Category: اردو بلاگز

  • اردو بلاگز اور مضامین علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے مختلف علوم و فنون، تاریخ، فلسفہ، سیاست، معیشت، سماجیات، اور ادب کے مختلف اصناف جیسے کہ افسانہ، شاعری، اور ڈرامہ کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
  • مضامین کے ذریعے نئے خیالات اور نظریات کو پیش کیا جاتا ہے اور قارئین کو ان پر غور کرنے اور اپنی رائے قائم کرنے کا موقع ملتا ہے
  • کوٹا فیکٹری….. سیزن 3

    کوٹا فیکٹری….. سیزن 3

    پاکستان ہو یا ہندوستان، تقسیم کے بعد سے آج تک دونوں ممالک کچھ ایسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے اور انہیں حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان میں ایک اہم ترین مسئلہ تعلیم کا وہ نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرے کو متاثر کررہا ہے۔ دونوں ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طلبا کس طرح تعلیمی نظام میں استحصالی قوتوں کا شکار ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی زندگی اور شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ ویب سیریز "کوٹا فیکٹری” اسی صورت حال کو بیان کرتی ہے اور اسے دیکھنے سے ہمیں انڈیا پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی/ اسکرپٹ

    ویب سیریز "کوٹا فیکٹری” کا مرکزی خیال بہت اچھا ہے کہ کس طرح ناقص نظامِ تعلیم طلبا کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے اور اس نظام میں تعلیم کا حصول زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے کس طرح ابتری کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کہانی میں راجستھان کے شہر "کوٹا” کو مرکز بنایا گیا ہے۔ ساری کہانی کا تانا بانا اسی کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ یہ شہر ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے پڑھے ہوئے طلبا کسی بھی بڑی جامعہ میں داخلہ لینے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ اب اس شہر میں کس طرح یہ ٹیوشن مافیا طلبا کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، اس کھینچا تانی میں طلبا کا کیا حشر ہوتا ہے، اور جو یہ دوڑ نہیں جیت پاتے، وہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر کن مسائل سے گزرتے ہیں، یہ کہانی ان کی اسی تکلیف اور خلش کو بیان کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اچھا استاد کیسے اپنے طلبا کے لیے مشعلِ راہ بنتا ہے، یہ کہانی اس مثبت اور سنہری پہلو کو بھی بخوبی بیان کرتی ہے۔

    اس مرکزی خیال کے خالق اور اسکرپٹ نویس "تاموجیت داس” ہیں، اور اسے معروف انڈین پروڈیوسر "ارونابھ کمار” کی معاونت سے لکھا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ یہ مرکزی خیال ارونابھ کمار صاحب کا ہی ہے، جس کو انہوں نے تاموجیت داس کے حوالے کیا اورانہوں نے اس کی ڈرامائی تشکیل کی۔ ارونابھ کمار کی یہ کہانی اس لیے ذاتی لگتی ہے کیونکہ اس ویب سیریز میں جس تعلیمی ادارے "انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی” کا ذکر ہے کہ جس میں داخلے کے لیے طلبا ٹیوشن مافیا کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں، یہ صاحب اسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے اس مرکزی خیال میں یقینی طور پر ذاتی تجربات شامل کیے ہوں گے جن کو اسکرپٹ رائٹر نے باکمال انداز میں لکھا ہے۔ مکالمے بہت جان دار اور کہانی کا تسلسل بہت مناسب اور عمدہ ہے۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    کوٹا فیکٹری کے اب تک تین سیزنز ریلیز کیے جا چکے ہیں۔ چوتھے سیزن کی بھی نوید ہے۔ ایک پرائیویٹ انڈین اسٹریمنگ پورٹل اور یو ٹیوب سے شروع ہونے والی اس ویب سیریز کو نیٹ فلیکس نے اچک لیا اور یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شہرت سمیٹ رہی ہے۔ اس کہانی کو بلیک اینڈ وائٹ تھیم میں عکس بند کیا گیا ہے، جس سے بیانیے میں مزید جان پڑ گئی اور بغیر کسی گلیمر کے اسکرپٹ میں کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ انداز بہت متاثر کن اور قابلِ تقلید ہے۔ اس ہندوستانی ویب سیریز کوٹا فیکٹری کے ہدایت کار راگھو سوبا اور پراتش مہتا ہیں۔

    دونوں نے اچھے انداز سے اپنے کام کو نبھایا ہے، لیکن خاص طور پر پراتش مہتا جو کہ اس شعبے میں نئے ہیں، لیکن انہوں نے اب تک جتنا کام کیا ہے، اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح تعلیمی نظام پر بنی کہانیوں سے ہے، تو یہ اہم بات ہے کہ وہ اس موضوع پر ویب سیریز اور فلمیں بنانے والے ایک خاص ہدایت کار بنتے جا رہے ہیں۔ ویب سیریز میں دیگر شعبوں جن میں خاص طور پر کلر گریڈنگ، لائٹنگ، کاسٹیومز، لوکیشنز اور موسیقی، تمام شعبوں کا بہتر طریقے سے خیال رکھا گیا، تدوین اور پوسٹ پروڈکشن کے معاملات بھی اچھے سے نبھائے گئے، یہ پاکستانی شوبز، کانٹینٹ بنانے والے ادارے اور فلم سازوں کے لیے سبق ہے کہ اگر آپ کو اپنے موضوع اور کہانی پر گرفت ہو، تو آپ کو کمرشل دنیا میں بھی اتنی ہی توجہ ملے گی، جتنی کہ دیگر گلیمر پر مبنی سینما کو ملتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کا یہ بھی خاصّہ ہے کہ کاسٹنگ کرتے وقت کرداروں کی نوعیت، ان کی عمروں اور ان کے ظاہری حلیے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے ویب سیریز کوٹا فیکٹری حقیقت سے قریب تر محسوس ہوئی ہے۔ اس میں ایک بڑی تعداد کوچنگ سینٹرز کے طلبا کی ہے، جنہوں نے شوٹنگ میں حصہ لیا۔ ویب سیریز کے نوجوان اداکاروں میں جیتندر کمار(ٹیچر) اور احساس چنا(نمایاں طالبہ) میور مور(مرکزی طالب علم) رانجن راج (نمایاں طالب علم) عالم خان (نمایاں طالب علم) سمیت دیگر تمام اداکاروں نے اپنی اپنی جگہ اچھا کام کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کچھ مختصر کردار مشہور اداکاروں نے بھی نبھائے لیکن ان کو گلیمرائز نہیں کیا گیا بلکہ کہانی کی روانی میں وہ شامل ہوئے، ان کا کردار آیا اور چلا گیا۔ اس انداز نے ویب سیریز کو طلبا کی زندگی سے بہت قریب کر دیا اور اداکاروں نے اپنی اداکاری اور جان دار مکالمات کہ وجہ سے اسے بہترین بنا دیا۔

    آخری بات

    ویب سیریز کوٹا فیکٹری تعلیمی نظام کے اس تاریک پہلو کو بیان کرتی ہے جس میں طالب علموں کو تعلیم کے نام پر ایک دھندے کی نذر کردیا جاتا ہے، جہاں وہ کس طرح پہلے ٹیوشن اور کوچنگ مافیا کا شکار ہوتے ہیں، پھر ان نام نہاد معروف تعلیمی اداروں کا، جن میں انہیں داخلہ لینا ہوتا ہے، اور پھر اس کیریئر میں مشکلات سے گزرتے ہیں، جہاں وہ اتنی محنت کر کے پہنچے ہوتے ہیں۔ انڈیا ہو یا پاکستان، یہ درست ہے کہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کے نام پر اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ اس نظام کو تبدیل ہونا چاہیے، یہ کب ہوگا، نہیں معلوم، مگر یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔

  • نواز شریف اور قاضی فائز عیسٰی کی آمد و رخصت میں مماثلت اتفاقیہ یا۔۔۔۔؟

    نواز شریف اور قاضی فائز عیسٰی کی آمد و رخصت میں مماثلت اتفاقیہ یا۔۔۔۔؟

    نواز شریف وطن آئے اور ایک سال پانچ دن پاکستان میں قیام کے بعد 26 اکتوبر کو پھر لندن چلے گئے۔ اسی روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے اور فیملی کے ہمراہ لندن جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ ن لیگ کے مطابق وہ معمول کے چیک اپ کے لیے لندن گئے ہیں اور کچھ عرصے بعد وطن واپس آ جائیں گے جب کہ قاضی فائز عیسیٰ کو ان کی درس گاہ نے بطور خاص تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہم بھی یہی حسن ظن رکھتے ہیں، لیکن زباں بندی کے اس دور میں سوشل میڈیا کی بے لگام زبان تو سابق وزیراعظم کی آمد کے بعد اب روانگی کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی سے جوڑ رہی ہے۔

    تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے محترم نواز شریف کو 2019 میں ن لیگ کے مطابق انتہائی تشویشناک طبی حالت میں لندن لے جایا گیا تھا۔ اس وقت ان کی صاحبزادی مریم نواز اور پارٹی کی صف اول کی قیادت کے مطابق کئی سنگین بیماریاں لاحق تھیں، لیکن لندن کی فضا انہیں ایسی راس آئی کہ چار ہفتے کی اجازت کے باوجود وہ چار سال وہاں لگا کر آئے اور اس دورانیے میں وہ مکمل ہشاش بشاش دکھائی دیے۔

    لندن میں چار سالہ نادیدہ علاج سے ایسے صحتیاب ہوئے کہ جب گزشتہ سال 21 اکتوبر کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رنجہ فرمایا تو اس کے بعد سے اب تک انہیں کوئی بخار تو کیا تو کیا ایک چھینک بھی شاید نہیں آئی، ورنہ ہمارا میڈیا تو کسی لیڈر کی کھنکھارنے کی آواز کی بھی خبر بنا لیتا ہے اور پارٹی رہنما معمولی بیماری کو ملک کا سب سے بڑا بحران بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔

    خیر بات ہو رہی تھی مماثلت کی۔ نواز شریف جن پر ان کی پارٹی سابق پی ڈی ایم حکومت میں مسلسل وطن واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔ اس وقت حکومت بھی ان کی تھی اور فضا بھی سازگار لیکن نواز شریف کی جہاندیدہ آنکھوں نے شاید افق پر کچھ خطرات کے منڈلاتے بادل دیکھ لیے تھے تب ہی وہ اپنے بھائی کے وزیراعظم ہونے کے باوجود 16 ماہ تک وطن واپس آنے کی ہمت نہ کر سکے لیکن جیسے ہی قاضی فائز عیسی نے 17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اس کے کچھ دن بعد ہی نواز شریف کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ کا نہ صرف اعلان بلکہ انہوں نے تشریف لاکر پاکستان کو خود سے نواز دیا اور اس موقع پر ماضی میں ان کے دست راست محمد زبیر نے ببانگ دہل کہا کہ نواز شریف وطن واپسی کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہے تھے۔

    ن لیگ کے دوستوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کی آمد سے ان کی پارٹی کے تن نیم مردہ میں جان پڑے گی اور وہ پورے اختیار کے ساتھ الیکشن میں جیت کر حکومت بنائیں گے۔ لیکن ایسا لگا کہ نواز شریف کی تمام بیماریاں اور کمزوریاں رخصت ہوکر ن لیگ کے جسم میں سما گئیں اور ان کی آمد بھی ن لیگ کو 8 فروری کے متنازع الیکشن میں من چاہی دو تہائی اکثریت تو کیا سادہ اکثریت بھی نہ دلا سکے بلکہ نواز شریف جو مانسہرہ میں اپنی قومی اسمبلی کی نشست پی ٹی آئی کے ایک غیر معروف رہنما سے ہار گئے وہیں لاہور میں اپنے قلعے کے اندر وہ یاسمین راشد سے کیسے جیت پائے یہ سب پر عیاں ہے، بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ مشکل سے عزت بچ گئی یا پھر بچائی گئی۔

    الیکشن میں ن لیگ نے نعرہ دیا کہ پاکستان کو نواز دو، لیکن ووٹرز نے جس کو نوازا اس کو تو دیوار کے کنارے لگا دیا گیا۔ جیسے تیسے حکومت بنی لیکن نواز شریف کا چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ ن لیگ کہہ رہی ہے کہ نواز شریف نے ازخود وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا تو یہ سیاسی حوالے سے ان کا بڑا فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں وزیراعظم کو ایک کٹھ پتلی کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

    ایک سالہ دورہ پاکستان میں اگر دیکھیں انہوں نے کیا حاصل کیا تو قصہ مختصر اپنے مقدمات ختم کراکے پارٹی کی باضابطہ قیادت سنبھالنے، الیکشن لڑنے اور وزیراعظم بننے کی راہیں ہموار کیں مگر سوائے ن لیگ کے صدر بننے کے ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اگر صدر نہ بھی بنتے تب بھی وہی ن لیگ کے سیاہ سفید کے مالک اور ہر فیصلہ ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ تاہم اپنی بیٹی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا کر انہوں نے مستقبل کی وزیراعظم کی تربیت شروع کی۔

    نواز شریف کی آمد کے بعد ہاں پاکستان کی عوام اتنی باشعور ہوگئی کہ اسے فارم 45 اور 47 کا فرق پتہ چل گیا جب کہ اس سے قبل وہ صرف بیلٹ پیپر کو ہی جانتی تھی جب کہ وہ انگلش میڈیم بچے بھی جو forurty five اور forurty seven سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن مادری زبان میں پینتالیس اور سینتالیس سے نابلد بھی وہ اس سے آشنا ہوگئے۔ ہاں ایک بات البتہ مخالفین نے غلط کی کہ نواز شریف کو 45 کی پیداوار قرار دے دیا جب کہ ان کی پیدائش 49 یعنی 1949 کی ہے۔

    نواز شریف اس دوران چاہتے تو اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غربت کی چکی میں پستی عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کرتے اور اپنا ناراض ووٹ بینک واپس لاتے لیکن اس کے بجائے انہوں نے سارا زور لفظی ریلیف کے بعد مجھے کیوں نکالا، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے، پاناما سے اقامہ تک کی گردان کرنے پر دیا۔ وہ مہنگی بجلی کا ذمے دار پی ٹی آئی اور عمران کو ٹھہراتے رہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ آئی پی پیزسب سے زیادہ کس کے دور حکومت میں لگائی گئیں اور ان کے تانے بانے کہاں کہاں جا کر ملتے ہیں۔

    نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد اتنا فائدہ نہیں اٹھایا، جتنا انہیں سیاسی طور پر نقصان برداشت کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی جو کئی سال سے پارٹی پالیسیوں سے نالاں اور آمادہ بہ تنقید تھے۔ قائد ن لیگ نے وطن واپسی کے بعد بھی ان کے گلے شکوے دور نہ کیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے نواز شریف کی پاکستان موجودگی میں علی الاعلان ن لیگ چھوڑ کر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی پارٹی بنا لی۔ ان کے دست راست اور سابق وزیراعلیٰ کے پی سردار مہتاب عباسی، ان کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر، سینئر رہنما آصف کرمانی نے بھی ن لیگ سے پکی کُٹّی کر لی۔

    اب نواز شریف لندن اور امریکا چلے گئے ہیں تو مخالفین نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور پی ٹی آئی کے منچلوں نے ایک سال سے رُکے احتجاج کا سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ نواز شریف امریکا سے واپسی پر یورپی ممالک بھی جائیں گے جب کہ جلد ہی ان کی صاحبزادی اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی لندن میں ان سے آن ملیں گے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی کا گھیراؤ کرنے کی بھی اطلاعات ہیں، جو یقینی طور پر ایک غلط اور قابل مذمت طرز عمل ہے۔ اس اقدام کے بعد پاکستان میں بھی ان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے حملہ آوروں کا شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ قاضی فائزعیسیٰ اور ہائی کمشنر کی گاڑی پر حملے پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ فوٹیجز کے ذریعے شناخت کرکے پاکستان میں بھی ایف آئی آردرج کرائی جائےگی۔ ہائی کمیشن نے برطانوی حکومت کو حملے کی شکایت کر دی ہے اور حملہ کرنے والے 9 افراد کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی جائے گی۔

    اطلاعات ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنی مادر علمی کی تقریب میں شرکت کے بعد وطن واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کا کہنا ہے کہ نواز شریف بھی چند ہفتوں میں وطن واپس آ جائیں گے لیکن پاکستان کی سیاست میں دھند اتنی چھائی رہتی ہے کہ بعض اوقات کہے پر بھی اس وقت تک یقین نہیں آتا جب تک وہ حقیقت میں ہو نہ جائے۔ پاکستان میں آج کل ڈیل کا شور اٹھ رہا ہے۔ حکومت اور اس کے حامی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی دو بہنوں کی ضمانتوں پر رہائی کو ڈیل قرار دے رہے ہیں جب کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں ڈیل والے لندن جاتے ہیں اور نواز شریف پہلے بھی چار ہفتوں کے لیے لندن گئے تھے چار سال لگا کر واپس آئے تھے جب کہ اب پھر لندن چلے گئے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، چند ہفتوں بعد کھل کر سامنے آ ہی جائے گی۔

    (یہ تحریر بلاگر/ مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)

  • شکر گزاری اور خوشی میں فرق

    شکر گزاری اور خوشی میں فرق

    خوشی کیا ہے؟

    اس موضوع پر ہزاروں برس سے گفتگو ہو رہی ہے اور ہر دور میں اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کتنے ہی لکھنے والے خوشی کے موضوع پر کئی کئی صفحات کے مضامین لکھنے اور کئی گھنٹے بات کرنے کے باوجود یہ بتانے میں ناکام ہوجاتے ہیں کہ خوشی کیا ہے۔

    وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ خوش کیسے رہا جائے لیکن خوشی کی وضاحت نہیں کرتے۔ میں نے خوشی کے متعلق سیکڑوں کتابیں اور مضامین پڑھنے، بے شمار ویڈیوز دیکھنے اور درجنوں ماہرین سے بات کرنے کے بعد خوشی کی اتنی جامع تعریف جان لی ہے کہ میری زندگی، میرے سوچنے کا انداز بدل گیا ہے۔ ایک چھوٹا سا جملہ میرے ذہن میں اس طرح گردش کرتا ہے کہ روح تک سرشار ہوجاتی ہے۔

    میں چاہوں گا کہ یہ جملہ آپ کی سماعتوں میں بھی رچ بس جائے۔ اس کی گونج ہر وقت سنائی دیتی رہے۔ پوری کتاب پڑھنے اور ہر مشق کے دوران صرف یہ ایک جملہ آپ کا ذہن ذرخیز رکھے گا۔ وہ جملہ کیا ہے:

    Happiness is celebrating the blessings you have.

    موجودہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کا نام خوشی ہے۔

    خوشی اور شکر گزاری میں واضح فرق ہے۔ شکر گزاری اس بات کا ادراک ہے کہ مجھے جو بھی نعمت ملی ہے اس پر میرا حق نہیں ہے بلکہ عطا ہے۔ جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ not feeling entitled یعنی جو کچھ ملا ہے وہ میرا حق نہیں تھا۔ جب کہ نعمتوں کا ادراک ہونے کے بعد ان سے لطف اندوز ہونے کا نام "خوشی” ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے سامنے گرما گرم لذیز کھانا پیش کیا جائے، آپ شکر ادا کریں، لیکن بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے ہوئے یا بے دھیانی میں کھا لیں۔ آپ نعمت ہونے کے باوجود خوش نہیں ہوسکیں گے۔

    یہی کچھ ہم اولاد کے معاملے میں کرتے ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ اولاد اللہ کا انمول تحفہ ہے لیکن ان کی معصوم باتوں، بے ضرر غلطیوں اور حیران کن سوالوں سے لطف اندوز ہونے کے بجائے یا تو نظر انداز کرتے ہیں یا غصہ۔ کسی حد تک ناشکری اور بہت حد تک ناخوشی۔ اور یہ عمل زندگی کے ہر معاملے میں ظاہر ہوتا ہے۔

    قوتِ سماعت اللہ نے دی ہے۔ اس بات کا ادراک شکر گزاری ہے لیکن جو کچھ سن رہے ہیں، رُک کر ان سے لطف اندوز ہونا خوشی ہے۔ اسی طرح زبان اللہ کی نعمت ہے، یہ ماننا شکر گزاری ہے لیکن کچھ بھی کھاتے یا پیتے ہوئے مکمل طور پر اس سے لطف اندوز ہونا خوشی ہے۔ آنکھیں اللہ کی حیرت انگیز نعمت ہیں، یہ احساس شکر گزاری ہے، لیکن ان آنکھوں سے بچوں کو بھاگتے، باتیں کرتے، کھیلتے دیکھ کر لطف اندوز ہونا یا دیگر نعمتوں کو سراہنا خوشی ہے۔

    شکر گزاری ایک درخت کی مانند ہے اور خوشی اس کا پھل ہے۔ ہم درخت کے سائے میں اطمینان محسوس کرتے ہیں، جس کے لیے شعوری احساس ضروری نہیں۔ لیکن اس درخت کے پھل سے لطف اندوز ہوئے بغیر آپ اس درخت سے مکمل یا حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

    خوشی، غم اور سوچ

    ہر انسان کی زندگی میں اچھے تجربات بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ تجربات اور واقعات اچھے یا برے نہیں ہوتے، نیوٹرل ہوتے ہیں۔ ہماری سوچ کا انداز انہیں مثبت یا منفی بناتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے کسی عزیز کا انتقال ہوجائے تو ہم غم زدہ ہوجاتے ہیں، کئی کئی دن سوگ میں رہتے ہیں، جب بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں، دل بھر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کے مرنے پر رونا ایک فطری بات ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں تو غلط سمجھتے ہیں۔ دنیا میں ایسے متعدد قبائل ہیں جہاں انتقال پر رونے کے بجائے جشن منایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر راجستھان میں ستیا نامی خانہ بدوشوں کے ایک خاندان میں جب کوئی مرتا ہے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں، نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں، مٹھائیاں اور شراب تقسیم کی جاتی ہے، یہی نہیں خوب ناچ گانا بھی ہوتا ہے۔

    دنیا میں کچھ قبائل اس لیے بھی خوش ہوتے ہیں کہ مرنے والے کا ایک درجہ بلند ہوگیا اور وہ اپنے خالق سے مل گیا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ جو ہوتا ہے، اس میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے لہٰذا االلہ کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے کوئی بھی واقعہ یاد کر کے افسردہ اور پریشان ہونے کے بجائے، خوش ہوتے ہیں۔

    یہ معاملہ صرف موت تک ہی محدود نہیں، جہاں کچھ لوگ کاروبار میں نقصان ہونے کی صورت میں خودکشی کرلیتے ہیں تو کچھ ایک مرتبہ پھر جوش و جذبے کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور پہلے سے سے زیادہ کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں۔

    اسی طرح کچھ لوگ ایک یا چند ناکامیوں کے وجہ سے خود پر ناکامی کا لیبل لگا لیتے ہیں اور تمام عمر انہیں اپنی پہچان سمجھ کر ناکام زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سے لوگ ہر ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر نئے جوش و جذبے کے ساتھ کامیابی کی امید لے کر خوشی خوشی سفر شروع کر دیتے ہیں۔

    اس تمام گفتگوکا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر افسردہ، پریشان، پُرامید یا خوش ہونے کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم کس طرح سوچنے کے عادی ہیں۔ اللہ پر بھروسہ رکھنے اور اپنے تمام مسائل میں درست طرزِ فکر رکھنے والے ہی مشکلات پر باآسانی قابو پاسکتے ہیں۔ ان لوگوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ماضی کے واقعات یاد کر کے اپنا حال اور مستقبل خراب نہیں کرتے۔

    آج آپ ماضی کے وہ واقعات یاد کریں جو ہمیشہ ہی آپ کے لیے اذیت کا باعث بنتے رہے ہیں۔ ہر ہر واقعے کے لیے اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ اگر یہ واقعات رونما نہ ہوتے تو آپ نہ تو انسانی کمزوریوں کو سمجھ پاتے اور نہ ہی اللہ سے تعلق مضبوط کر پاتے۔

    (محمد زبیر شکریہ، پرورش اور تربیت کے مصنف، لائف کوچ اور نامور یوٹیوبر ہیں)

  • پاکستان کرکٹ کے تنِ مردہ میں نئی جان، کیا سرجری کامیاب ہوگئی؟

    پاکستان کرکٹ کے تنِ مردہ میں نئی جان، کیا سرجری کامیاب ہوگئی؟

    بہت خوب ٹیم پاکستان، کمال کر دکھایا کچھ تبدیلیوں نے، ٹیم کی فضا ایسی بدلی کہ شکستوں کے بادل چھٹ گئے اور ٹیم فتح کی ٹریک پر گامزن ہوئی۔

    انگلینڈ کو تیسرے ٹیسٹ میں صرف ڈھائی دن میں ہی پسپا کر کے لگ بھگ ساڑھے تین سال بعد اپنی سر زمین پر ٹیسٹ سیریز جیتی اور یہ جیت اس لیے بھی بہت اہمیت رکھتی ہے کہ جیت کنگ اور شاہین کے بغیر ملی۔

    پاکستان ٹیم نے اس جیت کے ساتھ ہی ایک بار خود کو ایسی ٹیم ثابت کردیا جس کے بارے میں کوئی پیشگوئی کرنا محال ہے کیونکہ ایک سال سے پے در پے شکستوں جس میں بنگلہ دیش جیسی ٹیم سے اپنے ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش، پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے والی امریکا سے انہونی شکست کے بعد ورلڈ کپ سے شرمناک اخراج، افغانستان اور آئرلینڈ سے شکستوں کے بعد پوری ٹیم ناقدین کی تنقیدوں کے تیروں کی زد میں تھی اور انگلینڈ کے ہاتھ پہلا ٹیسٹ میچ پہلی اننگ میں 500 رنز بنانے کے باوجود اننگ کی شکست سے ہارنے کے بعد سب کو ایک بار پھر پاکستان ٹیم کے وائٹ واش شکست کا یقین ہو چلا تھا۔

    اس شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیئرمین محسن نقوی جنہوں نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد ٹیم کی بڑی سرجری کا اعلان کیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس سرجری کو ایک دو چہرے ہٹانے کے بعد پس پشت ڈال دیا تھا لیکن انگلینڈ کے خلاف اس بدترین شکست نے شاید پی سی بی کی بند آنکھیں بھی کھول ڈالیں اور چیئرمین نے اس سرجری کا عملی طور پر آغاز کر دیا، جس کا تین ماہ پہلے اعلان کیا گیا تھا۔

    آئی سی یو میں موجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے نیم مردہ وجود کے آپریشن کے لیے سب سے پہلے چیئرمین پی سی بی نے سرجنز کی نئی ٹیم لائے۔ ان میں عاقب جاوید، اظہر علی اور علیم ڈار جیسے کرکٹ کو سمجھنے والے دماغ تھے جنہوں نے قومی کرکٹ ٹیم کو آپریشن تھیٹر میں لے جا کر اس کا آپریشن شروع کیا اور سب سے پہلے آؤٹ آف فارم ہونے کے باوجود برسوں سے ٹیم کے لیے ناگزیر بنے کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کرنے کا جرات مندانہ فیصلہ کیا، اور پھر ان کی جگہ برسوں سے ڈومیسٹک میں اپنی کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے دروازہ کھٹکٹانے والے کامران غلام پر ٹیم کا دروازہ وا کیا۔ اس کے ساتھ ہی کئی سال سے نظر انداز ساجد خان اور نعمان علی کو ٹیم میں واپس لایا گیا اور پھر ایسا جادو چلا کہ انگلینڈ کی تمام بتیاں ہی گل ہوگئیں۔

    جس ٹیم میں حالیہ کچھ عرصے سے اسپننگ ٹیلنٹ کے حوالے سے شکوک وشبہات ملکی اور عالمی سطح پر اٹھائے جا رہے تھے۔ اسپنرز نے ہی موقع ملنے پر دو ٹیسٹ میچ کی چاروں اننگز میں انگلینڈ کے تمام 40 بلے بازوں کو ڈھیر کر کے سب کے شکوک وشبہات کو دفن کر دیا۔ ساجد اور نعمان کی جوڑی کی گھومتی گیندوں سے انگلش بلے باز ایسا چکرائے کہ 39 تو ان کے بچھائے جال میں پھنسے جب کہ ایک وکٹ زاہد محمود کو ملی۔ اس کارکردگی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ’’زرا نم تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی‘‘۔

    چیئرمین پی سی بی کے جرات مندانہ فیصلے کے بعد ان کی بھرپور سپورٹ سے نئی سلیکشن کمیٹی نے وہ بولڈ فیصلے کیے جن کا ماضی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ پاکستان کرکٹ منیجمنٹ نے ڈیڈ پچز کے بجائے اسپن ٹریک بنا کر اسپنرز کے ذریعے حریف ٹیم کو قابو کیا۔ لیکن اب ٹیم کا اگلا مشن آسٹریلیا اور پھر زمبابوے ہے جہاں بالخصوص آسٹریلیا میں پاکستان ٹیم کو فاسٹ ٹریک ملے گا اور قومی ٹیم کو بھی اب خود کو نئے روپ میں ڈھالنا ہوگا۔

    پی سی بی نے گزشتہ روز محمد رضوان کو ون ڈے اور ٹی 20 کا کپتان مقرر اور سلمان علی آغا کو ان کا نائب مقرر کر کے، کئی روز سے جاری اس میوزیکل چیئر گیم کا خاتمہ کیا۔ اس اہم تقرری سے کچھ دیر قبل پی سی بی نے 28 کھلاڑیوں پر مشتمل 15، 15 رکنی چار مختلف اسکواڈ دورہ آسٹریلیا اور زمبابوے کے لیے اعلان کیے۔ یہ بھی پی سی بی کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کہ زمبابوے جیسی قدرے کمزور ٹیم میں بابر اعظم، شاہین شاہ، نسیم شاہ کو آرام دے کر ڈومیسٹک پرفامرز کو موقع دے کر انہیں انٹرنیشنل کرکٹ میں اتارا جا رہا ہے۔ اعلان کردہ اسکواڈ میں کسی بھی کھلاڑی کو چاروں اسکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا۔ محمد رضوان تین اسکواڈ میں شامل، جب کہ زمبابوے کے خلاف انہیں ڈراپ کر کے نائب کپتان بنائے گئے سلمان علی آغا کو کپتانی کا موقع فراہم کرنا مستقبل کے لیے بہترین حکمت عملی ہے۔

    پاکستان نے آئندہ سال آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے، اور اس میگا ایونٹ کا وہ میزبان ہونے کے ساتھ ٹورنامنٹ کا دفاعی چیمپئن بھی ہے۔ گرین شرٹس کے پاس نئے کپتان کے ساتھ چیمپئنز ٹرافی کی تیاری کے لیے کم از کم گیارہ ون ڈے میچز ہیں۔ ان میں آسٹریلیا، زمبابوے اور جنوبی افریقہ کے خلاف تین، تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کی سیریز اور اگلے سال چیمپئنز ٹرافی سے قبل اپنی سر زمین پر نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے ہمراہ سہ ملکی ون ڈے سیریز ہوگی۔ ان گیارہ میچز میں ہی محمد رضوان کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے وننگ کمبی نیشن بنانا ہوگا۔ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو بھی کوشش کرنی ہوگی، کہ ٹیم کی یکجہتی کے لیے ،کوششیں کی جائیں، نہ کہ کوئی ایسا شوشا چھوڑا جائے جیسا کہ ان کے پیشرو ذکا اشرف نے دوران ون ڈے ورلڈ کپ اور نجم سیٹھی نے گزشتہ سال جیت کی راہ پر گامزن گرین شرٹس میں کپتان کی تبدیلی کا شوشا چھوڑ کر ٹیم میں کپتانی کے خواہشمندوں کی قطار لگا کر اس کے اتحاد کو مشکل میں ڈال دیا تھا، جس کا نتیجہ پھر ہم نے کئی ناقابل یقین شکستوں کی صورت میں دیکھ بھی لیا۔

    انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی جیت سے ثابت ہوگیا کہ کھلاڑی نہیں بلکہ ہمیشہ کھیل اہم ہوتا ہے۔ جب کھلاڑی کھیل سے ہی کھلواڑ کریں تو پھر ایسے ہی نتائج ملتے ہیں جیسا کہ ہمیں گزشتہ ایک، ڈیڑھ سال سے مل رہے تھے۔ کرکٹ ٹیم گیم ہے کبھی کبھار تن تنہا پرفارمنس میچ جتواتی ہے لیکن اکثر فتوحات ٹیم کی مشترکہ کوششوں سے ملتی ہیں۔ ٹیم کے 11 کھلاڑیوں کو یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ وہ خوش نصیب کہ 25 کروڑ میں سے ان 11 کا قومی ٹیم کی نمائندگی کے لیے انتخاب کیا گیا اور اب وہ 25 کروڑ عوام کی امیدوں کا محور ومرکز ہیں۔

    پی سی بی کو بھی اپنے صرف موجودہ اقدام پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح کامران غلام کئی سال تک پرفارمنس کے باوجود ٹیم سے باہر رہا۔ ایسے کئی کامران غلام، ساجد خان اور نعمان ڈومیسٹک میں پرفارمنس دکھا رے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی چاہیے کہ وہ شارٹ ٹرم پالیسی کے بجائے طویل مدتی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرے اور ایک پوزیشن کے لیے ایک سے زائد کھلاڑی بیک اپ میں ہوں تاکہ جہاں اس سے ٹیم میں مسابقت کی دوڑ ہوگی اور اچھے نتائج ملیں گے، وہیں کھلاڑیوں کو اپنی شہرت کے بل بوتے پر من مانی کرنے اور شہرت کے نشے میں آپے سے باہر ہونے کا موقع نہیں ملے گا۔ جب کہ ٹیم منیجمنٹ بھی آؤٹ آف فارم نامور کھلاڑی کا بیک اپ نہ ہونے پر اسے مسلسل کھلا کر ہار کا مارجن بڑھانے اور کھلاڑی کا اعتماد متزلزل کرنے کے بجائے نئے چہروں کو موقع دینے کی پوزیشن میں ہوگی، جیسا کہ آسٹریلیا کی ٹیم کرتی ہے اور اس کے دنیائے کرکٹ کے بے تاج بادشاہ ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کا ڈومیسٹک کرکٹ کلچر بہت مضبوط اور کھلاڑیوں کو میچور ہونے کے بعد قومی ٹیم کی نمائندگی دی جاتی ہے۔ پی سی بی چیئرمین محسن نقوی یہ کہہ کر بابر اعظم سے بھرپور سپورٹ کا اظہار کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ بابر اعظم بے شک اس وقت اپنے کیریئر کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں، لیکن اس بات سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا کہ وہ موجودہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سب سے با صلاحیت کرکٹر ہیں۔ فارم آنی جانی لیکن کلاس مستقل ہوتی ہے۔ تو چند بُری پرفارمنس پر بابر اعظم کا پوسٹ مارٹم کر کے ناقدین ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ہمت افزائی کریں۔ اب تو قیادت کا بوجھ بھی انہوں نے خود سر سے اتار دیا ہے۔ امید ہے کہ اب وہ پوری طرح اپنی بیٹنگ پر فوکس کریں گے اور ٹیم کی جیت میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں گے۔

    یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کبھی بھی کوئی ٹیم نہ مستقل جیتتی ہے اور نہ ہی ہارتی ہے۔ لیکن ہار میں بھی وقار ہو اور کھلاڑی یک جان ہو کر فتح کے لیے لڑتے دکھائی دیں، تو پھر قوم ہارنے کے باوجود بھی ٹیم کو سپورٹ کرتی ہے۔ تاہم اگر بغیر لڑے ہی ہتھیار ڈال دیے جائیں تو یہ بزدلانہ طریقہ قوم کے لیے ناقابل قبول ہوتا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان ٹیم جو جیت کے ٹریک پر آئی ہے، پھر نہ پھسلے گی اور جیت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے مختلف بحرانوں میں گھرے عوام کے چہروں پر خوشیوں کے پھول کھلاتی رہے گی۔

  • کوپ 29 کیا ہے اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟

    کوپ 29 کیا ہے اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟

    مجتبیٰ بیگ

    کہنے کو تو یہ ایک کانفرنس ہوتی ہے مگر اِس میں ہونے والی سرگرمیاں کسی میلے سے کم نہیں ہوتیں۔ ہرسال ساری دنیا سے حکومتی، سول سوسائٹی، درس و تدریس، تحقیق، سائنسی علوم، صحافت اور تجارت سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی ایک ملک کے بڑے شہر میں جمع ہوکر موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی کوششوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

    دس دن تک روزانہ صبح سے شام تک کانفرنس، اس دوران چھوٹے چھوٹے کئی ذیلی اجلاس، کھانا پینا اور ساتھ ساتھ گپ شپ، گفت و شنید اور کانفرنس گاہ سے باہر پرجوش موسمیاتی کارکنوں کے موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ داروں کے خلاف مظاہرے اور دھرنے جاری رہتے ہیں۔ چند ہزار لوگ اس میں حکومتی خرچے پر شامل ہوتے ہیں جبکہ کثیر تعداد اپنے نجی اداروں کی مالی معاونت سے اور ایک بڑی تعداد اپنے خرچے پر بھی اس میں شامل ہوتی ہے۔

    کانفرنس ہال کے سبز پنڈال میں سول سوسائٹی کے نمائندے، صحافی، دنیا کی قدیم تہذیبوں کے پیروکار، ماہرین تعلیم، موسمیاتی و ماحولیاتی کارکنان اور مبصرین جبکہ نیلے پنڈال میں ہر قسم اور ہر سطح کے بابو لوگ یعنی حکومتی نمائندے، سرکاری اہلکار، سرکاری تیکنیکی ماہرین و نمائندے اور وہ سب لوگ جو کسی نہ کسی ملک کے حکومتی وفد کے ساتھ ہوں وہ سب بڑی شان کے ساتھ وہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔

    دونوں پنڈالوں میں بیٹھے لوگوں کا مقصد ایک یعنی موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام جبکہ راستہ الگ الگ ہوتا ہے۔ سبز پنڈال والے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے لیے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کے حامی ہوتے ہیں جبکہ نیلے پنڈال میں بیٹھے لوگوں کی کوشش کسی کو ناراض کیے بغیر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے اقدامات کرنا ہوتی ہے جو قدرے مشکل اور وقت طلب ہے۔

    گزشتہ تیس سال میں کل اٹھائیس کانفرنسیں ہوچکی ہیں جبکہ انتیسویں کانفرنس اگلے ماہ کے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں آذر بائیجان کے شہر باکو میں ہونے جارہی ہے۔ اسی کی دہائی کے آخر میں سائنسدانوں کی جانب موسمیاتی تبدیلی کے رسمی انکشاف کے بعد 1992 میں اقوام متحدہ کے تحت سارے ملکوں نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا ایک تاریخی معاہدہ کیا تھا جسے یو این ایف سی سی (یونائٹیڈ نیشنز فریم ورک کنونشن فار کلائمیٹ چینج) کہتے ہیں جس پر عملدرآمد کے سیکریٹریٹ نے ہر سال موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے جائزے کے لیے کانفرنس آف پارٹیز کرانے کا اعلان کیا تھا جو اب کوپ کے نام سے جانی جاتی ہے۔

    سب سے پہلی کوپ 1995 میں جرمنی کے شہر برلن میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے مستقل ہر سال یہ کانفرنس ہورہی ہے جس میں 2019 اور 2020 میں کویڈ کی وجہ سے تعطل آیا تھا۔ سب سے پہلی کوپ میں بمشکل بارہ سو لوگ شریک ہوئے تھے جبکہ گزشتہ سال ہونے والی کوپ 28 میں 80 ہزار سے زائد افراد کی شرکت ریکارڈ تھی اور قیاس ہے کہ اس سال یہ تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔

    1997 میں جاپان کے شہر کیوٹو میں ہونے والی کوپ 3 اس لیے اہم ہے کیونکہ اس میں ترقی یافتہ ممالک کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے لیے کیوٹو پروٹوکول نام سے معاہدہ کیا گیا تھا جبکہ 2009 میں کوپن ہیگن میں ہونے والی کوپ 15 میں ترقی یافتہ ملکوں کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے 2020 تک 100 ارب ڈالر کا موسمیاتی مالیات کا فنڈ قائم کریں جس کا ہدف بڑی مشکلوں سے 2022 تک پورا ہو پایا تھا، اس میں بھی ترسیلات سے زیادہ مالی وعدوں اور عزائم کی اکثریت ہے۔

    سال 2015 میں کوپ 21 میں پیرس معاہدہ ہوا تھا جو موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس میں عزائم اور وعدوں کے بجائے باقاعدہ اہداف رکھے گئے ہیں جن کے مطابق دنیا کے تمام ممالک کو فوسل فیول سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کے ذریعے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں کا عالمی اخراج نصف تک لانا ہے اور 2050 تک مکمل طور پر قابل تجدید توانائی کی طرف منتقل ہو کر عالمی اخراج صفر تک پہنچا دینا ہے تاکہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو ترجیحاً 1.5 ڈگری تک روکا جاسکے۔

    دو سال قبل مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی کوپ 27 میں معمول کی موسمیاتی امداد کے فنڈ کے علاوہ موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے لیے ہنگامی امداد کا فنڈ بھی قائم کرنے کا اعلان ہوا تھا تاکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں موسمیاتی آفات سے ہونے والی تباہیوں کا فوری طور پر ازالہ کیا جاسکے۔ اس فنڈ کو لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے قیام میں پاکستان اور بنگلہ دیش نے کلید ی کردار اد کیا تھا۔ تاہم یہ فنڈ مکمل طور پر اب تک فعال نہیں ہوسکا ہے حالانکہ دبئی میں ہونے والی کوپ 28 میں بھی اس پر کافی بات ہوئی تھی۔

    اگلے ماہ باکو میں ہونے والی کوپ 29 میں 100 ارب ڈالر کے موسمیاتی فنانس کے فنڈ کو سالانہ بنیادوں پر فعال کرنے، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی کے سرٹیفکیٹس جنہیں کاربن کریڈٹ کہتے ہیں اس کی تجارت کو پوری دنیا میں پھیلانے، لاس اینڈ ڈمیج فنڈ کو فوری طور پر فعال کرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی سے موافقت کے اقدامات کی ہر طرح کی سپورٹ کرنے جیسے اہم نکات پر پیش رفت ہونے کا بھی امکان ہے۔

    کوپ 29 پاکستان کے لیے بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح یکساں اہم ہے کیونکہ پاکستان بھی اُن ممالک میں شامل ہے جن کا گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ تو ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اس کا پانچواں نمبر ہے۔ 2022 کے سیلابوں میں سندھ میں ہونیوالے جانی و مالی نقصانات 3 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں جن کا ایک معمولی حصہ بھی پاکستان کو نہیں ملا ہے کیونکہ لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اب تک چند ملین ڈالر سے زائد رقم نہیں آسکی ہے۔ اسی طرح موسمیاتی فنانس کی مد میں بھی اب تک موسمیاتی موافقت کے آٹھ پروجیکٹ پاکستان کو ملے ہیں جن کی مالیت پچیس کروڑ ڈالر ہے اور جو سب کی سب گرانٹ نہیں بلکہ بڑا حصہ آسان شرائط کے قرضوں پر مشتمل ہے۔

    کاربن کریڈٹ کے ذریعے ایسے کاموں کی تلافی کی جاتی ہے جن سے گرین ہاؤس گیسیں لازمی نکلتی ہیں اس لیے تلافی کے طور پر کاربن جذب کرنے کے ایسے کاموں کی مالی سپورٹ کی جاتی ہے جو کہیں اور کیے جارہے ہوں اس طرح کاربن جذ ب کرنے والے کو اپنے کام کا معاوضہ مل جاتا ہے اور کریڈٹ خریدنے والے کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی تلافی ہوجاتی ہے۔ کاربن کریڈٹ کی خرید وفروخت کی مارکیٹ بھی اب تک پوری دنیا میں پھیل نہیں سکی ہے جس کا کوپ 29 میں واضح لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تاکہ کاربن کے اخراج کی تلافی کرنے والے اس بڑے ذریعے کو فروغ دیا جاسکے۔ پاکستان میں اگر سنجیدگی سے کاربن مارکیٹ قائم اور اسے پیشہ وارانہ انداز سے چلایا جائے تو اس میں 2 ارب ڈالر سالانہ تک کمانے کی گنجائش ہے۔

    موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے دو بڑے ذریعے تخفیف اور موافقت ہیں۔ تخفیف کا مطلب ہے فوسل فیول کا استعمال ختم یا کم کرکے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی جبکہ موافقت کا مطلب ہے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مقابلے کے لیے اپنی صلاحیت بڑھانا اور اپنے انفرااسٹرکچر، صنعت، زراعت اور آمدو رفت کے وسائل کو پائیداراور مستحکم بنانا تاکہ موسمیاتی آفات سے کم سے کم نقصان ہو۔ اب تک دنیا میں موسمیاتی تخفیف کے لیے تو معقول اقدامات کیے جارہے ہیں تاہم موافقت کے نتائج جانچنے کا کوئی پیمانہ نہ ہونے کے باعث موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کم کی جارہی ہے۔ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے بھی کوپ 29 میں عملی اقدامات تجویز کیے جانے کی امید ہے۔ پاکستان کو سندھ اور بلوچستان میں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی سے موافقت قائم کرنے کے لیے 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

    الغرض پاکستان سمیت موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ تمام ممالک کی نظریں کوپ 29 پر لگی ہوئی ہیں تاکہ اگر وہ اپنے ایجنڈا میں شامل نصف نکات پر بھی کسی واضح لائحہ عمل کا اعلان کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کے پاس موسمیاتی فنانس اور لاس اینڈ ڈمیج فنڈ میں اپنا پورا حصہ ڈالنے سے بچنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا اور اسی طرح کاربن مارکیٹ کے پھیلاؤ اور موسمیاتی موافقت کے منصوبوں کی سپورٹ کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو قابل پیمائش اہداف دینے ہوں گے تاکہ مل جل کر دنیا کے شمالی اور جنوبی حصے سیارہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچا سکیں۔

    (ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیاں مجتبیٰ بیگ کا موضوع ہیں جس پر وہ مضامین لکھتے رہتے ہیں، ماحولیاتی انسائیکلوپیڈیا کے عنوان سے ان کی ایک تصنیف اور بطور مترجم دو کتابیں شایع ہوچکی ہیں)

  • سودی نظام کا خاتمہ، کیا ریاست تیار ہے؟

    سودی نظام کا خاتمہ، کیا ریاست تیار ہے؟

    ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ جو بحث جاری ہے وہ سپریم کورٹ میں اصلاحات سے متعلق کی جانے والی قانون سازی کے گرد گھوم رہی ہے، مگر اس میں سود کے خاتمے کی تاریخ مقرر کر کے بھی ایک سنگِ میل طے کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028ء سے ملک میں سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ گو کہ اس حوالے سے تند و تیز مباحث اور تبصرے نہیں ہو رہے مگر اس قانون سازی پر ملا جلا ردعمل دیا جارہا ہے۔

    اسلامی مالیاتی اور معاشی نظام پر سند مانے جانے والے مولانا تقی عثمانی نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو سوشل میڈیا پر نہ صرف مبارک باد دی بلکہ اسلام آباد میں مولانا کے گھر جاکر انہیں گلے لگایا اور جبہ و دستار پیش کی۔ مگر بعض حلقوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ سود کو دراصل مزید چار سال کے لئے ہمارے اوپر مسلط کر دیا ہے۔ سود کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال کے بعد جماعت اسلامی کی پٹیشن پر اپریل 2022 میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملک سے سود کے خاتمے کا سال 2027 مقرر کیا تھا۔ پہلے حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر بعد ازاں عوامی اور سیاسی ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نومبر 2022 میں اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت سود کے خاتمے کے شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جس نے گزشتہ تقریبا دو سال میں بہت سا کام کر لیا ہے۔ اور اب اس کمیٹی کو پہلے سے زیادہ فعال طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ مگر کیا حکومت مقررہ وقت تک سودی نظام کو ختم کر پائے؟

    وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کے حوالے سے ملک کے ایک نجی بینک کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایک بینک اپنے کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے لین دین کو سود سے پاک کر کے اسلامی مالیات پر منتقل کرسکتا ہے تو ملکی نظام کو بھی اس پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ نجی بینک کے شریعہ کمپلائنس اینڈ ایڈوائزی فیصل شیخ کہتے ہیں کہ روایتی اسلامی مالیاتی ادارہ بننے کا فیصلہ سال 2015 میں کیا تھا۔ اس وقت جب یہ فیصلہ کیا گیا تو ہمارے بینک جتنے بڑے حجم کے کسی بینک نے مکمل طور پر اپنے کاروبار کو شرعی مالیاتی ماڈل کے مطابق نہیں اپنایا تھا۔ اور دنیا میں کوئی ایسی مثال بھی موجود نہ تھی کہ جس پر عمل کرتے ہوئے بینک کو شرعی مالیاتی نظام پر منتقل کیا جائے۔ بینک کو جو بھی کام کرنا تھا وہ کام اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس مقصد کے لئے بینک انتظامیہ نے نیا سودی قرضہ دینے اور اکاؤنٹ کھولنے پر ایک تاریخ کے بعد پابندی عائد کردی اور پھر بینک نے تمام کھاتے داروں کو تحریری طور پر مطلع کیا کہ ان کے بینک اکاؤنٹس کو روایتی سے اسلامی کھاتوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ جاری قرضوں کو اسلامی پر منتقل کرنا تھا۔ پہلے بینک نے تمام شرعی مالیاتی مصنوعات کی تیاری کی اور پھر اپنے کاروباری اور انفرادی قرض لینے والوں کو بالمشافہ اور کئی ملاقاتوں کے دوران روایتی سے اسلامی بینکاری پر منتقل ہونے پر راضی کیا۔ اس میں تقریباً 7 سال لگ گئے اور اسٹیٹ بینک نے جائزہ لینے، آڈٹ کرنے کے بعد مکمل اسلامی مالیاتی بینک کا لائسنس جاری کیا۔

    اگر ایک بینک کو سودی سے اسلامی نظام پر منتقل کرنے میں 7 سال کا عرصہ لگا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان آئندہ چار سال میں سودی معیشت کا خاتمہ کرسکے۔ اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ حکومت کو کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔

    سود کا خاتمہ اور غیر ملکی قرضے:
    اسلامی مالیاتی نظام کے حوالے سے دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے۔ اسلامی ملکوں سمیت متعدد غیر اسلامی ریاستوں نے بھی اسلامی مالیات کے حوالے سے قوانین کا اجرا کیا ہے اور قرض کی عالمی منڈی میں شرعی اصولوں کے مطابق سرمایہ اکھٹا کرنا کوئی اچھوتا عمل نہیں ہے۔ عالمی مالیات مارکیٹس اسلامی فنانس کے حوالے سے معلومات رکھتی ہیں۔ اور کئی ہزار ارب ڈالر مالیت کے قرضے اور سرمایہ کاری اسلامی فنانسنگ کے تحت کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی فنانس کو مختلف بڑے تحقیقاتی ادارے سودی نظام کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

    عالمی مالیاتی ادارے جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تقریبا ہر ادارے میں اسلامی فنانسنگ کی سہولت دستیاب ہے۔ اور مکمل اانفرااسٹرکچر موجود ہے۔ اس لئے اگر پاکستان ان اداروں سے کہتا ہے کہ اسے غیر سودی مالیاتی سہولت درکار ہے تو یہ ادارے ایسی سہولت فراہم کرنے کے قابل ہیں۔

    سود پر قرض نہ لینا:
    حکومت کو اسلامی مالیاتی نظام کو اپنانے کے لئے سب سے پہلے ایک تاریخ مقرر کرنا ہوگی جس کے بعد حکومت کوئی بھی نیا قرضہ سودی شرائط پر نہیں لے گی۔ یہ وہ پہلا قدم ہے جو معیشت کو غیر سودی بنانے کے لئے اٹھایا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد بھی حکومت کو اپنے جاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ مگر سودی قرض بتدریج ختم ہوتا جائے گا اور اس کی جگہ شرعی سہولت لی جائے۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو اپنے ان اثاثوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جس پر وہ یہ نئی سہولت حاصل کرے گی۔ اس وقت بھی حکومت جو بھی سہولت اسلامی بینکوں سے یا اسٹاک ایکسچینج سے حاصل کررہی ہے وہ صکوک کی مد میں حاصل کررہی ہے۔ جس میں حکومتی اثاثے کو قرض دینے والوں کے نام پر منتقل کر کے اس پر کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

    قانون سازی:
    سب سے پہلے سود سے متعلق قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اور یہ کوئی سادہ عمل نہیں بلکہ اس کے لئے 26 ویں آئینی ترمیم سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ اسٹیٹ بینک اور ملک سے سود کے خاتمے کے لئے وفاقی سطح پر حکومت کو کم از کم 24 قوانین سمیت ہزاروں قواعد کو تبدیل اور از سرِ نو مرتب کرنا ہوگا۔ اسی طرح صوبائی، اور ضلعی سطح پر بھی قوانین اور قواعد کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا قانونی عمل ہو گا جس کے لئے بہت زیادہ محنت، قابلیت و اہلیت اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ مجلسِ شوریٰ کو اس حوالے سے بہت کام سرانجام دینا ہوگا۔

    شریعہ بورڈ کا قیام:
    حکومت کو سود کے خاتمے اور معیشت کو اسلامی مالیاتی نظام پر منتقل کرنے اور اس پر عمل کرانے کے لئے ایک مستقل شرعی بورڈ بنانا ہوگا۔ اسے وزارتِ خزانہ اور وزارتِ قانون سمیت تقریباً ہر اس وزارت میں قائم کرنا ہوگا جس میں کاروبار اور لین دین ہورہا ہو۔ جیسا کہ بینکوں میں شرعی بورڈ لین دین کے ہر معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے ہر معاہدے کا جائزہ یہ بورڈ لے گا اور اس کے عین اسلامی ہونے یا نہ ہونے پر اپنی رائے دے گا جس کے بعد یہ معاہدے رو بہ عمل ہوں گے۔

    حکومت کو وفاقی صوبائی اور ضلعی سطح کے علاوہ اس سے منسلک اداروں میں ایسے افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ اسلامی مالیات کے حوالے سے معلومات رکھتے ہوں۔ اور جو مالیاتی لین دین کی نگرانی کرسکیں۔

    ریاست کے مالیاتی اداروں کی اسلامی نظام پر منتقلی:
    حکومت کے لئے ایک بڑا کام اپنے مالیاتی اداروں کو روایتی سے اسلامی پر منتقل کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو قومی بچت، نیشنل بینک، فرسٹ ویمن بینک، زرعی ترقیاتی بینک کے علاوہ بڑے پیمانے پر انشورنس کمپنیوں کو روایتی نظام سے اسلامی انشورنس یعنی تکافل پر منتقل کرنا ہوگا۔ جس میں نیشنل انشورنس کارپوریشن، پاکستان ری ایشورینس کمپنی، پوسٹل لائف انشورنس، اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی سطح پر بینک آف پنجاب، بینک آف خیبر اور سندھ بینک کی بھی اسلامی مالیاتی نظام پر منتقلی ہوگی۔ اس ایک بہت بڑے اور طویل مدتی کام کا آغاز کرنے اور اسے انجام تک پہنچانے کے لیے بھی بہت سا علمی اور عملی کام کرنا ہوگا۔

    حکومتی خزانے کا حساب کتاب:
    سودی نظام میں حسابات لکھنے اور ریکارڈ رکھنے کا طریقہ کار اسلامی مالیاتی نظام سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو بحرین میں قائم اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹ آرگنائزیشن برائے اسلامک فنانشنل اسٹیٹیوشنز (ایوفی) Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI) کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ جو کہ وفاقی حکومت اور اس کی وزارتوں کے اکاؤنٹنگ کے معیار کو روایتی لین دین سے اسلامی پر متنقل کریں گے۔ اسی طرح حکومت کے تمام ذیلی ادارے، اتھارٹیز سمیت تقریبا ہر دفتر میں اسلامی مالیات کے ماہرین کی موجودگی ضروری ہوگی جو وہاں‌ خدمات فراہم کریں گے۔

    اس جائزے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اس بڑے، پیچیدہ، اور طویل مدتی کام کو انجام دینے لئے حکومت کو اسی تندہی اور تیزی سے کام کرنا ہوگا جس طرح حکومت نے 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ اگر اس میں تساہل سے کام لیا گیا تو سودی نظام کا مکمل خاتمہ اس کے لئے مقرر کی گئی تاریخ تک ممکن نہیں ہوگا۔

  • جوکر: دو دیوانوں کی وحشت اور دیوانگی کا امتزاج

    جوکر: دو دیوانوں کی وحشت اور دیوانگی کا امتزاج

    یہ فلم 2019ء میں ریلیز ہونے والی کام یاب ترین فلم "جوکر” (joker) کا ایک ایسا سیکوئل ہے، جس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خراب اور زبردستی بنایا جانے والا سیکوئل کیا ہوسکتا ہے۔ کہاں ایک طرف اس فلم سیریز کی پہلی فلم نے ناظرین اور ناقدین دونوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اورکہاں اب ریلیز ہونے والی یہ فلم، جو شاید اپنی لاگت بھی پوری کر لے تو بڑی بات ہے، کیونکہ اس کا بجٹ بھی دو سو ملین ڈالرز ہے اورکئی فن کاروں کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

    ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس اور بڑی کاسٹ کے ساتھ ساتھ، بڑے بجٹ اور گزشتہ فلم کی مثالی شہرت کے باوجود یہ فلم اگر ناکام ہوئی ہے، تو اس کی واحد وجہ ایک غیر دل چسپ کہانی ہے۔ شاید فلم جوکر (joker) کے سیکوئل کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن فلم ساز ادارے اور ہدایت کار نے اس کی کام یابی کو کیش کرانے کی کوشش کی اور کمائی ہوئی عزّت اور پیسے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کیسے ہوا، اس کے لیے آپ کو یہ تجزیہ اور نقد پڑھنا چاہیے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس فلم کا مرکزی کردار جوکر کا ہے، جو بنیادی طور پر "ڈی سی کامکس” کے کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کردار پر بھی بہت ساری فلمیں بن چکی ہیں، لیکن 2019ء میں ریلیز ہونے والی فلم "جوکر” کو جو کام یابی ملی، وہ دیدنی تھی۔ اُس سال کے آسکر ایوارڈ میں تہلکہ مچانے والی فلم کی کہانی اور کرداروں کی تخلیق بھی باکمال تھی۔ حیرت انگیز طور پر ان دونوں فلموں کے اسکرپٹ رائٹر اسکاٹ سلور ہیں، دونوں اسکرپٹس میں انہیں، ان دونوں فلموں کے ہدایت کار "ٹوڈ فلپس کی معاونت بھی حاصل رہی۔ پہلی فلم ان دونوں کے تخلیقی ہنر کا درجۂ عروج ہے، جب کہ دوسری فلم دونوں کے ہنر کے زوال کی داستان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے زبردستی کہانی کو طول دینے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ دوسری فلم میں بھی ان دونوں نے پہلی فلم کی کہانی ہی سنائی تو پہلی فلم کی کہانی سننے کے لیے دوسری فلم دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ناظرین کو، بہتر ہے وہ پہلی فلم ہی دیکھ لیں، یہی وجہ ہے کہ دوسری فلم کو جو Joker: Folie à Deux کے نام سے بنائی گئی ناظرین نے مسترد کر دیا۔

    اس دوسری فلم کی کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ وہ شخص جو جوکر بن کر اپنی روزی روٹی کماتا تھا اور وہ ایک پریشان کن شخصیت کا مالک تھا، کئی محرومیاں اس کی زندگی کا حصہ تھیں، پھر سماج کا برا سلوک جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے جرائم کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ پہلی فلم کا اختتام یوں ہوا تھا کہ اس نے پانچ قتل کیے تھے اور معاشرے میں بدامنی پھیلانے کا باعث بھی بنا تھا اور پولیس اس کو گرفتارکر لیتی ہے۔ دوسری فلم کی ابتدا وہیں سے ہوتی ہے، وہ جیل میں اپنی سزا کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اس دوسری فلم میں اس کے مزاج کی ایک لڑکی اس کو ملتی ہے، دونوں میں محبت پروان چڑھتی ہے اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ سب کیسے آگے بڑھتا ہے، فلم دیکھ کر تو کچھ سمجھ نہیں آتا، لیکن بہرحال ایسا ہوا۔

    فلم سازی/ ہدایت کاری

    معروف امریکی فلم ساز ادارے "وارنر بروس پکچرز” نے ان دونوں فلموں کو پروڈیوس کیا۔اس فلم کے سیکوئل کو بنانے کا حتمی فیصلہ، فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار جیکوئن فینکس کی خواہش پر کیا گیا، ورنہ شاید فلم سازوں اور ہدایت کار ٹوڈ فلپس کو اس فلم کے سیکوئل میں اتنی دل چسپی نہ تھی، مگر اداکار کے اصرار نے انہیں اس پر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اور آخر کار یہ فلم اور اس کی پروڈکشن جو پہلی فلم سے دوگنی لاگت سے بھی زیادہ ہے، اس نے پہلی فلم کے دیوقامت تصور کو زمین بوس کر دیا۔ اپنے کیریئر کے اگلے برسوں میں ان تینوں کو چاہیے کہ ڈی سی کامکس کے کرداروں پر فلمیں بنانے کے ماہر اور بائیوپیک فلموں کو کام یابی سے تخلیق کرنے والے معروف فلم ساز کرسٹوفر نولان سے ٹیوشن لیں، کیونکہ وہ ان کو اس مخصوص کردار (ڈی کامکس کا کردار جوکر) کے ساتھ تجربات کرنے سے منع بھی کر چکے تھے۔ اور ان کی بات درست ثابت ہوئی کیوں کہ یہ تجربات بھیانک ثابت ہوئے۔

    اداکاری و موسیقی

    اس فلم میں سب سے نمایاں طور پر جس چیز سے سہارا لیا گیا، وہ بڑے بڑے اداکاروں کی شمولیت ہے۔ خاص طور پر لیڈی گاگا جنہوں نے اس فلم میں کام کرنے کا 12 ملین ڈالرز معاوضہ لیا جب کہ جیکوئن فینکس نے 40 ملین ڈالرز وصول کیے۔ یہ فلم چونکہ میوزیکل تھی، اس لیے شاید لیڈی گاگا کا انتخاب کیا گیا، لیکن نہ تو وہ اپنی اداکاری سے ناظرین کو لبھا سکیں اور ان کی گائیکی کے تجربے نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔ گزشتہ فلم کی موسیقی اس فلم سے کئی درجے بہتر تھی، مگر اس فلم میں موسیقی کا معیار بھی پست رہا اور لیڈی گاگا اور جیکوئن فینکس نے اس میں گائیکی کا مظاہرہ کر کے اس معیار کو تقریباً دفن ہی کر دیا۔ اس فلم میں بار بار لیڈی گاگا کے گیتوں سے فلم میں شدید اکتاہٹ پیدا ہوگئی۔

    حرفِ آخر

    اس فلم میں کئی طرح کے تضادات ہیں، جیسا کہ فلم ساز ادارے، ہدایت کار کے آپس کے جھگڑے، ایک اداکار کے کہنے پر ہدایت کار کا اس کے پیچھے چل پڑنا، ایک سنجیدہ نفسیاتی تھرلر فلم کو میوزیکل میں بدلنے کی ناکام کوشش، سب سے بڑھ کر پہلی فلم میں جوکر ہیرو تھا جب کہ اس دوسری فلم میں اس کو مظلوم بنا دیا گیا، اور اسے ناظرین قبول نہیں کرسکے۔کہانی میں کوئی کلائمکس نہ تھا، فلم انتہائی ناقص پلاٹ پر مبنی تھی، جس میں جوکر ایک قابلِ رحم آدمی کی موت مارا جاتا ہے۔ اس کے تناظر میں رومانوی تڑکا لگانے کی کوشش مزید گلے پڑی اور فلم بالکل ہی فارغ ہو گئی۔ قارئین، آپ اگر دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل کیا ہوتا ہے، تو یہ فلم ضرور دیکھیے۔

  • جیت بڑے ناموں سے نہیں بڑی پرفارمنس سے ملتی ہے!

    جیت بڑے ناموں سے نہیں بڑی پرفارمنس سے ملتی ہے!

    پاکستانی کرکٹ ٹیم میں کھلاڑیوں کی تبدیلی کے بعد کھیل کے میدان میں نتیجہ بھی تبدیل ہوگیا اور انگلینڈ کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں ٹیم نے کام یابی حاصل کر لی۔ پاکستانی ٹیم کو یہ کام یابی بابر اعظم، شاہین آفریدی، نسیم شاہ کے بغیر ملی ہے۔

    کہتے ہیں کہ کسی بھی شعبے کام یاب ہونے اور ترقی حاصل کرنے کے لیے رسک لینا ہی پڑتا ہے۔ اگر آپ ہارنے کے ڈر سے ٹیم میں تبدیلیاں نہیں کریں گے تو ہارتے ہی چلے جائیں گے۔ یہی کچھ گزشتہ ساڑھے تین سال سے پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تبھی تو ہوم گراؤنڈ پر بھی کامیابی نصیب نہیں ہورہی تھی۔ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر، کسی بھی قسم کے دباؤ اور خوف سے آزاد ہو کر اگر پہلے ہی فیصلے کرلیے جاتے تو کرکٹ کا یہ حال نہیں ہوتا جو آج ہے۔

    خیر، اب سلیکٹرز کے فیصلے کا مثبت نتیجہ سامنے آگیا ہے، ہوم گراؤنڈر پر شکست کا تسلسل ٹوٹ گیا ہے، انگلینڈ سیریز میں عاقب جاوید اور اظہر علی نے سلیکٹرز کی ذمہ داری سنبھالی اور آتے ہی مشکل فیصلہ کیا اور اسٹار کھلاڑیوں کو باہر کردیا۔ بابر اعظم، نسیم شاہ، شاہین آفریدی سب اسکواڈ سے باہر ہوئے تو اپنی باری کے منتظر کامران غلام کو بابر کی جگہ چانس ملا اور انہوں نے اس کا پورا فائدہ اٹھایا اور ڈیبیو پر سنچری جڑ دی۔

    بیٹنگ کے بجائے اسپن ٹریک بنانے کا خطرہ موہ لیا۔ 14 ماہ بعد نعمان علی کو کھلایا، وہ گیارہ وکٹیں لے گئے۔ ادھر ساجد خان نے بھی سلیکٹرز کو مایوس نہیں کیا اور خوب جم کر کھیلے۔ پاکستان نے ثابت کیا کہ جیت بڑے ناموں سے نہیں بڑی پرفارمنس سے ملتی ہے۔
    اب سلیکٹرز کو چاہیے کہ پنڈی ٹیسٹ میں بھی وننگ کمبی نیشن برقرار رکھیں اور قومی کھلاڑی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر سیریز 2-1 سے اپنے نام کریں۔

    بابر اعظم، شاہین آفریدی، نسیم شاہ کو یہ کہنا چاہیے کہ وہ جا کر ڈومیسٹک میں پرفارم کریں جس طرح دیگر کھلاڑیوں نے ڈومیسٹک میں پرفارم کرکے کم بیک کیا ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آسٹریلیا کا دورہ ہے تو وہاں بابر اعظم کی ضرورت پڑے گی، جنوبی افریقہ کی پچز پر نسیم شاہ اور شاہین آفریدی کی ضرورت ہو گی۔

    جنوبی افریقہ کی باؤنسی وکٹوں پر کوئی نوجوان فاسٹ بولر بھی اچھی بولنگ کرسکتا ہے۔ اس لیے نسیم اور شاہین کے نام کی مالا نہ جپیں‌۔ جن پچز پر بابر بیٹنگ کرسکتا ہے وہاں دوسرے بیٹر بھی اسکور کرسکتے ہیں لہٰذا ٹیم اب ٹریک پر آرہی ہے تو کھلاڑیوں کو پرفارمنس کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا جائے۔ قومی ٹیم کو اس طرح تیار کیا جائے کہ وہ قوم کی امنگوں پر پورا اتریں۔ تعلقات، سفارش اور دوستی یاری کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ٹیم میں‌ جگہ دینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس بنیاد پر ٹیم کی سلیکشن کا نتیجہ تو ہمارے سامنے ہی ہے۔ ٹی 20 ورلڈ کپ میں بدترین شکست، ہوم گراؤنڈر پر بنگلا دیش سے پہلی بار وائٹ واش کی ہزیمت ہمیں اٹھانا پڑی۔ سلیکشن کا معیار یہ ہونا چاہیے کہ جو کھلاڑی پرفارم نہ کرے اسے ٹیم سے ڈراپ کرکے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے بھیجا جائے نہ کہ خراب یا ناقص کارکردگی کے باوجود اگلی 18 اننگز بھی کھیلنے کا موقع دیا جائے۔

    امید ہے کہ یہی ٹیم انگلینڈ کے خلاف تیسرے اور آخری ٹیسٹ میں اپنی شاندار کارکردگی کے سلسلے کو برقرار کھتے ہوئے سیریز اپنے نام کرے گی۔

  • رائے: نقصانات اور تباہی کی مالیات کا معاملہ کوپ 29 میں اہمیت کا حامل ہوگا

    رائے: نقصانات اور تباہی کی مالیات کا معاملہ کوپ 29 میں اہمیت کا حامل ہوگا

    علی توقیر شیخ

    مصر میں 2022 میں ہونے والی اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ 27) میں نقصان اور تباہی فنڈ کا اعلان پاکستان کے لئے ایک اہم سفارتی کامیابی تھی، اور گزشتہ سال کوپ 28 میں متحدہ عرب امارات میں اس کو باضابطہ شکل دی گئی تھی۔ نقصان اور تباہی موسمیاتی تبدیلی کے ایسے ناقابل تلافی نقصانات کی نشاندہی کرتا ہے جو ماحولیاتی نظام کی موافقت کی صلاحیت سے باہر ہیں۔ یہ پچھلے دو سالوں میں نقصان اور تباہی کی مالیات کا مرکزی نقطہ بن چکا ہے، حالانکہ اسے ابھی مکمل طور پر فعال نہیں کیا جا سکا ہے۔

    افسوس کی بات یہ ہے کہ مختص کئے گئے فنڈز انتہائی ناکافی ہیں، جو تقریباً 700 ملین امریکی ڈالر پر مشتمل ہیں، جبکہ 2030 تک تخمینہ شدہ ضرورت 290 سے 580 بلین امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔

    ترقی پذیر ممالک جیسے کہ پاکستان کو نقصان اور تباہی کے مالیاتی ڈھانچے کو سمجھنا چاہیے تاکہ اس کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، کیونکہ یہ موضوع آنے والے کوپ اجلاس میں مرکزی حیثیت اختیار کرے گا

    نقصان اور تباہی کے معاملے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان جیسے ممالک کو نقصان اور تباہی فنڈ (ایل ڈی ایف) سے پہلے دو بنیادی میکینزمز (کسی سلسلے کے طریقِ عمل) کو سمجھنا ہوگا: وارسا انٹرنیشنل میکینزم (ڈبلیو آئی ایم) اور سینٹیاگو نیٹ ورک۔ یہ تینوں میکینزمز مل کر ترقی پذیر ممالک کو نقصان اور تباہی کا جواب دینے کے قابل بنانے کے لئے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں۔ ڈبلیو آئی ایم اور سینٹیاگو نیٹ ورک مالیاتی ادارے نہیں ہیں۔ وارسا انٹرنیشنل میکینزم ایک رابطہ پلیٹ فارم ہے جو نقصان اور تباہی سے نمٹنے کے طریقوں پر تکنیکی مدد اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دوسری جانب سینٹیاگو نیٹ ورک نقصان اور تباہی سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھانے کا ایک اقدام ہے۔ آذربائیجان کے شہر باکو میں کوپ 29میں ہونے والی بات چیت میں اِن کا باہمی تعلق اور متعلقہ سپرد کردہ اِختیارات مرکزی اہمیت کے حامل ہوں گے۔

    وارسا انٹرنیشنل میکینزم، جو 2013 میں قائم کیا گیا تھا، ایک جامع فریم ورک پیش کرتا ہے جس سے سینٹیاگو نیٹ ورک اور نقصان اور تباہی فنڈ دونوں تیار کئے گئے تھے۔ یہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے میں مددکے لئے مختلف شعبوں پر کام کر رہا ہے اور یہ اِدارہ مندرجہ ذیل پانچ اہم نقصان اور تباہی فنڈ کے شعبوں میں تکنیکی مطالعات کا پیش رو ہے: (1) موسم میں سست روی سے ہونے والی تبدیلی سے رونما ہونے والے واقعات ( 2) غیر اقتصادی نقصانات (3) جامع رسک مینجمنٹ (4) نقل مکانی اور (5) اِقدامات اور اِمداد۔ اِن مطالعات نے کئی طریقہ کار اور رہنما اصولوں کی ترقی میں معاونت کی ہے، جن سے مختلف ماحولیاتی نظاموں میں کمیونٹیز کی قیادت میں چلنے والے منصوبوں کی جانچ اور آزمائش کو ممکن بنایا جا سکا ہے۔

    اِن مطالعات نے شریک ممالک کی تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے، کیونکہ وہ نقصان اور تباہی (موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات) کو موافقت (موسمیاتی تبدیلی کے لئے تیاری اور نمٹنے کے لئے اقدامات) سے الگ کرنے میں مدد کرتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی کا جدید سائنسی مطالعہ نقصان اور تباہی کو روکنے، کم سے کم کرنے اور حل کرنے سے متعلق پالیسیز بنانے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ اس تکنیکی مواد نے نقصان اور تباہی کو موافقت سے الگ کرنے کے عمل کو بھی متحرک کیا ہے تاکہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن کے تحت ایک علیحدہ مالیاتی سلسلہ باآسانی قائم کیا جا سکے۔

    افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی کمزور تکنیکی صلاحیت اور وزارتِ اُمورِ خارجہ (جو وارسا انٹرنیشنل میکینزم ایگزیکٹو کمیٹی میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے) اور وزارت موسمیاتی تبدیلی (ایم او سی سی) جو کہ سانتیاگو نیٹ ورک میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہے کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان نے اس کی موثر شمولیت میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ نتیجتاً، ہماری موسمیاتی اور دیگر شعبوں کی پالیسیاں، بشمول نیشنل ڈٹرمنڈ کنٹریبیوشن NDCs اور قومی موافقتی منصوبہ، اِن پانچ اہم شعبوں کی نقصان اور تباہی کی کارروائی سے متاثر نہیں ہو رہی ہیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے منصوبے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے اتنے موثر نہ ہوں۔ پاکستان کی تکنیکی گروپوں سے عدم موجودگی قومی استعداد کار بڑھانے کا ایک موقع پہلے ہی ضائع کر رہی ہے۔

    2019 میں وارسا انٹرنیشنل میکینزم کے تحت قائم کیا گیا سینٹیاگو نیٹ ورک ایک اہم قدم ہے جس کا مقصد خاص طور پر پاکستان جیسے کمزور ممالک کو تکنیکی معاونت فراہم کرنا ہے۔ اس کے دیگر مقاصد میں تکنیکی معاونت کی سہولت فراہم کرنا، ممالک کو متعلقہ تنظیموں، نیٹ ورکس اور ماہرین سے جوڑنا ہے۔ فی الحال، یہ اِدارہ 2022 میں عملی طور پر فعال ہونے کے بعد سے اب تک اپنی سرگرمیوں کو مسلسل بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

    اپنی تحدیدات کے باوجود، جن میں محدود عملہ اور مالی وسائل شامل ہیں، یہ نیٹ ورک کمزور ممالک کی مدد کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے تاکہ وہ منفی موسمیاتی اثرات کا سامنا کرنے کے لئے ہدفی تکنیکی معاونت، تبادلہ علم، اور صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے کوششیں کر سکیں۔ سینٹیاگو نیٹ ورک کی کوششیں اِن ممالک کی مدد میں زیادہ اہمیت اختیار کریں گی تاکہ وہ نقصان اور تباہی فنڈ سے مؤثر طریقے سے مالی معاونت تک رسائی حاصل کرنے اور اِسے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکیں۔ یہ سینٹیاگو نیٹ ورک کے کردار کو محض تکنیکی معاونت سے آگے بڑھائے گا۔ مستقبل میں وارسا انٹرنیشنل میکینزم کا عملی کردار کوپ 24 کے بعد سے ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے، جس میں سی او پی / سی ایم اے اختیارات پر بحث اب بھی جاری ہے۔ معاہدے کی اِس کمی نے وارسا انٹرنیشنل میکینزم کے طویل مدتی وژن پر بامعنی پیش رفت کو روک دیا ہے۔

    گزشتہ سال دبئی میں ہونے والی موسمیاتی کانفرنس کوپ28 اِن موسمیاتی مالیاتی میکینزمز کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ سینٹیاگو نیٹ ورک کے لئے، مباحثہ میں اس معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ اسے کس طرح نقصان اور تباہی فنڈ کے ساتھ مزید مربوط کیا جائے تاکہ تکنیکی امداد سے لے کر مالی مدد تک مسلسل تعاون کو یقینی بنایا جاسکے۔ پاکستان نے کامیابی کے ساتھ نقصان اور تباہی فنڈ اور سینٹیاگو نیٹ ورک دونوں کے اختیاری ڈھانچے میں ایک نشست حاصل کی جس کی نمائندگی نقصان اور تباہی فنڈ میں اِس مصنف نے اور سینٹیاگو نیٹ ورک میں وزارتِ موسمیات کے سکریٹری نے کی۔ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی میں افسران کی بار بار تعیناتی اور تبادلوں نے سینٹیاگو نیٹ ورک میں پاکستان کی شرکت کو مزید متاثر کیا ہے۔

    جبکہ وارسا انٹرنیشنل میکینزم جامع فریم ورک کے طور پر کام کرتا ہے، سینٹیاگو نیٹ ورک تکنیکی مدد پر توجہ مرکوز کرتا ہے، اور نقصان اور تباہی فنڈ ٹھوس موسمیاتی اِقدامات کو نافذ کرنے کے لئے درکار مضبوط مالیاتی بنیاد کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ سہ فریقی ڈھانچہ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ اِن تینوں میکینزمز کی موجودگی قومی اور بین الاقوامی سطح پر باہمی طور پر متّفق حکمت عملیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس سے ممالک کو اپنی آب و ہوا کی حکمت عملیوں کو ہم آہنگ کرنے اور تینوں شعبوں میں مدد حاصل کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ میکینزمز پختہ ہوتے ہیں، وہ اُن ممالک کے درمیان فرق کو ختم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور جنہیں وسائل کی اَشد ضرورت ہوتی ہے۔

    باکو میں کوپ 29 میں، اِن تین میکینزمز کے مابین باہمی تعامل دوبارہ اُبھرنے کی توقع ہے۔ اہم مباحثوں میں ممکنہ طور پر مدد تک رسائی کے لئے واضح معیارات قائم کرنا اور فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنانا شامل ہوگا۔ امکان ہے کہ تینوں میکینزمز کے درمیان زیادہ سے زیادہ انضمام پر زور دیا جائے گا، جس میں دیگر دو میکینزمز کو اسٹریٹجک رہنمائی فراہم کرنے کے لئے وارسا انٹرنیشنل میکینزم کی صلاحیت کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی، تاکہ ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے اور اِن کے اجتماعی اثرات کو بڑھایا جا سکے۔ اس میں نقصان اور تباہی فنڈ کی مالی امداد کے ساتھ ساتھ سینٹیاگو نیٹ ورک کے ذریعے تکنیکی مدد تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ممالک کے لئے لائحہ عمل کو ہموار کرنا شامل ہوسکتا ہے۔ غیر اقتصادی نقصان اور تباہی (این ای ایل ڈی) جیسے شعبوں میں مداخلت کے اثرات کی پیمائش کے لئے ٹھوس طریقہ کار تیار کرنا، اِن میکینزمز کی مدد سے اِن کی قدر کا مظاہرہ کرنے اور جاری تعاون کو برقرار رکھنے کے لئے بہت اہم ہوگا۔

    مزید برآں، سینٹیاگو نیٹ ورک میں شامل شراکت داروں کے نیٹ ورک کو وسعت دینا اور نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے مالی وسائل کی نوعیت کو متنوع بنانا، اِن دونوں نکات کو ایجنڈے میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ اس بات پر زیادہ توجہ دی جاسکتی ہے کہ یہ میکینزمز کس طرح غیر اقتصادی نقصان اور تباہی (این ای ایل ڈی)، جیسے ثقافت اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو بہتر طریقے سے حل کرسکتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو یہ یقینی بنانا ہے کہ نقصان اور تباہی مالیات (ایل ڈی فنانس) کو نیو کلیکٹو کوانٹیفائیڈ گولز (این سی کیو جیز) میں ضم کیا جائے۔ تاہم، ترقی یافتہ ممالک نے اب تک این سی کیو جی فریم ورک کے اندر کسی مخصوص نقصان اور تباہی مالیاتی اہداف کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔

    جیسے جیسے آب و ہوا کے اثرات میں شدت آتی جائے گی، عالمی برادری کی اِن میکینزمز کو چلانے اور ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت مشکل ہو جائےگی۔ باکو میں کوپ 29 میں ہونے والے مباحثے نقصان اور تباہی فنڈ کے لئے موسمیاتی مالیات کے مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے محاذ پر کام کرنے والوں کو بروقت، موثر اور جامع مدد فراہم کرنے میں اِن میکینزمز کی تاثیر عالمی یکجہتی کے لئے ایک لٹمس ٹیسٹ (حقیقت کی جانچ) کا کام کرے گی۔

    (یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جسے اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    کرکٹ ٹیم کو شرمناک شکستیں اور پی سی بی میں بڑے آپریشن کا آغاز

    آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چیپمپئن شپ 25-2023 میں ٹاپ رینکنگ سے آغاز، ون ڈے اور ٹی 20 کی ٹاپ ٹیم، کرکٹرز رینکنگ میں بلے باز اور بولرز سر فہرست، ہر بڑا آئی سی سی ایوارڈ پاکستانی کرکٹرز کی جھولی میں۔ یہ ہے ماضی قریب کی پاکستان کرکٹ ٹیم لیکن آج سب کہہ رہے ہیں کہ ’’دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو‘‘

    پاکستان کرکٹ میں سب کچھ اچھا جا رہا تھا اور یہ سب اچھا تھا 2023 کے ابتدائی 6 ماہ تک۔ اس کے بعد بازی ایسی پلٹی کہ ہر کوئی انگشت بدنداں رہ گیا کہ یہ ہوا کیا ہے پاکستان ٹیم صرف بڑی ٹیموں سے نہیں بلکہ اپنے سے کہیں کمزور ٹیموں سے اپنے ہی میدانوں میں آسانی سے زیر ہو رہی ہے اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ موسم کی طرح بدلتی پی سی بی انتظامیہ نے اپنی خواہشات کی پیروی میں کپتانی کی خواہش کو ایسے بڑھایا کہ بیک وقت ٹیم میں چار پانچ کپتانی کے امیدوار پیدا کر دیے۔ تو جس طرح ایک نیام میں کئی تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک ٹیم میں کئی کپتان کیسے یکجا رہ سکتے ہیں۔

    ایشیا کپ، ون ڈے ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ میں عبرت ناک شکستیں تو پرانی ہوچکیں اور اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ بنگلہ دیش جیسی کمزور ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں گزشتہ ماہ اپنی سر زمین پر وائٹ واش شکست کے زخم ابھی مندمل بھی نہ ہوئے تھے، کہ انگلینڈ نے اپنے ریگولر اور ورلڈ کلاس آل راؤنڈر کپتان بین اسٹوکس کے بغیر میدان میں اتر کر پاکستان کرکٹ ٹیم کی وہ درگت بنائی اور ایسی تاریخی فتح سمیٹی کہ جس کے زخم مندمل ہونے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔

    ملتان ٹیسٹ ریکارڈ ساز رہا لیکن صرف انگلینڈ کے لیے، پاکستان کے نام تو صرف بدنامی ہی آئی اور وہ اس میچ کے ساتھ ہی ایک ایسی پاتال میں جا گری، جس میں ٹیسٹ کرکٹ کی لگ بھگ ڈیڑھ صدی قدیم تاریخ میں کوئی چھوٹی سے چھوٹی ٹیم بھی نہ گری ہوگی۔ پاکستان وہ واحد ٹیم بنی جس نے پہلی اننگ میں 550 سے زائد رنز اسکور کیے اور پھر اننگ کی شکست کھا بیٹھی۔ اس میچ سے پاکستان ٹیم نے یہ بات پھر ثابت کر دی کہ وہ جیتا ہوا میچ ہارنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہے۔ جس طرح گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میں مہمان ٹیم کی 26 رنز پر 6 وکٹیں گرانے کے بعد کسی نے تصور نہ کیا ہوگا کہ اس میچ میں بدترین ناکامی ملے گی لیکن ایسا ہوگیا۔ اسی طرح اب بھی کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ٹیم بن جائے گی لیکن ٹیم نے اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ سے یہ ناممکن بھی کر دکھایا۔ جس بیٹنگ پچ پر پاکستانی بولر 800 سے زائد رنز کھانے کے باوجود پوری انگلینڈ ٹیم کو ڈھیر نہ کر سکے اسی پچ پر ہمارے بیٹنگ کے شیر 220 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔

    پاکستان جو بنگلہ دیش سے حالیہ سیریز میں شکست کے بعد پہلے ہی اپنے ملک میں ابتدائی 10 ٹیسٹ اقوام میں شامل تمام ٹیموں سے سیریز ہارنے والا دوسرا ملک بن چکا تھا اور ٹیسٹ کرکٹ کی بدترین ٹیم بن گیا۔ انگلینڈ کے خلاف اس شرمناک شکست کے بعد پی سی بی نے جو فوری اقدامات کیے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ جس بڑی سرجری کا اعلان کئی ماہ قبل کیا گیا تھا اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ قومی ٹیم کی سلیکشن کمیٹی تبدیل کرنے کے ساتھ بابر اعظم، شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے بڑے نام اگلے دو ٹیسٹ سے باہر کر دیے گئے ہیں۔ شان مسعود کا ستارا بھی گردش میں ہے اور وہ مسلسل 6 تیسٹ میچ جیت کر ناکام ترین کپتان کا اعزاز پہلے ہی پاچکے ہیں۔ اگر اگلے دو ٹیسٹ میچ میں حسب منشا نتائج نہ ملے تو یقینی طور پر اگلا قربانی کا بکرا وہی ہوں گے۔

    اس صورتحال میں بابر اعظم کے ساتھ شاہین شاہ اور نسیم شاہ جیسے کھلاڑیوں کو ایک ساتھ ہی ٹیم سے ڈراپ کرنے سے لگتا ہے کہ پی سی بی میں پینک بٹن دب چکا ہے اور اس صورتحال میں کیے گئے اکثر فیصلے بعض اوقات بیک باؤنس ہو کر خود اپنے ہی گلے پڑ جاتے ہیں۔ اگر ان کو باہر کرنے کے بعد بھی اگلے دو ٹیسٹ میچز میں حسب منشا نتائج نہ مل سکے تو پھر بورڈ کیا کرے گا، کیا وہ پوری ٹیم کو آرام کے نام پر ڈراپ کر کے نئی ٹیم تشکیل دے گا؟

    مذکورہ تینوں کھلاڑیوں کی فارم گو کہ کچھ عرصہ سے بہتر نہیں بابر اعظم کا بلا اگر ایک سال سے رنز نہیں اگل رہا تو دوسری جانب انجریز سے نجات کے بعد دونوں بولر بھی پرانی شان رفتار سے بولنگ نہیں کر پا رہے لیکن یہ نہ بھولیں کہ تینوں میچ ونر اور تن تنہا ٹیم کو میچ جتوانے والے کھلاڑی ہیں اور کئی بار اس کو ثابت کر چکے ہیں۔ اس لیے اگر ان کو ڈراپ کر کے سخت پیغام دینا ہے تو اس سوچ سے گریز کیا جائے اور ان بڑے کھلاڑیوں کو مکمل سپورٹ کیا جائے کیونکہ اگلے کچھ سالوں تک یہی پاکستانی ٹیم کو کئی میچ حتیٰ کہ ٹرافی تک جتوانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

    پاکستان کی حالیہ ایک سال میں اس نا قابل یقین بدترین کاکردگی پر ہمارے سابق قومی کرکٹرز اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ سمیت روایتی حریف بھارت میں بھی شائقین اور سابق وموجودہ کرکٹرز حیران ہیں۔ کچھ ٹیم پر طنز کر رہے ہیں تو اکثر ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے گرین شرٹس کی موجودہ صورتحال پر افسوس بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کو اس حال تک لانے میں کون ذمے دار ہے تو یقینی طور پر بورڈ کی غلط پالیسیوں کے ساتھ کرکٹرز بھی اس میں برابر کے ذمے دار ہیں۔

    پاکستان کرکٹرز کی نفسیات کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی کرکٹ سے کسی نہ کسی طور منسلک سابق کھلاڑیوں کی رائے جان لیجیے۔ ان میں ایک پاکستان کے سابق کوچ مکی آرتھر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ تشہیر کھلاڑیوں کو حقیقت سے دور کر رہی ہے۔ کھلاڑی خود کو زیادہ بڑا سمجھتے ہیں جب کہ میڈیا پر منفی باتیں اور ایجنڈے بھی ٹیم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

    کیون پیٹرسن جو پی ایس ایل کھیل کر پاکستانی کرکٹرز کی نفسیات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کا ناقابل یقین ٹیلنٹ موجود ہے تاہم اس کے ساتھ ہی وہ اس جانب بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں تسلسل نہیں اور وہ صحیح ٹریننگ نہیں کرتے۔ سسٹم میں خامیوں کی موجودگی تک پاکستان ٹیم ایک یونٹ کی طرح نہیں کھیل سکتی، ناقص ٹریننگ اور زیادہ جذباتی ہونے جیسے رویوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، اگر یہ کلچر تبدیل نہ کیا گیا تو پاکستان ٹیم بھی کبھی بہتر نہیں ہو سکے گی۔

    ماہرین کی اسی رائے کی روشنی میں اگر گہرائی سے جائزہ لیں تو کرکٹرز کو اس حال تک پہنچانے میں ہم شائقین کرکٹ کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا کہ خود بورڈ کی ناقص پالیسیوں یا کرکٹرز کی لاپرائیوں کو۔ کیونکہ ہم خود جلدباز ہیں اسی لیے کسی ایک ہی اننگ یا بولر کے اچھے اسپیل پر انہیں سر پر چڑھاتے اور پھر ایک بری کارکردگی پر خود ہی نیچے گرا دیتے ہیں۔ یہ شائقین اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے ماہرین ہی ہیں جو صرف ایک سنچری یا پانچ وکٹوں پر کرکٹرز کا موازنہ سر ڈان بریڈ مین، جاوید میانداد، ٹنڈولکر، لارا، عمران خان، رچرڈ ہیڈلی ودیگر ماضی کے بڑے لیجنڈ کرکٹرز سے کر دیتے ہیں۔ اس سے ایک جانب جہاں شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھونے لگتیں ہیں وہیں لیجنڈز ہم پلہ قرار دیے جانے پر نوجوان کرکٹرز کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ پھر اس چکاچوند میں وہ اپنی اصل منزل کھونے لگتے ہیں۔

    کبھی کبھی ٹیموں پر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کوئی ایک کھلاڑی نہیں بلکہ پوری ٹیم ہی آؤٹ آف فارم لگتی ہے جیسا کہ 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا وہ ہر میچ ہار رہی تھی اور اب اسی نہج پر پہنچ گئی ہے۔ قومی ٹیم میں اس وقت سوائے محمد رضوان کے کسی بیٹر کی جانب سے مسلسل رنز سامنے نہیں آ رہے۔ کچھ عرصے میں ہوم گراؤنڈ پر سب سے بدترین ریکارڈ ہمارے پیسرز کا ہے، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ انجریز سے نجات کے بعد سابقہ فارم میں واپس نہیں آ سکے، نوجوان پیسرز میں کوئی ایسا نہیں جسے میچ ونر کہہ سکیں، اسپنرز تو ہمارے ملک میں ایسے نایاب ہو گئے جیسے گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس ہوتی ہے۔ قابل بھروسہ آل راؤنڈر کا شعبہ برسوں سے خالی ہے۔

    بابر اعظم سے فارم کیا روٹھی لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے فتح ہی روٹھ گئی ہے۔ یہ الارم ہے کہ کرکٹ ٹیم فرد واحد نہیں بلکہ 11 کھلاڑیوں کا مجموعہ ہے اور جیت میں سب کو ہی اپنا حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے مستقبل کا تعین کرتے ہوئے ٹیم میں ہر کھلاڑی کا بیک اپ تیار کرنا چاہیے اور کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط کرنا چاہیے تاکہ وہ کسی بھی مشکل صورتحال میں خود کو نکال سکیں۔ کیونکہ ہماری ٹیم کی نفسیات بن گئی ہے کہ اگر ایک دو وکٹیں اوپر تلے گر جائیں تو پھر وکٹوں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور تو چل میں آیا جیسی صورتحال ہو جاتی ہے جو کھلاڑیوں کی ذہنی مضبوطی پر سوالیہ نشان ڈالتی ہے۔

    لگتا ہے کہ ٹیم کو صرف فزیکل ٹرینر اور فزیو کی ہی نہیں ایک سائیکاٹرسٹ کی بھی ضرورت ہے جو انہیں مستقبل کے چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کر سکے اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں بڑے بڑے بورڈ اپنی ٹیم کے لیے ماہرین نفسیات کا تقرر کرتی ہیں۔ اس وقت شارٹ ٹرم منصوبہ بندی اور تنقید سے بچنے کے لیے عارضی فیصلوں سے بہتر ہے کہ ٹیم کے مفاد میں ایسے فیصلے کیے جائیں، جس سے ٹیم اپنا عروج دوبارہ حاصل کر سکے ورنہ جس طرح ماضی میں کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز ٹیم اب صرف ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ کی عملی تفسیر بن گئی ہے ہمارا حشر بھی کہیں ایسا نہ ہو جائے۔

    (یہ تحریر مصنف / بلاگر کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)