیا تھا۔ ”ایک شام جون ایلیا کے نام“ سے تقریب میں خالد انصاری نے کہا کہ اس مجموعے کی اشاعت کے ساتھ ہی میرا کام اب ختم ہوا۔ اور شاید ایسا ہی ہے، لیکن خالد انصاری کو اردو دنیا ضرور یاد رکھے گی۔

    آج اردو کے مقبول ترین شاعر کی بات کی جائے تو ہم جون ایلیا کا نام سنتے ہیں۔ دنیا بھر میں مداح بالخصوص نوجوان بڑی تعداد فیس بک اور واٹس ایپ پر جون ایلیا کا کلام پڑھتی ہے، ان کے اشعار شیئر کیے جاتے ہیں اور مشاعرہ پڑھتے ہوئے جون ایلیا کی ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ جون ایلیا کی مقبولیت کی ایک وجہ محبوب کے لیے اُن کا طرزِ تخاطب اور جذبات کا برملا اظہار بھی ہے۔ وہ اشاروں کنایوں میں بات نہیں کرتے۔ معروف شاعر اور گیت نگار مجروح سلطان پوری انھیں شاعروں کا شاعر کہہ گئے تھے اور آج جون ایلیا سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ مگر جون صاحب کے لیے یہ دیوانگی تو پہلے بھی تھی۔ اور یہ اس دور کی بات ہے جب، آج کی طرح شعر اور شاعر تک رسائی ایک ”کلک“ کی بدولت ممکن نہ تھی۔ اس وقت بھی کوئی جون ایلیا کو پاتا تو انہی کا ہو رہتا۔ جون ایلیا کی ہیئت کذائی، ان کا انداز اور عالمانہ گفتگو لوگوں کو مرعوب اور سماعت کو اسیر کرلیتی تھی۔ دورانِ گفتگو کسی شعر سے بات نکلتی اور شاعر تک پہنچتی تو کیا کیا باتیں کرتے، کائنات یا دل کی واردات کو موضوع بنایا جاتا تو فکر کے نئے زوایے سامنے لاتے۔

    خالد انصاری جون ایلیا
    خالد احمد انصاری

    خالد انصاری 1992ء میں پہلی مرتبہ جون ایلیا سے ملے۔ ان کی لکھائی جون ایلیا کو اچھی لگی تو اپنی بیاض لکھنے کا کام سونپ دیا۔ اور پھر خالد انصاری چند سال تک ان سے ملاقات نہ کرسکے۔ اس عرصہ میں شہر کے کئی خوش باش بل کھاتی سڑکوں سے گزرتے ہوئے، چورنگیاں گھوم کر شام ہوئے جون ایلیا کے پاس پہنچتے رہے۔ کئی کو گمان ہوا کہ بھائی جون نے انھیں اپنے دل محلّے میں جگہ دے دی ہے اور کوئی یوں‌ خوش رہا کہ

    ؎ وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے

    جون ایلیا، سب کے بھائی جون بنے رہے، لیکن انھیں کسی سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ اُن کو تو ایک نہ آنے والے سے مطلب تھا اور وہ تھے خالد احمد انصاری۔

    اور ایک روز خالد احمد انصاری ان کے سامنے کھڑے تھے۔ وہی خالد جس سے جون ایلیا کو مطلب تھا۔ وہ علی کرار نقوی کے گھر سے، جہاں جون ایلیا اقامت پذیر تھے، چند قدم کی مسافت پر ہی رہتے تھے اور اس روز بس ایک گلی سے اٹھ کر جون ایلیا کے گھر آگئے۔ بقول خالد انصاری، مجھے اچانک اپنے سامنے پا کر انھوں نے کہا، خالد! تم آئے نہیں ہو، تمھیں بھیجا گیا ہے! اور پھر وہ رونے لگے۔

    جون ایلیا کا یہ گمان، گویا ان کا وجدان تھا۔ خالد انصاری بڑے کام کے آدمی نکلے۔ جون ایلیا سے مخلص، اور بے غرض انسان۔

    وہ اب روز ہی جون ایلیا کے پاس جانے لگے۔ انہی دنوں جون ایلیا کو خیال گزرا کہ ان کے اوراقِ پریشاں غائب ہورہے ہیں، ان کی تحریریں کوئی لے جاتا ہے۔ تب، جون ایلیا نے اپنی شاعری (مسوّدے) خالد انصاری کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے گھر میں‌ رکھیں، جب ضرورت ہوگی تو منگوا لوں گا۔ مگر کچھ عرصہ بعد جون ایلیا کا انتقال ہو گیا۔ بعد میں خالد انصاری نے جون ایلیا کے اہلِ خانہ کی اجازت سے یہ کلام کتابی شکل میں ہم تک پہنچایا۔

    جون ایلیا کے دوسرے شعری مجموعہ ”یعنی“ کو مرتب کرنے کے بعد خالد انصاری نے بہت محنت اور لگن سے کام کر کے گمان، گویا، لیکن، فرنود اور راموز جیسی کتابیں اردو ادب کو سونپ دیں۔ ”کیوں“ وہ آخری کتاب ہے جو بیک وقت پاکستان اور ہندوستان سے شایع ہوئی ہے۔ اور قابلِ‌‌ ذکر امر یہ ہے کہ بھارت میں یہ مجموعہ اردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی شایع کیا گیا ہے۔

    جون ایلیا کی تخلیقات ہم تک پہنچانے والے خالد انصاری نے اس سے پہلے کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ اسی طرح جون ایلیا کی کتابیں تو وقفے وقفے سے سامنے آتی رہیں، مگر خالد انصاری کم ہی سامنے آئے۔ اس تقریب میں بھی شرمیلے خالد انصاری نے مختصر گفتگو کی۔

    ”کیوں“ میں جون ایلیا کی غزلیات اور نظمیں ہی نہیں قوالیاں بھی شامل ہیں۔ چند منظوم خطوط اور قطعات بھی ہیں۔ خالد انصاری نے بتایا کہ آخری شعری مجموعہ کے بعد ان کی خواہش ہے کہ ”کُن“ کے نام سے جون ایلیا کا کلیات مرتب کریں جس میں تمام مجموعہ ہائے کلام ہی یکجا نہیں ہوں گے بلکہ اس کی انفرادیت جون ایلیا کے اوّلین شعری مجموعے ”شاید“ کی غزلوں کے وہ اشعار ہوں گے جو اُس وقت کتاب میں شامل نہیں کیے گئے تھے۔ بقول خالد انصاری یہ بھائی جون کی خواہش تھی کہ وہ سب اشعار بھی شایع کیے جائیں۔ اس کے علاوہ فردیاتِ جون ایلیا اور دیگر اصنافِ سخن میں ان کی شعری باقیات ”کُن“ میں جگہ پائیں گی۔

    سولہ سال بعد شایع ہونے والے شعری مجموعے ”کیوں“ کو مؤلف نے علی کرار نقوی اور جاوید معنی کے نام کیا ہے۔ اس کتاب کا بیک وقت اجرا پاکستان اور بھارت میں ممکن بنایا گیا۔ خالد انصاری نے بتایا کہ یہ عدیل زیدی کی خصوصی کوشش کے سبب ہوا اور اس کے لیے ”ریختہ“ نے بھی تعاون کیا۔ جون ایلیا کے عاشق عدیل زیدی کا ذکر ہم اگلی سطور میں کرتے ہیں۔

    بھائی جون کے بکھرے ہوئے کلام کو سمیٹننے، اور کتابوں کی اشاعت تک اپنے سفر میں خالد انصاری نے اوّلین سنگِ میل گمان کی شکل میں طے کیا تھا۔ اس کا نقشہ انھوں نے اپنی ایک تحریر میں یوں‌ کھینچا ہے، ”2004ء کی ایک سرد شام، ہاتھ میں گمان کا مسودہ تھامے لمبے لمبے قدم اٹھاتا کوریئر کمپنی کے دفتر کی جانب رواں دواں ہوں، مجھے یہ مسوّدہ لاہور ارسال کرنا ہے۔ میں اس خواب کی تعبیر پانے کی تگ و دو میں ہوں جو میں نے برسوں پہلے اپنے دوستوں کے ہم راہ دیکھا تھا۔ خواب، یعنی جون بھائی کا کلام مجموعوں کی صورت اختیار کرے اور دنیا دیکھے کہ جون ایلیا کی شاعری سے متعلق باتیں محض افسانہ نہیں تھیں۔“ خالد انصاری شاعر یا ادیب نہیں، لیکن جون ایلیا کی کتابوں کے مؤلف کی حیثیت سے انھیں ادبی حلقوں میں بڑا احترام حاصل ہے۔

    شکیل عادل زادہ

    ”کیوں“ کی تقریبِ اجرا میں اردو زبان و ادب کی معتبر شخصیت، پاکستان کے مقبول اور کثیر الاشاعت ڈائجسٹ سب رنگ کے مدیر، ناول نگار، اور معروف صحافی شکیل عادہ زادہ نے جون ایلیا سے متعلق اپنی یادیں تازہ کیں۔ شکیل صاحب جون ایلیا کے ایک ہم کار ہی نہیں‌ دیرینہ رفیق رہے ہیں۔ شکیل عادل زادہ نے انھیں بے مثل شاعر قرار دیا۔ ان کا خیال ہے کہ جون صاحب بحیثیت شاعر تو بہت مقبول اور معروف ہیں، لیکن وہ اپنی نثر میں جھلکتے تھے۔ ایک عالم اور فلسفی آدمی کی شاعری کا بہت ذکر ہوتا ہے لیکن وہ ایک بڑے نثر نگار بھی تھے اور ہمیں ان کی نثر بھی ضرور پڑھنا چاہیے۔

    عدیل زیدی
    عدیل زیدی، شکیل عادل زادہ کو کتاب سے اشعار پڑھ کر سنا رہے ہیں

    عدیل زیدی کا نام بطور میزبان بھی لیا گیا ہے، لیکن انھیں اس تقریب کا ایک مہمانِ خاص جاننا چاہیے۔ امریکا میں مقیم عدیل زیدی کا ایک حوالہ اور تعارف بطور شاعر تو اردو دنیا سے ہے ہی، لیکن وہ ایک ادب نواز شخصیت بھی ہیں۔ اپنے مخصوص انداز اور دل نواز لہجے میں عدیل زیدی نے کہا کہ جون ایلیا افقِ لحد سے پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو چکے ہیں اور کیوں کے اجرا کے بعد جون ایلیا کی آب و تاب میں قابلِ ذکر اضافہ ہو گا۔ عدیل زیدی نے تقریب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ جون ایلیا ایک شخص کا نہیں ایک شخصیت کا نام ہے۔ ان کا منفرد لہجہ، ان کی شاعری میں گفتگو اور گفتگو میں شاعری، ان کی اپنے آپ کو تباہ کرنے کی ہمّت، اپنے پیاروں سے اور اپنی زمین سے عشق کا والہانہ جذبہ، اپنے تمام احساسات و جذبات کو آسان اور عام فہم میں بیان کرنا، یہ سارے عناصر اگر کبھی دوبارہ یکجا ہوسکے تو شاید جون ایلیا جیسی شخصیت کا ظہورِ ثانی ممکن ہو جائے۔

    اس تقریب میں اظہارِ‌ خیال کرنے والوں میں میزبان شخصیات اور صدرِ محفل کے علاوہ عقیل عباس جعفری، وسعت اللہ خان، مومن خان مومن، خرّم سہیل، مسرور پیرزادو، غلام علی (جون) شامل تھے۔

    جون ایلیا سے متعلق مضامین کا مجموعہ ”مَیں یا مَیں: جون ایلیا پر تحریریں اور ملاقاتیں“ بھی شاید آپ نے پڑھا ہو۔ آخری شعری مجموعے کے ساتھ بھی ایسی ہی مختصر کتاب بعنوان ”کیوں عام کیا سخن کو“ شایع کی گئی ہے۔ یہ جون ایلیا کی شخصیت پر احباب کی یادوں اور تأثرات پر مشتمل مضامین ہیں۔

    کتاب کے سرورق پر اور اندرونی صفحات پر جون ایلیا کی جو تصویریں شایع کی گئی ہیں، وہ اے آئی (artificial intelligence) کا کمال ہیں۔

  • پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات کی وجہ سے لیشمینیاسس میں اضافہ

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات کی وجہ سے لیشمینیاسس میں اضافہ

    شبنم بی بی خاموشی سے طبی امداد کا انتظار کر رہی ہے۔ وہ شمالی پاکستان کے قبائلی ضلع خیبر کے ایک شہر لنڈی کوتل میں ایک پرہجوم طبی مرکز میں قطار میں کھڑی ہے۔ تین بچوں کی یہ 19 سالہ ماں مایوسی کے ساتھ اپنے چہرے پر ایک بڑا زخم دکھاتی ہے۔ اس کے بائیں گال پر ایک نشان ہے جو اس کی ناک کی طرف پھیل رہا ہے۔ یہ جلد کے انفیکشن کی بیماری لیشمینیاسس کی واضح اور تکلیف دہ علامت ہے، جو ریت کی مکھی سے پھیلتی ہے۔

    ریت کی مکھی سے پھیلنے والی اس بیماری کی حالیہ وبا، خیبر پختونخوا کے مشکل حالات کا نتیجہ ہے

    چہرے کا یہ زخم تقریبا 46 دن پہلے نمودار ہوا تھا۔ شبنم (بی بی جنوبی ایشیائی خواتین کے لیے استعمال ہونے والی احترام کی ایک عام اصطلاح ہے) نے پہلے تو اسے نظر انداز کیا، لیکن آہستہ آہستہ اس کی حالت خراب ہوتی گئی، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہو گئی۔ اسے ڈر تھا کہ یہ بیماری ان پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ شبنم کا سب سے چھوٹا بچہ، سات ماہ کا لڑکا، اپنی دادی کی گود میں ہے۔ دو مہینے پہلے اسے بھی ریت کی مکھی نے کاٹ لیا تھا، جس کی وجہ سےاس کے چھوٹے سے ہاتھ پر سوجن اور گلٹی ہے۔ اپنے اسکارف کو مضبوطی سے تھامے شبنم کو اپنی ظاہری شکل کی فکر ہے، اور وہ اپنے دوسرے بچوں کو بہت یاد کرتی ہے۔

    شبنم کا تعلق اس ضلع کے ایک دور افتادہ، پہاڑی اور پسماندہ علاقے شلمان سے ہے، جو صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔ اس طبی مرکز میں ان کی طرح اور بھی بہت سے لوگ ہیں، جو اسی طرح کی آزمائش سے گزر رہے ہیں: شدید گرمی کی لہر اور بڑھتی ہوئی خشک سالی اور اس سخت زمین میں درد اور غربت۔

    لیشمینیاسس کے جسمانی اور نفسیاتی دونوں پہلوؤں سے نبرد آزما شبنم کی حالت کے بارے میں خوف اور بدنامی نے انہیں الگ تھلگ کر دیا ہے۔ یہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح لیشمینیاسس جیسی نظر انداز کی جانے والی بیماریاں نہ صرف جسموں بلکہ پوری زندگی کو تباہ کر سکتی ہیں۔ یہ خاص طور پر سب سے کمزور گروہوں کے لئے سچ ہے: خواتین اور بچے۔

    ایک بیماری جسے نظر انداز کر دیا گیا ہے
    پشاور میں ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی ایکٹیویٹی مینیجر حلیمہ خالد کہتی ہیں کہ”لیشمینیاسس ان آٹھ نظر انداز کی جانے والی بیماریوں میں سے ایک ہے، جو زیادہ تر غریب برادریوں کو متاثر کرتی ہیں۔ جو چیز اس بیماری کو نظر انداز کی جانے والی بیماری بناتی ہے وہ اس کے بارے میں آگاہی کی کمی ہے۔ دیگر بیماریوں کے لئے وسیع پیمانے پر تحقیق اور علاج کے اختیارات تیار کیے گئے ہیں، لیکن لیشمینیاسس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے”۔

    ابتدائی علامت ایک چھوٹی، درد سے پاک، بغیر خارش والی گلٹی ہے۔ فوری علاج کے بغیر، لیشمینیاسس زخموں اور درد میں بڑھ جاتا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کی پروفیسر اور لیشمینیاسس میں مہارت رکھنے والی ناظمہ حبیب کہتی ہیں کہ “ریت کی مکھی کے کاٹنے کے بعد یہ علامات ہفتوں سے مہینوں میں ظاہر ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ کاٹنے کی جگہ پر درد سے پاک سرخ دھبے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں”۔ وہ کہتی ہیں کہ نومبر اور مارچ کے درمیان کیسز کی آمد عروج پر ہوتی ہے۔ “موسم گرما کے دوران ریت کی مکھیوں کے ذریعہ منتقلی کے بعد انکیوبیشن کا دورانیہ ہوتا ہے جس سے زخم پیدا ہوتے ہیں۔”

    اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ
    خیبر پختونخوا کے سات قبائلی اور چھ جنوبی اضلاع کے کئی علاقوں کو لیشمینیاسس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جس سے علاقے میں صحت کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے۔

    سنہ 2018 سے پہلے کبھی کبھار لیشمینیاسس کی وبا پھیلتی تھی جس میں کیسز کی تعداد زیادہ سے زیادہ سیکڑوں میں ہوتی تھی، حالانکہ دور دراز علاقوں میں غیر متضاد رپورٹنگ اور کم تشخیص کی وجہ سے اصل درست تعداد مختلف ہوتی ہے۔ محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے انٹیگریٹڈ ڈیزیز سرویلنس اینڈ ریسپانس سسٹم سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بیماری وبائی تناسب تک پہنچ چکی ہے۔ نومبر 2018 سے جولائی 2019 کے درمیان 28 ہزار، 2021 میں 3 ہزار 177، 2022 میں 18 ہزار 189، 2023 میں 25 ہزار اور اگست 2024 تک مزید 14 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔

    صرف ضلع خیبر میں محکمہ صحت کی جانب سے اکتوبر اور نومبر 2024 کے دوران 2400 کیسز درج کیے گئے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں کی گئی ایک تحقیق میں اکتوبر 2018 سے دسمبر 2020 کے درمیان 2,603 مریضوں کو ریکارڈ کیا گیا۔ اس ضلع کی سرحد یں افغانستان سے ملتی ہیں، جہاں لیشمینیاسس عام ہے۔ اس تحقیق میں ہر عمر کے لوگوں میں چہرے کے زخموں کے پھیلاؤ پر روشنی ڈالی گئی ہے، لیکن یہ بیماری بچوں اور خواتین میں سب سے زیادہ شدید پائی گئی ہے۔

    2022 میں میڈیسنز سانس فرنٹیئرز واحد ادارہ تھا جس نے خیبر پختونخوا میں علاج کے مراکز قائم کیے، پشاور اور بنوں کے اضلاع میں ایک ایک۔ ان مراکز میں سے ہر ایک میں روزانہ اوسطا ۳۰۰-۵۰۰ مریض آتے ہیں۔ کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد نے محکمہ صحت کو خیبر کے قبائلی اضلاع (لنڈی کوتل، جمرود اور باڑہ) میں مزید تین مراکز کھولنے پر مجبور کیا۔ تاہم، مقامی بازاروں میں ضروری ادویات کی کمی اور محدود تعداد میں علاج کے مراکز جو اکثر متاثرہ علاقوں سے دور واقع ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو بروقت علاج حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ یہ عوامل بیماری کو مزید شدید بنانے کے قابل بناتے ہیں۔

    آب و ہوا کی تبدیلی اور تنازعات
    حلیمہ نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ ریت کی مکھی طویل عرصے سے موجود ہے، لیکن موسم میں شدید اتار چڑھاؤ (بشمول طویل خشک سالی، ہیٹ ویو اور فلیش فلڈ) اس کی آبادی میں اضافے کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ نسل زیادہ نمی اور گرم موسم میں پھلتی پھولتی ہے۔ 2017 میں، خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ (قبائلی ضلع خیبر سے تقریبا 80 کلومیٹر شمال مشرق) میں کی گئی ریت کی مکھی کی ایک سال طویل تحقیق میں پایا گیا کہ انڈور سینڈ فلائی کی تعداد نمی اور درجہ حرارت کے ساتھ مثبت تعلق رکھتی ہے۔

    بہت سے عوامل میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی، آبادی کی کثافت اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال بھی ریت مکھی کی آبادی میں اضافے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

    حلیمہ کہتی ہیں، ”آب و ہوا کی وجہ سے آبادی کی نقل و حرکت بھی اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتی ہے، کیوں کہ مقامی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس بیماری کو غیر مقامی علاقوں میں لے جا سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں کی آبادی بھی سازگار ہے – خاص طور پر اس کے جنوبی اور قبائلی اضلاع میں، جہاں کچے مکانات، مرطوب موسم اور صفائی ستھرائی کا ناقص نظام ہے۔”

    دریں اثنا، افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے پناہ گزینوں کی آمد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اندرونی نقل مکانی کے علاوہ ہے، جو افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر عسکریت پسند گروہوں کے درمیان تقریبا 20 سال سے جاری تنازعے اور خیبر پختونخوا کے اندر انسداد بغاوت کی کارروائیوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی اور شکار جیسی سرگرمیوں کے ذریعے قدرتی وسائل کا حد سے زیادہ استحصال ہوا ہے۔ سنہ 1997 میں خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں افغان پناہ گزین کیمپ میں لیشمینیاسس کی ایک بڑی وبا پھیلی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کیمپ کے 9,000 سے زائد رہائشیوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ 12 ماہ کی مدت کے اندر لیشمینیاسیس میں مبتلا ہوگئے۔ اس وبا کے بارے میں 1999 کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ اس مقام پر اس سے پہلے کبھی بھی جلد کے لیشمینیاسس کی اطلاع نہیں ملی تھی۔ حلیمہ کہتی ہیں کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی وجہ سے ریت کی مکھیوں کی آبادی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

    خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا، “صحت اور ماحولیات کے بارے میں بات چیت کبھی بھی تنازعات کی حکمت عملی کا حصہ نہیں رہی”۔ ان کا کہنا ہے کہ تنازعات کی وجہ سے صحت کے شعبے کو بار بار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کے محکمے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صحت کی سہولیات ان بنیادی ڈھانچوں میں شامل ہیں جو خطے میں عسکریت پسندوں کی طویل لڑائی کی وجہ سے بری طرح تباہ ہوئے ہیں۔ مزید برآں، صحت کے شعبے کی این جی اوز پر حکومت کی پابندی نے عام طور پر صحت عامہ سے متعلق آگاہی مہموں میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

    نفسیاتی اثرات
    ”میرے دوست جب مجھے دیکھتے ہیں تو فاصلہ برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اس خوف سے کہ میں انہیں متاثر کر سکتا ہوں، جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے، میں اکیلا بیٹھتا ہوں،” ۱۲ سالہ سدیس کہتا ہے۔ اس کی ناک پر ایک زخم ہے۔ سدیس خیبر کے ایک قصبے جمرود میں اپنے دو کمروں کے گھر میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ فرش شیئر کرتا ہے۔

    اس خطے کی قبائلی ثقافت میں خواتین کو ایک معمولی حیثیت حاصل ہے، جہاں موسم شدید ہے۔ ناظمہ کے مطابق، خواتین کو اکثر اپنے گھروں سے بغیر کسی ساتھ باہر نکلنے یا طبی امداد حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے، کیونکہ روایت کے مطابق مرد ڈاکٹروں کو خواتین کی دیکھ بھال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ڈاکٹروں سے زیادہ تر مشورہ صرف اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی بیماری قابو سے باہر ہو جاتی ہے۔ لہذا یہ وبا خواتین کو جسمانی اور نفسیاتی دونوں طرح سے نقصان پہنچاتی ہے۔

    ناظمہ کہتی ہیں، ”اس مسئلے کے کئی پہلو ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا کے تنازعات اور موسمیاتی آفات سے متاثرہ دور دراز علاقوں میں، جہاں صحت کی سہولیات نایاب ہیں، اور خواتین اکیلے سفر نہیں کر سکتیں یا انہیں اسپتال نہیں لے جایا جاتا”۔

    “یہ بیماری مہلک نہیں ہے، لیکن اس کے سنگین نفسیاتی اثرات ہیں، خاص طور پر بچوں اور خواتین پر، جن کا اکثر اسکولوں، معاشرے اور یہاں تک کہ گھر میں مذاق اڑایا جاتا ہے اور الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے. یہ جسم پر دیرپا داغ چھوڑتا ہے اور مریضوں میں ان کے تجربات کی وجہ سے غصے اور مایوسی کے جذبات کو گہرا کرتا ہے۔

    ناظمہ کا کہنا ہے کہ چونکہ لیشمینیاسس چہرے اور جسم پر داغدار داغ چھوڑتا ہے، لہٰذا یہ مریض کے اپنے بارے میں تصور کو مستقل طور پر متاثر کرسکتا ہے۔ نفسیاتی اثرات شدید ہیں، خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے لئے. یہ داغ سماجی بدنامی اور تنہائی کو جنم دے سکتے ہیں، خود اعتمادی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور شادی کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ اثرات خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں نقصان دہ ہیں جہاں گوری جلد اور چہرے کی خوبصورتی کو لڑکیوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

    ڈائیلاگ ارتھ نے پشاور یونیورسٹی میں پیراسائٹولوجی کے ڈاکٹر قیصر جمال کے ساتھ اس کے حل پر تبادلہ خیال کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بیماری کی موثر روک تھام کے لیے متعدد طریقے ضروری ہیں جن میں بہتر عوامی آگاہی، قابل رسائی صحت کی دیکھ بھال اور مفت ادویات شامل ہیں، انہوں نے مزید کہا: “محکمہ صحت کو بروقت علاج شروع کرنے اور پیچیدگیوں کو روکنے کے لئے فوری اور درست تشخیص شروع کرنی چاہئے۔

    (فواد علی کی یہ رپورٹ جس کی مترجم فرح ناز زاہدی ہیں، ڈائیلا ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • ’’اووو۔۔۔۔۔، اوووو‘‘ ملک اور قوم کی ترقی کا زینہ!

    ’’اووو۔۔۔۔۔، اوووو‘‘ ملک اور قوم کی ترقی کا زینہ!

    وزیراعظم شہباز شریف نے حال ہی میں نئے سال کے آغاز پر اڑان پاکستان لانچنگ پروگرام میں قوم کو اُڑنے کا نیا گُر سکھاتے ہوئے ’’اوووو، اوووو‘‘ کی آواز میں احتجاج کرنے کا پیغام دیا اور یہ پیغام اب اتنا پھیل رہا ہے کہ پوری قوم ہی اووو، اووو کر کے اس کو قومی بیانیہ بنانے میں مصروف ہو چکی ہے۔

    شہباز شریف جنہوں نے خوش قسمتی سے دوسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ وہ اس سے قبل تین بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بلاشبہ اپنے صوبے کے عوام کی ’’اتنی خدمت‘‘ کی، کہ خود ہی خود کو ’’خادم اعلیٰ‘‘ کا خطاب دے ڈالا۔ اب جب سے یہ خیر سے وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں، تو انہوں نے خادم اعلیٰ کے ساتھ شاید خود کو ’’استاد قوم‘‘ سمجھنا شروع کر دیا ہے اور آئے دن پاکستانی قوم کو ترقی کرنے کے ایسے ایسے گُر سکھاتے ہیں، جس سے یہ بے چاری قوم پہلے نابلد تھی۔

    وزیراعظم نے اڑان پاکستان پروگرام کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے قوم کو ترقی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ ’’وہ جب جاپان گئے تو انہوں نے اووو، اووو کی آوازیں سنیں اور جب انہوں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ فیکٹری کے لوگ احتجاج کر رہے ہیں، وہ کام نہیں روک رہے کیونکہ یہ ملک و قوم کا نقصان ہے، اس لیے وہ کام جاری رکھتے ہوئے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومیں ایسے ہی ترقی کرتی ہیں جب کہ ہمارے ہاں احتجاج کے نام اسلام آباد پر لشکر کشی کی جاتی ہے۔

    شہباز شریف کا یہ بیان بظاہر ایک سیاسی بیانیہ لیے ہوئے تھا جنہوں نے اپنی بات کو دوسرے پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا یہ مشورہ سننے کے بعد تقریب میں بیٹھے لوگوں کے لیے اپنی ہنسی روکنا مشکل ہوگیا۔
    خادم پاکستان کے سونے کے ترازو میں تولے جانے والے اس بیش قیمت لیکن مفت مشورے پر تو سمجھو قوم نے اسی دن سے عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ تاجروں نے تو کراچی میں گزشتہ روز اس کا ڈیمو بھی پیش کر دیا۔ ایک ٹرک ڈرائیور نے غیر قانونی چالان پر احتجاج کرتے ہوئے اووو، اووو کیا، بچے بڑے سب ہی اووو، اووو کر رہے ہیں، لیکن ترقی کا عمل کب شروع ہوتا ہے، یہ ہنوز سوالیہ نشان ہے؟

    شہباز شریف جنہیں قوم کا درد، رات میں سکون کی نیند سونے نہیں دیتا۔ وہ علی الصبح اٹھ جاتے ہیں اور دن کے 24 میں سے ’’25‘‘ گھنٹے قوم کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اگر قوم کو کامیابی کا گُر اور دنیا میں ترقی کرنے کا راز بتا دیا ہے تو اس میں ایسی کیا مضحکہ خیز بات ہوگئی کہ یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر اس کا مذاق اڑانا اور میمز بنانا شروع کر دیں۔ سوشل میڈیا پر اگر میمز بن رہی ہیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ دشمنوں (پی ٹی آئی) کی سازش ہے۔ مگر یہ ہمارے جید صحافیوں حامد میر، نصرت جاوید، جاوید چوہدری، سابق قومی کپتان محمد حفیظ اور مختلف سیاسی شخصیات کو کیا ہو گیا کہ وہ بھی اس پر ہنسی ٹھٹا اڑانے لگے، آخر کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔

    یہ تو مخالف سیاستدان ہیں یا عوام اور صحافی، جن کی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں گلہ تو ن لیگیوں سے ہے کہ وہ کیوں اس پر ہانسا نکال کر لوگوں کو ہنسنے کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ تو آن اسکرین اس بیان سے جڑے سوال پر ہنستے ہیں جب کہ اندرون خانہ ن لیگ کی بیٹھکوں میں تو اس پر کان پھاڑ قہقہے تک لگائے جانے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ اس بیان سے شہباز شریف کو ملکی نہیں بین الاقوامی ایک اور شہرت مل گئی ہے اور بیرونی دنیا سے بھی اس پر میمز بن رہی ہیں۔

    سوچیں پارلیمنٹ میں حکومتی تقریر کے دوران اچانک اووو، اووو کی آوازیں آنے لگیں تو ’’منتخب عوامی نمائندوں‘‘ کا یہ ایوان ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے جیسا منظر پیش کرنے لگے۔ ویسے ناچیز کی جانب سے ایک تجویز ہے کہ جس طرح اس ایوان سے تھوک کے بھاؤ سے بل پاس کرائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے یہ بھی پاس کرا دیا جائے کہ آئندہ احتجاج کے لیے کوئی اور نعرہ نہیں لگے گا، سب صرف ’’اووو، اووو‘‘ ہی کریں گے۔ اگر اپوزیشن رخنہ ڈالے تو ایوان صدر کس کام آئے گا، وہاں سے بزور آرڈیننس ملک و قوم کو ترقی کے اوج ثریا پر پہنچانے والے اس فارمولے کو قانون بنایا جا سکتا ہے، بلکہ اس پر 100 فیصد عملدرآمد کے لیے حکومت کی جانب سے خلاف ورزی پر بھاری سزا یا جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔

    دنیا بھر میں تقریروں میں سیاستدانوں کی زبان پھسلتی رہتی ہے لیکن وہ اس کا فوری تدارک کر لیتے ہیں لیکن شہباز شریف وہ شعلہ بیان سیاستدان ہیں، جن کی زبان اتنی طویل اور باقاعدہ پلاننگ کے تحت پھسلتی ہے کہ پھر چکنا گھڑا بن جاتی ہے اور اتنی زبان زد عام ہو جاتی ہے جیسا کہ ماضی میں ’’میں بھیک مانگنے نہیں آیا مگر پھر بھی‘‘ والا ایک تقریب میں کیا گیا خطاب اب تک قوم کیا، دنیا کو نہیں بھولا ہے۔

    ذرا تصور کریں کہ نواز شریف اچانک ٹی وی اسکرین پر آئیں اور دوران گفتگو حسب سابق ماضی میں پہنچ کر اپنے خلاف روا رکھے گئے رویے پر ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کہہ کر احتجاج کرنے کے بجائے صرف ’’اووو، اوووو، اووو‘‘ کریں تو کیسا لگے گا۔ یا پھر اتحادی جماعتیں ن لیگ، پی پی پی، ایم کیو ایم اختلاف رائے ہونے پر میٹنگ میں صرف اووو، اووو کریں اور اٹھ جائیں تو اس بیٹھک کا کیا نتیجہ نکلے گا۔

    وزیراعظم نے تو قوم کو ترقی کا راز بتا دیا۔ اب اگر اس پر بھی قوم ترقی نہ کرے تو قصور ہمارے پیارے وزیراعظم کا نہیں بلکہ نا اہل قوم کا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ جس سُر تال اور لے کے ساتھ جاپانی قوم اووو کرتے ہوں پاکستانی وہ انداز نہ اپنا سکیں اور یوں ترقی کی راہ میں رکاوٹیں آئیں۔ اس لیے ہمارا بھی ایک مفت مشورہ ہے کہ ملک میں ایسے تربیتی مراکز قائم کیے جائیں جہاں قوم کو صحیح طریقے سے اووو کی آواز نکالنے کی تربیت کی جائے، تاکہ ملک وقوم کی ترقی کا 77 سالہ خواب جلد از جلد شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

  • انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    جنوبی ایشیا میں شامل ممالک کے مقامی ادیبوں نے انگریزی زبان میں جتنا بھی ادب تخلیق کیا، اسے عالمی ادب کے پس منظر میں انگریزی کا جنوب ایشیائی ادب کہا جاتا ہے، یعنی ایک طرح سے یہ ادب کی ایک شاخ ہے۔ پاکستان میں انگریزی زبان میں ادب تخلیق کرنے والے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی فہرست زیادہ طویل تو نہیں ہے، لیکن جب بھی اس پہلو پر بات کی جاتی ہے تو اس میں سب سے نمایاں اور ابتدائی نام’’بپسی سدھوا‘‘ کا ہے۔ انہوں نے 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں ناول نگاری کی ابتدا کی اور طویل عرصے تک پاکستانی اور عالمی ادبی منظر نامے پر چھائی رہیں۔ نئے آنے والوں نے ان کی تقلید کرتے ہوئے انگریزی فکشن لکھا اور شہرت پائی۔ ان میں محمد حنیف، محسن حامد، کاملہ شمسی اور دیگر انگریزی ناول نگار شامل ہیں۔ اردو زبان میں بھی صرف بپسی سدھوا ہی وہ ادیب ہیں، جنہیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا اور اسے قارئین بہت پسند کیا۔

    ایک خوش گوار دن، خوب صورت یاد

    بپسی سدھوا 2010ء میں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بطور مندوب شریک تھیں۔ اسی فیسٹیول میں راقم نے ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے بارے میں پہلی مرتبہ اردو میں تفصیل سے بات کی تھی۔ کراچی میں‌ بپشی سدھوا سے راقم کی ملاقات ان آخری لمحات میں‌ ہوئی جب وہ ایئرپورٹ روانہ ہونے کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ ناول نگار مختصر مدت کے لیے امریکا سے ادبی میلے میں شرکت کے لیے آئی تھیں اور اس روز صبح اپنے سیشن سے فراغت پانے کے بعد لان میں ایک نشست پر بیٹھ کر اپنی ایئرپورٹ روانگی کے لیے اپنی گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔english writer

    راقم نے ان کے چند ناول پڑھے تھے اور ان کے ناولوں پر بننے والی دونوں انڈین فلمیں بھی دیکھ چکا تھا جن کا تذکرہ آگے آئے گا۔ صبح صبح بپسی سدھوا سے ملاقات کے لیے ادبی میلے پہنچا تاکہ ان سے مکالمہ کر سکوں۔ دیکھا کہ وہ لان میں بیٹھی ہوئی ہیں‌ اور یہ بہترین موقع تھا ان سے گفتگو کرنے کا۔ اپنا تعارف کرواتے ہوئے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے مجھ سے چند سوال کیے اور یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ میں انہیں پڑھ چکا ہوں، گفتگو کی اجازت دے دی لیکن اسے گاڑی آ جانے سے مشروط بھی کردیا۔

    اردو زبان میں ان کا یہ پہلا انٹرویو تھا جو میرے انٹرویوز میں سے ایک یادگار انٹرویو ہے۔ بپسی سدھوا سے یہ مکالمہ میری کتاب "باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے” میں شامل ہے۔ ان انٹرویوز کا جب انگریزی انتخاب ’’دی کنورسیشن ود لیجنڈز‘‘ شائع ہوا تو اس میں بھی بپسی سدھوا کا نہ صرف انٹرویوز شامل تھا بلکہ وہ سرورق پر منتخب شخصیات میں سے بھی ایک تھیں۔

    اس کتاب کی مدیر و مترجم افرح جمال ہیں جو انگریزی کی باکمال صحافی ہیں۔ عالمی ادبیات کے تناظر میں ناول پر اپنی تحقیقی کتاب ’’ناول کا نیا جنم‘‘ میں بھی راقم نے ان کے حوالہ جات شامل کیے ہیں اور کتاب کی پشت پر منتخب ناول نگاروں میں شامل رکھا ہے۔ بعد میں بپسی سدھوا سے فیس بک کے طفیل رابطہ برقرار رہا اور اور ان کی رحلت سے دل اداسی سے بھر گیا ہے۔

    خاندانی پس منظر

    بپسی سدھوا 11 اگست 1938 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں اور 25 دسمبر 2024ء کو 86 سال کی عمر میں امریکا میں انتقال کرگئیں۔ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مقیم تھیں۔ بپسی سدھوا کا تعلق گجراتی پارسی گھرانے سے تھا۔ وہ بعد میں اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئی تھیں اور زندگی کا طویل عرصہ وہیں گزارا۔ بپسی سدھوا نے 1957 کو لاہور کے مشہور کنیئرڈ کالج سے گریجویشن کیا۔ 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ان کی عمر 9 سال تھی۔ ان کی پہلی شادی ناکام رہی، البتہ دوسری شادی کے بعد خوش گوار ازدواجی زندگی کا سفر شروع کیا۔ تین بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریاں‌ نبھاتے ہوئے انہوں نے ناول نگاری کی ابتدا کی۔

    عالمی شہرت اور مقبولیت کے مراحل

    ناول نگار بپسی سدھوا نے انگریزی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی، لیکن عام زندگی میں وہ اپنی مادری زبان گجراتی اور قومی زبان اردو بولنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ 1982ء سے وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکا کے شہر ہیوسٹن میں رہائش پذیر تھیں۔ وہاں لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں اور متعدد امریکی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، جن میں ہیوسٹن یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر شامل ہیں۔ متعدد امریکی جامعات نے ان کے پہلے ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ کو نصاب کا حصّہ بنایا۔ بپسی سدھوا بطور ادیب جامعہ کراچی کے شعبۂ انگریزی کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔

    تخلیقی دنیا اور کہانیوں کے کردار

    ان کی تخلیقی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والی بپسی سدھوا کا پہلا ناول ’’کروایٹرز‘‘ تھا۔ اس کے بعد’’برائڈ‘‘ شائع ہوا۔ پھر ’’آئس کینڈی مین‘‘ چھپا، جس کا مرکزی خیال ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان تھا۔ تقسیم کے دنوں کی جو بھی پرچھائیاں ان کے ذہن کے پردے پر تھیں، بپسی سدھوا نے انہیں رقم کردیا، اور ذاتی تجربات سے اپنے ناول کے کرداروں میں رنگ بھرے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں مصنّف کی سوانح بھی جھلکتی ہے، جس کے ذریعے اس وقت کے لاہور کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس خطے کے رہنے والوں کی ذاتی زندگی پر تقسیم سے کیا اثرات مرتب ہوئے، کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان باریکیوں کو یہ ناول بیان کرتا ہے۔

    اپنے طویل ادبی کیرئیر میں بپسی سدھوا ناول، مختصر کہانیاں، مضامین اور بلاگز لکھتی رہیں۔ لاہور کو یاد کرتے ہوئے بھی انہوں نے کچھ تحریریں لکھیں، جن کا مجموعہ 2006ء میں شائع ہوا۔ 2013 میں ان کی انگریزی کہانیوں کا نیا انتخاب ’’دیئر لینگونج آف لو‘‘ لاہور سے شائع ہوا اور 2012ء میں ان کے مشہور ناول ’’کروایٹرز‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جنگل والا صاحب‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے مترجم محمد عمر میمن ہیں۔ بپسی سدھوا کی کتابیں پاکستان کے علاوہ انڈیا، امریکا، انگلینڈ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔

    تھیٹر اور فلم کی دنیا میں شہرت

    ان کی مختلف کہانیوں کو امریکا اور یورپی ممالک میں تھیٹر پر پیش کیا گیا جب کہ دو ناولوں ’’آئس کینڈی مین‘‘ اور’’واٹر‘‘ پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان کے ناول’’آئس مین کینڈی‘‘ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا جس کا ایک ایڈیشن امریکا اور انڈیا میں ’’کریکنگ انڈیا‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ اسی پر بھارتی نژاد کینیڈین فلم ساز دیپا مہتا نے فلم ’’ارتھ‘‘ بنائی، جب کہ ان کے ناول ’’واٹر‘‘ پر بھی وہ مساوی نام سے فلم بنا چکی ہیں۔ اس ناول اور فلم کی حیثیت اسی طرح متنازع ہے، جیسے اردو میں عصمت چغتائی کی کہانی ’’لحاف‘‘ اور پھر اس کہانی پر بننے والی فلمیں ہیں۔

    بپسی سدھوا کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی گئی، جس کو انہوں نے خود ہی لکھا تھا۔ اس دستاویزی فلم میں انگریزی زبان کی اس ادیب نے اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو بھی کی۔ ہم اسے بپسی سدھوا کی ویڈیو بائیوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ برطانیہ اور پاکستان میں 1988ء میں، جب کہ 1991ء میں امریکا اور 1992ء میں انڈیا میں شائع ہوا۔ اس ناول کا مرکزی خیال ایک کم عمر پارسی بچی ہے، جو اپنا ماضی یاد کر رہی ہے اور وہ دور بھی، جب ہندوستان کا بٹوارا ہو رہا تھا۔ وہ لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھی۔ تاریخ کے اس دوراہے پر، اس کے ہاتھ سے کیا چھوٹا، اس نے کیا کھویا اور پایا….یہ کہانی ان حالات اور رشتوں ناتوں کے پس منظر میں ہے، اور اس پر مصنّف کی اپنی سوانح کی چھاپ بھی موجود ہے۔

    اس ناول پر بنائی گئی فلم’’ارتھ‘‘ میں معروف فن کاروں عامر خان، نندیتا داس اور راہول کھنہ نے اداکاری کی جب کہ شبانہ اعظمی بطور صدا کار اس فلم کا حصّہ ہیں۔ فلم کی موسیقی معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے دی۔ ہندوستان میں تقسیم کے موضوع پر یہ اہم فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، لیکن جس طرح ناول کا تصوراتی دائرہ وسیع ہے، فلم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بپسی سدھوا کی دیگر کتابوں کو بھی بہت شہرت ملی اور ان کے کئی بار نئے ایڈیشنز بھی شائع ہوئے۔ ان میں دی پاکستانی برائڈ، این امریکی بارات وغیرہ شامل ہیں۔

    حرفِ آخر

    بپسی سدھوا کے تخلیقی کام کا اردو میں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوا۔ مترجمین کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستانی فلم سازوں کو بھی چاہیے کہ ان کی کہانیوں پر فلم بنائیں اور اس طرح پاکستان میں انگریزی ادب لکھنے والی پہلی ناول نگار کی پذیرائی کی جاسکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بپسی سدھوا کو تمغائے امتیاز تو دیا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ بپسی سدھوا اپنی ذات میں ایک ادارہ تھیں، جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

  • شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    دنیا میں دو مرکزی طرز کا سنیما تخلیق ہوتا ہے، جس کو کمرشل اور آرٹ سنیما کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں وفات پانے والے بھارتی فلم ساز شیام بینیگل کا تعلق دوسری طرز کے سنیما سے ہے۔ وہ ایک بہت عمدہ اسکرپٹ نویس بھی تھے۔انہوں نے اپنی فلموں میں ہندوستانی سیاست، مسلم سماج، خواتین کی حالت زار اور معاشرتی بدصورتی کو بیان کیا۔ وہ ایک عمدہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ، ادب شناس، سنیما کی دنیا کے فلسفی اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست ہنرمند تھے۔

    شیام بینگل نے سماج میں بہتری کے لیے اپنے حّصے کی شمع سنیما سازی کے ذریعے روشن کی۔ شیام بینگل ہم سے رخصت ہوچکے ہیں، مگر ان کی فلمیں اور کہانیاں، برصغیر پاک و ہند کے منظر نامے پر، انہیں ایک محسن فلم ساز کے طور پر پیش کرتی رہیں گی۔ پاکستان اور اردو زبان کی طرف سے شیام بینگل کو خراج تحسین کرنے کے لیے یہ تحریر پیشِ خدمت ہے۔

    زرخیز ذہن اور متوازی سنیما

    پوری دنیا میں آرٹ سینما جس کو پیررل سینما (متوازی فلمی صنعت) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سینما میں کام کرنے والے فلم سازوں کو سب سے بڑی جس چیز سے واسطہ پڑتا ہے، وہ فکری طور پر مضبوط ہونا ہے، جس طرح کوئی ادیب یا مصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا بھر میں ان فلم سازوں کو متوازی سنیما میں بہت شہرت اور مقبولیت ملی، جنہوں نے اپنے کام کو فکری بنیادوں پر استوار کیا۔ ہم اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بین الاقوامی سینما میں ایسے کئی مقبول نام دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے اس روش کو اختیار کیا اور شان دار فلمیں دنیا کو دیں۔ ان فلم سازوں نے انسانی سوچ اور افکار پر گہرے اثرات مرتب کیے، ان بین الاقوامی متوازی سینما کے فلم سازوں میں الفریڈ ہچکاک (اٹلی) فرانسز فورڈ کوپولا (امریکا)، آکیراکورو ساوا (جاپان)، مارٹن سیکورسیزی (امریکا)، فیڈریکو فیلینی (اٹلی) جیسے مہان فلم ساز شامل ہیں، جب کہ انڈیا سے بنگالی فلم ساز ستیا جیت رے، مرینال سین، ریتوک گھاتک جیسے ہیرے بھی متوازی سینما میں عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں۔ پاکستان سے اے جے کاردار اور جمیل دہلوی بھی اسی قبیلے کے فلم ساز ہیں، جس سے شیام بینیگل کا تعلق تھا۔ یہ تمام فلم ساز فکری اساس رکھنے والے، حساس طبیعت کے مالک فلم ساز تھے، جنہوں نے انسانی کیفیات اور احساسات کو بڑے پردے پر ایسے پیش کیا، جس طرح کوئی ادیب کہانی لکھ کر اظہار خیال کرتا ہے۔

    فلمی کہانیوں اور تخلیقی ادب کے مابین تعلق

    شیام بینیگل کی فلموں کی کہانیوں اور ادب کے درمیان گہرا تعلق ہے، کیونکہ وہ ادب کے بھی رسیا تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی فلموں کے اسکرپٹس کی بنیاد مختلف زبانوں میں تخلیق کیے گئے ادب پر رکھی اور ساتھ ساتھ ادبی تحریکوں کے اثرات بھی فلمی دنیا میں منتقل کیے۔

    ان کی چند مقبول فلموں میں اس تعلق کو دیکھا جا سکتا ہے اور مختلف ادبی تحاریک کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی فلم انکور جو 1974 میں ریلیز ہوئی، اس فلم کی کہانی تھامس ہارڈی جارج ایلیٹ کے کئی کہانیوں سے مماثلت رکھتی ہے، خاص طورپر جس طرح اس میں انگریزی ادب میں وارد ہونے والی ادبی تحریک realism یعنی حقیقت پسندی کو برتا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی دیہی ہندوستان کے پس منظر میں جاگیردارانہ نظام کے جبر اور انسانی رشتوں کی زبوں حالی کی عکاسی کرتی ہے۔

    ایک اور مشہور فلم بھومیکا 1977 میں ریلیز ہوئی، جس کی کہانی ہنسا واڈکر کے سوانحی ناول سنگتی ایکا سے ماخوذ تھی، جس میں ایک عورت کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مابین رکاوٹوں کی عکاسی کی گئی۔ یہ فلم ادبی تحریک حقوق نسواں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور فلم جنون جو 1978 میں ریلیز ہوئی، اس کے اسکرپٹ کی بنیاد رسکن بانڈ کا ناول اے فلائٹ آف پیجنز تھا۔ اس ناول میں اٹھارہ سو ستاون کے تناظر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کہانی کو بیان کیا گیا۔

    اسی طرز پر مزید چند فلموں کا احاطہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کہانیوں پر بھی کافی ادبی چھاپ ہے، جیسا کہ 1981 میں ریلیز ہونے والی فلم کلیوگ ہے، جس کی کہانی مہا بھارت سے ماخوذ ہے اور عہدِ جدید میں کارپوریٹ ثقافت کی اثر اندازی کو مخاطب کرتی ہے، جس میں سرمایہ دارانہ نظام، جدیدیت کے نظریات ہیں، جن کو ادب میں موضوع بنایا گیا۔ 1983 میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم منڈی جس کو غلام عباس کی مختصر کہانی سے اخذ کرکے فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا گیا۔ اس کہانی میں بھارتی نوکر شاہی اور دیہاتی ہندوستان میں ہونے والی کرپشن کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ عورت بطور طوائف اور دیگر رشتوں میں اس کی اہمیت کے تانے بانے کو بھی کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ 1985 میں ریلیز ہونے والی فلم تریکال گوا میں رہنے والے ایک خاندان کی کہانی ہے، جس کو نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی میں جیمز جوائس کی کہانیوں کا نقش دکھائی دیتا ہے۔

    شیام بینیگل کی فلموں کا مزید جائزہ لیا جائے تو 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم زبیدہ کی کہانی، تخلیق کار اور ادیب خالد محمد کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ شاہی زندگی میں قید ایک عورت جو بغاوت پر آمادہ ہے، کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔

    ایک رومانوی المیے پر مبنی یہ فلم اپنے وقت کی خوبصورت اور یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور شیام بینیگل کے تخلیقی ذہن کی انتہا بھی ، جس کو دیکھتے ہوئے فلم بین اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔ اس کہانی کے پس منظر میں کہیں ہمیں برطانوی ادب کی برونٹے سسٹرز کے اثرات بھی مرتب ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔

    2009 میں ریلیز شدہ فلم شاباش ابّا اردو کی معروف ہندوستانی ادیبہ جیلانی بانو کی تین کہانیوں سے ماخوذ ہے، جو ہندوستان میں نوکر شاہی طبقے پر لطیف پیرائے میں طنز ہے۔ انہوں نے مختلف سیاسی شخصیات پر بھی فلمیں بنائیں، جن میں بالخصوص مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس اور شیخ مجیب الرحمان سرفہرست ہیں جب کہ دستاویزی فلموں کے تناظر میں جواہر لعل نہرو اور ستیا جیت رے جیسی شخصیات پر بھی کام کیا۔ یہ تمام طرز بیان ہمیں شیام بینیگل کے سنیما اور ان کی فکر اور دانش کی مکمل تفہیم دیتا ہے۔

    پسندیدہ کردار اور محبوب عورتیں

    شیام بینیگل کے ہاں صرف دلچسپی کردار اور کہانی تک محدود نہیں تھی، وہ اپنی فلموں میں کرداروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ان کو ادا کرنے والے اداکار یا اداکارائیں کون ہوں گی، اگر ان کو محسوس ہوا کہ کوئی فن کار ان کے کرداروں کی نفسیات کو سمجھ رہا ہے اور ان کی ذہنی ہم آہنگی ان سے اچھی ہورہی ہے تو پھر وہ اس کے ساتھ باربار کام کرتے تھے، یہ معاملہ خاص طورپر اداکاراؤں کے لیے کئی بار ہوا، جیسا کہ سمیتا پاٹیل ، شبانہ اعظمی اور نینا گپت اکی مثالیں سامنے ہیں۔ خاص طور پر اپنے کیریئر کی ابتدائی فلمیں صرف سمیتا پاٹیل کے ساتھ کیں اور سب ایک کے بعد ایک مقبول بھی ہوئیں۔ ان کی فلموں میں دیگر جو اداکارائیں شامل ہوئیں، ان میں ریکھا، نینا گپتا، ایلا ارون، لیلیٰ نائیڈو، فریدہ جلال، کیرن کھیر، سریکا سکری، راجیشوری سچدیو، نندیتا داس، کرشمہ کپور، لیلیتے ڈوبے، دیویادتا، امرتا راؤ، منیشا لامبا اور نصرت امروز تیشا اور نصرت فاریہ شامل ہیں۔

    بالی ووڈ پر عنایات 

    شیام بینیگل نے سماجی قیود کی تاریکی میں جہاں اپنے حصے کی شمع روشن کی، وہاں کچھ ایسے چراغ بھی جلائے، جن کی روشنی سے ابھی تک معاشرہ منور ہے۔ جی ہاں، انہوں نے اننت ناگ جیسے اداکار اور شبانہ اعظمی جیسی اداکارہ فلمی دنیا میں متعارف کروائی۔ دیگر فن کاروں میں سمیتا پاٹیل اور نینا گپتا جیسی اداکارہ کو مقبول اداکارائیں بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ نصیرالدین شاہ، اوم پوری، رجت کپور جیسے اداکاروں کے کیریئر کو استحکام دیا۔ ان کی فلموں میں کام کرنے والے اداکار آگے چل کر بڑے فن کار بنے اور انہوں نے بالی ووڈ کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں معاونت کی۔ انہی کی وجہ سے کمرشل سنیما میں بھی ادبی اور تخلیقی رنگ بھرے گئے اور بہت ساری اچھی کمرشل فلمیں، آرٹ سنیما میں کام کرنے والے ان اداکاروں کی وجہ سے بہترین ثابت ہوئیں۔

    انہوں نے فیچر فلموں کے علاوہ، دستاویزی فلمیں، مختصر دورانیے کی فلمیں، ٹیلی وژن ڈراما سیریز بنائیں۔ وہ مستقبل میں معروف برطانوی شخصیت نور عنایت خان جس نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی جاسوس کے طور پر شہرت حاصل کی، ان کی زندگی پر فلم بنانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے 80 کی دہائی کے بعد جب آرٹ سنیما زوال پذیر ہونا شروع ہوا، تو فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر کے خود کو چھوٹی اسکرین (ٹیلی وژن) تک محدود کر لیا مگر خود کو کمرشل سنیما کے حوالے نہیں کیا۔ بعد میں چند ایک فلمیں بنائیں، مگر وہ کامیاب نہ ہوئیں، جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر مرکزی سنیما سے دور ہو گئے۔وہ کہتے تھے کہ فلم ڈائریکٹر کا میڈیم ہے، لیکن بالی ووڈ میں اب ہیرو ازم کو طاری کر لیا گیا ہے، جو فلمی دنیا کے لیے نقصان دہ ہے۔ موجودہ سنیما کی بے توقیری اور عمدہ موضوعات سے عاری فلمیں اس بات پر تصدیق کی مہر ثبت کرتی ہیں۔

    خراجِ تحسین 

    ہرچند کہ شیام بینیگل بھارت سے تعلق رکھنے والے فلم ساز تھے، لیکن انہوں نے جو بامعنی سنیما تخلیق کیا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت جہاں جہاں اردو اور ہندی بولنے سمجھنے والے موجود تھے، وہ فیض یاب ہوئے۔ ایسے بے مثل فن کار، عمدہ فلم ساز اور حساس دل رکھنے والے اس ہنرمند کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے دنیا کو سنیما کے ذریعے باشعور کیا اور دکھی دلوں کی آواز بنے۔

     

  • فلم ریویو: کیری آن

    فلم ریویو: کیری آن

     

    فلمی دنیا میں کئی ایسی کہانیاں ہیں، جن پر ایک سے زائد فلمیں بنائی گئی ہیں، لیکن ان میں سے کچھ ہی فلمیں ایسی ہوتی ہیں، جنہوں نے موضوع سے انصاف کیا ہوتا ہے۔ فلم کیری آن کرسمس کے موقعے پر ایئر پورٹ کی سیکورٹی اور اس کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ امریکا کے ایک شہر میں واقع ایئر پورٹ لاس اینجلس کو سنگین خطرے کا سامنا ہے اور ایک فرض شناس سیکورٹی افسر اپنی جان پر کھیل کر ہزاروں لوگوں کی جان بچاتا ہے۔ فلم اس سیکورٹی افسر کی اس جدوجہد کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔

    نیٹ فلیکس پر ریلیز کی گئی فلم کیری آن مزید کیسے اپنے موضوع سے انصاف کرتی ہے، اس کے لیے مکمل تبصرہ پڑھیے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    امریکی شہر لاس اینجلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تعینات ایک سیکورٹی افسر جس کا نام ایتھن کوپیک ہے، اپنے کام سے مخلص اور ایک ذمہ دار شخص ہے۔ اس کی محبوبہ اور ہونے والی بیوی بھی اس کے ساتھ ہی ایئر پورٹ پر کام کرتی ہے۔ ایتھن اور اس کا تعلق نہایت خوش گوار ہے، لیکن اب ان کی زندگی میں کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اس کی محبوبہ اسے اپنا پرانا خواب پورا کرنے کو کہتی ہے اور وہ خواب تھا پولیس کے محکمے میں ملازمت کرنا، جو ایک بار امتحان میں ناکامی کی وجہ سے اب ایک دلبرداشتہ شخص کا شکستہ خواب بن کر رہ گیا ہے۔carry on movie ایتھن ایئر پورٹ پر اپنی پروموشن کے لیے مزید قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سامان کی اسکیننگ کرنے والی مشین پر ڈیوٹی کرنے کی درخواست کرتا ہے، جسے قبول کر لیا جاتا ہے۔ ایک روز ڈیوٹی کے دوران ایتھن کوپیک کو ایک ایئر بڈ (کان میں لگا کر سماعت کرنے کا آلہ) موصول ہوتا ہے، جس کے ذریعے اس کا ایک بے رحم کرائے کے قاتل سے رابطہ ہوتا ہے، اور وہ اسے حکم دیتا ہے کہ ایک مخصوص کیری آن کیس یعنی ایک اٹیچی کیس کو سکینر سے گزرنے دے ورنہ اس کی ہونے والی بیوی نورا کو مار دیا جائے گا۔

    اس کرائے کے قاتل کی پوری ٹیم ایئر پورٹ پر موجود ہوتی ہے، اور کیمروں کی مدد سے ایتھن کی ہر حرکت کی نگرانی کی جارہی ہوتی ہے۔ اس جان لیوا صورتِ حال میں ایتھن کوپیک ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے افسران کو خبردار کر سکے کہ ایئر پورٹ دہشت گردوں کے گھیرے میں ہے۔ دہشت گرد اسے جس سامان کو بغیر رکاوٹ پیدا کیے کلیرنس دینے کا کہتے ہیں، اس میں خطرناک اور مہلک مواد ہوتا ہے، جس سے ہزاروں جانیں جاسکتی ہیں۔ اس تمام صورت حال میں ایئر پورٹ کے کئی افسروں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد کس طرح یہ سارے کام انجام دیتے ہیں، یہ کہانی اس کو بخوبی بیان کرتی ہے۔ ایتھن اس خوف ناک صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کا پھل پاتا ہے اور اسے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر بھی مل جاتی ہے۔

    فلم کیری آن کے اسکرپٹ رائٹر ٹی جے فکس مین ہیں، جنہوں نے اس پرانے اور روایتی انداز کے مرکزی خیال کو بالکل نئے پہلو سے لکھا اور سب سے بڑی بات کہانی کی رفتار تیز رکھی، جس کی وجہ سے کہانی میں کہیں دیکھنے والے کی دلچسپی کم نہیں ہو سکتی۔ تیز رفتار ردھم کے ساتھ کہانی معنی خیز ہوتی چلی گئی، جس پر اسکرپٹ نویس تعریف کے مستحق ہیں۔ چونکہ ان کا تعلق لاس اینجلس شہر سے ہی ہے، اس لیے انہوں نے اپنے شہر کے مرکزی ایئر پورٹ کے اردگرد کہانی کا تانا بانا اچھی طرح بُنا ہے۔ معمولی نوعیت کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جائے تو مجموعی طور پر فلم کی کہانی پُرلطف اور قابلِ تعریف ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن

    اس فلم کا پروڈکشن ڈیزائن بہت اچھا ہے۔ شہر کا انتخاب، ایئرپورٹ کی جگہ، اس سے متعلقہ علاقے، ان کی عکاسی، سینماٹو گرافی کے مختلف زاویے، یونیفارمز، دیگر کرداروں کے لباس اور فلم کی اچھی تدوین اور موسیقی نے کیری آن کو معیاری فلم بنا دیا ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر ڈیلان کلارک ہیں، جب کہ دو فلم ساز کمپنیوں ڈیلان کلارک پروڈکشن اور ڈریم ورک پکچرز نے مل کر اس کو بنایا ہے۔ مجموعی طور پر چالیس ملین ڈالرز کے بجٹ میں یہ فلم تیار ہوئی اور نیٹ فلیکس پر اس کو ریلیز کیا گیا۔ اس کا ایک شان دار پریمیئر بھی ہوا۔

    ہدایت کاری و اداکاری

    اس عمدہ فلم کے ہدایت کار جوم کولیٹ سیرا ہیں، جو ہسپانوی ہیں۔ امریکی طرز کی ہالی ووڈ فلموں کو اپنے مخصوص مزاج میں بنانے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ان نون، نان اسٹاپ، رن آل نائٹ، جنگل کروز وغیرہ بنائیں۔ ان کی ہدایت کاری کا خاصّہ ہے کہ یہ تیز ٹیمپو کی فلمیں بناتے ہیں۔ انہوں نے ولیم جون نیسن کے ساتھ کافی فلمیں بنائیں، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کے لیے ذہنی ہم آہنگی بھی ضروری چیز ہے، اور جس کے ساتھ ذہن مل جائے، اسی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کولمبیا کالج، ہالی ووڈ سے فلم کی پیشہ ورانہ تعلیم بھی حاصل کر چکے ہیں۔

    اداکاری کے شعبے میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکزی کردار نبھانے والے ٹیرون ایجرٹن نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ ویلز سے تعلق رکھنے والے اس اداکار نے پوری فلم کا بوجھ، مرکزی کردار کے ذریعے اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور اس میں کامیاب رہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ذیلی کرداروں میں سب سے بہتر کام، فلم میں ولن کا کردار نبھانے والے امریکی اداکار جیسن بیٹمین نے کیا۔ فلم کیری آن میں دیگر اداکاروں نے بھی اپنے حصے کا کام بہتر انداز سے کیا ہے۔ سیکورٹی سے تعلق رکھنے والے سارے کرداروں نے خاص طور پر اپنے کردار بڑی خوبی سے نبھائے ہیں، جس کی وجہ سے فلم میں دلچسپی کا عنصر پیدا ہوا اور ناظرین اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔

    عروج و پسندیدگی

    پسندیدگی اور مقبولیت کا جائزہ لیا جائے، تو فلم کیری آن پاکستان میں ٹاپ ٹین کے چارٹ میں دس سے ہوتی ہوئی چار نمبر تک آگئی اور امید ہے کہ نمبر ون کی پوزیشن جلد حاصل کر لے گی۔ اس کے علاوہ دنیا میں ساٹھ سے زائد ممالک میں یہ نیٹ فلیکس کے چارٹ پر مقبول فلم ثابت ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ریلیز ہونے کے باوجود فلم کیری آن ناظرین کو مسلسل اپنی جانب متوجہ رکھے ہوئے ہے۔ فلموں کی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی کے مطابق اس کی ریٹنگ دس میں سے چھ اعشاریہ پانچ ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر یہ فلم سو میں سے چھیاسی فیصد مقبولیت حاصل کرنے والی فلم بنی اور اسکرین رینٹ ویب سائٹ پر دس میں سے پانچ اسٹارز حاصل کیے ہیں۔ گوگل کے صارفین کی رائے میں یہ فلم پانچ میں سے ساڑھے تین فیصد شان دار ہے۔ میٹ کریٹیک ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اڑسٹھ فیصد ہے۔

    حرفِ آخر

    سب سے شان دار بات یہ ہے کہ فلم کی کہانی اتنی تیز ہے کہ دیکھنے والے اس سے اپنا دھیان نہیں ہٹا سکتے اور جب آپ مسلسل توجہ سے اس فلم کو دیکھیں گے تو یہ آپ کو اپنے اندر جذب کر لے گی اور آپ خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگیں گے۔ یہی اس فلم کا کمال ہے۔

    قارئین! آپ کو بھی جب فرصت ملے، فلم کیری آن ضرور دیکھیں۔ یہ آپ کا وقت ضائع نہیں ہونے دے گی۔ ایک روایتی موضوع پر جدید ترین تکنیک سے بنی فلم ایک تحفہ ہے اُن فلم بینوں کے لیے جو اچھی، معیاری اور مضبوط کہانی پر مبنی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔