Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے…

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے…

    جاپان ایک ایسا ایشیائی ملک ہے، جہاں ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے اردو کی تدریس جاری و ساری ہے۔ جاپان کے دو بڑے شہر اردو زبان کے فروغ کا مرکز رہے ہیں، جن کے نام ٹوکیو اور اوساکا ہیں اور یہاں کی جامعات سے اب تک سیکڑوں طلبا اردو کے مضمون میں سند یافتہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آگے چل کر تدریس، سفارت کاری سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نام کمایا۔ آج جاپان اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلق کی ایک وجہ زبان بھی ہے۔

    جاپان میں اردو کے ابتدائی نقوش

    اردو کا اوّلین مرکز ٹوکیو ہے، جہاں باقاعدہ طور پر 1908 میں تدریس کی غرض سے ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کی بنیاد رکھی گئی، جس میں دنیا بھر کی زبانوں سمیت اردو کی تعلیم کے لیے ’شعبۂ ہندوستانی‘ قائم ہوا، جس میں داخلہ لینے والے جاپانی طلبا کی تعداد پانچ تھی۔ 1911 میں شعبۂ ہندوستانی کو ترقی دی گئی اور اس کے پہلے مہمان استاد مولانا برکت اللہ تھے جو معروف علمی شخصیت محمود الحسن کے کہنے پر جاپان تدریس کی غرض سے گئے تھے۔

    جاپان میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کے شعبۂ ہندوستانی کے اوّلین استاد پروفیسر انوئی تھے جو تین برس تک اس شعبے سے وابستہ رہے، پھر ان کے بعد نمایاں استاد پروفیسر ریچی گامو ہیں، جن کا 1925 میں باقاعدہ طور پر جاپانی پروفیسر کی حیثیت سے شعبۂ اردو کے لیے تقرر ہوا۔ وہ اردو کی کلاسیکی داستان ’باغ و بہار‘ کے مترجم بھی تھے۔ جاپان میں پروفیسر گامو کو قبل از تقسیم ‘بابائے اردو’ کہا جاتا تھا۔ ان کے بعد پروفیسر تاکیشی سوزوکی بھی اردو تدریس کا ایک بڑا نام ہیں، جنہوں نے پہلی اردو جاپانی لغت پر کام کیا، اور تقسیمِ ہند کے بعد جاپان میں "بابائے اردو” کہلائے۔ ان دونوں بڑی شخصیات کے بعد غالب، اقبال، فیض کے کلیات کے جاپانی مترجم اور منٹو سمیت کئی بڑے ادیبوں کی کہانیوں کو جاپانی زبان میں ڈھالنے والے اردو اسکالر پروفیسر ہیروجی کتاؤکا ہیں، جن کی اردو سے وابستگی کا عرصہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔

    1947 میں برِصغیر کی تقسیم کے بعد شعبۂ ہندوستانی کا نام تبدیل ہو کر شعبۂ اردو ہو گیا۔ 1949 میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا، جس میں شعبۂ ہندوستانی، دو مختلف شعبوں شعبۂ ہندی اور شعبۂ اردو میں تقسیم کر دیا گیا۔ اب یہ تعلیمی ادارہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کہلاتا ہے، جس کے موجودہ سربراہ شعبۂ اردو جناب کین ساکو مامیا ہیں۔

    جاپان کے قونصل جنرل اور پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن (سندھ) کے اراکین کی کین ساکو مامیا کے ساتھ یادگار تصویر

    ٹوکیو اور اوساکا میں جو دیگر اردو کے جاپانی استاد نمایاں رہے، ان میں پروفیسر ساوا، پروفیسر جین، پروفیسر ہیروشی کان گایا، پروفیسر تسونیو ہماگچی، پروفیسر ہیروشی ہاگیتا، پروفیسر اسادا، پروفیسر میتسومورا، پروفیسر سویامانے اور دیگر شامل ہیں۔

    کراچی میں کین ساکو مامیا سے ملاقات 

    سترہویں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے کین ساکو مامیا کراچی تشریف لائے، تو راقم نے بطور میزبان کانفرنس میں ان کے ساتھ ایک سیشن میں گفتگو کی جو بعنوان "جاپان، اردو کی زرخیز سرزمین” منعقد کیا گیا تھا۔ اس سیشن میں جاپان میں اردو اور پاکستان میں جاپانیوں کی حسین یادوں کا احاطہ کیا گیا۔ بعد میں کین ساکو مامیا نے اے آر وائی کی ویب سائٹ کے لیے اردو زبان میں خصوصی انٹرویو ریکارڈ کروایا۔ اس خصوصی انٹرویو کو آپ یہاں سن سکتے ہیں۔

    کین ساکو مامیا 1984ء میں اسکول کے طالبِ علم تھے جب انہوں نے پاکستان کی شاہراہ ریشم پر بنی ہوئی ایک دستاویزی فلم جاپانی زبان میں دیکھی اور اس ملک نے ان کی توجہ حاصل کی۔ بعد میں کین ساکو مامیا نے جامعہ کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے دوران جنوبی ایشیا کو نقشے پر غور سے دیکھا اور پاکستان کے بارے میں مزید جاننے کا فیصلہ کیا۔یہ 1988 کی بات ہے، جب وہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں ایم اے کے طالبِ علم تھے۔

    ایک موقع پر کین ساکو مامیا پاکستان آئے اور یہاں کے سب سے بڑے شہر کراچی، پھر لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور بھی گئے۔ آخر میں ان کا انتخاب حیدر آباد ٹھہرا، اور انہوں نے سندھ یونیورسٹی، جام شورو سے ایم فل کیا۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں اپنے دو سالہ قیام کے دوران وہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی آتے جاتے رہے اور پاکستانی ثقافت سے بھی واقف ہوئے۔ پاکستان کا شہر اسلام آباد ان کو اب سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کے چار سال وہاں گزارے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں قائم جاپانی سفارت خانے میں کام کرتے تھے۔

    اردو زبان کے عاشق اور جاپان میں اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے کین ساکو مامیا کا خیال ہے کہ جاپانیوں کو اردو زبان بولنے میں کوئی دقت نہیں ہے، البتہ اردو کا رسمُ الخط اور حروفِ تہجّی محنت سے سیکھا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال ان پاکستانیوں کو درپیش ہوگی، جو جاپانی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ لسانیات کے اصولوں کے اعتبار سے دونوں زبانیں ایک دوسرے سے صوتی اعتبار سے کافی قریب ہیں۔ کین ساکو مامیا یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے شعبۂ اردو میں تدریسی اور روایتی تعلیم کے طور طریقوں کے ساتھ تخلیقی اور فنی پہلوؤں سے بھی طالبِ علموں کو اردو سے روشناس کروایا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اردو زبان میں اسٹیج ڈرامے بھی پیش کرتے ہیں، جن میں اردو زبان سیکھنے والے جاپانی طلبا حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلموں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہم جاپان میں اپنے طلبا کو شعیب منصور کی فلم "خدا کے لیے” سمیت کئی پاکستانی اور ہندوستانی فلمیں بھی دکھا چکے ہیں۔ ہندوستانی فلموں میں نندیتا داس کی فلم "منٹو” بھی شامل ہے۔

    کین ساکو مامیا پاکستان میں گزشتہ انتخابات کے موقع پر بطور آبزور تشریف لائے۔وہ پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور یہاں‌ کے تمام بڑے شہروں‌ سے بخوبی واقف ہیں۔ سندھ کی ثقافت میں ان کی دل چسپی اس قدر بڑھی کہ سندھی زبان بھی سیکھی۔ اردو زبان کے قواعد اور لسانی اصولوں میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اردو ادب اور خاص طور پر شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے طلبا کو بھی پڑھاتے ہیں۔

    اگر کبھی آپ ٹوکیو جائیں اور کین ساکو مامیا سے ملاقات کرنے کے لیے یونیورسٹی پہنچیں تو وہاں ان کا کمرہ آپ کو ایک چھوٹا سا پاکستان محسوس ہوگا۔ اس کمرے میں آپ کو اردو، سندھی اور پاکستان کی دیگر زبانوں کے نقش ملیں گے، کتابیں اور دیگر ثقافتی علامتیں سجی ہوئی دکھائی دیں گی۔ اپنے حالیہ دورۂ کراچی میں مرز اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر کین ساکو مامیا نے اکثر مواقع پر پڑھا اور میں اس ملاقات کا یہ احوال اسی شعر پر ختم کرنا چاہوں گا:

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

    جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

  • سارے منڈے لگ گئے کام سے میں رہ گیا ‘ٹیکسوارا’

    سارے منڈے لگ گئے کام سے میں رہ گیا ‘ٹیکسوارا’

    1990 کی دہائی میں جب ہر گلوکار کی جانب سے اپنے گیتوں کے البم نکالنے کا ٹرینڈ چل پڑا تھا تو اس وقت کے معروف سنگر علی حیدر کا یہ گیت نوجوانوں میں بڑا مقبول ہوا تھا، جس کے بول تھے ’’سارے منڈے لگ گئے کام سے، ہائے میں رہ گیا کنوارا‘‘۔ اس وقت خیر سے ہم بھی کنوارے تھے، تو دیگر نوجوانوں کی طرح یہ حسرت بھرا گیت دلچسپی سے دوستوں کی محفل میں نہ صرف سنا کرتے تھے بلکہ موقع محل کی مناسبت سے گنگنایا بھی کرتے تھے۔

    جس گلوکار نے یہ گانا گایا، اب وہ بھی ماشا اللہ سے شادی شدہ ہیں اور ہم سمیت دیگر تمام جو یہ گیت سنا کرتے تھے وہ سب بھی کئی دہائی قبل کنوارے سے ’’شادی شدہ‘‘ ہوچکے ہیں۔

    قارئین یہ پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ جس زمانے کا ذکر ہے، اس اعتبار سے تو اب ہم ادھیڑ عمر میں ہوئے تو یہ باتیں کیوں کررہے ہیں۔ تو یہ بتاتے چلیں کہ آج کا بلاگ ہم اپنے کسی حسرت نا تمام کی یاد میں نہیں بلکہ موجودہ اور مستقبل کے نوجوان کنواروں کی مشکلات کو بھانپ کر پیش بندی کر رہے ہیں۔

    نت نئے ٹیکس نافذ کرنا ہماری حکومتوں کا سب سے پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ ہماری ٹیکس پسند حکومتیں، جو ہر مسئلے کا حل ایک اور نئے ٹیکس کے نفاذ میں ڈھونڈتی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے سوچنے کے بجائے نئے قرضوں کے حصول کی جستجو میں نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی راہیں ڈھونڈتی رہتی ہے کہ اسی راہوں سے گزرنے کے بعد اس کو قرض مع بھاری بھرکم سود کا پھل ملتا ہے، جو بعد میں ان حکمرانوں نے نہیں بلکہ ہم اور آپ جیسے غریب غربا اور ہماری آنے والی نسلوں نے ہی اتارنا ہوتا ہے۔

    رواں مالی سال 2025 کے آغاز سے قبل بجٹ میں شادی ہال کے ساتھ بیوٹی پارلرز پر نئے ٹیکس لگانے کی افواہیں شروع ہوئی تھیں تو اس سے مَردوں کے کان کھڑے ہوئے تھے کہ شادی ہال تو شاید زندگی میں ایک یا دو بار لیکن بیوٹی پارلر تو آئے روز کا جھجھٹ اور جیب پر بڑا بوجھ ہوتا ہے، کیونکہ خواتین ’’سجنا اور سنورنا تو ہر عورت کا حق ہے‘‘ کے اس مقولے پر من وعن عمل کرتی ہیں۔

    اب اڑتے اڑتے یہ خبر تصدیق شدہ ہو گئی ہے کہ سندھ حکومت نے شادی ہالوں پر 10 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس نافذ کر دیا ہے۔ گوکہ یہ کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے مگر آجر کے بجائے اجیر پر اس کا نفاذ ضرور نیا ہے۔ جی ہاں ایف بی آر سے کامیاب مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس ود ہولڈنگ ٹیکس سے شادی ہال مالکان کو مکھن سے بال کی طرح باہر نکال کر سارا بوجھ شادی کرنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ یعنی اس ٹیکس کا شادی ہال مالکان سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ شادی ہال کی بکنگ کرانے والوں کو یہ ٹیکس دینا ہوگا۔ جب یہ سنا تب ہمیں ماضی میں ذوق وشوق سے سنا جانے والا یہ گیت یاد آیا، لیکن ماضی میں یہ گیت سنتے وقت کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہماری مستقبل کی حکومت شادی کو کنواروں کی حسرت بنانے پر تل جائے گی۔

    پاکستان میں کئی موسم ہوتے ہیں اور ان میں شادی کا موسم سب سے اہم ہوتا ہے جو سال کے صرف چند مخصوص ماہ چھوڑ کر سارا سال جاری رہتا ہے۔ موسم سرما کی آمد ہوئی ہے لیکن موسمی ٹھنڈ کے بجائے اس نئے شادی ٹیکس کے نفاذ نے ہی ان کے ارمان ٹھنڈے کر دیے ہیں، جو عنقریب یا مستقبل میں شادی کرنے والے ہیں۔ اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ محدود آمدنی اور بجٹ میں کس کام کو پس پشت ڈال کر شادی سے پہلے 10 فیصد جبری ٹیکس کا انتظام کریں، اگر ایسا نہ کیا تو پھر وہ کنوارے رہ سکتے ہیں۔

    ہمارے ہاں شادی امیر کی ہو یا غریب کی، کئی تقریبات پر مشتمل ہوتی ہے۔ امرا تو خیر ابٹن، مہندی، مایوں، برائیڈل شاور، بارات، ولیمہ اور دیگر کئی ناموں سے تقریبات ایجاد کر کے اور ان کے لیے لگژری شادی ہالز بک کر کے اپنی خوشیاں منانے کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ ہمارے امیروں کا بس چلے تو وہ سانس بھی برانڈڈ ہوا میں لے، پھر چاہے اس کے لیے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنے پڑے۔ اس لیے ان کے لیے یہ ٹیکس تو کوئی مسئلہ نہیں یہ مسئلہ تو غریب یا متوسط طبقے کا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کے بے قابو جن کی بدولت ایسی چادر اوڑھنے پر مجبور ہے جس میں سر ڈھکو تو پیر کھلتے ہیں اور اور پیر ڈھکو تو سر۔ غریب اور متوسط طبقہ تو صرف بارات یا ولیمہ کی تقریبات ہی شادی ہالز میں کرتا ہے اور وہ بھی بعض اوقات اس کی جیب پر بہت بھاری پڑتی ہیں۔

    شادی ہالوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی گھنٹی شادی کرنے والوں کے گلوں پر باندھے جانے کے بعد وہ غریب باپ کیا کرے گا جس نے اپنی ساری جمع پونجی اپنی بیٹے یا بیٹی کی شادی پر لگا دی ہوگی۔ وہ بھائی کیا کرے گا، جس نے بہن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے اپنے دفتر کا کاروباری مالک سے قرض لیا ہوگا۔ وہ ماں کیا کرے گی جس نے گھر کے اخراجات میں کمی اور خواہشات کو پابند سلاسل کر کے بچت کی اور اس سے کمیٹیاں ڈال کر آج کے دن کے لیے کچھ رقم جوڑی ہوگی۔

    اس صورتحال میں ہمیں وہ وقت بھی یاد آ رہا ہے، جب شادی ہالوں کا کوئی جھنجھٹ نہیں ہوتا تھا۔ گھروں کے باہر شامیانے قناتیں لگتی تھیں اور شادیاں ہو جاتی تھی۔ اس سے بھی پہلے ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ ٹینٹ شامیانے کے بکھیڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔ آپس میں لوگوں کا میل ملاپ اور محبت ایسی ہوتی تھی کہ کسی ایک گھر کی خوشی پورے محلے کی خوشی بن جاتی تھی۔ مہمانوں کے لیے ہر گھر کے دروازے کھل جاتے تھے۔ گھروں میں باراتیوں کا بٹھانے اور کھلانے کا انتظام ہوتا تھا اور یوں بغیر کسی دکھاوے گھر بس جایا کرتے تھے۔

    ملکی دگرگوں حالات اور بڑھتی مہنگائی نے پاکستانی عوام کے خوش ہونے کے مواقع ویسے ہی کم کر دیے ہیں۔ امیر تو خوشیوں کے لیے کئی مواقع اور بہانے ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن غریب کے لیے تو شادی بیاہ ہی ایسا موقع رہ گیا ہے جہاں وہ کچھ لمحے خوش ہو سکتا ہے۔ لیکن کبھی بے جا رسومات اور کبھی یہ ٹیکس در ٹیکس ان کی خوشیوں کو روکھا پھیکا کر دیتے ہیں۔

    حکمرانوں سے تو کوئی توقع نہیں کہ وہ عوام بالخصوص غریب اور متوسط طبقے کی زندگی میں مثبت تبدیلیوں اور سہولتوں کے لیے کوئی کام کرے۔ تاہم اگر ہم عوام ہی اپنا قبلہ درست کر لیں۔ دکھاوے سے پرہیز اور بے جا تقریبات سے گریز کریں تو پھر کوئی ود ہولڈنگ ٹیکس کسی کو نہیں ڈرا سکے گا۔ آج عمومی اور بے غرض محبتیں کم ہونے، رہائش کا رجحان کثیر المنزلہ عمارتوں کے چھوٹے فلیٹوں میں ہونے کے باعث اگر گھروں میں شادی کی تقریبات ممکن نہیں اپنے علاقوں میں ٹینٹ لگانے کا رواج دوبارہ کریں کہ اپنی مشکل اور اپنا حل کے تحت پہلا جرات مندانہ قدم بھی خود کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس طرح آپ نہ صرف شادی ہال اور اس کے لیے ٹرانسپورٹ کے انتظام کے اضافی خرچ سے بچ سکتے ہیں بلکہ ایک فرسودہ دکھاوے کے خود ساختہ رواج کا خاتمہ کر کے غریبوں کے لیے امید کی کرن اور زمانے کے لیے قابل تقلید بن سکتے ہیں۔

  • جنوبی کوریا کا مارشل لاء اور ہمارا وطن

    جنوبی کوریا کا مارشل لاء اور ہمارا وطن

    تحریر: ارسلان سید

    جنوبی کوریا میں صدر نے گذشتہ دنوں مارشل لاء کا نفاذ کیا مگر پھر اپوزیشن پارلیمنٹ میں متحرک ہوئی اور مشترکہ قرار داد منظور کرکے صدریون سیک یول کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جس کے نتیجے میں صرف 6 گھنٹے بعد ہی مارشل لاء ختم کردیا گیا۔ یہ شاید جدید دور کی تاریخ کا مختصر ترین مارشل لاء ہے۔ تاہم یہ سلسلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اپوزیشن نے صدر یون سیک یول کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ یہ مثال صرف ترقی یافتہ ممالک میں ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ایسے پارلیمانی احتساب کا تصور کرنا بھی محال ہے۔

    جنوبی کوریا جس کی معشیت مضبوط ہے، اس کی کل جی ڈی پی کا 50 فیصد برآمدات پر انحصار کرتا ہے جس کی مالیت 644 بلین امریکی ڈالر ہے لیکن اقتصادی طور پر مستحکم معشیت کے ہوتے ہوئے بھی جنوبی کوریا کو مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ارسطو جو آج کل دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ اقتصادی طور پر مضبوط ملک اندرونی طور پر کبھی سیاسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہوتے، جنوبی کوریا کے حالیہ مارشل لاء نے ان کے مفروضوں کو غلط ثابت کردیا ہے۔ جنوبی کوریا کے صدر یوک سیک یول نے سرکاری ٹیلی ویژن پر خطاب میں مارشل لاء کا جواز روایتی حریف شمالی کوریا کی جانب سے یوکرین جنگ میں روس کی حمایت کرنے اور ممکنہ جارحیت کے خطرے اور اپوزیشن کے احتجاج کو قرار دیا۔ ( دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے صدر نے بھی وہی روایتی راگ الاپا کہ ‘احتجاج’ سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے)۔

    جب کہ اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کے صدر لی میونگ نے جنوبی کوریا کے صدر کا مواخذہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو کسی بھی مضبوط پارلیمانی جمہوریت کی نشانی ہے۔ اکیسویں صدی میں کوئی ملک تبھی اندرونی طور پر مستحکم ہوسکتا ہے جب وہاں کا جمہوری نظام مضبوط اور نظام انصاف ہر فرد کیلئے یکساں ہو، ورنہ ایسے معاشرے تقسیم ہو جایا کرتے ہیں۔ عراق، شام، افغانستان، لیبیا، سوڈان، مصر اس کی مثالیں ہیں، جہاں خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مضبوط معشیت مستحکم جمہوریت کی ضمانت دے سکتی ہے، حالیہ تاریخ اس سوال کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اگرچہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کی جانب سے جارحیت کا خطرہ ہے لیکن ابھی تک براہ راست تصادم کی نوبت نہیں آئی اور دونوں ممالک اپنی اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا میں بھی اپوزیشن لیڈر لی میونگ پر رواں سال قاتلانہ حملہ ہوچکا ہے، تاہم وہ محفوظ رہے۔ یون سیوک یول 2022 سے جنوبی کوریا کے صدر ہیں۔ وہ پیپلز پاور پارٹی کا حصہ ہیں اور اپنے حریف لی جے میونگ کو نہایت ہی کم پوائنٹس سے شکست دے کر صدارتی انتخاب جیتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر کیساتھ ساتھ اُن کی اہلیہ کو بھی مختلف تنازعات اور اسکینڈلز کی وجہ سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اُن کی اہلیہ پر مبینہ طور پر مہنگے تحائف قبول کرنے کی وجہ سے تنقید ہوتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے گزشتہ ماہ صدر یون باقاعدہ معافی بھی مانگی تھی۔ لیکن پھر صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے صدر جنوبی کوریا یون سیک یول نے اپنی بیوی کے بد عنوانی کے الزامات پر خصوصی کونسل کی تحقیقات کے بل کو ہی ویٹو کر دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ جنوبی کوریا کی عوام کے مجموعی سیاسی شعور نے مارشل لاء کو شکست دی ہے۔ وہاں جمہوری ادارے مضبوط ہیں، احتساب کا نظام رائج ہے، کوئی بھی ادارہ احتساب سے بالاتر نہیں۔ اور ظاہر ہے جنوبی کوریا کا مقابلہ جنوبی ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال اور مالدیپ شامل ہیں ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔

    ان ممالک میں جمہوریت نام کی چیز کا وجود ہی نہیں ہے، جمہوریت کے لبادے میں نیم مارشل لاء نافذ ہے، میڈیا سینسر شپ کی زنجیروں میں قید ہے، صحافت کا گلا دبانے کیلئے ریاست تمام وسائل بروئے کار لاتی ہے، عوام کے احتجاج کے حق کو طاقت کے ذریعے کچلا جاتا ہے، سیاسی کارکنوں کی لاشیں گرا دی جاتی ہیں، عوامی لیڈر کو قانونی مقدمات اور قید میں رکھا جاتا ہے۔

    پاکستان کے الیکشن ایک مثال ہیں جس میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا جاتا ہے اور انتخابی اصلاحات کا وجود ہی نہیں، اور جہاں ملک کی اعلی عدلیہ مقبول سیاسی پارٹی سے اس کا انتخابی نشان ہی واپس لینے کا فیصلہ سنا دیتی ہے، وہاں انتخابات کی شفافیت پر سوال کھڑے نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟ جنوبی کوریا کی اپوزیشن نے تو عوام کے زور بازو پر اپنے صدر کو مارشل لاء ختم کرنے پر مجبور کردیا، ترکی میں جب فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو عوام سڑک پر موجود ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، یہ سیاسی شعور کا اعلی ٰ درجہ ہے۔ اس کیلئے قومیں سالوں کا سفر طے کرتی ہیں، لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں 4 مارشل لاء لگے اور ہر دور میں نہ تو عوام نکلے اور نہ اپوزیشن آمروں کو جمہوریت کا قتل کرنے سے روک سکی، بلکہ رات کی تاریکی میں آمروں کیساتھ مل کر سازشوں کے ذریعے منتخب حکومتوں کو گھر بھیجا جاتا رہا، اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن اس بار طریقہ واردات بدل چکا ہے، پاکستان کے میڈیا، پارلیمنٹ، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو جنوبی کوریا کے مختصر مارشل لاء سے سبق سیکھنا چاہیے۔

    (مصنّف گزشتہ نو سال سے بطور پروڈیوسر کرنٹ افیئرز میڈیا میں ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں اور آج کل بطور فری لانس جرنلسٹ کام کررہے ہیں اور یہ تحریر/ بلاگ مصنف کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • کیا پنجاب کا نیا اسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

    کیا پنجاب کا نیا اسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

    محمد مشتاق نے حال ہی میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اپنے رکشا سے دھوئیں کے اخراج پر روکے جانے کے بعد 2,000 روپے ( 7.20 امریکی ڈالر) کا جرمانہ ادا کیا۔ پیٹرول پہ چلنے والے اس رکشے کی مرمت پر 12,000 روپے ( 43 امریکی ڈالر) لاگت آئے گی، اس لئے مشتاق نے جرمانے سے بچنے کا ایک اور طریقہ تلاش کیا، وہ کہتے ہیں، ” دھواں صرف اس وقت خارج ہوتا ہے جب میں رفتار تیز کرتا ہوں اور اس طرح پولیس کے ہاتھوں پکڑا جا سکتا ہوں، لہذا، میں کم رفتار پر رکشہ چلاتا ہوں۔”

    "پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لئے ایک پرعزم روڈ میپ کا آغاز کیا گیا ہے، لیکن ماہرین اس پہ قائل نہیں ہیں”

    سچ کہا جائے تو پاکستان کے سب سے امیر اور گنجان آباد صوبے پنجاب میں آٹو رکشے اسموگ کے مسئلے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کی ملکیت میں ایک نجی شعبے کی کمپنی، دی اربن یونٹ کی 2023 کی سیکٹرل ایمیشن انوینٹری آف لاہور کے مطابق، آٹورکشہ کا حصّہ شہر میں 153 گیگا گرام (جی جی) اخراج میں سے صرف 4.24 جی جی ہے، جو کہ 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ریگولیشن کے نفاذ میں سستی ہے، جو لاہور کے اخراج میں 127.22 جی جی یعنی 83 فیصد کی ذمہ دار ہے۔

    ٹرانسپورٹ کا شعبہ لاہور میں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے
    ٹیک کمپنی آئی کیو ایئر نے 2017 اور 2023 کے درمیان دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور کو پانچویں نمبر پر رکھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب، مریم نواز نے ان بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اکتوبر کے اوائل میں اسموگ کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ کا آغاز کیا۔ یہ اعلان اسموگ سیزن کے آغاز پر ہوا، جو فروری تک جاری رہتا ہے۔

    اس سال آلودگی مزید بدتر رہی ہے۔ نومبر کے اوائل میں، جب اسکولوں کو مجبوراً بند کرنا پڑا اور ہنگامی اقدامات نافذ کیے گئے، آئی کیو ایئر نے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا۔

    اسموگ پلان کاغذ کی حد تک اچھا ہے
    نئے روڈ میپ میں فصلوں کی باقیات کو جلانے سمیت صوبے کے ٹرانسپورٹ، صنعت، توانائی اور زراعت جیسے آلودگی کے بڑے ذمہ داروں سے نمٹنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ماہانہ اہداف متعین کئے گۓ ہیں جو اسموگ کے پورے موسم کے دوران مکمّل کئے جائیں گے۔ ماحولیاتی تحفظ، ٹرانسپورٹ، زراعت، صنعت اور صحت کے محکموں کے ساتھ ساتھ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی، مقامی حکومتیں اور ضلعی کمشنر ان اہداف پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔

    منصوبے میں، فیکٹری مالکان کو صنعتی اخراج سے نمٹنے کے لئے آلودگی پر قابو پانے والے آلات نصب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ افراد، کمپنیوں، کارپوریٹ اداروں اور صنعتوں کے خلاف اسموگ سے متعلق شکایات کے لئے ایک وقف ہیلپ لائن بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ اسموگ سے متعلقہ صحت کے مسائل جیسے کہ فالج، پھیپھڑوں کے کینسر اور دائمی پھیپھڑوں کی بیماریوں کے لیے مخصوص وارڈز، اسموگ کاؤنٹرز اور موبائل ہیلتھ یونٹس قائم کئے جائیں گے۔

    اس منصوبے میں کسانوں کے لئے 5,000 ماحول دوست سپر سیڈرز کو سبسڈی دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جس کی لاگت کا 60 فیصد حکومت برداشت کرے گی۔ سپر سیڈر ایک مشین ہے جو گندم اور کھاد کو چاول کی فصل کی باقیات سے ڈھکے ہوئے کھیتوں میں ڈرل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ ایسا کرنے سے اس باقیات کو صاف کرنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، جس کو جلانے سے موسم سرما میں فضائی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔

    ٹرانسپورٹ سے متعلق آلودگی سے نمٹنے کے لئے، روڈ میپ میں گاڑیوں کی فٹنس سے متعلق سخت چیکس شامل ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی بھی گاڑی کو اب پنجاب کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں ہے۔

    ملے جلے تاثرات
    ڈائیلاگ ارتھ نے ملک امین اسلم سے رابطہ کیا، جو 2002-2007 تک وزیر برائے ماحولیات رہے، اور 2018-2022 تک وزیر اعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا زیادہ تر منصوبہ صرف “پچھلے منصوبوں کا اعادہ” ہے جو ان سمیت مختلف حکومتوں نے تجویز کیا تھا۔

    اس حوالے سے پنجاب میں منصوبہ بندی و ترقی، ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کی وزیر مریم اورنگزیب ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتی ہیں، “پچھلی حکومتوں نے اسموگ پر صرف اس وقت توجہ دی جب اس میں شدت آتی تھی۔ ہم سردیاں شروع ہونے سے پہلے اسموگ کو کم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔”

    “ہم انوائرنمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی (ای پی اے ) کی اصلاح کر رہے ہیں، 500 اہلکاروں پر مشتمل ایک مضبوط ماحولیاتی تحفظ کا دستہ قائم کر رہے ہیں اور لاہور میں 8 مانیٹرنگ یونٹ شامل کر رہے ہیں، اور اس منصوبے کی حمایت ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ کرے گا۔”

    اسلم کہتے ہیں کہ ماضی میں سب سے بڑا چیلنج “فنڈنگ ​​کی کمی” تھا۔ تاہم اس بار، مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں 10.23 بلین روپے (36.76 ملین امریکی ڈالر) کا نمایاں طور پر بڑا اور مہدف بجٹ ہے۔

    “یہ ایک بہت بڑی رقم ہے، ”اسلم نے اعتراف کیا۔ “میں امید کرتا ہوں کہ یہ ٹھوس اقدامات پر خرچ کیا جائے گا جن کی ضرورت ہے، جیسے ہوا کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانا، جو ہاٹ سپاٹ کی نشاندہی کرنے اور اس کے مطابق ٹریفک کو منظم کرنے کے لئے ضروری ڈیٹا فراہم کرتے ہیں۔”

    ہوا کے معیار کی نگرانی
    آب و ہوا کے ماہر اور پاکستان کے معروف ماحولیاتی وکیلوں میں سے ایک احمد رافع عالم کا کہنا ہے کہ ایکشن پلان کو مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لئے پنجاب کو ہوا کے معیار کا مناسب مطالعہ کرنے اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لئے زیادہ تعداد میں فضائی مانیٹر کی ضرورت ہے۔

    وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں، ’’اس وقت پنجاب میں پانچ یا چھ ریفرنس مانیٹر ہیں، جو لاہور کے حجم کے شہر کے لیے کافی نہیں ہیں، صوبے کو تو چھوڑ دیں۔”

    پنجاب حکومت نے اس بات پر غور کیا ہے اور اس نے صوبے بھر میں مزید 30 “ایڈوانس” ایئر کوالٹی مانیٹر لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    پاکستان میں سینٹر فار اکنامک ریسرچ کے عثمان حق اور عبداللہ محمود بتاتے ہیں کہ ایئر مانیٹر کا معیار اہم ہے۔ وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ کنزیومر گریڈ مانیٹر کی حد عام طور پر صرف 20-30 میٹر ہوتی ہے، جبکہ انڈسٹریل گریڈ کے سینسر وسیع اور زیادہ درست ریڈنگ فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوریج کے درست اعداد و شمار صوبے کو چھوٹے جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس سے مزید ہدفی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

    ناقص عمل درآمد
    لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں عمرانیات پڑھانے والے عمیر جاوید کو خدشہ ہے کہ ڈیٹا کو بہتر کرنے کے باوجود اس منصوبے کو ” ناقص عمل درآمد ” سے نقصان گا۔

    جاوید نے مشورہ دیا کہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے، حکومتی اداروں نے صارفین کو نشانہ بنانے کے لئے “تعزیتی” اقدامات کئے ہیں، جن کا سیاسی اثر بہت کم ہے اور جو اسموگ کا اصل شکار ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ” اس سے پتا چلتا ہے کہ کیوں اسکولوں اور ریستوراں کو بند کرنا آسان ہے، لیکن آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو نہیں” ۔

    جاوید کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے میں صوبے کی ناکامی اس کی پالیسیوں کے نفاذ میں کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کم معیار کے ایندھن پر پابندی جیسے اسٹریٹجک اقدامات بھی ایکشن پلان سے غائب ہیں۔ جب فضائی آلودگی کی سطح ایک “تباہ کن” ہو گئی تب نومبر کے آغاز میں کم معیار کے ایندھن کے استعمال پر پابندی کے لئے اقدامات کئے گئے۔

    کم معیار کا ایندھن، زیادہ تر یورو 2 اور اسمگل شدہ، ہائی سلفر ہائی سپیڈ ڈیزل، ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی نے مزید کہا، “ہم کم معیار کا ایندھن استعمال کررہے ہیں جس پر بہت سے ممالک میں پابندی ہے۔”

    حکمت عملی اور عمل درآمد سے مطلق چیلنجوں پر بات کرتے ہوئے، ایک توانائی ماہر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ آلودگی پھیلانے والی گاڑیاں اچھے معیار کے ایندھن کو خاطر میں نہیں لاتیں، “پاکستان ایندھن کا تیل درآمد کرتا ہے جو [ای یو کے] یورو 5 معیار پر پورا اترتا ہے، لیکن یہ تجارتی گاڑیوں کے لئے فٹنس سرٹیفکیٹ کے سخت نفاذ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں دیتا۔”

    ناقص عمل درآمد اور پیچیدہ انفراسٹرکچر کی ایک اور مثال، پنجاب میں گاڑیوں کے معائنہ کے صرف 32 اسٹیشن ہیں، جس کی آبادی 127.7 ملین افراد پر مشتمل ہے اور 24 ملین سے زیادہ گاڑیاں ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک نمائندے (جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے ) کے مطابق، “پچھلے سال، تقریباً 1.2 ملین پبلک سروس گاڑیوں میں سے تقریباً 160,000 گاڑیوں جیسے کہ بسیں، وین، آٹورکشہ اور ٹرک جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں کا معائنہ کیا گیا۔”

    ملک امین اسلم کے مطابق، گاڑیوں کے معائنے کے بارے میں یہ سخت موقف اس وقت تک ” محض مؤقف ہی رہے گا ” جب تک کہ بڑے پیمانے پر، “قابل اعتماد اور شفاف” چیکس میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔

    مریم اورنگزیب، تاہم، اس بات پر ثابت قدم ہیں، “اگر بیجنگ اپنی سمت تبدیل کر سکتا ہے، تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔” تاہم، وہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوگا، اور یہ کہ یہ ایک طویل لڑائی ہے۔ “ اس میں 8-10 سال لگ سکتے ہیں۔”

    (الیفیہ حسین کی یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)

  • کتنی لاشیں، کتنے زخمی… سچ کیا ہے؟

    کتنی لاشیں، کتنے زخمی… سچ کیا ہے؟

    تحریر:‌ سدرہ ایاز

    پاکستان میں‌ اس وقت صرف "سیاست” ہورہی ہے۔ اور یہ سب ان حالات میں ہورہا ہے جب ملک کی معیشت اور یہاں امن و امان کی صورتِ حال بھی خراب ہے، مگر سیاسی جماعتیں مل کر اس حوالے سے اہم فیصلے اور اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ملک کے کروڑوں عوام کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ان کی مخالف جماعت ہی دراصل ملک کی ترقی، اور عوام کی خوش حالی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یہ سیاسی کھیل کب تک جاری رہے گا، کچھ معلوم نہیں‌۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس کھینچا تانی اور سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

    ایک جماعت کہتی ہے کہ عوام کی مشکلات کا سبب حکم رانوں کی غلط پالیسیاں اور اقدامات ہیں جب کہ دوسری جماعت اقتدار سے باہر بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کو پرتشدد مظاہروں، احتجاج اور قانون شکنی کا مرتکب قرار دے کر عوام دشمن ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے اور ملکی معیشت سنبھل کر نہیں دے رہی۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ کہ عوام کو مزید ٹیکس دینا ہوگا۔ امراء اور مراعات یافتہ طبقہ تو ہمیشہ کی طرح اس سے متاثر نہیں ہوگا۔

    پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ ہفتے اپنے قائد کی رہائی کے لیے احتجاج کی کال دی تھی جس کے بعد حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں رکاوٹیں اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی سیکیورٹی اہل کاروں کی بھارتی نفری تعینات کردی گئی تاکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈر کے متوالوں کا راستہ روکا جاسکے۔ اس کے باوجود مظاہرین اسلام آباد پہنچ گئے اور کہا جارہا ہے کہ وہاں خوب دنگل ہوا۔ اس دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس تعطل کا شکار رہی اور آن لائن کاروباری سرگرمیاں خاص طور پر متاثر ہوئیں۔ اس کے ساتھ وہ لوگ جو آن لائن دفتری کام انجام دیتے ہیں یا فری لانسر کے طور پر کچھ کماتے ہیں، مالی نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ احتجاج کے روز رات گئے مظاہرین کو سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے شدید شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پھر ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آنے لگیں۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اگر دھرنوں، احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ملک کے کسی بھی شہر کی سڑکیں‌ بند ہوتی ہیں تو ان مظاہرین کا راستہ روکنے اور مخالفین کو کچلنے کے لیے حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور پولیس کو میدان میں اتارنے سے بھی عوام کو کون سا سکھ ملتا ہے؟

    خیر، اسلام آباد میں اس روز کیا کچھ ہوا، عوام کی اکثریت کو اس کی حقیقت معلوم نہیں یا وہ یہ جاننے میں ناکام ہوگئے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر بندشیں اور پہرے تھے۔ ویسے سوشل میڈیا کے اس دور میں سچ جھوٹ، صحیح اور غلط میں تمیز کرنا بھی آسان نہیں رہا جب کہ ملکی ذرائع ابلاغ یا تو حقائق سامنے لانے سے قاصر ہے یا پھر ‘مکمل رپورٹنگ’ سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔ اس طرح نومبر کا آخری ہفتہ گزر تو گیا، لیکن اب بھی ملک بھر میں موضوعِ بحث صرف اور صرف وہ ہلاکتیں ہیں جو اس احتجاجی مظاہرے کے دوران ہوئیں۔ حکومت اور سیاست داں سچ اور جھوٹ، غلط بیانی اور پراپیگنڈا ثابت کرنے کے لیے دن رات بیانات دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کتنے افراد جان سے گئے اور کتنے زخمی ہیں، اس پر سوشل میڈیا میں گویا ایک طوفان آیا ہوا ہے، جب کہ تحریکِ انصاف کے مختلف راہ نماؤں کی جانب سے دو درجن سے لے کر 280 تک ہلاکتوں اور سیکڑوں کارکنوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ بھی سنائی دیا ہے۔ حکومت کی بات کریں تو اس کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے گولی چلائی ہی نہیں گئی۔ یہ جھوٹے الزامات ہیں، اور پاکستان تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر پراپیگنڈہ کرتے ہوئے عوام کی ہم دردی سمیٹنا چاہتی ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں تو جنازے کہاں اٹھے اور تدفین کہاں‌ کی گئی ہے؟

    حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں سے کون صحیح ہے، کس کی بات درست ہے، کس نے جھوٹ اور پراپیگنڈے کا سہارا لیا ہے، کون غلط ہے…. یہ بحیثیت پاکستانی، ایک شہری اور ایک ووٹر میں یہ جاننا اور سمجھنا تو چاہتی ہوں، لیکن یہاں حقائق اور سچ تک عوام کی رسائی دشوار تر بنا دی گئی ہے۔ چلیے، مان لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ‌ غلط ہے، لیکن کیا کوئی اس سچ کو جھٹلا سکتا ہے کہ ہم پاکستانی گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے اس ملک پر مسلط سیاسی خاندانوں اور اقتدار کی ہوس کے ہاتھوں مرتے آرہے ہیں؟ مجھ جیسے عام لوگ جو روزگار، تعلیم و صحت، امن، ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھتے ہوئے بڑے ہوگئے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت نے اقتدار ملنے کے بعد اس بری طرح نظرانداز کیا کہ ہم میں سے کئی جان سے چلے گئے۔ ان حکومتی ادوار میں ہم پر منہگائی کے بم گرائے گئے، غربت اور بھوک کے نشتر چلے، بدامنی اور لوٹ مار کے دوران ہم پر گولیاں چلا دی گئیں اور ہمیں قبر میں اترنا پڑا۔ علاج معالجہ کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، پیچیدہ اور فرسودہ نظام میں جکڑے ادارے اور عدالت سے بروقت انصاف نہ ملنے، کرپشن، اور بے روزگاری نے بھی ہم میں سے کتنے لوگوں کو خود کشی پر مجبور کیا۔ اب حکومت کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی کا درجنوں مظاہرین کی ہلاکت کا دعویٰ جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے، اور شاید ایسا ہی ہو، لیکن کیا ایک عام آدمی ان حالات میں روز موت کے منہ میں نہیں جاتا رہا۔ وہ عام آدمی جس نے کسی بھی لیڈر کے اشتعال دلانے پر املاک کو نقصان نہیں پہنچایا، جو سڑکوں پر ٹائر نہیں جلاتا رہا، جس نے قانون نہیں توڑا، پولیس سے نہیں الجھا۔ وہ عام آدمی اِس حکومت میں شامل اُن سیاست دانوں کی بات کیا سنے جو پہلے بھی اقتدار میں آکر اپنی نااہلی، اور ناقص پالیسیوں سے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ عام آدمی تو روز مَر رہا ہے اور میڈیا اسے رپورٹ بھی کرتا ہے۔ لیکن حکومت یا کوئی سیاسی جماعت اسے اہمیت نہیں دیتی۔ اس کا شمار نہیں کرتی، اموات کی تعداد اور وجہ جاننے میں دل چسپی نہیں لیتی، کیوں کہ منہگائی، بدامنی، لوٹ مار اور اس طرح کے حالات میں کسی کا قبر میں اتر جانا تو معمول کی بات ہے۔ یہ نہ تو قتل ہے اور نہ ہی کسی جماعت کا کوئی سیاسی لیڈر یا حکومت اس کی ذمہ دار ہے بلکہ غربت، مہنگائی، ناانصافی اور کسی ڈکیت کے ہاتھوں‌ موت کے منہ میں چلے جانا تو مقدر کی بات ہے۔ بیچاری حکومت اس میں کیا کرے!

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کے ذاتی خیالات اور رائے پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • گلیڈی ایٹر 2: ایک اچھی فلم کا بُرا سیکوئل

    گلیڈی ایٹر 2: ایک اچھی فلم کا بُرا سیکوئل

    ہالی وڈ کی کچھ فلمیں جداگانہ تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ ایسی فلمیں ہیں‌ جن کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ انہی میں‌ سے ایک گلیڈی ایٹر ہے، جو انیسویں صدی کے اختتام پر ریلیز کی گئی تھی، یعنی سنہ 2000 میں۔ اور اب 24 سال بعد اس فلم کا سیکوئل گلیڈی ایٹر 2 کے نام سے بنایا گیا ہے۔ ان دونوں فلموں میں کیا فرق ہے، اور کیا نئی فلم بھی تاریخ رقم کرسکے گی؟ یہ جاننے کے لیے‌ اس فلم پر یہ تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس کہانی کے تناظر میں، پہلی فلم میں مرکزی کردار میکسی مس میریڈیئس کا ہے، جو ایک رومی جنرل ہے۔ وہ روم کے شہنشاہ مارکس اوریلیس کی فوج کا نڈر اور جری سپہ سالار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ اس بہترین شہنشاہ کا نالائق بیٹا اپنے والد کو قتل کر کے تخت پر قابض ہوجاتا ہے اور ہر اس فرد کی جان کے درپے ہوتا ہے، جو شہنشاہ کا خاص آدمی اور وفادار رہا ہو۔ ان حالات میں یہ سپہ سالار بھی وطن بدر ہوتا ہے اور پھر اس کی واپسی ہوتی ہے ایک گلیڈی ایٹر کی شکل میں۔ وہ تخت پر قابض ہوجانے شہنشاہ کے نالائق بیٹے سے قوم کو نجات دلانے اور شہنشاہ کے قتل کا بدلہ لینے کے ارادے سے لوٹتا ہے۔ اس کشمکش اور جنگ میں آخر کار وہ تمام رکاوٹوں سے گزر کر، ہر ظلم و ستم کو جھیلنے کے بعد فتح یاب ہوتا ہے اور عوام اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

    اس فلم کا سیکوئل مذکورہ بالا کہانی کے پس منظر میں ہی ترتیب دیا گیا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اب اس سپہ سالار کی جگہ اس کے بیٹے کو دکھایا گیا ہے، لیکن اسے فلم میں ایک عام دیہاتی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا طرز زندگی سادہ ہے، کیوں کہ بچپن میں اس کی ماں اسے اپنے وطن سے دور کر دیتی ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ یوں اس کی ساری زندگی پردیس میں کٹتی ہے۔ اب وہ ایک جنگ میں شریک ہو کر، اپنی بیوی کو کھونے کے بعد، قیدی اور غلام کی حیثیت سے واپس روم لایا جاتا ہے، جہاں وہ گلیڈی ایٹر کے طور پر کسی طرح حالات کو اپنے حق میں استعمال کر کے اپنی حقیقی ماں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ روم کے دربار میں محلاتی سازشوں، جان لیوا خونی معرکے سَر کرنے کے بعد وہ آخرکار اپنے دور کے ظالم اور سفاک شہنشاہ برادران اور اس کے سہولت کاروں کو مار ڈالتا ہے۔

    اس کہانی کا تجزیہ کریں تو بلاشبہ پہلی فلم کی کہانی انتہائی شاندار ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال ڈیوڈ فرانزونی کا تھا، جب کہ تین مختلف اسکرپٹ نویسوں نے اس کو مل کر لکھا تھا، یہی وجہ ہے کہانی میں کئی جہتیں تھیں اور ایک ہی کہانی میں کئی مرکزی کردار باہم اسکرین پر دکھائی دیتے رہے اور فلم بین ان کے سحر سے نکل نہ پائے۔ جب کہ اس دوسری فلم میں مرکزی کہانی کو پچھلی کہانی سے ہی اخذ کیا گیا۔ یعنی پلاٹ پرانا تھا، بس کچھ نئے کرداروں کے ساتھ اس کو پیش کیا گیا، لیکن کہانی طوالت کی وجہ سے ناقص ثابت ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار کو انتہائی کمزور انداز میں لکھا گیا اور یہ اس کا ایک اور نقص ہے۔ گلیڈی ایٹر 2 کے اس کردار کو دیکھ کر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی سپہ سالار کا بیٹا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ کوئی ایسا جنگجو ہے، جو کسی شہنشاہ کا تختہ الٹ سکے اور ریاست کا نقشہ بدل دے۔ فلم میں اسے بہت بے ڈھنگے انداز میں، ایک زبردستی کا انقلابی دکھایا گیا ہے، جس کے پیچھے عوام اور فوج بغیر کسی کشش کے آنے لگتے ہیں۔ پہلی فلم کی کہانی جس قدر دل کو موہ لینے والی تھی، دوسری فلم کی کہانی اتنی ہی معمولی اور بے لطف ہے۔

    ہدایت کاری

    لیونگ لیجنڈ برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ جنہوں نے سینما کی دنیا میں بہت سی یادگار اور ناقابل فراموش فلمیں تخلیق کی ہیں، انہی کی فلموں میں سے ایک گلیڈی ایٹر بھی ہے۔ نجانے کیوں چند دوسرے بڑے فلم سازوں کی طرح انہیں بھی اس خبط نے گھیر لیا کہ وہ اپنی شہرۂ آفاق فلم کا سیکوئل بنائیں۔ سب سے پہلے تو انہیں اسکرپٹ کی تیاری میں بہت دقت ہوئی، کئی کہانیاں لکھ کر ضائع کر دی گئیں، جو کہانی فائنل ہوئی اس کا حال اوپر میں بیان کر چکا ہوں۔ بطور ڈائریکٹر یہ ان کی ناکامی ہے، کیونکہ اس برے اسکرپٹ پر وہ ایک اچھی فلم تخلیق نہیں کر سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ البتہ اگر کسی نے ان کی پہلی فلم گلیڈی ایٹر نہیں دیکھی تو انہیں کسی حد تک یہ دوسری فلم اچھی لگے گی۔ اس بات کو صرف اسکرپٹ نویسی تک محدود نہ رکھیں بلکہ فلم کے دیگر شعبوں میں بھی یہ تنزلی محسوس ہوئی، جن میں سینماٹو گرافی، موسیقی، کاسٹیوم اور فلم کے دیگر پہلو شامل ہیں۔

    ریڈلی اسکاٹ واقعی ایک حیران کر دینے والے فلم ساز ہیں اور کسی حد تک اس فلم میں بھی انہوں نے ایسا کیا، اور اسی لیے فلم کو بہرحال مقبولیت مل رہی ہے، مگر ایک بڑی تعداد ان پر تنقید کررہی ہے اور مجھ سمیت یہ سارے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے 24 سال پہلے ریلیز ہونے والی ان کی پہلی شاندار فلم گلیڈی ایٹر دیکھی ہوئی ہے۔ یہاں‌ میں کہوں گا کہ گلیڈی ایٹر 2 ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل ہے، بالخصوص کمزور کہانی اور غلط کاسٹ اس کے ناقص ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔ اور اس کے ذمے دار بھی ریڈلی اسکاٹ ہیں۔ شاید اب وہ بوڑھے ہورہے ہیں۔ اسٹیون اسپیل برگ، جو امریکی فلم ساز اور سینما کی دنیا کے ایک سمجھ دار فلم میکر مشہور ہیں، اکثر ریڈلی کو مشورہ دیتے رہتے ہیں جن پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ ورنہ ریڈلی اسکاٹ کا تخلیقی بڑھاپا ان کی زندگی بھر کی کمائی ضائع کر سکتا ہے۔

    اداکاری

    گلیڈی ایٹر 2 کی سب سے بڑی خرابی اس کی مس کاسٹنگ ہے۔ خاص طور پر مرکزی کردار نبھانے والے اداکار پاؤل میسکل ہیں، جن کا اس میں کوئی قصور نہیں، سوائے اس کے کہ انہیں یہ کردار قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ اس فلم کے تناظر میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والا اداکار رسل کرو جو اس کردار سے اپنی زندگی بنا گیا، ایسے شہرۂ آفاق کردار کو یونہی قبول کرلینا سراسر بیوقوفی تھی، جو اس آئرش اداکار پاؤل میسکل نے کی۔ گلیڈی ایٹر کے رکھوالے کے طور پر امریکی اداکار ڈینزل واشنگٹن نے اپنے کیرئیر کی بدترین اداکاری اس فلم میں کی ہے۔ جب کہ پہلی فلم میں یہی کردار جس طرح نبھایا گیا ہے، وہ قابل تقلید ہے۔

    ان کے علاوہ قابل ذکر اداکاروں میں چلی نژاد امریکی اداکار پیدرو پاسکل اور دونوں فلموں میں کام کرنے والی ڈنمارک کی اداکارہ کونی نیلسن قابل ذکر ہیں۔ دونوں نے اپنے کردار بخوبی نبھائے۔ یوگنڈا کے مہاجر خاندان میں پیدا ہونے والے سویڈن کے اداکار علی کریم نے بھی ایک انڈین کا کردار بخوبی نبھایا۔ ویسے تو یورپی فلم ساز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس خطے کا کردار ہے، اداکار وہیں سے لیناچاہیے لیکن انڈین کردار کے لیے کسی افریقی کو کس پیمانے پر کاسٹ کیا گیا یہ سمجھ نہیں آیا۔ اس فلم میں ایک اسرائیلی اداکار لیوراز اور اداکارہ یوول گونن کو بھی کاسٹ کیا گیا ہے، دونوں نے بس ٹھیک اداکاری کی۔ ان کے کردار بھی مختصر تھے۔ اسی فلم میں ایک مصری نژاد فلسطینی اداکارہ می القلماوی نے بھی ایک انتہائی مختصر کردار نبھایا ہے، لیکن ان دونوں ممالک کا پس منظر رکھنے والے اداکاروں کی ایک ہی فلم میں موجودگی کو بھی معنی خیز انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔

    حرفِ آخر

    وہ فلم بین جنہوں نے اس سلسلہ کی پہلی فلم نہیں دیکھی، وقت گزاری کے لیے اسے ایک بہتر فلم خیال کریں گے، لیکن فلم ساز ان فلم بینوں سے زیادہ توقعات نہیں رکھ سکتے جو پہلی فلم دیکھ چکے ہیں۔ شاید اب برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ تھکاوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے اپنے ہی شاہکار کے قد تک خود کو بخوبی نہیں لاسکے۔ اس کے باوجود وہ میرے نزدیک ایک عظیم فلم ساز ہیں، جنہوں نے ہمیں بہت شاندار فلمیں دی ہیں اور اسی لیے ہمیں یہ فلم دیکھنا چاہیے۔ میں گلیڈی ایٹر 2 دیکھ چکا ہوں اور چاہتا ہوں گا کہ قارئین بھی عظیم فلم ساز ریڈلی اسکاٹ کی حوصلہ افزائی کی غرض سے یہ فلم ضرور دیکھیں، مگر ریڈلی کو چاہیے کہ وہ دوبارہ ایسا کوئی تجربہ نہ کریں۔

     

  • باکو کی سیر اور کراچی کی یاد

    باکو کی سیر اور کراچی کی یاد

    تحریر:سدرہ ایازاندرونِ ملک سیر و سیاحت شاید ہمارے لیے آسان ہو، لیکن بیرونِ ملک گھومنے پھرنے کے لیے جانے کا ارادہ کریں تو جیب سے لے کر اپنے کام کاج اور گھر بار تک بہت کچھ دیکھنا سوچنا پڑتا ہے۔ لیکن جب ایک اچھی پیشکش آپ کی منتظر ہو، جس میں اخراجات کم ہوں، اور گھومنے پھرنے، قیام کرنے کی سہولت کے ساتھ خاصی رعایت دی جارہی ہو تو پھر زیادہ سوچنا نہیں چاہیے۔ میں بھی ایسا ہی کیا جب مجھے آذربائیجان کے تاریخی اہمیت کے حامل اور سب سے بڑے تجارتی مرکز باکو کی سیر کی آفر کی گئی اور میرا یہ سفر یادگار ثابت ہوا۔

    یہ تحریر نہ تو آذربائیجان کا سفرنامہ ہے اور نہ ہی باکو شہر کے بارے میں کوئی فیچر رپورٹ۔ میں باکو کے دو بڑے قدیم ترین اور تاریخی اہمیت کے حامل مقامات کی مختصر معلومات کے ساتھ وہ مسرت بھری اور کچھ حیرت انگیز یادیں آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں، جو میرے نزدیک اہم ہیں۔ میں‌ نے باکو کو جدید طرز کی عمارتوں اور بہترین انفرااسٹرکچر کے ساتھ قدیم و جدید روایت اور ثقافت کا ایسا شہر پایا جو بلاشبہ قابلِ ذکر ہے۔ اس سے بڑھ کر میں نے یہاں‌ کے ماحول اور طرزِ تعمیر میں‌ بڑی کشش محسوس کی اور پھر پاکستان کے بڑے شہر کراچی کی حالتِ زار پر کڑھنے لگی۔

    قارئین، آذربائیجان کی تاریخ اور وہاں‌ کے اہم ثقافتی مقامات کے بارے میں انٹرنیٹ پر آپ آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ میں مختصراً بتاؤں تو آذربائیجان ایک ایسا ملک ہے جہاں تیل اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور اسے سر زمینِ آتش بھی کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ صدیوں‌ سے آباد ہے اور مؤرخین کے مطابق معروف سیاح مارکو پولو نے بھی 13 ویں صدی میں مشرقی قفقاز کا دورہ کیا تھا اور اس کے قدرتی وسائل اور حسن کی تعریف کی تھی۔ یہ ملک بنیادی طور پر قدرتی گیس کے وافر ذخائر کی وجہ سے اقتصادی ترقی میں آگے ہے۔ دوسری طرف باکو کی بات کریں تو یہاں‌ کی روایات اور ثقافت میں زرتشت مذہب کی وہ آگ بہت اہمیت رکھتی ہے جو نجانے کب سے جل رہی ہے اور اس سے کئی داستانیں‌ اور لوک کہانیاں منسوب ہیں۔ دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک زرتشت مذہب میں آگ بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ زرتشتیوں کے لیے ان کے خدا تک رسائی اور طاقت کا منبع ہے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کی کئی رسمیں‌ آگ سے جڑی ہوئی ہیں۔ صدیوں‌ پہلے انسان اسی طرح طاقت ور، ضرر رساں یا عقل و فہم سے بالاتر چیزوں کو خدا مان لیتا تھا۔ وہ ان کی عبادت کرتا تھا جیسا کہ سورج، چاند کو پوجنا اور اسی طرح آگ کو مقدس یا معبود خیال کرنا۔ لیکن چوں کہ آذربائیجان کی زمین میں‌ قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں‌ تو وہاں‌ کئی مقامات پر آگ بھڑک رہی ہے اور آج ہمارے لیے یہ کوئی انوکھی بات نہیں‌ ہے۔ تاہم زرتشت عقیدے میں‌ یہ آگ کئی مندروں اور عبادت گاہوں‌ کی بنیاد رکھنے کا باعث بنی اور ان کے رسم و رواج اور ثقافت میں اس کا بڑا عمل دخل ہے۔

    باکو کے دورے میں ایک روز میں اپنی فیملی اور دیگر احباب کے ساتھ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے مشہور مقام ’ینار داگ‘ پہنچی جو ایک پہاڑی مقام ہے اور وہاں‌ کا آتش کدہ دیکھا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں جو آگ بھڑک رہی ہے، اس کے شعلے ہزاروں سال سے اسی طرح‌ اٹھ رہے ہیں۔ ایک سو میٹر بلند اس پہاڑی کا ذکر مارکو پولو نے بھی اپنی ایک کتاب میں کیا تھا۔ یہ ہی نہیں‌ بلکہ آذربائیجان میں آگ کے شعلوں‌ کا نظارہ کئی دوسرے علاقوں میں بھی کیا جاسکتا ہے جہاں‌ کئی سال سے آگ کے آلاؤ روشن ہیں۔ تاہم اس ملک کے پہاڑی نما جزیرے کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی آگ ایک لمحے کو بھی نہیں بجھ سکی ہے۔

    آسمان سے برستا ہوا تھوڑا بہت پانی ہو یا طوفانی بارش، اس آگ کو کوئی نہیں‌ بجھا سکا۔ ینار داگ کی آتش گاہ کے بارے میں بہت سے لوگ ناقابلِ یقین واقعات سناتے ہیں اور افسانے بیان کرتے ہیں جس کی حقیقت صدیوں کے دوران کہیں‌ گم ہوچکی ہے۔

    کہتے ہیں‌ کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں آبادی نے اپنی فکر اور خیالات کے مطابق ایک مذہب اپنایا اور وہ مختلف ادوار میں اور سلطنتوں کے عروج و زوال کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہا اور آذربائیجان میں کئی قدیم قربان گاہیں، مندر اور آتش کدے بنائے گئے جن کے آثار آج بہت کم دیکھے جاسکتے ہیں۔ بہرحال، یہ طے ہے کہ اس سرزمین کے آتش کدوں‌ اور ان کے بھڑکتے رہنے کی ایک وجہ زمین کی سطح پر تیل کا جمع ہوجانا ہے جن میں سورج یا کسی دوسری وجہ سے آگ بھڑک اٹھتی اور پھر شعلے بھڑکتے رہتے۔ زرتشتوں نے ان پر آتش کدے تعمیر کیے جو ان کے لیے خدائی صفات سے معمور مقام اور ایک روحانی مرکز ہیں۔ ہم نے دو بڑے آتش کدوں‌ ینار دگ اور مشہور ترین آتش گاہ سورا خانی کی سیر کی۔ آتش گاہ دارالحکومت باکو سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور ایک ایسی کھلی وسیع دالان والی عمارت ہے جس میں پتھروں کی دیوار بنائی گئی ہے اور ان کے ساتھ قدیم دور میں حجرے بھی تعمیر کیے گئے تھے جہاں یقیناً عبادت کرنے والے اور زیارت کے لیے آنے والے قیام کرتے ہوں گے۔ اسے عام طور پر آتش گاہ کہتے ہیں۔ ہم باکو سے نکلے تو کچھ کلومیٹر سفر کرنے کو بعد سور خانی کے علاقے میں تھے۔ وہاں‌ ایک معبد یا مندر موجود تھا جسے مقامی لوگ صرف آتش گاہ کہتے ہیں۔ یہ یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔ اس کی عمارت کے اطراف جو کمرے ہیں، ان میں عبادت اور رہائش کے لیے مخصوص کمروں کے علاوہ اناج اور دوسری اشیاء ذخیرہ و محفوظ کرنے والے کمرے بھی بنائے گئے تھے۔ میرے لیے باکو کے یہ دو آتش کدے بہت پراسرار، اور دل چسپی کے حامل رہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر میں نے شہر کے ماحول، ثقافت اور انفراسٹرکچر کو بھی بہت توجہ اور دل چسپی سے دیکھا جس کا تذکرہ میں‌ یہاں کررہی ہوں۔

    باکو شہر میں ان مقامات کی سیر کے ساتھ ہم مختلف علاقوں میں سڑکوں اور شاپنگ مالز میں بھی گھومتے رہے اور صبح یا دن کے وقت ہی نہیں رات کو بھی ہوٹل سے باہر نکلے لیکن حیرت انگیز طور پر خوب صورت اور پختہ سڑکوں‌ کے اطراف سبزہ یعنی گرین بیلٹ، صفائی ستھرائی متاثر کن تھی۔ کراچی جو میرا شہر ہے، لوٹ مار، چھینا جھپٹی کے علاوہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ چھوٹی سڑکیں‌ تو ایک طرف مرکزی شاہراہیں بھی تزئین و آرائش سے دور، ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور اکثر مقامات پر تجاوزات کی وجہ سے بدنما نظر آتی ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ باکو اس قدر منظم طریقے سے تعمیرات کے ساتھ ایک قانون اور ضابطے میں‌ ڈھلا ہوا کیسے ہے۔ کراچی بھی تو ملک کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے اور ہمارے پاس ذہین و قابل لوگ ہیں جو کسی بھی شہر کو ترقی اور ایک منظم شکل دینے کے لیے اپنی خدمات پیش کرسکتے ہیں۔ پھر یہ سب کیوں؟

    دوسری طرف ہم نے رات کے وقت سڑکوں‌ پر گھومتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں کیا اور اس کے ساتھ ایک حیرت انگیز بات یہ بھی تھی کہ ہم نے ہوٹل کے عملے، اور لوگوں کو بلاضرورت غیرملکیوں کو دیکھتے ہوئے، اور انھیں کسی وجہ سے ہراساں یا تنگ کرتے ہوئے نہیں‌ پایا۔ مقامی لوگوں سے اتنا واسطہ تو نہیں پڑا مگر بظاہر وہ معاون اور مددگار نظر آتے تھے۔ یا پھر ہم سے یکسر انجان اور بے نیاز اور یہ بھی اچھی بات تھی۔ آذربائیجان میں میرے کان میں ایک دو جگہ ایسے الفاظ پڑے جو ہماری زبان کا حصہ تھے۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی اور بعد میں‌ معلوم ہوا کہ ان کی زبان میں ترکی اور فارسی کے کئی الفاظ شامل ہیں۔ اس ملک کی اکثریت مسلمان ہے، لیکن یہاں کی تہذیب و‌ ثقافت پر یورپ کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے ملبوسات جدید طرز کے اور ان کا میل جول بھی آزادانہ تھا۔ یہاں فن و ثقافت کو فروغ دینے کی روایت حکومت نے برقرار رکھی ہے اور جبھی اکثر جگہ ہلکی موسیقی کان میں پڑتی رہی اور رقص بھی دیکھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ یہاں سرکاری طور پر کوئی پابندی نہیں کہ کسی کا لباس کیسا ہے یا وہ کیا کھاتا پیتا ہے۔ تاہم یہاں کے مسلمان کسی بھی طرح‌ کی بے جا آزادی اور لوگوں کا حد سے تجاوز کرنا بھی پسند نہیں‌ کرتے۔ قانون کی پاس داری کرنا یہاں‌ لازمی ہے اور کوئی بھی غیرقانونی کام کرنے پر گرفت کی جاتی ہے۔ الغرض باکو کی چند روزہ سیر سے ثابت ہوا کہ آذربائیجان کی حکومت اور عوام بھی اپنی شناخت اور روایت کو براقرار رکھتے ہوئے اپنے شہر کو بین الاقوامی معیار کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں اور حکومت سیاحوں کا بہت خیال رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید طرز کی عمارتیں اور شاپنگ مالز قائم کیے گئے اور لوگوں‌ کی آمدورفت کے راستوں کی صفائی ستھرائی اور ان کی تعمیر و مرمت فوری کی جاتی ہے۔

  • بھارت کا انکار، پاکستان کا سخت موقف، آئی سی سی مشکل کا شکار؟

    بھارت کا انکار، پاکستان کا سخت موقف، آئی سی سی مشکل کا شکار؟

    بالآخر بھارتی مکر و فریب کی بلی تھیلے سے باہر آہی گئی اور چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد سے صرف 100 دن قبل بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو اپنی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا، گو کہ بھارت کے سابقہ کھیل سے کھلواڑ کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ 100 فیصد متوقع تھا لیکن پی سی بی حکام نے نجانے کیوں ہٹ دھرم بھارت سے پھر امید باندھ لی تھی۔

    بھارت جو بڑا اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا ملک ہونے کا فائدہ اٹھا کر کئی دہائیوں سے کرکٹ پر اپنے تسلط کا خواب دیکھتا آیا ہے۔ اس کے لیے کبھی بگ تھری کا فلاپ فارمولا لاتا ہے، تو کبھی پیسوں کی چمک پر دیگر بورڈز کو اپنے مفادات پر مبنی فیصلے کرنے پر مجبور کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، لیکن پاکستان پر اس کا زور نہیں چلتا تو وہ کرکٹ میں سیاست لا کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ہر دم مصروف رہتا ہے۔ اب تو کچھ دن بعد جب بھارت کے جے شاہ آئی سی سی چیئرمین کی کرسی سنبھال لیں گے تو وہ بھارت کے خود ساختہ کرکٹ سپر پاور بننے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر چاہے اس کے لیے جنٹلمین کا کھیل کہلانے والی ’’کرکٹ‘‘ کا حلیہ کتنا ہی کیوں نہ بگڑ جائے وہ آخری حد تک جائیں گے۔

    چیمپئنز ٹرافی 2025 اردو خبریں

    سری لنکن ٹیم پر 2009 میں لاہور میں ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ پاکستان سے روٹھ گئی تھی۔ حکومت اور پاک فوج کے اقدامات سے دہشتگردی کے خاتمے کے بعد ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ سمیت تمام ٹیمیں پاکستان آکر اور پرسکون ماحول میں کئی بار کرکٹ کھیل کر جا چکی ہیں۔ پاکستان کو آئی سی سی ایونٹ کی 1996 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے 28 سال بعد چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی۔ اس دوران 2011 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کو سری لنکا ٹیم پر حملے کا واقعہ ہڑپ کر گیا۔

    پاکستان آئندہ برس 19 فروری سے 9 مارچ تک کھیلی جانے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا صرف میزبان ہی نہیں بلکہ دفاعی چیمپئن بھی ہے، تاہم چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملنے کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے آئے روز بلیو شرٹس کے پاکستان نہ آنے اور ایشیا کپ کی طرح یہ ایونٹ بھی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کسی دوسرے ملک کھیلنے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا، جو دراصل بھارت کا پرانا مگر اوچھا ہتھکنڈا ہے اور اس کا مقصد پاکستان کے ساتھ آئی سی سی کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔

    ایک جانب بھارت ہے جو میں نہ آؤں کی رٹ لگایا ہوا ہے۔ دوسری جانب دو طرفہ کرکٹ تعلقات منقطع ہونے کے باوجود پاکستان جذبہ خیر سگالی کے طور پر اس مدت میں تین بار پاکستان کا دورہ کرچکا اور انتہا پسند ہندوؤں کی سنگین دھمکیوں کے باوجود وہاں کھیل چکا ہے جب کہ بھارت نے گزشتہ سال ایشیا کپ کو ہائبرڈ ماڈل کے تحت کرا کے ایونٹ کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ اس پر پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی آئی سی سی سے شکایت کی تھی۔ بھارت جس نے سیکیورٹی کا بہانہ بناتے ہوئے ٹیم بھیجنے سے انکار کیا۔ پاکستان پہلے ہی اسے ہر طرح کی ضمانت، تمام میچز لاہور حتیٰ کہ میچ کھیل کر واپس امرتسر جاکر قیام کرنے کے آپشن بھی دے چکا ہے۔ اس صورت میں اس کا یہ رویہ سراسر ہٹ دھرمی ہی کہا جائے گا۔

    بھارتی ہٹ دھرمی کے بعد اب پاکستان بھی چیمپئنز ٹرافی اپنے ہی ملک میں کرانے کے اصولی موقف پر ڈٹ گیا ہے اور حکومت پاکستان کی ہدایت پر آئی سی سی کو خط لکھ کر ہائبرڈ ماڈل کا آپشن یکسر مسترد کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے پاکستان نہ آیا تو پھر پاکستان کہیں بھی اور کسی بھی ٹورنامنٹ میں بھارت سے نہیں کھیلے گا۔ پی سی بی کا یہ جرات مندانہ موقف ہے اور پاکستان یہ موقف اپنانے پر حق بجانب ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ پاکستان چیمپئینز ٹرافی مائنس بھارت کرانے اور اس کی جگہ کسی اور ٹیم (سری لنکا) کو مدعو کرنے کے آپشن پر بھی غور کر رہا ہے۔

    یہ تمام ارادے اور اقدامات خوش کن، مگر جب اس کہے پر من و عن عملدرآمد ہو سکے تو۔ کیونکہ عوام اس معاملے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ان کے ذہنوں سے یہ محو نہیں ہوا کہ جب ایک سال قبل بھی ایشیا کپ کے لیے جب بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کیا، تو ہمارے اس وقت کے بورڈ سربراہ نے بھارت کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ہائبرڈ ماڈل کو بالکل مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کا اعلان تک کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارتی ٹیم تو اپنے کہے کے مطابق پاکستان نہیں آئی لیکن پاکستان اپنے کہے پر قائم نہ رہ سکا۔ ایشیا کپ بھارت کی فرمائش پر ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیل کر ایونٹ کا بیڑا غرق کیا گیا، جس کا سراسر فائدہ صرف بھارت کو ہوا، جب کہ اس کے بعد گرین شرٹس خوشی خوشی ورلڈ کپ کھیلنے بھارت بھی چلے گئے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ وہاں سے خوشی کے بجائے ایک نئی ہزیمت ساتھ لے کر آئے۔

    بھارت بے شک بڑا اور کماؤ پوت بورڈ اور اب، آئی سی سی جس کا جھکاؤ پہلے ہی انڈیا کی طرف ہوتا ہے اس کا سربراہ بھی ایک بھارتی ’’جے شاہ‘‘ بن رہے ہیں، لیکن آئی سی سی کسی ایک ملک کی تنظیم نہیں بلکہ درجن بھر کے قریب کرکٹنگ ممالک کی تنظیم ہے۔ بھارت کا یہ مخاصمانہ رویہ پاکستان کے ساتھ تو شدید ہے، لیکن وہ وقت پڑنے پر کسی کو بھی نہیں بخشتا اور اپنے مفاد کے لیے ہر کرکٹنگ ملک کے مقابلے پر اتر آتا ہے۔ یہ وقت کرکٹ ڈپلومیسی کا ہے کہ پاکستان بھی اپنے تُرپ کے پتّے کھیلے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے ستائے دیگر کرکٹ بورڈز کو اپنے اصولی موقف پر قائل کرکے بھارت کی کرکٹ میں سیاست گردی کے ذریعے داداگیری کے فتنے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے۔

    آئی سی سی کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 1996 اور 2003 کے ون ڈے ورلڈ کپ اور 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کی مثالیں موجود ہیں۔ 1996 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا تھا، تب آئی سی سی نے انکار واک اوور دینے والی ٹیموں کے میچز کے پوائنٹس حریف سری لنکا کو دیے تھے۔ یہی فارمولا 2003 کے ورلڈ کپ میں اس وقت بھی لاگو کیا گیا، جب نیوزی لینڈ، کینیا اور انگلینڈ نے زمبابوے جا کر اپنے میچز کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں زمبابوے کی ٹیم کو انگلینڈ کی جانب سے ویزے دینے سے انکار کے بعد اس کی جگہ اسکاٹ لینڈ کو شامل کیا گیا تھا۔

    پاکستان اگر واقعی اپنے موقف پر ڈٹ جاتا ہے، تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی خاصی تشویش کی بات ہوگی کیونکہ بھارت نے 2024 سے 2031 کے درمیان 4 آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کرنی ہے، جن میں 2025 میں ویمنز کا ورلڈ کپ، 2026 میں ٹی 20 ورلڈ کپ، 2029 میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی اور 2031 میں ون ڈے ورلڈ کپ شامل ہیں۔ آئی سی سی پہلے ہی 2027 تک 3.2 بلین ڈالر کی خطیر مالیت کے نشریاتی حقوق حاصل کرچکا ہے۔ اگر پاکستان آئی سی سی کے ان ٹورنامنٹس سے دستبردار ہو جاتا ہے تو براڈ کاسٹنگ ریونیو رائٹس کی ویلیو کم ہو گی اور آئی سی سی سے تمام بورڈز کو ملنے والی آمدنی پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ اگر پاکستانی حکومت بھی بھارت کو اسی زبان میں جواب دیتے ہوئے اپنی ٹیم کو بھارت کا سفر کرنے کی اجازت نہ دینے کی پالیسی اپنائے تو آئی سی سی کو مالی بحران سے بھی نمٹنا پڑسکتا ہے۔

    پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ یہ آئی سی سی کے خزانے بھرنے والا ملک ہے۔ پاک بھارت ٹاکرا آئی سی سی کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے جس سے اگر پاکستان نکل جاتا ہے تو پھر یہ ٹاکرا آئی سی سی کے خزانے سے ٹکرا کر بھارت اور آئی سی سی کے مفادات کو بھی پاش پاش کر سکتا ہے۔ پاکستان بلا خوف و خطر اور دو ٹوک فیصلہ کرے اور ہر جگہ کھیلنے سے انکار کر دے تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی بڑا خطرہ ہوگا کیونکہ ایک پورا ایونٹ اتنا منافع بخش نہیں ہوتا جتنا، اس ایونٹ کا ایک پاک بھارت میچ جس پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان ہمت کرے اور عملی قدم اٹھائے تو آئی سی سی ضرور مداخلت کر کے بھارت کو مجبور کر سکتا ہے۔

    (یہ بلاگر/ مصنّف کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی: فیض اللہ خان نے افغانستان میں قید کے دوران جو دیکھا اسے رقم کر دیا

    ایک اچھے صحافی کا مشاہدہ بہت شان دار ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات اور چیزوں کو دیکھ کر ایسے پیٹرنز کی نشان دہی کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی مدد سے سماجی اور سیاسی صورت حال کی ایک حقیقت سے قریب تر تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ذکر ہے فیض اللہ خان اور ان کی واحد کتاب ’’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ کا۔

    مشاہدے اور پیٹرن کی صفحہ 185 پر یہ خوب صورت مثال ملاحظہ کریں: ’’ملک بھر میں کہیں بھی طالبان حملہ کریں، میڈیا کے مطابق اس میں پاکستانی، ازبک، عرب اور چیچن ملوث ہیں۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا کہ درجنوں پاکستانی اس حملے میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے، لیکن کبھی بھی کسی کی لاش یا گرفتار پاکستانی فورسز سے متعلق کسی شخص کی فوٹیج نہیں دکھائی جا سکی۔‘‘ اب اس پیٹرن کو دیکھیں تو عین یہی آپ کو پاکستانی میڈیا میں بھی دکھائی دے گا اور بھارتی میڈیا میں بھی۔ ایسے کئی پیٹرن فیض اللہ نے کتاب میں نشان زد کیے ہیں، جو بے وجہ نہیں معلوم ہوتے۔ وہ زیرک صحافی ہیں، انھوں نے ذہانت سے اس خطے کے سماجی، سیاسی اور عسکری ذہنیت کا خاکہ کھینچا ہے۔

    جب کتاب کی بات کی جاتی ہے تو اردو میڈیا سے جڑے ایک پاکستانی صحافی سے کچھ زیادہ امید نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا باب میرے لیے حیرت انگیز تھا۔ روایتی طور پر ٹی وی رپورٹنگ سے وابستہ کسی صحافی سے لمبی اور ادبی نوعیت کی تحریر کی امید کم ہی رکھی جا سکتی ہے۔ ایسے میں اپنی پہلی کتاب کا آغاز اتنے شان دار طریقے سے کرنا کہ اس پر عالمی ادبی معیار کا گمان ہو، جیسے روسی، چینی، یا لاطینی امریکی یا کوئی ترکی ادیب اپنی کتاب کا آغاز کر رہا ہو! یہ باب کسی ناول کے باب کی طرح ہے اور اس کی علامتی ویلیو یہ ہے کہ ’’حقیقت فکشن بھی ہو سکتی ہے اور فکشن حقیقت بھی۔‘‘ شاید اسی نکتے کو ایک اور طرح سے محسوس کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے لکھا کہ اگر فیض اللہ خان افغان صحافی ہوتا اور پاکستانی انٹیلیجنس کے ہتھے چڑھتا، تب بھی وہ ایسی ہی آپ بیتی لکھتا اور اس کا نام بھی ڈیورنڈ لائن کا قیدی ہی ہوتا۔

    دراصل یہ کتاب اپنے عنوان ہی نہیں اپنے مواد میں بھی علامتوں کے ذریعے متعدد ’’حقائق‘‘ سے روشناس کراتی ہے۔ میرے لیے یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ اس کتاب میں فیض اللہ خان کی اتنی بڑی صلاحیت کا ادراک ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد 8 سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور انھوں نے ابھی تک اس فطری تحفے کی ’’ذمہ داری‘‘ قبول نہیں کی ہے۔ ذمہ داری قبول کرنا ایک نہایت قابل قدر انسانی رویہ ہے لیکن گزشتہ دو ڈھائی عشروں سے یہ رویہ عالمی سیاست کے اسٹیج پر تنظیمی عسکریت پسندی یا تنظیمی دہشت گردی سے بری طرح جڑ کر ایک بدنام علامت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیمیں بم دھماکوں میں انسانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرکے مذہب کے نام پر ’’فخر‘‘ کا اظہار کرکے انسانیت کو شرمندہ کرتی ہیں، ایسے میں فیض اللہ جیسے قلم کار کو زبان میں موجود علامتوں کے ذریعے طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی اپنی صلاحیت کو زیادہ جوش اور تحرک کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ڈیورنڈ لائن کا قیدی رہا ہو کر اپنے گھر تو آ گیا ہے اور اس نے ایک کتھا بھی سنا دی ہے، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیدی ابھی تک پوری طرح رہا نہیں ہوسکا ہے۔ وہ تا حال علامتوں کی بے درد زنجیروں سے جھوجھ رہا ہے۔ ان زنجیروں سے رہائی کا واحد طریقہ اپنی صلاحیت کا ادراک ہے اور ایک اگلی کتاب۔
    اس کتاب میں ایسی کئی چیزیں ہیں جن پر کافی تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے، لیکن میری یہ تحریر ایک تعارفی تحریر ہے جس میں میں نے اس کے متن کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھا ہے۔ اس کتاب کا عنوان برطانوی سامراج کو قبول نہ کرنے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ برطانیہ نے کالونی میں اپنے مفادات کی خاطر یہ لائن کھینچ کر قبائل کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا۔ آج بھی، جب کہ یہ لائن نو آبادیاتی یادگار ہے، دونوں طرف کے قبائل اسے تسلیم کرنے سے اصولی طور پر انکاری ہیں۔ لیکن کتاب کا یہ عنوان اپنے ساتھ اتنے واضح علامتی معنی لیے ہونے کے باوجود اس کے ناشر زاہد علی خان نے ’’عرض ناشر‘‘ میں افغانوں سے متعلق حقیقت سے عاری اور حماقت سے بھری ایسی باتیں لکھی ہیں، کہ گمان گزرتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کے ڈائناسارز کو جان بوجھ کر نظر انداز کر کے، من پسند اور مخصوص سوچ کی تشکیل کردہ ایسے معنی کے ہاتھوں اغوا ہو رہے ہیں، جو ہے تو مچھر اتنا لیکن پیش کیا جاتا ہے نمرود کے قاتل کے طور پر!

    یہ ایک تاریخی مظہر ہے کہ حاکم قوت ہمیشہ خود کو بہ ظاہر آسان اور سادہ علامتوں کی صورت میں پیش کیا کرتی ہے تاکہ عام لوگ اپنے اندھے جذبات کی مدد سے انھیں فوراً سمجھ سکیں اور ان سے جڑ سکیں اور انھیں تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ انھیں بس یہ محسوس ہو کہ وہ پوری طرح سمجھ چکے ہیں حالاں کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھے ہوتے۔ زبان اگرچہ خود ساری کی ساری علامتوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن روزانہ زندگی میں بولے جانے والے الفاظ کے واضح معنی اور زبان کے متفقہ گرامر کے ذریعے لوگوں کے درمیان رابطہ کاری بہ آسانی ممکن ہو جاتی ہے اور لوگ گفتگو کے ذریعے آسانی سے ایک دوسرے کا فوری مدعا سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن علامتوں کی ایک سطح وہ ہوتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دے کر انھیں غلط طور سے استعمال کرنے کے لیے بے حد مددگار ہوتی ہے۔ دھوکا یوں کہ ان کے ذریعے حقیقی صورت حال پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو کیا یاد رکھنا چاہیے، اس کے لیے ان کے سامنے یہی تشکیل شدہ معروف علامتیں رکھ کر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ ’’خیر کی قوت‘‘ ہیں اور ان کا مقابل ’’بدی‘‘ کی بدترین علامت ہے۔ اس کی مثال ہمیں کتاب کے شروع میں ’’عرضِ ناشر‘‘ میں ملتی ہے جس میں امریکی ڈالروں اور امریکی میزائلوں کی شرم ناک جنگ کی سیاہ تاریخ کو ’’پاکستان افغان مہاجرین کے لیے ماں کی علامت‘‘ اور ’’پڑوس ملک کے لیے انسانی تاریخ کا ناقابل فراموش رویہ‘‘ جیسے بیانیے میں چھپایا گیا ہے۔ اسی لیے چالیس لاکھ (افغان مہاجرین) کے ہندسے کو ایک ایسی عالمی اپیل کی صورت میں دہرایا جاتا ہے جس پر ’’افغانستان پر روس کے قبضے‘‘ کے بڑے جھوٹ کی رنگین چادر چڑھی ہوئی ہے۔ افغانوں کے خلاف پروپیگنڈا ہمیں ابھی افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کی شد و مد سے شروع کی گئی مہم کے دوران بھی ملتی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے حقیقی صورت حال پر مبنی رپورٹس کافی تشویش ناک ہیں۔ تاہم یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔

    دل چسپ امر یہ ہے کہ پہلے ہی باب میں فیض اللہ نے افغان سیکیورٹی اہل کاروں کے لہجوں میں ایسی خوف ناک نفرت سے سامنا کرایا ہے، جو ہرگز بدی کی کسی ماورائی علامت سے جنم نہیں لیتی، بلکہ اس کی تشکیل نفرت انگیز زمینی حقائق کرتے ہیں۔ اسے ڈیورنڈ لائن کی تاریخی علامت کے تناظر میں دیکھیں تو افغان قبائل نے جو مسلسل مزاحمت برطانوی کالونیلز کی در اندازیوں اور مداخلتوں کے سامنے کی، وہی مزاحمت انھوں نے پوسٹ کالونیل دور میں سرحد پار سے ہونے والی مداخلتوں کے جواب میں بھی کی، اور اس نفرت کو اسی مزاحمت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر پروپیگنڈا مسلسل اور طاقت ور ہو تو فیض اللہ بھی ’’ہم نے آپ کو مہمان کا درجہ دیا‘‘ (صفحہ 208) والے مقبول ڈسکورس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی پہلے آپ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کے ساتھ گھستے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کے پرامن شہری بے گھر ہوتے ہیں اور مہاجرین (جدید دنیا کی ایک نئی اچھوت برادری) بن جاتے ہیں، اور پھر انھیں سہولیات سے محروم جھونپڑیوں کے شہر میں بھیڑ بکریوں کی طرح بسا کر خود کو ’’عظیم مہمان نواز‘‘ کا خطاب دے دیتے ہیں۔

    فیض اللہ نے بہت معصومیت کے ساتھ اپنے بھی دو دل چسپ ڈسکورسز تشکیل دیے ہیں، جن سے عام افغان باشندے کی نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی طرز عمل سے متعلق بھی ایک مخصوص سوچ کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔ یعنی مصنف کی تحریر سے عندیہ ملتا ہے کہ افغان سے متعلق ایک خاص رائے قائم کی جائے۔ ان میں سے پہلا ڈسکورس دیکھیں: ’’افغان شک کی بنیاد پر کوئی بھی الزام لگا کر حتمی سمجھتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 114)۔ دراصل یہ واقعہ اس وقت کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ سے متعلق ہے، جس کے بارے میں افغان قیدیوں کا کہنا تھا کہ اس نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے ایسا کوئی معاہدہ کیا تھا یا نہیں، عام شہری ہمیشہ سیاست دانوں کے حوالے سے اس قسم کے اندھا دھند یقین کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو کسی سیاست دان کے یہودی ایجنٹ ہونے اور کسی کے بھارتی ایجنٹ ہونے کا ’’یقین‘‘ لاحق رہا ہے، اور جو ان دو ممالک کا نہیں، وہ امریکی ایجنٹ تو ہوتا ہی ہے، جماعت اسلامی تو امریکی ڈالروں کے حوالے سے مخالفین میں بہت بدنام رہی ہے۔ لیکن بے خبر رکھے گئے عوام کا یہ عمومی رویہ اگر مخصوص قوم کی خصوصیت بنا کر پیش کیا جائے تو اسے کلامیہ (ڈسکورس) سازی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

    دوسرا دل چسپ ڈسکورس اس طرح تشکیل پاتا ہے: ’’افغان انرجی ڈرنک کے دیوانے ہیں۔‘‘ (صفحہ 117)۔ اس طرح کے بیانات میں امر واقعہ کا انکار ممکن نہیں ہوتا، لیکن جملے کا معنیٰ بہ ظاہر اتنا ہی نہیں ہوتا۔ ڈسکورسز کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ یہ طاقت اور سیاسی معنی سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ وقت پڑنے پر آسانی سے اپنا رنگ اور اپنی صورت بدل لیتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی طاقت اور سیاسی صورت حال بدلتی ہے، ڈسکورس والی نام نہاد حقیقت بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ افغان اگر انرجی ڈرنک کے ’’دیوانے‘‘ ہیں تو اسے افغانستان میں طویل غیر ملکی مداخلتوں (بالخصوص امریکی) کے تناظر سے ہٹ کر دیکھنا منصفانہ اظہار نہیں ہے۔ اسی طرح تو افغان ڈالر کے بھی دیوانے ہیں لیکن اس کا ’’امریکی استعماری‘‘ تناظر کتنا شرم ناک اور ہول ناک ہے۔ اس طرح کے ڈسکورسز ایک قوم کو ایک خاص رنگ اور ڈھنگ میں پیش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ایک خاص تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔
    یہ کتاب اگرچہ ایک اچھی دستاویز کی طرح ہے تاہم افغان سماج کا تجزیہ ایک زیادہ غیر جانب دار رویے کا طالب ہے۔ اوپر صفحہ 185 کا جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد افغان میڈیا میں پاکستان کی مخالفت کا خصوصی ذکر موجود ہے لیکن جس سماجی تجزیے کی ضرورت تھی وہ موجود نہیں۔ مثال کے طورر پر اس اقتباس سے قبل سرمایہ کاری (بالخصوص انفراسٹرکچر میں) کے حوالے سے بھارت افغانستان دو طرفہ تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک اچھا سماجی تجزیہ کار یہ بنیادی سوال اٹھائے گا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی قربت اور اشتراک کے باوجود اس سرمایہ کاری کی طرف پاکستان نہیں گیا؟ افغانستان صرف ڈیورنڈ لائن ہی پر نہیں، ملک کے اندر مداخلت پر بھی شاکی رہا ہے۔ طویل عرصے تک اس مداخلت کے باوجود پاکستان کا یہ کردار افغانستان کے اندر تعمیر و ترقی کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اس تجزیے کی عدم موجودی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افغان میڈیا کا یہ پاکستان مخالف رویہ کسی پراسرار قوت کے طابع ہو۔ حالاں کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر چودہ اگست کو یہ میڈیا پاکستان کے حوالے سے کوئی خبر نہیں چلاتا اور پندرہ کو ہندوستان کی آزادی پر خصوصی نشریات ترتیب دیتا ہے تو اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کا کاروباری اور سرمایہ کاری پارٹنر ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے وہاں کس چیز میں سرمایہ کاری کی ہے؟

    میرا خیال ہے کہ یہ کتاب اپنے زبردست متن کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ ویلیو رکھتی ہے، جیسا کہ فیض االلہ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کو پہلے انگریزی میں چھپوائیں، میں اس مشورے سے خود کو متفق پاتا ہوں۔ تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں آنے والی کتابوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں زبردست طور سے ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے، تاکہ ایک طرف زبان اور اس کے گرائمر کے حوالے سے ان میں سقم نہ رہے، دوسری طرف متن کو اتنا چست کیا جا سکے کہ اس میں کوئی جملہ یا پیراگراف اضافی محسوس نہ ہو، اور کوئی واقعہ ایسا نہ لگے کہ اسے زبردستی بٹھایا گیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا قیدی میں ایڈیٹنگ کی بہت زیادہ ضرورت ہے، ایک طرف اگر کاما اور ڈیش کا عدم استعمال پریشان کرتا ہے، تو دوسری طرف ان کا غلط استعمال تقریباً ہر صفحے پر ملتا ہے۔ مندرجہ بالا ان تمام خامیوں کے باوجود یہ ایک اچھی دستاویز ہے، جس میں کچھ دل چسپ حقائق ایسے بھی ملتے ہیں، جنھیں ہم سامراجی رویوں کے نتائج کے تاریخی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں۔ صفحہ 160 پر لکھا گیا ہے کہ ابو بکر البغدادی نے علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو جن عراقی فورسز پر امریکا نے اربوں ڈالرز لگائے تھے، انھوں نے کوئی مزاحمت کیے بغیر علاقے چھوڑ دیے۔ اب حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی باز آمد پر اسی تاریخ نے خود کو دہرایا۔

    جو بائیڈن کے زیر صدارت جب امریکا نے آخرکار افغانستان سے نکلنے کے فیصلے کو اگست 2021 میں عملی صورت دے دی تو یہ بات میڈیا میں اس طرح بریکٹ نہیں ہوئی، جس طرح فیض اللہ خان نے القاعدہ کی خراسان شاخ کی شوریٰ کے ایک رکن شیخ جعفر کے انٹرویو کے ذریعے واضح کی، کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا سے کئی سال قبل القاعدہ کی تمام عسکری اور فکری قیادت افغانستان سے نکل کر عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور الجزائر جیسے ممالک میں منتقل ہو چکی تھی (صفحہ 144)۔

    یہ کتاب اپنے مواد میں بے حد اہم ہے، اور فیض اللہ کا طرز تحریر کافی دل چسپ ہے، یعنی کتاب خود کو آخر تک پڑھواتی ہے۔

  • ’’ٹرمپ کی کامیابی اور پاکستان‘‘، بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

    ’’ٹرمپ کی کامیابی اور پاکستان‘‘، بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

    ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے دوسری بار صدر منتخب ہوگئے، لیکن اس کے بعد پاکستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہ سمجھ سے باہر ہے۔ ایک جانب لوگ بھنگڑے ڈالنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں، تو دوسری جانب ناصر کاظمی کے شعر ’’ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر، اداسی بال کھولے سو رہی ہے‘‘ جیسی صورتحال دکھائی دیتی ہے، کم از کم دونوں اطراف کے بیانات سے تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے۔

    امریکا دہائیوں سے دنیا کی واحد سپر پاور اور سب سے طاقتور ملک ہے اور اس کے صدارتی انتخاب پر دنیا کی نظریں لگی ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر ہمارے وزیراعظم شہباز شریف سمیت دنیا بھر کے سربراہان مملکت نے اپنے اپنے انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے نام تہنیتی پیغام بھیجے، لیکن وہاں کے عوام کا عمومی رویہ معمول کے مطابق رہا۔ دوسری جانب پاکستان میں، جہاں پہلے ہی یہ مفروضہ گھڑ لیا گیا تھا کہ ٹرمپ آئے گا تو عمران خان رہا ہو جائے گا یا موجودہ حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گی، اس مفروضے پر مزید تبصرے اور تجزیے شروع ہو گئے ہیں۔

    اگر یہ بات صرف چائے کے ہوٹلوں، ڈرائنگ روم کی نجی محفلوں یا کارکنوں تک رہتی تب بھی بہتر تھا، لیکن صرف سیاست سے نابلد اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والے عوام ہی نہیں، بلکہ معقول سیاسی حلقوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ٹرمپ کی کامیابی کو پی ٹی آئی کی صورتحال سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم نے امریکی الیکشن کو پاکستان کی موجودہ سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر خود کو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں تیرا چیف اور میرا چیف، تیرا جج اور میرا جج کے نعرے لگتے تھے اور اب صورتحال اتنی مضحکہ خیز ہو گئی ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی، تو کچھ بعید نہیں کہ جلد ہی ہم تیرا امریکی صدر اور میرا امریکی صدر کی گردان بھی سن اور دیکھ لیں۔

    حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی خود کو آزاد ملک کا آزاد شہری کہتے ہیں اور اس حقیقت میں ذرہ برابر بھی شک نہیں۔ لیکن جس طرح امریکی الیکشن اور ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بچکانہ بیانات سامنے آ رہے ہیں، وہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں نے اپنا سیاسی قبلہ امریکا کو ہی بنایا ہوا ہے یا دوسرے معنوں میں امریکا ہی مائی باپ ہے۔

    ایک جانب پی ٹی آئی والے (رہنما اور کارکنان دونوں) ہیں، جو مبارکباد کے ساتھ ٹرمپ کو عمران خان کا اچھا دوست قرار دے رہے ہیں اور آس لگا رہے ہیں کہ ٹرمپ ان کی مصیبتوں کا ازالہ کرے گا۔ ہمدردی کی لہر کے ساتھ پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی اس خیال کی رو میں بہہ رہی ہے جب کہ سابق صدر پاکستان اور پی ٹی آئی رہنما عارف علوی نے تو ٹرمپ کو مبارکباد دینے کے ساتھ ایک خط بھی لکھ ڈالا جس میں عارف علوی نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آپ کی جیت نے موجودہ اور آنے والے آمروں پر کپکپی طاری کر دی ہے۔ آپ پاکستان کے اچھے دوست رہے ہیں اور جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔‘‘ (یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنی اتنخابی مہم میں کبھی بھی اور کہیں بھی عمران خان کی رہائی سے متعلق بات یا وعدہ نہیں کیا)۔ ویسے ہمارا ذاتی خیال ہے کہ خط میں لکھے گئے ان کے یہ الفاظ عارف علوی کے سابق منصب سے مطابقت نہیں رکھتے اور پاکستان کے موجودہ سیاسی تناظر میں یہ سابق صدر مملکت سے زیادہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن کے الفاظ جیسا وزن رکھتے ہیں۔ عارف علوی کو اس کا خیال رکھنا چاہیے تھا، کہ بڑا منصب لفظوں کے بھرم اور انتخاب کا متقاضی ہوتا ہے۔

    دوسری جانب حکومت کے ارسطو دماغ ہیں، جو بلاوجہ ٹرمپ اور عمران خان کی رہائی کا شوشا چھوڑ کر جلتی پر تیل ڈال کر اپنے لیے ہی سیاسی مشکلات بڑھانے میں مصروف ہیں، کیونکہ اس قسم کے بیانات سے عمران بے شک رہا ہو یا نہ ہو، لیکن عوام میں ن لیگ اور حکومت کی گرتی مقبولیت کو مزید عوامی نفرت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ویسے تو کوئی وزیر پیچھے نہیں، لیکن رانا ثنا اللہ نے تو حد ہی کردی اور کہا کہ امریکا چاہے تو عافیہ صدیقی کے بدلے عمران خان کو لے سکتا ہے۔ یہ بچکانہ بیان صورتحال تو تبدیل نہیں، لیکن امریکا میں قید عافیہ صدیقی کے اہلخانہ کے زخموں پر نمک کا کام ضرور کر سکتا ہے۔ جس طرح بڑا طاقتور جانور جنگل میں آجائے، تو وہاں شور بپا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کی دوبارہ وائٹ ہاؤس آمد پر سوشل میڈیا پر بھی شورمچ گیا ہے کہ بالخصوص عمران خان کے چاہنے والے ایسے ایسے کمنٹس کر رہے ہیں کہ جیسے آنے والے دنوں میں عمران خان اور ٹرمپ ہاتھوں میں ہاتھ لے کر یہ گانا گاتے نظر آئیں گے کہ ’’یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے، توڑیں گے دم اگر ساتھ تیرا نہ چھوڑیں گے۔‘‘ دوسری جانب مخالف سوچ والے یہ کہہ کر پی ٹی آئی والوں سے استہزا کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کامیاب ہو گئے اب وہ پاکستان آکر عمران کا اڈیالہ جیل سے آزادی دلائیں گے اور پھر عمران خان پاکستان کو امریکا سے آزادی دلائے گا، یا پھر امریکا نے اقتدار سے نکالا تھا اور اب کیا امریکا ہی جیل سے نکالے گا۔ خیر اس بات میں تو وزن ہے، اگر پی ٹی آئی والے عمران خان کی رہائی کے لیے ٹرمپ کی طرف دیکھ رہے ہیں تو پھر ان کا حقیقی آزادی کا نعرہ کہاں گیا؟ بہتر یہ ہے کہ دونوں جانب سے ٹرمپ کا نام لے کر خود کو متنازع بنانے کے بجائے عمران خان کے حوالے سے اپنی عدالتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

    اسی تناظر میں سینیٹر مشاہد حسین سید کا کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے جس میں انہیں عمران خان کی رہائی کے تناظر میں کہا تھا کہ اگر 5 نومبر کو ٹرمپ صدر منتخب ہوگئے اور پھر وہاں سے کال آئے تو اس کال سے قبل ہی پاکستانی حکومت اپنا فیصلہ کر لے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کے کرتا دھرتاؤں نے ان کی اس بات کو سنجیدگی سے لیا اور 5 نومبر سے قبل ہی سروسز چیفس کی مدت (آرمی چیف کی مدت ملازمت) تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر لی جس کو مخالفین حکومت کے اپنے پانچ سال پکے کرنے کا بندوبست قرار دے رہے ہیں جب کہ اس کے ساتھ ہی جسٹس امین الدین کی آئینی بنچ کے سربراہ کی طور پر تقرری کرکے اور قانون منظور کرانے کے بعد ججز کی تعداد بڑھا کر پیشگی بندوبست کر لیا ہے۔
    امیدیں لگانے والوں کے لیے عرض ہے کہ پاکستانیوں کے لیے نہ ٹرمپ ناآشنا ہے اور نہ ہی پاکستان ٹرمپ کے لیے اجنبی ہے۔ وہ پہلی بار نہیں بلکہ دوسری بار صدر منتخب ہوئے ہیں اور ان کا پہلا دور مختلف تنازعات کے باعث خبروں میں رہا ہے اور ایسے تنازعات جس کی نہ صرف ان کے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں تنقید کی گئی اور سب کو معلوم ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے بعد جن امور کو انجام دیں گے ان میں عمران خان کی رہائی کا دور، دور تک ذکر نہیں ہوگا۔

    ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں امریکا فرسٹ کا نعرہ دیا، جو بطور سربراہ مملکت غلط نہیں اور اسی نے ان کے متنازع ہونے کی بنیاد رکھی، کیونکہ وہ صرف امریکا نہیں بلکہ سپر پاور ملک کے صدر ہیں۔ جس کی طے کردہ پالیسیوں سے دنیا کے سیاسی ومعاشی رنگ بدلتے ہیں۔ اس لیے اب انہیں اپنی دوسری اننگ سوچ سمجھ کر کھیلنی ہوگی۔ اس وقت دنیا کے کئی خطوں بالخصوص امریکا کے لے پالک اسرائیل کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ مظلوم فلسطینی تو کئی دہائیوں سے یہ مظالم سہہ رہے ہیں، جب کہ لبنان میں بھی جنگ کا محاذ کھلا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایران اور اسرائیل میں بھی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ یہ دنیا کو تباہ کرنے والی چنگاریاں ہیں، جس پر پھونکیں مارنے کے بجائے بجھانے کی ضرورت ہے ورنہ اگر یہ آگ بھڑکی تو تیسری جنگ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس کرہ ارض کو تباہ کر دے گی اور شاید یہ دنیا کی آخری جنگ ہوگی۔

    ٹرمپ کا اپنی وکٹری اسپیچ میں نئی جنگ نہ چھیڑنے اور جاری جنگوں کو ختم کرانے کی بات کرنا خوش آئند ہے، لیکن اس کو عملی جامہ کب پہنایا جاتا ہے یہ دیکھنا ہوگا۔ امریکا کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ صرف سیاسی بیان لگتا ہے، کیونکہ اگر ٹرمپ اپنے اس بیان کو عملی جامہ پہنانے نکلے تو اس کے لیے امریکا کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنا ہوں جو انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن دکھائی دیتی ہیں۔ کیونکہ امریکا کی پرو اسرائیل پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دنیائے اسلام تو اسرائیل کو امریکا کی ناجائز اولاد کہتی ہے گی اور اپنے لے پالک اسرائیل کو لگام دینا ہوگی کیونکہ دنیا میں جنگ کے فساد کی سب سے بڑی وجہ بھی وہی ہے۔